ایسا بھی ہوتا ہے
یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب میں بی ایس سی میں فرسٹ آیا تو والد صاحب نے میرے فرسٹ آنے کی خوشی میں مجھے گاڑی تحفتاً دی تھی۔ میں گاڑی ملنے کی خوشی سے سرشار تھا لہٰذا میں گاڑی لے کر شہر کی سڑکیں ماپنے کے لیے نکل پڑا۔ شہر بھر کی مختلف سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے کرتے میں نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ گیا کہ معماً مجھے اپنی گاڑی روکنا پڑی کیونکہ سڑک لوگوں کے ہجوم کی بدولت قدرے بند ہوچکی تھی۔ میں نے گاڑی میں ہی بیٹھے بیٹھے مجمع بھر میں نگاہ دوڑائی تو میری نظر ایک مفلوک الحال شخص پر پڑی جس کو لوگوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا اور ایک قدرے صحت مند بھاری بھرکم شخص جس کے چہرے پر غصے اور بے رحمی کے آثار نمایاں تھے وہ بڑی بے دردی کے ساتھ مفلوک الحال شخص کو ٹانگوں اور گھونسوں سے مار پیٹ رہا تھا۔ مجمعے میں کھڑے افراد بھاری بھرکم شخص کو روک نہیں رہے تھے بلکہ اسے مزید اشتعال دلا رہے تھے۔ لوگوں کی معاونت شاملِ حال ہونے کی بنا پر وہ شخص مزید اشتعال میں آچکا تھا اور اس کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہ لے رہا تھا مجھ سے یہ سب کچھ دیکھا نہیں جا رہا تھا اور میں خدائی فوج دار بن کر اس مجمعے کو چیڑتا ہوا وہاں پہنچ گیا اور مظلوم شخص کو وحشی انسان سے بچایا۔ شدید ذدوکوب کی وجہ سے مفلوک الحال شخص کا نہ صرف چہرہ لہولہان ہوچکا تھا بلکہ آنکھیں بھی سوج چکی تھیں۔ وہ درد سے کراہ رہا تھا اور میں شدید نفرت سے بھاری بھرکم شخص کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا:
”تمہیں شرم آنی چاہیے کہ تم اپنے سے کمزور شخص کو بے دردی کے ساتھ پیٹ رہے ہو۔“
”باﺅ جی یہ—“ اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن میں نے اسے روک دیا اور مجمعے کو مفلوک الحال شخص کے زخم دکھا کر کہنے لگا:
”تم لوگوں کے اندر خوفِ خدا نام کی کوئی چیز نہیں کہ یوں خاموشی کے ساتھ مظلوم پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہو۔“
میں نے اس وقت نہ صرف اعلیٰ قسم کا سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا بلکہ میرے پاس قیمتی گاڑی بھی موجود تھی شاید اِس کی وجہ سے لوگ مجھ سے مغلوب ہوچکے تھے اور میری بات کا اثر لے رہے تھے۔ دفعتاً وہی بھاری بھرکم شخص بول پڑا:
”بابو جی یہ جیب کترا ہے؟“ اس کی یہ بات سن کر میں ذرا سا کھسیانا ہوگیا لیکن فوراً اپنی عفت مٹانے کی خاطر میں زخمی کی طرف متوجہ ہوا:
”تم نے اس کی جیب کاٹی تھی۔“
”نہیں بابو جی میں نے اس کی جیب نہیں کاٹی بس یہاں پر سستانے کے لیے بیٹھا تھا کہ اس نے مجھے مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔“ اس کی بات سن کر میں پھر بھاری بھرکم شخص کی طرف متوجہ ہوا اور اسے کہنے لگا:
”کیا تم نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا جب یہ تمہاری جیب کاٹ رہا تھا۔“ میری بات سن کر بھاری بھرکم شخص خوف زدہ ہوگیا اور وہ کوئی جواب نہ دے پایا لہٰذا میں پھر اس سے کہنے لگا:
”تم میری بات کا جواب کیوں نہیں دے رہے ہو، کیا تم پولیس اسٹیشن جا کر جواب دو گے۔“ یہ بات سن کر وہ اور زیادہ خوف زدہ ہوگیا اور کہنے لگا:
”بابو جی میں جب بس اسٹاپ میں اس کے پاس بنچ پر بیٹھا تو مجھے ایسے لگا جیسے اس نے میری جیب میں ہاتھ ڈالا ہے۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور یہ اپنا ہاتھ چھڑوا کر بھاگنے لگا تو میں نے اس پر تھپڑوں کی بھرمار کر دی اور ساتھ ہی یہاں پر ہجوم میں بھی اضافہ ہوگیا۔ تمام لوگ مجھے شاباش دینے لگے کہ جیب کترے کو خوب مارو تاکہ یہ پھر کبھی کسی کی جیب نہ کاٹ سکے لہٰذا میں نے بھی اسے دل کھول کر مارا۔“
اس وقت مجمعے میں سب سے زیادہ معزز شخص میں تھا اور لوگ میرا فیصلہ سننے کے لیے بے تاب تھے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ان کو میرا سنایا ہوا فیصلہ من و عن قبول ہوگا۔ مجمعے کی ایسی حالت دیکھ کر میرے دل میں لیڈری چمکانے کا جذبہ بھڑک اٹھا تھا اسی جذبے سے مغلوب ہو کر میں اس بھاری بھرکم شخص پر برس پڑا اور اسے کھڑی کھڑی سنانے لگ گیا:
”تم انسان نہیں درندے ہو، تم نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم اور بھولے بھالے شخص پر نہ صرف گھناﺅنا الزام لگایا ہے بلکہ تم نے وحشی درندے کی خصلت اپنا کر درندگی سے بھی بڑھ کر بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی آنکھوں، ناک اور ہونٹوں پر اس قدر ضربات لگائی ہیں کہ یہ نڈھال ہوچکا ہے۔ اگر میں اس وقت نہ آتا تو یقیناً اس کی موت تمہاری بربریت کی بنا پر واقع ہوچکی ہوتی۔“ اتنے سخت الفاظ سننے کی بنا پر اسے کوئی جواب سوج نہیں رہا تھا کہ وہ میری بات کا کیا جواب دے اس لیے وہ گھبرایا ہوا کھڑا تھا لہٰذا اس کی گھبراہٹ دیکھ کر میرے دل میں مظلوم کے لیے ہمدردی کا جذبہ اور زیادہ موجزن ہوگیا اور میں اس بھاری بھرکم شخص کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اسے اس زخمی کے سامنے لا کر کہنے لگا:
”دیکھ اس کا چہرہ تمہاری درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے، میں تمہیں جیل پہنچا کر ہی دم لوں گا۔“ میری اب تک کی کارکردگی سے پورا مجمع جو سستی تفریح حاصل کرنے کی خاطر جمع ہوچکا تھا وہ پوری طرح محظوظ ہو رہا تھا اور میری انسانی ہمدردی کی تعریفیں کرنے لگا تھا حالانکہ میں معاملے کی گہرائی سے جائزہ لیے بغیر بنا سوچے سمجھے بھاری بھرکم شخص کو ہی اس معاملے کا ذمہ دار قرار دے چکا تھا اور مار کھانے والے شخص کے متعلق میرے دل میں ہمدردی کے جذبات ابھر چکے تھے اور جب میں نے مجمعے کی طرفداری اپنی طرف دیکھی تو میرے جذبات کو اور زیادہ تقویت ملتی چلی گئی لہٰذا میں مجمعے کی اور زیادہ داد تسکین سمیٹنے کی خاطر اس زخمی مظلوم سے پوچھنے لگا کہ تو اس درندہ صفت انسان کے ہاتھ کیسے لگ گیا تو اس شخص نے ہاتھ جوڑ کر اپنے دائیں بائیں اکٹھے ہو جانے والے مجمعے کو دیکھا۔ اس وقت اس کے ہاتھ اور ہونٹ کانپ رہے تھے میں نے اسے حوصلہ دیا تو وہ کہنے لگا:
”بابو جی میں سچ کہتا ہوں میں جیب کترا نہیں ہوں۔“
”وہ تو مجھے بھی نظر آ رہا ہے۔“ میں نے حالات کی نزاکت جانچے بغیر اس کی بے گناہی کا سرٹیفکیٹ جاری کرچکا تھا اس لیے اپنے فیصلے کو اور زیادہ تقویت پہنچانے کی خاطر کہنے لگا:
”مجھے اصل بات بتاﺅ جس کی بنا پر تم اس حالت تک پہنچے ہو۔“
”بابو جی میں بے روزگار ہوں مجھے چار دن ہوگئے ہیں شہر میں روزگار ڈھونڈتے ہوئے لیکن روزگار نہیں ملا۔ میں روز کی طرح آج بھی سارا دن روزگار تلاش کرتا رہا لیکن ناکام رہا لہٰذا میں اس بس اسٹاپ کے سائبان کے بنچ پر رات بسر کرنے کے لیے لیٹا تو یہ شخص میرے پاس آ کر بیٹھ گیا اور بہانے بہانے سے میری جیبیں ٹٹولنے لگا۔ میرے احتجاج کرنے پر اس نے مجھے مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔“ یہ بات سن کر بھاری بھرکم شخص احتجاجاً کچھ کہنا چاہ رہا تھا لیکن میں نے اسے پولیس کی دھمکی دے کر نہ صرف خاموش کروا دیا بلکہ اسے سختی سے حکم دیا کہ اگر تم اپنی حیریت چاہتے ہو تو فوراً یہاں سے چلے جاﺅ ورنہ میں تمہیں پولیس کے حوالے کر دوں گا۔ میں پہلے ہی بغیر کچھ جانے سمجھے کہ جھوٹا کون ہے اور سچا کون ہے۔ زخمی کو ہی سچا سمجھ چکا تھا لہٰذا اب اس مظلوم کی مدد کرنے کی خاطر میں نے اپنی جیب سے ہزار روپے کا نوٹ نکالا اور اس کی طرف بڑھا دیا۔ میرے اس ایثار اور انسانی ہمدردی کی بنا پر لوگ بہت حیران ہوئے اور میری طرف دیکھنے لگے۔ پھر ایک تماشائی نے مظلوم کی طرف بڑھ کر کہا:
”بھائی صاحب یہ ایک سو روپے میری طرف سے رکھ لو کھانا کھا لینا۔“ پھر یکے بعد دیگرے چند اور لوگوں نے بھی اسی طرح اس مظلوم کی نہ صرف مالی مدد کی بلکہ اس بھاری بھرکم شخص کو بھی برا بھلا کہا جس نے ناحق ایک شخص پر ظلم ڈھایا تھا یوں گویا ہجوم کی سوچ یکسر تبدیل ہوچکی تھی جو پہلے جیب کترے کو مار پڑتی دیکھ رہے تھے اب اسے مظلوم سمجھ کر اپنی استطاعت کے مطابق مالی مدد دے رہے تھے یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا تھا۔ آج مجھے اپنے اس عظیم کارنامے پر فخر محسوس ہو رہا تھا کہ میں نے زندگی میں کوئی نمایاں کام سرانجام دیا ہے یہ سب کچھ میری قیمتی گاڑی اور ظاہری امیرانہ مناسبت سے ہوا تھا یا پھر میری ذہانت کی وجہ سے بہرکیف جو کچھ بھی تھا لیکن تھا تو بڑا بروقت فیصلہ جس نے ظلم کو روک لیا تھا لہٰذا جب میں فخر سے یہ عظیم کام کرکے اپنی گاڑی کی طرف جانے لگا تو زخمی شخص نے اتنی بری طرح کراہنا شروع کر دیا اور پورے مجمعے کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا میں پھر اس کی طرف گیا اور اس سے اچانک اٹھنے والی درد کے اسباب پوچھنے لگا لیکن اسے درد ہی اتنی شدید ہو رہی تھی کہ وہ مجھے صرف اتنا ہی بتا سکا کہ میری ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے۔ اس کی چیخیں اتنی دردناک تھیں کہ ہر شخص کی ہمدردی اس کی طرف اور بڑھ گئی تھی، اس لیے لوگ مجھے کہنے لگے:
”بابو جی آپ کے پاس گاڑی ہے، آپ ہی اسے ہسپتال لے جائیں، لہٰذا میں نے فوراً ثواب کا کام سمجھتے ہوئے اسے اپنی نئی قیمتی گاڑی میں بٹھایا اور تیزی سے گاڑی چلاتے ہوئے ہسپتال کی طرف چل پڑا تاکہ زخمی کو بروقت ہسپتال پہنچا سکوں کیونکہ وہ بیچارہ پیچھے لیٹا ہوا درد سے بری طرح کراہ رہا تھا۔ مریض کو جلد از جلد ہسپتال پہنچانے کی خاطر میں نے جس سڑک کا انتخاب کیا تھا وہ سڑک چھوٹی ہونے کی بنا پر کم استعمال میں رہتی تھی اور یہاں ٹریفک دوسری سڑکوں کی نسبت کم تھی اس لیے میں نے اس سڑک کا انتخاب کیا تھا۔ گاڑی سنسان سڑک سے گزر رہی تھی کہ اچانک میری گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لیٹا زخمی شخص اٹھا اور اس نے پستول میری کن پٹی پر لگا کر مجھے حکم دینے لگا۔
”بابو تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے فوراً نکال دو ورنہ— اس نے پستول کا دباﺅ کن پٹی پر بڑھا کر یہ حکم دیا تھا۔ لہٰذا مجھے اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ میری جیب میں جو کچھ بھی تھا میں نے فوراً اس کے حوالے کر دیا تاکہ وہ میری جان بخشی کر دے۔ لیکن وہ مجھے تمام رقم سے محروم کرکے دوبارہ حکم دینے لگا۔ بابو فوراً گاڑی سے باہر نکل جاﺅ۔ میں اس کی منت سماجت کرنے لگا کہ یہ گاڑی میری نہیں ہے بلکہ میں کسی دوست سے مانگ کر لایا ہوں کیونکہ مجھے بہت ضروری کام ہے۔ لیکن اس کی غصیلی شکل اور سخت دھمکیوں کے سبب مجھے گاڑی سے نیچے اترنا پڑا اور وہ فوراً گاڑی لے کر فرار ہوگیا اور میں اپنی جاتی ہوئی گاڑی کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا رہا۔
—————
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں