بے خوشبو کا عکس ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

داستان گو اس کہانی کو یوں سناتا ہے کہ جب میں شہر میں داخل ہوا تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، ہر طرف ایک شور اور ہنگامہ تھا۔ شہر کے کل مرد عورتیں بوڑھے جوان اور بچے ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ پکڑے بجا رہے تھے۔ شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں ایک شیر بد حواسی کے عالم میں کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف بھاگ رہا تھا۔ جدھر جاتا ادھر سے ڈھول بجاتے ہجوم میں گھر جاتا، ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھاگ بھاگ کر شیر اتنا بدحواس ہو گیا کہ شہر کے ایک چورا ہے میں آن گرا۔ آوازوں کے برستے پتھروں سے بچنے کیلئے اُس نے اپنا سر گھٹنوں میں دبا لیا، لیکن آوازیں مسلسل اُس پر ٹوٹ پڑ رہی تھیں اور آہستہ آہستہ اس کے اندر اتر رہی تھیں۔ شہر کے لوگ اب اس کے گرد اگرد اکٹھے ہو گئے تھے اور مسلسل ڈھول پیٹے جارہے تھے، جس کے ہاتھ میں جو کچھ تھا وہ اسے بجا رہا تھا۔ کان پڑی آوام سنائی نہیں دے رہی تھی۔ شیر بے بسی کے عالم میں کبھی اپنا سر اٹھاتا اور آوازوں کے تھپیڑوں سے گھبرا کر دوبارہ گھٹنوں میں دبا لیتا۔ آہستہ آہستہ اس کی حالت بدلنے لگی اور کچھ دیر بعد یوں معلوم ہوا جیسے اس کے وجود میں سے گیدڑ جنم لے رہا ہے، پھر رفتہ رفتہ اس کے وجود میں سے مکمل گیدڑ نکل آیا۔ اس نے منہ اٹھا کر گیدڑ کی آواز نکالی اور دم دبا کر ایک گلی میں بھاگ گیا۔
شہر کے لوگ ہنستے قہقہے لگاتے اپنے اپن ڈھول اور برتن پیٹتے گھروں کی طرف لوٹے۔
داستان گونے ایک شخص سے پوچھا ”یہ کیا تماشہ ہے“؟
وہ شخص بولا ”اجنبی لگتے ہو“۔
داستان گو نے سرہلایا تو وہ کہنے لگا ”ہم شیروں کو گیدڑ بنا دیتے ہیں“۔
پھر وہ ہنسنے لگا، لمحہ بھر توقف رہا پھر بولا ”ج بھی اس شہر میں کوئی شیر پیدا ہوتا ہے تو ہم سب مل کر اتنا ہونکا لگاتے ہیں کہ وہ شہر کے گلی کوچوں میں بے بسی سے دوڑنے لگتا ہے ہم اسے دوڑا دوڑا کر اور ڈھول پیٹ پیٹ کر ایسا بے بس اور بد حواس کرتے ہیں کہ بالآخر وہ گیدڑ بن جاتا ہے“۔
داستان گو نے پوچھا ”اب تو اس شہر میں ایک بھی شیر نہیں ہو گا“۔
اس شخص نے فخر سے سر اٹھایا ”ہم نے رہنے ہی نہیں دیا“۔
داستان گو بناتا ہے کہ میں کئی دن اس شہر میںرہا اور میں نے دیکھا کہ شہر کے لوگ تماشے کے بڑے شوقین ہیں۔ انہیں دوسروں کو بے بس اور بدحواس کرنے کا ایسا چکا پڑا ہے کہ اگر شیر نہ ملے تو اپنے ہی کسی ساتھی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور اس کے گرد اکٹھے ہو کر اس طرح ہو ہاﺅ کرتے اور ڈھول پیٹتے ہیں کہ وہ آدمی شہرکے کسی چوڑے پر بے دم ہو کر گر پڑتا ہے وہ اس کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ڈھول پیٹتے جاتے ہیں یہاں تک کہ اس آدمی کے قالب سے بھیڑ برآمد ہونے لگتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ آدمی سے بھیڑ بن جاتا ہے۔
داستان گو بناتا ہے کہ اب شہر میں یا گیدڑ ہیں یا بھیڑیں شہر کے اونچے مکانوں، سجے ریستورانوں اور پرہجوم دفاتر میںہر طرف بھیڑیں ہی بھیڑیں یا گیدڑ ہی گیدڑ دکھائی دیتے ہیں۔ داستان گوجب کوئی سوال کرتا ہے تو وہ حیرت سے اُسے دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تو اجنبی تو نہیںکیونکہ ہم تو سوال کرنے کی عادت ہی بھول بیٹھے ہیں۔ اور انہیں برا لگتا ہے کہ یہ سوال کرنے والا ان کے درمیان کہاں سے آگیا، سو ایک صبح انہوں نے داستان گو کو شہر بدر کر دیا کہ انہیں نہ کوئی داستان سننی تھی نہ سنانا تھی۔
داستان گو بتاتا ہے کہ شہر چھوڑنے سے پہلے میں نے شہر کی فصیل سے شہر پر آخری نظر ڈالی۔ ہر طرف ایک خاموشی تھی۔ بھیڑیں اور گیدڑ سر جھکائے اپنے روز کے کاموں میں مصروف تھے کہ کسی کو ذرا بھر بھی فکر نہ تھی کہ داستان گو اس شہر سے نکالا جارہا ہے کہ انہیں سوچنے اور سوال کرنے کی عادت ہی نہیں تھی۔
بس یہ آخری منظر تھا جو داستان گو نے شہر کی فصیل سے دیکھا۔
داستان گوچپ ہوا تو میں نے پوچھا ”پھر کیا ہوا“؟
وہ چند لمحے خاموش رہا پھر بولا ”میں وہاں سے چلا آیا اور ملک ملک، دربدر کی خاک چھانتا پھرا لیکن اس شہر کو، کہ میرے دل میں بستا تھا بھول نہ سکا۔ جی چاہتا تھا کہ وہاں لوٹ جاﺅں لیکن شہر بدری کے حکم اور لوگوں کے خوف نے دل توڑ دیا تھا“۔
داستان گو خاموش ہو گیا پھر کہنے لگا، بعد ایک مدت کے میں دل کے ہاتھوں مجبور ہو گیا اور میں نے شہر لوٹنے کا ارادہ کر لیا۔ کوسوں کی مسافتیں سمیٹتا ایک صبح شہر کے دروازے پر جا پہنچا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دروازہ کھلا ہے اور دور دور تک کوئی پہرے دار دکھائی نہیں دیتا۔ حیرت زدہ ہوا کہ یا الٰہی یہ کیا ماجرہ ہے، خیر قدرے پس و پیش کے ساتھ اندر داخل ہوا۔
یا حیرت، کیا دیکھتا ہوں کہ شہر کا شہر ویران پڑا ہے اور سڑکوں گلیوں میں دھول اُڑ رہی ہے۔
الٰہی یہ کیا قصّہ ہے، شہر کے لوگ کسی نئے کھیل میں تو مشغول نہیں۔ کچھ ڈر بھی لگا کہ یہ شہر کے لوگوں کی کوئی نئی گھات نہ ہو۔ کیا معلوم شیروں کے بعد، شہر کے آدمی بھی گیدڑ بن چکے ہوں اور اب وہ اجنبیوں کو گیدڑ بناتے ہوں۔ کچھ جھجکا، پھر اللہ کا نام لے کر آگے بڑھا، بازار کے بازار سنسان پڑے تھے۔ البتہ گلیوں اور سڑکوں پر جابجا خون کے دھبے اور کٹے ہوئے، چبائے ہوئے انسانی اعضاءدکھائی دئیے۔ دل میں ڈر جاگا کہ ضرور کوئی اسرار ہے؟
ابھی اسی سوچ میں تھا کہ آگے بڑھوں یا لوٹ جاﺅں کہ کسی کے کراہنے کی آواز آئی۔ چونک کر آواز کی سمت بڑھا تو دیکھا کہ ایک تھڑے کے نیچے ایک ایک شخص جس کا آدھا دھڑ کوئی چبا گیا ہے پڑا کراہتا ہے۔
قریب جاکر پوچھا ”اے شخص یہ کیا ماجرا ہے شہر والے کیا ہوئے اور تجھ پر کیا افتاد پڑی؟“
آواز سن کر اُس نے بمشکل آنکھیں کھو لیں اور نحیف مرتی آواز میں بولا ”اے داستان گو میں نے تجھے پہچان لیا ہے۔ ہم نے تمہیں شہر بدر کیا تھا“۔
داستان گو نے کہا ”لیکن جب مجھے شہر بدر کیا گیا تھا۔ اُس وقت تو شہر ہنستا بولتا تھا، ایسی کیا افتاد پڑی کہ شہر کا شہر ہی ویران ہو گیا اور شہر کے تماش بین لوگ کہاں گئے“۔
اُس شخص نے کہ زخموں سے چور اور مرنے کے قریب تھا بڑی مشکل سے کہا ”شہر والوں کو چسکا پڑ گیا تھا کہ شیر کو گیدڑ بنا دیتے تھے جب بھی کوئی شیر پیدا ہوتا وہ ڈھول پیٹ پیٹ کر اور شور مچا مچا کر اس گیدڑ بنا دیتے پھر انہوں نے اُن آدمیوں سے بھی جو ذرا سر اٹھا کر چلنا چاہتے تھے، یہی سلوک کیا۔
”پھر“ داستان گو نے سوال کیا۔
”پھر یہ کہ شیر تو سارے ایک ایک کرکے ختم ہو گئے لیکن شہر والوں کے مسلسل شور اور ڈھول پیٹنے سے آس پاس کے گیدڑ شیر بن گئے اور ایک دن وہ شہر پر ٹوٹ پڑے۔ شہر والوں نے اُن کے ساتھ بھی وہی سلوک گیا اور انہیں دیکھ کر ڈھول پیٹتے باجے بجاتے ان کے گرد اکٹھے ہو گئے لیکن....“
”لیکن کیا؟“
”یہ کہ جوں جوں شور بڑھتا گیا اور ڈھول باجوں کی آوازیں تیز ہوتی گئیں گیدڑوں کی آنکھیں سرخ ہونے لگیں، ان کا جوش بڑھتا گیا اور ایک لمحہ وہ آیا کہ وہ شیروں کی طرح دھاڑیں مارتے ہوئے لوگ پر ٹوٹ پڑے“۔
داستان گو چپ ہو گیا۔
بہت دیر خاموشی رہی پھر داستان گو نے مجھے سے پوچھا ”تمہیں کیا ہوا؟ تم کیوں اتنے چپ ہو“۔
میں نے کہا ”میرے شہر والے مجھے بھی شہر بدر کر رہے ہیں“۔
داستان گو کچھ نہیں بولا۔ ہم دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
کہ مقدر کے لکھے کو تو شاید ٹالا جاسکتا ہے لیکن اپنے کئے کو ٹالنا ممکن نہیں!

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6