نو ٹو ں کی کہا نی

یہ اس زمانے کا ذکرہے جب دنیا میں سکوں اور نو ٹو ں کا وجو د نہیں تھا۔ لو گ جنس کے بدلے جنس کے نظام (Barter System )کے تحت چیزو ں کا لین دین کر تے تھے۔
ایک دفعہ یو ں ہوا کہ ایک مو چی جو تے لیکر نا ن بائی کے پا س گیا اور اس سے جو تو ں کے بدلے نا ن طلب کئے۔ نا ن با ئی بو لا …’’ تم نے جو کل جو تے دئیے تھے ، اس کے بدلے میں نے شکاری سے گوشت لے لیا تھا اور پر سو ں جو جو تے دئیے تھے ، وہ میں نے پہنے ہو ئے ہیں۔ مجھے جو تو ں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہا ں البتہ میرا مٹی کا پیالہ ٹوٹ گیا ہے … تم کمہار سے پیا لا لا دو تو میں تمہیں نان دے دو ں گا۔ ‘‘
نا ن با ئی کی با ت سن کر مو چی کمہا ر کے پا س چل دیا تا کہ اسے جو تے دے کر پیالہ لے اور پھر اس پیالے کے بدلے نان حاصل کر سکے … مگر جب مو چی نے جو تو ں کے عوض پیا لہ مانگا تو کمہا ر بو لا ’’ بھا ئی موچی ! میرے پا س جو تے ہیں…ہا ں اگر تم مجھے شکا ری سے گو شت لا دو تو میں تمہیں پیالہ دے دو ں گا۔ ‘ ‘یہ سنناتھا کہ مو چی بغیر دم لئے کمہار کے پاس سے اٹھا اور سیدھا شکا ری کے پا س پہنچ گیا اور اس سے جو تو ں کے عوض گو شت طلب کیا۔
شکا ری نے کہا …’’ جو تے تومیرے پا س بھی ہیں ، میں ان کے بدلے تمہیں گو شت نہیں دے سکتا … ہا ں البتہ اگر تم مجھے نیا چا قو لا دو تو میں تمہیں گو شت دے سکتا ہو ں … کیو نکہ میرا پرانا چا قو زنگ آلو د ہو چکا ہے۔‘‘ مگر مرتا کیا نہ کر تا کے مصداق مو چی چاقو فروش کے پا س گیا تو چا قو فروش بو لا …’’ مجھے تو جو تو ں کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘
چاقو فروش کے بعد اب کوئی آسرا نہیں تھا … جس کے پا س جا کر وہ کوئی ایسی چیز لے سکتا جو چا قو فروش کو دے کر اس سے چاقو حاصل کر تا … پھر اس چا قو کے بدلے گو شت لے کر کمہار کو دیتا اور اس کمہا ر سے پیالا حاصل کر کے نان بائی کو دیتا تا کہ اس سے کچھ نا ن حاصل کر سکے۔
شدید بھو ک اور نان کے حصول میں نا کامی نے مو چی کو غصہ دلا دیا اور وہ ایک میدان میں جا کر زور زور سے چیخنے لگا۔ ’’ یہ نظام درست نہیں ہے …اس نظام کو بدلنا ہو گا۔‘‘مو چی کے چیخنے پر بہت سے لوگ وہا ں جمع ہو گئے اور جب انہیں حقیقت حال معلوم ہو ئی تو وہ سب کہنے لگے یہ صورت تو کبھی کبھی ہمارے ساتھ بھی پیش آجا تی ہے…ہمیں اس مسئلہ کا کوئی حل تلا ش کر نا ہو گا۔
بہت غور و خوض کے بعد یہ طے پا یا کہ سونے یا چاندی کو بطور زر استعمال کیا جائے … جس کو جو چیز بھی چاہئیے ہو وہ اس کے بدلے …لے لیں … پھر یہ کہ سونا اور چا ندی جو تے نہیں جو گھس جا ئیں اور نہ ہی نا ن ہیں جو با سی ہو جائیں … یہ مٹی کا پیالہ یا گو شت بھی نہیں جو ٹو ٹ جا ئے یا مڑ جائے اورنہ ہی یہ لوہے کی ایسی چیز ہے جسے زنگ لگ جائے۔ یو ں متفقہ فیصلے کے بعد پہلی دفعہ سونے اور چاندی کے سکے ڈھالے گئے۔ اب موچی سمیت تمام لو گ خو ش تھے جنہیں اپنی ضرورت کی چیز کے حصول کے لیے مارے مارے نہیں پھر نا پڑتا تھا بلکہ سونے اور چاندی کے سکوں کے بدلے انہیں وہ چیز فوراً مل جا تی تھی۔
بہت عرصہ بعد جب لو گو ں نے محسو س کیا کہ سکے تعداد میں زیادہ ہو جانے کے بعد ان کو لے کر سفر کر نا ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے تو لوگ ایک با ر پھر میدان میں جمع ہوئے اور انہو ں نے متفقہ طور پر کا غذ کے نو ٹ تیا ر کرنے کا فیصلہ کیا اور یو ں سونے اور چا ندی کے بھا ری سکوں کی جگہ کا غذ کے ہلکے پھلکے نوٹو ں نے لے لی۔ )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6