سناٹا بولتا ہے ------- تحریر : ڈاکٹر رشید امجد
معلوم نہیں یہ رات کا پہلا پہر ہے، درمیانہ یا پچھلا،
یا شاید دن ہے جس نے رات کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے،
یا پھر شاید رات ہی ہے،
کوئی بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی، خوفناک جبڑوں والا اندھیرا تھوتھنی اٹھا اٹھا کر بھونک رہا ہے،
وہ سہم کر میرے ساتھ لگ جاتا اور سرگوشی کرتا ہے ”ماچس جلاﺅں؟“
”نہیں تیلیاں اس طرح ختم ہوتی رہیں تو....“
”تو؟“ اس کی آواز میں خوف سر سراتا ہے۔
”.... میں نہیں جانتا۔“
شاید ایک دویا اس سے بھی زیادہ دن، مہینے یا سال، یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہم کب سے گٹر کی دیواروں کوٹٹول ٹٹول کر باہر جانے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں، اتنا ساخیال آتا ہے کہ ہم گفتگو کرتے چلے جارہے تھے، مین ہول کھلا ہو گا، وہ گرا، اسے نکالنے کی کوشش میں میں، یا شاید میں گرا ہوں گا اور مجھے نکالنے کی کوشش میں وہ، پورے یقین کے ساتھ کوئی بھی بات نہیں کی جاسکتی۔
رینگتے پانی کی سرسراہٹ، اندھیرا بار بار اپنے جبڑے کچکچاتا ہے اور لمبی کالی زبان نکال کر ہمارے منہ چاٹتا ہے، ہماری گالوں پرلیس دار رات کی چپچپاہٹ، وہ تیلی جلاتا ہے، بیمار نحیف شعلہ سراٹھا کر دو تین اکھڑے اکھڑے سانس لیتا ہے.... گپ اندھیرا،
زیادہ گہرے اور منظم اندھیرے میں تھوڑی سی غیر منظم روشنی اندھیرے کو اور دبیز کر دیتی ہے۔
اوپر سڑک پر بھاری تیز رفتار گاڑی گزرتی ہے۔
میں کہتا ہوں ”ا س کا مطلب ہے ہم ابھی بڑی سڑک کے نیچے ہی ہیں“۔
وہ ہنستا ہے ”اس صورت حال میں بڑی سڑک کے نیچے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟“
”شاید کچھ نہیں، لیکن یہ احساس بھی غنیمت ہے“۔
”اگر ہم اسی سیدھ میں چلتے جائیں تو شاید کوئی کھلا ہوا مین ہول نظر آجائے“۔
”اس سیدھ میں تو شاید ہی ملے“ وہ بڑبڑاتا ہے.... ”بہرحال چلے چلو“۔
ہم ابھی دوچار قدم ہی چلتے ہیں کہ کوئی چیز میرے پاﺅں سے لپٹ جاتی ہے، میں جھک کر چھوتا ہوں، ننھا منا سا ایک ہاتھ،
”ماچس جلاﺅ، جلدی“ میں چیختا ہوں۔
لرزتی روشنی میں ایک نوزائدہ بچہ میرے پہلو سے گزرتا آگے نکل جاتا ہے۔
وہ کہتا ہے ”یہ تو میرا بچہ ہے مگر یہ تو ابھی ماں کے پیٹ میں تھا“۔
میں اسے تسلی دیتا ہوں ”شاید اس دوران اس کی ماں نے اسے جن دیا ہو“۔
”اور پھر کسی نالی میں پھینک دیا ہو“ وہ بڑبڑاتا ہے ”یا پھر یہ کہ اس کی ماں نے اسے کسی نالی ہی کے کنارے جنا ہو اور بہتا ہوا یہاں آگیا ہو“۔
ایک لمحہ کے سکوت کے بعد وہ دفعتاً چیختا ہے ”میرے بیٹے، میرے بچے“۔
جواباً رینگتے پانی کی سرسراہٹ اور لیس دار اندھیرے کی چپچپاہٹ،
”میرا بچہ، میرا بیٹا“ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہے۔
”صبر کرو، صبر“ میں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوں.... ”سارے بچے اب اسی طرح بہتے ہوئے یہیں آئیں گے کہ اب ساری مائیں اپنے بچوں کو یوں ہی نالیوں میں بہائیں گی۔
”نالیوں میں کیوں؟“ وہ چپ ہو کر سوال کرتا ہے۔
”دریا تو سارے خشک ہو گئے ہیں اور شہر میں قتلِ طفلاں کی منا دی بھی ہو چکی ہے، مائیں بے چاری کیا کریں، چلو آگے چلیں، کسی کھلے مین ہول کی تلاش میں۔
وہ ایک ٹھنڈی سانس بھرتا ہے ”میری عمر اب چالیس سال ہونے والی ہے، اس سیلن زدگی، رینگتے پانی کی سرسراہٹ اور اس لیس دار اندھیرے کے جبڑوں میں پستے پستے چالیس سال ہو چکے ہیں، معلوم نہیں میری زندگی کے اور کتنے سال باقی ہیں، ان باقی سالوں میں کھلا مین ہول ملے گا۔ بھی کہ نہیں“۔
”کیا معلوم....؟“ میری آواز دم توڑ رہی ہے ”شاید ہمارے بچوں کو مل جائے یا شاید وہ بھی ہماری ہی طرح ساری زندگی کھلے مین ہول کے خواب دیکھتے دیکھتے اسی گٹر میں بھٹکتے، اندھیرے کے لیس دار جبڑوں میں پستے گزار دیں“۔
”چلو آگے چلیں“ وہ میرا ہاتھ دباتا ہے۔
گہری گپ خاموشی، جس میں رینگتے پانی کی سرسراہٹ اور اندھیرے کے خراٹے گونج رہے ہیں۔
ہمارے سروں پر آوازوں کے بادل تیرتے ہیں۔
ایک آواز ”میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں؟“
دوسری آواز ”وہی جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے“۔
تالیاں، نعرے، تحسین کا شور۔
وہ کہتا ہے ”بادشاہ نے بادشاہ کے ساتھ جو سلوک کرنا تھا کر دیا، مگر ہم کہاں ہیں؟“
”ہم“ میں اس کا شانہ تھپتھپاتا ہوں ”بادشاہوں کے کھیل میں ہم کوئی چیز نہیں ہوتے بس ہم تو کھلے مین ہول کے خواب ہی دیکھتے ہیں“۔
وہ پوچھتا ہے ”ہم میں سے پہلے کون گٹر میں گرا تھا“۔
”تم“ میں اندھیرے میں اسے گھورتا ہوں۔
”نہیں تم“ وہ دو قدم پرے ہو جاتا ہے۔
”نہیں تم....“
”تم“ وہ مجھ پر جست لگاتا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے گھتم گتھا ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں جب تھک جاتے ہیں تو آمنے سامنے کی دیواروں سے ٹیک لگا کر ہانپنے لگتے ہیں۔
بہت دیر کی چپ کے بعد وہ ہانپتی ہوئی آواز میں کہتا ہے ”آگے چلیں“
”چلو“
چلتے چلتے ہم ایک کھلی سی جگہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ سخت سے ٹکڑے ہمارے پاﺅں سے ٹکراتے ہیں۔
وہ ماچس جلاتا ہے۔
چاروں طرف ہڈیاں اور انسانی پنجر پڑے ہوئے ہیں۔ وہ ایک ہڈی اٹھا لیتا ہے اور کہتا ہے ”یہ تو میرے باپ کی ہڈی لگتی ہے، اس کے جبڑے کی ساخت ایسی ہی تھی“۔
میں انسان پنجروں کو پہچاننے کی کوشش کر رہا ہوں۔
وہ کہتا ہے ”لو جی میں سمجھتا تھا میرا باپ مجھ سے اچھا تھا اب معلوم ہوا کہ وہ بھی میری طرح ساری عمر کھلے مین ہوم کے خواب دیکھتا رہا“۔
دفعتہ اس کی آواز لرزنے لگتی ہے ”ہم بھی.... ہم بھی....“
میں جھک کر دیکھتا ہوں، سب کے منہ پر پلاسڑ ٹیپ لگے ہوئے ہیں، کیٹرے ان کا گوشت کھا گئے ہیں، مگر ٹیپ اسی طرح ہیں۔
”مگر ہم تو صرف اظہار کے حوالہ سے ہی ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں اور ان کے منہ تو بند ہیں، بند کر دئیے گئے ہیں“۔
پانی کی سرسراہٹ، بل کھاتی سیلن۔
ایک گوشت خود کیڑا اس کی ٹانگ پر چڑھ جاتا ہے، وہ چیخ مارتا ہے اور ٹانگ جھٹک کر آگے چل پڑتا ہے۔
ابھی دو چار ہی قدم اٹھتے ہیں کہ بہت سی ملی جلی آوازیں اندھیرے میں سے نکل کر ہمارے پاﺅں پکڑ لیتی ہیں۔
وہ جلدی سے تیلی جلاتا ہے۔
ننگ دھڑنگ بچے، پانی میں شپ شپ کرتے دوڑے چلے آرہے ہیں۔
”یہ کون ہیں؟“ وہ میرے ساتھ لگ جاتا ہے۔
ایک بچہ جو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا رہا ہے آگے بڑھ کر پوچھتا ہے ”تم کون ہو؟“
”ہم.... ہم گڑ میں گر پڑے تھے“۔
”اور یہ کہ تمہارا پاﺅں پھسل گیا تھا“۔ وہ کھڑکھڑاتا ہے ”سب یہی کہتے ہیں“۔
”مگر تم کون ہو؟“
”ہم.... ہم ربڑ کے غباروں میں پیدا ہوئے ہیں، اس گٹر کے اندر“
”ربڑ کے غبار سے“
”ہاں وہ غبارے جو لوگ استعمال کرکے گٹر میں پھینک دیتے ہیں“۔
وہ شور مچاتے، ہمارے دائیں بائیں سے گزرتے اِدھر اُدھر نکل جاتے ہیں، وہ کہتا ہے ”مجھے یاد آیا، ایک رات میری ماں نے بھی ایک غبارہ نالی میں پھینکا تھا اور اس میں میں تھا پر معلوم نہیں وہ شخص جو راتوں رات ہی چپکے سے چلا گیا تھا میرا باپ تھا کہ نہیں“۔
”اور شاید میں بھی اسی غبارے میں تھا، اور وہ شخص وہ ضرور ہمار باپ تھا اور وہ ہماری ماں تھی، انہوں نے تو ہمیں بہت روکا تھا، مگر ہم خود ہی اس گٹر میں آگئے ہیں یا شاید ہمیں درغلایا گیا تھا، سنہرے خواب دکھا کر، مگر یہاں آکر معلوم ہوا یہ تو گٹر ہے.... گٹر“۔
اوپر اب آوازوں کی دستک میں بھاری پن اور تواتر پیدا ہو رہا ہے۔
”شاید اوپر صبح ہو چکی ہے“۔ میں بڑبڑاتا ہوں۔
”مگر ہمیں کیا؟“ اس کی آواز بیٹھی ہوئی ہے،
”سورج کی شکل کیسی ہو گی؟“ میں اس سے پوچھتا ہوں ”اس کی کرنوں میں گرمی تو ہوتی ہو گی نا“۔
”اب تو یاد بھی نہیں، اور میرے منہ پر تو ٹیپ لگا ہوا ہے اور ایسی باتیںکرنا منع بھی ہے، میں تمہیں کیسے بتاﺅں، کیا بتاﺅں؟“
ہم اس وقت کسی بڑی سڑک کے نیچے ہیں، ہارنوں کی پُوں پُوں، بریکوں کی رگڑ اور قدموں کی آوازیں....
وہ تیلی جلاتے ہوئے اعلان کرتا ہے ”صرف دو تیلیاں باقی ہیں“۔
لرزتی روشنی میں ایک عجیب سے سرسراہٹ محسوس ہوتی ہے۔
وہ حسرت سے اوپر دیکھتا ہے ”کہیں بھی کوئی راستہ نہیں“۔
”نقشوں میں ضرور ہو گا“۔ میں سوچتا ہوں ”مگر نقشے تو صرف دیواروں پر لگاتے کیلئے ہوتے ہیں“۔
”یہ ہوا میں تازگی کیسی ہے؟“ وہ چونکتا ہے۔
”کیا معلوم یہ تازگی ہے بھی کہ ہم ہی اس سیلن زدگی کے عادی ہو گئے ہیں؟“
”نیم روشنی، نیم تازگی، ہم بھی تو نیم زندہ ہی ہیں“۔
اوپر اب دوپہر گزر رہی ہو گی۔
اب سہ پہر، اب سانونی نمکین شام۔
لوگ دفتروں، دکانوں سے گھر آرہے ہوں گے، دروازوں پر منتظر بیویاں مسکراہٹوں کے بوسے لئے ان کی راہ تک رہی ہوں گی، ابو ابو کرتے ننھے بچے اپنی توتلی زبانوں کے ساتھ انہیں پکار رہے ہوں گے۔
تیلی جلاتے ہوئے وہ اعلان کرتا ہے ”بس ایک ہی تیلی باقی ہے“۔
”اسے مت جلانا، مت جلانا“ میں چیختا ہوں۔
”کیوں؟“
”بس اُسے جلانا مت“
”کیوں نہ جلاﺅں؟“ وہ ضد کرتا ہے، ”وجہ بتاﺅ“۔
”آخری لمحے میں، جب ہم ایک دوسرے کی آخری تصدیق کریں گے تو اس وقت، اس وقت“
اوپر نعروں کا شور، میری آواز ڈوب جاتی ہے۔
مقرر کی چیختی آواز، مگر لفظ فضا ہی میں رہ جاتے ہیں۔
وہ افسوس سے سر ہلاتا ہے ”کچھ بھی سمجھد نہیں آرہا“۔
”معلوم نہیں لفظوں ہی میں سے معنی نکل گئے ہیں، یا آوازیں کھوکھلی ہو گئی ہیں، خدا جانے کہاں کیا گڑبڑ ہے“۔
شور، چیختی آوازیں
پھر تڑتڑ، گولیوں کی تڑ تڑ
سناٹا بولتا ہے،
وہ کہتا ہے ”ہم شہر میں ہیں اور گٹر نیچے ہے“۔
میں کہتا ہوں ”ہم گٹر میں ہیں اور شہر اوپر ہے“۔
اب معلوم نہیں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ہم گٹر میں ہیں یا شہر میں، شہر میں ہیں یا گٹر میں۔
وہ کہتا ہے ”لو یہ جھگڑا چھوڑو، میںآخری تیلی جلانے جارہا ہوں“۔
میں سوچتا ہوں، چند لمحے چپ رہتا ہوں پھر آہستہ سے کہتا ہوں.... ”اچھا“
وہ تیلی کو ماچس پر رگڑتا ہے۔
ایک دوسرے کو دیکھنے، شناخت کرنے اور ایک دوسرے کی گواہی دینے کا یہ آخری موقعہ،
مجسم آنکھ بنے، آمنے سامنے، ٹک ٹک، ٹک ٹک
تیلی ماچس سے رگڑ کھاتی ہے۔
ہمارا سارا وجود آنکھ میں ڈھل جاتا ہے۔
وہ تیلی کو ماچس سے رگڑتا ہے، رگڑتا چلا جاتا ہے۔
تیلی بغیر جلے، ٹوٹ کر نیچے پانی میں جا گرتی ہے۔
سرسراتے اندھیرے اور رینگتے پانی میں، آنکھیں پھاڑے ہم ایک دوسرے کو دیکھنے، شناخت کرنے اور ایک دوسرے کی گواہی دینے کے انتظار میں پتھر ہوتے جاتے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں