اشاعتیں

جون, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

حکماء کی حکمت آمیز باتیں

٭میں چاند اور سورج کی روشنی میں پرورش پاتا رہا مگر دل کی روشنی سے بڑھ کر کسی روشنی کو میں نے سود مند نہیں پایا۔  (لقمان حکیم) دل آزاری بڑی مصیبت ہے۔ (بوعلی سینا) زندگی میں تین چیزیں سخت ہیں‘ فاقہ کشی‘ ذلت قرض‘ شدت مرض۔ (بو علی سینا) ٭میری صحت مند زندگی کا راز کم کھانے‘ کم سونے میں ہے۔ (سعید احمد) ٭طب و حکمت در حقیقت علماء کا شعبہ ہے۔ (حکیم الامت اشرف علی تھانوی) ٭حکمت ایک درخت ہے اور زبان اس کا پھل ہے۔( حکیم قاسم علی) ٭صبح و سویرے گھڑے سے پانی کا استعمال پیٹ کی بہت سی بیماریوں سے بچاتا ہے۔ (حکیم زین العابدین) ٭لیٹ کر پڑھنا اور بلاوجہ چشمے کا استعمال خود کو اندھا کرنے کا آسان طریقہ ہے۔ (حکیم ملک بشیر احمد) ٭گرمی کے بخار کا علاج ٹھنڈے پانی سے کیا کرو۔(حکیم محمد الیاس) ٭نہایت خوشحالی اور نہایت بد حالی برائی کی طرف لے جاتی ہے۔ (بو علی سینا) ٭ ظلم کی ایک قسم وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ ہرگز نہ بخشیں گے۔ دوسری قسم وہ ہے جس کی مغفرت ہوسکے گی‘ تیسری قسم وہ ہے جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ لیے بغیر نہ چھوڑیں گے۔ پہلی قسم کا ظلم شرک ہے۔ دوسری قسم کا ظلم حقوق اللہ میں کوتاہی ہے۔...

شر کے بدلے خیر

ایک بار حضرت عیسیٰ علیہ السلام چند لوگوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے بلاوجہ آپ کو گالیاں دینا شروع کردیں لیکن آپ پہلے سے بھی زیادہ دعائیں دیتے ہوئے چل دئیے۔ یہ دیکھ کر ایک حواری نے کہا اے اللہ کے نبی! آپ نے ان شریروں کے شر کے بدلے میں جس خیر اور رحمت کا مظاہرہ فرمایا ہے کہیں یہ انہیں غرور میں مبتلا نہ کردے۔یہ سن کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا’’انسان کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہی دوسرے کو دیتا ہے۔ ان کے پاس شر ہی شر تھا اور ہمارے پاس خیر ہی خیر۔ 

با پ کی دعا

ایک دفعہ ہا رون الرشید رحمتہ اللہ علیہ نے ایک شخص کو اس کے بیٹے کے سمیت جیل بھیج دیا۔ اس شخص کی عا دت تھی کہ گرم پانی سے ہی وضو کر تا تھا۔ داروغہ جیل نے قید خانہ میں آگ لے جا نے پر پابندی لگادی ، لڑکے نے رات کو قندیل میں پانی رکھ کر اپنے والد کے لئے پانی گرم کیا۔ جب صبح ہوئی تو اس شخص کو ذرا گرم پانی ملا۔اس نے بیٹے سے پو چھا ، یہ پا نی کہا ں سے آیا ہے ؟ اس کے بیٹے نے جوا ب دیا کہ اس قندیل پر گرم کیا ہے۔ جب یہ خبرداروغہ جیل کو پہنچی تو اس نے قندیل کو اونچا کر کے لٹکا دیا۔تب لڑکے نے یہ کیا کہ رات بھر پانی کے برتن کو اپنے سینے سے دل پر لگائے رکھا۔ کسی قدر اس میں گرمی آگئی اس کے با پ نے پو چھا یہ کہا ں سے آیا ؟ اس نے اصل صورت حال بیان کر دی۔ تب با پ نے ہا تھ اٹھا کر دعا مانگی کہ اے اللہ ! میرے بیٹے کو جہنم کی گرمی نہ چکھا ئیو۔

سلام کرنے کے احکام و آداب

حسب ذیل امو ر و حالات میں مشغول شخص کو سلام کرنا مکروہ ہے اور کوئی شخص ایسی حالت میں اس کو سلام کرے تو ایسے شخص پر اس کا جو اب دینا واجب نہیں۔ (1 ) حالتِ نما ز میں (2) حالتِ ذکر میں (3) حالتِ خطبہ میں(4 ) حالتِ درس میں (5)حالتِ تلا وت میں (6) حالتِ اذان میں(7 ) حالتِ اقامت میں (8)حا لتِ دعا میں (9 ) حالتِ تسبیح میں (10) مسائلِ شرعیہ کے مذاکرہ اور تحقیق کے دوران (11)فیصلے کے دوران (قاضی کو ) (12) کسی کے کھا نے پینے کے دوران (13) اجنبی عورت کو (14)برہنہ شخص کو (15)تلبیہ ( لَبَّیکَ اَللّٰھْمَّ لَبَّیکَ) پڑھنے کی حالت میں-(16) حالتِ امامت میں (17) رفائے حاجت کے دوران (18)حمام میں (19) حا لتِ وعظ میں(20)مسجد میں نما ز کے انتظار میں بیٹھنے والو ں کو نیز درج ذیل لو گو ں کو بھی سلام کرنا مکروہ ہے اور اگر یہ لو گ کسی کو سلام کریں تو ان کے سلام کا جواب دینا وا جب نہیں۔ (1)علی الاعلان فسق و فجو ر میں مبتلا شخص (2) بھیک مانگنے والا (3) غیبت کرنے والا (4) جوا کھیلنے والا (5) پاگل (6) شرابی 

یہاں وہاں

خلیفہ ہارون رشید نے اپنے ایک نوکر کو بلایا اور اسے تین درہم دے کر کہا کہ جائو ایک درہم یہاں اور وہاں، دوسرا یہاں نہ وہاں، تیسرا یہاں خرچ کرو۔ نوکر درہم لے کر چلا گیا۔ ایک مسجد تعمیر ہورہی تھی، اس نے ایک درہم دے دیا، آگے گیا تو ایک مداری تماشا دکھا رہا تھا اس نے ایک درہم دے دیا اور ایک درہم کے پھل لے آیا۔ واپس آکر اس نے خلیفہ ہارون رشید کو بتایا کہ ایک درہم اس نے مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا جو آپ کو یہاں (دنیا) اور وہاں (آخرت) میں کام آئے گا۔ دوسرا میں نے مداری کو دیا جو آپ کو یہاں نہ وہاں کام آئے گا۔ تیسرے درہم کے میں پھل لے آیا جو آپ کو یہاں کام آئیں گے۔ خلیفہ ہارون رشید نوکر کی عقلمندی سے بہت خوش ہوئے اور اسے انعام و اکرام سے نوازا‘‘۔

دل کو اللہ کے لئے فارغ رکھیں

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک طالب علم بہت دور دراز کا سفر کرکے حاضر ہوا۔ دیکھا، تو مالدار ہیں، نوابوں کے سے کارخانے ہیں، امیروں کی سی بارگاہ، نوکر چاکر، خادموں کی قطاریں۔ اس شخص نے اپنے دل میں کہا کہ یہاں اللہ کا ذکر کیا ہوتا ہوگا بہرکیف چونکہ وہ شخص دور سے آیا تھا، اس لئے قیام کیا، دونوں وقت شیخ کی خدمت میں جاتا، ایک روز شیخ کے نام کسی خادم کا خط آیا کہ فلاں جہاز جس پر لاکھ روپے کا مال تجارت کو جاتا تھا، ڈوب گیا۔ یہ سن کر شیخ نے فرمایا ’’الحمدللہ‘‘ پھر چند روز بعد اسی خادم کا خط آیا کہ وہ جہاز جو مال تجارت لے کر ڈوبا تھا نکل آیا اور مال کو بھی کچھ نقصان نہیں پہنچا۔ شیخ نے یہ سن کر فرمایا’’الحمدللہ‘‘ تب تو اس طالب سے رہا نہ گیا اور پوچھا ’’اگر ارشاد ہو تو ایک شبہ عرض کروں‘‘ فرمایا ’’کہو‘‘۔ اس نے عرض کیا کہ حضرت! یہ مال تجارت دوحال سے خالی نہیں۔ مال حلال ہے یا حرام۔ اگر حلال ہے تو اس کے تلف پر ’’الحمدللہ‘‘ کہنے کا کیا معنی؟ اور اگر حرام ہے تو اس کے بچ جانے پر شکر کیسا؟ شیخ نے مسکرا کر فرمایا ’’مال تو حلال و طیب ہے، لیکن شکر نہ ضائع ہونے پر ت...

چار باتیں

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ ایک جگہ سے گزر رہے تھے کہ ایک لڑکے پر نظر پڑی جس کے چہرے بشرے سے ذہانت ہویدا تھی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا ’’ کچھ پڑھا بھی ہے یا یوں ہی اپنا وقت اور عمر برباد کر رہے ہو؟ ‘‘اس نے جواب دیا ’’ کچھ زیادہ تو نہیں پڑھا بس چار باتیں سیکھی ہیں‘‘ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا ’’ کون سی‘‘ کہنے لگا ’’ مجھے سر کا علم ‘ کانوں کا علم‘ زبان کا علم اور دل کا علم حاصل ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا مجھے بھی تو کچھ بتائو اس بچے نے کہا :سر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکانے کیلئے ہے ‘ کان اس کا کلام سننے کیلئے ہیں‘ زبان اس کا ذکر کرنے کیلئے اور دل اس کی یاد بسانے کے لئے۔ حضرت ابن مبارک رحمتہ اللہ علیہ اس کے حکمت آمیز کلام سے اتنے متاثر ہوئے کہ اس سے نصیحت کیلئے کہا۔ اس لڑکے نے کہا آپ مجھے شکل و شباہت سے عالم معلوم ہوتے ہیں اگر علم اللہ تعالیٰ کیلئے پڑھا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی سے کبھی امید نہ رکھنا۔

اللہ کی را ہ میں خر چ کرنے کا اجر

حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک روز غلہ خریدنے کی نیت سے حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہ کی ایک چا در بازار میں بیچنے کے لیے لے گئے اور چھ درہم کے بدلے ایک خریدار کے ہا تھ فروخت کر دی۔ راہ میں ایک سائل کو سوال کر تا ہو ا دیکھا اور سب درہم سائل کو دے دئیے۔ اس با ت کا خیال نہ کیا کہ گھر کیا لے کر جا ? ں گا۔ گھر میں سب بھو کے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام اعرا بی کی صور ت میں اونٹنی لیے آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے آئے اور کہنے لگے علی تم اس اونٹنی کو خریدنا چا ہتے ہو تو خرید لو قیمت پھر دے دینا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سو درہم قیمت میں اونٹنی خرید لی۔ اتنے میں حضرت میکا ئیل علیہ السلام ملے اور کہا اگر تم اس اونٹنی کو بیچوتو ایک سو سا ٹھ درہم دیتے ہیں ، آپ رضی اللہ عنہ ہمیں دے دیجئے۔ آپ رضی اللہ عنہ بہت خوش ہو ئے اور ایک سو ساٹھ درہم لے کر اونٹنی دے دی۔ اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام ملے اور اپنے سو د رہم طلب کئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے سو درہم دیدئیے اور ساٹھ درہم لے کر اپنے گھر میں واپس آگئے۔ حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہ نے در یا فت کیا کہ یہ ساٹھ درہم کیسے مل گئے ...

حضرت ضحاک بن سفیا ن رضی اللہ عنہ کا روشن کر دار

مکہ معظمہ کی فتح کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی طرف روانہ ہوئے ، ایسے میں بنو کلا ب کے مجا ہدین کی ایک جما عت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ انہو ں نے عرض کیا : ’’ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بنوہوازن کے خلا ف لڑیں گے ، ہمیں بھی جہاد کی اجا زت دیجئے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان جفا کش بدویوں کا جذبہ دیکھ کر بہت خو ش ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا : ’’تمہاری جماعت میں کل کتنے آدمی ہیں۔‘‘ جو اب میں انہوں نے کہا : ’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نو سو ہیں۔ ‘‘ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ار شا د فرمایا : ’’ اگر تم پسند کرو تو میں تمہیں ایک ایسا شہسوار دیتا ہو ں جو تمہا ری تعداد کو ایک ہزار کے برابر کر دے اور تمہاری قیا دت بھی کرے۔‘‘آپ کا مطلب یہ تھا کہ یہ وہ شہسوار ایک سو آدمیو ں کے برا بر ہو گا۔ انہو ں نے یک زبان ہو کر کہا : ’’ ضرور کیو ں نہیں ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ایک طاقت ور جسم والے صحابی رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھنے کا اشارہ فرمایا۔ وہ فوراً آگے بڑھے ، آپ صلی الل...

مخلوق کے ساتھ حسن سلوک

حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ جو جلیل القدر بزرگ گزرے ہیں۔ ان کا واقعہ مشہور ہے کہ انتقال کے بعد کسی نے ان کو خواب میں دیکھا توان سے پوچھا کہ حضرت! اللہ تعالیٰ نے آپ کیساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ جواب دیا کہ ہمارے ساتھ بڑا عجیب معاملہ ہوا، جب ہم یہاں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ کیا عمل لے کرآئے ہو؟ میں نے سوچا کہ کیا جواب دوں اور اپنا کون سا عمل پیش کروں۔ اس لیے کہ کوئی بھی ایسا عمل نہیں کہ جس کو پیش کروں۔ لہٰذا میں نے جواب دیا، یااللہ تعالیٰ! کچھ بھی نہیں لایا، خالی ہاتھ آیا ہوں۔ آپ کے کرم سے امید کے سوا میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا! ’’ویسے تو تم نے بڑے بڑے عمل کیے، لیکن تمہارا ایک عمل ہمیں بہت پسند آیا، آج اسی عمل کی بدولت ہم تمہاری مغفرت کر رہے ہیں۔ وہ عمل یہ ہے کہ ایک رات جب تم اٹھے تو تم نے دیکھا کہ ایک بلی کا بچہ سردی کی وجہ سے ٹھٹھر رہا ہے، کانپ رہا ہے، تم نے اس پر ترس کھا کر اس کو اپنے لحاف میں جگہ دیدی اور اس کی سردی دور کر دی اور اس بلی کے بچے نے آرام کے ساتھ ساری رات گزاری اور تمہاری رضائی میں سے اس نے ہم کو پکارا تھا کہ اللہ! جیسے اس شخص...

ریشم کا پتہ

ایک دن کچھ لوگ حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آئے اور ان سے اللہ کے وجود کا ثبوت دریافت کرنے لگے تو آپ رحمۃ اللہ کچھ دیر غور و فکر فرما کر کہنے لگے ’’ریشم کا پتہ‘‘ اس کا واضح ثبوت ہے۔ لوگ ان کا یہ جواب سن کر حیرت زدہ ہو گئے اور آپس میں ہمکلام ہوئے کہ ریشم کا پتہ اللہ کے وجود کا ثبوت کیسے بن سکتا ہے تو حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا’’ ریشم کے پتے کو جب ریشم کا کیڑا کھاتا ہے تو ریشم نکالتا ہے اور جب شہد کی مکھی اسے چوستی ہے تو شہد نکالتی ہے اور جب ہرن اسے کھاتا ہے تو خوشبودار مشک نکالتا ہے۔ تو وہ کونسی ذات ہے جس نے ایک اصل میں سے متعدد چیزیں نکالیں؟ وہ اللہ رب العزت کی ذات ہے جس نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے اور وہی اس کا عظیم خالق ہے۔ اس واقعہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ دین کا علم اس درجہ حاصل کرنا چاہیے جس سے ہمارا ایمان ہمارے عقائد صحیح ہوں۔ دوسری بات یہ کہ اہل علم حضرات سے علم سیکھنے جائیں تو بحث بازی اور اعتراض کا انداز نہیں ہونا چاہیے بلکہ شدید بھوکے اور پیاسے کو جس طرح پانی یا کھانے کی ضرورت ہوتی ہے اس سے زیادہ علم کا محتاج اور طلبگار بن کرجانا چاہیے اور عمل ک...

خود بھی روشن، دوسرے بھی روشن

راجو بے انتہا خوش تھا، اس نے باہر جاکر تمام بچوں کو فخریہ بتایا کہ آج ہمیں چندا ماموں نے چاند نگر سے روٹیاں بھیجی تھیں لیکن کسی نے بھی اس کی بات پر یقین نہیں کیا بلکہ الٹا اس کا مذاق اڑانے لگے جس کی وجہ سے راجو کی کئی لڑکوں سے لڑائی بھی ہوگئی۔ ’’اماں چندا ماموں کتنے پیارے لگتے ہیں، ہیں ناں؟‘‘ راجو نے سیاہ آسمان پر چمکتے تاروں کے جھرمٹ میں روشن چودھویں کے چاند کو دلچسپی سے تکتے ہوئے کہا تو اس کی ماں نے پیار سے راجو کے سر میں انگلیاں پھیرتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔’’ماں! ماں! مجھ کو چاند بہت اچھا لگتا ہے، مجھے یہ دلا دو، میں اس سے کھیلوں گا اور باتیں بھی کروں گا۔‘‘ راجو تیری ضد بڑھتی جارہی ہے، کبھی تجھے اچھے کپڑے چاہیے، کبھی اچھا گھر، کبھی کھلونے اور آج تو مجھ سے چاند مانگ رہا ہے، پاگل ہوگیا ہے؟‘‘راجو ماں کے اس طرح ڈانٹنے پر بالکل اداس نہ ہوا، وہ جانتا تھا جب سے بابا کا انتقال ہوا ہے تب سے ماں اسی طرح اکثر اس پر غصہ کرنے لگی ہے۔ راجو کو تیسری جماعت سے سکول بھی چھوڑنا پڑا تھا، کیونکہ اب اس کے ابو دنیا میں نہیں رہے تھے، لہٰذا اب گھر میں رہ کر وہ اپنے الٹے سیدھے سوالات کرکے...

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن عبدالعزیز

عیدالفطر کا زمانہ تھا، ہر شخص اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے نئے کپڑ ے خریدنے میں مصروف تھا، جب بڑوں میں عید کے لئے یہ گہما گہمی موجود تھی تو بچے کہاں اس خوشی کے موقع سے غافل رہتے، چنانچہ تمام بچوں نے اپنے اپنے والدین سے عید کے لئے کپڑوں کی خواہش ظاہر کی اور تمام بچوں کی خواہش کی تکمیل بھی کردی گئی، اب یہ بچے اپنے نئے کپڑے اپنے دوستوں کو دکھانے لگے، بچے تو پھر بچے ہی ہوتے ہیں چاہے وہ کسی غریب کے ہوں یا امیر کے، وہ عام شخص کے بچے ہوں یا امیرالمومنین کے بچوں نے بھی اپنی خواہش والدہ صاحبہ سے کردی۔ دن بھر کے کاموں کو سمیٹ کر جب امیرالمومنین رات کو گھر تشریف لائے تو اہلیہ نے بچوں کی خواہش کا ان کے سامنے اظہار کردیا کہ بچے نئے کپڑے مانگ رہے ہیں۔ امیرالمومنین خاموش رہے، کوئی جواب نہ دیا اور آرام کی غرض سے لیٹ گئے لیکن نیند کہاں آتی۔ یہ نئی پریشانی جو سر پر آپڑی تھی، وہ سوچنے لگے کہ گھر میں خریدنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ دوسری طرف بچوں کی خواہش تھی اس کو رد کرنا ناگوار تھا، سوچتے سوچتے ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ بیت المال سے اگلے مہینے کی تنخواہ پیشگی لے لیتا ہوں جس سے بچوں کی خواہش ...

بڑوں کا بچپن اور عظیم ماں

مثالی ماں ہر انسان بلکہ ہر جاندار اس دنیا میں رہنے کے لیے اس چیز کا محتا ج ہے کہ اس کے لیے کوئی معا ون مددگار ،مر بی ، مشفق ہستی ہو جو ہر مسئلہ ، ہر مقام پر اس کو درپیش مسائل کا کوئی آسان اور سہل حل ایسے انداز میں بتلا ئے اور سکھائے کہ اس کے ذہن کی تمام الجھنیں اور پریشانیا ں فی الفور ختم ہو جائیں اور اس کے ہر کام کا انجام اپنے پروردگار کی رضاو محبت کا حصول بن جائے۔ کیونکہ انسان کا دوسرا نا م بندہ ہے ، جس کا مطلب ہی یہی ہے کہ ہر لمحہ، ہر وقت اور ہر فعل سے یہ ظاہر ہو کہ وہ رب تعالیٰ کی بندگی یعنی اس کو یا د کر تا ہے ، کسی لمحہ بھی اس سے غافل نہیں۔ حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم اور اللہ کے ولی تھے۔ یہ ابھی بچپن کی منا زل طے کر رہے تھے کہ والد محترم کے سایہ شفقت سے محروم ہو گئے۔ ان کا اصل نام محمد غزالی تھا اور چھوٹے بھائی کا نام احمد غزالی ، دونو ں کی تربیت ان کی والدہ محترمہ نے بڑی جا ں فشانی سے کی۔ وہ بہت اللہ والی خاتون تھیں۔ دونو ں بھائیو ں کو ایک دوسرے سے بڑھ کراپنی ما ں سے محبت تھی۔اپنے سارے مسائل آکر ان کوپیش کر تے اور وہ اتنا آسان حل نکال دیتیں ...

امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ سے عقیدت

حضرت امام شا فعی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا قاصد امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کے پا س یہ پیغام دے کر بھیجا کہ آپ عنقریب ایک عظیم مصیبت میں گرفتار ہونے والے ہیں۔ مگر اس سے سلامتی کے ساتھ نکل جائیں گے۔ جب قاصد نے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کو یہ خبر دی تو امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے ہدیہ میں اپنا کر تا اس قاصد کو دے دیا۔ قاصد کر تا لے کر امام شا فعی رحمتہ اللہ علیہ کے پا س پہنچے۔ امام شا فعی رحمتہ اللہ علیہ نے دریا فت کیا کہ کیا انہو ں نے اس کے نیچے کچھ پہنا ہوا تھا ؟ قاصد نے جوا ب دیا کہ نہیں !…امام شا فعی رحمتہ اللہ علیہ نے اسے بو سہ دیا اور آنکھو ں پر رکھا اور اس کر تے کو بر تن میں رکھ کر اس پر پانی ڈالا اور مل کر نچو ڑ ااور اس غسالہ پانی کو شیشی میں بند کیا اور اپنے پا س رکھا۔ پھر جب ان کے ساتھیو ں ، ر شتے دا رو ں میں سے کوئی بیما ر ہو تا تو اس پا نی میں سے تھوڑا سا بھیج دیتے۔ جب وہ بیما ر اسے اپنے جسم پر چھڑکتا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے و ہ شفا یا ب ہو جا تا۔ 

غیبت کتنی بری ہے ؟

ایک مر تبہ حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے کسی شخص نے کہا کہ فلاں شخص نے آپ کی غیبت کی ہے ؟ آپ نے چھو ہا رے منگوائے اور ایک بر تن میں رکھ کر اس شخص کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجے کہ میں آپ کا شکر گزار ہو ں ، آپ نے میری غیبت کر کے اپنی نیکیو ں کو میرے نامہ ¿ اعمال میں منتقل کر دیا۔ میں آپ کے اس احسان کا بدلہ چکا نہیں سکتا۔ تا ہم یہ حقیر ساتحفہ قبول فرمائیے۔ وہ شخص خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے اس سلو ک سے بہت شرمندہ ہوا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر معا فی مانگ لی۔ 

نو ٹو ں کی کہا نی

یہ اس زمانے کا ذکرہے جب دنیا میں سکوں اور نو ٹو ں کا وجو د نہیں تھا۔ لو گ جنس کے بدلے جنس کے نظام (Barter System )کے تحت چیزو ں کا لین دین کر تے تھے۔ ایک دفعہ یو ں ہوا کہ ایک مو چی جو تے لیکر نا ن بائی کے پا س گیا اور اس سے جو تو ں کے بدلے نا ن طلب کئے۔ نا ن با ئی بو لا …’’ تم نے جو کل جو تے دئیے تھے ، اس کے بدلے میں نے شکاری سے گوشت لے لیا تھا اور پر سو ں جو جو تے دئیے تھے ، وہ میں نے پہنے ہو ئے ہیں۔ مجھے جو تو ں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہا ں البتہ میرا مٹی کا پیالہ ٹوٹ گیا ہے … تم کمہار سے پیا لا لا دو تو میں تمہیں نان دے دو ں گا۔ ‘‘ نا ن با ئی کی با ت سن کر مو چی کمہا ر کے پا س چل دیا تا کہ اسے جو تے دے کر پیالہ لے اور پھر اس پیالے کے بدلے نان حاصل کر سکے … مگر جب مو چی نے جو تو ں کے عوض پیا لہ مانگا تو کمہا ر بو لا ’’ بھا ئی موچی ! میرے پا س جو تے ہیں…ہا ں اگر تم مجھے شکا ری سے گو شت لا دو تو میں تمہیں پیالہ دے دو ں گا۔ ‘ ‘یہ سنناتھا کہ مو چی بغیر دم لئے کمہار کے پاس سے اٹھا اور سیدھا شکا ری کے پا س پہنچ گیا اور اس سے جو تو ں کے عوض گو شت طلب کیا۔ شکا ری نے کہا …’’ جو تے توم...

چار باتیں

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ ایک جگہ سے گزر رہے تھے کہ ایک لڑکے پر نظر پڑی جس کے چہرے بشرے سے ذہانت ہویدا تھی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا ’’ کچھ پڑھا بھی ہے یا یوں ہی اپنا وقت اور عمر برباد کر رہے ہو؟ ‘‘اس نے جواب دیا ’’ کچھ زیادہ تو نہیں پڑھا بس چار باتیں سیکھی ہیں‘‘ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا ’’ کون سی‘‘ کہنے لگا ’’ مجھے سر کا علم ‘ کانوں کا علم‘ زبان کا علم اور دل کا علم حاصل ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا مجھے بھی تو کچھ بتائو اس بچے نے کہا :سر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکانے کیلئے ہے ‘ کان اس کا کلام سننے کیلئے ہیں‘ زبان اس کا ذکر کرنے کیلئے اور دل اس کی یاد بسانے کے لئے۔ حضرت ابن مبارک رحمتہ اللہ علیہ اس کے حکمت آمیز کلام سے اتنے متاثر ہوئے کہ اس سے نصیحت کیلئے کہا۔ اس لڑکے نے کہا آپ مجھے شکل و شباہت سے عالم معلوم ہوتے ہیں اگر علم اللہ تعالیٰ کیلئے پڑھا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی سے کبھی امید نہ رکھنا۔

الّو کی عدالت

کسی جنگل میں ایک الو رہتا تھا۔ وہ سارا دن آنکھیں بند کر کے برگد کے ایک پرانے درخت پر بیٹھا سوچوں میں غرق رہتا۔ اس جنگل کے تمام جانور اور پرندے اسے عقل مند سمجھتے تھے۔ جب کبھی جھگڑا ہوجاتا تو وہ الو کے پاس آتے اور الو دونوں میں صلح و صفائی کرا دیتا۔ ایک دن ایک ہاتھی اور بندر الو کے پاس آئے اور کہا: اے جنگل کے عقل مند الو! ہم دونوں میں ایک بات پر جھگڑا ہو گیا ہے۔ آپ اس کا فیصلہ کردیں۔ الو نے کہا : بتائو کیا معاملہ ہے؟ بندر کہنے لگا۔ میں کہتا ہوں چالاکی سے اچھی کوئی چیز نہیں مگر ہاتھی کہتا ہے کہ طاقت سے اچھی کوئی چیز نہیں۔ الو آنکھیں بند کر کے سوچتا رہا پھر بولا تم وہ سیب کا درخت دیکھ رہے ہو؟ دونوں نے کہا ہاں ’’ جائو میرے لئے وہاں سے کچھ سیب لائو‘‘۔ الو نے حکم دیا، دونوں ندی کے کنارے پہنچے تو ہاتھی بولا اب تمہاری سمجھ میں آیا کہ طاقت ور ہونا کتنی اچھی چیز ہے۔ آئو میری پیٹھ پر بیٹھو میں تمہیںد ریا پار کرا دیتا ہوں۔ جب دونوں سیب کے درخت کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ اس درخت پہ سیب بہت اونچائی پر لگے ہوئے تھے۔ ہاتھی نے سونڈ سے سیب توڑنے چاہے مگر کامیاب نہ ہو سکا‘ پھر درخت...

اپنا شوق پورا کرنے کا نام دین نہیں

ایک عالم دین کی بات دل کو لگی سوچا آپ کے ساتھ شیئر کر لی جائے۔دین اپنا شوق پورا کرنے کا نام دین نہیں بلکہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا نام دین ہے۔ یہ دیکھو کہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس وقت کا کیا تقاضا ہے؟ بس! اس تقاضے کو پورا کرو، اس کا نام دین ہے اس کا نام دین نہیں کہ مجھے فلاں چیز کا شوق ہو گیا ہے، اس شوق کو پورا کر رہا ہوں مثلاً کسی کو اس بات کا شوق ہو گیا کہ میں صف اول میں نماز پڑھوں، کسی کو اس بات کا شوق ہو گیا کہ میں جہاد پر جائوں، کسی کو اس بات کا شوق ہو گیا کہ میں تبلیغ ودعوت کے کام میں نکلوں، اگرچہ یہ سب کام دین کے ہیں اور باعث اجر وثواب ہیں لیکن یہ دیکھو کہ اس وقت کا تقاضا کیا ہے مثلاً گھر کے اندروالدین بیمار ہیں اور انہیں تمہاری خدمت کی ضرورت ہے لیکن تمہیں تو اس بات کا شوق لگا ہوا ہے کہ صف اول میں جاکر جماعت سے نماز پڑھوں اور والدین اتنے بیمار ہیں کہ حرکت کرنے کے قابل نہیں، اب اس وقت تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تقاضا یہ ہے کہ صف اول کی نماز کو چھوڑ دو اور والدین کی خدمت انجام دو اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو اور گھ...

تیری جرات کو سلام

اسلام اور کفر کی جنگ تھی‘ ایک بار ایسا ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ دشمنوں میں گھِر گئے۔ مگر ان کی بہادری پر دشمن بھی اش اش کر اٹھا۔ ایک دشمن نے موقع پا کر پیچھے سے اچانک حملہ کر نا چاہا۔ شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ سمجھ گئے اور آپ نے پلٹ کر دفاعی وار کیا۔ یہ ایسا بھرپور وار تھا کہ دشمن کی تلوار کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ تلوار دشمن کے ہاتھ سے نکل گئی اور وہ نہتا ہو چکا تھا۔ مگر گھبرا کر بھاگا نہیں بلکہ کہنے لگا علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)مجھے تلوار دو تو میں اب بھی مقابلہ کرنے کو تیار ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہادری پر غور کریں‘ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی نہایت نفیس تلوار دشمن کے حوالے کر دی اور خود نہتے ہو گئے۔ اس پر دشمن ہکا بکا رہ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ میں تو اس تلوار سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر سکتا ہوں۔ یہ سوچ کر دشمن حیران و پریشان تھا کہ بمشکل اس کی زبان سے نکلا‘ اے علی رضی اللہ عنہ ! تم نے تلوار مجھے دے دی۔ خود نہتے ہو گئے۔ اب تم کیا کرو گے؟دوستو! حضرت علی کے جواب پر غور کرو۔ فرمایا’’ آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا ہے کہ کسی نے مجھ س...

سچائی اور جنت

ایک مرتبہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میرا جی چاہتا ہے کہ میں جنت میں جائوں بتائیے میں کیاعمل کروں‘‘۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچ بولو کیونکہ جب آدمی سچا ہوتا ہے تو نیکی کرتا ہے تو اس کے دل میں ایمان کی روشنی پیدا ہوتی ہے۔ جب اسے ایمان نصیب ہوتا ہے تو وہ جنت میں داخل ہوتا ہے۔ 

تیل اور پانی

حکا یت ہے کہ ایک گلا س میں پانی اور تیل تھے۔ ایسی صورت میں تیل اوپر رہتا ہے کیونکہ پانی زیا دہ وزنی ہو تا ہے۔ پانی نے تیل سے شکایت کی اور پو چھا کہ یہ کیا با ت ہے میںنیچے رہتا ہو ں اور تو اوپر حالانکہ میں پانی ہو ں اور پانی کی یہ صفت ہے کہ وہ صاف ، شفاف، خو د طا ہر و مطہر، روشن ، خوبصورت ، خوب سیر ت غرض ساری صفتیں موجو د ہیں اور تو ’’ تیل ‘‘ جو خود بھی میلا اور جس پر گرے اس کو بھی میلا کرے۔ کوئی چیز تجھ سے دھوئی نہیں جا سکتی، چاہئیے یہ تھا کہ تو نیچے ہوتا اور میں اوپر مگر معاملہ برعکس ہے کہ میں نیچے ہو ں اور تو اوپر۔ تیل نے جو اب دیا کہ ہا ں یہ سب کچھ ہے لیکن تم نے کوئی مجا ہد ہ نہیں کیا۔ ہمیشہ نا زو نعم ہی میں رہے بچپن سے اب تک۔۔۔ بچپن میں فر شتے آسمان سے اتا ر کر بڑے اکرا م سے تم کو لائے ، پھر جس نے دیکھا عزت کے ساتھ بر تنوں میں بھر لیا، بڑی رغبت سے نو ش کیا۔ غر ض ہمیشہ عزت ہی عزت اور نا ز ہی نا ز دیکھا۔ تمہاری دھو پ سے حفا ظت کی جا تی ہے۔ میل کچیل اورگردو غبا رسے حفا ظت کی جا تی ہے۔ گو اپنے مطلب کو سہی ، لیکن ایک میں ہو ں کہ جب سے میری ابتدا ہوئی ہے ہمیشہ مصیبتیں ہی مصیبتیں جھی...

د و غلا م

ایک با د شاہ کا غلام گھو ڑے پر سوار غرور کے عالم میں چلا آرہا تھا۔ سامنے ایک بزرگ آگئے۔ انہو ں نے اس مغرور غلام سے کہا : ’’ یہ اکڑ خانی تو اچھی نہیں۔‘‘ غلا م نے اور زیا دہ اکڑ سے کہا۔ ’’ میں فلا ںبا دشاہ کا غلا م ہو ں ‘‘ اور وہ با دشاہ مجھ پر بہت بھروسہ کر تا ہے جب وہ سوتا ہے تو میں اس کی حفاظت کر تا ہوں۔ جب اسے بھو ک لگتی ہے تو میں اسے کھا نا دیتا ہو ں۔ کوئی حکم دیتا ہے تو فوراً بجا لا تا ہو ں۔‘‘ اس پر بزرگ نے پو چھا: ’’اور جب تم سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو ؟‘‘ غلا م نے جوا ب دیا۔ ’’ اس صورت میں مجھے کو ڑے لگتے ہیں۔ ‘‘ اس پر بزر گ بولے۔ ’’ تب تم سے زیادہ مجھے اکڑنا چاہیے۔‘‘ غلا م نے حیران ہو کر پو چھا۔ ’’وہ کیسے ؟‘‘ بزر گ بو لے۔ ’’میں ایسے با دشا ہ کا غلا م ہو ں کہ جب میں بھو کا ہوتا ہو ںتو وہ مجھے کھلا تا ہے۔ جب میں بیمار ہوتا ہوں وہ مجھے شفا دیتا ہے۔ جب میں سوتا ہو ں تو وہ ہر طرح میری حفا ظت کر تا ہے ۔ جب مجھ سے غلطی ہوجائے اور میں اس سے معا فی مانگ لو ں تو بغیر کوئی سزا دئیے اپنی رحمت و مہر بانی سے مجھے بخش دیتا ہے۔‘‘ یہ سن کر  اس مغرور ...

ماں کی خدمت

بنی اسرائیل کا ایک یتیم بچہ ہر کام اپنی والدہ سے پوچھ کر ان کی مرضی کے مطابق کیا کرتا تھا۔ اس نے ایک خوبصورت گائے پالی ہوئی تھی اور وہ ہر وقت اس کی دیکھ بھال میں مصروف رہتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک فرشتہ انسانی شکل میں اس بچے کے پاس آیا اور گائے خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ بچے نے قیمت پوچھی تو فرشتے نے قیمت بتائی۔ جب بچے نے ماں کو اطلاع دی تو اس نے اجازت دی کہ اس قیمت پر بیچ دینا لیکن فرشتہ ہر بار قیمت بڑھاتا رہا۔ لڑکا کہتا کہ میری ماں نے اس سے کم قیمت بتائی تھی۔ میں ماں کے کہے بغیر زیادہ قیمت پر نہیں بیچوں گا۔ فرشتے نے کہا کہ تم بڑے نیک اور خوش نصیب ہو کہ ہر کام اپنی والدہ سے پوچھ کر کرتے ہو۔ چند دن بعد تمہارے پاس کچھ لوگ اس گائے کو خریدنے آئیں گے تو تم اس گائے کی خوب زیادہ قیمت لگانا۔ دوسری طرف بنی اسرائیل میں ایک آدمی کے قتل کا واقعہ پیش آیا اور انہیں جس گائے کی قربانی کا حکم ملا وہ اسی بچے کی گائے تھی چنانچہ بنی اسرائیل کے لوگ جب اس بچے سے گائے خریدنے آئے تو اس بچے نے کہا اس گائے کی قیمت اس کے وزن کے برابر سونا ادا کرنا ہے چنانچہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے اتنی بھاری قیمت ادا کر کے گا...

خالی گملا

بہت پرانے زمانے میں ایک با دشا ہ تھا ، اس کا کوئی بیٹانہ تھا۔ جب وہ بوڑھا ہو گیا تو اسے فکر ہوئی کہ اس کے مر نے کے بعد تخت و تا ج کا وا رث کون ہو گا ؟ لہٰذا ایک دن اس نے اپنے ملک میں اعلا ن کرا یا کہ وہ ایک بچے کو گو د لینا چاہتا ہے جو بعد میں اس کے تخت و تا ج کا وارث ہو گا۔ بچے کے انتخا ب کے لیے یہ طریقہ بتا یا گیا کہ ہر بچے کو بیج دیا جا ئے گا۔ جس بچے کے بو ئے ہوئے پو دے پر سب سے خوبصور ت پھول کھلے گا ، وہ بادشا ہ کا وا رث بنا دیا جائے گا۔ سونگ چن نامی کا ایک لڑکا تھا ، اس نے بھی بادشاہ سے ایک بیج لیا اور اپنے گھر آکر ایک گملے میں بو دیا۔ وہ ہر روز اسے پانی دیا کر تا تھا ، اسے امید تھی اس کے پودے پر سب سے زیا دہ خوبصور ت پھو ل کھلے گا۔ دن گزر تے گئے مگر گملے میں سے کچھ بھی نہ نکلا۔ سو نگ چن کو بڑی فکر تھی۔ اس نے ایک اور گملا خریدا اور دور سے جا کر مٹی لایا اور اس بیج کو دو با ر ہ احتیا ط سے لگا یا مگر دو مہینے گزر جانے پر بھی گملے میں سے کوئی پو د ا نہ نکلا۔ پلک جھپکنے میں پھو لو ں کی خوبصور تی کا دن آ پہنچا۔ سارے ملک کے بچے شاہی محل میںجمع ہوئے۔ ہر ایک اپنے ہاتھو ں میں ایک گملا...

سچ

ایک بادشاہ نے اپنے ملک میں اعلان کروایا کہ جو شخص جھوٹ بولتا ہوا پایا گیا ‘قاضی سے پوچھ کر اسے سخت سزا دی جائے گی۔ اعلان کا سننا تھا کہ لوگ ایک دوسرے سے بھاگنے لگے کہ کہیں جھوٹ کے الزام میں پکڑے نہ جائیں۔ بادشاہ اور وزیر دونوں بھیس بدل کر شہر میں گھومنے نکلے، ایک تاجر کے پاس سے ان کا گزر ہوا تو رک کر اس سے گپ شپ شروع کی۔ بادشاہ نے تاجر سے پوچھا۔ ’’آپ کی عمر کیا ہے؟‘‘ تاجر نے جواب دیا۔ ’’بیس سال۔‘‘ ’’آپ کے پاس دولت کتنی ہے؟‘‘ بادشاہ نے پوچھا۔ تاجر نے کہا ’’ستر ہزار۔‘‘ ’’آپ کے لڑکے کتنے ہیں؟‘‘ بادشاہ نے تیسرا سوال کیا۔ تاجر نے کہا: ’’ایک۔‘‘ بادشاہ اور وزیر نے واپس آکر دفتر میں ریکارڈ دیکھا تو تاجر کے جوابات کو غلط پایا اور تاجر کو طلب کرلیا۔ آپ نے اپنی عمر بیس سال بتائی جو غلط ہے آپ کی اب یہ سزا ہے۔ تاجر۔ ’’پہلے میری غلطی تو ثابت کیجئے۔‘‘ بادشاہ نے کہا ۔’’سرکاری دفتر میں آپ کی عمر 65 سال درج ہے۔‘‘ تاجر بولا۔ ’’جناب میری زندگی کے بیس سال ہی اطمینان و سکون سے گزرے ہیں۔ اس لئے میں اِسی کو اپنی عمر سمجھتا ہوں۔ باقی سب فضول ہیں۔‘‘ پھر بادشاہ نے کہا، ...

ننھی چڑیا کی آزادی

ایک کھیت کے قریب درختو ں کی قطار تھی۔ جہاں درخت پر ایک ننھی سی چڑیا نے اپنا گھونسلہ بنا رکھا تھا۔ سال بھر یہ چڑیا اِدھر اُدھر دانہ دنکا چگتی پھر تی ، مگر جب مو سم بہا ر آتا تو یہ گھونسلا آبا د ہو جا تا۔ اس گھونسلے میں اس سال اس نے چا ر انڈے دئیے۔ ان انڈو ں پر بیٹھ کر گھنٹو ں انہیں سیتی۔ انڈو ں کو سیتنے کی مدت ختم ہوئی تو انڈو ں سے چا ر بچے نکلے۔چڑیا قریبی کھیت پر اتر کر پیٹ بھر تی اور اپنے چارو ں بچوں کو اپنی چو نچ سے دانہ کھلاتی۔ بچو ں کو ہر وقت بھوک لگتی رہتی اور چڑیا تھوڑی تھوڑی دیر بعد انہیں دانہ کھلا تی رہتی۔ اس کھیت کا ما لک ایک چھوٹے دل کا آدمی تھا۔ جب بھی وہ اس ننھی سی چڑیا کو اپنے کھیت میں دانہ چگتا دیکھتا تو اسے غصہ آجا تا کہ میں تو محنت سے کھیت میں دن رات ایک کر کے فصل اگا تا ہو ں اور یہ کم بخت چڑیا میری محنت پر دن دہا ڑے ڈاکہ ڈالتی ہے۔ کسان اس کو پکڑنے کی فکر میں لگ گیا۔ آخر ایک دن اس کسان نے چڑیا کو جال میں پھنسا ہی لیا۔ اگلے دن اس نے چڑیا کو پنجرے میں بند کیا اور شہر کی طرف چل کھڑا ہوا کہ اب تو اس ڈاکن چڑیا کا اور میرا انصا ف با د شا ہ سلامت کی عدالت میں ہی ...

چالا ک کو ن ؟

ایک کوا روٹی کا ٹکڑا اپنی چونچ میں لیے ہوئے ایک درخت کی ٹہنی پر بیٹھا تھا۔ ایک لومٹری کا گزر ادھر سے ہوا۔ منہ میں پانی بھر آیا ( لو مڑی نے ) سو چا کہ کوئی ترکیب کی جائے کہ یہ اپنی چونچ کھو ل دے اور روٹی کا ٹکڑا میں جھپٹ لوں۔ اس نے مسکین صورت بنا کر اورمنہ اوپر اٹھا کر کہا : ’’ کوے میا ں ! سلام۔ تیرے حسن کی کیا تعریف کرو ں ، کچھ کہتے ہوئے جی ڈرتا ہے۔ واہ واہ ، چو نچ بھی کا لی ، پر بھی کا لے آج کل تو دنیا میں مستقبل کالو ں ہی کے ہا تھ میں ہے۔ افر یقہ میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے ، لیکن خیر یہ سیاست کی با تیں ہیں۔ میں نے تیرے گانے کی تعریف سنی ہے۔تو اتنا خوب صور ت ہے تو گا نا بھی اچھا گا تا ہو گا۔ مجھے گانا سننے کا شوق یہا ں کھینچ لایا ہے ، ہا ں تو ایک آدھ بول ہو جائے۔ ‘‘ کوا پھو لا نہ سمایا ، لیکن کوے نے سیا نے پن سے کا م لیا۔ روٹی کا ٹکڑا منہ سے نکال کر پنجے میں تھاما اور لگا کائیں کائیں کرنے۔ بی لومڑی کا کام نہ بنا تو یہ کہتی ہو ئے چل دی : ’’ہٹ تیرے کی بے سرا بھانڈ۔ معلوم ہوتا ہے تونے بھی حکا یا تِ لقمان پڑھ رکھی ہے۔ ‘‘

ایک اندھا اور ایک لنگڑا

بچو! کسی دیہات میں بہت سارے لوگ رہتے تھے۔ انہی میں ایک شخص جو ٹانگوں سے معذور تھا وہ بھی رہتا تھا۔ اس کا کہیں آنا جانا مشکل تھا پھر بھی وہ اوروں کو تکلیف دینے کی بجائے کسی طرح اپنا کام کرلیتا تھا۔ اسی گائوں میں ایک نابینا (آنکھوں سے معذور) شخص بھی رہتا تھا وہ بے چارہ اس سے بھی زیادہ مشکل تھا کہ دیکھنے سے ہی مجبور تھا۔ ایک دفعہ سوکھی گھاس میں کسی نے جلتی ہوئی لکڑی ڈال دی آگ لگی اور ایسی بھڑکی کہ گھر اور جھونپڑیاں سب میں آگ لگ گئی۔ سب جان بچا کر بھاگ رہے تھے بے چارہ لنگڑا بڑا پریشان تھا اس لیے اللہ سے دعائیں کرنے لگا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک ترکیب سُجھائی بس وہ کسی طرح اندھے تک پہنچا وہ پریشان ٹکراتا ہوا اِدھر اُدھر بھٹک رہا تھا، لنگڑے نے اندھے سے کہا کہ تم مجھے اپنی کمر پر سوار کرلو میں بھاگ نہیں سکتا، تم دیکھ نہیں سکتے، اگر ہم الگ الگ رہے تو دونوں پھنس جائیں گے اور جل جائیں گے۔ اندھے نے لنگڑے کو سہارا دے کر اپنی کمر پر سوار کرلیا۔لنگڑا دیکھ دیکھ کر راستہ بتاتا گیا اور نابینا تیز تیز چلتا گیا اور ایک دوسرے کا ساتھ دینے اور دُکھ درد سمجھنے کی وجہ سے جلتے ہوئے گائوں سے دونوں آر...

دیانتداری کا انوکھا انعام

وہ دسمبر کی سرد رات تھی۔ باہر ہو کا عالم تھا۔ ویسے تو جاڑے کی شامیں بہت خاموش اور لمبی لمبی ہوتی ہیں۔ ایسے موسم میں لحاف میں دبک کے کوئی ناول یا افسانہ پڑھنا میرا دلچسپ مشغلہ تھا۔ مگر آج کی رات میں ان تمام باتوں سے بے نیاز دل لگا کر پڑھنے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔ کل میرا دسمبر کا انگلش ٹیسٹ تھا۔ ابھی چند دن قبل ابا جان کی بیماری کی وجہ سے میں پوری طرح ٹیسٹ کی تیاری پر توجہ نہ دے پایا تھا۔ آج میری کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح پوری کتاب کی ایک بار دہرائی کر لوں۔ مگر گوری گوری رنگ اور گہری نیلی آنکھوں والی بلی جسے میں پیار سے مانو بلاتا ہوں۔ وہ مجھے تنگ کرنے کے موڈ میں تھی۔ اس کے تھوڑے سے کھٹکے سے میرا دل دھڑک اٹھتا۔ ہم چند ہفتے قبل اس کرائے کے گھر میں شفٹ ہوئے تھے اور میں تو ہوں بھی سدا کا ڈرپوک۔ ساڑھے گیارہ بجے نیند مجھ پر غالب آنے لگی، تو میں نے تپائی پر رکھے تھرماس سے چائے نکالی اور مزے لے کر اس کی چسکیاں لینے لگا۔ مانو نے یوں مجھے فارغ دیکھا تو، اس کی شوخیوں میں اضافہ ہوگیا۔ میں نے سوچا، یہ تو بار بار میری پڑھائی میں رخنہ ڈالے جارہی ہے، کیوں نہ اسے مصروف کردوں۔ چائے ختم کرکے میں...

خرگوش کی تدبیر

شیر کا معمول تھا کہ وہ ہر شام کے وقت جنگل کے جانوروں پر حملہ کر تا اور بھوک مٹانے کے لیے ان میں سے کسی ایک کا شکار کر لیتا۔ شیر کی عا دت کی وجہ سے جنگل کے تمام جانور خوف اور دہشت میں مبتلا رہتے۔ دہشت کی اس فضا سے نجات پانے کے لیے جانوروں نے ایک حل نکالا۔ شیر سے بات کر کے انہو ں نے اس کو را ضی کر لیا کہ وہ حملے کی تکلیف نہ اٹھائے اور وہ خود اپنی طر ف سے ہر روز ایک جانور پیش کیا کریں گے۔ اس کی صور ت یہ نکلی کہ ہر روز پر چی کے ذریعے یہ طے کیا جا تا کہ آج کو ن سا جانوربادشاہ سلامت یعنی شیر کی خوراک بنے گا۔ جس بد قسمت جانور کے نا م پر پرچی نکلتی، اس کو شیر بہا در کے پا س بھیج دیا جا تا۔اس طرح امن تو ہو گیا مگر جانور و ں میں فکر مندی مسلسل مو جو د تھی۔ پیارے بچو ! فکر مندی کی تو با ت تھی ہی کیونکہ ہر جانور کویہی غم کھائے جا رہا تھا کہ کل کس کے نام پر چی نکلتی ہے۔ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔ ایک دن پر چی خر گو ش کے نام نکل آئی۔ خرگوش نے جب اپنا نام پڑھا تو اس کا اوپر کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔ ایک مرتبہ تو خرگو ش کے تمام طبق روشن ہو گئے مگر خر گو ش نے پہلے سے سو چا ہ...

زرافے نے شیر کی دوستی کا حق ادا کر دیا تھا مگر ……

شیر اور زرا فے کی دوستی سے جنگل کے تمام جانور حیران تھے کیونکہ شیر جانوروں کا شکا ر کر تا تھا۔ زرافے کے دوست ہرن اور زیبرا اکثر زرافے کو کہتے کہ شیر پر اعتبار نہ کر و۔ ایسانہ ہو کہ کسی دن شیر کو شکا ر نہ ملے او روہ تمہیں شکار بنا لے لیکن زرافہ ہر ن اور زیبرے کی بات کو ہنسی میں ٹال دیتا۔ زرافہ اکثر شیر کو کہتا کہ وہ کمزور جانوروں کا شکار نہ کیا کرے۔ شیر جواب میں کہتا کہ اگر میں شکا ر نہ کرو ں تو کھا ئوں گا کیا ؟ میں تمہا ری طر ح گھا س نہیں کھا سکتا۔ جس طرح تم میری طرح گو شت نہیں کھا سکتے۔ زرا فہ شیر کی بات سن کر چپ ہو جا تا۔ ایک دن جنگل میں شکار ی آگئے۔ زرافہ اپنی لمبی گردن سے درختو ں کے پتے کھا نے میں مصروف تھا، اس کی نظر ان شکاریو ں پر پڑی تو فورا ً شیر کے پاس گیا اور شیر کو ساری صورتحال بتائی کہ جنگل میں شکا ری آگئے ہیں اور وہ ایک بڑے درخت پر مچان بنا رہے ہیں۔ ضرور وہ جانوروں کا شکار کریں گے۔ شیر ہنسنے لگا۔ بو لا : ’’زرا فے بھائی تم بھی بہت بھولے ہو، میں جنگل کا بادشاہ ہوں، بھلا مجھے کو ن پکڑے گا۔ انسان تو مجھ سے ڈرتے ہیں، ان کی کیا مجال کہ مجھے ہا تھ لگائیں۔‘‘ زرافے نے شی...

کسان کا سوال‘ فقیر کا جواب

مجھے یقین ہے اس کو جوبھی پڑھے گا انشاء اللہ عزوجل وہ غریبوں سے نفرت نہیں کرے گا کیونکہ غریبی صرف اللہ عزوجل کی آزمائش ہے کہ کون کس حال میں اللہ عزوجل کو یاد کرتا ہے۔ کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ کسی زمانے میں دو کسان رہتے تھے۔ وہ دونوں سگے بھائی تھے چھوٹے بھائی کا نام سلطان تھا اور بڑے بھائی کا نام اکرام تھا۔ چھوٹا بھائی بہت غریب اور بڑا بھائی امیر تھا۔ لیکن بڑے بھائی نے کبھی بھی چھوٹے بھائی کی مدد نہ کی بلکہ وہ اس سے ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ غریبی تمہاری قسمت میں لکھی ہوئی ہے اور تم ہمیشہ غریب ہی رہوگے اور غریب ہی مروگے۔ ایک مرتبہ چھوٹے بھائی کے دل میں خیال آیا کہ کیوںنہ کسی دوسرے شہر میں چل کر اپنی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے ایک روز وہ اپنے گھر سے نکل گیا اور چلتے چلتے وہ ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں کسی بادشاہ کا محل تعمیر ہورہا تھا لیکن اس بادشاہ کے ساتھ ایک عجیب بات یہ ہورہی تھی کہ جب محل ایک طرف سے مکمل ہوجاتا اور کاریگر یعنی کام کرنے والے دوسری طرف کام کرنے لگتے تو پہلی طرف کا حصہ خودبخود گرجاتا کسان یہ عجیب بات دیکھ کر کچھ دیر کیلئے وہیں کھڑا ہوگیا‘ دیکھتا رہا اتنے میں وہاں...

شیر اور گیدڑ کا مقدمہ، بندر کا انصاف

بہت عرصے قبل ایک شیر اور گیدڑ میں گہری دوستی تھی اور وہ دونو ں ایک دوسرے کو حیران کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ ایک دن شیر نے ایک مو ٹی تا زی بکری کو زندہ پکڑا اور اپنے دوست گیدڑ پر رعب جھا ڑنے کے لیے جلدی جلدی اس کی بھٹ پر آیا لیکن جب وہ وہا ں پہنچا تو حیرت سے اس کی آنکھیں کھلی رہ گئیں کیونکہ گیدڑ اس سے پہلے ہی ایک گائے کو پکڑے بیٹھا تھا۔ ’’ایک گیدڑ شیر سے اچھا شکا ر کیسے کر سکتا تھا؟ ‘‘ شیر نے غصے میں سوچا اور خاموشی سے بکری کو باہر گائے کے ساتھ باندھ کر سونے کے لیے چلا گیا کیونکہ را ت کا فی ہوچکی تھی لیکن وہ ساری رات جاگتا رہا کیونکہ اسے حسد ہو رہا تھا کہ آخر گیدڑ نے گائے کو پکڑا کیسے۔ آخرکار اس سے رہا نہیں گیا تو سورج نکلنے سے پہلے ہی با ہر نکل کر گائے کے پاس پہنچ گیا لیکن وہا ں گائے کے ساتھ ایک بچھڑا بھی کھڑا تھا جسے را ت میں ہی گائے نے جنم دیا تھا۔ بچھڑے کو دیکھتے ہی شیر کے ذہن میں ایک خیا ل آیا اور اس نے خود سے کہا ’’میرے دوست کو دونو ں کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بچھڑے کو بکری کے پا س لے گیا اور اسے اس کا دودھ پلا نا شروع کر دیا اور صبح ہوتے ہی وہ چلا تا ہوا گیدڑ کے ...

الو کی نصیحت

بہت پرانی بات ہے، کسی گائوں میں ٹھگنا آدمی رہتاتھا۔ ا س کا قد بہت ہی چھوٹا تھا۔ وہ جب کھڑا ہوتا ہے تو عام آدمی کے بمشکل گھٹنوں تک پہنچتا تھا۔ اس کی بڑی خواہش تھی کہ کسی طر ح اس کا قد لمبا ہو جائے اور وہ بھی عام آدمیوں کی طر ح نظر آئے۔ اس نے بہت دنوں تک آلو کھا ئے، ڈھیر سارا گوشت کھایا مگر کوئی فرق نہ پڑا، اس کا قد اتنا کا اتنا ہی رہا۔ ایک دن اس ٹھگنے آدمی نے دریا کے کنا رے ایک گھوڑے کو پانی پیتے دیکھا۔ ’’مجھے اس جا نور سے مشورہ کرنا چاہئے۔‘‘ وہ اپنے آپ سے بولا ’’ یہ ضرور میری کوئی نہ کوئی مدد کرسکتا ہے۔‘‘ وہ گھوڑے کے پاس گیا اور بولا ’’ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ آپ کا قد اتنا اونچا کیسے ہوا ؟ آپ نے کیا کھا یا، کیا کیا؟ ’’اوہ ‘‘۔ گھوڑا بولا ’’ بچپن میں میرا قد بھی تمہارے جتنا تھا پھر میں نے ڈھیر سارا انا ج کھایا، بہت ساپانی پیا، روزانہ کئی میل دوڑ لگائی اور پھر میں اتنا بڑا ہوگیا۔‘‘ ’’مجھے بھی یہ سب کرنا چاہیے۔‘‘ ٹھگنا آدمی بولا، پھر وہ اپنے گھر گیا۔ ڈھیر سا اناج کھا یا۔ خوب پانی پیا اور پھر دوڑ لگا دی۔ وہ اس وقت تک دوڑتا رہا جب تک کے اس کے پیروں میں درد نہ ہو ا...

شہزادے سے بھکاری تک

بہادر شاہ ظفر کا دورِ حکومت تھا کہ ایک جنگل میں چند شہزادے شکار کھیلتے پھر رہے تھے اور بے پروائی سے چھوٹی چھوٹی چڑیوں اور فاختائوں کو غلیل سے مار رہے تھے۔ ایک فقیر وہاں سے گزرا۔ اس نے بڑے ادب سے شہزادوں کو سلام کرتے ہوئے عرض کیا۔ ’’میاں صاحبزادو… ان بے زبان جانوروں کو کیوں ستا رہے ہو؟ انہوں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے؟ یہ جاندار ہیں۔ آپ کی طرح دکھ اور تکلیف کی خبر رکھتے ہیں۔ انہیں نہ مارو۔‘‘ شہزادہ نصیر الملک بگڑ کر بولا۔ ’’جارے جا… دو ٹکے کا آدمی ہمیں نصیحت کرنے نکلا ہے؟ سیر و شکار سب ہی کرتے ہیں۔ ہم نے کیا تو کونسا گناہ ہو گیا؟‘‘ فقیر نے کہا۔ ’’صاحب عالم ناراض نہ ہوں۔ شکار ایسے جانور کا کرنا چاہیے کہ ایک جان جائے تو پانچ دس آدمیوں کا پیٹ بھرے۔ ان ننھی ننھی چڑیوں سے کیا ملے گا۔‘‘ وہ شہزادہ فقیر کے دوبارہ بولنے سے آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے ایک پتھر غلیل میں رکھ کر فقیر کے گھٹنے پر اس زور سے مارا کہ وہ بے چارہ اوندھے منہ گر پڑا اور تکلیف سے چلانے لگا۔ ’’ہائے… میری ٹانگ توڑ ڈالی۔‘‘ اس کے گرتے ہی وہ تمام شہزادے گھوڑوں پر سوار ہو کر قلعے کی طرف چلے گئے اور فقیر گھسٹتا جاتا تھا اور کہت...

تڑپ کر بھوکی پیاسی مر گئی

حامد ایک لائق اور ذہین بچہ تھا۔ دیکھنے میں بھولا بھالا اور پیارا سا‘ مگر اس میں ایک بری عادت یہ تھی کہ وہ بہت شریر تھا۔ وہ ذہین تھا مگر اپنے ذہن کو نت نئی شرارتیں سوچنے میں مصروف رکھتا اور پھر ایسی ترکیبوں سے شرارتیں کر کے دوسروں کو تنگ کرتا۔کبھی کبھی اس کی شرارتوں سے اس کے گھر والے اور دوست پریشان ہو جاتے مگر اس کیلئے یہ معمولی بات ہوتی۔ وہ کبھی اپنی بہن کی کتاب چھپا دیتا تو کبھی بھائی کی کاپیوں کو چھپا لیتا۔ بھائی بیچارہ کام کرنے کیلئے سارے گھر میں ڈھونڈتا پھرتا اور وہ تو اس نے تکیے کے نیچے چھپائی ہوتی تھیں۔ اکثر خود ہی انہیں نکال کر دیتا مگر اس دوران ان کا پڑھائی کا وقت ضائع ہو چکا ہوتا تھا۔ اس کا گھر ایک گا?ں میں واقع تھا اور اس کے ارد گرد لہلہاتے کھیت‘ فصلیں اور باغ تھے۔ اس لئے وہاں پرندے بہت آتے تھے۔ وہ اکثر اپنی غلیل سے ننھے منے خوبصورت پرندوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتا۔ کئی دفعہ وہ زخمی بھی ہو جاتے۔اس کے ابو نے اس کی حرکتوں سے تنگ آ کر اس کی غلیل توڑ کر پھینک دی تھی اور اس پر وہ بہت تلملایا مگر بے سود۔اس کی امی اکثر اسے جانوروں سے پیار کرنے اور ان پر ظلم نہ کرنے کی تاکید ...