حضرت ضحاک بن سفیا ن رضی اللہ عنہ کا روشن کر دار

مکہ معظمہ کی فتح کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی طرف روانہ ہوئے ، ایسے میں بنو کلا ب کے مجا ہدین کی ایک جما عت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ انہو ں نے عرض کیا : ’’ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بنوہوازن کے خلا ف لڑیں گے ، ہمیں بھی جہاد کی اجا زت دیجئے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان جفا کش بدویوں کا جذبہ دیکھ کر بہت خو ش ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا : ’’تمہاری جماعت میں کل کتنے آدمی ہیں۔‘‘ جو اب میں انہوں نے کہا : ’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نو سو ہیں۔ ‘‘ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ار شا د فرمایا : ’’ اگر تم پسند کرو تو میں تمہیں ایک ایسا شہسوار دیتا ہو ں جو تمہا ری تعداد کو ایک ہزار کے برابر کر دے اور تمہاری قیا دت بھی کرے۔‘‘آپ کا مطلب یہ تھا کہ یہ وہ شہسوار ایک سو آدمیو ں کے برا بر ہو گا۔
انہو ں نے یک زبان ہو کر کہا : ’’ ضرور کیو ں نہیں ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ایک طاقت ور جسم والے صحابی رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھنے کا اشارہ فرمایا۔ وہ فوراً آگے بڑھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو کلا ب کا جھنڈا انہیں عطا فرمایا اور بنو کلاب سے فرمایا : ’’ اب تم پو رے ہزار کے برا بر ہو۔ جا ? اپنے امیر کی اطا عت کرو۔ ‘‘ یہ صاحب جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے ایک سو کے برابر قرار دیا ، حضرت ضحا ک بن سفیا ن رضی اللہ عنہ تھے۔ تا ریخ میں یہ سیا ف رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشہورہوئے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے شمشیر بر دار محافظ۔ حضرت ضحاک بن سفیان رضی اللہ عنہ کا شمار اپنے دور کے نامور بہا دروں اور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہا یت جاں نثاروں میں ہو تا ہے۔ ان کی کنیت ابو سعد یا ابو سعید تھی۔ بنو کلا ب سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ مشہور نجدی قبیلے بنو عامر کی ایک شا خ تھی۔ یہ تلوا ر اٹھائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی غر ض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھڑے رہتے تھے۔ اسی لیے انہیں سیا ف رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خطا ب ملا۔ آج کے الفا ظ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاباڈی گارڈ کہہ لیں۔ زمانہ جاہلیت میں یہ اپنے قبیلے کے معزز آدمی تھے ، شعر و شاعری کا بھی شوق تھا۔ آپ فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے ایما ن لے آئے تھے۔ مسلمان ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے انہیں اپنے قبیلے کا امیر مقرر فر مایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بنو کلا ب کے صدقات وصو ل کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی۔ ایک قبیلے بنو قر طا نے مسلمانو ں کے خلا ف سرگرمی دکھا ئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ضحا ک رضی اللہ عنہ کو ان کی طر ف روانہ فرمایا۔ قبیلہ قرطا، قبیلہ بنو بکر کی ایک شا خ تھی۔ حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ نے ان پر حملہ کیا اور انہیں شکست سے دو چار کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلا ع دی۔ غزوہ حنین میں بنو سلیم کے مجاہدین کی کما ن حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ کے ہا تھ میں تھی۔ ربیع الاول 9 ہجری میں سرو ر عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ کو خود ان کے قبیلے بنو کلاب کی طر ف روانہ فرمایا تا کہ اس قبیلے کے مشرکین کو سبق سکھایا جا سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہم کی قیادت حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ کے سپر دفرمائی۔ چنانچہ اسی بنیا د پر یہ مہم سر یہ ضحاک بن سفیا ن رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ مشرکین نے مقابلہ کیا ، لیکن حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں ان کی ایک نہ چلی اور آخر ہتھیا ر ڈال دیے۔ 11 ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو سارے عرب میں فتنہ و فسا د کی لہر دوڑ گئی۔ قبل کے قبائل مر تد ہو گئے۔ اسلام چھور بیٹھے۔ کسی نے کہا ہم زکو ۃ نہیں دیں گے تو کسی نے مسلیمہ کو نبی مان لیا۔ قبیلہ بنو سلیم بھی اس رو میں بہہ کر مر تد ہو گیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف حضرت ضحا ک بن سفیان رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا۔ حضر ت ضحاک رضی اللہ عنہ جب ان کے مقابلے میں پہنچے تو دیکھا مر تدین بہت بڑی تعداد میں تھے۔ یہ ان کے ساتھ بڑی بہا دی سے لڑے۔ زبر د ست جنگ ہو ئی …اس لڑائی میں حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ مر تدین کے خلا ف لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ لیکن ان کا خون رائیگاں نہیں گیا۔ نبو ت کے جھوٹے دعوے دار کے خلا ف حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا گیااور انہوں نے اسے شکست فا ش دی۔ جن مرتدو ں نے مسلمانو ں کے خون سے اپنے ہا تھ رنگے تھے ، انہیں قتل کر دیا گیا۔ حضرت ضحاک بن سفیا ن رضی اللہ عنہ بنیا دی طور پر ایک مجا ہد تھے اور زندگی کازیا د ہ تر حصہ جہا دی اسفار و مشاغل میں گزارا، اس لیے انہیں احا دیث بیان کر نے کا موقع نہ مل سکا۔ ان سے صرف چار احا دیث روایت کی گئی ہیں۔ سیدنا عمر فا روق رضی اللہ عنہ حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ کی رائے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان سے بہت محبت کر تے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی ان پر ہزار ہا رحمتیں ہو ں۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

سعادت حسن منٹو زندگی، شخصیت اور فن کا جائزہ