ابتدائیہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو آنکھیں دیکھنے کے لیے دی ہیں اور ایک آنکھ تحت الشعور میں عطا کی ہے جو ہمیں نظر تو نہیں آتی لیکن ہم شعوری طور پر اُس کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں۔ اُس آنکھ کا ذہن میں آتے ہی انسانی شعور میں روشنی کی شفاف لہریں رقص کرنے لگتی ہیں۔ انسان اُس آنکھ کو لاشعور سے تشبیہ دیتاہے یعنی اکثر انسان کہتا ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس کا نتیجہ ایسے ہوگا.... ویسے ہوگا....اس طرح ہوگا.... کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان لاشعور میں مستقبل دیکھنے کی کوشش اپنے تئیں کرتا ہے۔ وہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے اس کے مطلق تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہماری وہ آنکھ اچھائی اور بُرائی میں فرق کرسکے تو ہمارے قلب و ذہن اور ہمارے وجود کو روشن کرسکتی ہے اور اگر ہماری آنکھ اچھائی اور بُرائی میں تمیز نہ کرسکے تو ہمارے قلب و ذہن کے ساتھ ساتھ ہمارا پورا جسم بھی تاریک ہو جاتا ہے۔ میں نے اپنے شعور کی آنکھ سے زندگی کو پرکھ کر دیکھا ہے۔ مستقبل کو دیکھا ہے کس طرح دیکھا ہے، میں کہاں بُرائی ، اچھائی کو محسوس کیا ہے۔ اور ان کا حل شعورکی آنکھ سے کیا نکالا ہے۔ ان سب کا تجزیہ میں نے اپنے افسان...