بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد
یہ کہانی مجھے اُس نے سنائی جس کا اِس سے کوئی تعلق نہیں لیکن اُسے اصرار ہے کہ اس کہانی سے اُس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ یہ ایک عام آدمی ہے اور ایک عام سی جگہ پر مجھے اچانک ہی مل گیا تھا۔ شاید اچانک نہیں کہ میں اس کا منظر تھا اور اس سے یہ کہانی سننا چاہتا تھا۔
کہانی کا زمانہ بیسویں صدی کی پہلی، دوسری، تیسری یا کوئی بھی دہائی ہو سکتی ہے۔ انیسویں صدی بھی ہو سکتی ہے اور شاید اکیسویں صدی بھی۔ بہرحال زمانے سے کیا فرق پڑتا ہے، جگہ بھی کوئی سی ہو سکتی ہے۔ یہاں وہاں، کہیں بھی، لیکن نہیں یہ کہانی وہاں کی نہیں یہیں کی ہے۔ کرداروں کے نام بھی ا، ب، ج کچھ بھی ہو سکتے ہیں کہ نام تو شناخت کی نشانی ہیں اور ہماری کوئی شناخت ہے ہی نہیں تو پھر نام ہوئے بھی تو کیا، نہ ہوئے تو کیا۔
ایک چھوٹی سی چھاﺅنی میں کہ اس وقت چھاﺅنیاں چھوٹی ہی ہوتی تھیں، آج کی طرح پورے کا پورا شہر چھاﺅنی نہیں ہوتا تو اس چھوٹی سی چھاﺅنی میں ایک بگل چی رہتا تھا، اس کے بگل پر چھاﺅنی جاگتی تھی، صبح سویرے گہری نیند سوتے فوجی بگل کی آواز پر چونک کر اٹھتے، جلدی جلدی کپڑے پہنتے اور نیم غنودتے، قطاروں میں آکر کھڑے ہو جاتے بگل کی لے اور اس کے اتار چڑھاﺅ پر ڈرل شروع ہوتی۔ سپاہی سے افسر تک سب اس بگل کی آواز پر دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہوتے اور جب تک بگل بجتا رہتا، ان کی بھاگ دوڑ بھی جاری رہتی۔ بگل بجاتے ہوئے، بگل والے کی آنکھوں میں تفاخر کی ایک شان ہوتی، اُسے اس بات کا احساس تھا کہ اس کے بگل کی آواز پر پوری پلٹون اِدھر سے اُدھر ہو جاتی ہے اور وہ اکثر اپنی بیوی سے بھی اس کا ذکر کرتا۔
”بھلی مانس، میرا بگل نہ بجے تو پوری پلٹون سوئی رہ جائے۔“
بیوی بے نیازی سے شانے ہلاتی تو وہ کہتا ”جھوٹ نہیں بولتا، سپاہی کی تو کیا حیثیت ہے، بڑا افسر تک میرے بگل کے تابع ہے۔ پھر خود ہی اس کا سر بلند ہو جاتا میں کوئی معمولی چیز نہیں“۔
وہ اپنے بگل کو تھپتھپاتا ”پوری پلٹن کیا،ساری چھاﺅنی اس کی ماتحت ہے“۔
اب بیوی کی آنکھوں میں خاوند کیلئے ایک سرشاری کی نمی سی آجاتی، واقعی وہ سچ ہی کہتا ہو گا اور اسے بگل والے کی بیوی ہونے پر ایک فخر کا سا احساس ہوتا۔
بگل والا کبھی کبھی اپنے دوستوں سے بھی کہتا ”یہ بگل نہیں اس کی آواز میں ایک جادو ہے اور اس کا جادوگر میں ہوں“۔
چھاﺅنی میں چھوٹی موٹی پارٹیاں ہوتی ہی رہتی تھیں جس میں میاں بیوی دونوں کو دعوت دی جاتی۔ افسروں کی پارٹیوں میں تو عام سپاہیوں کو شرکت کی اجازت نہ تھی لیکن سال میں دو ایک بار بڑے دربار منعقد ہوتے جس میں سب کو دعوت دی جاتی۔ بگل والے کی بیوی کبھی کسی پارٹی میں نہ گئی، اسے احساس تھا کہ وہ ایک عام سپاہی کی بیوی ہے لیکن اب ایک عرصے سے بگل والے نے اپنی اہمیت کے ایسے ایسے قصے سنائے تھے کہ وہ اس بار بڑے دربار میں شریک ہونے پر تیار ہو گئی۔ بگل والے نے کہا ”بھلی مانس کوئی اچھا جوڑا پہننا، تم کوئی معمولی عورت نہیں، بگل والے کی بیوی ہو جس کے بگل کی آواز پر کمانڈنٹ بھی اٹینشن ہو جاتا ہے“۔
شادی کے ابتدائی دنوں کا ایک جوڑا ایسا تھا جسے دو ایک بار ہی پہنا گیا تھا۔ کہیں جانے کا موقع ہی کب ملتا تھا۔ بیوی نے جوڑا نکالا، اسے کئی رخوں سے دیکھا خوب جی لگا کر استری کیا، پہنا تو اس کی چھب ڈب ہی بدل گئی۔ بگل والا خود دم بخودرہ گیا۔ اسے پہلی بار احساس ہوا کہ اس کی بیوی بہت خوب صورت اور بڑی پروقار ہے۔ اسے اکثر افسروں کی بیویوں کو دیکھنے کا موقع ملتا رہتا تھا۔
”ایک افسر کی بیوی بھی ایسی نہیں“۔ اس نے سوچا
”ا س کے تو پاﺅں کی خاک بھی نہیں“ اور اسے یک دم ایک فخر کا احساس ہوا۔ ”اور بھی توبگل والا ہوں جس کے بگل کی آواز پر پوری کی پوری پلٹن اٹینشن ہو جاتی ہے“۔
بیوی غور سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاﺅ دیکھ رہی تھی۔
”اچھا نہیں لگ رہا؟“
”اچھا، بھلی مانس، اتنا اچھا کہ بڑے سے برے افسر کی بیگم بھی تمہارے سامنے ٹھہر نہیں سکتی“۔ وہ لمحہ بھر چپ رہا پھر بولا ”تم اب بھی اتنی ہی خوب صورت ہو، پروقار“۔
بیوی کے چہرے پر شفق کے کئی رنگ ابھرے۔
اسے ایک لمحے کیلئے خیال آیا کہ اگر یہ کسی افسر کی بیوی ہوتی اور اس طرح لش پش پارٹی میں آتی تو سارے اس کے اردگرد ہو جاتے اور طرح طرح سے اس کی تعریفیں کرتے لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے سر جھٹک کر اس خیال کو پرے پھینک دیا ”ٹھیک ہے میں سپاہی سہی لیکن معمولی سپاہی نہیں بگل بردار ہوں، میرے بگل پر تو کمانڈنٹ بھی سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے“۔ اسے ایک طمانیت کا احساس ہوا۔ اس نے بیوی پر ایک تنقیدی نظر ڈالی ”ٹھیک بالکل ٹھیک فٹ“۔
پنڈال میں عورتوں اور مردوں کے راستے الگ الگ تھے۔ وہ پہلی بار اس طرح کی کسی محفل میں آئی تھی، اس لیے گھبرائی گھبرائی سی تھی الگ الگ راستے دیکھ کر بولی ”تو تم اور میں الگ الگ ہوں گے“۔
”تو اس میں کیا ہے؟ تمہارے ساتھ اور عورتیں بھی ہوں گی“۔ پھر اس نے اپنی مونچھوں کو تاﺅ دیا۔ ”اور تم کوئی معمولی عورت تو نہیں بگل بردار کی بیوی ہو، جس کے بگل پر....“
اس نے باقی بات نہیں سنی اور جلدی سے اندر چلی گئی۔ ابھی بہت کم لوگ آئے تھے۔ کرسیاں تقریباً خالی تھیں۔ وہ سب سے اگلی قطار میں جابیٹھی جہاں صوفے لگائے گئے تھے۔ تین چار لوگ جو انتظام پر مقرر تھے،اسے اگلے صوفے پر بیٹھتے دیکھ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ ایک نے اشارے سے دوسرے سے پوچھا ”یہ کون ہے؟“ دوسرے نے نفی میں سر ہلایا۔ کچھ دیر وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے پھر ایک نے آگے بڑھ کر بڑے مودّب انداز سے پوچھا ”آپ کہاں سے تشریف لائی ہیں؟“
”یہیں سے“ اس نے اپنے انداز میں جواب دیا۔
اس کے لہجے سے پوچھنے والے کا مودّب انداز ایک دم بدل گیا۔ اس نے قدرے روکھے انداز میں پوچھا ”آپ کی تعریف“
”تعریف اسے سمجھ نہ آیا کہ تعریف کے کیا معنی ہیں۔
پوچھنے والے کا رہا سہا مودّب انداز ختم ہو گیا۔ اب کے اس نے سرد لہجے میں پوچھا ”آپ کس کی مسز ہیں؟“
مسز کے معنی اسے معلوم تھے، اس نے کہا ”بگل دار“۔
اس نے اپنی طرف سے بگل دار پر بہت زور دیا تھا لیکن سننے والا ذرا متاثر نہ ہوا بلکہ اس کے چہرے پر ایک کرختگی آگئی ”آپ پیچھے آجائیں.... یہ کمانڈنٹ صاحب کی بیگم اور ان کے مہانوں کی نشستیں ہیں“۔
ایک لمحے کیلئے اسے سمجھ نہ آیا کہ کیا کہے یا کیا کرے، پھر جیسے کوئی مشین حرکت کرتی ہے، وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور پچھلی قطار میں جا بیٹھی۔ تھوڑی دیر میں بیگمات کی آمد شروع ہو گئی۔ ایک دوسرے سے سلام دعا کرتی وہ کرسیوں پر بیٹھنے لگیں۔ آدھی سے زیادہ کرسیاں بھر گئیں۔ اتنے میں ڈپٹی کمانڈنٹ کی بیگم اندر آئی۔ انتظام کرنے والے ان کی طرف دوڑے گئے۔ جھک جھک کر آداب بجا لائے اور ان کیلئے نشست تلاش کرنے لگی۔ گھومتی نظریں اس پر ان ٹکیں۔ وہی شخص جس نے اسے صوفے سے اٹھایا تھا، پاس آیا اور بولا ”یہاں ڈپٹی صاحب کی بیگم بیٹھیں گی، آپ پیچھے چلی جائیں“۔ اسے لگا جیسے کسی نے اسے تالاب میں غوطہ دے کر باہر نکال لیا ہے۔ کچھ کہے بغیر پسینا پونچھتے ہوئے وہ اپنی جگہ سے اٹھی۔ آدھی سے زیادہ قطاریں بھر گئی تھیں۔ وہ ایک خالی قطار کے کونے میں جا بیٹھی۔ فنکشن شروع ہونے میں ابھی دیر تھی اور مہمان آرہے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے یہ قطار بھی بھر گئی۔ اس نے پچھلی دو قطاروں میں بھی خواتین بیٹھ گئیں۔ اب صرف آخری قطار خالی رہ گئی۔ اتنے میں کوائر ماسٹر کی بیوی اندر آئی۔ عہدے کے اعتبار سے تو اس کا خاوند نائب صوبے دار تھا لیکن راشن اور دوسرے چیزوں کیلئے سب کو کوائر ماسٹر کی خوشامد کرنا پڑتی تھی۔ اسے دیکھ کر انتظامیہ کے سارے لوگ اس کی طرف بڑھے اور ساتھ ہی اس کیلئے نشست کی تلاش شروع ہو گئی۔ ایک بار پھر اسے اپنی جگہ سے اٹھا گیا۔ اب صرف آخری قطار تھی۔ وہ پسینوں پسین شرم سے گردن گردن زمین میں ڈوبی اپنی جگہ سے اٹھی اور آخری قطار کی آخری کرسی پر بیٹھ گئی۔ اسے یوں لگ رہا تھے جیسے ساری خواتین مڑ مڑ کر اسے دیکھ رہی ہیں اور ایک دوسرے سے چہ میگوئیاں کر رہی ہیں۔
بگل بردار.... بگل بردار.... بگل بردار، جیسے آواز سیٹیاں بجاتی اس کے کانوں میں بگل بجا رہی تھی۔ اسے بالکل معلوم نہ ہوا کہ کب فنکشن شروع ہوا، کب ختم ہوا۔ چائے کب پی گئی اور کب لوگ ایک ایک کرکے جانے لگے۔ وہ اپنی جگہ سے ہلی تک نہیں،یوں لگ رہا تھا ، کسی نے اس کی آنکھوں کو پتھرا دیا اور ٹانگیں پتھر کی سلیں بن گئی ہیں۔
بہت دیر ہو گئی اور وہ باہر نہ نکلی تو بگل بردار اسے تلاش کرتا اندر آگیا۔ وہ اسی طرح چپ اپنی کرسی پر بیٹھی تھی جیسے کسی نے اسے اور کرسی کو ایک ہی پتھر سے تراشا ہے۔
”بھاگو ان، سب چلے گئے اور تم ابھی تک یہیں بیٹھی ہو“۔
وہ کچھ نہ بولی دو موٹے موٹی آنسو اس کے گالوں پر لڑھک گئے۔
”خیر تو ہے نا، تم ٹھیک تو ہو نا؟“ بگل بردار گھبرا گیا۔
”کچھ نہیں“۔ وہ تیزی سے اٹھی اور تقریباً دوڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔ وہ آگے آگے اور بگل بردار پیچھے پیچھے۔ راستے بھر اس نے کوئی بات نہ کی لیکن گھر کی دہلیز پار کرتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”انتی تذلیل.... اتنی تذلیل“۔
بگل بردار کے بار بار پوچھنے پور وہ ہچکیوں کے درمیان بس اتنا ہی کہہ پاتی ”اتنی تذلیل“۔
”آخر ہو کیا؟“ اب بگل بردار کو غصہ آنے لگا۔ ”کچھ کہو بھی تو“۔ معلوم نہی کیسے توڑ توڑ کر، وقفوں وقفوں سے اس نے ساری بات سنائی۔ بگل بردار چپ ہو گیا۔ کچھ کہے بغیر وہ چھت پر چلا گیا اور منڈیر پر کہنیاں ٹیک کر کسی گہری سوچ میں گم ہو گیا۔ بس ایک چپ تھی جو اس کے اردگرد سرسرارہی تھی۔ منڈیر پر کہنیاں ٹکائے وہ چھاﺅنی کی طرف دیکھتا رہا، دیکھتا رہا، پھر اچانک اس کے جی میں جانے کیا خیال آیا کہ وہ تیزی سے مڑا، نیچے آیا۔ بیوی کپڑے بدلے بغیر چارپائی پر لیٹ گئی تھی۔ سوتے میں بھی لگ رہا تھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ رہے ہیں۔ وہ چند لمحہ چپ چاپ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے دیوار سے بگل اٹھایا اور تقریباً دوڑتا ہوا باہر آگیا۔
چھاﺅنی کا سارا علاقہ سنسان تھا۔ وہ دوڑتا ہوا اس چبوترے پر چڑھ گیا جہاں کھڑے ہو کر زور صبح بگل بجایا کرتا تھا۔ایک لمحے کیلئے اس نے سوئی ہوئی بیرکوں اور بنگلوں کو دیکھا اور پوری توانائی سے بگل بجانے لگا۔
کچھ ہی دیر میں ساری چھاﺅنی میں ہلچل مچ گئی۔ بیرکوں میں سوئے ہوئے سپاہی ہڑبڑا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ گھڑیوں پر نظر ڈالی، ایک دوسرے کو دیکھا۔ بگل کی آواز مسلسل گونج رہی تھی۔ جوان افسر سب پتلونیں چڑھاتے، تسمے کستے پریڈ میدان کی طرف بھاگے چلے آرہے تھے۔ کمانڈنٹ، ڈپٹی کمانڈنٹ سب آگے پیچھے، ایک دوسرے سے پوچھتے ”کیا ہوا، اس وقت کیوں؟“
قطاریں بن گئیں، بگل مسلسل بج رہا تھا۔ چھوٹے افسر نے بڑے سے، بڑے نے اپنے بڑے سے، ڈپٹی کمانڈنٹ سے پوچھا ”سر یہ ایمرجنسی کیسی؟“
کمانڈنٹ نے نفی میں سر ہلایا۔ بگل تھا کہ مسلسل بج رہا تھا۔ اس کاسانس پھول گیا تھا۔ سینہ دھونکنی بن گیا تھا لیکن بگل، جب کمانڈنٹ نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھوں سے بگل چھینا تو اسکی آنکھوں سے آنسہ بہہ رہے تھے، بہے جارہے تھے، کچھ کہے بغیر وہ چبوترے سے اترا اور روتے روتے دوڑتا ہوا گیٹ سے باہر نکل گیا۔
خوب صورت دل میں اترتی تحریر۔
جواب دیںحذف کریں