شہزادے سے بھکاری تک
بہادر شاہ ظفر کا دورِ حکومت تھا کہ ایک جنگل میں چند شہزادے شکار کھیلتے پھر رہے تھے اور بے پروائی سے چھوٹی چھوٹی چڑیوں اور فاختائوں کو غلیل سے مار رہے تھے۔ ایک فقیر وہاں سے گزرا۔ اس نے بڑے ادب سے شہزادوں کو سلام کرتے ہوئے عرض کیا۔ ’’میاں صاحبزادو… ان بے زبان جانوروں کو کیوں ستا رہے ہو؟ انہوں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے؟ یہ جاندار ہیں۔ آپ کی طرح دکھ اور تکلیف کی خبر رکھتے ہیں۔ انہیں نہ مارو۔‘‘ شہزادہ نصیر الملک بگڑ کر بولا۔ ’’جارے جا… دو ٹکے کا آدمی ہمیں نصیحت کرنے نکلا ہے؟ سیر و شکار سب ہی کرتے ہیں۔ ہم نے کیا تو کونسا گناہ ہو گیا؟‘‘
فقیر نے کہا۔ ’’صاحب عالم ناراض نہ ہوں۔ شکار ایسے جانور کا کرنا چاہیے کہ ایک جان جائے تو پانچ دس آدمیوں کا پیٹ بھرے۔ ان ننھی ننھی چڑیوں سے کیا ملے گا۔‘‘ وہ شہزادہ فقیر کے دوبارہ بولنے سے آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے ایک پتھر غلیل میں رکھ کر فقیر کے گھٹنے پر اس زور سے مارا کہ وہ بے چارہ اوندھے منہ گر پڑا اور تکلیف سے چلانے لگا۔ ’’ہائے… میری ٹانگ توڑ ڈالی۔‘‘
اس کے گرتے ہی وہ تمام شہزادے گھوڑوں پر سوار ہو کر قلعے کی طرف چلے گئے اور فقیر گھسٹتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا۔ ’’وہ تخت کیسے آباد رہے گا جس کے وارث ایسے سفاک اور ظالم ہیں لڑکے تو نے میری ٹانگ توڑ دی۔ خدا تیری بھی ٹانگیں توڑے۔ تجھے بھی اسی طرح زمین پر گھسٹنا نصیب ہو۔‘‘ مظلوم کے دل سے نکلی ہوئی بددعائیں دیر سے ہی سہی مگر اثر ضرور دکھاتی ہیں۔ ایک سال ہی گزرا تھا کہ دہلی میں غدر پڑا۔ توپیں گرجنے لگیں، گولے برسنے لگے، زمین پر چاروں طرف لاشوں کے ڈھیر نظر آنے لگے۔ شہزادوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔ شاہی خاندان بکھر کے رہ گیا۔ شہزادہ نصیر الملک کسی نہ کسی طرح انگریزوں کی قید سے نکل بھاگا۔
ایک برس بعد دہلی کے بازاروں میں اسی شہزادے کو کولہوں کے بل گھسٹتے دیکھا گیا۔ اس کے پائوں فالج کے باعث بیکار ہو گئے تھے۔ اسی طرح وہ ہاتھوں سے ٹیک لگا کر کولہوں کو گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھتا تھا اس کے گلے میں تھیلی لٹکی ہوتی تھی اور وہ راہگیروں سے بڑی حسرت کے ساتھ بھیک مانگتا۔ بازار کی ایک گلی میں چندبچے غلیل سے کھیل رہے تھے۔ شہزادہ گھسٹتا ہوا چلا جارہا تھا کہ ایک بچے نے شرارت سے ایک پتھر غلیل میں رکھ کر شہزادے کے گھٹنے پر اس زور سے دے مارا کہ شہزادہ چیخ اٹھا۔ ہاتھ اٹھا کر اسے بددعائیں دینے لگا۔ بولتے بولتے اچانک چپ ہو گیا۔ شہزادے کو وہ وقت یادآگیا جب اس نے ایک فقیر کو غلیل کا نشانہ بنا کر زخمی کر دیا تھا۔ اس فقیر کی بددعائیں پوری ہوگئی تھیں۔ اب وہ طمطراق دکھانے والا شہزادہ گلیوں میں گھسٹتا پھرتا تھا۔ دیکھا جائے تو وہ ایک شہزادہ ہی نہیں بلکہ بے شمار مسلمانوں کی عزت و غیرت بازاروں میں گھسٹتی پھرتی تھی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں