یہ کہانی مجھے اُس نے سنائی جس کا اِس سے کوئی تعلق نہیں لیکن اُسے اصرار ہے کہ اس کہانی سے اُس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ یہ ایک عام آدمی ہے اور ایک عام سی جگہ پر مجھے اچانک ہی مل گیا تھا۔ شاید اچانک نہیں کہ میں اس کا منظر تھا اور اس سے یہ کہانی سننا چاہتا تھا۔ کہانی کا زمانہ بیسویں صدی کی پہلی، دوسری، تیسری یا کوئی بھی دہائی ہو سکتی ہے۔ انیسویں صدی بھی ہو سکتی ہے اور شاید اکیسویں صدی بھی۔ بہرحال زمانے سے کیا فرق پڑتا ہے، جگہ بھی کوئی سی ہو سکتی ہے۔ یہاں وہاں، کہیں بھی، لیکن نہیں یہ کہانی وہاں کی نہیں یہیں کی ہے۔ کرداروں کے نام بھی ا، ب، ج کچھ بھی ہو سکتے ہیں کہ نام تو شناخت کی نشانی ہیں اور ہماری کوئی شناخت ہے ہی نہیں تو پھر نام ہوئے بھی تو کیا، نہ ہوئے تو کیا۔ ایک چھوٹی سی چھاﺅنی میں کہ اس وقت چھاﺅنیاں چھوٹی ہی ہوتی تھیں، آج کی طرح پورے کا پورا شہر چھاﺅنی نہیں ہوتا تو اس چھوٹی سی چھاﺅنی میں ایک بگل چی رہتا تھا، اس کے بگل پر چھاﺅنی جاگتی تھی، صبح سویرے گہری نیند سوتے فوجی بگل کی آواز پر چونک کر اٹھتے، جلدی جلدی کپڑے پہنتے اور نیم غنودتے، قطاروں میں آکر کھڑے ہو جاتے بگل کی لے اور اس کے ا...
سورج جب قبرستان کے گھنے درختوں سے الجھتا رینگ رینگ کر اپنے بل میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مستری نے قبر کا کام مکمل کر لیا۔ پچھلے کئی مہینوں سے اس کی یہ خواہش تھی کہ ماں کی قبر پکی کرائے لیکن خالی جیبیں اس خیال کو تھیتھپا کر آنے والے دن کی جھولی میں ڈال دیتیں، وہ اندر اندر ہی سلگ سلگ کر خیالوں ہی خیالوں میں کبھی اینٹیں کبھی سیمنٹ، کبھی ریت خریدتا، نام کی خوبصورت سی سل بنواتا اور سونے سے پہلے اس خیال کو پوری توجہ سے آنے والے دن کی جیب میں ڈال دیتا۔ بہت دن ہوئے اس کے ڈرائینگ روم میں ایک تصویر تھی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ اس کی ماں کی تصویر ہے، لیکن کچھ کا کہنا تھا کہ یہ کوئی خیالی تصویر ہے، تصویر میں ایک عورت غم میں گندھی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے خالی منظر کو گھور رہی تھی۔ خالی یوں کہ منظر میں جو وادی تھی۔ وہ اپنے دریاﺅں کے باوجود دست بدعا تھی۔ وہ اس تصویر کے بارے میں جاننے کا شوق تو رکھتا تھا اور یہ جاننا چاہتا تھا کہ اس تصویر کی وادی اتنے سارے دریاﺅ کے باوجود کسی بنجر دھند میں لپٹی ہوئی ہے۔ دریاﺅں کا پانی سوکھ کیوں گیا ہے اور زمین کے ہاتھ خالی کیوں ہوئے جارہے ہیں؟ لیکن اس کیلئے اس نے ...
(1) اسپتال کے احاطے میںاسی سے متعلق ایک چھوٹی سی عمارت بنی ہوئی ہے جس کے چاروںطرف گوکھرو، بچھوا اور جنگلی سن کے پودوں کا جنگل کا جنگل کھڑا ہے۔اس کی چھت زنگ آلود ہے، چمنی ٹکڑے ٹکڑے ہو چلی ہے، برساتی کی گلی سڑی چوبی سیڑھیوں پر گھاس اُگی ہوئی ہے اور جہاں تک دیواروں کا تعلق ہے تو انہیں غور سے دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان پر کبھی پلستر بھی کیا گیا تھا۔ اس کے سامنے کے رخ پر اسپتال ہے اور عقب میں ایک کھیت جس سے اسے باہر نکلی ہوئی ڈھیروں کیلوں والے بدرنگ جنگلے نے الگ کر رکھا ہے۔ آسمان کی طرف اشارہ کرتی ہوئی کیلوں،جنگلے اور خود اس عمارت کی خستگی کہہ رہی ہے کہ ہمارا کوئی پرسان حال نہیں اور ہمارے ہاں صرف اسپتال اور قید خانے کی عمارتیں ہی اس حالت میں ہوتی ہیں۔ بچھوے کے کانٹوں سے آپ کے رونگٹے نہ کھڑے ہوتے ہوں تو آئیے، چھوٹی عمارت تک جاتی ہوئی اس پگڈنڈی پر میرے ساتھ چلئے ذرا اندر تو جھانکیں ہم دروازہ کھولتے اور خود کو ایک گزر گاہ میں پاتے ہیں۔ اسپتال کی ردی چیزوں کے پہاڑ دیواروںاور آتش دان سے لگے کھڑے ہیں۔ گدے، پرانے اسپتالی لبادے، پتلونوں کے نیچے پہننے کے تنگ مہری کے پاجامے، دھاری ...
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں