فیصلہ
غلام حسین نے بڑی ہمت باندھ کر بہت دنوں کے بعد آج تانگہ باہر نکالا تھا اور وہ گاﺅں کے اونچے نیچے راستوں سے ہچکولے کھاتا ہوا تانگہ بڑی سڑک پر لے آیا۔ لیکن یہاں اسے دور دور تک کہیں کسی سواری کا کوئی آثار دکھائی نہ دیا اور نہ ہی کچھ دیر بعد کوئی سواری ملنے کا امکان تھا، جس کی وجہ تھی شدید بارش۔ بارش جو دو دن سے مسلسل ہو رہی تھی اور اس نے معمولاتِ زندگی کو متاثر کرکے رکھ دیا تھا اور لوگ گھروں میں قید ہو کر رہ گئے تھے۔
اب بارش بہت ہلکی ہوچکی تھی، اس میں وہ شدت نہ تھی جو پہلے تھی چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کیوں نہ تانگہ شہر کی طرف موڑ لیا جائے کیونکہ بارش کی وجہ سے شہر دریا کا نظارہ پیش کر رہا ہوگا۔ کھڑے پانی کی وجہ سے رکشہ ،ٹیکسی اور ویگن تو چل نہیں رہی ہوگی اور سواریوں کا بے پناہ رش ہوگا اور میری اچھی خاصی دھیاڑی لگ جائے گی۔ کیونکہ بارش میں آمدورفت کا بہترین ذریعہ تانگہ ہی تو ہوتا ہے۔ اس سوچ کے آتے ہی اس نے اپنے تانگے کا رخ شہر کی طرف موڑ دیا۔ تھوڑا ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد تانگہ ایک نشیبی راستے سے گزرا جہاں پر بارش کا پانی کھڑا تھا اور اس پانی میں بچے نہا رہے تھے۔ ان بچوں کی شرارتیں دیکھ کر اس کا دھیان اپنے اکلوتے بیٹے ببلو کی طرف چلا گیا۔
ببلو کو زندگی کی بہاریں دیکھے ابھی سات سال بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ اس پر شدید بیماری حملہ آور ہوگئی تھی وہ پچھلے ایک سال سے مسلسل بیمار تھا اور اب پچھلے تین ماہ سے اس کی بیماری میں شدت آگئی تھی۔
اس نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر گاﺅں کے بڑے حکیم سے اس کا علاج کروایا تھا۔ حکیم کے علاج کے علاوہ اسے جہاں سے بھی خبر ملتی کہ فلاں گاﺅں میں پیر صاحب ہے، ان کے دم، تعویذ سے مریض ٹھیک ہو جاتے ہیں تو وہ وہاں چلا جاتا، وہاں بچے کو دم کرواتا اور تعویذ لیتا اس طرح وہ کئی پیروں کے پاس گیا ہر کوئی اسے ایک ہی بات بتاتا کہ تمہارے بچے پر کسی نے جادو کیا ہوا ہے، جب تک وہ جادو زائل نہیں ہو جاتا تمہارا بیٹا ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ جادو کا اثر زائل کروانے کے لیے اس نے اپنی تمام جمع پونجی تعویذ گنڈوں کی نذر کر دی تھی لیکن اس کے دُکھ کا مداوا پھر بھی نہ ہوا اور ببلو کی حالت دن بدن خراب ہوتی چلی گئی اور وہ سوکھ کر کانٹا بنتا جا رہا تھا۔ اس کی کمزوری کا یہ عالم تھا کہ اس کے جسم کی ہڈیاں گننی جاسکتی تھیں۔ کمزوری کی وجہ سے اس کے اندر اتنی طاقت بھی نہ رہی تھی کہ وہ کچھ بول سکے۔ جب وہ تندرست تھا تو گھر میں اس کی چھوٹی موٹی شرارتوں سے بہت رونق رہتی تھی لیکن اب بیماری کے دوران گھر کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ جیسے گھر کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ گھر میں ہر وقت سناٹا چھایا رہتا تھا صرف ببلو کے سانس لینے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ گھر کے درو دیوار سے ایسی وحشت اور خاموشی ٹپک رہی تھی جیسے یہ گھر اپنے مکینوں سے خالی ہوچکا ہو۔ ایک ہنستا مسکراتا گھر خاموشی کا گہوارہ بن گیا تھا۔
اس کے پاس جو جمع پونجی اور بیوی کے زیورات تھے وہ سب پیروں کو نذرانے، چِلّوں، صدقات وغیرہ پر خرچ ہوگئے تھے۔ خالی جیب کے ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے بیٹے کی زندگی کے متعلق ناامید نہ ہوا تھا۔ اسے اللہ کی رحمت پر مکمل یقین تھا اسی لیے تو وہ ان پیروں، فقیروں کے چکر سے نکلنا چاہتا تھا۔ اب اسے یقین ہوچکا تھا کہ اگر ببلو کو ان پیروں، فقیروں کے تعویذوں اور دم کیے ہوئے پانی سے ٹھیک ہونا ہوتا تو وہ کب کا ٹھیک ہوگیا ہوتا۔ اس کا علاج شہر کے کسی بڑے ڈاکٹر سے کروانا چاہیے۔
ڈاکٹر نے اسے مہنگی دواﺅں والا نسخہ دے دیا۔ دوا لانے کے لیے اس کی جیب میں مطلوبہ رقم نہ تھی اور نہ ہی اسے کہیں سے مزید قرض مل سکتا تھا۔ ان حالات میں اس نے فیصلہ کیا کہ آج رات دیر تک تانگہ چلا کر دوا کے لیے رقم اکٹھی کی جائے اس مقصد کے لیے اس نے تانگہ باہر نکالا تھا اور بڑی سڑک کی طرف جانے سے پہلے اس نے ایک نظر اپنے جگر کے ٹکڑے کی طرف ڈالی جو اپنے والدین کی پریشانی سے بے خبر گہری نیند سو رہا تھا۔
اب بارش قدرے تھم چکی تھی بس ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ پرندے درختوں کی ٹہنیوں اور آشیانوں میں بارش سے بھیگے ہوئے بیٹھے تھے اور کچھ رزق کی تلاش میں سرکردہ تھے۔
لیکن سواریاں اسے دور دور تک نظر نہ آ رہی تھیں اسے تو معقول رقم کی ضرورت تھی اور یہ رقم اچھے پھیروں سے حاصل ہوسکتی تھی۔ لیکن بارش نے اس کے تمام ارادوں کو چکنا چور کر دیا تھا۔ ان حالات میں بھی امید کی ایک کرن ابھی روشن تھی اسے یقین تھا کہ سواریاں اسے ضرور بس اڈے سے مل جائیں گی۔ اسی لیے تو اس نے اپنے ٹانگے کا رخ بس اڈے کی طرف موڑ دیا تھا۔ اس کے ذہن میں خیال آیا کہ بارش کی وجہ سے بس اڈہ بھی تو تالاب بنا ہوگا اور پانی کی وجہ سے بسوں والے سواریاں نامعلوم کہاں اتارتے ہوں گے، اڈہ خالی ہونے کی بنا پر ہوسکتا ہے کہ مجھے کوئی سواری نہ ملے اور مایوس لوٹنا پڑے پھر بھی وہ امید ہی کے سہارے بس اڈے کی طرف روا دوا تھا۔ جب انسان مایوس، ناامید، رنجیدہ ہوتا ہے تو اس کے لیے امید ہی قیمتی سہارا ہوتی ہے اور اس سہارے کے بل پر وہ حالات کا مقابلہ کرتا ہے اور یہی امید ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہوتی ہے۔ جب امید ٹوٹ جاتی ہے تو سہارے بھی ٹوٹ جاتے ہیں اور انسان کا زندہ رہنا دوبھر ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں انسان خود کو زندہ رکھنے کے لیے جو امیدیں باندھتا ہے وہ بہت کارآمد اور مفید ثابت ہوتی ہیں بشرطیکہ انسان مایوس اور خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہوا ہو اور وہ بھی خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہوا تھا۔ اسی لیے تو اسے سواریاں ملنے کا پورا یقین تھا۔
آج اس نے بہت دنوں کے بعد ہمت کرکے تانگہ رات گئے تک چلانے کا ارادہ کیا تھا وہ بھی اس وقت جب وہ بالکل کنگال ہوچکا تھا۔ مسلسل پریشانی کی وجہ سے وہ گزشتہ ایک ماہ سے فارغ بیٹھا ہوا تھا کیونکہ تانگہ سڑک پر لے جانے کو اس کا دل ہی نہیں مانتا تھا کہ نہ جانے میری غیر موجودگی میں کیا ہو جائے گا۔ آج وہ مجبوری کی حالت میں سڑک پر تو آگیا تھا لیکن بارش کی وجہ سے ابھی تک اُسے سواری نہ ملی تھی۔
بس اڈہ آنے میں ابھی تھوڑا ہی راستہ باقی تھا کہ اسے بغلی سڑک پر ایک بوڑھی عورت دکھائی دی جو تیز تیز چلتے ہوئے ہاتھوں کے اشاروں سے تانگہ روکنے کا اشارہ کر رہی تھی۔ اس نے بوڑھیاں کو دیکھ کر تانگہ روک دیا۔ چند ثانیہ بعد بوڑھیاں اس کے ٹانگے کے پاس آ کر روکی تو اس کی سانس پھولی ہوئی تھی اور چہرے سے پریشانی عیاں تھی اس کے پاس کپڑے کا بنا ہوا تھیلا تھا۔ اس نے تھیلے کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے پکڑ کر چھاتی کے ساتھ لگایا ہوا تھا۔ تھیلے کی غیر ضروری حفاظت سے معلوم ہوتا تھا کہ اس میں کوئی قیمتی اشیاءہیں۔ بوڑھیا نے آتے ہی اس نے کہا :
”بیٹا سنٹرل ہسپتال جانا ہے۔“
”سنٹرل ہسپتال تو بہت دور ہے اور راستے میں جگہ جگہ پانی بھی کھڑا ہے۔“
بیٹا اتنا زیادہ دور نہیں کہ تانگہ پہنچ ہی نہ سکے۔ مجھے اس وقت رکشہ، ٹیکسی پانی کی وجہ سے نہیں مل سکتا۔ بیٹا خدا کے واسطے مجھے ہسپتال پہنچا دو، بہت ضروری جانا ہے۔ میں تمہیں معقول کرایہ دوں گی۔
اسے معقول رقم ہی کی تو ضرورت تھی اس لیے اس نے ہسپتال جانے کا ارادہ کر لیا۔ ابھی وہ تھوڑی ہی دور چلا تھا کہ اس کے دل میں خیال آیا کہ کرایہ راستے میں ہی طے کر لیا جائے۔ اسی ارادے سے اس نے کہا :
اماں جی کرایہ تین سو روپے لوں گا اس سے کم ہرگز نہیں۔
بوڑھیاں جو پہلے ہی بہت پریشان دکھائی دے رہی تھی اور اس کی پریشانی کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ بوڑھیاں جلد از جلد منزل پر پہنچنا چاہتی ہے اور اسی بات کو بھانپ کر اس نے زیادہ کرائے کا مطالبہ کیا تھا۔
بوڑھیاں نے پریشانی کے عالم میں کہا : ”بس مجھے جلدی سے ہسپتال پہنچا دو اور کرایہ تم کو میں ابھی ادا کر دیتی ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے تھیلے سے بٹوہ نکالا اور تین سو روپے گن کر اسے دے دیے اور بٹوہ دوبارہ اپنے تھیلے میں رکھ دیا۔
روپے بہت سے لوگوں کا ایمان بھی خراب کر دیتے ہیں جب اس نے بہت سے نوٹ ایک ساتھ دیکھے تو اس کی نیت میں فتور آگیا۔ اس نے سوچا بچے کے علاج کے لیے جیب میں پیسے نہیں، قرض دینے والا کوئی نہیں بلکہ کئی لوگوں کا قرض چڑھ چکا ہے۔ تانگہ چلا کر میں کتنی رقم کما سکتا ہوں، اتنی رقم تو میں پورے ماہ بھی نہیں کما سکتا جتنی رقم بوڑھیاں نے پرس میں رکھی ہے اور مجھے اس رقم کی ضرورت بھی ہے۔
اس کے دل میں شیطان وسوسہ ڈالتا کہ اس تھیلے کو چھین کر بھاگ جانا چاہیے تاکہ میں اپنے بیٹے کا علاج کروا سکوں جو زندگی کی بازی ہار رہا ہے۔ اگر میں نے یہ موقع گنوا دیا تو پھر دوبارہ کبھی ایسا موقع نہ ملے گا اور نہ میں بچے کا علاج کروا سکوں گا۔ کبھی اس کے ذہن میں خیال آتا اگر میں پکڑا گیا تو میں سیدھا جیل جاﺅں گا اور گاﺅں میں پھر کبھی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گا۔ ساری عزت خاک میں مل جائے گی۔ ببلو تو زندگی کی بازی ہار ہی جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ اس کی والدہ کی زندگی بھی اجیرن ہو جائے گی اور بدنامی کا یہ داغ ساری زندگی میرا پیچھا نہ چھوڑے گا۔
وہ اس وقت ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا تھا کہ میں کیا کروں، اسی اثنا میں تانگہ کا گزر ایک ایسے سنسان راستے سے ہوا جہاں بارش کا پانی بہت کھڑا تھا، ایسا سنہری موقع پا کر اس کے اندر کا شیطان جاگ اٹھا اور اس نے واردات کرنے کا پکا ارادہ کر لیا۔ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اس نے تانگہ بیچ سڑک کھڑا کر دیا اور بوڑھیاں سے کہنے لگا :
”اماں جی تانگہ گھڑے میں پھنس گیا ہے۔ ذرہ نیچے اتریں، میں پہیہ کو دھکا دے کر آگے کر لو پھر آپ چڑھ جانا۔ اگر آپ بیٹھی رہی تو گھوڑی گر جائے گی جس کی وجہ سے آپ کو چوٹ لگ جائے گی۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ آپ ذرہ نیچے اتر جائیں۔“
بوڑھیاں کے نیچے اترتے ہی اس نے دونوں ہاتھوں کا مکا بنا کر زور سے بوڑھیاں کے سر پر مارا جس کی وجہ سے بوڑھیاں پانی میں گر گئی اور وہ تھیلہ لے کر بھاگ گیا۔ اسی بھاگ دوڑ میں اس نے شہر میں کہیں سے ڈاکٹر کی لکھی ہوئی دوائی خریدی اور واپس گاﺅں کی طرف لوٹ آیا۔
گاﺅں کے کچے راستے پر تانگہ بہت آہستہ ہوگیا تھا۔ اس نے تانگہ پر ہی بیٹھے ہوئے تھیلے کے اندر سے بٹوہ نکالا اور اس میں موجود نوٹوں کو گننے لگا۔ اس میں صرف آٹھ سو روپے تھے اور اس کے علاوہ تھیلے میں ایک خون کی بوتل، ایکسرے اور کچھ میڈیسن بھی تھیں۔ اس نے روپے جیب میں ڈالے اور تھیلے میں موجود تمام چیزوں کو کہیں پھینک کر گھر کی طرف چل دیا۔
اس نے گھر کا دروازہ کھولا، اندر داخل ہوا تو گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ سناٹا تو پہلے بھی ہوتا تھا لیکن آج اس سناٹے نے اس کے رونکٹھے کھڑے کر دیے تھے وہ آگے بڑھا۔ کمرے کا دروازہ کھولا تو اس کی نظر سب سے پہلے اپنے بیٹے پر پڑی جس کی سانس رک چکی تھی اور ساتھ ہی بچے کی ماں سکتے کے عالم میں پڑی تھی۔
اس کے ہاتھ میں نوٹ تھے اور ذہن میں بوڑھیاں کا خیال، وہ کبھی نوٹوں کو دیکھتا اور کبھی اپنے بچے کی طرف جو بے جان پڑا تھا۔
—————
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں