حرامی
اکتوبر کی ایک خوشگوار صبح تھی۔ سورج ابھی نہیں نکلا تھا، شہر سے دور اس قصبے کی چوڑی چوڑی اور سانپ کی طرح بل کھاتی گلیاں خالی خالی اور ویران ویران سی لگ رہی تھیں۔ بس اکا دکا لوگ ہی آ جا رہے تھے۔ ایسے میں بستی میں صبح سویرے درختوں پر چڑیوں کی چہچہاہٹ بہت بھلی لگ رہی تھی۔ اتنی صبح صرف وہی لوگ گھروں سے باہر نکلتے تھے جنہیں دور شہر ملازمت کے لیے جانا ہوتا تھا اور انہیں بروقت ڈیوٹی پر حاضر ہونے کے لیے صبح سویرے نکلنا پڑتا تھا۔ ان میں سے ایک نوجوان بھی ہر روز نظر آتا تھا وہ بھرے بھرے جسم کا خوبصورت نوجوان تھا۔ اس نے اپنی سائیکل کے پیچھے ایک بڑا سا چھابہ باندھا ہوتا تھا جس سے گمان ہوتا کہ یہ شخص شہر کی فروٹ منڈی سے کوئی پھل وغیرہ خرید کر شہر میں گھوم پھر کر بیچتا ہے، بہرکیف جو کچھ بھی تھا توجہ طلب بات یہ تھی کہ اس کے ساتھ ایک چھ، سات سالہ صحت مند بچہ سکول کے یونیفارم میں ملبوس بھی ہوتا تھا جسے دیکھ کر اس نوجوان کے چہرے پر مسکراہٹ کھل جاتی تھی اور وہ بہت مسرور دکھائی دیتا تھا اور بچہ بھی باپ کی سائیکل پر بیٹھا بہت خوش دکھائی دیتا تھا۔ بستی میں کوئی سکول نہ تھا اور نہ ہی اس بستی کے باسی تعلیم حاصل کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ پوری بستی میں صرف وہی ایک شخص تھا جو اپنے معصوم اور ننھے مُنّے سے بچے کو اتنی صبح سویرے دور شہر میں سکول چھوڑنے کے لیے لے جاتا تھا اور وہ بچہ بھی بڑی خوشی سے سکول پڑھنے کے لیے جاتا تھا اس کو کبھی بھی روتے ہوئے سکول جاتے نہیں دیکھا گیا تھا۔
اُس بستی میں ہر روز ایک میلے کچیلے اور جگہ جگہ سے پھٹے پُرانے کپڑوں میں ملبوس، پاﺅں سے ننگا بوڑھا گلی کی نکڑ پر کھڑا رہتا، وہ بچے اور اس کے باپ کو آتا دیکھ کر لاشعوری طور پر خوش ہوتا۔ بچے کی معصومیت اور باپ کی شفقت دیکھ کر اس کے اندر زندگی کی لہر دوڑ جاتی جس سے اسے نئی توانائی محسوس ہوتی جو سارا دن اس کو زندہ رہنے پر مجبور کرتی تھی۔ بچے کی معصومیت دیکھ کر اس کا جھریوں بھرا چہرہ خوشی سے دمکنے لگتا اور وہ گلی کی نکڑ پر اس وقت تک کھڑا رہتا جب تک وہ بچہ اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہو جاتا پھر وہ اپنے کھردرے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتا جو اضطراری طور پر خوشی سے اس کی آنکھوں سے بہہ نکلتے تھے اور وہ خود ہی مسکرا دیتا اور پھر اپنے گھر کی راہ لیتا۔ نجانے کیوں آج اسے اپنا بچپن بڑی شدت سے یاد آ رہا تھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا ذہن ماضی میں گم ہوگیا۔
بوڑھے کا بچپن بھوک، پیاس اور گالی گلوچ سننے میں گزر گیا تھا۔ گاﺅں میں تو اس کی حیثیت کتوں سے بھی نچلے درجے کی تھی۔ اِس کو کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملا تھا جو اسے انسان سمجھتا۔ اسے نہیں معلوم کہ اس کو کس ماں نے جنم دیا اور اس کا باپ کون تھا۔ بس جب سے ہوش سنبھالا تب سے اپنے آپ کو گاﺅں کے چوہدری کی حویلی میں گائے بھینسوں کی رکھوالی پر مامور پایا یہاں اسے صرف ڈانٹ ڈپٹ ہی ملتی تھی اور دن بھر کی سخت مشقت کے بعد اس کا پیٹ پھر بھی خوراک سے خالی رہتا تھا۔ اس کی راتیں سردی سے ٹھٹھرتی اور دن مار کٹائی سے بھرپور ہوتا تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ ماں کی آغوش کی نرمی اور باپ کی شفقت کتنی راحت افزا ہوتی ہے۔ گاﺅں کا ہر فرد اسے ”حرامی“ کہہ کر پکارتا تھا اور بات بے بات تھپڑ، لاتوں اور گھونسوں سے اس کی خاطر تواضع ہوا کرتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو یہ طعنے بھی دیے جاتے تھے کہ تمہاری ماں اپنا گناہ چھپانے کے لیے تم کو بھینسوں کے باڑے میں چھوڑ گئی تھی، وہ تو چوہدری کی خدا ترسی کہ اس نے تم جیسے حرامی بچے کو اپنی حویلی میں جگہ دی۔
وہ گاﺅں والوں کی بلالوث خدمت کے ساتھ ساتھ سب ستم برداشت کرسکتا تھا لیکن اپنی ماں کے متعلق بدزبانی، فحش گوئی سننا نہیں چاہتا تھا لیکن جب وہ لوگوں سے اپنی ماں کے متعلق فحش گوئی سنتا تو آگ بگولا ہو جاتا لیکن اس کا غصہ خود اس کے لیے نقصان دہ ہوتا اور لوگ اس کی خوب خاطر کرتے تھے۔
اس کے اندر اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ گاﺅں والوں کو اپنی ماں کے متعلق فحش کلامی سے روک سکے اور نہ ہی اس کے اندر اتنی صلاحیت تھی کہ وہ گاﺅں والوں کو بتاتا کہ ماں جیسی عظیم ہستی کیسے اپنے ایک گھنٹے کے بچے کو یوں بے سہارا چھوڑ سکتی ہے۔ ماں سنگدل ہو ہی نہیں سکتی اگر وہ سنگدل ہوتی تو اس کے پاﺅں کے نیچے خدا کبھی بھی جنت کا مقام نہ رکھتا۔ اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ اس کی ماں کوئی بدکار عورت نہیں تھی بلکہ کوئی ظالم شخص ماں سے بچہ چھین کر یہاں چھوڑ گیا ہوگا اور ان لوگوں نے خواہ مخواہ کہانی بنا دی ہے۔
وہ ماں جس کو اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا بس محسوس کیا تھا کہ ماں جیسی سچی محبت کرنے والی شخصیت بھی ہوتی ہے جو اپنی جان پر کھیل کر اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے۔ ماں یوں ہی اپنی اولاد کو بے سہارا کبھی نہیں چھوڑتی۔ ایسی ماں کا تصور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے ذہن میں برقرار رکھنے کے لیے اس نے گاﺅں سے بھاگ جانے کا ارادہ کر لیا تھا اور ایک دن چپکے سے وہ گاﺅں سے دور کہیں دور چلا گیا کیونکہ وہ اس مقدس ماں کے تصور کو زندہ رکھنا چاہتا تھا جو گاﺅں والے اس کے ذہن سے مٹا دینے کے درپے تھے۔
گاﺅں والوں سے چھپتا چھپاتا وہ کسی نہ کسی طریقے سے شہر پہنچ گیا لیکن یہاں سَر چھپانے کے لیے اس کے پاس کوئی ٹھکانہ نہ تھا اور وہ یونہی شہر کی سڑکیں ناپنے لگا کہ کہیں کوئی بہتر ٹھکانہ میسر آسکے۔ آخر اس کی نظر ایک زیر تعمیر مکان پر جا کر رک گئی اور اس کے دل میں خیال اُبھرا کہ کیوں نہ اِس مکان میں رات بسر کی جائے اور وہ فوراً مکان کے کسی کونے کھدرے میں جا کر ایسے ہی بھوکا پیاسا لیٹ گیا اور بہت جلد اس پر نیند غالب آگئی۔
صبح جب مزدور کام پر آئے تو انہوں نے ٹھیکیدار کی توجہ مکان میں موجود اس نوجوان کی طرف کروائی جو گہری نیند سویا ہوا تھا۔ ٹھیکیدار نے آتے ہی اس کو زور دار ٹھوکر لگائی اور وہ گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے اردگرد بہت سے لوگوں کو موجود پا کر وہ پہلے سے بھی زیادہ گھبرا گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔
”بابو جی میں بے گناہ ہوں، میں یہاں پر چوری کرنے کے لیے نہیں آیا تھا بلکہ میں تو صرف رات بسر کرنے کے لیے رک گیا تھا، آپ لوگ میری تلاشی لے لیجئے.... میں نے کوئی چوری نہیں کی، میں چور نہیں ہوں، بابو جی۔ آپ مجھے معاف کر دیں....“
ٹھیکیدار نے اس کو گھورا اور پھر یکدر بولا:
”کام کیا کرتے ہو؟“
”بابو جی میں کل شام ہی گاﺅں سے شہر آیا ہوں۔“ اس نے گھبراتے ہوئے جواب دیا۔
ٹھیکیدار نے اس کی گھبراہٹ دور کرنے کے لیے تمام مزدوروں کو اپنا اپنا کام کرنے کا حکم دیا اور وہ تمام وہاں سے منتشر ہوگئے اور پھر بڑی محبت کے ساتھ ٹھیکیدار اس سے مخاطب ہوا۔
”نام کیا ہے، تمہارا؟“
”حرامی۔“
”یہ کیا نام ہوا؟ تمہارا اصل نام کیا ہے؟“ ٹھیکیدار نے حیرت سے پوچھا۔
”باﺅ جی مجھے گاﺅں میں لوگ اسی نام سے پکارتے ہیں۔“
”اور تمہارے والدین تم کو کس نام سے پکارتے ہیں۔“
”وہ جی— وہ جی—“
” کیا وہ زندہ ہیں؟“
”پتہ نہیں باﺅ جی۔“
”کیا مطلب ....پتہ نہیں۔“
”باﺅ جی، گاﺅں والے کہتے ہیں کہ تمہاری ماں اپنا گناہ چھپانے کے لیے تم کو بھینسوں کے باڑے میں چھوڑ گئی تھی۔“
”تو پھر تم کو کس نے پالا ہے۔“
”اللہ نے اور کس نے۔“
”میرے کہنے کا مطلب ہے کہ کوئی انسانی وسیلہ بھی تو ہوتا ہے۔“
”مجھے کچھ نہیں معلوم بس جب سے بولنا، سمجھنا شروع کیا ہے خود کو باڑے میں پایا ہے۔ اس کے علاوہ اور مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میری ابتدائی زندگی کے دن کیسے بسر ہوئے۔“
”تو پھر تم نے وہ گاﺅں کیوں چھوڑ دیا جس نے تم کو سہارا دیا اور تم پل کر جوان ہوئے۔“
اس نے حکارت سے سر کو جنبش دی اور بولا :”بابو جی وہاں پر میرا رہنا دوبھر ہوگیا تھا ہر کوئی مجھے گالی دینا اور بات بے بات مارنا پیٹنا فخر سمجھتا تھا۔ میں سارا دن چوہدری اور گاﺅں والوں کے لیے محنت مشقت کرتا اور وہ لوگ مجھے پیٹ بھر کر کھانا بھی نہ دیتے تھے۔ میری زندگی وہاں پر کتوں سے بھی بُری گزر رہی تھی اس لیے وہاں سے بھاگ جانا ہی بہتر تھا۔
ٹھیکیدار اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا اسی لیے تو اُس نے فوراً اِس کو کھانا کھلا کر مزدوری پر لگا دیا۔ یہاں اسے محنت گاﺅں کی نسبت کم کرنی پڑتی تھی اور کھانا بھی پیٹ بھر کر کھاتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ یہاں اسے ماں کی گالی بھی کوئی نہیں دیتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ یہاں بہت خوش تھا اور اپنا کام بڑی جانفشانی اور محنت سے کرتا۔ وہ کم عمر ہونے کے باوجود کام جواں مزدور کے برابر کرتا تھا۔ اس نے ٹھیکیدار سے کبھی بھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ مجھے بھی دوسرے مزدوروں کے برابر معاوضہ دیا جائے بلکہ وہ کم معاوضہ لے کر بھی بڑا مطمئن تھا۔ ان سب خصوصیات کے علاوہ وہ ایمان دار بھی بہت تھا۔
ٹھیکیدار کو بھی ایسے ہی ایمان دار، محنتی اور کم معاوضہ لینے والے گھریلو ملازم کی اشد ضرورت تھی، اسی لیے اس نے بڑی ہوشیاری سے اس کو اپنے گھر ملازمت کرنے پر راضی کر لیا۔ ٹھیکیدار کے لیے یہ یقین دلانا کوئی مشکل نہ تھا کہ مکان کی تکمیل کے بعد اس کے پاس روزگار اور رہنے کے لیے ٹھکانہ نہیں بچے گا اور اس کو پھر دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں گی۔ اس لیے بہتر ہے کہ مستقل نوکری اور ٹھکانے کے لیے گھریلو ملازمت اختیار کر لی جائے تاکہ زندگی کے دن سکون سے بسر ہوسکیں۔ اسے بھی تو ایک مضبوط سہارے اور ٹھکانے کی ضرورت تھی جہاں رہ کر وہ باعزت طریقے سے دو وقت کی روٹی سکون سے کھا سکتا یہی وجہ تھی کہ وہ ملازمت کے لیے راضی ہوگیا۔
اس کے لیے کوئی بھی نوکری سخت نہ تھی کیونکہ اس نے تو ساری زندگی سخت سے سخت کام کر کے گزاری تھی اور یہی وجہ تھی کہ اس کے لیے یہ حیرت کی بات نہ تھی کہ وہ گھر کے کام کر پائے گا یا نہیں۔ اسے تو پیٹ بھر کر کھانا، حق حلال کی محنت سے چاہیے تھا۔ مزدوری سے اس کو کوئی غرض نہ تھی کہ وہ کس قسم کی ہو۔ کیونکہ وہ محنت سے گھبرانے والا نہ تھا۔
ٹھیکیدار اس کو اپنے گھر لے کر چلا آیا اور آتے ہی اس نے اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر کہا:
”بیگم دیکھو میں تمہارے لیے روبوٹ لے کر آیا ہوں بس اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم اس کو کتنی جلدی ٹرینڈ کرتی ہو۔ میں تمہیں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ تمہارے اعتماد پر پورا اترے گا۔“
ٹھیکیدار کی بیوی دُبلی پتلی اور درمیانے قد کی خوبصورت عورت تھی، ان دونوں کا صرف ایک ہی بیٹا تھا جس کی عمر تقریباً دو اڑھائی سال کے لگ بھگ تھی۔
ٹھیکیدار کی بیوی نے پہلے تو اس کو سَر سے پاﺅں تک دیکھا پھر ناک چڑہاتے ہوئے سر ہلا کر بولی:
”تمہیں کوئی کام وام بھی آتا ہے یا نہیں، جیسے کھانا پکانا، برتن دھونا، کپڑے استری کرنا، گھر بھر کی جھاڑ پونچھ کرنا وغیرہ وغیرہ“۔
”نہیں جی“ حرامی نے حیران ہو کر کہا۔ اس کا تو خیال تھا کہ ٹھیکے دار کے گھر صرف سودا سلف لانے کا کام ہوگا یہاں تو ہر کام کرنا پڑے گا لیکن اسے تو مستقل ٹھکانہ اور روزگار چاہیے تھا اسی لیے تو اس نے ہامی بھر لی۔
”بی بی جی میں آہستہ آہستہ سب کام سیکھ لوں گا۔ میں محنت سے گھبرانے والا ہرگز نہیں ہوں۔“
”ٹھیک ہے میں سب کچھ سکھا دوں گی۔ ابھی تم گھر کے فرش اچھی طرح دھو لو— پھر تم باغیچے میں جا کر پودوں کو پانی لگاﺅ— ہاں پودوں کو خراب نہ کر دینا بڑی احتیاط کے ساتھ کیاریوں میں پانی لگانا۔“
دو ماہ کی قلیل مدت میں اس نے گھر کا سارا کام سیکھ لیا۔ اسے اس گھر میں پیٹ بھر کر کھانا ملتا تھا اس لیے اسے یہ فکر نہیں تھی کہ اس کو ماہوار رقم جو ملتی ہے وہ اس کی محنت سے زیادہ ہے یا کم اس بات سے قطع نظر وہ دل لگا کر گھر کے کام کیا کرتا تھا اس نے تو کئی دفعہ ٹھیکیدار کی بیوی کو ٹھیکیدار کے ساتھ یہ باتیں کرتے ہوئے سنا تھا کہ یہ لڑکا جب سے ہمارے گھر میں آیا ہے میں تو جنت میں آ بیٹھی ہوں یہ لڑکا کپڑے استری کرکے ہینگروں میں لٹکاتا ہے، کچن کا سارا کام بہت اچھی طرح کرتا ہے، مجھے اِس نے کبھی کوئی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ اس کے کام کرنے سے مجھے بہت روحانی، جسمانی سکھ نصیب ہوا ہے۔
سال گزرتے گئے وہ جوانی سے نوجوانی اور پھر نوجوانی سے بڑھاپے تک کا سفر طے کر گیا لیکن شادی نہ کرسکا یا یوں کہیے کہ اس کی خواہش اور جذبات کو زبردستی ٹھنڈا کیا گیا وہ تو اپنا سب کچھ ٹھیکیدار ہی کو سمجھتا تھا اسی لیے اس نے کئی دفعہ دبے لفظوں ، ٹھیکیدار سے اپنی شادی کے متعلق کہا بھی کہ اب میری شادی کر دینی چاہیے لیکن ٹھیکیدار سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی اس کے جذبات کو ایسی باتیں کرکے ٹھنڈا کر دیتا:
”بچے تم دنیا کے خوش قسمت انسان ہو کہ ابھی تک شادی نہیں کی۔ میری طرف دیکھو اس دن کو یاد کر کے پچھتاتا ہوں جب میں دولہا بنا تب سے مصیبتیں ہی گلے پڑ گئیں۔ شادی میں کیا رکھا ہے یہ تو ایک قید خانہ ہے اور انسان قید ہو کر رہ جاتا ہے۔ اپنی مرضی سے کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ تم خوش قسمت ہو کہ اپنی مرضی سے سانس تو لیتے ہو۔ یاد رکھو شادی کبھی نہ کرنا ورنہ تمہارا حال مجھ سے بھی ابتر ہوگا اور تم شادی ہال کے باہر جا کر بیٹھ جاﺅ گے اور ہر شادی کرنے والے شخص کو نصیحت کرتے رہو گے جیسے میں تم کو کر رہا ہوں کہ کبھی شادی کے بندھن میں نہ بندھنا، اس میں فائدہ کوئی نہیں نقصان ہی نقصان ہے۔ اس لیے تمہارے حق میں یہی بہتر ہے کہ کبھی شادی نہ کرنا اور ایسے ہی زندگی گزار دینا پھر دیکھنا تمہاری زندگی کتنی شاندار گزرتی ہے۔ میری طرف دیکھو، ہر وقت پریشانیوں میں گھرا رہتا ہوں۔ زندگی عذاب بن کے رہ گئی ہے اور جب میں تمہاری طرف دیکھتا ہوں کہ تم خوش و خرم ہو تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے اور دل سے دعائیں نکلتی ہے کہ اے اللہ یہ میرے جیسی غلطی نہ کرے۔“
ٹھیکیدار اسی طرح کی باتیں وقتاً فوقتاً کرکے اس کو شادی سے ڈرا کر اس کی خواہش کو وقتی طور پر دبا دیتا تھا کیونکہ ٹھیکیدار سمجھتا تھا کہ اگر اس نے شادی کر لی تو اس کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی، پھر یہ یا تو زیادہ تنخواہ کا مطالبہ کرے گا یا پھر نوکری چھوڑ کر چلا جائے گا اس لیے وہ نہیں چاہتا تھا کہ اتنا محنتی اور سستا ملازم ہاتھ سے نکل جائے، اسی لیے تو وہ اس کے سامنے شادی کے نقصانات گنواتا رہتا تھا تاکہ اس کے دماغ سے شادی کا بھوت اتر جائے اور وہ بھی ٹھیکیدار کی باتیں سن کر خوش ہو جاتا اور سمجھتا کہ ہوسکتا ہے یہی میرے حق میں بہتر ہو چنانچہ وہ شادی کو ڈراﺅنا خواب سمجھ کر بھول گیا اور اپنا کام مکمل تن دہی اور جانفشانی سے کرتا رہتا، وہ اکیلا چار بندوں کا کام کرتا، دن بھر کی مشقت کے بعد اس کا جسم درد سے چور چور ہو جاتا۔ اسی طرح زندگی کے دن گزرتے گئیں اور وہ بوڑھا ہوگیا۔
حرامی کو ٹھیکیدار کے گھر آئے ساٹھ برس بیت چکے تھے۔ اب وہ عمر کے اس حصے میں تھا جہاں کام کرنا بوڑھے کے لیے محال ہو جاتا ہے اور وہ خود آرام کا طالب ہوتا ہے لیکن یہاں تو صورتِ حال ہی مختلف تھی۔ ٹھیکیدار اور اس کی بیوی مدت ہوئی اللہ کو پیارے ہوچکے تھے۔ ٹھیکیدار کا اکلوتا بیٹا اب دادا بن چکا تھا اور یہ بوڑھا گھر بھر میں کھانستا پھرتا تھا اور اب اس سے کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہو پا رہا تھا۔ صحت ایسی کہ اس سے ذرہ سی سردی بھی برداشت نہیں ہوتی تھی، ہلکی سی ٹھنڈی ہوا چلنے کی وجہ سے وہ بہت جلد بیمار پڑ جاتا تھا۔
ایک دن وہ چائے کا ٹرے اٹھائے ڈرائنگ روم میں پہنچا تو اسے زور دار چھینک آئی۔ اس نے چھینک روکنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا اور چھینک کے تمام لوازمات تیزی سے ٹرے پر پھیل گئے اور وہ شرمندگی سے اپنا منہ اپنے شانے میں چھپا کر واپس مڑ گیا۔ جب وہ دروازے سے باہر نکلا تو ٹھیکیدار کی بہو کی باتوں نے اس کے قدم وہی پر ہی روک دیے، وہ کہہ رہی تھی۔
”سلیم اب یہ بوڑھا ہمارے کسی کام کا نہیں رہا یہ بہت بوڑھا ہوگیا ہے اس کو کچھ رقم دے کر یہاں سے چلتا کرو، چھوٹے چھوٹے بچوں والا گھر ہے اس کی روز روز کی کھانسی سے کیا بچوں کو بیمار کروانا ہے۔ بس اب اسے جانے دو۔“
”لیکن بیگم یہ جائے گا کہاں، اس کا تو دنیا میں کوئی بھی نہیں، ابو نے ہی اس کو پالا ہے۔“ میاں نے بیوی کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
”مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں کہ یہ کہاں جائے گا بس اس کو یہاں سے ضرور جانا ہوگا ورنہ میں یہاں سے چلی جاﺅں گی۔ میں نے اپنے معصوم بچوں کو اس سے بیمار نہیں کروانا۔
یہ باتیں اس کے تن بدن میں سرایت کرگئیں۔ ان باتوں کی کاٹ نے اس کے جسم کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا جس کی وجہ سے اسے اپنے وجود میں کمزوری محسوس ہوئی اور وہ فوراً اپنے کوارٹر کی طرف چلا گیا۔
جنوری کا مہینہ تھا سردی اپنے پورے زوروں پر تھی اور وہ رضائی اوڑھے سو گیا۔ رات کے پچھلے پہر سرد ہوائیں چلنی شروع ہوگئیں جو اس کے کوارٹر کے دروازے کی درز سے اندر آتیں اور اس کے وجود کو جھنجوڑ کر رکھ دیتیں۔ اس سردی میں اوپر اوڑھی ہوئی رضائی اور نیچے لیا ہوا کمبل ناکافی ہوا جا رہا تھا جس کی وجہ سے وہ رات بھر سکڑتا رہا۔
جب وہ صبح اٹھا تو زور زور سے چھینکیں مار رہا تھا اور ناک اور آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ بدن کا جوڑ جوڑ ٹوٹ رہا تھا اور گلا تھا کہ زوروں سے دُکھ رہا تھا۔ اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کے حلق میں کوئی بڑی سی شے پھنس گئی ہو جو وہ نہ نگل سکتا تھا اور نہ اُگل سکتا تھا۔ آج اس کی طبیعت ایسی نہ تھی کہ کوئی کام کرسکتا اسی لیے وہ رضائی اوڑھے چپ چاپ سویا رہا۔ وہ تو بھلا ہو خانساماں کا جو خود ہی چائے دینے اس کے کوارٹر میں چلا آیا تھا۔
خانساماں کی نظر حرامی پر پڑی جو بے سُدھ چارپائی پر گرا پڑا تھا اس نے اٹھا کر اسے چائے پلائی اور ڈسپرین کی گولیاں دیں— بخار کی شدت اور گولیوں کے اثر سے اس پر غنودگی سی طاری ہونے لگی اور وہ آہستہ آہستہ گہری نیند میں ڈوبتا چلا گیا۔
خانساماں نے اپنے کوارٹر سے مزید دو کمبل لیں اور اس کے اوپر ڈال دیے تھے تاکہ اس کا بوڑھا وجود شدید سردی کا مقابلہ کرسکے۔ لیکن اس کا بخار کچھ اور تیز ہوگیا جس کی وجہ سے اس کے بدن پر کپکپی طاری ہوگئی اور بدن بُری طرح ٹوٹنے لگا۔ اس کی پیشانی گرم اور پاﺅں برف کی طرح ٹھنڈے ہوئے جا رہے تھے۔ اس کی یہ کیفیت خانساماں سے دیکھی نہ جاتی تھی وہ دوڑ کر اپنے مالک کے پاس پہنچا۔ لیکن مالک کسی اہم میٹنگ میں شرکت کرنے کے لیے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے گھر پر صرف مالکن تھی۔ اس لیے خانساماں نے تمام صورتِ حال مالکن سے گوش گزار کر دی اور انہوں نے بڑی ناگواری سے کہا :
”خانساماں جاﺅ اس کو کسی ہسپتال میں لے جاﺅ اور ہاں وہاں سے اس کو واپس گھر مت لانا۔ اسے کسی نہ کسی جگہ پہنچا دینا، یہ لو پیسے، جب اس کو ہوش آئے تو یہ پیسے اس کو دے دینا اور ہماری طرف سے کہنا نوکری پر آنے کی کوئی ضرورت نہیں اب گھر بیٹھ کر اللہ اللہ کرے۔“
خانساماں کی محبت، توجہ اور اللہ کی رضا سے وہ کچھ ہی دنوں میں ٹھیک ہو گیا لیکن خانساماں کے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اسے یہ بتاتا کہ مالکوں نے اس کو اپنے گھر سے چلے جانے کا حکم صادر کر دیا ہوا ہے لیکن مجبوراً اس کو بتانا ہی پڑا تھا۔
یہ لمحات حرامی کے لیے بڑے اذیت ناک تھے اور وہ گرتے گرتے بچا لیکن پھر بھی اپنی ہمت جمع کرتے ہوئے اور اپنی پریشانی کو ظاہر نہ کرتے ہوئے بولا :
”اللہ کی زمین بہت بڑی ہے کہیں نہ کہیں تو ٹھکانہ مل ہی جائے گا۔“
خانساماں اس کی مجبوریوں اور محرومیوں کو خوب سمجھ سکتا تھا کیونکہ وہ بھی ایک غریب ملازم تھا، اسے پتہ تھا کہ یہ بڑے لوگ اپنے بوڑھے ہو جانے والے ملازموں کو ایسے ہی ذلیل و خوار کرکے نوکری سے نکال دیتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ ذرہ بھر خیال نہیں آتا کہ اس شخص نے عمر بھر ہماری خدمت کی ہے، چلو تھوڑا بہت بڑھاپے کے سہارے کے لیے ہی کچھ بندوبست کر دیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ان کے ذہن میں ہوتا ہے کہ ہم ان کی خدمات کا معاوضہ ہر ماہ دیتے رہے تھے۔ لیکن غریب خانساماں کے اندر خوف خدا موجود تھا اور اسے معلوم تھا کہ ایک نہ ایک دن اس کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہونا ہے یہی وجہ تھی کہ وہ بوڑھے حرامی کو بے سہارا چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اسی لیے تو اس نے مالکن والے روپے اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا :
”آپ میرے گاﺅں چلے جائیں، وہاں پر میری بیوی یعنی آپ کی بہو، آپ کی بہت خدمت کرے گی۔ یہ لوگ تو خدمت کا صلہ ایسے ہی دیا کرتے ہیں۔“
حرامی نے اپنا مختصر سا سامان باندھا اور ٹھیکیدار کی بہو کو سلام کرنے کے لیے گیا تو اُس نے بڑے غصے سے خانساماں سے کہا :
”تم نے اس کو بتایا نہیں کہ اب یہ یہاں مزید ملازمت نہیں کرسکتا اور اسی لیے ہم نے اس کو نوکری سے جواب دے دیا ہے، اس کو باہر نکال کر دروازہ بند کر دینا۔“
یہ فقرات اس کے لیے اذیت سے کم نہ تھے اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ زمین میں دھنستا جا رہا ہے وہ گھر جس کو وہ اپنا گھر سمجھتا تھا وہاں سے اسے ایسے ذلیل و خوار کرکے نکالا جائے گا یہ تو اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا اور یہ سب کچھ وہ عورت کرے گی جس کو وہ اپنی بہو سمجھتا تھا۔
خانساماں نے اپنے گاﺅں جانے والی بس میں اس کو سوار کر دیا اور وہ بس میں بیٹھا سارے راستے یہ سوچتا رہا کہ وہ کہاں جائے کیا اسے خانساماں کے گھر جانا چاہیے یا نہیں، وہ ابھی کوئی فیصلہ بھی نہ کر پایا تھا کہ بس کا گزر ایک ایسے گاﺅں سے ہوا جہاں پر کسی بزرگ کا مزار تھا اور وہاں پر میلا لگا ہوا تھا۔ بچے بوڑھے میلے میں خوش دکھائی دے رہے تھے، نا جانے کیوں اس کا دل مچلا اور وہ اسی جگہ اتر گیا اور پھر وہیں کا ہو کر رہ گیا اس مزار پر اسے دو وقت کی روٹی بڑی آسانی اور بغیر کسی محنت سے مل جایا کرتی ہے۔ یہ اس کے لیے بڑی بات تھی۔
اسے اس قصبے میں آئے دو سال گزر چکے تھے اور ان دو سالوں میں کسی نے بھی بوڑھے کو ہنستے مسکراتے نہیں دیکھا تھا اور نہ اس کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ ابھری تھی لیکن جب اس نے اس بچے کو دیکھا تو اسے ایسا لگا کہ اس کے مردہ جسم میں نئی روح پھوٹ پڑی ہو۔ قصبے میں بچے تو بہت سے تھے لیکن اس ایک بچے میں کوئی نہ کوئی خاص بات ضرور تھی جو اس کو اس بچے کی طرف کھینچ لاتی تھی۔ صبح سے شام تک وہی صبح والا ہنستا مسکراتا، کھلکھلاتا، شرارتیں کرتا بچہ اس کی نظروں میں گھومتا رہتا تھا اور وہ اسے دیکھنے کے لیے بڑی بے قراری کے ساتھ صبح کا انتظار کیا کرتا تھا اس نے کبھی بھی یہ کوشش نہ کی کہ وہ اس بچے کے خیال کو اپنے ذہن سے نکال باہر کرے بلکہ وہ خود ہی اس کو اپنے ذہن میں سوار رکھنا چاہتا تھا کیونکہ یہ اس کے ذہنی، روحانی سکون کا ذریعہ بنتا جا رہا تھا جس دن بچہ عموماً چھٹی کے دن سکول نہ جاتا تو اس کا سارا دن بڑا بے رونق اور اداس گزرتا تھا۔ وہ کئی بار اس بچے کے تصور میں اس قدر کھو جاتا اور سوچتا اگر میری بھی شادی ہوچکی ہوتی تو آج میرے پوتے پوتیاں اس کی عمر کی ہوتیں اور میں بھی ان کو سکول لے کر جایا کرتا، ان کے ساتھ کھیلا کرتا۔ لیکن وہ یہ خیال ذہن میں لانا ہی نہیں چاہتا تھا کیونکہ اس نے شادی خود اپنی نادانی کی وجہ سے نہیں کی تھی۔ اب پرانی باتیں یاد کرکے پچھتانے سے کیا فائدہ لیکن پھر بھی بعض اوقات اُسے خیال آتا کہ مجھے ٹھیکیدار کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے تھا جو ہر وقت مجھے ایک ہی بات بتاتا کہ تو بہت اچھا ہے کہ اب تک شادی کے چکروں میں نہیں پڑا اور پڑنا بھی نہ، اس سے زندگی عذاب بن جاتی ہے اور میں بھی ایسا نادان تھا کہ اس کی باتوں میں آ گیا اور شادی کا خیال دل سے نکال دیا۔ پھر اسے خیال آتا میں شادی کرتا بھی کس سے، کوئی مجھ گناہ کی پوٹلی سے اپنی بیٹی بیاہتا؟ اور اس کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو بہہ نکلیں۔
ہر روز کی طرح وہ آج بھی صبح سویرے گلی کی نکڑ پر بچے کو دیکھنے کے لیے کھڑا تھا اور بچہ اپنے باپ کے ساتھ سائیکل پر بیٹھا ہنستا مسکراتا چلا آ رہا تھا آج پھر اس نے حسبِ عادت سلام کیا، بجائے اِس کے کہ وہ مسکرا کر سلام کا جواب دیتا، اس کا باپ بڑی تیزی کے ساتھ سائیکل چلاتا ہوا آگے نکل گیا، شاید اسے آج بہت جلدی تھی اپنے کام پر جانے کی۔ نہ جانے کیوں اس نے دل بھر کر بچے کی طرف دیکھنے کیوں نہ دیا۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک ٹرک جو بہت تیزی سے چلا آ رہا تھا سائیکل کے ساتھ ٹکڑا گیا اور وہ بچہ اور اس کے باپ کو زخمی حالت میں چھوڑ کر بڑی بے نیازی کے ساتھ آگے چلا گیا اور یہ بوڑھا بڑی بے بسی اور لاچاری سے یہ سارا منظر دیکھتا رہا پھر وہ اپنی تمام ہمت جمع کرتے ہوئے بڑی تیزی سے دوڑا، وہ شاید اس سے پہلے کبھی اتنی تیزی سے نہیں دوڑا تھا۔ اس کے پہنچنے سے پہلے ہی اور بہت سے لوگ وہاں پر جمع ہونا شروع ہوگئیں تھے اور وہ ان دونوں کو اٹھا کر ہسپتال لے گئیں اور وہ بوجھل قدموں سے مزار کے احاطے کی طرف چلا آیا۔
آج سارا دن اس غریب بوڑھے خرامی کو عجیب و غریب خیالات نے جگڑے رکھا تھا اسے ہر دم یہی فکر دامن گیر تھی کہ کہیں اس بچے کو کچھ ہو نہ جائے۔ آج اس نے اللہ سے اتنی دعائیں مانگیں تھیں کہ اس سے پہلے کبھی بھی اللہ سے اتنی دعاﺅں کے لیے ہاتھ نہ اٹھایا تھا۔
شام کو پوری بستی میں ان باپ بیٹے کی وفات کی خبر گردش کرتی کرتی اس تک بھی پہنچ گئی اور اسے ایسا لگا جیسے آسمان ٹوٹ کر اس پر گر پڑا ہے اور وہ آسمان کے بوجھ کی وجہ سے زمین میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ آج وہ ایسے اداس و پریشان تھا جیسے اس کا اپنا بیٹا یا پوتا مر گیا ہو۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بھاگ کر اس کے گھر پہنچ جائے اور اس کے سرہانے بیٹھ کر زارو قطار روئے لیکن اس کی آنکھوں کی روشنائی اس کا ساتھ نہ دے رہی تھی کہ وہ چل کر اس اندھیرے میں اس کے گھر تک پہنچ سکے مجبوراً وہ وہیں بیٹھا رہ گیا۔
اس واقعے کو جوں جوں دن گزر رہے تھے اس کی طبیعت میں بھی دن بدن کمزوری اور باﺅلا پن پیدا ہو رہا تھا اب تو وہ آپ ہی آپ مسکرائے جاتا تھا۔ اس کے ذہن میں وہی معصوم بچہ سوار رہتا تھا جس کو سوچ کر وہ خوش ہوا کرتا تھا۔ اب اس کے پاس خوش ہونے کے لیے کچھ بھی نہ تھا وہ اسی بچے کو اپنی کل کائنات تصور کرچکا تھا وہ ذہن میں ہی اس کی شادی ہوتی ہوئی دیکھتا تھا اور وہ تمام خوشیاں جو اسے نہ ملی تھی وہ اس کے لیے سوچا کرتا تھا لیکن اب اس کی دنیا فضا ہو چکی تھی۔
ایک سہانی سی صبح تھی ابھی پرندے درختوں پر ہی چہچہا رہے تھے اور لوگ اپنے اپنے روزگار کو جانے کے لیے اپنے گھروں سے نہیں نکلے تھے کہ اچانک اس کے سامنے وہی بچہ کھڑا تھا اور وہ اپنی بانہیں پھیلائے کہہ رہا تھا:
”بابا میں یہاں ہوں، آپ مجھ سے پیار نہیں کریں گے۔“ وہ اٹھا اور دور کر بچے کی طرف بھاگا، قبل اس کے کہ وہ وہاں تک پہنچتا، بچہ وہاں سے غائب ہوچکا تھا، اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے بچہ قبرستان میں زندہ موجود ہے اور لوگ اسے مردہ جان کر وہاں چھوڑ آئے ہیں۔ اب وہ مجھے مدد کے لیے بلا رہا ہے۔ اسی لیے تو وہ اپنی کھولی سے اٹھا اور قبرستان کی طرف چل نکلا۔
مکمل سکوت کا عالم تھا، فضا میں گیلی مٹی اور سڑے پودوں کی بدبو رچی ہوئی تھی۔ درختوں کے تنوں اور جھاڑیوں پر حشرات رینگ رہے تھے۔ وہ چلتا گیا— چلتا گیا— گھنے درختوں اور خاردار جھاڑیوں میں سے ہوتا ہوا وہ بالآخر کھانستا کھانستا اور سردی سے ٹھٹرتا ہوا قبرستان تک پہنچ ہی گیا۔
قبرستان میں ہر طرف اسے قبریں ہی قبریں نظر آ رہی تھیں لیکن منّا کہیں نظر نہ آ رہا تھا جس کی آواز پر وہ لبیک کہتا ہوا اتنی دور سے چل کر آیا تھا کہ دفعتاً اس کے کانوں نے آواز سنی:
”میں یہاں ہوں بابا، مجھے ڈھونڈ لو۔“ آواز سنتے ہی اس کے لبوں کو جنبش ہوئی اور وہ خوشی سے چلا اٹھا، خوشی سے دمکتے چہرے سے اس نے اپنے چاروں طرف نگاہ دوڑائی، کہیں کچھ دکھائی نہ دیا۔ ہر طرف وہی قبریں ہی قبریں تھیں۔
”اِدھر— اُدھر—“ دوسری بار پھر ایسی ہی آواز آئی لیکن نظر کوئی نہیں آیا یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا وہ ہر آواز پر دیوانہ وار اِدھر اُدھر گھومتا لیکن منّا اسے کہیں دکھائی نہ دیتا لیکن اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ منّا ضرور یہیں کہیں موجود ہے جو مجھ سے دل لگی کر رہا ہے، آخر میں اس کو ڈھونڈ ہی لوں گا۔
جب وہ بہت زیادہ تھک گیا تو مایوس اور ناامید ہو کر ایک پکی قبر جس کے ساتھ کچی قبر تھی جو گڑھا بن چکی تھی، وہاں پر بیٹھ کر خود کلامی کرنے لگا :
”بیٹا تو ہی نہیں تو میرا کون ہے؟ کون مجھے کندھوں پر اٹھا کر یہاں تک لائے گا، کس کے سہارے، کس امید پر میں زندہ رہوں گا۔“ ایک دم اس کا سر چکرایا اور آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، اس نے اپنے بوڑھے وجود کو سنبھالنے کی بہت کوشش تو کی لیکن ناکام رہا بالاخر وہ چکرا کر ساتھ والی کچی قبر جو گڑھا بن چکی تھی اس میں گر گیا۔
اس روز کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہ آیا کسی نے بوڑھے کی گمشدگی کا کوئی نوٹس نہ لیا کہ مزار کے احاطے میں کوئی بابا بھی ہوا کرتا ہے اور اسے تقدیر خود ہی وہاں لے گئی جہاں پر اس کو کسی کے کندھوں کے سہارے آنا تھا۔
—————
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں