حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن عبدالعزیز
عیدالفطر کا زمانہ تھا، ہر شخص اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے نئے کپڑ ے خریدنے میں مصروف تھا، جب بڑوں میں عید کے لئے یہ گہما گہمی موجود تھی تو بچے کہاں اس خوشی کے موقع سے غافل رہتے، چنانچہ تمام بچوں نے اپنے اپنے والدین سے عید کے لئے کپڑوں کی خواہش ظاہر کی اور تمام بچوں کی خواہش کی تکمیل بھی کردی گئی، اب یہ بچے اپنے نئے کپڑے اپنے دوستوں کو دکھانے لگے، بچے تو پھر بچے ہی ہوتے ہیں چاہے وہ کسی غریب کے ہوں یا امیر کے، وہ عام شخص کے بچے ہوں یا امیرالمومنین کے بچوں نے بھی اپنی خواہش والدہ صاحبہ سے کردی۔ دن بھر کے کاموں کو سمیٹ کر جب امیرالمومنین رات کو گھر تشریف لائے تو اہلیہ نے بچوں کی خواہش کا ان کے سامنے اظہار کردیا کہ بچے نئے کپڑے مانگ رہے ہیں۔ امیرالمومنین خاموش رہے، کوئی جواب نہ دیا اور آرام کی غرض سے لیٹ گئے لیکن نیند کہاں آتی۔ یہ نئی پریشانی جو سر پر آپڑی تھی، وہ سوچنے لگے کہ گھر میں خریدنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ دوسری طرف بچوں کی خواہش تھی اس کو رد کرنا ناگوار تھا، سوچتے سوچتے ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ بیت المال سے اگلے مہینے کی تنخواہ پیشگی لے لیتا ہوں جس سے بچوں کی خواہش کی تکمیل ہوجائے گی اور اگلے مہینے کے راشن کے لیے اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی انتظام فرمادیں گے، یہ سوچ کر ان کو کچھ اطمینان ہوا۔ اگلے دن صبح ہی امیرالمومنین بیت المال کے ذمہ دار کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے اپنی حاجت بیان کی کہ ’’مجھے اگلے مہینے کی تنخواہ پیشگی دے دو‘‘ بیت المال کے ذمہ دار نے جواب دیا ’’امیرالمومنین! اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ ایک مہینے تک زندہ رہیں گے اور پورے مہینے اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے دیں گے‘‘ امیرالمومنین اس بات کے ساتھ لاجواب ہوگئے اور خالی ہاتھ ہی واپس لوٹ آئے اور اہلیہ سے سارا قصہ بیان کیا اور کہا کہ ہمارے بچے اس عید پر پرانے ہی پہن سکیں گے۔
چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ عید کے دن تمام لوگوں نے نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں لیکن امیرالمومنین کے بچے پرانے کپڑوں میں نماز کے لئے عیدگاہ کی طرف آرہے ہیں۔ دنیا اس عدل و انصاف اور زہد و تقویٰ کے علم بردار امیرالمومنین کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن عبدالعزیز کے نام سے جانتی ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں