تقدیر
شہر کے معروف چوک میں جلوس کے شرکاءنے ٹائروں کو جگہ جگہ آگ لگا کر سڑک بلاک کر رکھی تھی، جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا تھا۔ جلوس اپنے پورے عروج پر تھا ہر آنکھ اشک بار تھی ہر کسی کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا :
”سلیم جان کو پھانسی دو، سلیم جان کو پھانسی دو، سلیم جان کو جلد گرفتار کرو۔“
جلوس کے شرکاءاس قدر جذباتی پن کا مظاہرہ کر رہے تھے جس سے خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں لوگ حد سے زیادہ مشتعل ہو کر گاڑیوں پر پتھراﺅں کرنا شروع نہ کر دیں۔ حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے انتظامیہ نے بروقت جلوس کے قائدین کے ساتھ کامیاب مذاکرات کرکے ان کو یقین دلایا کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں سلیم جان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ انتظامیہ کی یقین دہانی کے بعد جلوس منتشر ہوگیا۔
شہر میں سیاسی پارٹیوں کے جلوس تو نکلتے ہی رہتے ہیں مگر یہ جلوس کل کے واقعے کی وجہ سے رونما ہوا تھا۔ واقعہ بھی ایسا جس نے ہر شخص کو رلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ جلوس ان بے کس، مجبور اور حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کا جلوس تھا جو سارا سارا دن محنت مزدوری کرنے کے باوجود غریب ہی رہتے ہیں۔ یہ لوگ بچیوں کی شادیاں کرنے کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر کمیٹیاں ڈالتے ہیں پھر ان کے نکلنے کی دعائیں مانگتے ہیں، جب کمیٹی نکلتی ہے تو اس وقت تک دوسری بیٹیاں جوان ہوچکی ہوتی ہیں۔ یہ لوگ غریبی میں بھی قرضہ اٹھا کر اور اپنی استطاعت سے بڑھ کر بچی کو جہیز دیتے ہے لیکن پھر بھی بعض غریب کی بچیوں کے نصیب میں سسرال کا سکھ نہیں لکھا ہوتا۔
شکیلہ کی شادی کو دو سال کا عرصہ بیت جانے کے باوجود اس کی ساس نے اسے کبھی بھی دل سے قبول نہ کیا تھا اور وہ کوئی موقع ذلیل کرنے کا ہاتھ سے جانے نہ دیتی تھی۔ وہ اسے شوہر کی نظروں سے گرانے کے لیے طرح طرح کی تدابیر پر عمل پیرا رہتی تھی۔ شکیلہ کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ جہیز کم لائی تھی اور اسی وجہ سے وہ ساس کی آنکھوں میں کھٹکتی تھی۔ اس پر ذرہ ذرہ سی بات پر طعنے، طنز کی جاتی۔ اب تو اس کی ساس نے اسے مارنا پیٹنا بھی شروع کر دیا تھا، وہ کیوں نہ ایسا کرتی اسے اپنے بیٹے کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ سلیم جان کے گھر میں پہلا قدم رکھتے ہی ماں نے جو پٹی پڑھا دی وہ اسی پر قائم رہتے ہوئے نہ آﺅ دیکھا نہ تاﺅ اپنی بیوی کو بے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کر دیتا۔ شوہر کی زیادتیوں سے تنگ آ کر اگر وہ والدین کے گھر بیٹھ جاتی تو سلیم جان اس کے والدین کے پاس معافیاں مانگنے پہنچ جاتا اور وہ شکیلہ کو حالات کا مقابلہ صبر شکر کے ساتھ کرنے اور تقدیر کے اچھے دنوں کے انتظار کا کہہ کر واپس شوہر کے گھر بھیج دیتے۔ شکیلہ دو سال سے تقدیر کے اچھے دنوں کے انتظار میں شوہر کے ظلم و ستم سہہ رہی تھی۔ لیکن تقدیر کے اچھے دن تو نہ آئے البتہ برے دن ضرور آتے رہے۔ دن بدن بڑھتے ہوئے لڑائی جھگڑوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اس کی کوئی تدبیر بھی بارآور نہیں ہو رہی تھی بلکہ حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے تھے۔ جب بندے کی تقدیر اس سے روٹھ جائے تو کوئی بھی تدبیر بار آور نہیں ہوتی۔ شکیلہ کی تقدیر بھی اس سے روٹھ گئی تھی یا پھر دنیا بنانے والے نے شکیلہ کی تقدیر میں صرف دُکھ لکھے تھے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ نے اس کی ساس اور شوہر کو عقل نصیب نہ کی ہو، بہرحال جو کچھ بھی تھا نقصان تو شکیلہ کو ہی تھا۔
شوہر کی مار اور جہیز کم لانے کے طعنے سُن سُن کر شکیلہ ذہنی مریضہ بنتی جا رہی تھی۔ گھر میں آئے روز چھوٹی چھوٹی باتوں پر ساس بہو کے درمیان جھگڑے ہوتے اور اس کا سبب بھی شکیلہ کو ٹھہرایا جاتا۔
ایک دن سلیم جان خرابی صحت کی وجہ سے آفس سے جلدی چھٹی لے کر گھر واپس آیا تو گھر کا ماحول حسبِ معمول افسردہ تھا۔ کھانے پینے کی اشیاءاور جوٹھے برتن بکھرے پڑے تھے اور ان پر مکھیوں نے قبضہ جمایا ہوا تھا۔ سلیم جان کے گھر میں داخل ہوتے ہی مکھیوں کا جتھہ پُھوں پُھوں کرتا غصے سے یوں منتشر ہوا جیسے سڑک کنارے ریڑھیاں لگانے والے کارپوریشن کے عملے کو دیکھ کر تتربتر ہو جاتے ہیں اور ان کے واپس جانے کے بعد دوبارہ اپنے اپنے اڈوں پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی سلیم جان کے آگے جاتے ہی مکھیاں دوبارہ پُھوں پُھوں کرتی اپنی اپنی مصروفیات میں مگن ہوگئیں۔
سلیم جان خرابی صحت کی وجہ سے گھر کے بدلے ماحول کو نظرانداز کرتا ہوا آرام کرنے کی غرض سے جلد اپنے کمرے میں داخل ہونا چاہتا تھا کہ ساتھ والے کمرے میں اس کی والدہ کے رونے کی آواز سنائی دی جو شکیلہ کو گالیاں نکالتی اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتی :
”بدبخت اپنی سگی ماں کو بھی ایسے بے دردی سے مارتی پیٹتی رہی ہوگی جس طرح یہ مجھے مارتی ہے۔“
یہ الفاظ سنتے ہی سلیم جان کے تن بدن میں آگ لگ گئی حالانکہ شکیلہ نے کبھی بھی اپنی ساس پر ہاتھ نہ اٹھایا تھا اور نہ آج ایسا کیا تھا۔ وہ کیسے ہاتھ اٹھا سکتی تھی نہ اسے شوہر کا تحفظ نہ اپنے والدین کا تحفظ حاصل تھا۔ بہرکیف واقعہ کوئی اتنا سنگین نہ تھا جتنا نظر آ رہا تھا بس بات توں طراہ سے شروع ہو کر گالی گلوچ تک پہنچ کر ختم ہوگئی تھی۔
شکیلہ کو نہیں معلوم کہ وہ سسرال میں اپنا جائز مقام کیوں حاصل نہ کرسکی حالانکہ خدمت کرنے میں وہ پیش پیش رہتی تھی پھر بھی ساس کی آنکھوں میں کھٹکتی رہتی اور وہ اسے ذلیل کرنے کے موقع کی تلاش میں رہتی۔ آج بھی اس کی ساس نے اسے شوہر کی نظروں سے گرانے اور اشتعال دلانے کے لیے جھوٹی تہمت لگائی تھی اور اس کا تیر ٹھیک نشانے پر لگا تھا۔
سلیم جان کے کانوں میں ماں کی بات کا پہنچنا تھا کہ وہ غصے سے سرخ ہوگیا اور بے دردی سے اپنی بیوی کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ غصے میں اس قدر جذباتی ہوگیا تھا کہ اس نے یہ پوچھنے اور تصدیق کرنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ واقعی شکیلہ نے اپنی ساس پر ہاتھ اٹھایا بھی ہے کہ نہیں۔ بس اپنی ماں کی بات کو حقیقت مانتے ہوئے اس نے اپنی بیوی کو بے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کر دیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں جو کوئی شے آتی وہ بیوی کو دے مارتا۔ آخرکار غریب کی مظلوم، بے کس، بے بس بیٹی پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔
شکیلہ کی موت پر جلوس نکالنے والوں کا غم و غصہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا پڑ رہا تھا اور یہ غصہ بالکل ٹھنڈا اس لیے پڑ گیا کہ سلیم جان عدالت میں یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ شکیلہ کی موت اتفاقی حادثہ تھا۔ قتل کی سازش نہیں اور لوگ اس کی موت کو اتفاقی حادثہ مان کر کب کا بھول گئے تھے حالانکہ اس کے مرنے پر جتنا زبردست جلوس نکلا تھا اور اس میں غم و غصے کا اظہار جس انداز سے لوگوں نے کیا تھا اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ پولیس سلیم جان کو جلد از جلد گرفتار کرکے ٹھیک رُخ تفتیش کرے گی جس کے نتیجے میں اس پر الزام ثابت ہو جائے گا لیکن یہ صرف قیاس ہی رہا نہ تو وہ جلد گرفتار ہوا نہ ہی اسے پھانسی ہوئی بلکہ وہ شکیلہ کی موت کو اتفاقی حادثہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا۔
—————
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں