سزا ۔۔۔۔۔۔۔ شہزاد منظر
آج وہ پھر اس کے سامنے سرجھکائے کھڑی تھی۔
مجسٹریٹ نے اسے دیکھتے ہی فوراً پہچان لیا۔ وہ پہلے سے کافی بدل چکی تھی۔ جسم پہلے سے زیادہ لاغر ہو چکا تھا اور آنکھیں اندر کی جانب دھنس گئی تھیں۔ چہرے کی زردی اور روکھے پن سے اس کی عمر صاف ظاہر ہو رہی تھی۔ اس کے چہرے پر اُداسی کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے لیکن اُس کی آنکھوں سے ایک آہنی عزم جھلک رہا تھا جیسے وہ اس دُنیا میں ہر صورت حال کا مقابلہ کر نے کےلئے تیار ہو۔
اُس نے اس کے چہرے کی جانب غور سے دیکھا۔ وہ پچیس کے پیٹے میں قدم رکھ چکی تھی۔ اس کے باوجود اُس کے چہرے کے نقوش اب بھی تیکھے اور پرکشش تھے لیکن اس کے چہرے کی تابانی اور جسم کی رعنائی ختم ہو چکی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا ”یہ عورت کس قدر بدل چکی ہے۔ تین سال کے عرصے میں اس کا سب کچھ لٹ چکا ہے۔ جیسے زندگی نے اس سے چن چن کر انتقام لیا ہو۔“
اب اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ چکے تھے اور وہ صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئی تھی۔ اس نے اس کے بارے میں سوچا اور اُسے آج سے تین سال قبل کی رقیہ یاد آگئی۔ وہ جب پہلی بار اس کے سامنے پیش کی گئی تھی تو اس میں بلا کی دلکشی تھی۔ اس کے چہرے پر گلوں کی سی شگفتگی اور تازگی تھی مگر اس نے اِس دفعہ متوسط طبقے کی بنگالیوں جیسی ساری باندھ رکھی تھی اور شکل و شباہت اور پہناوے سے وہ قطعی گھریلو عورت لگ رہی تھی جیسے وہ ابھی ابھی سیدھے ”پاک گھر“ سے عدالت میں چلی آئی ہو۔
وہ اس عورت کے ماضی سے اچھی طرح واقف تھا اور اس کی پوری زندگی اس کے سامنے کھلی ہوئی کتاب کے مانند تھی۔ وہ جہاں سے چاہتا اُسے پڑھ سکتا تھا۔ اس نے اس سے کوئی بات نہیں چھپائی تھی۔ اسی لئے وہ اس کی سادگی اور مظلومیت سے بہت متاثر تھا اور شاید اسی لئے اس نے رقیہ کی تمام باتیں یاد رکھی تھیں ورنہ ایک مجسٹریٹ کو زندگی میں سیکڑوں ملزموں سے سابقہ پڑتا ہے۔ ہزاروں مقدموں کے فیصلے سنانے پڑتے ہےں۔ بہت کم مقدمے اور ملزم ایسے ہوتے ہےں جو انہیں یاد رہتے ہےں، لیکن اسے رقیہ کی تمام باتیں یاد تھیں۔ تمام تفصیلات کا علم تھا، جیسے اُس نے ابھی ابھی اپنی داستان سنائی ہو۔
وہ چند لمحوں کےلئے اپنے خیالات میں گم ہو گیا اور اسے رقیہ کی بتائی ہوئی ایک ایک بات یاد آنے لگی۔
وہ ضلع میمن سنگھ کے روپ پور تھانے کے ایک دور افتادہ گاﺅں ویجئے نگر کی رہنے والی تھی۔ احمد علی بھی اسی گاﺅں سے تعلق رکھتا تھا اور اس کے گھرانے سے اس کا دیرینہ تعلق تھا۔ رقیہ کا باپ عبدالسبحان جب تک زندہ رہا، احمد علی اس کی زمین پر بھاگے داری میں کھیتی کرتا رہاکیونکہ اب وہ کافی ضعیف ہو چکا تھا اور اس میں تنہا سارے کھیت کو چاش کرنے کی قوت نہیں رہی تھی۔ برسات کا موسم شروع ہو چکا تھا اور وقت ہاتھ سے نکلتا جارہا تھا۔ پھر عبدالسبحان چند دنوں سے بیمار بھی رہنے لگا تھا۔
اس کے سینے میں ہلکا ہلکا درد رہتا اور وہ ہمیشہ کھانستا رہتا۔ ان حالات میں کمر بھر پانی میں اُتر کر صبح سے شام تک پٹ سن کر پودے لگانا اور پودے کے بڑے اور سنہرے ہو جانے پر اُسے کاٹ کر خشکی پر سکھانا، اب اس کے بس کی بات نہیں رہی تھی۔ ان تمام مجبوریوں کی وجہ سے سبحان میاں نے اُسے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ شرط یہ تھی کہ جب پٹ سن اور دھان کی فصل کٹے گی تو وہ آپس میں آدھا آدھا بانٹ لیں گے۔ سبحان میاں کا سوائے رقیہ کے دنیا میں کئی نہیں تھا اور سال بھر کی محنت و مشقت کے بعد جو فصل پیدا ہوتی تھی وہ دونوں باپ اور بیٹی کےلئے کافی تھی۔ چنانچہ فصل کا نصف حصہ بھاگے دار کو دینے پر بھی انہیں کوئی کمی نہیں ہوتی تھی، اور سال بھر کھیتوں، ندی نالوں اور ریلوے لائن کی دونوں جانب کٹی ہوئی زمینوں میں جمع شدہ پانی میں مچھلیاں پکڑ کر اور نمک مرچ سے پنتھا بھات کھا کر اُن کا بڑے آرام اور اطمینان سے گزارا ہو جاتا تھا۔ چھوٹی چھوٹی پوٹی اور بیلیا مچھلیاں اور چنگڑیاں کھیتوں کے منڈیروں کے درمیان لگائی ہوئی بانس کی چائی میں خودبخود پھنس جایا کرتی تھیں جنہیں سبحان میاں عموماً شام کو گھر لوٹتے وقت ایک چھوٹی سی ٹوکری میں اکٹھی کرکے لے آیا کرتا تھا اور جسے رقیہ بڑے شوق سے سرسوں کے تیل اور گرم مسالے میں بھاج لیا کرتی تھی۔ اگر کھیتوں میں پانی خشک ہو جاتا تو وہ جال لے کر تالابوں یا پھر اپنے کھیت کے قریب سے بہنے والی میگھنا ندی پر جاتا اور جال پھینک کر دو چار مچھلیاں ضرور پکڑلاتا۔ ان مچھلیوں میں ایلش ضرور ہوتی جو اس کی سب سے پسندیدہ مچھلی تھی، اور جس کا جھول وہ بڑی رغبت سے کھاتا تھا۔ سبحان میاں بیمار ہونے کی صورت میں رقیہ خود ہاتھ میں پو پو (ٹاپا سے ملتی جلتی بانس کی شہتروں سے بنتی ہوئی شے، جس سے مچھلیوں کا شکار کیا جاتا ہے) اور گمچھالے کر مچھلیاں پکڑنے نکل پڑتی لیکن وہ ندی یا نالے میں جانے کے بجائے سیدھی ریلوے لائن کی دونوں جانب کٹی ہوئی زمینوں میں پہنچ جاتی، جہاں بارش کا پانی جمع ہو جانے کیو جہ سے چھوٹے چھوٹے مصنوعی تالاب بن جایا کرتے تھے۔ ان مصنوعی تالابوں میں وہ پولو کی مدد سے بڑی آسانی سے بام مچھلیاں پکڑ لاتی تھی جو عموماً کیچڑ کے اندر چھپی رہتی تھیں۔ انہیں کھانے پینے کی چیزوں میں کسی چیز کی کمی نہیں ہوتی تھی۔ دھان سے لے کر ساگ سبزی اور مختلف قسم کی دالیں اور ترکاریاں اور گڑ تک وہ خود ہی پیدا کر لیا کرتے تھے۔ البتہ انہیں کراسن اور سرسوں تیل اور کپڑوں کےلئے نقد روپوں کی ضرورت ہوتی تھی، جو وہ پٹ سن اور فاضل دھان بیچ کر حاصل کر لیا کرتے تھے۔
سبحان میاں کو اب رقیہ کی شادی کی فکر ستانے لگی تھی، کیونکہ رقیہ بڑی تیزی سے سیانی ہو رہی تھی اور اس کا قد اس کی عمر سے زیادہ نکل آیا تھا اور اب وہ سبحان میاں اور احمد علی کے سامنے بڑی احتیاط سے ساری پہننے لگی تھی۔ اس میں اب شرم و حیا کا احساس پیدا ہو گیا تھا۔ وہ جب بھی سبحان میاں یا احمد علی کے سامنے آتی، سر پر ساری کا آنچل کھینچ لیتی اور نظریں جھکا کر بڑی آہستگی اور نرمی سے باتیں کرتی، جیسے اس میں اپنے جوان ہونے کا خودبخود احساس پیدا ہو گیا ہو۔ سبحان میاں بھی اُس کی ان تبدلیوں کو محسوس کرنے لگا چنانچہ اُس کی نظریں رقیہ کےلئے مناسب برکی تلاش کرنے لگی تھیں اور اس کی نظریں تلاش کرتے کرتے احمد علی پر رک گئی تھیں۔
وہ احمد علی کے باپ محمد علی کو اچھی طرح جانتا تھا جو کبھی اُس کے کھیت کی بغل والی زمین پر کاشت کیا کرتا تھا۔ وہ زمین محمد علی کی تھی، لیکن مہاجن کا پرانا قرض ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے اُس کی زمین قرق ہو گئی اور محمد علی بھی احمد علی کی طرح کھیت مزدور بن گیا اور دور دراز کے دیہات میں گزر اوقات کےلئے د وسروں کی زمین پر کاشت کرنے لگا۔احمد علی کے باپ کا گزشتہ سال ہی انتقال ہوا تھا۔ جب سبحان میاں کو معلوم ہوا تو اس نے احمد علی کو اپنے کھیت میں کام کرنے کےلئے رکھ لیا۔ اس کے پیچھے دو مقاصد تھے۔ اوّل یہ کہ وہ کھیتی باڑی میں اس کی مدد کرے۔ دوئم یہ کہ اگر احمد علی کو رقیہ پسند ہو اور وہ اسے قبول کرنے کےلئے تیار ہو تو وہ رقیہ کے ہاتھ پیلے کر دے۔
احمد علی جب اُس کے کھیت پر کام کرنے لگا تو اس کے کھانے پینے اور ہنے کا سبحان میاں کے گھر پر انتظام ہو گیا کیونکہ احمد علی کا اپنا کوئی گھر نہیں تھا۔ وہ عموماً دونوں وقت سبحان کے ساتھ کھانا کھاتا اور اُسے رات کو الگ ایک چھوٹی سی کٹیا میں سونا پڑتا، جو سبحان میاں کے جھونپڑی کے قریب ہی تھیاور جس کی بغل میں گائے اور بکریوںکا بیڑا تھا۔
رقیہ نے جب پہلی بار احمد علی کو دیکھا تو وہ قدرے شرمائی۔ اپنی سفید دبیز ساری میں جسم کو سکیڑ لیا اور نصف گز کا گھونگھٹ نکال کر ایک جانب کھڑی ہو گئی۔ سبحان میاں اور احمد علی او سارے میں پیڑھے پر بیٹھے کھانے کا انتظار کرتے رہے۔ سبحان میاں نے جب رقیہ کو احمد علی کے سامنے جھجھکتے ہوئے دیکھا تو کہا ”رقیہ! تو کس سے شرما رہی ہے؟ یہ تو تیرے بچپن کا ساتھی احمد علی ہے۔ محمد علی کا بیٹا، تو نے اسے پہچانا نہیں؟“
رقیہ نے احمد علی کی جانب نظر بھر کر دیکھا اور احمد علی نے رقیہ کی جانب۔ دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔
”رقیہ کتنی بڑی ہو گئی ہے اور کتنی خوبصورت بھی، حالانکہ وہ چند سال قبل اُسے چانٹے لگایا کرتا تھا۔“
اس نے دل ہی دل میں سوچا اور رقیہ کی جانب دُزدیدہ نظروں سے دیکھتا رہا۔ رقیہ اُس کی مشتاق نظروں سے بے خبر سرجھکائے ان کی کانسی کی تھالیوں میں دال بھات اور مچھلی کا گھونٹا انڈھیلتی رہی اور کھانا دینے کے بعد چولہے کے قریب بیٹھی انہیں کھاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
رقیہ دور بیٹھی احمد علی کے چہرے کا جائزہ لے رہی تھی۔ احمد علی بھی گھبرو جوان بن چکا تھا اور اس کے سیاہ اور چوڑے سینے پر بڑے بڑے بال نکل آئے تھے۔ وہ اس سے عمر میں سات آٹھ سال بڑا تھا ۔ اس لئے وہ اسے بچپن میں عموماً پیٹا کرتا تھا اور وہ اُس سے مار کھانے کے بعد اُس کے ابو محمد علی سے شکایت کیا کرتی تھی۔
دوچار دنوں کے بعد اُن کے درمیان شرم اور جھجھک دور ہو گئی اور وہ آپس میں کھل کر باتیں کرنے لگے۔ احمد علی جاڑے میں صبح تڑکے اُٹھتا اور سبحان میاں کے بیدار ہونے سے قبل ہی چپکے سے بل شانے پر اٹھائے بیلوں کو ہانکتا ہوا کھیت کی جانب روانہ ہو جاتا اور جب رقیہ مرغ کی بانگ سن کر اٹھتی اوربکریوں، مرغیوں اور بطخوں کو ان کے ڈربوں سے نکالنے کے بعد احمد علی کو جگانے کےلئے اس کی کٹیا میں جاتی تو اُسے خالی پاتی۔ سبحان میاں کے بیدار ہونے کے بعد منہ ہاتھ دھو کر دیگر ضرویات سے فارغ ہوتے ہی وہ اس کے سامنے پانتھا بھات (1)کی تھالی رکھ دیتی اور ساتھ ہی نمک پیاز اور ہری مرچ بھی۔ سبحان میاں کے کھیت پر جاتے ہی احمد علی بھات کھانے کےلئے گھر لوٹ آتا اور رقیہ اس کے سامنے بھی یہی کچھ رکھ دیتی۔ وہ اس کے سامنے بیٹھی پنکھا جھلتے ہوئے مکھیاں اڑاتی اور اس سے سارے جہان کی باتیں کرتی رہتی۔
ایک دن وہ جب اسی طرح بیٹھی احمد علی کو کھانا کھلا رہی تھی۔ اس نے اسے چھوٹی چھوٹی سیپوں سے بنی ہوئی ایک مالا اور سنکھ کی بنی ہوئی چوڑیاں دیں جو اس نے حاجی پیر کے عرس کے موقع پر خاص رقیہ کےلئے خریدی تھیں۔ پہلے تو وہ اسے قبول کرتے ہوئے ہچکچاتی رہی، لیکن جب احمد علی کا اصرار حد سے بڑھ گیا تو اس نے اسے قبول کرلیا اور شرما کر جھونپڑی کے اندر بھاگ گئی۔ شام کو جب احمد علی کھیت سے واپس آیا تو وہ ہار رقیہ کے گلے میں اور چوڑیاں اُس کی کلائیوں میں تھیں۔ اس نے بالوں میں بہت سارا سستاخوشبودار تیل ڈال کر بڑا سا کھوپا (2)باندھ رکھا تھا۔ احمد علی نے دیکھا، اُس کی آنکھوں میں گہری کاجل چمک رہی تھی، ہونٹوں پر مسکراہٹیں مسلسل رقصاں تھیں اور اُس کے دونوں پاﺅں آلتا (3)سے رنگے ہوئے تھے۔
احمد علی کی طرح سبحان میاں کو بھی رقیہ میں زبردست تبدیلی نظر آئی، وہ خاموشی سے رقیہ کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیتا رہا اور اس نے دوسری ہی دن کھیت پر احمد علی سے تمام باتیں معلوم کرلیں۔ احمد علی کی جانب سے رضا مندی ظاہر کرتے ہی وہ گاﺅں کے موڑل(4) اظہار الدین اور دوسرے سرکردہ لوگوں سے صلاح و مشورہ کرنے کےلئے چلا گیا اور واپسی میں گاﺅں کی مسجد کے امام صاحب سے شادی کی تاریخ اور وقت طے کر آیا۔ اُن دونوں کی شادی میں سبحان میاں اور امام صاحب کے علاوہ گاﺅں کے پانچ بڑوں نے شرکت کی اور شادی کے بعد سبحان میاں خود احمد علی کی چھوٹی سی کٹیا میں منتقل ہو گیا۔
دن تیزی سے گزرنے لگے اور احمد علی شادی کے بعد پہلے سے زیادہ محنت کرنے لگا۔ شادی کے بعد سبحان میاں کی طبیعت مستقل خراب رہنے لگی اور ضعیفی ، نقاہت اور گٹھیا کی وجہ سے وہ تقریباً بستر سے لگ گیا۔ احمد علی اب کاشتکاری کا تمام کام خود ہی کرنے لگا۔ سبحان میاں دن بھر اپنی کٹیا میں لیٹایا تو گھٹیا کی وجہ سے کراہتا رہتا یا پھر طبیعت قدرے اچھی رہتی تو داوا (5)میں بیٹھا دھوپ تاپتے ہوئے ناریل کا حقہ پیتا رہتا۔
دیکھتے ہی دیکھتے کئی ماہ گزر گئے اور احمد علی کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہوا۔ رات کے آخری پہر میں رقیہ کو دردزہ شروع ہوا اور احمد علی لالٹین لے کر گاﺅں کے بالکل آخری سرے پر رحیمہ خالہ کو بلا لایا، جو بچہ جنوانے میں بڑی مہارت اور شہرت رکھتی تھی، لیکن رحیمہ خالہ جب پہنچی تو اس کی جھونپڑی میں نومولود بچے کی چیخ گونج رہی تھی۔
سبحان میاں اپنے ننھے نواسے کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اسے گود میں لے کر خوب پیار کرتا رہا۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی جو اس نے مرنے سے قبل اپنے نواسے کو گود میں کھلایا۔ پھر دو سال بھی گزرنے نے پائے تھے کہ احمد علی کے ہاں دوسرا بچہ ہوا لیکن سبحان میاں اپنے دوسرے نواسے کو نہ دیکھ سکا اور چند دنوں کی علالت کے بعد اچانک چل بسا۔ رقیہ باپ کی لاش سے لپٹ کر روتی اور سینہ کوبی کرتی رہی، لیکن صبروتحمل کے سوا چارہ ہی کیا تھا۔ سو وہ رو دھو کر خاموش ہو گئی اور سبحان میاں کو اس کی جھونپڑی کے قریب بانسوں کے جھنڈ میں دفن کر دیا گیا۔ لیکن سبحان میاں کے انتقال کے بعد جیسے رقیہ پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔
بارش کا موسم شروع ہوتے ہی ندیوں اور نالوں میں پانی بھر گیا اور موسلا دھار بارش کی وجہ سے ندیوں کے پانی کی سطح بلند ہونے لگی اور ایک دن یہ سطح خطرے کے نشان کو بھی پار کر گئی اور ہر جانب پانی ہی پانی نظر آنے لگا اور کھیت کھمار، پیڑ، پودے اور گھر بار سب کچھ پانی میں غرق ہو گیا۔ سیلاب کے دھارے سے کھڑی فصل اور اناج کے ذخیروں کے علاوہ مویشی بھی بڑی تعداد میں بہہ گئے۔ اس کی جھونپڑی قدے بلندی پر تھی ۔ اس لئے سیلاب میں بہ تو نہیں گئی، البتہ سائیکلون نے اُسے بہت نقصان پہنچایا اور اس کی جھونپڑی کئی جگہوں سے ٹوٹ پھوٹ گئی۔ سیلاب کی وجہ سے اُس کی جھونپڑی کی شکل ایک چھوٹے سے جزیرے کی سی ہو گئی، جس کی چاروں جانب تاحدنظر پانی ہی پانی تھا۔ سیلاب کا پانی جتنی تیزی سے بڑھ رہا تھا اُس کی وجہ سے جھونپڑی میں رہنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ خصوصاً رات کو اچانک پانی کی سطح بلند ہو جانے اور جھونپڑی کے ڈوب جانے کا خطرہ تھا۔ چنانچہ رقیہ اور احمدعلی نے اپنے بچوں کے ساتھ کشتی میں پناہ لی اور تین دن اور تین راتیں کشتی پر بسر کرنے کے بعد ملٹری کی ریسکیو پارٹی نے انہیں قریب کے ایک ریلوے اسٹیشن پر پہنچا دیا، جو بلندی پر ہونے کی وجہ سے ابھی تک سیلاب سے محفوظ تھا۔ وہاں ان کے علاوہ سیکڑوں افراد پناہ گزیں تھے اور ان کی تعداد میں لمحہ لمحہ اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
رقیہ اور احمد علی کئی ہفتے اسٹیشن پر رہے اور ریلیف میں ملنے والی دال اور چاول سے پیٹ کا دوزخ بھرتے رہے۔ انہیں سیلاب کا پانی اترنے کا بڑی بے چینی سے انتظار تھا تاکہ وہ اپنے گاﺅں واپس جاکر اپنی ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیوں کی مرمت کرسکیں اور قدرت سے ایک بار پھر برسرپیکار ہونے کےلئے کمرباندھ سکیں۔ طویل انتظار اور بے چین راتیں گزارنے کے بعد جب سیلاب کا پانی اترا تو سب کچھ اپنی جگہ موجود تھا۔ سیلاب زدہ لوگوں نے ریلیف کے پیسے سے اپنی جھونپڑیوں کی پھر سے مرمت اور مویشیوں اور دھان کی خریداری شروع کر دی اور اجڑے ہوئے کسانوں کی زندگی معمول پر آگئی تھی لیکن رقیہ اور احمد علی کا سب کچھ لٹ چکا تھا اور قیامت خیز سیلاب میں ندی کا رخ بدل جانے کی وجہ سے اس کی جھونپڑی اور کھیت دریا برد ہو چکے تھے اور جس زمین پر احمد علی کاشت کرتا تھا وہاں چھوٹی چھوٹی بادبانی کشتیاں چل رہی تھیں اور مستقبل تاریک اور مایوس کن نظر آنے لگاتھا۔
اپنے حلقے کی یونین کونسل کے چیئرمین سے منتیں کرنے اور ریلیف آفیسر کی خوشامدیں کرنے پر انہیں ریلیف کے طور پر کچھ نقد روپے تو مل گئے لیکن کوئی انہیں زمین دینے کےلئے تیار نہیں ہوا۔ وہ چند روز تک ریلیف کے روپے استعمال کرتے رہے پھر روزگار کےلئے احمد علی کو ڈھاکہ آنا پڑا اور اُس کے ساتھ رقیہ کو بھی۔
ڈھاکہ آنے کے بعد وہ چند روز پرانے ڈھاکے کے ریلوے پلیٹ فارم پر ٹین کے شیڈ کے نیچے پناہ گزیں رہے، لیکن جب ریلوے پولیس نے انہیں وہاں سے نکال دیا تو وہ بیت المکرم کے سامنے خیمہ زن ہوئے اور احمد علی روزگار کی تلاش میں مارا مارا پھرنے لگا۔ ایک ہمدرد شخص کی کوششوں سے اُسے آدم جی جوٹ ملز میںکام مل گیا اور وہ وہاں مزدور کی حیثیت سے کام کرنے لگا اور رقیہ کو آدم جی نگر لے گیا، جہاں اُسے کارخانے کی جانب سے برائے نام کرائے پر کوارٹر مل گیا۔
احمد علی چند دنوں میں مل کا ہوشیار اور ہنر مند مزدور بن گیا اور پیداوار کے مطابق اس کی اجرت میں بھی اضافہ ہونے لگا اور اس کی مزدوری اسّی روپے سے بڑھ کر سو اور سوا سو روپے تک پہنچ گئی۔ شہر میں آنے اور طرز زندگی بدل جانے کی وجہ سے احمد علی اور رقیہ میں بھی غیرشعوری تبدیلیاں رونما ہونے لگیں اور احمد علی آہستہ آہستہ دوسرے مزدوروں کے رنگ میں رنگ گیا۔
اس میں جو پہلی نمایاں تبدیلی نظر آئی وہ یہ کہ اس نے ناریل کے حقے کی جگہ بگلا سگریٹ پینا شروع کردیا اور تنخواہ ملتے ہی فٹ پاتھ پر سے رقیہ کےلئے سرخ چھینٹ کا ریڈی میڈ بلاﺅز خرید لایا۔ اس کی منطق یہ تھی کہ شہر میں عورتیں ساری کے ساتھ بلاﺅز بھی پہنتی ہےں جب کہ رقیہ صرف ساری پہنتی ہے جس سے اس کے جسم کا حصہ صاف نظر آتا رہتا ہے۔ اس میں دوسری نمایاں تبدیلی یہ نظر آئی کہ وہ ایک دن فٹ پاتھ پر سے رقیہ کےلئے سستا خوشبودار تیل اور پاﺅڈر خرید لایا۔اس کی خواہش تھی کہ رقیہ بھی دوسرے مزدوروں کی بیویوں کی طرح بناﺅ سنگھار کرے اور وہ جب شام کو گھر لوٹے تو وہ بھی سج دھج کر اس کا استقبال کرے۔رقیہ کی عمر کچھ زیادہ نہیں تھی اور دو بچوں کی ماں ہونے کے باوجود جوان اور پرکشش تھی۔ اس کے اصرار کرنے پر اس نے بلاﺅ کے اندر بریسر ی بھی پہننا شروع کر دی۔ اس کا کہنا تھا بریسری پہننے سے عورت کی خوبصورت اور بھی نکھر آتی ہے اور وہ پہلے سے زیادہ اچھی لگنے لگتی ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ جب سے اس نے بریسری پہننا شروع کیا تھا اُس کا حسن اور بھی نکھر آیا تھا اور اس میں بلاکی کشش پیدا ہو گئی تھی۔ رقیہ کو احمد علی کی کسی بات پر اعتراض نہ تھا۔ وہ تو صرف یہ چاہتی کہ احمد علی اُس سے خوش رہے اور اُس سے زیادہ سے زیادہ محبت کرے۔ وہ احمد علی کے ہر حکم کی تعمیل کرتی تھی، کیونکہ وہ اُس کی ہر بات اور ہر ادا پر فدا تھی۔
اب احمد علی ہر اتوار کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ سنیما دیکھنے لگا تھا اور خود دیکھنے کے علاوہ اُسے بھی کبھی اپنے ساتھ لے جانے لگا تھا۔ اس نے رقیہ کو پہلی جو فلم دکھائی وہ ........جان“ تھی، جس کی کہانی اُس نے بچپن میں اپنی ماں سے سنی تھی۔ احمد علی کی طرح رقیہ پر بھی شہری تہذیب کا اثر پڑنے لگا تھا اور وہ بھی دوسرے مزدوروں کی بیویوں کے رہن سہن اور اُن کے ڈھنگ سے متاثر ہونے لگی تھی۔
اس کے بڑے بیٹے شوتار (ستار) کی عمر پانچ سال ہو چکی تھی اور اب رقیہ بھی دوسرے مزدوروں کے بچوں کے ساتھ اُسے اسکول بھیجنے لگی تھی۔ کمپنی میں مزدوروں کے بچوں کےلئے کالونی کے اندر خاص طور پر اسکول کھول رکھا تھا، جہاں تعلیم اور کتابیں مفت فراہم کی جاتی تھیں۔ رقیہ نے شوتار کےلئے اسکول کے دو یونیفارم سلوا دیئے تھے جنہیں وہ باری باری استعمال کرتا تھا۔
پہلے روز جب شوتار اسکول گیا تو رقیہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اُس نے علی الصبح اُٹھتے ہی شوتار کو اپنے ہاتھوں سے نہلایا۔ اس کے کپڑے بدلے اور اسے بنا سنوار کر اسکول بھیجا۔ اُس روز رقیہ دن بھر بہت خوش و بشاش رہی اور حسین مستقبل کا خواب دیکھتی رہی۔ اسے یقین تھا کہ اس کا بیٹا ایک دن پڑھ لکھ کر ضرور بڑا افسر بننے گا اور ساری مصیبتیں دور ہو جائیں گی۔ وہ اپنی موجودہ زندگی سے بہت خوش تھی۔ اس نے اپنے ماضی کو تقریباً بھلا دیا تھا اور اب اسے اپنا گاﺅں چھٹنے اور زمین کے ہاتھ سے نکل جانے کا افسوس نہیں رہا تھا۔ وہ نئی زندگی سے خوش تھی اور نئے ماحول اور معاشرے میں ڈھل چکی تھی۔
پھر ایسا ہوا کہ اس کے خوابوں کا محل اچانک مسمار ہو گیا۔
احمد علی کو مل میں کام کرتے ہوئے چار سال ہی ہوئے تھے کہ ایک دن وہ اچانک حادثے کا شکار ہو گیا۔ آہنی دیو نے اس کے دونوں ہاتھوں کو دبوچ لیا اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ سارے کارخانے میں کہرام مچ گیا اور اسے نازک حالت میں مل کے ہسپتال میں داخل کیاگیا۔
رقیہ کو جب اِس کی اطلاع ملی تو وہ غش کھا کرگرپڑی اور جب ہوش آیا تو وہ روتے پیٹتے ہسپتال پہنچی اور احمد علی کے پاﺅں سے لپٹ کر زاروقطار روتی رہی۔ وہ ہسپتال میںکئی ماہ زیر علاج رہا اور اپنی دونوں کلائیوں سے محروم ہو گیا۔
احمد علی اس حادثے کو اپنی تقدیر کا لکھااور پرُکھوں کے گناہوں کی سزا سمجھ کر خاموش رہ گیا، اس کے سوا اور چارہ بھی کیا تھا۔
رقیہ کی پرُسکون دُنیا لٹ چکی تھی۔ وہ بھی رو دھو کر خاموش ہو گئی۔
اس نے محسوس کیا کہ اُس کے رونے سے احمد علی کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ بہت زیادہ بے چین ہو جاتا ہے۔ اُس نے اپنے غم اور آنسوﺅں کو پی لیا اور اس میں آہستہ آہستہ عزم اور استقلال پیدا ہونے لگا۔
جب سے حادثہ پیش آیا تھا، احمد علی خاموش سا رہنے لگا تھا اُسے اس کا شدید احساس تھا کہ وہ رقیہ کی مدد کرنے کے بجائے اس پر بوجھ بنتا جارہا ہے۔ رقیہ کو اُس کے دلی جذبات کا احساس تھا اِس لئے وہ ہمیشہ اُسے دلاسا دیتی اور اُس کے حوصلے بڑھاتی رہتی۔ احمد علی کے معذور ہو جانے کے بعد سے وہ اس سے پہلے سے زیادہ محبت کرنے لگی تھی۔ اس میں بڑا عزم اور خود اعتمادی پیدا ہو گئی تھی اور وہ احمد علی اور بچوں کےلئے ہر صورت حال کا مقابلہ کرنے کےلئے تیار تھی۔
اُس نے اِس حادثے کے بعد بھی شوتار کی تعلیم جاری رکھی اور اُسے اسکول بھیجتی رہی۔ شوتاراس کا سب سے بڑا سہارا تھا، اور جب سے احمد علی حادثے کا شکار ہوا تھا، وہ اِس چھوٹی سی جان سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کرنے لگی تھی۔
یونین کی کوششوں سے اُسے دوہزار روپے ہرجانہ اور پر پردوی ڈینٹ فنڈ کے روپے ملے اوراُسے آدم جی کالونی نے اُٹھ کر لال چند مقیم لین کی بوسیدہ اور تاریک عمارت میں پناہ لینی پڑی۔ اب وہ کمپنی کا مزدور نہیں تھا۔ اس لئے اسے کالونی میں رہنے کا حق بھی نہیں تھا۔ احمد علی کو کالونی چھوڑتے ہوئے بڑا دُکھ ہوا۔ اُس نے وہاں اپنی نئی زندگی شروع کی تھی لیکن کالونی چھوڑے بنا چارہ بھی نہ تھا۔
پُرانے ڈھاکے میں آنے کے بعد اس نے سب سے پہلے شوتار کو قریب کے ایک اسکول میں داخل کر دیا۔ وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ احمد علی کے حادثے کے نتیجے میں شوتار کی تعلیم منقطع ہو جائے اور وہ محلے کے آوارہ لڑکوں کے ساتھ سڑکوں پر مارا مارا پھرے۔
رقیہ شوتار کی تعلیم کا خاص خیال رکھتی تھی اور اُسے کبھی بھی اسکول سے ناغہ نہ ہونے دیتی تھی۔ وہ شوتار کو اسکول بھیجنے اور گھر کے کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد احمد علی کی دلجوئی کرتی اور اُسے ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کرتی۔ اب وہ کھانے پینے اور دیگر ضروریات کےلئے رقیہ کا محتاج تھا۔ وہ جب بھی اُس کے بارے میں سوچتی، اُس کا دل پیار کے جذبات سے بھر آتا۔ احمد علی بھی اب اُس کی محبت اور اُس کی گداز باہوں میں زیادہ راحت محسوس کرنے لگا تھا۔
پرووی ڈینٹ فنڈ میں احمد علی کو جو روپے ملے، اُس سے ایک سال بڑے اطمینان سے گزارا ہوا، لیکن دوسرے سال رقیہ کےلئے بڑے پریشان کن حالات پیدا ہو گئے، اس لئے کہ اب روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔ دوسری جانب اخراجات پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ گئے۔ جس کی وجہ سے رقیہ بہت پریشان اور فکرمند رہنے لگی۔ اُس کے پاس جوں جوں روپے کم ہوتے گئے، اُس کی پریشانی بڑھتی گئی۔ اُس نے احمد علی پر اپنی پریشانی ظاہر ہونے نہیں دی، لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے اس کی راتوں کی نیند حرام ہوتی گئی۔ وہ ہر وقت روزگار کے بارے میں سوچتی رہی۔ اس نے پاس پڑوس کی عورتوں کو بھی اپنے لئے کوئی کام تلاش کرنے کےلئے کہہ رکھا تھا۔
ایک دن اس کی پڑوسن رحیمہ نے اسے بتایا کے اس کے شوہر غفور نے اس کےلئے اسکا ٹن کے ایک ہوٹل کے منیجر کے گھر پر آیا کی ملازمت ٹھیک کر دی ہے، جہاں اُسے ساٹھ روپے ماہوار تنخواہ ملے گی۔
غفوار اس ہوٹل میں بیرا تھا اور اُس نے رقیہ کی پریشانی دیکھ کر یہ ملازمت ٹھیک کر دی تھی۔ رقیہ ملازمت کی خبر سن کر بہت خوش ہوئی اور اس کےلئے فوراً تیار ہو گئی۔ احمد علی نے اپنی مجبوری کے پیش نظر اُسے ملازمت کرنے کی اجازت دے دی اور وہ دوسرے دن غفور کے ساتھ ہوٹل روانہ ہو گئی۔
وہ جب رات آٹھ بجے گھر لوٹی تو اُس کے چہرے پر گہری افسردگی چھائی ہوئی تھی اور آنکھیں بہت زیادہ رونے کی وجہ سے سوج چکی تھیں۔ شوتار اور نوبی سو چکے تھے اور احمد علی بستر پر لیٹا اس کی آمد کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔
رقیہ جھونپڑی میں داخل ہوتے ہی اس کے سینے پر گر کر زاروقطار رونے لگی اور روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ اُس نے کچھ بھی نہیں کہا، لیکن وہ سب کچھ سمجھ گیا اور اُسے سینے سے لگا کر پیار کرتا رہا۔ اُس کی ساری کے پلّو میں بیس روپے بندھے ہوئے تھے۔ اور پھر اس واقعہے کو بہت دن بیت گئے۔
رقیہ کے دل میں یہ واقعہ ناسور کی طرح رستا رہا اور وہ اُسے ایک ہیبت ناک خواب سمجھ کر بھلانے کی کوشش کرتی رہی۔ اس کی جمع شدہ پونجی آہستہ آہستہ ختم ہو گئی اور نیم فاقہ کشی کی نوبت آگئی۔ پہلے تو وہ گھر کا چھوٹا موٹا سامان بیچ کر گزارا کرتی رہی، لیکن جب وہ بھی ختم ہو گیا تو فاقہ کشی شروع ہو گئی۔ رقیہ اور احمد علی نے تو کسی حد تک اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا۔ لیکن شوتار اور نوبی اس کےلئے تیار نہیں ہوئے۔ انہیں تو بھات چاہےے، خواہ جہاں سے بھی آئے۔ بھوک سے جب سے جب بچوں کی آہ و بکا حد سے بڑھ گئی اور اس سے بچوںکی حالت نہ دیکھی گئی تو اُس نے روتے ہوئے احمد علی سے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ ”میں ہوٹل جاﺅں گی۔“
احمد علی جواب دینے کے بجائے نہایت بے چارگی سے اُس کی جانب دیکھنے لگا، جیسے وہ ماتم کر رہا ہو۔
اور پھر رقیہ اور احمد علی نے اِسے بھی نوشتہ ¿ تقدیر سمجھ لیا۔
آج وہ پھر اُس کے سامنے سرجھکائے کھڑی تھی۔
مجسٹریٹ نے اُسے دیکھتے ہی پہچان لیا، اس نے اِس بار بھی کوئی بات نہیں چھپائی تھی۔ کسی قسم کی پردہ پوشی سے کام نہیں لیا تھا اور نہایت سچائی سے اعتراف ِ جرم کرلیا تھا۔ اب صرف مجسٹریٹ کو اپنا فیصلہ سنانا تھا اور وہ اپنا فیصلہ سنانے سے قبل ایک بار پھر اس کی کتاب ِ زندگی کے اوراق اُلٹ پلٹ رہا تھا۔
مجسٹریٹ نے اس سے کہا ”جانتی ہو تم کس جرم میں گرفتار کی گئی ہو؟“
”جی ہاں“
”کیا تم اعترافِ جرم کرتی ہو؟“
”جی ہاں!“ اس نے مجسٹریٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑے وقار اور خود اعتمادی کے ساتھ جواب دیا۔ ”میں اعترافِ جرم کرتی ہوں، میرے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہےں۔ میرا شوہر اپاہج ہے، میرا بڑا بیٹا ساتویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ قانون مجھے جو سزا دینا چاہے دے سکتا ہے۔“
-------------------------------------------------------------------------------------
-1 بنگال میں رات کو پکے ہوئے باسی چاول میں پانی ڈال کر رکھ دیا جاتا ہے، جسے دوسرے دن صبح کو ناشتے میں کھایا جاتا ہے۔
-2 جوڑا
-3 آلتا۔ دونوں پاﺅں میں سرخ رنگ لگانا
-4 سردار، چوہدری
-5 صحن
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں