ایک گمنام سیاح کی ڈائری کے چند اوراق ........... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

یہ ایک گمنام سیاح کی ڈائری کے چند اوراق ہیں۔ یہ سیاح سیاحت چھوڑ کر اس شہر میں آن بسا تھا۔ شہر کی کھدائی کے دوران یہ اوراق ایک دیوار کے نیچے سے ملے۔

پہلا ورق

یہ عجب شہر ہے۔ میں نے کئی شہروں کی سیاحت کی ہے لیکن اس طرح کا شہر اور اس طرح کے لوگ کہیں نہیں دیکھے اس شہر کے وسط میں ایک بڑا چوک ہے جس میں ایک مشکی گھوڑا کھڑا ہے گھوڑے کا انگ انگ پھڑک رہا ہے اور نتھنوں سے پھنکاریں نکل رہی ہیں اس پر خوبصورت زین کسا ہے اور خالی رکابیں ہر ایک شخص کو سواری کی دعوت دے رہی ہیں میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایک شخص اچھل کر گھوڑے پر سوار ہوا اور چابکدستی سے اس کی لگا میں تھام لیں۔
لوگوں نے تالیاں بجائیں اور نعرے لگائے۔ گھوڑے نے پچھلے سموں سے زمین کریدی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہوا ہو گیا اور سوار کو لے کر سارے شہر میں دوڑتا پھرا ایک لمبا چکر لگا کر وہ بھرے بازاروں میں سے ہوتا ہوا اُسی چوک میں آیا اور اچھل کر سوار کو اس طرح نیچے پھینکا کہ سوار اس کے سموں تلے آکر بری طرح کچلا گیا۔ اسے کچلتے دیکھ کر لوگوں نے تالیاں بجائیں اور نعرے لگائے۔ گھوڑا سوار کو کچل کر دوبارہ اپنی جگہ آکھڑا ہوا۔ اس کا پھڑکتا انگ انگ نئے سوار کو دعوت دینے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک اور شخص کچلے ہوئے شخص کے اوپر سے دوڑتا ہوا، اچھل کر اُس پر سوار ہو گیا۔ گھوڑا اسے لے کر شہر کی سڑکوں پر ہوا ہو گیا۔ لوگوں نے تالیاں بجائیںاور نعرے لگائیں۔ گھوڑا شہر کا چکر لگا کر چوک میں واپس آیا اور سوار کو نیچے گرا کر اُسے اپنے پاﺅں میں تلے کچل ڈالا۔ لوگوں نے پھر تالیاں بجائیں اور نعرے لگائے اس کے بعد ایک اور شخص کچلے ہوئے شخص کے ملبے پر کھڑا کر اچھل کر گھوڑے پر سوار ہوا، اور اسی طرح ایک کے بعد ایک....،
لوگ سوار ہوتے ہوئے شخص کیلئے بھی تالیاں بجاتے ہیں اور جب وہ گھوڑے کے پاﺅں تلے کچلا جارہا ہوتا ہے تو بھی اسی طرح خوش ہوتے اور تالیاں بجاتے ہیں۔

دوسرا ورق

چندر روز اس شہر میں رہنے کے بعد یہ عجب انکشاف ہوا ہے کہ اس شہر کے لوگ اگرچہ بظاہر چل پھر رہے ہیں لیکن اپاہج ہیں۔ ان کا چلنا پھرنا ایک قیاس ہے۔ وہ کب سے اپاہج ہیں مجھے معلوم نہیں۔ انہیں تو اس کا احساس بھی نہیں کہ وہ اندر سے اپاہج ہو چکے ہیں روزہ مرہ کا کام بظاہر ٹھیک چل رہا ہے۔ سڑکوں پر چہل پہل ہے۔ دفتروں میں رونق ہے۔ ہر سمت ایک ہنگامہ ہے۔ حن بیسا کھیوں پر وہ چل رہے ہیں وہ کسی کو نظر نہیں آتیں یا پھر یہ کہ سارے شہر نے ایک خاموش سمجھوتہ کر لیا ہے۔
کہ وہ ایک دوسرے کو اپاہج ہونے کا احساس نہیں دلائیں گے۔

تیسرا ورق

کئی مہینے یہاں گزارنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ یہ شہر گفتگو کا بڑا رسیا ہے۔ گلی کوچوں، بازاروں، کلبوں، ہوٹلوں، دفتروں اور درس گاہوں میں مسلسل بحثیں ہو رہی ہیں، لیکن ان بحثوں کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ ان کے لفظ بے حرمت ہو چکے ہیں اخباروں میں بڑے بڑے تنقیدی مضامین چھپتے ہیں لوگ انہیں مزے لے لے پڑھتے ہیں، ایک دوسرے کو متوجہ کراتے ہیں لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ یہاں جلسے اور سیمینار بھی بہت ہوتے ہیں۔ ان جلسوں اور سیمیناوں میں زبردست تنقید ہوتی ہے مفید تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔ لیکن یہ ساری کارروائی یہیں تک محدود رہتی ہے شہر کی زندگی اور نظام پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ گفتگو میں جذبہ بہت ہے، اتنا کہ اکثر ان بحثوں اور گفتگو میں وہ ایک دوسرے سے لڑ پڑتے ہیں لیکن نتیجہ....؟

چوتھا ورق

یہاں کا یہ عجب دستور دیکھا کہ محسنوں کو دار پر لٹکاتے ہیں اور غداروں کی برسیاں مناتے ہیں، پھر دونوں صورتوں میں بعد میں پچھتاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے انہیں ہیرو اور غدار میں تمیز کرنا نہیں آتا۔ وہ صرف تالیاں بجاتے یا اُوئے اُوئے کرتے ہیں۔ یہاں سارا کام فتوﺅں پر چلتا ہے۔ یہ فتوے مذہبی راہنما بھی جاری کرتے ہیں اور سیاسی راہنما بھی۔ لوگ سوچے سمجھے بغیر ان پر عمل کرتے ہیں اور بعد میں افسوس۔
اتنا عرصہ اس شہر میں رہنے کے ....میں معلوم نہیں کر سکا کہ اس طلسم کے پیچھے کون جادو گر چھپا بیٹھا ہے کیﺅں کا خیال ہے کہ وہ یہیں اندر ہی موجود ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا۔ بس کبھی کبھی لگتا ہے کہ ان میں سے ہر شخص یہ جادوگر خود ہے، یہ خود ہی اپنے خلاف سازش کرتے ہیں اور خود ہی شور مچاتے ہیں۔ خود ہی تماشہ گر، خود ہی تماشہ اور خود ہی تماشائی۔

پانچواں ورق

بہت دنوں سے یوں لگ ہے جیسے ہر شے بے اعتبار ہو گئی ہے ذائقے پھیکے پڑ گئے ہیں، ثمر بے مٹھاس، درخت بے چھاﺅں، موسم بے اثر اور پھول بے خوشبو، یوں لگتا ہے جیسے سب کچھ ایک شوکیس میں سجا ہوا ہے کہ دید تو ہے حرکت نہیں۔

چھٹا ورق

لوگوں کے مزاج میں ایک عجب طرح کی تندی اور غصہ پیدا ہو گیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کو چیر پھاڑ دینا چاہتے ہیں۔ بس کسی بہانے کی ضرورت ہے کل زبردست جنگ ہوئی، آدھا شہر ایک طرف، آدھا دوسری طرف اس لڑائی میں انہوں نے ایک دوسرے کو یرغمال بنالیا اور اب ایک دوسرے کے یرغمالیوں کو رہا کرانے کیلئے گفتگو ہو رہی ہے۔ میں کس طرح ہوں، کچھ سمجھ نہیں آتا، لگتا ہے کسی ان دیکھی گولی پر میرا نام بھی لکھا ہوا ہے کسی دن یہ گولی کسی طرف سے آئے گی اور بس........،
اس سے پہلے کہ میرے نام کی گولی مجھے تلاش کر لے میں یہ شہر چھوڑ دوں گا، میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ آج رات خاموشی سے

آخری صفحہ

آخری صفحہ جگہ جگہ سے پھٹا ہوا ہے۔ لفظ مٹ گئے ہیں بڑی کوشش سے جو کچھ پڑھا جا سکتا اور اِدھر اُدھر سے سن سنا کر جو کچھ معلوم ہوا اس کا لبِ لباب یہ ہے کہ سیاح اُس رات شہر نہ چھوڑ سکا۔ اس کے شہر چھوڑنے سے پہلے ہی آفت نے شہر کو لپیٹ میں لے لیا۔ سنا ہے کہ زمین کے نیچے جو بیل دنیا کو اپنے سینگ پر اٹھائے پھرتا ہے، وہ شہر والوں کی حرکتیں دیکھ دیکھ کر ایسا غصے میں آیا کہ اس نے لمحہ بھر میں شہر کو ایک سینگ سے اچھال کر دوسرے سینگ پر الٹ دیا، سب کچھ تہہ و بالا ہو گیا۔ شہر والوں کے ساتھ سیاح بھی مارا گیا، لیکن وہ اب سیاح کہاں رہ گیا تھا.... وہ تو اسی شہر کا باسی بن چکا تھا، سو سفرنامہ سیاح اور شہر ایک ہی انجام سے دوچار ہوئے!

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6