ابتدائیہ

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو آنکھیں دیکھنے کے لیے دی ہیں اور ایک آنکھ تحت الشعور میں عطا کی ہے جو ہمیں نظر تو نہیں آتی لیکن ہم شعوری طور پر اُس کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں۔ اُس آنکھ کا ذہن میں آتے ہی انسانی شعور میں روشنی کی شفاف لہریں رقص کرنے لگتی ہیں۔ انسان اُس آنکھ کو لاشعور سے تشبیہ دیتاہے یعنی اکثر انسان کہتا ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس کا نتیجہ ایسے ہوگا.... ویسے ہوگا....اس طرح ہوگا.... کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان لاشعور میں مستقبل دیکھنے کی کوشش اپنے تئیں کرتا ہے۔ وہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے اس کے مطلق تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہماری وہ آنکھ اچھائی اور بُرائی میں فرق کرسکے تو ہمارے قلب و ذہن اور ہمارے وجود کو روشن کرسکتی ہے اور اگر ہماری آنکھ اچھائی اور بُرائی میں تمیز نہ کرسکے تو ہمارے قلب و ذہن کے ساتھ ساتھ ہمارا پورا جسم بھی تاریک ہو جاتا ہے۔
میں نے اپنے شعور کی آنکھ سے زندگی کو پرکھ کر دیکھا ہے۔ مستقبل کو دیکھا ہے کس طرح دیکھا ہے، میں کہاں بُرائی ، اچھائی کو محسوس کیا ہے۔ اور ان کا حل شعورکی آنکھ سے کیا نکالا ہے۔ ان سب کا تجزیہ میں نے اپنے افسانوں میں کیا ہے۔ یہ افسانے زندگی کی اچھائی اور بُرائی کا ذکر ہی نہیں بلکہ یہ افسانے لکھنے کا میرا مقصد یہ تھا کہ انسانیت کے ساتھ بھلائی کی جائے۔ جس طرح تاریکی میں روشنی کی ایک چھوٹی سی کرن دُور تک پھیل کر اندھیرے کو کم کر دیتی ہے بالکل اسی طرح اگر کسی کے ساتھ بھلائی کی جائے تو اِس بھلائی کی کرنیں دُور تک پھیل کر بُرائی کو ختم کر دیتی ہیں۔
بھلائی روشنی کے ایک چھوٹے سے ذرّے کی مانند ہے جسے خلوص اور محبت سے جلایا جائے تو اس کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑتی لیکن اگر ذہن میں خودغرضی کا عنصر شامل ہو جائے تو بھلائی کا چراغ گُل ہو جاتا ہے۔ میرے افسانے پڑھ کر اس کا بات اندازہ باخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ میں کس حد تک اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوا ہوں اس کا فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ اگر ان افسانوں میں ایک نکتہ بھی ایسا نکل آئے جو علم و ادب کے نکتہ شناسوں کی رائے میں کسی قابل ہو تو میں شاد ہو جاﺅں گا کہ واقعی اپنی زندگی میں کوئی اچھا کام کر گیا۔
میں ہرگز ہرگز دعویٰ نہیں کرتا کہ میں نے بہتر لکھا ہے لیکن یہ ضرور کہوں گا یہ جو کچھ لکھ کر آپ کے سامنے لایا ہوں اس میں کچھ ہے ضرور جو آپ کو پڑھنے پر مجبور کرے گا اور آپ پڑھے بغیر کتاب چھوڑ نہیں سکیں گے۔ میں اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں اسکا فیصلہ آپ نے کرنا ہے اور اپنی رائے سے آگاہ مجھے ایک خط یا ای میل لکھ کر ضرور کیجئے گا۔
آپ کی محبتوں کا طالب
عبدالرزاق واحدی
razafsana@yahoo.com
abdulrazzaqwahidi@gmail.com
http://www.facebook.com/abdul.razzaqwahidi

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

سعادت حسن منٹو زندگی، شخصیت اور فن کا جائزہ