سعادت حسن منٹو زندگی، شخصیت اور فن کا جائزہ

سعادت حسن منٹو

زندگی، شخصیت اور فن کا جائزہ
پیدائش : ۱۱ مئی ۲۱۹۱ئ
بہ مقام : سمرالہ (ضلع لدھیانہ)
وفات : ۸۱ جنوری ۵۵۹۱ئ
خاندانی نام: سعادت حسن
”منٹو“ سعادت حسن کی ذات تھی منٹو اس بارے میں لکھتے ہیں۔ ”کشمیر کی وادیوں میں بہت سی ذاتیں ہوتی ہیں جن کو ”آل“ کہتے ہیں۔ جیسے نہرو، سپرو، کچلو، وغیرہ ”نٹ“ کشمیر زبان میں تولنے والے بٹے کو کہتے ہیں۔ ہمارے آباﺅ اجداد اتنے امیر تھے کہ اپنا سونا چاندی بٹوں میں تول تول کر رکھتے تھے۔۱
والد کا نام : مولوی غلام حسین
بڑی بہن : اقبال بیگم

اباو اجداد

 علامہ اقبال کی طرح منٹو کے اسلاف بھی کشمیری پنڈت تھے۔ منٹو کے جدامجد خواجہ رحمت اللہ اٹھارویں صدی کے اواخر میں کشمیر سے ہجرت کرکے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں آباد ہوگئے۔ وہ سوداگر تھے اور پشیمنے کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کے بیٹے خواجہ 
۱ سعادت حسن منٹو ”میری کہانی“ ماہنامہ علم و ادب۔ سالگرہ نمبر ۲۵۹۱ئ
عبدالغفور تھے اور خواجہ عبدالغفور کے بیٹے خواجہ جمال الدین منٹو کے دادا تھے۔ انہوں نے لاہور کے بجائے امرتسرمیں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ ان کے پانچ بیٹے تھے۔ جن میں سب سے چھوٹے غلام حسن منٹو کے والد تھے وہ تعلیم یافتہ تھے۔ سمرالہ میں ایک مناسب سرکاری عہدے پر فائز تھے۔ جلد ہی انہوں نے اپنا تبادلہ امرتسر میں کرا لیا اور کوچہ وکیلاںمیں رہائش اختیار کر لی۔ وہ منصف یا سب جج کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔منٹو کے والد نے دوشادیاں کیں۔دوسری بیوی سے ایک بیٹی اقبال بیگم اور اس سے چھوٹے سعادت حسن منٹو تھے۔ پہلی بیوی سے تین بیٹے محمد حسن، سعید حسن اور سلیم حسن تھے۔ ان تینوں نے ولایت میں تعلیم پائی۔ ان میں دو بیرسٹر تھے جو جزائر فیجی میں جا کر آباد ہوگئے۔ باپ کی سخت گیری اور بھائیوں کے تغافل نے منٹو کے مزاج میں تلخی پیدا کر دی تھی۔ انہیں صرف اپنی ماں سے محبت اور خاص لگاﺅ تھا۔ وہ انہیں ”بی بی جی“ کہتے تھے— اور جی جان سے انہیں چاہتے تھے۔

منٹو کے خاص احباب

منٹو کے خاص احباب باری علیگ۔ ابو سعید قریشی اور حسن عباس کے نام شامل ہیں۔ باری علیگ ان تینوں یعنی منٹو، ابو سعید قریشی اور حسن عباس کے رہبر، رہنما اور خاص مشیر تھے۔
منٹو کی تربیت میں باری علیگ کا رول
سچ پوچھئے تو منٹو کی ادبی تربیت اور شخصیت کی تعمیر میں باری علیگ کا بہت نمایاں رول ہے۔ وہ ہر مرحلے میں منٹو کے رہنما رہے اور ادب و صحافت میں منٹوکی صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔ منٹو کو باری صاحب کی سنجیدگی بھری متانت، ظرافت، خلوص، وسیع مطالعہ اور ادب و فن سے گہری وابستگی بہت بھاتی۔

تعلیم

منٹو نے ابتدائی تعلیم ایم اے او مڈل اور ہائی اسکول امرتسر میں حاصل کی۔ بعدازاں مسلم ہائی اسکول شریف پورہ امرتسر میں داخلہ لیا۔ وہ شروع ہی سے بہت شریر تھے۔ ان کی شرارتوں کی وجہ سے اسکول اور محلے کے لڑکے انہیں ”ٹامی“ کے نام سے پکارتے تھے۔ منٹو نے بہ مشکل تیسری کوشش میں میٹرک کا امتحان تھرڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ پھر انہوں نے ایف اے میں داخلہ لیا لیکن پاس نہ کرسکے۔ اس کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں داخلہ لیالیکن وہاں بھی کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکے۔

ادب و صحافت سے تعارف

منٹو کو ادبی دنیامیں متعارف کرانے کا تمام تر سہرا باری علیگ کے سر ہے۔ ان کی ذاتی توجہ سے ہی منٹو میں مطالعے کا شوق بیدار ہوا اور وہ باری صاحب کی رہنمائی میں اپنے ادبی سفر کو جاری رکھے سکے۔ باری صاحب تاریخ و معاشیات کے طالب علم تھے لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ اپنے چیلوں کو اچھے بُرے کی پہچان بتا سکنے کی صلاحیت سے عاری ہوں۔ چنانچہ وکٹر ہیوگو، میکسم گورکی، چیخوف، پشکن، گوگول، آسکر وائلڈ اور موپساں کی کتابیں زیر مطالعہ رہنے لگیں۔ منٹو— سمر سٹ ماہم کی تحریروں سے بے حد متاثر تھے۔
وکٹر ہیوگو— باری صاحب کی نظرمیں— دنیا کا سب سے بڑا ناول نگار تھا۔ منٹو اور ان کے ساتھیوں ابو سعید قریشی اور حسن عباس نے اس کی تصانیف دور دور سے منگوائیں اور انہیں درسی کتب کی طرح لگن اور انہماک سے پڑھا۔ باری صاحب کی خواہش پر منٹو نے وکٹر ہیوگو کی تصنیف ”لاسٹ ڈیزآف کنڈمڈ“ کے ترجمے کو ڈکشنری کی مدد سے اردو کے قالب میں ڈھالا اور یہ ترجمہ ”اسیر سرگزشت“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ باری صاحب نے ترجمے کی نوک پلک سنواری اور اسے یعقوب الحسن کی اشاعت کے لیے دے دیا۔ ”اسیر سرگزشت“ کی اشاعت سے منٹو میں ادب سے گہری دلچسپی پیدا ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ باری علیگ نے جس زمین میں تخم ریزی کی تھی وہ اب زرخیز ہو رہی تھی۔
مشہور ڈراما نگار آغا حشر کاشمیری امرتسر آئے تو منٹو ان سے ملاقات کے لیے گئے۔ ملاقات کے بعد انہوں نے آغا حشر کے کچھ ڈرامے پڑھے تو ان کے محاسن و مصائب اور روشن وتاریک دونوں پہلو ان پر واضح ہوگئے۔ ان ڈراموں کا موضوع ”طوائف“ تھا جو آگے چل کر خود منٹو کے افسانوں کا موضوع بن گیا۔
باری علیگ۔ مساوات بند ہونے کے بعد لاہور منتقل ہوگئے۔ چنانچہ منٹو ان سے ملاقات کے لیے لاہور گئے۔ دونوں کو اردو بک اسٹال لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو منٹو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ آغا حشر کشمیری دوکان پر کھڑے منٹو کی ترجمہ شدہ کتاب ”اسیر سرگزشت“ کے اوراق الٹ پلٹ کر دیکھ رہے ہیں جسے بعد میں انہوں نے خرید لیا۔ آغا حشر جانے لگے تو منٹو نے آٹو گراف بک نکال کر ان کے دستخط کرائے۔ یہ ان کا آغاحشر کو خراج تحسین تھا۔
منٹو کو اب لکھنے کی چاٹ پڑ گئی تھی۔ وہ اپنی پہلی کتاب کے نشے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انہیں ترغیب ہوئی کہ ایک قدم اور آگے بڑھائیں۔ انہوں نے آسکروائلڈ کے اشتراکی ڈرامے ”ویرا“ کا ترجمہ اپنے دوست حسن عباس کی شرکت میں شروع کیا۔ ختم ہوا تو اصلاح کے لیے باری صاحب کو دکھایا۔ باری صاحب سطحی نظر ڈال کر مسودہ واپس کر دیتے تھے جس سے منٹو کو اطمینان نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے ان کی خواہش تھی کہ مسودہ اختر شیرانی کو دکھائیں۔ اسی سلسلے میں مظفر حسین شمیم سے انہوں نے بات کی۔ وہ منٹو کو اختر صاحب کے پاس لے گئے۔ مدعا بتایا تو انہوں نے بخوشی حامی بھر لی۔ اختر صاحب نے زبان و بیان کی غلطیاں درست کرکے مسودہ واپس دے دیا۔ یہ منٹو کی دوسری کوشش تھی۔ اس کے بعد منٹو نے روسی افسانوں کے تراجم شروع کیے۔

پہلا فلمی تبصرہ

باری علیگ کی تحریک پر انہوں نے پہلا فلمی تبصرہ تحریر کیا جو روزنامہ ”مساوات“ امرتسر میں شائع ہوا لیکن ان کے نام سے نہیں بلکہ فلمی مبصر کے نام سے۔ منٹو کی خوشی کی انتہا نہ رہی— باری صاحب کا کہنا تھا کہ اس تبصرے کی اشاعت نے ہی سعادت کے اندر چھپے ہوئے افسانہ نگار کو بیدار کیا۔

بہ حیثیت صحافی و مدیر 

منٹو بہ حیثیت صحافی ومدیر جن اخبارات و جرائد سے منسلک رہے ان میں روزنامہ ”مساوات“ امرتسر، ہفت روزہ ”مصور“ بمبئی، ہفت روزہ ”پارس“ لاہور، ماہنامہ ”ہمایوں“ لاہور، ماہنامہ ”عالمگیر“لاہور، ہفت روزہ ”کارواں“ بمبئی، ہفت روزہ ”کہکشاں“ بمبئی، سہ ماہی ”اردو ادب“ لاہور، روزنامہ ”احسان“ لاہور، روزنامہ ”منشور“ لاہور اور روزنامہ مغربی پاکستان لاہور شامل ہیں۔
منٹو نے رسالہ ہمایوں اور رسالہ عالمگیر کے روسی اور فرانسیسی نمبر مرتب کیے جو بے حد مقبول ہوئے۔

شادی 

۶۲ اپریل ۹۳۹۱ءکو ان کی شادی صفیہ بیگم سے بمبئی میں ہوئی۔

اولاد :

منٹو کی تین بیٹیاں تھیں۔ نکہت، نزہت اور نصرت، ایک بیٹا ہوا جس کا نام عارف رکھا لیکن ڈیڑھ سال بعد اس کا انتقال ہوگیا۔

منٹو کی خاص پسند

”کریون اے“ سگریٹ اور ”جانی واکر“ شراب منٹو کی خاص پسند تھی۔

آل انڈیا ریڈیو سے وابستگی

جنوری ۱۴۹۱ءمیں منٹو بمبئی سے دہلی آگئے اور یہاں آل انڈیا ریڈیو میں ڈیڑھ سو روپے ماہوار پر بطور ڈراما نگار ملازمت اختیار کر لی۔ تخلیقی لحاظ سے یہ دور منٹو کے لیے بہت بار آور ثابت ہوا۔ ان کی فنی صلاحیتیں عروج پر تھیں۔ ان کے رفقائے کار میں کرشن چندر، اوپندر ناتھ اشک، دیویندرسیتارتھی، ن م راشد ایسے نامورادیب شامل تھے۔ ڈیڑھ سال کے عرصے میں منٹو نے اعلیٰ پائے کے سو سے زائد ریڈیائی ڈرامے لکھے جو نشر ہوئے اورانہیں بہت شہرت ملی۔ ڈیڑھ سال کی ملازمت کے بعد ۲۳۹۱ءمیں منٹو آل انڈیا ریڈیو کو خیر بادکہہ کر پھر بمبئی چلے گئے اور نذیر لدھیانوی نے انہیں دوبارہ ہفت روزہ مصور کی ادارت پر آمادہ کر لائے اورشوکت حسین رضوی کی ایک فلم کی کہانی کی پیش کش بھی کی۔ منٹو اس پر کشش پیش کش کو رد نہ کرسکے۔

منٹو فلمی دنیا میں

 بہ حیثیت افسانہ نگار و مکالمہ نگار ومنظر نویس۔ منٹو جن فلم کمپنیوںسے وابستہ رہے ان میں امپیریل فلم کمپنی۔ سروج موویٹون بمبئی ٹاکیز فلمستان بطور اداکار فلم آٹھ دن میںکام کیا۔

فلمی کہانیاں 

منٹو نے کل ملا کر بارہ تیرہ فلمی کہانیاں تحریر کیں۔ ایک فلم بعنوان ”بنجارہ“ کرشن چندر کے ساتھ تحریر کی۔ منٹو کی فلمی کہانیوں میں نوکر، مڈ (کیچڑ) بیگم، آٹھ دن، چل چل رے نوجوان، آغوش اور غالب بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ فلم ”غالب“ منٹو کے پاکستان آنے کے بعد فلمائی گئی اور اسے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔

جنوری ۸۴۹۱ءسے جنوری ۵۵۹۱ءتک

جنوری ۸۴۹۱ءمیں منٹو نے نیم دلی کے ساتھ بمبئی کو خیر باد کہا اور پاکستان آگئے حالانکہ بمبئی میں انہوں نے شہرت بھی حاصل کی اور مالی آسودگی بھی انہیں نصیب ہوئی۔ بمبئی کی فلمی دنیا میں منٹو کی بے حد عزت و توقیر تھی اور وہ شہرت کی بلندیوں پر تھے۔ بمبئی کے خاص حلقہ احباب میں کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، اوپندر ناتھ اشک، عصمت چغتائی اور خواجہ احمد عباس وغیرہ شامل تھے۔ پاکستان آتے وقت انہوں نے عصمت چغتائی کو بھی پاکستان چلنے کی ترغیب دی لیکن وہ راضی نہ ہوئیں۔ ان کی بیوی صفیہ اور بچے پہلے سے ہی لاہورمیں تھے۔ پاکستان آکر منٹو نے الاٹمنٹوں کی لوٹ کھسوٹ میں ہاتھ رنگنے کی کوشش نہیں کی بلکہ یہاں آنے کے بعدملائیت اور ربوبیت پسندانہ قوانین کے خلاف لکھنا شروع کر دیا اور انتہائی صبر آزما حالات سے دوچار ہوئے۔

منٹو کا پہلا اردو تجرمہ

باری صاحب کی رہنمائی میں منٹو نے وکٹر ہیوگو کی مشہور تصنیف ”لاسٹ ڈیز آف کنڈمڈ“ کا اردو ترجمہ کیا جو ”اسیر سرگزشت“ کے عنوان سے یعسوب الحسن مالک اوردو بک اسٹال لاہور نے شائع کیا۔ یہ پہلا ترجمہ شدہ مجموعہ ہے جس کا معاوضہ منٹو کو تیس روپے ملا تھا۔

منٹو کا پہلا طبع زاد افسانہ

تماشا ہفت روزہ ”خلق“ امرتسر کے پہلے شمارے میں فرضی نام سے شائع ہوا۔ پہلا افسانوی مجموعہ ”منٹو کے افسانے“ ہے۔

منٹو کی جن کہانیوں پر مقدمات قائم ہوئے

ان میں مملکت فرنگ میں ”کالی شلوار“ ”دھواں اور بو“ اور مملکت پاکستان میں جن کہانیوں پر مقدمات قائم ہوئے ان میں ”کھول دو“ ٹھنڈا گوشت“ اور ”اوپر نیچے اور درمیان“ شامل ہیں۔

منٹو کا پہلا اور آخری عشق

منٹو دق کا شکار ہوئے تو ڈاکٹروں اور عزیزوں نے کسی صحت افزا پہاڑی علاقے میں برائے علاج جانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ سری نگر قومی شاہراہ پر بانہال کے اس طرف بٹوت ایک پرفضا مقام ہے جہاں دق کے مریضوں کے لیے سینی ٹوریم ہے اور جہاں کی آب و ہوا میں آب حیات کی تاثیر ہے۔ منٹو بٹوت میں تقریباً تین مہینے رہے۔ جہاں انہوں نے پہلا اور آخری عشق ایک پہاڑی چرواہی سے کیا جسے وہ عمر بھر نہ بھلا سکے بلکہ کئی کہانیوں میںبھی اس لڑکی کو بیگو، وزیر اور بیگم کے نام سے یاد کیا ہے۔ ان کی کہانیاں ”بیگو“ ”موسم کی شرارت“ لالٹین، ایک خط اور مصری کی ڈلی۔ میں اس چرواہی سے عشق کا ذکر ملتا ہے جو صرف ذہنی اور روحانی تھا۔ آلائشوں سے قطعی پاک منٹو نے اس ناپختہ عشق کو ہمیشہ مقدس سمجھا۔ بٹوت میں قیام کے دوران منٹو نے جتنے رومانی افسانے لکھے ان سب کا تعلق منٹو کی ذات سے ہے۔

منٹو کے چند دلچسپ انتسابات

اخبار دین و دنیا دہلی کے نام جس میں میرے خلاف سب سے زیادہ گالیاں چھپیں (منٹو کے افسانے۔ اپنی تمام بری عادتوں کے نام (کروٹ۔ ایشر سنگھ کے نام جو حیوان بن کر بھی انسانیت نہ کھوسکا (ٹھنڈا گوشت)۔ گنج معانی حضرت غالب کے نام
ہوس گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا ہے پروبالی نے مجھے
(گنجے فرشتے)
اماں حوا کے نام (تین عورتیں)۔ اس شخص کے نام — جو میری موت پر ایسا ہی مضمون لکھے گا۔ (جنازے)۔ محمد حسین چودھری کے نام ”مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر“۔ مہدی علی صدیقی کے نام (اوپر نیچے اور درمیان)۔ ایک خالی بوتل کے نام۔ (خالی بوتلیں، خالی ڈبے)
منٹو کی جملہ تصانیف سنگ میل پبلی کیشنز لاہور کے زیر اہتمام منٹو کے ورثا کی اجازت سے تین مجموعوں میں (نثری کلیات )بعنوان ۱) منٹو نامہ (۲) منٹو نامہ اور (۳) منٹو نما شائع ہوچکی ہیں۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔ ان کتابوں کی فراہمی کے لیے ہم برادرم قمر زیدی (ویلکم بک پورٹ) کے پرخلوص تعاون کے لیے شکر گزار ہیں۔
(۱) منٹو نامہ
پھندنے
ٹوبہ ٹیک سنگھ، فرشتہ، پھندنے، بدصورتی، مس مالا، دودا پہلوان، مسٹرمعین الدین، سودا بیچنے والی، عشقیہ کہانی، منظور، مس اڈناجیکسن۔
یزید 
گورمکھ سنگھ کی وصیت، آخری سلیوٹ، جھوٹی کہانی، ٹیٹوال کا کتا، ۹۱۹۱ءکی ایک بات، چور، نکی، ممی، جیب کا کفن۔
چغد
ایک خط، ڈھارس، چغد، پڑھیے کلمہ، مس پٹن والا، بابو گوپی ناتھ، میرا نام رادھا ہے، جانکی، پانچ دن، دیباچہ۔
ٹھنڈا گوشت
زحمت، مہر درخشاں، ٹھنڈا گوشت، گولی، رحمت خداوندی کے پھول، ساڑھے تین آنے، پیرن، خورشٹ، باسط، شاردا۔
سرکنڈوں کے پیچھے:
بلونت سنگھ مجیٹھیا، آنکھیں، جاﺅ حنیف جاﺅ، شادی، اللہ دتا، بچنی، سرکنڈوں کے پیچھے، وہ لڑکی، محمودہ، پھسپھسی کی کہانی، بھنگن، ممد بھائی، حسن کی تخلیق۔
لذت سنگ 
لذت سنگ، بو، دھواں، کالی شلوار، سفید جھوٹ، افسانہ نگار اور جنسی مسائل، کسوٹی، ایک فیصلہ، ایک اور فیصلہ۔
بغیر اجازت
سونے کی انگوٹھی، تانگے والے کا بھائی، مسٹر حمیدہ، بغیر اجازت، قدرت کا اصول، خوشبو دار تیل، سنتر بنچ، جسم اور روح، اب کہنے کی ضرورت، تپش کشمیری، رشوت، قیمے کی بجائے بوٹیاں 
(۲) منٹو راما
خالی بوتلیں، خالی ڈبے
خالی بوتلیں، خالی ڈبے، سائے، ٹوٹو، رام کھلاون، بسم اللہ، ننگی آوازیں، شانتی، 
خالد میاں، دو قومیں، مجید کا ماضی، حامد کا بچہ، لائسنس، کتاب کا خلاصہ۔
سڑک کے کنارے
شاداں، لتیکارانی، نفسیاتی مطالعہ، موتری، نطفہ، سڑک کے کنارے، سراج، سوکینڈل پور کا بلب، خدا کی قسم، موذیل صاحب کرامت۔
اوپر، نیچے، درمیان
پس منظر، اللہ کا بڑا فضل، ضرورت ہے، میری شادی، کرچیں اور کرچیاں، قتل و خون کی سرخیاں، لیچیاں، آلو چنے اور الائچیاں، بن بلائے مہمان، اپنی اپنی ڈفلی، گناہ کی بیٹیاں، گناہ کے باپ، چچا منٹو کے نام۔ ایک بھتیجے کا خط، سعادت حسن منٹو کا جواب، یوم استقلال، چچا سام کے نام ایک خط، اعداد کے ساتھ، ادب اور زندگی کی چھیڑ، چچا سام کے نام دوسرا خط، چند تصویر بتاں۔ چند حسینوں کے خطوط، چچا سام کے نام تیسرا خط، باتیں، چچا سام کے نام چوتھا خط، میں افسانہ کیونکر لکھتا ہوں، چچا سام کے نام پانچواں خط، دو گڑھے، چچا سام کے نام چھٹا خط، چچا سام کے نام ساتواں خط، طویلے کی بلا، چچا سام کے نام آٹھواں خط، چچا سام کے نام نواں خط، یہ افسانہ، اوپرنیچے اور درمیان، اوپر نیچے اور درمیان۔
برقعے
پسینہ، گھوگا، تیقن، خط اور اس کا جواب، موج دین— چودھویں کا چاند، باردہ شمالی، قرض کی پیتے تھے، برقعے۔
رتی، ماشہ، تولہ
شلجم، برف کا پانی، چند مکالمے، رتی ماشہ تولہ، گاف گم، نفسیات شناس، انجام، ملاقاتی، جھمکے، سگریٹ اور فاﺅنٹن پین، تین میں نہ تیرہ میں۔
آتش پارے
خونی تھوک، انقلاب پسند، جی آیا صاحب، ماہی گیر، تماشا، طاقت کا امتحان، دیوانہ شاعر، چوری۔
منٹو کے افسانے
پیش لفظ، نیا قانون، شغل، ٹیڑھی لکیر، پہچان، شوشو، خوشیا، بانجھ، نعرہ، شہ نشین پر، بلاﺅز، اس کا پتی،موسم کی شرارت، بیگو، منتر، میرا اور اس کا انتقام، موم بتی کے آنسو، دیوالی کے دیے، ہتک، ڈر پوک، دس روپے،مسٹر ڈی کرسٹا۔

(۳) منٹو نما

گنجے فرشتے
میرا صاحب، آغا حشر سے دو ملاقاتیں، اختر شیرانی سے چند ملاقاتیں، تین گولے، باری صاحب، عصمت چغتائی، مرلی کی دھن، پری چہرہ نسیم بانو، اشوک کمار، نرگسیت، زعفران، بابو راﺅ ٹپیل ، گنجے فرشتے۔
لاﺅڈ اسپیکر
دیوان سنگھ مفتون، نور جہاں، نواب کاشمیری، ستارہ، چراغ حسن حسرت، پراسرار نینا، رفیق غزنوی، پارو دیوی، انور کمال پاشا، کے کے۔
تلخ، ترش اور شیریں
دیواروں پر لکھنا، ناک کی قسمیں، کھانسی پر، سوال پیدا ہوتا ہے، کچھ ناموں کے بارے میں، میں فلم کیوں نہیں دیکھتا، سویرے جو کل آنکھ میری کھلی، یوم اقبال پر، محبوس عورتیں، ایمان و ایقان، پردے کی باتیں، مفت نوشوںکی تیرہ قسمیں— پٹاخے، کارل مارکس، جون آف آرک کا مقدمہ، انصاف، غالب اور سرکاری ملازمت، آگرہ میں مرزا نوشہ کی زندگی، غالب اور چودھری۔

منٹو کے مضامین

چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد، کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی، دیہاتی بولیاں، تجدید اسلحہ، ہندی اور اردو، اگر، ہندوستان کو لیڈروں سے بچاﺅ، ایک اشک آلود اپیل، مجھے شکایت ہے، شریف عورتیں اور فلمی دنیا، ہندوستانی صنعت، فلم سازی پر ایک نظر، زندگی، عصمت فروشی، میکسم گورکی، سرخ انقلاب، باتیں، لوگ اپنے آپ کو مدہوش کیوں کہتے ہیں، کسان، مزدور، سرمایہ، زمیندار، ترقی یافتہ قبرستان، مجھے بھی کچھ لینا ہے۔

سیاہ حاشیے

حاشیہ آرائی مزدوری، تعاون، تقسیم، جائز استعمال، بے خبری کا فائدہ، مناسب کارروائی، کرامات، اصلاح، جیلی، دعوت عمل، پٹھانستان، خبردار، ہمیشہ کی چھٹی، حلال اور جھٹکا، کھانے کا سوڈا، حیوانیت، کھاد، کسر نفسی، استقلال،نگرانی میں، جوتا، پیش بندی، سودی، رعایت، صفائی پسندی، صدقے اس کے، اشتراکیت، ساعت شیریں، الہناہ ، آرام کی ضرورت، قسمت، آنکھوں پر چربی۔


تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد