دُنیا اک اسٹیج ہے ----------نور الہدیٰ شاہ ------ترجمہ: شاہد حنائی
اس محفل میں رقص کےلئے صرف مجھے ہی بلایا گیا تھا۔ رات کے پچھلے پہر
جب محفل اپنے شباب پر تھی اور سب شراب پی کر بے سدھ ہو چکے تھے۔ تب میں نے
گھنگھروﺅں کی چھم چھم کے ساتھ ہولے ہولے قدم اُٹھانا شروع کئے۔ کجل بائی مرحومہ
(خدا اسے بہشت نصیب کرے) ہمیشہ کہا کرتی تھی۔ پہلے تماش بینوں کو جام بھر بھر پلاﺅ
جب وہ نشے میں چور ہو جائیں تو ناچو.... پھر ناچوگی تو صرف نوٹ ہی نہیں اپنا آپ
بھی تم پر وار دیں گے۔
گھنگھروﺅں کی چھم چھم کے ساتھ سازندوں نے بھی اپنے ساز سنبھالے اور
زمین میرے پیروں تلے گول دائرے میں گھومنے لگی۔ اس گردش کرتے ہوئے منظر میں وہ
جیسے بجلی کی چمک کی طرح میری آنکھ سے گزر کر غائب ہو گیا۔ اپنے آپ میں گم، سارا
جسم سیاہ شال میں لپٹا ہوا۔ مجھے لگا جیسے وہ بے سدھ تو ہے مگر اس نے شراب نہیں پی۔
وہی اکیلا ہے جو جاگ رہا ہے۔ باقی سب کھلی سرخ آنکھوں کے اندر مرے ہوئے پڑے تھے۔
اور ان کے کھلے منہ میں کوے بول رہے تھے۔ تو ناچو، رقاصہ ....ناچو....ناچو....ناچو
رقاصہ! ....ناچو....ناچو!! نوٹ شکار کئے ہوئے پرندوں کی طرح پھڑ پھڑاا کر لہراتے
ہوئے فرش پر کر رہے تھے۔ زمین ابھی تک میرے پیروں کے نیچے تیزی سے گھوم رہی تھی۔
زمین کی اس تیز گردش میں صرف اک بار اس نے آہستہ آہستہ اپنا چہرہ گھٹنوں سے باہر
نکلا۔ بس ایک نظر مجھ پر یوں ڈالی جیسے میں کوئی بے حیثیت شے ہوں۔ اور جسے اک
پھونک کے ساتھ کسی کیڑے مکوڑے کو ہوا میں اڑا دیا جائے۔ اسی طرح مسکرا کر دوبارہ
گھٹنوں میں سر دے دیا۔ مرحومہ کجل بائی کہا کرتی تھی اگر کوئی ایسا تماش بین ہو جس
کی نگاہ میں تمہاری کوئی حیثیت نہ ہو۔ اس کو قابو کرکے تڑپا تڑپا کر ادھ موا کرکے
پھینک دینا۔ وہ جیسے جیسے تڑپے گا اور دہائیاں دے گا۔ زمانہ اس کا تماشا دیکھ کر
تمہاری طرف پتنگوںکی طرح امنڈ آئے گا۔ اس کے دوبارہ گھٹنوں میں سر دینے کے بعد میں
نے پائل کے سر اور تیز کر دیئے۔ اور ناچتے ناچتے زمین کی گردش کو اس کے مزید قریب
لے آئی اس نے گھٹنوںسے باہر نکالا۔ نہ کوئی لہر نہ جنبش، رات شمع کی طرح پگھلتی جارہی
تھی اور تماش بین پتنگوں کی طرح جل کر خاک ہوتے جارہے تھے۔ فجر کی اذان سے پہلے
محفل برباد شہر کے منظر میں بدل گئی جسے دشمن کے لشکر نے گھوڑوں کے پیروں تلے روند
ڈالا ہو۔ اور ادھر ادھر لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی ہوں۔ برتن دستر خوان پر ہی توڑ
دیئے گئے ہوں اور سوئے جسموں کے نیچے سے بستر کھینچ لئے گئے ہوں شہر اجڑ گیا،
سازندوں نے مال سمیٹا اور چلتے بنے۔ بس میں تھی اور وہ تھا۔ کمرے کے وسط میں سرخ
ایرانی قالین پر بیٹھ کر میں اپنی پائل کھول رہی تھی صرف دو قدم کے فاصلے پر وہ
گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھا تھا۔ میرے ہاتھ پائل میں اور آنکھیں اس پر تھیں۔ باہر
مسجد میں فجر کی اذان شروع ہوئی تو اس نے دوسری دفعہ گھٹنوں سے سراٹھایا اور اٹھنا
چاہا میں نے بجلی کی طرح لپک کر اسے بازو سے تھام لیا۔
”ٹھہرو“ میں نے کہا۔
”جیسے نہ چاہتے ہوئے بھی بیٹھ گیا اور چپ چاپ مجھے دیکھتا رہا۔“
”کس بات کا گھمنڈ ہے؟مردانگی کا؟“ میں نے قہقہہ لگایا اور وہ ہونٹوں
تلے مخفی مسکراہٹ مسکراتا رہا۔
میں نے کہا ”وہ مرد ہی کیا جس کی آنکھ عورت کو دیکھ کر بے نہ ہوا مگر افصوص بدنصیب افسوس
تمہاری مردانگی پر“
میںنے حقارت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا مگر اس نے اپنی خاموشی
توڑی نہ مسکراہٹ،
میں نے کہا ”تنہائی میں میرا رقص دیکھو گے! تمہاری شرمیلی مردانگی
ہجوم سے گھبراتی ہے؟ چلو ہجوم سے پرے کسی خالی کمرے میں چل کر میرا جوبن دیکھو،
تمہاری شرمیلی مردانگی میرے جوبن کی تاب نہ لا سکے گی مجنوں کی طرح کپڑے پھاڑ کر
چیختے ہوئے جنگل کا رخ کرو گے ہے ہمت؟ تمہیںکیا پتا یہاں کتنے آئے اور جان سے گئے۔
آﺅ آج تم خود کو آزماﺅ میں اپنے آپ کو آزماتی ہوں۔ ورنہ وہ رقاصہ ہی کیا جو فرشتوں
کو بھکا نہ دے۔“ مرحومہ کجل بائی جیسی تیز نظرپاریکہ بھی کہتی تھی کہ اس نے اپنی
ستر سال کی عمر میں مجھ جیسی رقاصہ نہیں دیکھی۔ جس کا شکار مرتا ہے نہ زندہ رہتا
ہے۔ بس تڑپتا رہتا ہے اور اک گھونٹ کےلئے ترستا رہتا ہے۔ مرحومہ کہا کرتی تھی وہ
گھونٹ کبھی نہ پلایا جو پینے سے شکار کی سانس بحال ہو جائے، چلو! دیکھو تو سہی
میرا رقص! جسے دیکھنے کےلئے شہنشاہ بھی فقیر بن گئے، نوٹوں کے تھال بھر کر لائے
اور جاتے وقت مجھ سے ہی بھیک مانگتے ہوئے گئے۔ مگر میں بادشاہوں کو بھیک دیتی ہوں
گداگروں کو نہیں۔ لیکن میں تم کو نوازنے کےلئے تیار ہوں آﺅ.... آﺅ....تم اپنا
امتحان لو میں خود کو آزماتی ہوں۔“
میں نے اس کی شال کا پلو جھٹکا دے کر کھینچا۔ اس کے باوجود اس نے
آہستہ سے اپنا پلو سنھبال لیا۔ اس کی آواز میں نے اس قدر سکون تھا جیسے دریا کے
سینے پر ناﺅ تیرتی ہوئی جارہی ہو دور تلک.... ہولے ہولے.... بغیر کسی ناخدا
کے....بے نیاز اور اکیلی سب بے سود ہے رقاصہ! سب بےکار ہے۔ یہ سارا ازعم یہ جو بن
یہ ناچ، کچھ بھی تمہارا نہیں ہے جس کو تم ناچ کہتی ہو۔ یہ دراصل کسی سوئی کے ناکے
سے دھاگے کا گزرنا ہے، جس کا دورا سر ا کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ اور تم فقط نچائی
جارہی ہو، اس لئے نہیں کہ کوئی تمہارے رقص پر فدا ہو گیا ہے۔ بلکہ اس لئے کہ وقت
کو گردش میں رکھنا ہے۔ شہنشاہ کو فقیر بنانا ہے۔ اور گداگروں کو تخت نشین کرنا ہے،
جس کی انگلیوں پر سب کے دھاگے لپٹے ہوئے ہےں۔ اس کی بے نیازی تو دیکھو !! صرف اپنی
انگلیوں کی جنبش کو دیکھتا ہے۔ نیچے پتلیوں کا ناچ نہیں۔ تمہارے چکر کاٹتے ہوئے
پیروں کے نیچے فنا پھانسی کھاٹ کے تحفے کی طرح بچھی ہوئی ہے۔ پھر یہ رقص بھی کیا
رقص ہے رقاصہ؟ جہاں جہاں پیر رکھا جائے وہاں سے دھرتی کھسلتی جائے۔ یہ جس کو تم
اپنا جوبن کہتی ہو، کچھ پتا بھی ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟ محض مٹھی بھر ہڈیوں کے
ڈھانچے پر ماس! جب تک یہ گدھوں کی خوراک بننے کے قابل ہے۔ بندے کو اپنے ہونے کا زعم
ہے۔ جیسے جیسے بندے کے ماس پر گدھیں منڈلاتی ہےں۔ ایسے ایسے بندہ اپنی ہی ملک کا
سرور لیتا ہے۔ یہ ماس گل سڑ جائے گا۔ یہ ساغر جیسے نین، یہ گلاب جیسے ہونٹ، یہ
لہروں کی طرح لہراتی بانہیں، یہ بھنور کی طرح چکر کاٹتے ہوئے پیر اور یہ خوشبو
دیتا ہوا تن بدن، کچھ بھی نہیں ہے۔ رقاصہ! محض ماس ہے وگرنہ بندہ تو ہڈیوں کا پنجر
ہے۔ جس پر اس کے گھائل دل کا نشان بھی نہیں ملتا۔ یہ آنسو، یہ مسکراہٹیں، یہ درد،
یہ ناز اور ادائیں سب ہوا کا اک جھونکا ہےں۔ صدی در صدی بندہ گمنام ہڈیاں اور خاک
بنتا رہا ہے۔ کون سی ہڈیاں شہنشاہ کی ہےں کون سی خاک گداگر کی ہے۔ یہ کوئی نہیں
جان سکا، سوائے اس کے جس کی بے نیازی قابل دید ہے۔ خاک سے بندہ بنا کر پھر خاک میں
ملا دیتا ہے۔ تم تو رقاصہ ہو۔ اپنے خاکی جوبن پر نازاں ہو لیکن گردن گھما کر پیچھے
کی طرف تو دیکھو....ہا....ہا....دُنیا کو گھوڑوں کے پیروں تلے روندتے ہوئے لشکر،
خدائی کے دعویدار، محل، قلعے سب وقت کی گرد ہو گئے۔ دُنیا تو بہتی ناﺅ ہے رقاصہ!
بہتوں نے چکھ کر تھوک دیا یا بہتیروں نے انگلی کی نوک پر اُٹھا کر ہی پھونک سے اڑا
دیا۔ اور رقاصہ! کچھ کےلئے تو یہ دُنیا محض ایک سنہری پردہ ہے عاشق اور محبوب کے
درمیان، عاشق نے تو ایک ہی جھٹکے میں لیر لیر کر دیا۔ دُنیا کو.... تم بتاﺅ رقاصہ!
جب تم رقص کرتی ہو تو تمہیں یہ دنیا کیا لگتی ہے؟ مدھ کا پیالہ....؟ سوچا ہے جب
نشہ اترے گا تو کیا ہوگا؟ مدھ پینے کےلئے نہیں ہوتی رقاصہ! مدھ تو گرا دینے کےلئے
ہوتی ہے اور پھر اسے چکھ کر دیکھو.... مدھ ہونٹوں سے لگا کر گرا دینے کا نشہ! بس
اتنا نشہ چکھ لیا جائے ورنہ باقی سب کچھ بے سود ہے، فضول ہے، خاک ہے، فنا ہے۔“
جتنی دیر وہ بولتا رہا مجھے سانس لینا ہی بھول گیا۔مجھے محسوس ہوا
جیسے آہستہ آہستہ میری ہڈیوں سے گوشت پگھل رہا ہو اور اک عجیب سڑانڈ جیسی بدبو
میرے چار اطراف پھیل گئی۔ زمین میرے پیروں کے نیچے سے کھسک رہی ہے اور کوئی تیسرا
ہمارے درمیان جو مسکرا رہا ہے۔ اس کے حال پر اور میرے حال پر بھی۔ میرا حلق کڑوا
ہو گیا اور آنکھوں میں اس کے علاوہ سارا منظر دھندلا گیا، جانے کیا ہوا او رجانے
کیوں، میں نے جیسے اپنا سارا وجود سمیٹ کر اپنے ہاتھوں سے اکٹھا کیا اور اس کے
ہاتھ پکڑ کر ان پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے، عین اسی لمحے مجھے محسوس ہوا کہ زمین مکمل
طور پر میرے پیروں کے نیچے سے کھسک چکی ہے اور میں فنا کے سمندر میںنیچے.... اور
نیچے ڈوبتی جارہی ہوں۔ غوطے کھاتے ہوئے اس کا ہاتھ بھی جیسے تنکے کا سہارا ہو۔ اس
سمندر میں وہ بھی چھوٹ گیا، میری حالت اس شرابی جیسی تھی جسے اپنا نام بھول گیا ہو
اور گھر کا راستہ بھی کرتے پڑتے مرحوجہ کجل بائی کی قبر پر کیسے پہنچی کچھ یاد
نہیں۔ یاد ہے تو بس اتنا کہ شام ہو چکی تھی۔ نیچے تاحد نظرقبرستان کا پھیلاﺅ تھا
اور اوپر....بہت اوپر چیلیں اور گدھیں چکر کاٹ رہی تھیں۔ میرا سر کجل بائی کے
سرہانے رخ تھا اور میں زاروقطار رو رہی تھی۔
رقاصہ خاموش ہو ئی تو میں رو دیا اور کہنے لگا ”سیاہ شال لپیٹے
گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھا وہ شخص میں ہوں۔ اب کئی برسوں سے گھنگھرو باندھ کر گلی
گلی ناچتا پھرتا ہوں اور تمہیں ڈھونڈتا ہوں، کشکول ہاتھوں میں لئے در پر صدا میں
دیتا ہوں کہ شائد کوئی ہاتھ تمہارے ہاتھ جیسا دکھائی دے، جس لمحے تم نے میرے
ہاتھوں سے اپنے لب ہٹائے تھے۔ اسی لمحے سے میں دربدر ہوں۔ تم سے پہلے میں نے کئی
سال مرشد کے قدموں میں بیٹھ کر گزارے۔ وہاں سے ہی میں نے دُنیا کو ترک کرنا اور
نفس کے سرکش گھوڑے کو سنہری دھاگے کے ساتھ قابوکرنا سیکھا، مگر نہیں....مگر بندہ
بندے کو کیسے تیاگ سکتا ہے۔ یہ بندہ جو مٹھی بھر ہڈیوں پر چڑھا ہوا ماس ہے۔ اس کی
عقل کی جادوگری تو دیکھو....خاک آگ کا الاﺅ بن جائے اور آگ کے الاﺅ سے سمندر ....
آگ کا الاﺅ بھی وہ جو سمندر میں تیرے نہ ہی سمندر سے بجھے اور اس کو بھی تو دیکھو
رقاصہ! بندے کے وجود کے دھاگے تو اپنی انگلیوں پر لپیٹ رکھے ہےں مگر اس کا من آزاد
چھوڑ دیا ہے۔ اور الامان....الامان۔ جب وجود اس کی رضا سے چکر کاٹتا ہے اور دل
اپنی من مانیاں کرتا ہے۔ اس پر انسان جیسے نیم ذبح پرندہ....کیسے پرماتا ہے اور
تڑپتا ہے مگر ....بے سود۔ اس دن جب تم میرے ہاتھوں کو بوسہ دے کر ہوا کے جھونکے کی
مانند۔ یہاں سے چلی گئی تھیں۔ اس دن اپنی یاد داشت میں پہلی بار مجھ سے فجر کی
نماز قضا ہو گئی تھی، اور میں وہاں سے سیدھا نیم ذبح پرندے کی طرح اپنے مرشد کے
قدموں پر جاگرا تھا۔
میں نے کہا ”مرشد مجھے آزاد کر، مجھے آزادی چاہےے۔“
مرشد مسکرانے لگا جیسے کسی بچے کی ناممکن خواہش پر مسکرایا جائے۔
کہنے لگا آزادی ہے کہاں؟ یہ سب جو تم دیکھتے ہو بندے کی قید کے مختلف
درجے ہےں۔ ورنہ تو کچھ بھی نہیں قید خانے کی کوٹھڑی بدل جاتی ہے۔ قدر کا طریقہ بدل
جاتا ہے۔ مگر آزادی تو کہیں نہیں ہے پہلے تم جہاں قید تھے وہاں تمہارے ساتھ کئی
دوسرے قیدی تھے۔ اس لئے تم خاموشی صبر اور سکون سے رہتے تھے۔ مگر عشق ؟ عشق تو قید
تنہائی کی مثل ہے۔ بس اللہ معاف کرے، قید تنہائی سمجھتے ہو؟ بندہ خود ہی تماشا بھی
ہے اور خود ہی اپنا تماشائی بھی ، کند چھری سے خود کو ہی ذبح کرتا رہتا ہے۔ ٹکرے
ٹکڑے کرتا ہے۔ تڑپتا ہے۔ پھر خود کو اکٹھا کرتا ہے مگرقید تنہائی ہے نا! سوکوئی بھی
نہیں سن سکتا اس کی آوہ و پکار کو سوائے ان کے جن کےلئے یہ قید مقرر کی گئی ہے۔
پھر مرشد نے اپنے پاﺅں سمیٹے اور کہا ”جاﺅ تمہارا قید خانہ بدل گیا
ہے، جاﺅ“ بس وہ دن اور آج کا دن میں مرشد کی پیشین گوئی جیسی قید تنہائی میں ہوں۔
لوگوں کو پکڑ پکڑ کر اپنے گھاﺅ دکھاتا ہوں اپنے زخم پائل کی طرح پیروں میں باندھ
کر خوب ناچتا ہوں۔ تمہارا نام پکار پکار کر بہت صدائیں دیتا ہوں مگر سب بے سود!
لوگ میرے قریب سے گزر جاتے ہےں جیسے مجھے دیکھ سکتے ہوں نہ سن سکتے ہوں مگر تم مجھ
پر کرم کرو رقاصہ! بس اک دفعہ میرے ہاتھ پر اپنے ہونٹ رکھ دو، بس اک دفعہ رقاصہ!
بس اک دفعہ!!“
رقاصہ چپ، کالی شال میں لپٹی گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی رہی، فجر کی
اذان سے کچھ پہلے ہولے ہوئے گھٹنوں سے سر اُٹھا۔ اس کے ہونٹوں پر برسوں کی خشکی کے
نشان پڑ گئے تھے۔ جیسے اس نے مدھ پیتے پیتے گرا دی ہو۔ کہنے لگی ”یہ بھی بے سود ہے
یہ بھی فانی ہے، یہ خاک ہے، بس اک ماجرا سمجھ میں نہیں آتا کہ جب وہ ہر کسی کا رخ
اپنی طرف موڑنا چاہتا ہے۔ تو پھر یہ حیلے بہانے بھول بھلیاں کا ہے کو؟ خاک ہی تو
ہے بس اس پر اپنے پاﺅں رکھ دے! مگر کچھ پتا نہیں چلتا، اسے خود سے بندے کا عشق
چاہےے یا وہ خود بندے کے عشق میں مبتلا ہے۔
باہر فجر کی اذان ہو رہی تھی۔ رقاصہ نے ٹھنڈا سانس لیا اور کسی شکست
خوردہ سپاہی کی طرح اٹھتے ہوئے کہا ”مگر ....جو....اس کی مرضی، فجر کی نماز قضا نہ
ہو جائے، وصال کی گھڑی بس گھڑی بھر کےلئے آتی ہے۔ گئی تو گئی ہجر نہ بندہ برداشت
کرسکتا ہے نہ ہو۔“
رقاصہ نے پاﺅں اٹھائے اور اسٹیج سے نیچے اتر گئی۔ اس شخص کا کردار
بھی اختتام کو پہنچا اور وہ بھی اسٹیج سے اتر گیا۔ اور پردہ گر گیا۔
نیا منظر شروع ہونے تک کےلئے....!
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں