بڑوں کا بچپن اور عظیم ماں
مثالی ماں
ہر انسان بلکہ ہر جاندار اس دنیا میں رہنے کے لیے اس چیز کا محتا ج ہے کہ اس کے لیے کوئی معا ون مددگار ،مر بی ، مشفق ہستی ہو جو ہر مسئلہ ، ہر مقام پر اس کو درپیش مسائل کا کوئی آسان اور سہل حل ایسے انداز میں بتلا ئے اور سکھائے کہ اس کے ذہن کی تمام الجھنیں اور پریشانیا ں فی الفور ختم ہو جائیں اور اس کے ہر کام کا انجام اپنے پروردگار کی رضاو محبت کا حصول بن جائے۔ کیونکہ انسان کا دوسرا نا م بندہ ہے ، جس کا مطلب ہی یہی ہے کہ ہر لمحہ، ہر وقت اور ہر فعل سے یہ ظاہر ہو کہ وہ رب تعالیٰ کی بندگی یعنی اس کو یا د کر تا ہے ، کسی لمحہ بھی اس سے غافل نہیں۔ حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم اور اللہ کے ولی تھے۔ یہ ابھی بچپن کی منا زل طے کر رہے تھے کہ والد محترم کے سایہ شفقت سے محروم ہو گئے۔ ان کا اصل نام محمد غزالی تھا اور چھوٹے بھائی کا نام احمد غزالی ، دونو ں کی تربیت ان کی والدہ محترمہ نے بڑی جا ں فشانی سے کی۔ وہ بہت اللہ والی خاتون تھیں۔ دونو ں بھائیو ں کو ایک دوسرے سے بڑھ کراپنی ما ں سے محبت تھی۔اپنے سارے مسائل آکر ان کوپیش کر تے اور وہ اتنا آسان حل نکال دیتیں جس کی وجہ سے وہ بہت عمدہ طریقہ سے اپنے تعلیمی مر احل طے کرتے ہوئے وقت کے امام کہلائے۔ محمد غزالی بڑے واعظ ، شعلہ بیان خطیب تھے۔ مسجد میں ان کا بہت بڑا تفسیر و حدیث کا حلقہ ہو تا۔ تمام نما زو ں کی امامت خود کرواتے ، لو گو ں کا ایک ہجو م ان کے ارد گر د رہتا لیکن اس کے بر عکس انکے چھوٹے بھائی احمد غزالی بالکل الگ تھلگ اپنی دنیا آباد کیے ہوئے تھے۔ عالم وہ بھی تھے لیکن خلوت پسند۔ دونو ں کی طبیعت میں بہت فر ق تھا۔ احمد غزالی ہر وقت بس اپنے حجرہ شریف میں رہتے۔ وہیں عبادت و ریا ضت کرتے رہتے یہا ں تک کہ مسجد میں نما ز پڑھنے کی بجائے اپنی الگ نماز پڑھتے۔
ایک مر تبہ امام غزالی نے اپنی والدہ سے کہا امی ! لو گ مجھ پر اعترا ض کر تے ہیں کہ آپ تو اتنے بڑے خطیب اور واعظ ہیں ، مسجد کے امام بھی ہیں لیکن احمد کو نہیں نصیحت کر تے کہ وہ آپ کے پیچھے نما زپڑھے۔ آپ بھائی سے کہیں کہ وہ میرے پیچھے نما ز پڑھا کر ے۔
بھائی نے پیچھے نیت با ندھ لی لیکن عجیب با ت ہے کہ ایک رکعت پڑھنے کے بعد جب دوسری رکعت شروع ہوئی تو ان کے بھائی نے نما ز توڑ دی اور جما عت سے با ہر نکل آئے۔ جب امام غزالی نے نما ز مکمل کرلی تو ان کو بڑی سبکی محسو س ہوئی۔ وہ بہت زیا دہ پریشان ہوئے اور مغموم دل کے ساتھ گھر واپس لو ٹے۔ ما ں نے جب بیٹے کو دیکھا کہ بڑا مغموم او ر پریشان ہے تو پو چھا کیا ہو ا؟ احمد نے نما ز نہیں پڑھی کیا ؟ تو انہو ں نے جوا ب دیا بھائی نہ جا تا تو زیا دہ بہتر رہتا۔ ما ں زیادہ گھبرا گئیں بولیں کیا ما جر ا ہوا ، بتا ? تو سہی ؟ انہو ں نے عرض کی امی ! یہ گئے اور ایک رکعت پڑھنے کے بعد نماز توڑ کر دوسری رکعت میں گھر آگئے۔ ما ں نے فو راً آواز دی ادھر آئو یہ کیا کیا آپ نے ؟چھوٹا بھائی تھاتو چھو ٹا لیکن تھا اونچے درجے کے عالموںمیں سے۔ فوراً جو اب دیا امی ! میں ان کے پیچھے نما زپڑھنے لگا پہلی رکعت تو انہو ں نے ٹھیک پڑھائی ، دوسری رکعت میں ان کا دھیان اللہ کی بجائے کسی اور طرف لگ گیا۔ اس لیے میں نے ان کے پیچھے نماز چھوڑ دی اور آکر الگ پڑ ھ لی !
اب ما ں محمد کی طر ف متوجہ ہوئیں۔ کیا با ت ہے ؟ وہ کہنے لگے امی بالکل ٹھیک با ت ہے۔ نما ز سے پہلے میں فقہ کی کتاب کا مطا لعہ کر رہا تھا کہ دوسری رکعت میں دفعتاً کوئی مسئلہ ذہن میں آیااور دھیان اس طر ف مائل ہو گیا۔ اس لیے مجھ سے غلطی ہو گئی۔ ما ں نے اس وقت ایک ٹھندی سانس لی اور کہا تم دونو ں میں سے کوئی بھی میرے کا م کا نہ بنا۔ یہ جو اب سن کر دونو ں بھائی پریشان ہو گئے۔ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے معافی ما نگ لی۔ امی مجھ سے غلطی ہوئی ہے مجھے ایسا نہیںکرنا چاہیے تھا۔ آئندہ سے پوری توجہ دھیا ن سے نماز کا اہتمام کر و ں گا۔
مگر احمد غزالی رحمتہ اللہ علیہ پو چھنے لگے امی مجھے تو کشف ہو ا تھا، اس کشف کی وجہ سے میں نے نماز توڑی۔ میں آپ کے کام کا کیوں نہ بنا ؟ ما ں نے جوا ب دیا کہ تم میں سے ایک مسائل میں الجھ رہا تھا اور دوسرا پیچھے کھڑا اس کے دل کو دیکھ رہا تھا۔ تم دونوں میں سے اللہ کی طر ف تو ایک بھی متوجہ نہ تھا لہذا تم دونو ں میرے کام کے نہ بنے۔ دیکھا بچو ! اپنے وقت کے ولی بھی اپنی اصلا ح کی خاطر ما ں کے سامنے سرنگو ں ہیں جس سے پتہ چلا کہ زندگی کے ہر موڑ پر انسا ن کو ایک نا صح کی ضرورت پڑتی ہے۔ ما ں ایک عظیم درسگا ہ ہے۔ جس نے اماں کی تعظیم کی وہ اپنی منزل کو پہنچ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں آیا ہے۔ اَلجَنَّۃْ تَحتَ اَقدَامِ الاْمَّھَا تِ جنت ما ں کے قدموں تلے ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں