الو کی نصیحت

بہت پرانی بات ہے، کسی گائوں میں ٹھگنا آدمی رہتاتھا۔ ا س کا قد بہت ہی چھوٹا تھا۔ وہ جب کھڑا ہوتا ہے تو عام آدمی کے بمشکل گھٹنوں تک پہنچتا تھا۔ اس کی بڑی خواہش تھی کہ کسی طر ح اس کا قد لمبا ہو جائے اور وہ بھی عام آدمیوں کی طر ح نظر آئے۔ اس نے بہت دنوں تک آلو کھا ئے، ڈھیر سارا گوشت کھایا مگر کوئی فرق نہ پڑا، اس کا قد اتنا کا اتنا ہی رہا۔ ایک دن اس ٹھگنے آدمی نے دریا کے کنا رے ایک گھوڑے کو پانی پیتے دیکھا۔
’’مجھے اس جا نور سے مشورہ کرنا چاہئے۔‘‘ وہ اپنے آپ سے بولا ’’ یہ ضرور میری کوئی نہ کوئی مدد کرسکتا ہے۔‘‘ وہ گھوڑے کے پاس گیا اور بولا ’’ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ آپ کا قد اتنا اونچا کیسے ہوا ؟ آپ نے کیا کھا یا، کیا کیا؟
’’اوہ ‘‘۔ گھوڑا بولا ’’ بچپن میں میرا قد بھی تمہارے جتنا تھا پھر میں نے ڈھیر سارا انا ج کھایا، بہت ساپانی پیا، روزانہ کئی میل دوڑ لگائی اور پھر میں اتنا بڑا ہوگیا۔‘‘
’’مجھے بھی یہ سب کرنا چاہیے۔‘‘ ٹھگنا آدمی بولا، پھر وہ اپنے گھر گیا۔ ڈھیر سا اناج کھا یا۔ خوب پانی پیا اور پھر دوڑ لگا دی۔ وہ اس وقت تک دوڑتا رہا جب تک کے اس کے پیروں میں درد نہ ہو ا۔ پھر وہ سانس بحا ل کرنے کے لیے رک گیا لیکن اس کا قد نہیں بڑھا۔ وہ ادا س ہو کر ایک جگہ بیٹھ گیا۔ اچانک اس کے دل میں گائے کا خیال آیا ’’ مجھے گائے سے مشورہ کرنا چاہئے۔ وہ بولا اور اٹھ کر گائے کے پا س پہنچا جو قریب ہی ایک جگہ گھا س چر رہی تھی۔
’’گائے صاحبہ !‘‘ کیا آپ مجھے بتائیں گی کہ آپ کی جسامت اور قد اتنا بڑا کیسے ہوا ؟‘‘ 
’’بہت آسانی سے‘ ‘ گا ئے نے جوا ب دیا ’’ بچپن میں، میں بھی تمہاری طرح چھوٹی تھی۔ پھر میں نے گھاس کھا نا شروع کی، گھاس کھا تی رہی اور پھر آج تمہا رے سامنے ہوں۔ دیکھ لو کتنا بڑا قد ہو گیا ہے میرا۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ مجھے گھا س کھانی چاہئے۔‘‘ ٹھگنا آدمی بو لا۔ وہ پھر اپنے گھر گیا اور وہاں جاکر بہت ساری گھاس کھا لی مگر اس بار بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ وہ اب بھی ٹھگنا ہی تھا۔ اب تو وہ بہت مایوس ہوگیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ کس سے مشورہ کرے ؟ اتنے میں اسے قریب ہی ایک پرانے درخت سے الو کی آواز سنائی دی۔ ’’ بوڑھا الو بہت عقلمند ہے۔ میں اس سے مشورہ کرتا ہوں۔ ‘‘ ٹھگنا آدمی بو لا۔ وہ جلدی سے گھر سے نکلا اور پرانے درخت کے قریب جا کر الو سے اپنا مسئلہ بیا ن کیا۔ الو نے دو مرتبہ اپنی پلکیں جھپکائیں اور ٹھگنے آدمی کو گھورتے ہوئے پو چھا ’’ تم اپنا قد بڑ ا کرنا کیوں چاہتے ہو؟ ‘‘
’’میں چا ہتا ہوں کہ لڑائی کے دوران لو گ مجھے اٹھا نہ سکیں اور میں ان کے سامنے کھڑا ہو کر ان کا مقابلہ کروں۔‘‘ ٹھگنے آدمی نے جو اب دیا۔ الو نے پھر پلکیں جھپکا ئیں اور پو چھا ’’ کیا لوگ تم سے لڑتے ہیں اور کسی نے لڑائی کے دوران تمہیں اٹھا لیا تھا؟ ‘‘ ’’ لڑائی ابھی نہیں ہوئی۔ ‘‘
’’ تو پھر؟ الو بو لا ’’ اب تم کوئی اور وجہ بتائو کہ تم قد بڑھا نا کیوں چاہتے ہو ؟‘‘ اس پر ٹھگنا آدمی بولا ’’اگر میرا قد بڑا ہو جائے تو میں دور تک دیکھ سکوں گا۔ ابھی تو میں صرف قریب قریب کی چیزیں دیکھ سکتا ہوں۔ ‘‘ 
’’جب تم دور کا نظارہ کر نا چاہو تو کیا درخت پر چڑھ کر ایسا نہیں کر سکتے ؟‘‘ الو نے پو چھا۔
’’ہاں … میرا خیا ل ہے … ایسا تو کرسکتا ہوں۔ ‘‘ اس آدمی نے تسلیم کیا۔ الو نے پلکیں جھپکا ئیں اور بولا ’’میری بات سنو! تمہیں بڑے قد کی نہیں، بڑے دما غ کی ضرورت ہے۔ اور تم بڑے قد کی فکر میں مبتلا ہو۔ تمہارا جو قد ہے اسی پر قنا عت کرو اور اللہ کا شکر ادا کر و۔ انسا ن کی بڑائی قد سے نہیں اپنے اخلاق، کردار اور عقل سے ہو تی ہے۔ اگرقد ہی بڑائی کی علا مت ہوتا تو اونٹ اور ہاتھی سے زیا دہ بڑی شخصیت کسی کی نہ ہوتی؟‘‘ الو کی نصیحت ٹھگنے آدمی کی سمجھ میں آگئی۔ اس کے بعد کبھی قد بڑا کرنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا نہیں ہوئی۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6