اشاعتیں

ستمبر, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

پھول تمنا کا ویران سفر .......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

یہ روز کا معمول ہے کہ سرشام ہی وہ بسوں کے اڈے پر آتا ہے اور دائیں کونے میں دیوار کے ساتھ لگی بنچ پر بیٹھ جاتا ہے۔ ذرا فاصلے پر چالے کاایک کھوکھا ہے، چائے والا اس کی عادت و اطوار سے اچھی طرف واقف ہے۔ اس کے بیٹھنے کے کچھ دیر بعد وہ چائے کا مگ اس کےلئے بھجوا دیتا ہے اسے معلوم ہے کہ وہ ایک چمچ چینی پیتا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ کتنی دیر بعد مگ واپس لانا اور پھر کتنی دیر بعد اور کتنی بار چائے بھجوانا ہے۔ وہ وہاں اتنے برسوں سے آرہا ہے کہ سروس کرنے والا ہر لڑکا جاتے ہوئے دوسرے کو اس کے بارے میں بتا جاتا ہے۔ کھوکھے پر کوئی بھی آئے اس کےلئے سروس میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چائے لانے والا جانتا ہے کہ وہ بار بار چائے کے پیسے نہیں دیتا بلکہ جب آخری بس آچکتی ہے تو وہ اپنی جگہ سے اٹھتا ہے، بس سے اترنے والے آخری مسافر کے اترنے کے انتظار کے بعدمایوسی سے بس کے اندر جھانکتا ہے اورواپس بنچ پر جا کر بیٹھ جاتا ہے۔ اتنی دیر میں اڈے کے مختلف سٹال بند ہونے لگتے ہےں۔ چائے والا بھی برتن سمیٹنے لگتا ہے۔ وہ اُٹھتا ہے، جیب سے پیسے نکال کر چائے لانے والے لڑکے کے ہاتھ پر رکھتا ہے اور باقی کا انتظار کئے بغیر بوجھل ...

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

یہ کہانی مجھے اُس نے سنائی جس کا اِس سے کوئی تعلق نہیں لیکن اُسے اصرار ہے کہ اس کہانی سے اُس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ یہ ایک عام آدمی ہے اور ایک عام سی جگہ پر مجھے اچانک ہی مل گیا تھا۔ شاید اچانک نہیں کہ میں اس کا منظر تھا اور اس سے یہ کہانی سننا چاہتا تھا۔ کہانی کا زمانہ بیسویں صدی کی پہلی، دوسری، تیسری یا کوئی بھی دہائی ہو سکتی ہے۔ انیسویں صدی بھی ہو سکتی ہے اور شاید اکیسویں صدی بھی۔ بہرحال زمانے سے کیا فرق پڑتا ہے، جگہ بھی کوئی سی ہو سکتی ہے۔ یہاں وہاں، کہیں بھی، لیکن نہیں یہ کہانی وہاں کی نہیں یہیں کی ہے۔ کرداروں کے نام بھی ا، ب، ج کچھ بھی ہو سکتے ہیں کہ نام تو شناخت کی نشانی ہیں اور ہماری کوئی شناخت ہے ہی نہیں تو پھر نام ہوئے بھی تو کیا، نہ ہوئے تو کیا۔ ایک چھوٹی سی چھاﺅنی میں کہ اس وقت چھاﺅنیاں چھوٹی ہی ہوتی تھیں، آج کی طرح پورے کا پورا شہر چھاﺅنی نہیں ہوتا تو اس چھوٹی سی چھاﺅنی میں ایک بگل چی رہتا تھا، اس کے بگل پر چھاﺅنی جاگتی تھی، صبح سویرے گہری نیند سوتے فوجی بگل کی آواز پر چونک کر اٹھتے، جلدی جلدی کپڑے پہنتے اور نیم غنودتے، قطاروں میں آکر کھڑے ہو جاتے بگل کی لے اور اس کے ا...

ایک گمنام سیاح کی ڈائری کے چند اوراق ........... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

یہ ایک گمنام سیاح کی ڈائری کے چند اوراق ہیں۔ یہ سیاح سیاحت چھوڑ کر اس شہر میں آن بسا تھا۔ شہر کی کھدائی کے دوران یہ اوراق ایک دیوار کے نیچے سے ملے۔ پہلا ورق یہ عجب شہر ہے۔ میں نے کئی شہروں کی سیاحت کی ہے لیکن اس طرح کا شہر اور اس طرح کے لوگ کہیں نہیں دیکھے اس شہر کے وسط میں ایک بڑا چوک ہے جس میں ایک مشکی گھوڑا کھڑا ہے گھوڑے کا انگ انگ پھڑک رہا ہے اور نتھنوں سے پھنکاریں نکل رہی ہیں اس پر خوبصورت زین کسا ہے اور خالی رکابیں ہر ایک شخص کو سواری کی دعوت دے رہی ہیں میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایک شخص اچھل کر گھوڑے پر سوار ہوا اور چابکدستی سے اس کی لگا میں تھام لیں۔ لوگوں نے تالیاں بجائیں اور نعرے لگائے۔ گھوڑے نے پچھلے سموں سے زمین کریدی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہوا ہو گیا اور سوار کو لے کر سارے شہر میں دوڑتا پھرا ایک لمبا چکر لگا کر وہ بھرے بازاروں میں سے ہوتا ہوا اُسی چوک میں آیا اور اچھل کر سوار کو اس طرح نیچے پھینکا کہ سوار اس کے سموں تلے آکر بری طرح کچلا گیا۔ اسے کچلتے دیکھ کر لوگوں نے تالیاں بجائیں اور نعرے لگائے۔ گھوڑا سوار کو کچل کر دوبارہ اپنی جگہ آکھڑا ہوا۔ اس کا پھڑکتا انگ انگ نئے سو...

بے خوشبو کا عکس ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

داستان گو اس کہانی کو یوں سناتا ہے کہ جب میں شہر میں داخل ہوا تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، ہر طرف ایک شور اور ہنگامہ تھا۔ شہر کے کل مرد عورتیں بوڑھے جوان اور بچے ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ پکڑے بجا رہے تھے۔ شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں ایک شیر بد حواسی کے عالم میں کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف بھاگ رہا تھا۔ جدھر جاتا ادھر سے ڈھول بجاتے ہجوم میں گھر جاتا، ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھاگ بھاگ کر شیر اتنا بدحواس ہو گیا کہ شہر کے ایک چورا ہے میں آن گرا۔ آوازوں کے برستے پتھروں سے بچنے کیلئے اُس نے اپنا سر گھٹنوں میں دبا لیا، لیکن آوازیں مسلسل اُس پر ٹوٹ پڑ رہی تھیں اور آہستہ آہستہ اس کے اندر اتر رہی تھیں۔ شہر کے لوگ اب اس کے گرد اگرد اکٹھے ہو گئے تھے اور مسلسل ڈھول پیٹے جارہے تھے، جس کے ہاتھ میں جو کچھ تھا وہ اسے بجا رہا تھا۔ کان پڑی آوام سنائی نہیں دے رہی تھی۔ شیر بے بسی کے عالم میں کبھی اپنا سر اٹھاتا اور آوازوں کے تھپیڑوں سے گھبرا کر دوبارہ گھٹنوں میں دبا لیتا۔ آہستہ آہستہ اس کی حالت بدلنے لگی اور کچھ دیر بعد یوں معلوم ہوا جیسے اس کے وجود میں سے گیدڑ جنم لے رہا ہے، پھر رفتہ رفتہ اس ک...

چُپ صحرا ....... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

پہلے گواہ نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور بولا ”جناب عالی یہ واقعہ نہ تو میرے سامنے ہوا ہے اور نہ مجھے اس کے بارے میں کوئی ذاتی علم ہے، لیکن میں مفاد علمہ کیلئے گواہی دینے حاضر ہو گیا ہوں۔ جناب میں اس شخص کو ذاتی طور پر نہیں جانتا۔ لیکن میں نے سنا ہے کہ یہ لفظوں کی حرمت پر یقین رکھتا ہے اور کھلم کھلا ہمارے خیالات کی نفی کرتا ہے۔ ایسا شخص معاشرے کیلئے انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ یہ آزادی اظہار کی بات کرتا ہے۔ آپ ہی بتائیے جناب والا! یہ بھی کوئی کرنے کی بات ہے۔ بس جناب لمبی چوڑی بات کیا کرنا۔ آپ فوراً اس کو سزا سنائیں، میرے خیال میں تو کسی اور گواہی کی ضرورت بھی نہیں۔ میری گواہی کافی مضبوط اور مدلّل ہے۔ (2) میں آپ کو ایک کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ لیکن میری آواز کو دیمک لگ گئی ہے، لکھ بھی نہیں سکتا کہ قلم زنگ آلود ہے۔ کمرے میں یک عجیب پر اسرار خاموشی ہے، کمرے کے باہر تاریک راتوں میںجو سانپ شونکتارہتا تھا، رینگ کر کمرے کے اندر چلا آیا ہے۔ میں نے سنا تھا کہ سانپ نے حضرت سلیمان سے یہ عہد کیا تھا کہ وہ کسی لکھنے والے کے کمرے میں نہیں جائے گا۔ اب یا تو اس عہد کا عرصہ ختم ہو گیا ہے یا سانپ نے بد...

سناٹا بولتا ہے ------- تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

معلوم نہیں یہ رات کا پہلا پہر ہے، درمیانہ یا پچھلا، یا شاید دن ہے جس نے رات کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے، یا پھر شاید رات ہی ہے، کوئی بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی، خوفناک جبڑوں والا اندھیرا تھوتھنی اٹھا اٹھا کر بھونک رہا ہے، وہ سہم کر میرے ساتھ لگ جاتا اور سرگوشی کرتا ہے ”ماچس جلاﺅں؟“ ”نہیں تیلیاں اس طرح ختم ہوتی رہیں تو....“ ”تو؟“ اس کی آواز میں خوف سر سراتا ہے۔ ”.... میں نہیں جانتا۔“ شاید ایک دویا اس سے بھی زیادہ دن، مہینے یا سال، یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہم کب سے گٹر کی دیواروں کوٹٹول ٹٹول کر باہر جانے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں، اتنا ساخیال آتا ہے کہ ہم گفتگو کرتے چلے جارہے تھے، مین ہول کھلا ہو گا، وہ گرا، اسے نکالنے کی کوشش میں میں، یا شاید میں گرا ہوں گا اور مجھے نکالنے کی کوشش میں وہ، پورے یقین کے ساتھ کوئی بھی بات نہیں کی جاسکتی۔ رینگتے پانی کی سرسراہٹ، اندھیرا بار بار اپنے جبڑے کچکچاتا ہے اور لمبی کالی زبان نکال کر ہمارے منہ چاٹتا ہے، ہماری گالوں پرلیس دار رات کی چپچپاہٹ، وہ تیلی جلاتا ہے، بیمار نحیف شعلہ سراٹھا کر دو تین اکھڑے اکھڑے سانس لیتا ہے.... گپ اندھ...

وقت اندھا نہیں ہوتا ....... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

نیم تاریک، سنسان گلی دور تک خالی، گلی میں کوئی درخت نہیں لیکن ہر وقت گھنی چھاﺅں کا .... احساس ہوتا، نیم پکے، نیم کچے فرش پر قدموں کی چاپ بیٹھی بیٹھی سی لگتی، نیم بوسیدہ دروازے بند، جن کے اندر چھپی ان دیکھی دنیائیں، ان کے مکین گم آوازوں کے حصار میں دور کہیں سائے سے، چلتے چلتے، ٹھٹھکتے ٹھٹھکتے آگے جاکر اسی طرح کا ایک نیم بوسیدہ گم سم ساد روازہ، کبھی دور سے آنکھیں مارتا تھا، لیکن اب دیمک کی زد میں بوند بوند مٹی ہوا جارہا تھا، زمانوں کے زنگار میں لتھڑا، حیران حیران سا، چپ چپ سا۔ دستک، دستک کے بہت دیر بعد اندر ایک پراسرار چاپ، پھر دروازے کا تھوڑا سا حصہ تھکی چڑچڑاہٹ کے ساتھ نیم وا ہوا، ایک ستی ہوئی اکتائی آواز ”کون؟“ ”جی.... میں“۔ ”میں کون؟“ ستی ہوئی اکتائی آوازیں ایک بے دلی کا عنصر بھی نمایاں ہوا۔ ”جی میں“ یادوں کا ایک ہجوم بھنور سا بن گیا۔ ”تم“ ایک خوشگوار حیرت خوشبو کی طرح چاروں طرف پھیل گئی۔ دروازہ چڑچڑاہٹ کے ساتھ تھوڑا سا اور کھل گیا۔ ”آﺅ نا“ اندر آتے ہوئے میں نے اس تھکے وجود پر ایک نظر ڈالی۔ میلے بغیر استری کپڑوں میں ایک تڑخا ہوا ڈھانچہ، تھکے قدموں سے وہ آگے آگے، میں پیچ...

دشتِ امکاں .....تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

خزانے والا خواب برسوں پرانا تھا، ایک صبح ناشتہ کرتے ہوئے ماں نے کہا تھا ”مجھے یقین ہے کہ اس گھر میں کہیں خزانہ ہے“۔ ان کی خاموشی پر وہ جھجک سی گئی ”رات میں نے پھر وہی خواب دیکھا ہے“۔ اس نے پوچھا ”کون سا خواب“؟ ”وہی خزانے والا، میں وہاں تک پہنچ بھی گئی تھی“۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا ”تو پھر نکال کیوں نہ لائیں؟“ ”بس“ ماں نے جھر جھری لی ”میں وہاں تک پہنچ تو گئی لیکن....“، ”لیکن کیا؟“ چھوٹی بہن نے جلدی سے پوچھا۔ ”جب میں ہاتھ بڑھا کر اٹھانا چاہا تو....“ ماں نے پھر جھرجھری لی، ایک لمحہ کیلئے جیسے خواب اُس کی آنکھوں میں مجسم ہو گیا ”کسی نے میری کلائی پکڑ لی“۔ وہ ہنس پڑا ”خزانے کے سانپ کی بات تو سنی ہے لیکن سانپ نے کلائی کب سے پکڑنی شروع کر دی ہے“۔ ماں نے بُرا سامنہ بنایا اور بولی ”تم تو بس مذاق ہی اڑانے کیلئے ہو، لیکن میں سچ کہتی ہوں اس گھر میں کہیں خزانہ ضرور ہے، ایک دن تم.... یاد رکھنا بس“۔ اس نے کندھے جھٹکے ”جلدی سے چائے بنا دیں، دفتر دیر ہو رہی ہے“۔ بس میں سوار ہوتے ہوئے اسے لمحہ کیلئے ماں کی بات یاد آئی اور خزانے کی نرم نرم گرمی اس کے جسم میں لہراتے ملس کی طرح رقص کرن...

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

سورج جب قبرستان کے گھنے درختوں سے الجھتا رینگ رینگ کر اپنے بل میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مستری نے قبر کا کام مکمل کر لیا۔ پچھلے کئی مہینوں سے اس کی یہ خواہش تھی کہ ماں کی قبر پکی کرائے لیکن خالی جیبیں اس خیال کو تھیتھپا کر آنے والے دن کی جھولی میں ڈال دیتیں، وہ اندر اندر ہی سلگ سلگ کر خیالوں ہی خیالوں میں کبھی اینٹیں کبھی سیمنٹ، کبھی ریت خریدتا، نام کی خوبصورت سی سل بنواتا اور سونے سے پہلے اس خیال کو پوری توجہ سے آنے والے دن کی جیب میں ڈال دیتا۔ بہت دن ہوئے اس کے ڈرائینگ روم میں ایک تصویر تھی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ اس کی ماں کی تصویر ہے، لیکن کچھ کا کہنا تھا کہ یہ کوئی خیالی تصویر ہے، تصویر میں ایک عورت غم میں گندھی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے خالی منظر کو گھور رہی تھی۔ خالی یوں کہ منظر میں جو وادی تھی۔ وہ اپنے دریاﺅں کے باوجود دست بدعا تھی۔ وہ اس تصویر کے بارے میں جاننے کا شوق تو رکھتا تھا اور یہ جاننا چاہتا تھا کہ اس تصویر کی وادی اتنے سارے دریاﺅ کے باوجود کسی بنجر دھند میں لپٹی ہوئی ہے۔ دریاﺅں کا پانی سوکھ کیوں گیا ہے اور زمین کے ہاتھ خالی کیوں ہوئے جارہے ہیں؟ لیکن اس کیلئے اس نے ...

دُنیا اک اسٹیج ہے ----------نور الہدیٰ شاہ ------ترجمہ: شاہد حنائی

اس محفل میں رقص کےلئے صرف مجھے ہی بلایا گیا تھا۔ رات کے پچھلے پہر جب محفل اپنے شباب پر تھی اور سب شراب پی کر بے سدھ ہو چکے تھے۔ تب میں نے گھنگھروﺅں کی چھم چھم کے ساتھ ہولے ہولے قدم اُٹھانا شروع کئے۔ کجل بائی مرحومہ (خدا اسے بہشت نصیب کرے) ہمیشہ کہا کرتی تھی۔ پہلے تماش بینوں کو جام بھر بھر پلاﺅ جب وہ نشے میں چور ہو جائیں تو ناچو.... پھر ناچوگی تو صرف نوٹ ہی نہیں اپنا آپ بھی تم پر وار دیں گے۔  گھنگھروﺅں کی چھم چھم کے ساتھ سازندوں نے بھی اپنے ساز سنبھالے اور زمین میرے پیروں تلے گول دائرے میں گھومنے لگی۔ اس گردش کرتے ہوئے منظر میں وہ جیسے بجلی کی چمک کی طرح میری آنکھ سے گزر کر غائب ہو گیا۔ اپنے آپ میں گم، سارا جسم سیاہ شال میں لپٹا ہوا۔ مجھے لگا جیسے وہ بے سدھ تو ہے مگر اس نے شراب نہیں پی۔ وہی اکیلا ہے جو جاگ رہا ہے۔ باقی سب کھلی سرخ آنکھوں کے اندر مرے ہوئے پڑے تھے۔ اور ان کے کھلے منہ میں کوے بول رہے تھے۔ تو ناچو، رقاصہ ....ناچو....ناچو....ناچو رقاصہ! ....ناچو....ناچو!! نوٹ شکار کئے ہوئے پرندوں کی طرح پھڑ پھڑاا کر لہراتے ہوئے فرش پر کر رہے تھے۔ زمین ابھی تک میرے پیروں کے نیچے تیزی ...

سزا ۔۔۔۔۔۔۔ شہزاد منظر

آج وہ پھر اس کے سامنے سرجھکائے کھڑی تھی۔ مجسٹریٹ نے اسے دیکھتے ہی فوراً پہچان لیا۔ وہ پہلے سے کافی بدل چکی تھی۔ جسم پہلے سے زیادہ لاغر ہو چکا تھا اور آنکھیں اندر کی جانب دھنس گئی تھیں۔ چہرے کی زردی اور روکھے پن سے اس کی عمر صاف ظاہر ہو رہی تھی۔ اس کے چہرے پر اُداسی کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے لیکن اُس کی آنکھوں سے ایک آہنی عزم جھلک رہا تھا جیسے وہ اس دُنیا میں ہر صورت حال کا مقابلہ کر نے کےلئے تیار ہو۔ اُس نے اس کے چہرے کی جانب غور سے دیکھا۔ وہ پچیس کے پیٹے میں قدم رکھ چکی تھی۔ اس کے باوجود اُس کے چہرے کے نقوش اب بھی تیکھے اور پرکشش تھے لیکن اس کے چہرے کی تابانی اور جسم کی رعنائی ختم ہو چکی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا ”یہ عورت کس قدر بدل چکی ہے۔ تین سال کے عرصے میں اس کا سب کچھ لٹ چکا ہے۔ جیسے زندگی نے اس سے چن چن کر انتقام لیا ہو۔“ اب اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ چکے تھے اور وہ صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئی تھی۔ اس نے اس کے بارے میں سوچا اور اُسے آج سے تین سال قبل کی رقیہ یاد آگئی۔ وہ جب پہلی بار اس کے سامنے پیش کی گئی تھی تو اس میں بلا کی دلکشی تھی۔ اس کے چہرے پر گلوں...