وقت اندھا نہیں ہوتا ....... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

نیم تاریک، سنسان گلی دور تک خالی، گلی میں کوئی درخت نہیں لیکن ہر وقت گھنی چھاﺅں کا .... احساس ہوتا، نیم پکے، نیم کچے فرش پر قدموں کی چاپ بیٹھی بیٹھی سی لگتی، نیم بوسیدہ دروازے بند، جن کے اندر چھپی ان دیکھی دنیائیں، ان کے مکین گم آوازوں کے حصار میں دور کہیں سائے سے، چلتے چلتے، ٹھٹھکتے ٹھٹھکتے آگے جاکر اسی طرح کا ایک نیم بوسیدہ گم سم ساد روازہ، کبھی دور سے آنکھیں مارتا تھا، لیکن اب دیمک کی زد میں بوند بوند مٹی ہوا جارہا تھا، زمانوں کے زنگار میں لتھڑا، حیران حیران سا، چپ چپ سا۔
دستک، دستک کے بہت دیر بعد اندر ایک پراسرار چاپ، پھر دروازے کا تھوڑا سا حصہ تھکی چڑچڑاہٹ کے ساتھ نیم وا ہوا، ایک ستی ہوئی اکتائی آواز ”کون؟“
”جی.... میں“۔
”میں کون؟“ ستی ہوئی اکتائی آوازیں ایک بے دلی کا عنصر بھی نمایاں ہوا۔ ”جی میں“ یادوں کا ایک ہجوم بھنور سا بن گیا۔
”تم“ ایک خوشگوار حیرت خوشبو کی طرح چاروں طرف پھیل گئی۔ دروازہ چڑچڑاہٹ کے ساتھ تھوڑا سا اور کھل گیا۔
”آﺅ نا“
اندر آتے ہوئے میں نے اس تھکے وجود پر ایک نظر ڈالی۔ میلے بغیر استری کپڑوں میں ایک تڑخا ہوا ڈھانچہ، تھکے قدموں سے وہ آگے آگے، میں پیچھے پیچھے۔
کئی برس پہلے جب دروازہ کی چوکھٹ میں بوسیدگی نہیں آئی تھی، آسمانی رنگ کے کلف لگے جوڑے میں، نپے تلے قدم اٹھاتی وہ آگے آگے اور میں نیم بوکھلایا پیچھے پیچھے۔ نقشسیں پردوں سے سجے کمرے میں نرم گداز صوفے میںبیٹھتے یوں لگا جیسے کسی نے میرے گرد ریشم بن دیا ہے۔ گاﺅں کی کھری چارپائی سے ہوسٹل کے کمرے میں فرش پر پڑے گدے تک ہر طرف کھردرا پن ہی کھردرا پن تھا۔ ہوسٹل کے کمرے میں جگہ جگہ سے پھٹی میلی دری پر روئی سے تقریباً خالی گدا، ایک نیم گرم چادر، پرانی کرسی اور پینگ کی طرح ڈولتا میز میری کل کائنات تھا۔
”تو ہوسٹل میں ٹھہرے ہو“۔
”جی.... جی“۔
”کوئی تکلیف تو نہیں“۔
”جی نہیں“
”چائے پیوگے“
”جی نہیں“
وہ مسکرائی اور اس کے سفید دانتوں کا لشکارا دور تک میرے اندر اتر گیا ”تو تمہیں صرف دو ہی لفظ آتے ہیں“۔
”جی نہیں“ میں ہڑبڑا گیا۔
وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی اور دوسرے کمرے کی طرف منہ کرکے آواز دی ”اماں چائے لے آﺅ“۔
کمرے کی ویرانی اور اس کی ویرانی میں زیادہ فرق نہ تھا۔ صوفے کا کپڑا جگہ جگہ سے پھٹ گیا تھا۔ میں ایک کونے میں سمٹ گیا۔
”کئی دن سے صفائی نہیں ہوئی“ وہ مسکرائی اور اس کے میلے دانت سارے چہرے پر پھیل گئے، مجھے گھن سی آئی۔
”کیسے ہو؟“
”ٹھیک ہوں“
اس نے میز پر پڑی سگریٹ کی ڈبیا اُٹھائی ”پیتے ہو یا چھوڑ دئیے“۔
میں نے ہاتھ بڑھا کر سگریٹ اٹھالیا۔ اس نے اپنا سگریٹ سلگایا اور ماچس میری طرف پھینک دی ”بس عادت ہی پڑ گئی ہے۔ بیٹھو میں چائے لے کر آتی ہوں۔“
وہ اٹھی تو لگا ساری عمارت جگہ جگہ سے تڑخ گئی ہے۔ وقت نے اس کے چہرے پر جو جالے بنے تھے ان میں کرختگی در آئی تھی۔ میرے ذہن میں اس کا برسوں پرانا پیکر گھوم گیا۔ چائے بناتے ہوئے اس کی انگلیاں تھرک رہی تھیں۔ بسکٹوں کی پلیٹ بڑھاتے ہوئے میری انگلیاں اس کے ہاتھ سے مس ہوئیں تو لگا سارے بند میں کرنٹ سا دوڑ گیا ہے۔
”تو دو سال یہاں رہو گے“۔
میں نے سر ہلا دیا۔“
”آجایا کرو، جب جی چاہیے۔“
واپسی پر اس کی خوشبو ہوسٹل تک میرے ساتھ ساتھ آئی اور کئی دنوں تک میرے وجود میں سرسراتی رہی۔
اگلے ہفتے ڈرتے ڈرتے منقش دروازے پر دستک دی۔ نوکرانی نے جھانک کر دیکھا اور اس نے پہلے کہ کچھ پوچھتی، ڈیوڑھی میں گھنیٹاں بج اٹھیں ”اماں کون ہے“۔
نوکرانی سے پہلے ہی میں بول بڑا ”جی میں ہوں“۔
”اندر آﺅ نا باہر کیوں کھڑے ہو؟“
اس کے پیچھے پیچھے ڈرائنگ روم میں جاتے یوں لگا جیسے میں ریشم میں سرسراتی کسی روح کے ساتھ چل رہا ہوں۔
چائے کی پیالی میری طرف بڑھاتے ہوئے اس نے کہا ”اُس دن پوچھنا بھول ہی گئی، کس مضمون میں داخلہ لیا ہے۔
”فلاسفی“ میں نے جھجکتے جھجکتے کہا۔
”واہ“ وہ اچھل پڑی ”یہ تو میرا پسندیدہ مضمون ہے، بھئی تم سے میل ملاقات رہنا چاہیے۔“
سرسراتے ریشمی لباس میں اس کا سراپا باہر نکلنے کیلئے تڑپ تڑپ رہا تھا۔ میں نے کن آنکھیوں سے اسے دیکھا اور میرے سارے وجود میں کوئی نامعلوم سی لہر دائیں بائیں، اوپر نیچے دوڑ گئی۔
”فلاسفی بڑا دلچسپ مضمون ہے، مزہ آتا ہے پڑھنے میں“ وہ چپ سی ہو گئی۔ پھر قدرے اداس سے لہجے میں بولی ”میں نے بی اے تک ہی پڑھی ہے۔“
وہ چپ ہو گئی، بہت دیر چپ رہی۔ میں اس دوران ناخنوں سے پورں کوٹٹولتا رہا۔
”پڑھنا تو چاہتی تھی، شوق بھی تھا پر“ اس کے لہجے میں اداسی گھمبیر ہو گئی ”اماں کی موت نے سب اتھل پتھل کر دیا، اگلے دو تین برسوں میں دونوں بھائی بھی جان چھڑا کر باہر نکل گئے۔“
”تو اب آپ بالکل اکیلی ہیں“ میں نے ہمدردی سے اسے دیکھا۔
”اکیلی کہاں، یہ بی اماں جو ہیں“ اس نے بوڑھی نوکرانی کی طرف اشارہ کیا جو ٹرالی لئے باہر نکل رہی تھی۔
”جی.... جی“ میں نے ہونقوں کی طرح سرہلایا۔
وہ ہنس پڑی ”تمہاری اس جی میں بڑا مزہ ہے“۔
”جی....“
وہ کھلکھلائی ”اب آﺅ تو فلاسفی کی کوئی نئی کتاب لیتے آنا“ وہ مجھے دروازے تک چھورنے آئی۔
اس رات ریشم میں سرسراتا، ابھرتا ڈوبتا، اس کا جسم مجھے الٹ پلٹ کرتا رہا۔ سارا ہفتہ اس کے جسم کو چھونے کی خواہش نے بے چین کئے رکھا۔ ہفتہ بعد فلاسفی کی کتاب دیتے ہوئے میں نے جان بوجھ کر اس کے ہاتھوں سے انگلیا ں مس کیں۔ اس نے لمحہ بھر کیلئے آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا، پھر کتاب میز پر رکھدی.... ”شکریہ.... تم نے یاد رکھا“۔
میں نے کہا ”میں تو لمحہ بھر کیلئے نہیں بھولا، بس ہفتہ کا دن آتا ہی نہیں تھا“۔ اس نے گھنی پلکیں اٹھائیں، میں اندازہ نہیں کر سکا یہ حیرت تھی خوشی یا سحر ”ہفتہ ہی کیوں، کسی دن بھی آجاتے“۔
”اچھا“ میرے اندر بانسری بجنے لگی ”کسی دن بھی، آپ مصروف تو نہیں ہوتیں“۔
”میں....“ وہ ہنسی ”میں تو شکر کرتی ہوں کوئی آئے“۔
”تو بس....“ میں جملہ مکمل نہ کر سکا۔
”اب آﺅ تو ذرا وقت پر آنا.... کھانا اکھٹے کھائیں گے“۔
پھر دنوں کی تقسیم ختم ہو گئی، ہفتہ سے تین اور پھر تقریباً روزانہ، لیکن لمبی چوڑی بحشوں اور گھنٹوں کی قربت بھی مجھے آپ سے تم پر نہ لاسکتی۔ اس کے رنگ برنگے لباس، آرائش اور سرسراتا، اٹھکھیلیاں کرتا سراپا، میرے سارے وجود پرچھا گیا۔ خوابوں میں، میں اس سے لپٹ لپٹ جاتا، لیکن جاگتے میں فاصلے اسی طرح رہتے، بس ہو سکا تو اتنا کہ کبھی کوئی کتاب لیتے دیتے، کبھی کوئی پلیٹ پکڑتے پکڑاتے اس کے ہاتھوں کے لمس کا ذائقہ محسوس ہو جاتا، پا کبھی دروازے میں سے نکلتے اس کے کندھے سے کندھا چھو جاتا، یہ ذائقہ یہ لمس کئی کئی دن مسحور کئے رکھتا۔
انہی سوتی جاگتی کیفیتوں، خوابوں اور لمس کی لذتوں میں دن پر لگا کر اڑ گئے۔ امتحان قریب آگئے۔ میں اس سے کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر ہمت نہ پڑتی۔ کوئی بات زبان تک آتے آتے رک سی جاتی۔ ریہرسلیں کرکے، جملے دہرا دہرا کے، رٹ رٹ کے، سامنا ہوتا تو سب گڈمڈ ہو جاتا۔ اک نا معلوم سی جھجک ان دیکھے پردے کی طرح درمیان میں حائل ہو جاتی۔
شاید امتحان شروع ہونے سے دو تین دن پہلے کی بات ہے، میں کچھ اکھڑا اکھڑا سا تھا۔ گھبراہٹ میں کبھی صوفے کے ایک طرف ہوتا کبھی دوسری طرف۔ وہ کن آنکھیوں سے مسلسل میرا جائزہ لے رہی تھی، کہنے لگی ”پریشان ہو“۔
میں نے اٹکے اٹکے لہجے میں کہا ”اک بات ہے“۔
”کہو“
میں چپ رہا، کہنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔
بولی ”کہو نا“۔
میرے ضبط کا کنارہ ٹوٹ گیا۔ بڑے ہی بے ڈھنگے طریقے سے نیم بند آنکھوں کے ساتھ معلوم نہیں لفظ کیسے ادا ہوئے ”میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں“۔
وہ چپ رہی، بہ دیر چپ رہی، پھر دھیمی آواز میں بولی ”تمہیں اپنی میری عمروں کا فرق معلوم ہے“۔
میں نے کہا ”عمروں کے فرق سے کیا ہوتا ہے“۔
بولی ”بہت کچھ ہوتا ہے، محبت اندھی ہوتی ہے، وقت اندھا نہیں ہوتا“ میں نے کچھ کہنا چاہا تو اس نے میرے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھدیا، پھر دفعتہ مجھے شانوں سے پکڑ کر میرا منہ سامنے کیا دیکھتی رہی کچھ دیر دیکھتی رہی پھر بولی ”پریشان نہ ہو، جاﺅ جاکر تیاری کرو، تمہارے مستقبل کا انحصار اس امتحان پر ہے“۔
میں نے کچھ کہنا چاہا۔
اس نے میرے ہونٹوں پر انگلی رکھدی اور پھر دفعتہ جھک کر میرے ماتھے پر اپنے ہونٹ ثبت کر دئیے۔
وہ مجھے دروازے تک چھوڑنے آئی تو میں نے دیکھا اس کے آنکھوں میں ستارے جھلملا رہے ہیں۔ وقت ٹھہر گیا، ٹھہرا ہی رہا۔ امتحان کے عرصہ میں بھی اس کے نرم گذار، گرم رسیلے ہونٹ میرے ماتھے پر ثبت رہے۔
آخری پیپر دے کر میں اس کی طرف آیا۔ دو تین بار کی دستک کے جواب میں بوڑھی نوکرانی نے ذرا سا دروازہ کھلا اور میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی بولی ”باہی کراچی گئی ہیں، ان کی خالی بیمار ہیں، پانچ چھ مہینے رہیں گی“۔
اس سے پہلے کہ میں کوئی سوال کرتا۔ دروازہ بند ہو گیا۔
میں کچھ دیر کھڑا رہا، پھر بوجھل قدموں سے واپس پلٹا، جانے کیوں احساس ہو رہا تھا کہ بند دروازے کے پیچھے ستاروں بھری دو آنکھیں مجھے دیکھے جارہی ہیں، زمانے بیت گئے.... بیت گئے۔
اور اب برسوں بعد، کانپتے ہوئے ہاتھوں سے چائے کی ٹرے میز پر رکھتے ہوئی بولی ”اماں بازار گئی ہے“۔
جھریوں بھرے کانپتے ہاتھوں سے چائی کی پیالی لیتے ہوئے میں نے ان نرم گداز ہاتھوں کے لمس کو محسوس کرنے کی ایک ناکام سی کوشش کی، جن کا تصور کبھی مجھے ہفتوں بے خود کئے رہتا تھا۔
”عرصہ بعد دیکھا ہے تمہیں“۔
میں نے کہا ”ایک میٹنگ میں آیا تھا“۔
”رہو گے“ اس کی آواز بیٹھ گئی تھی۔ کھنکھتا لہجہ اور ترنم اب بھولے بسرے زمانوں کی یاد تھا۔
”نہیں آج شام ہی لوٹ جاﺅں گا“۔
وہ چپ رہی، میں بھی چپ رہا، خاموشی گہری اور گہری ہو گئی۔
شاید زمانے بیت گئے۔
میں اٹھ کھڑا ہوا ”چلتا ہوں“۔
وہ بھی کھڑی ہو گئی، کچھ نہ بولی۔
آگے پیچھے ہم ڈیوڑھی میں پہنچے۔ لمحہ بھر کیلئے رک کر میں نے اسے دیکھا، پھر دروازہ کھولنے لگا۔ میرا ایک پاﺅں دہلیز کے اندر اور دوسرا باہر تھا کہ دفعتہ وہ آگے جھکی، شانوں سے پکڑ کر میرا منہ اپنی طرف کیا اور سوکھے ٹھنڈے ہونٹ میرے ماتھے پر رکھ دئے۔ دوسرے ہی لمحے وہ تیزی سے مڑی اور تیزیز قدم اٹھاتی اندر چلی گئی۔
میں چند لمحے اسی طرح کھڑا رہا، پھر آہستہ سے دروازہ بند کرکے گلی میں نکل آیا۔
نیم تاریک، سنسان گلی دور تک خالی، گلی میں کوئی درخت نہیں، لیکن ہر وقت گھنی چھاﺅں کا سا احساس، نیم پکے، کچے فرش پر بوجھل قدموں سے چلتے ہوئے میں نے سوچا ”کیا واقعی وقت اندھا نہیں ہوتا؟“



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6