ماں
ریحانہ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ نسرین کو کیا ہو جاتا ہے جب اس کی پندرہ ماہ کی بیٹی اس کو ماں کہہ کر پکارتی ہے حالانکہ اسے خوش ہونا چاہیے تھا کہ وہ اس مقام پر پہنچ گئی ہے جس کے پیروں تلے جنت ہے۔ اس کے باوجود ماں کا لفظ سنتی تو اس کے اوسان خطا ہو جاتے۔ اس کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا جاتا، جسم اس کا ایسے سن ہو جاتا جیسے روح اور جسم کا رشتہ ٹوٹ چکا ہو۔ وہ خود پر قابو پانے کی بہت کوشش کرتی لیکن ہر بار ناکام رہتی۔ جس کی وجہ سے وہ کچھ گھبرائی گھبرائی سی لگتی تھی۔
نسرین کے ہنستے مسکراتے چہرے پر کچھ دنوں سے اُداسی اور پریشانی عیاں تھی اور وہ کسی انجانے خوف سے گھبرائی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ گھر کے کام کاج میں اس کی بے خیالی اور عدم دلچسپی دیکھی جاسکتی تھی۔ کل ہی کی بات ہے اس نے ہنڈیاں میں بے خیالی میں دو مرتبہ نمک ڈال دیا تھا، ہر وقت پریشان پریشان دکھائی دیتی۔ اکثر وہ چپ چاپ بیٹھی دیوار پر لگی تصویر کو ٹُکر ٹُکر ایسے ہی دیکھتی رہتی جیسے یہ تصویر اس کی کسی عزیزہ کی ہو بلکہ یہ تصویر وہ خود بازار سے خرید کر لائی تھی کیونکہ اس میں ممتا کے جذبات کی عکاسی ہوتی تھی۔
ریحانہ اور نسرین کے درمیان کوئی خون کا رشتہ تو نہ تھا پھر بھی دونوں ایک دوسری کو دل و جان سے چاہتی تھیں۔ اِن دونوں میں ایسی محبت تھی جیسی شاید دو سگی بہنوں میں بھی نہ ہو۔ دونوں نے دل کی بات کبھی ایک دوسری سے چھپائی بھی تو نہ تھی لیکن اب نسرین کو دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہوگیا تھا اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔
کبھی تو ریحانہ کے دل میں خیال پیدا ہوتا کہ کیا اس کو یکایک مجھ سے نفرت تو نہیں ہوگئی جو یہ اب مجھ کو باجی کہہ کر بھی نہیں پکارتی، اس سے جو کام کرنے کو کہا جاتا، ہاں ہوں کرکے وہ کام سرانجام دے دیتی ہے لیکن اپنی زبان سے باجی کا لفظ ادا نہیں کرتی۔ کیوں وہ ایسا کرتی ہے؟ مجھ سے ایسی کون سی خطا ہوگئی کہ وہ روٹھ گئی۔ مجھے اس سے پوچھنا چاہیے کہ تم کو کیا ہوگیا ہے، کیوں تم اس طرح رہ کر میرا دل جلاتی ہو، پہلے تو ایسی نہ تھی پھر اب کیا ہوگیا ہے۔ وہ اپنے آپ کے ساتھ فیصلہ کرکے اٹھنا چاہتی تھی کہ یکایک اس کے ضمیر نے سمجھایا کہ تم کو اِس طرح اُس سے کچھ نہیں پوچھنا چاہیے کیونکہ تم جو دھندہ کرتی ہو، وہ قابلِ فخر تو نہیں، وہ تم کو غصہ میں کوئی ایسا ویسا طعنہ نہ دے دے جس کی وجہ سے تمہاری دل آزاری ہو۔ اُس کے ضمیرکی آواز حالات کے مطابق تھی لہٰذا اُس نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا۔ اور اپنی بے بسی پر دل ہی دل میں کُڑتی رہی، اور خیال خیال میں کہتی: ”میں ایسی تو نہ تھی اور نہ میں ایسا بننا چاہتی تھی، بس بن گئی، لیکن اب مجھے اس دلدل سے نکلنا ہوگا۔“ یہ باتیں سوچتے سوچتے اس کا ذہن ماضی میں کھو گیا۔
ریحانہ نے غربت کی آغوش میں آنکھ کھولی، اس کا باپ چوہدری کا ملازم تھا وہ سارا سارا دن چوہدری کی زمینوں پر کام کیا کرتا تھا اس کے باوجود اس کو معاوضہ اتنا نہیں ملتا تھا کہ وہ اپنے کنبہ کا بوجھ اٹھا سکے، مجبوراً اس کے بیوی، بچوں کو بھی حویلی میں جا کر کام کرنا پڑتا تھا۔
ریحانہ کو نہیں معلوم کہ اس نے بچپن میں کبھی اپنی ہم جولیوں کے ساتھ کوئی کھیل کھیلا ہو، جب سے ہوش سنبھالا، خود کو کام کاج میں مصروف پایا۔ ذرہ بڑی ہوئی تو اپنی ماں کے ساتھ چوہدری کی حویلی میں گھریلو کام کاج کرنے کے لیے چلی جایا تھی۔
ابھی اس کی عمر اتنی زیادہ نہ تھی کہ اس پر جوانی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہوگئے تھے۔ بڑی بڑی نیلی آنکھیں، کھلتا ہوا رنگ، سیاہ کالے گھنے لمبے بال، دبلا پتلا جسم، درمیانہ قد دیکھنے میں گڑیا سی لگتی تھی۔ اس کی بھولی بھالی صورت پر سب فدا تھے اور چوہدری تو اس پر نظر بَد رکھتا تھا وہ اس کی ماں کو بہانے سے کسی دوسرے کمرے میں بھیج دیتا اور اسے پکڑ کر عجیب طریقے سے مسلنا شروع کر دیتا۔ یہ سب کچھ اسے اچھا تو نہ لگتا تھا لیکن اس کے متعلق اس نے اپنی ماں کو کبھی نہ بتایا۔ وہ اس لیے کہ چوہدری اس کو اپنا چھوڑا ہوا جوٹھا کھانا اور تھوڑی رقم دے دیا کرتا تھا اور وہ خوش ہو جایا کرتی تھی۔ عمر بھی تو اس کی اتنی زیادہ نہ تھی کہ وہ چوہدری کی شیطانیت کو سمجھ سکتی۔
ریحانہ کی زندگی میں ڈرامائی موڑ اس وقت پیش آیا جب اس کی عمر تیرہ برس تھی۔ اس کی ماں کو شدید بیماری نے آ لیا اور وہ چارپائی پر پڑ گئی، ان حالات میں اس کو اکیلے حویلی کا تمام کام کرنا پڑتا تھا۔ ایک دن جب وہ کمرے کی صفائی ستھرائی کے لیے چوہدری کے کمرے میں گئی تو وہ اُس وقت اپنے کمرے میں شراب پی رہا تھا۔ زیادہ شراب پی لینے کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں اور وہ اپنی سرخ سرخ آنکھیں پھاڑے عجیب طرح سے اس کو گھور رہا تھا۔ جس کی وجہ سے ریحانہ کو خوف آنا شروع ہوگیا۔ اس کے جسم میں کپکپاہٹ سی پیدا ہوگئی، اور مارے خوف سے اس نے اپنا جھاڑ پونچ والا کپڑا وہیں چھوڑا اور کمرے سے جلد نکلنے کے لیے مڑی تو چوہدری نے آواز دے کر روک لیا۔
”کہاں جا رہی ہو؟“
”کپڑے دھونے کے لیے“ اس نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔
وہ غنودگی کے عالم میں بولا : ”کیا بات ہے گھبرائی ہوئی لگ رہی ہو۔“
”کچھ نہیں— کچھ نہیں— وہ امی کی طبیعت زیادہ خراب ہے شاید اس لیے، ویسے تو کوئی بات نہیں۔“ وہ سہمی ہوئی جواب دے رہی تھی۔
چوہدری بڑی تیزی سے کرسی سے اُٹھ کر اس کے قریب آگیا اور فوراً اُس نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھ دیے اور اسے قریب کرتے ہوئے چھوٹا سا بوسہ لے لیا۔ وہ ایسے ہی کسی انجانے خوف کی وجہ سے چپ کھڑی رہی، وہ اور قریب آگیا۔
چوہدری لڑکھڑاتے ہوئے اس نے مخاطب ہوا : ”تم مجھ سے اتنا کیوں گھبراتی ہو؟ کیا میں تمہیں اچھا نہیں لگتا، میں تمہیں اچھے اچھے کھانے اور چیزیں دیتا ہوں پھر بھی تم مجھ سے دور بھاگتی ہو آخر کیوں—“ یہ کہتے ہی اس نے ریحانہ کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں دبا لیے اور پھر جھٹکے کے ساتھ اُس نے ریحانہ کو پلنگ پر گرا دیا۔
ریحانہ کو نہیں معلوم کہ چوہدری اس کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے— اور اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے—
وہ لُٹ چکی تھی—
لُٹی پٹی ریحانہ درد ناک اذیت اور نفرت کا ملا جلا احساس لیے اپنے گھر پہنچ گئی اور جاتے ہی اس نے اپنی ماں کو ساری صورت حال بتا دی۔ ماں نے اسے اپنی چھاتی سے لگا کر رونا شروع کر دیا وہ رو رہی تھی اور ساتھ ساتھ چوہدری کو بددعائیں بھی دیے جا رہی تھی چند لمحے بعد وہ ریحانہ کو اپنی چھاتی سے جدا کر کے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی :
”دیکھو بیٹی یہ سب کچھ کسی اور کے سامنے ہرگز ہرگز نہیں کہنا ورنہ ہم لوگ گاﺅں میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔“ وہ سمجھتی تھی کہ ماں کن خدشات کی بناءپر روک رہی ہے۔
ریحانہ کی ماں نے ایک ہفتہ میں ہی اس کی چٹ منگنی اور پٹ شادی کروا دی اور وہ اپنے پیا گھر سُدھا گئی۔
ریحانہ کی بدقسمتی کہ اس کو شوہر بھی نکھٹو ملا، کام کاج تو وہ کوئی کرتا نہ تھا اور نہ ہی اسے گھر بار کی کوئی فکر تھی۔ جس کی وجہ سے لڑائی جھگڑا روز کا معمول بن گیا تھا۔ اس کا شوہر جو پہلے بھی نشہ کرتا تھا اب اور زیادہ نشہ کرنا شروع ہوگیا تھا۔
شوہر کی توجہ سے محروم، سسرالیوں سے تنگ ریحانہ کی اسی اثناءمیں گاﺅں کے کسی اور مرد کے ساتھ آشنائی ہوگئی۔ وہ اس کی محبت میں بُری طرح پھنس گئی۔ وہ شخص ریحانہ کو سہانے خواب دیکھا کر بھگا کر شہر لانے میں کامیاب ہوگیا۔
اس شخص نے ریحانہ کی معصومیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو قحبہ خانے میں فروخت کر دیا۔ وہ ذلت کی زندگی گزارنا نہیں چاہتی تھی اسی لیے تو وہ وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
وہ قحبہ خانے سے اپنی جان خطرے میں ڈال کر کسی نہ کسی طریقے سے بھاگنے میں کامیاب تو ہوگئی لیکن اتنے بڑے شہر میں کہاں جاتی یہاں تو اس کو جاننے والا بھی تو کوئی نہ تھا۔ واپس وہ جا نہیں سکتی تھی کیونکہ واپسی کے تمام دروازے وہ خود بند کر کے آئی تھی۔ وہ صبح سے شام تک ریلوے اسٹیشن پر ہی رہی اس دوران سوچتی رہی کہ اس کو واپس گاﺅں جانا چاہیے کہ نہیں، کیا وہ واپس جا کر حالات کا مقابلہ کرسکے گی جو خود اس کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ وہ فیصلہ نہ کر پا رہی تھی جس کی وجہ سے اس کی پریشانی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ اس کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے ایک معمر عورت اس کے پاس آئی اور کہنے لگی:
”بیٹی تم جوان ہو، خوبصورت ہو، میںکافی دیر سے دیکھ رہی ہوں کہ تم بہت پریشان ہو، اگر روپے پیسے کا کوئی مسئلہ ہے تو میں ابھی کے ابھی پورا کر دیتی ہوں.... بیٹا یہ دنیا بہت خراب ہے۔ بہت سے غلط لوگ تم کو یوں اکیلا دیکھ کر تمہاری مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں لہٰذا میری مانوں، مجھ سے رقم لو اور اپنے شہر کی ٹکٹ خرید کر یہاں سے جلدی نکلو، ہاں اگر کوئی اور مسئلہ ہے تو بھی مجھے بتاﺅ میں اگر تمہارا مسئلہ حل نہ کرسکی تو تجھے ٹھیک راستہ ضرور بتا دوں گی۔“
ریحانہ نے اِس کو اپنا ہمدرد جان کر اپنی بپتا سنائی۔ وہ معمر عورت اس کی بچتا سن کر افسردہ ہوگئی۔ اس نے ریحانہ کو یقین دلایا کہ وہ اس کو شہر میں رہائش اور نوکری دلوا دے گی۔ وہ اس کے جھانسے میں آکر اس کے ساتھ چل پڑی۔
ریحانہ کو اس عورت کے گھر پہنچ کر احساس ہوگیا تھا کہ وہ ایک بار پھر غلط جگہ پہنچ گئی ہے یہاں سے فرار ہونے کے منصوبے بنانا بھی بے معنی تھا کیونکہ نائکہ کے تنخواہ دار غنڈے ہر وقت اس پر کڑی نگاہ رکھتے تھے۔ ان کی موجودگی میں یہاں سے بھاگنا بہت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا۔ ویسے بھی وہ بھاگ کر جاتی کہاں؟ گاﺅں کے راستے تو وہ خود بند کرکے آئی تھی اور باہر کی دنیا پھر اس کو ایسی ہی جگہ پہنچا دیتی اس لیے اس نے یہیں رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
ریحانہ ماضی کے جھرنکوں سے باہر نکلی تو اُس نے نسرین کے متعلق اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے تمام خدشات اور وسوسوں کو جھٹک دیا۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا وہ مجھ سے نفرت نہیں کرتی۔ اگر اس نے نفرت کرنی ہوتی تو میرے ساتھ رہتی ہی کیوں۔ میں نے تو اسے اپنے متعلق سچ سچ بتا دیا تھا، اور وہ میری اس صاف گوئی پر خوش تھی، اس نے مجھ سے کہا تھا :
”باجی آپ مجھ بے سہارا اور بے آسرا لڑکی کو گھر لے ہی آئی ہے تو میری عزت و ناموس کی بھی حفاظت کرنا۔“
میں نے اس کی حفاظت کی وہ خوب جانتی تھی۔ وہ مجھ سے اکثر کہا کرتی تھی :
”باجی آپ نے جو میرے ساتھ نیک سلوک کیا ہے وہ شاید میرے رشتے دار بھی نہ کرسکتے تھے۔“
اِن سب باتوں کے باوجود میں نسرین کے رویے میں تبدیلی کیوں کر محسوس کر رہی ہوں اس کی روکھی طبیعت مجھے کیا بتانا چاہتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ میرا وہم تو نہیں یا پھر مجھ سے کوئی ایسی خطا ہوگئی ہے جو اسے بُری لگی ہو۔ نسرین میرے گھر میں تقریباً اڑھائی سال سے رہ رہی ہے اس دوران میں نے کبھی بھی اس کی ایسی حالت نہیں دیکھی جو اب دیکھ رہی ہوں۔ یکایک اس کی آنکھوں میں ان بیتے دنوں کی یاد در آئی جب نسرین اسے پہلی بار ملی تھی۔
ریحانہ کو وہ دن آج بھی یاد تھا، مارچ کی خوشگوار صبح تھی، سردی کا زور ختم ہوچکا تھا۔ موسم بہار نے ہر سو اپنی بہاریں بکھیری ہوئی تھیں، فضا میں پھولوں کی مہک رچی ہوئی تھی، اور پھولوں پر پڑی شبنم کتنی خوبصورت لگ رہی تھیں۔ چاروں طرف پھیلے ہرے بھرے درختوں کے پتوں کی ہلکی ہلکی سرسراہٹ کانوں میں موسیقی کی طرح بج رہی تھی گویا موسم کی اس خوشگواریت نے ماحول کو کتنا خوبصورت بنا دیا تھا وہ اس حسین موسم کے نظاروں میں کھو گئی تھی اور یوں ہی کافی دیر وہاں ٹہلتی رہی یکایک اس کی نظر جھاڑیوں کے جھنڈ پر پڑی وہاں تین لڑکے ایک خوبرو لڑکی کی عزت خراب کرنے کے در پے تھے اور وہ لڑکی اپنا دامن بچا کر وہاں سے بھاگنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔ وہ کوشش کے باوجود ان لڑکوں کے سامنے بے بس تھی۔ سنسان جگہ ہونے کی وجہ سے اس کی مدد کی اپیل ہواﺅں سے ٹکرا کر واپس لوٹ آتی۔ یہ تو اچھا ہوا کہ ریحانہ بروقت وہاں پہنچ گئی اور وہ لڑکوں کو بھگانے میں کامیاب ہوگئی ورنہ اس کے ساتھ کیا ہو جاتا۔
ریحانہ کو اس لڑکی کے چہرے پر تشویش کے آثار نمایاں نظر آ رہے تھے جس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ یہ ضرور گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی ہے۔ ریحانہ خود تو دلدل میں پھنس چکی تھی اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ لڑکی بھی مجھ جیسی بن جائے اسی لیے تو وہ اس کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اس لڑکی کے ماضی کو نہیں کھرچا تھا اور نہ اس کا ذہن اس بات کو تسلیم کرتا تھا جو یہ کہہ رہی تھی کہ میرے والدین کے مرنے کے بعد اس دنیا میں میرا کوئی نہیں، اور میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہوں۔ یہ سب نہ مانتے ہوئے بھی اس نے لڑکی کو اپنے گھر رہنے کی اجازت دے دی یہ سب کچھ اس نے اس کی بہتری کے لیے کیا تھا۔
نسرین نے ریحانہ کے گھر قیام پذیر ہو کر اس کا وہ خلا پر کر دیا تھا جو اپنوں کے بچھڑ جانے سے پیدا ہوا تھا۔ دونوں کو ہی ایک دوسرے کے سہارے کی اشد ضرورت تھی، اسی ضرورت نے ان دونوں کے دلوں میں بہت جلد ایک دوسری کے لیے محبت پیدا کر دی تھی اور وہ ایک دوسری کو اپنا راز دار سمجھنے لگ گئیں، یکایک ان دونوں کے درمیان کون سی شک کی دیوار کھڑی ہوگئی تھی؟
ریحانہ نسرین کے بدلے رویے کی وجہ سے شدید ذہنی تناﺅ کا شکار تھی، وہ اس الجھن سے نکلنا چاہتی تھی اسی لیے تو اس نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ آج ہر حالت میں نسرین سے پوچھو گی کہ تمہارا مسئلہ کیا ہے وہ کون سا روگ ہے جس نے تم کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے وہ اپنے دکھ مجھے نہیں بتائے گی تو پھر کس کو بتائے گی؟ اتنی بڑی دنیا میں ہم دونوں کا دکھ بانٹنے والا کوئی بھی تو نہیں ہم دونوں ہی ایک دوسری کا مضبوط سہارا ہے۔
وہ خود سے فیصلہ کرکے اٹھی اور سیدھی اس کے کمرے میں جا گھسی اس نے دیکھا کہ نسرین اپنی بیٹی کو دودھ پلا رہی تھی۔
”نس.... رین۔“
نسرین غیر متوقع آواز سُن کر گھبرا گئی، اس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سوجھ چکی تھی وہ ریحانہ کو اپنے کمرے میں موجود پا کر دیوانہ وار اس کی طرف لپکی اور گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہوگئی۔
”نسرین، میری پیاری بہن نسرین، مجھے بتاﺅ تمہیں کیا غم ہے۔“
ریحانہ نے اس کا سر اپنی چھاتی کے ساتھ لگا لیا اور اس کے چہرے پر محبت بھرا ہاتھ پھیرتی اور ہلکے ہلکے بوسے لیتی، اس محبت بھرے برتاﺅ کی بدولت وہ اپنے آنسوﺅں پر ضبط کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن اس کے ہونٹ ابھی تک کانپ رہے تھے۔
نسرین اگر تم مجھے واقع بہن سمجھتی ہو اور مجھ سے اچھائی کی امید بھی رکھتی ہو تو وہ بات اپنی زبان پر لے آﺅ جس کا بوجھ تم اٹھا نہیں سکتی اور اس نے تم کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔“
میری گڑیا جو سچ ہے وہ اپنی زبان پر لے آﺅ یقین جانو میں تم کو مایوس نہیں کروں گی، کیا تم مجھ سے بدگمان تو نہیں ہوگئی کیونکہ میں ایک طوائف ہوں۔
نہ معلوم اس بات میں کیا کشش تھی کہ وہ فوراً خود پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئی وہ ریحانہ کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے بولی :
”نہیں نہیں باجی ایسی کوئی بات نہیں اور آپ بھی کبھی ایسا سوچنا مت، مجھے تکلیف ہوگی۔“ اس نے نسرین کی زبان سے کتنے دنوں کے بعد باجی کا لفظ سنا تھا۔
نسرین کی زبان سے باجی کا لفظ سننے کو اس کے کان ترس گئے تھے اب جب اس نے باجی کہا تو اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی :
”تو پھر میری رانی کیا بات ہے تم مجھ کو اور خود کو اذیت میں کیوں مبتلا کر رہی ہو جو سچ ہے بتاتی کیوں نہیں، بتاﺅ ورنہ میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔
”باجی میں—“ وہ جو کہنا چاہتی تھی کہہ نہ پا رہی تھی۔
ہاں— ہاں— بولو میری جان، جو کہنا چاہتی ہو کہہ دو اس سے تمہارے من کا بوجھ ہلکا ہوگا۔
نسرین بھی تو اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی تھی وہ یہ بوجھ اٹھا نہیں سکتی تھی وہ کہنے لگی:
”باجی میں شرمندہ ہوں خود سے، آپ سے، اور اپنی ماں سے، مجھے شرمندگی کا احساس دلانے والی یہ معصوم بچی ہے۔“ وہ شرمندگی کے بوجھ تلے دبی بتا رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
اس کی بگڑی حالت دیکھ کر ریحانہ کا کلیجہ پھٹا جا رہا تھا اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ یہ لڑکی کہنا کیا چاہتی ہے اس نے جلدی سے اپنے دوپٹے کے پلو سے اس کے بہتے آنسو پونجھے اور اس کے ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئی بولی :
”مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ تم کیا کہہ رہی ہو اور تم کیوں شرمندہ ہو، کس بات کی شرمندگی ہے تمہیں، مجھے تفصیل سے بتاﺅ ورنہ میں مر جاﺅں گی۔“
”باجی میں آپ سے اس لیے شرمندہ ہوں کہ میں نے آپ سے جھوٹ بولا تھا کہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں، والدین کے مرنے کے بعد دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہوں اور میں اپنی ماں سے اس لیے شرمندہ ہوں کہ میں نے اس کی عزت خاک میں ملا دی ان سب باتوں کا احساس مجھے تب ہوا جب مجھے اس معصوم بچی نے پہلی بار ”ماں“ کہا۔ اس کے منہ سے نکلا ہوا ماں کا لفظ مجھ سے بار بار سوال کرتا تم نے اپنی ماں کی عزت خاک میں ملائی اور اس کی موت کا سبب بنی یہ بچی تو وہ بھی نہیں کرسکتی جو تونے کیا کیونکہ اس کو عزت ملی کب اسے تو باپ کا نام بھی نہ ملا، ماں اس کو ایسی ملی جو معاشرے میں اپنا مقام کھو بیٹھی ہے۔“
”رک جاﺅ نسرین، رک جاﺅ، مجھ سے اور سنا نہ جائے گا۔“
ریحانہ کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے پورے جسم پر چیونٹیاں رینگ رہی ہو اور اس کا خون خشک ہو رہا ہو، اس نے بہت مشکل سے خود پر قابو پاتے ہوئے اپنی بات کو جاری رکھا۔
”تم کیا سمجھتی ہو کہ میں اندھی ہوں، کچھ دیکھ نہیں سکتی یا پھر عقل سے پیدل ہوں کچھ سوچ نہیں سکتی۔ میں سب جانتی ہوں لیکن میں خاموش رہی، انجان بنی رہی صرف اور صرف تمہاری بہتری اور بھلائی کے لیے، میں نہیں چاہتی تھی کہ تم بھی وہاں بیٹھ جاتی، جہاں میں بیٹھی ہوں۔ نسرین وہ جگہ بہت بری ہے اور ہم جیسی گھر سے بھاگی ہوئی لڑکیوں کا ٹھکانہ بھی وہیں ہے۔ ہم جیسی لڑکیاں اپنوں سے بغاوت اور غیروں پر بھروسہ کرکے جب گھر سے نکلتی ہے تو وہ حسین خواب جو دیکھے ہوتے ہیں ان کی تعبیر بڑی بھیانک نکلتی ہے جس پر تکیہ کرکے ہم اتنا بڑا فیصلہ لیتی ہیں وہ ہم کو کسی گہری گھائی میں گرا دیتا ہے۔ میں تم کو کسی گہری کھائی میں گرتا دیکھ نہیں سکتی تھی اور اسی لیے انجان بنی رہی۔ رہا اس بچی کی ولدیت کا مسئلہ تو تم مجھے ایک بار صرف ایک بار اس شخص کا نام و پتہ بتا دوں جس نے تمہاری گود میں یہ بچہ ڈالا میں اس کو تمہارے قدموں میں گرا دوں گی۔
ریحانہ نے بہت کوشش کی کہ خود پر قابو رکھے لیکن پھر بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ گئے جن کو وہ کافی دیر سے ضبط کیے بیٹھی تھی۔
میں وہی کچھ تو بتانا چاہتی ہوں جو سچ ہے۔ وہ سچ جس پر ہمیشہ پردہ پوشی کرتی رہی وہ سچ مجھے اندر سے ملامت کرتا لیکن میں پھر بھی اسے دبائی رکھتی جب اس بچی نے پہلی بار ماں کہا تو میرے ضمیر نے مجھے جھنجور کر رکھ دیا۔
باجی میں اندر سے کرچی کرچی ہوگئی تھی اور ان ہی کرچیوں کو سمیٹنے کی جستجو میں تھی۔ میرا مقصد آپ کو دکھ دینا تو نہ تھا اور نہ میں ایسا کرسکتی تھی۔ میں تو اپنے گناہوں پر نادم تھی جو مجھ سے سرزد ہوئے، پہلے اپنی ماں کا دل دکھایا پھر ماں جیسی بہن کو اندھیرے میں رکھا۔ میں مجرم ہوں اپنے ضمیر کی، اس معصوم بچی کی—
وہ رک گئی جیسے کچھ کہنے کی اجازت مانگ رہی ہو۔
نسرین پھر اس بات کو اگل دو جو تم ہضم نہیں کرسکتی میں۔ سنو گی تمہارا ماضی۔
”باجی میں—“ ہاں ہاں بولو اور اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کر دو۔
نسرین نے ہاں کے انداز میں اپنا سر ہلایا اور کہنا شروع ہوگئی۔
”ماں کی اکیلی اولاد ہونے کی وجہ سے بہت لاڈلی تھی۔ ایک سال کی تھی کہ باپ داغ مفارقت دے گیا۔ ماں نے مجھے بہت لاڈ پیار دیا، اس نے مجھے ماں اور باپ بن کر پالا وہ ماں ہی کی محبت تھی کہ اس نے مجھے باپ کے خلا کو کبھی محسوس نہ ہونے دیا۔
ماں نے مجھے ایسے سکول میں داخل کروایا جو ہماری حیثیت سے بڑھ کر تھا۔ وہ میرے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے سارا سارا دن لوگوں کے گھروں میں کام کرتی اور رات دیر تک بیٹھی سلائی پر آئے کپڑے سیا کرتی تھی وہ یہ سب محنت مجھے اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے ہی تو کرتی تھی اس کا صرف ایک ہی ارمان تھا کہ میری بیٹی ڈاکٹر بنے لیکن میں نے اپنی ماں کے ارمانوں کو پورا کرنے کی کوشش ہی نہ کی جس کی وجہ ”محمود “تھی۔
محمود میرا کلاس فیلو تھا۔ اس سے میری پہلی ملاقات دسویں جماعت میں ہوئی جب یہ کراچی سے مائیگریشن کروا کر ہمارے سکول داخل ہوا تھا۔
محمود کا تعلق امیر ترین گھرانے سے تھا اور میں رہی گھریلو ملازمہ کی بیٹی، اس معاشرتی اونچ نیچ کی پرواہ کیے بغیر ہم دونوں میں محبت کا الاﺅ جل اٹھا جس کی بازگشت پورے سکول میں سنی جاسکتی تھی۔ ٹیچروں نے مجھے سمجھانے کی کوشش بھی کی لیکن جب میں نہ مانی تو مجھے سکول سے خارج کرنے کی دھمکی بھی دی، اس کے باوجود ہم دونوں کی محبت میں ذرہ برابر کمی نہ ہوئی بلکہ وہ اور چمک اٹھی۔
سکول انتظامیہ محمود کے والد کے اثر و رسوخ کے باعث اسے تو سکول سے نکال نہ سکے البتہ انہوں نے مجھے سکول سے فارغ ضرور کر دیا۔ جس کی وجہ سے ساری کہانی میری والدہ کو معلوم ہوگئی اور اس نے میرا گھر سے نکلنا ہی بند کر دیا۔
محمود کی ایک گھریلو ملازمہ جس کی بہن کا گھر ہمارے پڑوس میں واقع تھا وہ اس کے توسط سے خطوط مجھے بھیجتا رہا لیکن یہ سلسلہ کچھ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ میرے کچھ خطوط ماں نے پکڑ لیے۔ ماں نے اس عورت اور اس کی بہن کو محلے بھر میں ذلیل کیا جس کی وجہ سے میں محلے بھر کی زبان پر آگئی۔ اس کے باوجود مجھ پر رتی برابر بھی اثر نہ ہوا، میں محمود سے ملنے سے باز نہ آئی۔
ماں نے میری منگنی اَن پڑھ اور ہم جیسے غریب سے کر دی۔ منگنی کے پندرہ دن بعد میری شادی تھی۔
ماں نے میرے اِن سپنوں کو ریزہ ریزہ کر دیا جو میں نے دل میں بسا رکھے تھے۔ میں غریبی میں زندہ نہیں رہنا چاہتی تھی میں نے تو گاڑی اور بنگلے کے خواب دیکھے تھے لیکن ماں مجھے اندھے کنویں میں دھکیلنا چاہتی تھی۔ میں اپنے خوابوں کی تعمیر چاہتی تھی اسی لیے تو میں نے اپنی ماں کی اجازت کے بغیر محمود کے ساتھ کوٹ میرج کر لی۔
باجی وہ بزدل تھا اور میں دولت کی لالچی۔ شادی کے صرف ایک ہفتہ بعد ہی اس نے مجھے صرف اس وجہ سے طلاق دے دی کہ وہ باپ کی جائیداد سے عاق ہونا نہیں چاہتا تھا۔
ماں تو میری اسی وقت مر گئی تھی جب میں نے گھر کی دہلیز سے قدم باہر نکالا وہ محلے والوں کے طعنے اور اپنی بدنامی برداشت کر ہی نہیں سکتی تھی۔
میں اپنی حماقت کی بھینٹ چڑھ گئی نہ مجھے ماں ملی نہ گھر ملا۔
میں شرمندہ ہوں ماں کی روح، اس بچی اور خود سے، کیا جواب دوں گی ماں کی روح کو اور اس بچی کو جب یہ مجھ سے سوال کرے گی۔
ریحانہ اُٹھی اور نسرین کی بچی کو گلے لگا کر چومنے لگی۔
—————
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں