اَنْگوٹھا اور گولی

سرد ہَوائیں سیالکوٹ کی تنگ گَلیوں میں سَرگوشِیاں کرتی ہوئی گُزر رہی تھیں، جیسے زمین کے سینے میں دَبے کِسی تلخ راز کو اُگلنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ پولیس کی سفید وین کا اِنْجِن ایک بے چِین جانور کی طرح گَڑگَڑا رہا تھا، جِس کی سانسیں کبھی لمبی ہو جاتیں، کبھی رُک رُک کر ڈولتیں۔ اَنْدَر پانچ یونیفارم میں مَلْبوس لوگ تھے، جِن کے چہروں پر تھکَن کے سائے اُتْرے ہوئے تھے، مگر عابدہ کا شورِبْیان کبھی تھم نہیں سکتا تھا۔ وہ دروازے سے جھولتی ہوئی چیخی: 

 “اَے راحت! یہ گاڑی کب چلے گی؟ میرے تو دیدے تَرَس گئے ہیں!

اُس کی آواز میں وہ کَڑواہٹ تھی جو تھانے کی ہَر بِحث کو اپنی لَپیٹ میں لے لیتی تھی۔ ڈرائیور راحت نے پیچھے مُڑ کر گھورا، “تُمہاری زُبان کو پٹرول مِل جائے تو یہ وین سُپر سانِک بن جائے!

یاسمین، جو ہمیشہ آتِش زیرِ پا رہتی، نے سَر ہلاتے ہوئے کہا، “اَے بھائی، تُمہارے چہرے پر تو ایسا غُصّہ ہے جیسے کِسی نے تُمہارے خوابوں کی دُکان لوٹ لی ہو!

وین قہقہوں سے لَرز اُٹھی۔ اِنْسْپکٹر تَرْسِیل فاطمہ، جِنہیں سب “آپا پکارتے، نے اپنی جیب سے نِکالی ہوئی نَظموں کی کِتاب بند کرتے ہوئے مُسکراتے ہوئے کہا، “صَبْر کرو... نُورکوٹ پہنچتے ہی چائے کے ساتھ سُکون مِلے گا۔

شام کا سورج جب زَرْد ہو کر ڈھلنے لگا، تو وین سیالکوٹ سے بیس کلو میٹر دُور ایک ویران سڑک پر رُک گئی۔ گَرْد آلُود ہوا میں کھجُور کے دَرَختوں کے سائے لمبے ہوتے دِکھائی دے رہے تھے، جیسے کوئی خاموشی سے زمین پر نَقشے کھینچ رہا ہو۔ اچانک وین کا اِنْجِن ایک کَرْب ناک چیخ کے ساتھ خاموش ہوا۔ راحت نے سٹیئرنگ وہیل پر اپنا ماتھا دبا لیا۔ “کیا ہوا؟" میں نے آگے جھانکتے ہوئے پوچھا۔ 

“کُچھ نہیں... بَس مُسَلْسَل ڈیوٹی کا بھُوت ہے جو بار بار تنگ کرتا رہتا ہے، وہ بڑبڑایا اور گاڑی سے کُود کر دُور کھیت کی جانب بڑھنے لگا۔ گن مین ظہیر نے اُس کی کَلائی پکڑنے کی کوشش کی، مگر راحت کا چہرہ سُرْخ تھا، جیسے اَنْدَر کوئی آتِش فشاں پھٹنے والا ہو۔ واپس لوٹا تو اُس کی آنکھیں شَرابور تھیں، “ہَر بار یہی ڈراما... اپنی بوڑھی ماں کی آنکھوں میں اُمید کا دِیا کب جَلاؤں گا؟

آپا نے اپنی سُرْخ پلکوں والی نَظروں سے اُسے گھورا، “وَعدہ ہے، اِس بار تُم عید اپنے گھر پر ہی کرو گے اور میں تُمہیں چاند رات تک گھر پہنچا دُوں گی۔

رات گئے جب ہم نُورکوٹ کے اَدْھورے مارکیٹ ہال میں پہنچے، تو ٹوٹی ہوئی کُرْسیوں اور دھُول میں دَفن قالینوں کے دَرمیان ڈیرہ ڈالا گیا۔ باہر اِنتِخاب کے پوسٹر ہوا میں ناچ رہے تھے، جیسے جَمْہُوریت کے بھُوت اپنا تَماشا دِکھا رہے ہوں۔ صبح جب تھانے پہنچے تو فائل میں ایک کیس تھا: “باپ نے بیٹے کو گولی مار دی۔

“زمین کے کاغذ پر اَنْگوٹھا نہ لگانے پر؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔ 

یاسمین نے کانوں میں سونے کی بالیوں کو ٹھونستے ہوئے کہا، “ہاں... کاغذوں نے رِشتوں کو نِگل لیا۔

حَوالات کا کمرہ نمبر 5 ایک خاموش قَبْرستان لگ رہا تھا۔ مجرم ایک شکستہ مُورتی کی طرح بیٹھا تھا۔ گندمی چہرے پر جھریوں کے دَریا بہہ رہے تھے، اور بازوؤں پر خُون کے چھینٹے ستاروں کی طرح جگمگا رہے تھے۔ جب میں نے پوچھا، “بابا جی... یہ سب کیوں کیا؟ تو اُس کی آنکھوں نے ایک لمحے کے لیے چمک بھر لی۔ 

“پُتر... وہ میری سانس تھا، میری فَصلیں سینچتا تھا، اُس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا، “شادی کے بعد اُس کی اَنگلیاں سونے کی زَنجیر بن گئیں۔ روز کہتا، بابا، زمین کے کاغذ پر اَنْگوٹھا لگا دُو، ورنہ گھر سے نِکال دُوں گا۔ کَل رات... رائفل لے کر آیا تھا۔ میں نے کہا، بیٹا، یہ کاغذ اکثر جَل جاتے ہیں یا گردآلود ہو جاتے ہیں مگر رِشتوں کے داغ نہیں مٹتے۔ وہ چِلایا، اَنْگوٹھا یا گولی! پھر ہم دونوں میں ہاتھا پائی ہوئی... اور اس کے ہاتھ میں پکڑی رائفل سے گولی چلی اور اُسی کے سینے میں اُتر گئی...

اُس نے اپنے زَخمی ہاتھوں کو دیکھا، “میں نے تو صِرف اُس کا ہاتھ تھامنا چاہا تھا... مگر وہ خود ہی خَاک میں مِل گیا۔

واپسی کے سَفَر میں ویں کی کھڑکی سے لَہلَہاتی فَصلیں نَظر آ رہی تھیں۔ ایک کسان اپنے بیٹے کے کَنْدھے پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا، جیسے زِندگی کی رَسّی کو سَنْبھال رہا ہو۔ “کیا کاغذوں کی بھُوک نے رِشتوں کو کھا لیا ہے؟" میں نے آپا سے پوچھا۔ 

آپا نے اپنا چَشْمہ اُتارا،بیٹا، جب اَنْگوٹھا لگانے سے پہلے ضَمیر کی اَنگلی ہِل جائے، تو کاغذ کی سیاہی بھی روٹھ جاتی ہے۔

اِختتام پر جب ہم نُورکوٹ کے تھانے کے باہر کھڑے تھے، تو اچانک ایک پَتھر کھڑکی سے ٹکرا کر شیشہ چکناچُور کر گیا۔ باہر کھڑے نوجوان نے چیخ کر کہا، یہ زمین ہماری ہے!

آپا نے فائل بند کرتے ہوئے کہا، دیکھو... کاغذوں کی جنگ میں اِنسانیت کا خُون ہی بہہ جاتا ہے۔

اور ہم سب نے دیکھا: حَوالات کے کمرے نمبر 5 کی دیوار پر لگا وہی پُرانا کیلنڈر، جِس پر بابا جی کا اَنْگوٹھا اب بھی گہرے سُرْخ رَنگ سے جگمگا رہا تھا۔ 

_______

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6