الّو کی عدالت
کسی جنگل میں ایک الو رہتا تھا۔ وہ سارا دن آنکھیں بند کر کے برگد کے ایک پرانے درخت پر بیٹھا سوچوں میں غرق رہتا۔ اس جنگل کے تمام جانور اور پرندے اسے عقل مند سمجھتے تھے۔ جب کبھی جھگڑا ہوجاتا تو وہ الو کے پاس آتے اور الو دونوں میں صلح و صفائی کرا دیتا۔ ایک دن ایک ہاتھی اور بندر الو کے پاس آئے اور کہا: اے جنگل کے عقل مند الو! ہم دونوں میں ایک بات پر جھگڑا ہو گیا ہے۔ آپ اس کا فیصلہ کردیں۔
الو نے کہا : بتائو کیا معاملہ ہے؟
بندر کہنے لگا۔ میں کہتا ہوں چالاکی سے اچھی کوئی چیز نہیں مگر ہاتھی کہتا ہے کہ طاقت سے اچھی کوئی چیز نہیں۔ الو آنکھیں بند کر کے سوچتا رہا پھر بولا تم وہ سیب کا درخت دیکھ رہے ہو؟
دونوں نے کہا ہاں ’’ جائو میرے لئے وہاں سے کچھ سیب لائو‘‘۔ الو نے حکم دیا، دونوں ندی کے کنارے پہنچے تو ہاتھی بولا اب تمہاری سمجھ میں آیا کہ طاقت ور ہونا کتنی اچھی چیز ہے۔ آئو میری پیٹھ پر بیٹھو میں تمہیںد ریا پار کرا دیتا ہوں۔
جب دونوں سیب کے درخت کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ اس درخت پہ سیب بہت اونچائی پر لگے ہوئے تھے۔ ہاتھی نے سونڈ سے سیب توڑنے چاہے مگر کامیاب نہ ہو سکا‘ پھر درخت گرانا چاہا تب بھی ناکام رہا۔
بندر مسکرایا اور بولا: میں نہ کہتا تھا کہ طاقت اور بڑائی ہر جگہ کام نہیں آتی۔ میں نے کہا تھا کہ چالاک ہونا بہت ضروری ہے یہ کہہ کر بندر نے چھلانگ لگائی‘ درخت پر چڑھا اور سیب توڑ کر نیچے پھینکنے لگا۔
پھر وہ دونوں سیب لے کر الو کے پاس پہنچے اور بولے کہ ہم نے آپ کی شرط پوری کر دی ‘ اب بتائیے کون سی چیز اچھی ہے؟
الو بولا: طاقت اور چالاکی دونوں بہت ضروری ہیں۔ بندر ہاتھی کی مدد کے بغیر دریا پار نہیں کر سکتا تھا اور بندر کی پھرتی کے بغیر پھل حاصل کرنا ہاتھی کیلئے ناممکن تھا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں