پہلی بات

پچھلی چند دہائیوںمیں اردو ادب کا چولا بالکل بدل گیا ہے۔ نئے افسانہ نگار اور شاعروں نے ہمارے ادبی خزانے میں بیش بہا اضافے کئے ہیں اور مزید نئے افسانہ نگار، شاعر ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ان نئے افسانہ نگاروں میں عبدالرزاق کا نام بالکل نیا ہے ۔ان کی تحریروں کے بارے میں کچھ کہنا غیرضروری سا معلوم ہوتا ہے۔ اہلِ نظر پر خود ہی عیاں ہو جائے گا کہ افسانہ نگار نے کام کی بات کہاں کہاں کہی ہے اور اِس کا زاویہ نظر کتنا اور کیسا ہے۔ وہ کس حد تک انسانی فطرت کو پرکھ کر اپنے خیالات کو کس خوش سلیقگی کے ساتھ قاری تک پہنچانے میں کامیاب ہوا ہے۔ محض خوشہ چینی کی گئی ہے یا ذاتی اپچ کی پرچھائیاں بھی نظر آتی ہیں۔ اسلوب تحریر بے کیف، خشک اور الجھا ہوا ہے۔ یا قابلِ برداشت.... ان سوالوں کے جواب خود بخود ملتے جائیں گے۔ سچ پوچھئے تو اِس کتاب کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ نہ یہ جواہرات کا صندوقچہ ہے اور نہ خرافات کا پوٹ! 
یہ مختصر کہانیاں سماج میں چاروں اَور پھیلے ہوئے آکاش بیل کی کہانیاں ہیں۔ باطنی اور خارجی مشاہدات پر مبنی یہ کہانیاں مجھے ایسے معاشرے میں لے گئیں جہاں لوگوں کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹتا جا رہا ہے۔ایک اچھے افسانہ نگار کی نگاہ سب سے انوکھی اور نرالی ہوتی ہے اور وہ انسانی فطرت اور انسانی روّیوں کی جہتوں کو تلاش کرنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ انہیں تلاش کرنے کے لئے ایک عمر درکار ہے۔افسانہ نگار نے زندگی کی پُراَسرار باتیں مختلف طریقوں سے سُنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اُسے کہانی کہنے پر پوری دسترس حاصل ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6