دلی سکون

کتاب بینی میں وہ اس قدر مگن تھا کہ اسے احساس ہی نہ ہوا کہ رات کتنی بیت گئی ہے۔ اس کا احساس اسے تب ہوا جب اچانک چھت پر کسی کے چلنے کی آواز سنائی دی وہ جو مطالعہ میں اس قدر مگن تھا فوراً آواز کی طرف متوجہ ہوگیا اور اس نے کچھ ثانیاً ایسے ہی بیٹھے بیٹھے چھت سے آنے والی آہٹ کا بغور جائزہ لینے کے لیے اپنی ساری توجہ اس آہٹ کی طرف لگا لی پھر وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ چھت پر کوئی شخص ہے جو چوری کی نیت سے آیا ہے اور ساتھ ہی اس کے دل میں خیال ابھرا کہ کیوں نہ اوپر جاکر اس کو دبوچ لیا جائے، قبل اس کے کہ وہ نیچے آئے لیکن پھر اسے اپنا فیصلہ ترک کرنا پڑا وہ اس لیے کہ جب وہ پڑھنے کے لیے بیٹھا تھا تو اس وقت دھند بہت زیادہ تھی اور اب جبکہ رات بہت گہری ہوگئی ہے جس کی وجہ سے دھند اور بھی زیادہ گہری ہوگئی ہوگی۔ اگر میں اس شدید دھند میں اوپر گیا اور وہ چور دھند اور میرے بڑھاپے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے نقصان پہنچا کر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو جائے۔ لہٰذا مجھے ایسا رسک نہیں لینا چاہیے جس سے مجھے نقصان پہنچنے کا خطرہ درپیش ہو۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنا پہلا فیصلہ ترک کرتے ہوئے دوسرا فیصلہ کیا کہ سیڑھیوں کی اوڑھ چھپ کر بیٹھ جانا چاہیے جب وہ شخص نیچے آئے تو اسے اسلحہ کے زور پر دبوچ لینا چاہیے۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد اس نے اپنی پستول نکالی اور سیڑھیوں کی اوڑھ چھپ کر بیٹھ گیا اور چور کا انتظار کرنے لگا۔
دس پندرہ منٹ انتظار کے بعد جب کوئی شخص نیچے نہ آیا اور نہ ہی اب چھت پر کسی کے چلنے کی آواز سنائی دے رہی تھی تو اس نے اپنے آپ سے کہا شاید وہ آواز میرا وہم تھا یا پھر بلی کے چلنے کی آواز تھی اور ساتھ ہی اس نے اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات کو فوراً جھٹک کر یہ فیصلہ کیا کہ کیوں نہ چھت پر جا کر دیکھا جائے۔ ایسا کرنے سے کم از کم میرا دل تو مطمئن ہو جائے گا لہٰذا اس نے ٹارچ پکڑی اور چھت پر چلا گیا۔ اوپر جاتے ہی اس نے نہ صرف اپنے مکان کی چھت کا جائزہ لیا بلکہ ہمسایوں کی چھتوں پر بھی نظر دوڑائیں لیکن کوئی شخص دکھائی نہ دیا لہٰذا وہ اس آہٹ کو اپنا وہم سمجھ کر سونے کے لیے نیچے چلا آیا۔
دوسری رات حسبِ دستور پھر وہ اپنے مطالعہ میں مگن تھا کہ اسے پھر وہی آہٹ سنائی دی جو اسے گزشتہ رات سنائی دی تھی یکدم اس کی توجہ کتاب سے ہٹ گئی اور اس آہٹ کی طرف متوجہ ہوگئی۔ اس بار بھی وہ اس آواز کا تجزیہ اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے کرتا رہا۔ ابھی وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ پایا تھا کہ اسے چھت پر کسی کے چلنے کی آواز آنی فوراً بند ہوگئی۔ اب کہ اسے یہ پختہ یقین ہوگیا کہ چھت پر کوئی شخص چوری کی نیت سے آتا ہے اور نیچے کمرے کی روشنی جلتی ہوئی دیکھ کر واپس چلا جاتا ہے۔ آج رات تو وہ اوپر بھی نہیں گیا کیونکہ اسے یقین تھا کہ جو کوئی بھی تھا وہ اب چلا گیا ہوگا اس لیے اوپر جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اب مجھے کل کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کرنی چاہیے تاکہ میں اس پر قابو پا سکوں اور وہ یہ سوچتے سوچتے سو گیا۔
تیسری رات تو اس نے اپنے آپ کے ساتھ یہ پختہ عہد کیا ہوا تھا کہ آج ضرور چور کے ساتھ دو دو ہاتھ کروں گا اور اسے رنگے ہاتھوں پکڑوں گا۔ اسی مقصد کے لیے اس نے اپنی پستول سرہانے کے نیچے رکھی اور کمرے کی لائٹ آف کرکے اپنے بستر میں لیٹ گیا اور چور کا انتظار کرنے لگا کہ جب وہ نیچے آئے گا تو میں اس کو فوراً دبوچ لوں گا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد اسے چھت سے وہی چلنے کی آواز سنائی دی اور وہ فوراً چوکنا ہوگیا لیکن چلنے والا پھر نیچے نہ آیا۔ اب اس کے دل میں طرح طرح کے وسوسوں نے جنم لینا شروع کر دیا کہ کیا اس شخص کا ارادہ مجھے قتل کرنے کا تو نہیں لیکن پھر اسے خیال آتا نہیں نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہوسکتی میری تو کسی کے ساتھ دشمنی بھی تو نہیں۔ بھلا مجھے کون قتل کرے گا پھر وہ اپنے دل کو یہ تسلی دیتا کہ وہ ضرور چور ہے اور وہ بھی ناتجربہ کار وہ کسی انجانے خوف کی وجہ سے بھاگ جاتا ہے۔
ملک اللہ یار کو اس بستی میں رہتے ہوئے پچاس برس گزر چکے تھے اس نے اسی بستی کے اسی مکان میں جنم لیا تھا اور یہاں پر ہی پلّا بڑھا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے پچاس برس اسی مکان میں گزارے تھے۔ اس نے آج تک اس بستی میں چوری کا واقعہ رونما ہوتے نہ دیکھا تھا۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ بستی میں رہنے والے لوگ بھی مدتوں سے یہیں رہ رہے تھے اگر ان میں سے کوئی شخص بُری عادات کا مالک بھی ہوتا تو اس کی ان حرکات سے محلہ محفوظ رہتا کیونکہ وہ شخص اپنی تمام خباثتیں بستی سے باہر ہی چھوڑ آتا کیونکہ باپ دادا کی عزت اور محلے داری کا احساس ضرور ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ بستی میں بھی ایسا کوئی نہ تھا کہ جس پر شک کیا جاسکے کہ وہ چوری جیسی خبیث حرکت کرتا ہے یا کرسکتا ہے۔
ملک اللہ یار کا شمار بستی کے معزز افراد میں ہوتا تھا۔ بستی میں جب کبھی چھوٹے چھوٹے لڑائی جھگڑے یا کوئی گھریلو قسم کے واقعات جن سے لڑائی جھگڑا ہو جانا یا ہونے کا اندیشہ ہوتا تو ان کے تصفیہ اور فیصلے کے لیے ملک اللہ یار کی خدمات حاصل کی جاتی اور ان کا کیا ہوا فیصلہ سب کو قبول ہوتا تھا، اس طرح وہ پوری بستی میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ان سب باتوں کے باوجود ملک اللہ یار کو جو فکر دامنِ گیر تھی وہ یہ تھی کہ وہ کاروبار کے لحاظ سے زرگر تھا اور اس کی دُکان گھر کے اس حصے میں تھی جس کا دروازہ گلی میں نکلتا تھا اور رہائشی کمرہ پچھلی طرف تھا۔ مکان میں صرف دو کمرے تھے ایک میں دکان بنا دی گئی تھی اور دوسرے میں رہائش اختیار کر رکھی تھی۔ دونوں کمروں کے درمیان صحن تھا جہاں کتا باندھا جاتا تھا۔ ملک اللہ یار کی بیوی کو مَرے دو سال بیت چکے تھے اور ان کی کوئی اولاد بھی نہ تھی جس کی وجہ سے وہ اس مکان میں اکیلا ہی رہائش پذیر تھا اور اِس کے ساتھ اِس کا کتا تھا جس سے اِس کو بہت محبت تھی۔ جو آہٹ ملک اللہ یار کو سنائی دیتی وہ کتے کو سنائی نہ دیتی تھی کیونکہ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ کتا رہائشی کمرے سے دور تھا جس کی وجہ سے اسے آہٹ سنائی نہ دیتی تھی اس کے علاوہ اسے چھت پر کھڑا شخص بھی نظر نہیں آسکتا تھا کیونکہ کمرے کی وضع قطع کچھ اس طرح کی تھی کہ کمرے کی چھت پر اگر کوئی شخص کھڑا ہوتا تو وہ صحن میں بیٹھے ہوئے شخص کو دکھائی نہ دیتا تھا کیونکہ چھت کی سیڑھیاں جہاں سے شروع ہوتی تھی وہاں پر ایک چھوٹی سی جگہ بنائی ہوئی تھی جہاں پر کتے کے کھانے کا سامان یعنی باسی روٹی کے ٹکڑے رکھے جاتے تھے جو حسبِ ضرورت نکال کر پانی میں بھگو کر کتے کا کھانا تیار کیا جاتا تھا۔ اس کھڈے کی وجہ سے چھت اور صحن کے درمیان پردہ حائل ہوگیا تھا اس کے علاوہ چھت کی سیڑھیاں کمرے کے اندر سے نکلتی تھی۔
گھر کی بناوٹ غیر واضح ہونے کی بنا پر بھی ملک اللہ یار کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات جنم لے رہے تھے کہ کہیں چور کی نیت مجھے قتل کرکے دُکان کو لوٹنا تو نہیں اور شاید اس کے لیے چھت محفوظ ترین راستہ ہو جس سے اس کا راز افشاں بھی نہ ہو اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو جائے۔
اب جبکہ چھت سے کسی قسم کی آواز نہیں آ رہی تھی لیکن ملک اللہ یار کو انجانے خوف اور وسوسوں نے گھیر رکھا تھا جس کی وجہ سے اس کی نیند اڑ چکی تھی۔ ان سب باتوں کے باوجود اس نے اپنے پر طاری خوف پر قابو پایا، ہاتھ میں پستول پکڑی اور چھت پر چلا گیا۔
جنوری کی دُھند میں لپٹی ہوئی رات تھی۔ دُھند اس قدر زیادہ تھی کہ دھند کے سوا کچھ اور دکھائی نہ دے رہا تھا۔ اس نے ٹارچ کی مدد سے چھت کا جائزہ بڑی باریک بینی سے لیا لیکن آنے والے شخص کا کوئی نشان نہ پا سکا اور نہ ہی اس کی سمجھ میں یہ بات آ رہی تھی کہ وہ شخص کدھر سے آتا ہے اور کیوں آتا ہے؟ وہ پریشانی میں اس قدر گھیرا ہوا تھا کہ اسے سردی کی شدت کا ذرہ برابر بھی احساس نہ ہو پا رہا تھا اور پریشانی کے عالم میں اس نے چھت پر ٹہلنا شروع کر دیا۔ اس کے ذہن میں صرف ایک ہی خیال سوار تھا کہ وہ کون شخص ہے جو چھت پر آتا ہے اور کیوں آتا ہے؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ حالانکہ اَروس پڑوس میں بھی کوئی ایسا شخص نہیں جس پر شک کیا جاسکے وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ ساتھ والے گھر سے عورت کی آواز سنائی دی جو اپنے بچوں کو کہہ رہی تھی :
”بچوں اٹھو کھانا تیار ہوگیا ہے، کھا کر سو جانا اور ساتھ ہی اِس نے اپنی بیٹی سے مخاطب ہو کر کہا ، بیٹی آج تم روٹی کے ٹکڑے بہت کم لے کر آئی ہو۔“ رات کے سناٹے میں اس عورت کی آواز بڑی واضح سنائی دے رہی تھی۔
”امی وہ آج ملک صاحب کے گھر کی لائٹ بند تھی جس کی وجہ سے کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا اور دھند کی وجہ سے بھی اندھیرا بہت زیادہ تھا، بس اندھیرے ہی کی وجہ سے جتنے روٹی کے ٹکڑے ہاتھ لگے، اٹھا کر لے آئی۔“ بیٹی نے معصومیت سے ماں کو بتایا۔
آج اسے معلوم ہوا کہ چھت پر کون آتا ہے اور کیوں آتا ہے۔ آج کی رات اس کے لیے روزِ محشر سے کم نہیں تھی۔ کیونکہ بچی کے جواب نے اس کی روح کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے پاﺅں تلے سے زمین نکل چکی ہو اور اس کی روح جسم کی قید سے آزاد ہوچکی ہو۔ خوف کی وجہ سے اس پر کپکپی سی طاری ہوگئی اور شدید سردی میں بھی اسے پسینہ کا احساس ہونے لگا تھا، اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کے بدن پر آگ سی جل رہی ہو اور وہ اسی کشمکش کی حالت میں نیچے اتر آیا۔
آج کی رات اس کے لیے بہت بھاری تھی۔ اس کے بچپن کا دوست حق نواز جو دُکھ سکھ میں اس کا ساتھی تھا، اُس کے مرنے کے بعد اُس کے بیوی بچے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے وہ جو باسی روٹی کے ٹکڑے کتے کے کھانے کے لیے خریدے گئے تھے، انسان کھا کر اپنا پیٹ بھر رہے تھے، وہ بھی چوری کے ساتھ۔ یہ قیامت اس کے عزیز دوست کے بیوی بچوں پر ٹوٹ رہی تھی اور وہ ان کے پڑوس میں ہوتے ہوئے بھی بے خبر تھا۔
اسے اپنے آپ سے ایک گھن سی محسوس ہو رہی تھی کہ اس نے اپنے بچپن کے دوست کے مرنے کے بعد کبھی بھی اس کی بیوہ اور یتیم بچوں کی خبر گیری تک نہ کی تھی اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کی کہ کبھی انہوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہے کہ نہیں اور اب ان کا کوئی ذریعہ آمدنی ہے کہ نہیں۔
اُف میرے اللہ! میرے ہمسائے میں نیم بھوکے سوتے ہیں اور وہ بھی میرے بھائیوں جیسے دوست کے بیوی بچے اور میں نے ان کی خبر گیری صرف اس وجہ سے نہ لی کہ لوگ کیا کہیں گے کہ دوست کے مرنے کے بعد اس کی بیوہ کے ساتھ— اف میرے خدایا میں معاشرے کے ان لوگوں سے ڈر گیا جو صرف بیوہ کو فطرانہ اور زکوٰة دے کر یوں سمجھتے ہیں کہ جیسے ہم نے ان کی سال بھر کی ضروریات پوری کر دی ہیں اور اب ہم اپنے فرض سے بہرہ ور ہوگئے ہیں۔ ان کے ذہن میں ایک یہ بات بھی ہوتی ہے کہ جیسے ہم نے دیا ہے اسی طرح اور بھی بہت سے لوگوں نے دیا ہوگا۔ ان کے ذہن میں یہ بات ہرگز نہیں آتی کہ شاید کسی نے بھی نہ دیا ہو، اگر دیا بھی ہے تو کیا ان کی ضروریات کے مطابق بھی ہے کہ نہیں، کیا وہ پیٹ بھر کر سوتے ہیں کہ نہیں۔ اگر معاشرے کے ہر فرد کی سوچ ایسی ہو جائے تو کوئی بھوکا نہ سوئے۔ کوئی بھوک سے تنگ آ کر کسی کا گلہ نہ کاٹے اور اس طرح معاشرہ صحیح معنوں میں اسلامی اور فلاحی معاشرہ بن جائے۔
خود کو اور معاشرے کی خود ساختہ روایات کو کوستے کوستے پتہ نہیں کب نیند اس پر غالب آگئی اور وہ گہری نیند سو گیا۔
صبح وہ اٹھتے ہی حق نواز کے گھر کی طرف چل پڑا۔
اس نے کل رات ہی یہ پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ وہ کسی نہ کسی بہانے سے ایک لاکھ پچاس ہزار روپے کی رقم دے کر ان کی مدد کرے گا لیکن اس کے ذہن میں گزشتہ رات کوئی ترکیب نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس طرح یہ خطیر رقم ان کو دے لیکن آج جب وہ گھر سے نکلا تو تمام الجھنے خودبخود سلجھتی چلی گئیں جن کو وہ کافی دیر سے سلجھانے کی جستجو میں تھا لیکن سلجھ نہیں رہی تھیں۔
دروازہ پر دستک دی۔ دروازہ کھلتے ہی حق نواز کا بیٹا نمودار ہوا۔
”السلام و علیکم ! انکل“ لڑکے نے باہر آتے ہوئے بڑی محبت کے ساتھ سلام کیا۔
”وعلیکم السلام! اور ساتھ ہی اس نے لڑکے کے سر پر محبت بھرا ہاتھ پھیرا اور کہا :
 ”بیٹا جی کیا حال ہے، ٹھیک تو ہو اور ہاں بیٹا تمہارے والد کی امانت میرے پاس موجود ہے جو میں تمہاری والدہ کو دینا چاہتا ہوں۔ جلدی سے اپنی والدہ سے بات کروا دو۔“ لڑکا ماں کو بلوانے اندر چلا جاتا ہے۔
چند ثانیہ بعد تھوڑا سا دروازہ کھلتا ہے اور اندر سے نسوانی آواز آتی ہے : 
”سلام بھائی! آج کیسے راستہ بھول کر اِدھر آگئے۔“
بہن میں حق نواز کی امانت تمہیں دینے آیا ہوں۔ ملک اللہ یار نے باہر کھڑے کھڑے جواب دیا۔
”بھائی صاحب اندر چلے آئیں یہ آپ کی بہن کا گھر ہے۔“ دروازے کی اوڑھ سے حق نواز کی بیوہ نے کہا۔
ملک اللہ یار گھر کے اندر داخل ہوگیا اور کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا : ”بھابی بچے کیسے ہیں؟ اسکول وغیرہ جاتے ہیں یا نہیں۔“
”بھائی صاحب دین محمد نے ساتویں جماعت سے اسکول چھوڑ دیا تھا اب یہ گلی گلی جا کر بچوں کی اشیاءبیچتا ہے مثلاً گرمیوں میں کلفیاں اور سردیوں میں دال سیویاں، خدا کا شکر ہے تھوڑا بہت بیچ کر گھر کا خرچ چلا لیتا ہے اور بڑی بیٹی نے آٹھ جماعتیں پاس کر لی ہے اس کے لیے اتنی ہی بہت ہے۔ سب سے چھوٹی بیٹی تو ابھی تین سال کی ہے۔“ پردے کی اوڑھ سے حق نواز کی بیوہ کہہ رہی تھی۔
”بہن میں اس لیے حاضر ہوا تھا کہ حق نواز کی کچھ رقم میرے پاس آئی ہے جو آپ کو دینے آیا ہوں۔“ اللہ یار نے جھکی ہوئی نظروں سے یہ بات کی۔
”لیکن بھائی صاحب آپ کو اور پورے محلے کو معلوم ہے کہ حق نواز مفلسی کی حالت میں وفات پا گیا تھا وہ تو بہت سے لوگوں کا مقروض تھا تو پھر یہ رقم کیسے اور کہاں سے آگئی۔“
”بہن بات دراصل یہ ہے کہ آج سے تین سال پہلے میں نے اور حق نواز نے مل کر ایک شخص کے پاس کمیٹی ڈالی تھی اور وہ شخص بہت سے لوگوں کا پیسہ مار کر بھاگ گیا تھا۔ اس فراڈیے کو پولیس نے اب گرفتار کر لیا ہے۔ جس کی وجہ سے ڈوبی ہوئی رقم واپس مل گئی ہے۔ حق نواز کے ایک لاکھ پچاس ہزار روپے بنتے تھے جو میں لے آیا ہوں۔ اگر آپ کو میری کسی بات پر اعتبار نہ ہو تو میں تھانے سے اس شخص کی گرفتاری کا ثبوت بھی پیش کرسکتا ہوں۔“
”بھائی صاحب میں آپ کی ذات اور نیت پر شک نہیں کر رہی مجھے آپ پر مکمل اعتبار اور بھروسہ ہے۔ میں نے صرف اس وجہ سے بات کی تھی کہ حق نواز نے بڑی مفلسی میں موت کو گلے لگایا اور اس نے کبھی مجھے اس رقم کے متعلق نہیں بتایا۔“ بیوہ حق نواز نے حسبِ سابق پردے کی اوڑھ سے کہا۔
”بہن مجھے سب معلوم ہے، حق نواز کو مجھ سے زیادہ اور کون جانتا ہے، میں اس کے بہت نزدیک تھا۔ یہ کمیٹی اس نے آپ سے چوری چوری ڈالی تھی لیکن اس کی بیماری سے کچھ ہی ماہ پہلے فراڈ ہوگیا جس کی وجہ سے وہ آپ کو بتا نہ سکا۔ بتانے کا کوئی فائدہ بھی تو نہ تھا کیونکہ رقم تو ڈوب ہی گئی تھی، جس کے ملنے کی کوئی امید باقی نہ بچی تھی ان حالات میں اگر وہ آپ کو ساری صورتِ حال بتا دیتا تو الٹا آپ نے بھی پریشان ہونا تھا۔ شاید اس بناءپر اس نے آپ کو کچھ نہیں بتایا۔“
”بہن یہ لو آپ کی امانت اگر تمہیں اس رقم کے بارے میں مزید کسی قسم کی تفتیش کی ضرورت درپیش ہو تو میں حاضر ہوں، میں ہر قسم کا ثبوت فراہم کرسکتا ہوں یہ کہ رقم کی مالیت ایک لاکھ پچاس ہزار روپے ہیں اور یہ رقم حق نواز کی ملکیت ہے۔“ یہ الفاظ کہتے ہوئے ملک اللہ یار نے رقم کا پیکٹ بیوہ حق نواز کی طرف بڑھا دیا۔
”بھائی صاحب ایسی تو کوئی بات نہیں کہ تفتیش کی جائے اس دنیا میں ہر کوئی کسی نہ کسی کو لوٹنے میں لگا ہوا ہے۔ آپ ایمان داری سے اپنا فرض سمجھ کر ہم لوگوں کو یہ رقم دینے آئے ہے تو آپ کی بہت بہت مہربانی حالانکہ یہ رقم میرے علم میں نہ تھی۔ یہ آپ کا بڑا پن ہے کہ آپ حق دار کو حق لوٹانے آگئے ہیں اس کا اجر اللہ آپ کو ضرور دے گا۔“ حق نواز کی بیوہ نے دوپٹہ کے پلو سے اپنی آنکھوں سے آنسو پونجھتے ہوئے کہا۔
”بہن حق نواز کے ساتھ میں نے بچپن سے جوانی اکٹھی گزاری ہم دونوں نے دُکھ سُکھ کے دن دیکھے ہیں وہ میرا دوست ہی نہیں بھائی تھا اور بھائی ہی کے ناطے میں تم سے ایک بات کہتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ تم میری بات کو نہیں ٹالو گی اور میری بات کا مان رکھو گی۔“
”بھائی صاحب آپ بات کریں، آپ کی یہ بہن آپ کا ہر حکم بجا لائے گی بشرطیکہ وہ میرے بس میں ہوا تو۔“
”بہن میں بات یہ کرنا چاہتا ہوں کہ بس اڈے کے پاس کارپوریشن کی زمین ہے جہاں پر لوگوں نے کھوکھے لگا رکھے ہیں جو بہت اچھی روزی کما لیتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ دین محمد کو وہاں پر کھوکھا لگوا دوں۔ میری کارپوریشن کے اہلکاروں کے ساتھ واقفیت بھی ہے جس کی وجہ سے جگہ کا حصول ممکن ہے یہ وہاں پر کاروبار کرکے بہتر روزگار کما سکے گا اور پہلی بار جو مال دُکان میں ڈالا جائے گا وہ میری طرف سے ہوگا یعنی دین محمد کے چچا کی طرف سے، آپ کے بھائی کی طرف سے، اس سے مجھے بہت زیادہ خوشی محسوس ہوگی اور مجھے اُمید ہے کہ یہ بہت جلد اپنے پاﺅں پر خود کھڑا ہو جائے گا اور اس سے مجھے روحانی اور دلی سکون محسوس ہوگا کہ میں اپنے دوست کے خاندان کے کچھ تو کام آیا۔
”بھائی جیسی آپ کی خوشی مجھے کوئی اعتراض نہیں۔“
حالانکہ ملک اللہ یار کی کارپوریشن میں کوئی واقفیت نہ تھی اس نے رقم خرچ کر کے کھوکھا خریدا اور اس میں مال ڈال کر دین محمد کو دے دیا اور اس نے یہ کانوں کان خبر نہ ہونے دی کہ یہ کھوکھا اس نے خرید کر دیا ہے اور ایک لاکھ پچاس ہزار روپے جو کمیٹی کا کہہ کر دیے تھے وہ بھی اپنی جیب سے دیے تھے کیونکہ اس کے پاس اور کوئی راستہ بھی تو نہ تھا اگر اس کے پاس کوئی متبادل راستہ ہوتا تو وہ اس راستے سے اس سفید پوش خاندان کی ضرور مدد کرتا اور جھوٹ کا سہارا ہرگز ہرگز نہ لیتا ان سب باتوں سے قطع نظر آج اسے اس جھوٹ سے جتنا دلی اور روحانی سکون میسر آیا وہ اس کا تصور نہیں کرسکتا تھا کیونکہ اس کی زندگی اس جیسے سکون سے ابھی تک عاری تھی۔

—————

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6