چُپ صحرا ....... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد
پہلے گواہ نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور بولا ”جناب عالی یہ واقعہ نہ تو میرے سامنے ہوا ہے اور نہ مجھے اس کے بارے میں کوئی ذاتی علم ہے، لیکن میں مفاد علمہ کیلئے گواہی دینے حاضر ہو گیا ہوں۔ جناب میں اس شخص کو ذاتی طور پر نہیں جانتا۔
لیکن میں نے سنا ہے کہ یہ لفظوں کی حرمت پر یقین رکھتا ہے اور کھلم کھلا ہمارے خیالات کی نفی کرتا ہے۔ ایسا شخص معاشرے کیلئے انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ یہ آزادی اظہار کی بات کرتا ہے۔ آپ ہی بتائیے جناب والا! یہ بھی کوئی کرنے کی بات ہے۔ بس جناب لمبی چوڑی بات کیا کرنا۔ آپ فوراً اس کو سزا سنائیں، میرے خیال میں تو کسی اور گواہی کی ضرورت بھی نہیں۔ میری گواہی کافی مضبوط اور مدلّل ہے۔
(2)
میں آپ کو ایک کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ لیکن میری آواز کو دیمک لگ گئی ہے، لکھ بھی نہیں سکتا کہ قلم زنگ آلود ہے۔ کمرے میں یک عجیب پر اسرار خاموشی ہے، کمرے کے باہر تاریک راتوں میںجو سانپ شونکتارہتا تھا، رینگ کر کمرے کے اندر چلا آیا ہے۔ میں نے سنا تھا کہ سانپ نے حضرت سلیمان سے یہ عہد کیا تھا کہ وہ کسی لکھنے والے کے کمرے میں نہیں جائے گا۔ اب یا تو اس عہد کا عرصہ ختم ہو گیا ہے یا سانپ نے بد عہدی کی ہے، یا پھر حضرت سلیمان نے ہی اسے اجازت دے دی ہے۔ بہرحال کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور ہے کہ سانپ لکھنے کی میز پر بیٹھا ہوا ہے اور میں سہما ہوا کونے میں کھڑا ہوں اب شاید میں رینگ رینگ کر باہر نکل جاﺅں گا اور سانپ میری جگہ لکھنے کا کام کرے گا۔دراصل پچھلے چند دنوں سے کچھ عجیب گڑ بڑ ہو رہی ہے۔ ابھی پرسوں ہی کی تو بات ہے گھڑیاں الٹی چلنے لگیں۔ لوگ خوش ہو ہو کر تالیاں بجاتے تھے۔ میں نے چیخ کر کہا کہ یہ بُرے وقت کی دلیل ہے۔ اس پر ماتم کرو لیکن میری بات سننے کی بجائے لوگوں نے الٹا مجھے لعن طعن شروع کر دیا۔ میں بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگا اور اب صورت یہ ہے کہ گھڑیاں مسلسل پیچھے کی طرف دوڑ رہی ہیں اور ہم صدی صدی پیچھے چلے جارہے ہیں۔ چند دنوں میں ہم پتھر کے زمانے میں داخل ہو جائیں گے۔
(3)
”یاہو،.... اس نے نعرہ لگایا اور غار پر حملہ کر دیا۔ غار والے بے خبری کی نیند سو رہے تھے۔ نعرہ سن کر ہڑبڑا کر اٹھے۔ اتنے میں اس نے مرد پر حملہ کر دیا اور تھوڑی سی جدوجہد کے بعد اس کے نرخرے میں اپنے دانت اتارنے میں کامیاب ہو گیا۔ تازہ گرم خون کے پہلے گھونٹ نے ہی اس کے ہاتھوں کی گرفت میں سختی پیدا کر دی۔ غار والی عورت اس دوران سہمی ہوئی دیوار سے لگی کھڑی رہی۔ اس نے آخری فقرہ چوس کر شکار کو چھوڑ دیا اور اچھل کر عورت کو دبوچ لیا۔ پھر اسے کندھے پر ڈال کر باہر نکلا....
”یاہو.... یاہو“
(4)
عجب خوفناک بات ہے، میں کہانی لکھنا ہی بھول گیا ہوں یہاں تو ہر شخص اندر سے ڈریکولا بن چکا ہے۔ اس کے منہ میں دو خوفناک دانت ہیں جن سے وہ موقعہ ملتے ہی دوسروں کا لہو پیتا ہے۔ اب کہانی کیا، کون لکھے گا، کون سنے گا؟ یہاں تو ہر شخص کو دوسرے کا لہو پینے کی چاٹ پڑ گئی ہے اور صورت یہ ہے کہ سارا شہر ڈریکولا بن گیا ہے۔ تو اب یہ کیا کریں گے؟ شاید دوسرے شہروں کا رخ کریں؟ لیکن میں چپ نہیں رہ سکتا۔
میں بھی اگرچہ ڈریکولا ہی ہوں لیکن میں چیخ چیخ کر کہوں گا، ہم سب ڈریکولا ہیں، ہم سب ڈریکولا ہیں، ہم سب....
(5)
بچہ سے بادشاہ کے ننگے ہونے کا اعلان سن کر سارے لوگ ششدر رہ گئے۔ بادشاہ ایک لمحے کیلئے سٹپٹایا، کچھ سوچا اور جلوس کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ محل میںپہنچ کر بادشاہ نے اپنے باتدبیر مشیروں کو طلب کیا دیر تک اجلاس ہوتا رہا۔ پھر چند ہی برسوں میں ہوا یوں کہ بچہ سمیت سارے لوگ ننگے ہو گئے اور بادشاہ نے کپڑے پہن لئے اب صورت یہ ہے کہ بادشاہ جب جلوس کی صورت باہر نکلتا ہے تو سارے ننگے لوگ سڑک کے دونوں طرف کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے ہیں، اور بادشاہ ان کی طرف دیکھ دیکھ کر کہتا ہے ”واہ وا میرے عوام نے کیسے رنگ برنگ کپڑے پہن رکھے ہیں.... واہ وا“
(6)
کہنے کو تو بہت سی باتیں ابھی باقی ہیں، لیکن لفظ بے وفا ہو گئے ہیں۔ بس چپ صحرا، گھپ خاموشی،
تھتھا تھیا تھیا
چھیتی کر اﺅے طبیبانیئں تاں میں ترچلی آں
چھیتی کراوئے طبیبا
چھیتی.... چھیتی
(7)
دوسرے گواہ نے حلف اٹھانے کے بعد کہا جناب والا میںپہلے معزز گواہ کی تائید کرتا ہوں، جناب اس شخص کو ایک لمحہ کیلئے بھی زندہ نہیں رہنا چاہیے۔ دیکھیں ناجناب یہ شخص ہمیں آئینہ دکھانا چاہتا ہے احمق کہیں کا۔ ہمیں ہماری روائتوں سے توڑنا چاہتا ہے۔ میں بھی اگرچہ ذاتی طور پر اس کے گناہوں سے آگاہ نہیں لیکن جناب والا میں کار خیر کے طور پر گواہی دینے حاضر ہو گیا ہوں....“
تیسرے گواہ نے کہا ”جناب والا اگرچہ دومدلل گواہیوں کے بعد میری گواہی کی ضرورت تو نہیں .... لیکن کام کی نیکی کی اہمیت کا خیال کرکے میں حاضر ہو گیا ہوں....“
اسی لمحہ حاضرین میں سے ایک شخص نے اٹھ کر منصف سے کہا ”لیکن جناب والا ملزم کو تو پھانسی دی جاچکی ہے پھر یہ کارروائی کس لئے؟“ منصف نے مسکرا کر اسے دیکھا اور بولا ”وہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن انصاف کے تقاضے تو بہرحال پورے ہونا ہی چاہیے نا“۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں