اشاعتیں

مئی, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ابتدائیہ

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو آنکھیں دیکھنے کے لیے دی ہیں اور ایک آنکھ تحت الشعور میں عطا کی ہے جو ہمیں نظر تو نہیں آتی لیکن ہم شعوری طور پر اُس کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں۔ اُس آنکھ کا ذہن میں آتے ہی انسانی شعور میں روشنی کی شفاف لہریں رقص کرنے لگتی ہیں۔ انسان اُس آنکھ کو لاشعور سے تشبیہ دیتاہے یعنی اکثر انسان کہتا ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس کا نتیجہ ایسے ہوگا.... ویسے ہوگا....اس طرح ہوگا.... کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان لاشعور میں مستقبل دیکھنے کی کوشش اپنے تئیں کرتا ہے۔ وہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے اس کے مطلق تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہماری وہ آنکھ اچھائی اور بُرائی میں فرق کرسکے تو ہمارے قلب و ذہن اور ہمارے وجود کو روشن کرسکتی ہے اور اگر ہماری آنکھ اچھائی اور بُرائی میں تمیز نہ کرسکے تو ہمارے قلب و ذہن کے ساتھ ساتھ ہمارا پورا جسم بھی تاریک ہو جاتا ہے۔ میں نے اپنے شعور کی آنکھ سے زندگی کو پرکھ کر دیکھا ہے۔ مستقبل کو دیکھا ہے کس طرح دیکھا ہے، میں کہاں بُرائی ، اچھائی کو محسوس کیا ہے۔ اور ان کا حل شعورکی آنکھ سے کیا نکالا ہے۔ ان سب کا تجزیہ میں نے اپنے افسان...

پہلی بات

پچھلی چند دہائیوںمیں اردو ادب کا چولا بالکل بدل گیا ہے۔ نئے افسانہ نگار اور شاعروں نے ہمارے ادبی خزانے میں بیش بہا اضافے کئے ہیں اور مزید نئے افسانہ نگار، شاعر ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ان نئے افسانہ نگاروں میں عبدالرزاق کا نام بالکل نیا ہے ۔ان کی تحریروں کے بارے میں کچھ کہنا غیرضروری سا معلوم ہوتا ہے۔ اہلِ نظر پر خود ہی عیاں ہو جائے گا کہ افسانہ نگار نے کام کی بات کہاں کہاں کہی ہے اور اِس کا زاویہ نظر کتنا اور کیسا ہے۔ وہ کس حد تک انسانی فطرت کو پرکھ کر اپنے خیالات کو کس خوش سلیقگی کے ساتھ قاری تک پہنچانے میں کامیاب ہوا ہے۔ محض خوشہ چینی کی گئی ہے یا ذاتی اپچ کی پرچھائیاں بھی نظر آتی ہیں۔ اسلوب تحریر بے کیف، خشک اور الجھا ہوا ہے۔ یا قابلِ برداشت.... ان سوالوں کے جواب خود بخود ملتے جائیں گے۔ سچ پوچھئے تو اِس کتاب کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ نہ یہ جواہرات کا صندوقچہ ہے اور نہ خرافات کا پوٹ!  یہ مختصر کہانیاں سماج میں چاروں اَور پھیلے ہوئے آکاش بیل کی کہانیاں ہیں۔ باطنی اور خارجی مشاہدات پر مبنی یہ کہانیاں مجھے ایسے معاشرے میں لے گئیں جہاں لوگوں کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹتا جا ...

حرامی

اکتوبر کی ایک خوشگوار صبح تھی۔ سورج ابھی نہیں نکلا تھا، شہر سے دور اس قصبے کی چوڑی چوڑی اور سانپ کی طرح بل کھاتی گلیاں خالی خالی اور ویران ویران سی لگ رہی تھیں۔ بس اکا دکا لوگ ہی آ جا رہے تھے۔ ایسے میں بستی میں صبح سویرے درختوں پر چڑیوں کی چہچہاہٹ بہت بھلی لگ رہی تھی۔ اتنی صبح صرف وہی لوگ گھروں سے باہر نکلتے تھے جنہیں دور شہر ملازمت کے لیے جانا ہوتا تھا اور انہیں بروقت ڈیوٹی پر حاضر ہونے کے لیے صبح سویرے نکلنا پڑتا تھا۔ ان میں سے ایک نوجوان بھی ہر روز نظر آتا تھا وہ بھرے بھرے جسم کا خوبصورت نوجوان تھا۔ اس نے اپنی سائیکل کے پیچھے ایک بڑا سا چھابہ باندھا ہوتا تھا جس سے گمان ہوتا کہ یہ شخص شہر کی فروٹ منڈی سے کوئی پھل وغیرہ خرید کر شہر میں گھوم پھر کر بیچتا ہے، بہرکیف جو کچھ بھی تھا توجہ طلب بات یہ تھی کہ اس کے ساتھ ایک چھ، سات سالہ صحت مند بچہ سکول کے یونیفارم میں ملبوس بھی ہوتا تھا جسے دیکھ کر اس نوجوان کے چہرے پر مسکراہٹ کھل جاتی تھی اور وہ بہت مسرور دکھائی دیتا تھا اور بچہ بھی باپ کی سائیکل پر بیٹھا بہت خوش دکھائی دیتا تھا۔ بستی میں کوئی سکول نہ تھا اور نہ ہی اس بستی کے باسی تعلیم ح...

تقدیر

شہر کے معروف چوک میں جلوس کے شرکاءنے ٹائروں کو جگہ جگہ آگ لگا کر سڑک بلاک کر رکھی تھی، جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا تھا۔ جلوس اپنے پورے عروج پر تھا ہر آنکھ اشک بار تھی ہر کسی کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا : ”سلیم جان کو پھانسی دو، سلیم جان کو پھانسی دو، سلیم جان کو جلد گرفتار کرو۔“ جلوس کے شرکاءاس قدر جذباتی پن کا مظاہرہ کر رہے تھے جس سے خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں لوگ حد سے زیادہ مشتعل ہو کر گاڑیوں پر پتھراﺅں کرنا شروع نہ کر دیں۔ حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے انتظامیہ نے بروقت جلوس کے قائدین کے ساتھ کامیاب مذاکرات کرکے ان کو یقین دلایا کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں سلیم جان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ انتظامیہ کی یقین دہانی کے بعد جلوس منتشر ہوگیا۔ شہر میں سیاسی پارٹیوں کے جلوس تو نکلتے ہی رہتے ہیں مگر یہ جلوس کل کے واقعے کی وجہ سے رونما ہوا تھا۔ واقعہ بھی ایسا جس نے ہر شخص کو رلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ جلوس ان بے کس، مجبور اور حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کا جلوس تھا جو سارا سارا دن محنت مزدوری کرنے کے باوجود غریب ہی رہتے ہیں۔ یہ لوگ بچیوں کی شادیاں کرنے کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر کمیٹیاں ...

فیصلہ

غلام حسین نے بڑی ہمت باندھ کر بہت دنوں کے بعد آج تانگہ باہر نکالا تھا اور وہ گاﺅں کے اونچے نیچے راستوں سے ہچکولے کھاتا ہوا تانگہ بڑی سڑک پر لے آیا۔ لیکن یہاں اسے دور دور تک کہیں کسی سواری کا کوئی آثار دکھائی نہ دیا اور نہ ہی کچھ دیر بعد کوئی سواری ملنے کا امکان تھا، جس کی وجہ تھی شدید بارش۔ بارش جو دو دن سے مسلسل ہو رہی تھی اور اس نے معمولاتِ زندگی کو متاثر کرکے رکھ دیا تھا اور لوگ گھروں میں قید ہو کر رہ گئے تھے۔ اب بارش بہت ہلکی ہوچکی تھی، اس میں وہ شدت نہ تھی جو پہلے تھی چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کیوں نہ تانگہ شہر کی طرف موڑ لیا جائے کیونکہ بارش کی وجہ سے شہر دریا کا نظارہ پیش کر رہا ہوگا۔ کھڑے پانی کی وجہ سے رکشہ ،ٹیکسی اور ویگن تو چل نہیں رہی ہوگی اور سواریوں کا بے پناہ رش ہوگا اور میری اچھی خاصی دھیاڑی لگ جائے گی۔ کیونکہ بارش میں آمدورفت کا بہترین ذریعہ تانگہ ہی تو ہوتا ہے۔ اس سوچ کے آتے ہی اس نے اپنے تانگے کا رخ شہر کی طرف موڑ دیا۔ تھوڑا ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد تانگہ ایک نشیبی راستے سے گزرا جہاں پر بارش کا پانی کھڑا تھا اور اس پانی میں بچے نہا رہے تھے۔ ان بچوں کی شرارتیں دیکھ کر...

دلی سکون

کتاب بینی میں وہ اس قدر مگن تھا کہ اسے احساس ہی نہ ہوا کہ رات کتنی بیت گئی ہے۔ اس کا احساس اسے تب ہوا جب اچانک چھت پر کسی کے چلنے کی آواز سنائی دی وہ جو مطالعہ میں اس قدر مگن تھا فوراً آواز کی طرف متوجہ ہوگیا اور اس نے کچھ ثانیاً ایسے ہی بیٹھے بیٹھے چھت سے آنے والی آہٹ کا بغور جائزہ لینے کے لیے اپنی ساری توجہ اس آہٹ کی طرف لگا لی پھر وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ چھت پر کوئی شخص ہے جو چوری کی نیت سے آیا ہے اور ساتھ ہی اس کے دل میں خیال ابھرا کہ کیوں نہ اوپر جاکر اس کو دبوچ لیا جائے، قبل اس کے کہ وہ نیچے آئے لیکن پھر اسے اپنا فیصلہ ترک کرنا پڑا وہ اس لیے کہ جب وہ پڑھنے کے لیے بیٹھا تھا تو اس وقت دھند بہت زیادہ تھی اور اب جبکہ رات بہت گہری ہوگئی ہے جس کی وجہ سے دھند اور بھی زیادہ گہری ہوگئی ہوگی۔ اگر میں اس شدید دھند میں اوپر گیا اور وہ چور دھند اور میرے بڑھاپے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے نقصان پہنچا کر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو جائے۔ لہٰذا مجھے ایسا رسک نہیں لینا چاہیے جس سے مجھے نقصان پہنچنے کا خطرہ درپیش ہو۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنا پہلا فیصلہ ترک کرتے ہوئے دوسرا فیصلہ کیا کہ سیڑھیوں کی ا...

ماں

ریحانہ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ نسرین کو کیا ہو جاتا ہے جب اس کی پندرہ ماہ کی بیٹی اس کو ماں کہہ کر پکارتی ہے حالانکہ اسے خوش ہونا چاہیے تھا کہ وہ اس مقام پر پہنچ گئی ہے جس کے پیروں تلے جنت ہے۔ اس کے باوجود ماں کا لفظ سنتی تو اس کے اوسان خطا ہو جاتے۔ اس کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا جاتا، جسم اس کا ایسے سن ہو جاتا جیسے روح اور جسم کا رشتہ ٹوٹ چکا ہو۔ وہ خود پر قابو پانے کی بہت کوشش کرتی لیکن ہر بار ناکام رہتی۔ جس کی وجہ سے وہ کچھ گھبرائی گھبرائی سی لگتی تھی۔ نسرین کے ہنستے مسکراتے چہرے پر کچھ دنوں سے اُداسی اور پریشانی عیاں تھی اور وہ کسی انجانے خوف سے گھبرائی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ گھر کے کام کاج میں اس کی بے خیالی اور عدم دلچسپی دیکھی جاسکتی تھی۔ کل ہی کی بات ہے اس نے ہنڈیاں میں بے خیالی میں دو مرتبہ نمک ڈال دیا تھا، ہر وقت پریشان پریشان دکھائی دیتی۔ اکثر وہ چپ چاپ بیٹھی دیوار پر لگی تصویر کو ٹُکر ٹُکر ایسے ہی دیکھتی رہتی جیسے یہ تصویر اس کی کسی عزیزہ کی ہو بلکہ یہ تصویر وہ خود بازار سے خرید کر لائی تھی کیونکہ اس میں ممتا کے جذبات کی عکاسی ہوتی تھی۔ ریحانہ اور نسرین کے درمیان کو...

ایسا بھی ہوتا ہے

یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب میں بی ایس سی میں فرسٹ آیا تو والد صاحب نے میرے فرسٹ آنے کی خوشی میں مجھے گاڑی تحفتاً دی تھی۔ میں گاڑی ملنے کی خوشی سے سرشار تھا لہٰذا میں گاڑی لے کر شہر کی سڑکیں ماپنے کے لیے نکل پڑا۔ شہر بھر کی مختلف سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے کرتے میں نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ گیا کہ معماً مجھے اپنی گاڑی روکنا پڑی کیونکہ سڑک لوگوں کے ہجوم کی بدولت قدرے بند ہوچکی تھی۔ میں نے گاڑی میں ہی بیٹھے بیٹھے مجمع بھر میں نگاہ دوڑائی تو میری نظر ایک مفلوک الحال شخص پر پڑی جس کو لوگوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا اور ایک قدرے صحت مند بھاری بھرکم شخص جس کے چہرے پر غصے اور بے رحمی کے آثار نمایاں تھے وہ بڑی بے دردی کے ساتھ مفلوک الحال شخص کو ٹانگوں اور گھونسوں سے مار پیٹ رہا تھا۔ مجمعے میں کھڑے افراد بھاری بھرکم شخص کو روک نہیں رہے تھے بلکہ اسے مزید اشتعال دلا رہے تھے۔ لوگوں کی معاونت شاملِ حال ہونے کی بنا پر وہ شخص مزید اشتعال میں آچکا تھا اور اس کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہ لے رہا تھا مجھ سے یہ سب کچھ دیکھا نہیں جا رہا تھا اور میں خدائی فوج دار بن کر اس مجمعے کو چیڑتا ہوا وہاں پہنچ گیا اور...

مونا

مجھے شعبہ تدریس سے وابستہ بیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے، اس دوران میں نے بہت سے بچوں کو علم کے نور سے منور کیا ہے۔ ان بیس سالوں میں میرے بہت سے شاگرد ہوئے ہیں اب اگر ان میں سے کوئی میرے سامنے بھی آئے تو میں اس کے نام اور شکل سے بھی واقف نہیں ہوگا لیکن چند ایک طالب علم ایسے بھی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی یاد نہیں مٹتی وہ ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ شاید وہ یاد رہنے کے قابل ہوتے ہیں، ایسے ہی شاگردوں میں سے میری ایک ہونہار شاگرد مونا بھی تھی جس کی موت کا سن کر مجھے شدید صدمہ ہوا ہے اور میرے ہاتھ آج زندگی میں پہلی بار اپنی ذاتی ڈائری لکھنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ آج سے بیس برس پہلے کا واقعہ ہے جب میں بی اے کرنے کے بعد نہ صرف اپنے گھر پر بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا بلکہ کچھ طالب علموں کو ان کے گھر جا کر بھی پڑھایا کرتا تھا۔ ایک روز بادل کھل کر برسے تھے اور بارش رکنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔ اس وقت میں اپنے شاگرد کو پڑھانے اس کے گھر گیا ہوا تھا چنانچہ میں بارش رکنے کا خیال کرکے اپنے اسی شاگرد کے ہاں رک گیا اور کافی دیر بارش رکنے کا انتظار کرتا رہا لیکن بارش تھمنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔ مجھے...