اشاعتیں

اگست, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

میرے لئے ...... تحریر : سلطان جمیل نسیم

آتش فشاں پھٹا اور لاوا بہنے لگا۔ گویا ایک دھماکے نے عمارت کی بنیادیں ہلا دی تھیں تو دوسرے نے دیواریں ڈھا دیں۔ اور عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی۔ وہ اپنے بکھرے ہوئے وجود کے اس ملبے میں دفن ہو کر رہ گئیں اور قبر میں ہوتا بھی کیا ہے۔ اندھیرا حبس، تنہائی.... ایسا اندھیرا تو ان کی زندگی میں کبھی پھیلا بھی نہ تھا کہ راستہ نہ سجھائی دے ایسا حبس کہ دم گھٹ جائے مگر تارِ نفس نہ ٹوٹے اور تنہائی کی شدت کا یہ عالم کہ وہ اپنے آپ کو آواز نہ دے سکیں۔ آج صبح جب ان کی آنکھ کھلی تو دھوپ سائبان سے نیچے اتر آئی تھی اور افروز کا پلنگ خالی تھا.... دھوپ کو دیکھ کر اندازہ لگایا کہ آٹھ بج چکے ہےں۔ افروز اسکول چلی گئی ہو گی.... اِس خیال سے انہیں دکھ ہوا کہ آج وہ اتنی دیر سے کیوں اُٹھیں۔ اُس باﺅلی لڑکی نے تو چائے بھی نہیں پی ہو گی۔ چائے کے خیال سے ان کی نظری باورچی خانے کی طرف گئیں چولہے میں آگ جل رہی تھی اور اُس پر رکھی ہوئی کیتلی میں پانی اُبل رہا تھا، جس کی بھاپ کیتلی کی ٹونٹی سے دھوئیں کی لکیر بن کر نکل رہی تھی....وہ زیر لب مسکرائیں۔ بے چاری.... چائے پی کر جانا چاہتی مگر ہمیشہ کی دیر طرح سے سو کر اُٹھنے و...

کالی شلوار ۔۔۔۔۔۔ تحریر : سعادت حسن منٹو

دہلی آنے سے پہلے وہ انبالہ چھاﺅنی میں تھی۔ جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی۔ ان کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی۔ لیکن جب وہ دہلی میں آئی اور اس کا کاروبار نہ چلا تو ایک روز اس نے اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے کہا۔ ”دس لیف....ویری بیڈ“ یعنی یہ زندگی بہت بُری ہے جب کہ کھانے ہی کو نہیں ملتا۔ انبالہ چھاﺅنی میں اس کا دھندا بہت اچھی طرح چلتا تھا۔ چھاﺅنی کے گورے شراب پی کر اس کے پاس آجاتے تھے۔ وہ تین چار گھنٹوں ہی میں آٹھ دس گوروں کو نمٹا کر بیس تیس روپیہ پیدا کر لیا کرتی تھی۔ یہ گورے اس کے ہم وطنوں کے مقابلے میں بہت اچھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی زبان بولتے تھے جس کا مطلب سلطانہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر اس کی زبان سے یہ لاعلمی اس کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوتی تھی۔ اگر وہ اس سے کچھ رعایت چاہتے تو وہ سر ہلا کر کہہ دیا کرتی تھی ”صاحب ہماری سمجھ میں تمہاری بات نہیں آتا۔“ اور اگر وہ اس سے ضرورت سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرتے تو وہ ان کو اپنی زبان میں گالیاں دینا شروع کر دیتی تھی۔ وہ حیرت میں اس کے منہ کی طرف دیکھتے۔...

بھالو ....تحریر حاجرہ مسرور

آج جمعرات تھی۔ ابھی چراغ بھی نہ جلے تھے۔ اللہ رکھی گلابی چھسیٹ کا لہنگا، مہین ململ کا کرتا پہنے اور سر پر ہرا دوپٹہ حجنوں کی طرح لپیٹے، آج بھی سیلیپریں گھسیٹی درگاہ میں حاضری دینے نکلی لیکن ایسی بے تابی سے کہ انوری اس کی تیزی کا ساتھ نہ دے سکی۔ مٹکی برابر پیٹ، اس پر دل کی پیاس کا سوٹ، شلوار پیٹ پر ٹکتی ہی نہ تھی۔ پیروں پر وہ سوجن کہ کبھی کبھار پاﺅں میں پڑنے والی گرگابی سے پیر تو جیسے گوشت کا بوٹا ہو کر ابلے پڑتے۔ گھر سے دوقدم پر تو درگاہ تھی مگر معلوم ہوتا کالے کوسوںکی بات ہے۔ مٹھی میں چراغی کے چار پیسے اوردوسری ہتھیلی سے ملیدے کی طشتری، یوں منوں کا بوجھ نہ معلوم ہوتی۔ اگر اللہ رکھی کی چال پر ایسی منہ زور جوانی نہ آئی ہوتی۔ انوری نے ہانپتے ہوئے سوچا، سب اپنے کام سے کام رکھتے ہےں، ذرا خیال نہیں کرتے۔ اب جیسے اماں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ میں بھی ساتھ ہوں۔ یہ سوچتے ہی اس کے رویں رویں سے کوئی شے کھول کھول کر سر تک آئی پھر دو ننھے ننھے قطروں کی صورت میں آنکھوں میں پھیل گئی۔ لیکن یہ قطرے اس وقت بھاپ بن کراُڑ گئے جب اس نے دیکھا کہ اللہ رکھی مزار شریف کے پائنتی پر کھڑی تمباکو سے پیلی ہتھی...

مہربانی ----------جمال ابڑو

ایک دن شام کو ہم چار دوست خوب بن سنور کر نکلے۔ کالج کے قریب سے گزرتے ہوئے ہم صدر کی جانب چل پڑے۔ کالے شیشوں کی عینکیں اور کالی پتلونیں، سفید جوتے، شیر اور گھوڑے والی قمیضیں پہنے، بالوںکی لٹیں پیشانی پر لہرائے جھومتے گاتے، ڈینگیں مارتے، ہر آئے گئے پر فقرے کستے ٹھٹھے لگاتے۔ ہم بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ زمین پر پیر ٹک نہیں رہے تھے۔ زمین کو لتاڑنے، آسمان کو چھونے کی کوشش کرتے ہوئے آخرکار ہم ایلفی جا پہنچے۔ ہم جیسے ان گنت امیر زادے وہاں محو خرام تھے۔ ایک دوسرے کے بالوں اور کپڑوں پر رشک کرتے ہوئے ایک دوکان سے دوسری دکان میں جھانکتے آخر ایک کونے کی جگہ پکڑ کر کھڑے ہو گئے۔ پھر کیا تھا۔ گفتگو کا اٹوٹ سلسلہ چل نکلا۔ ٹائیوں، کوٹوں، جیکٹوں اور کٹنگ کے ذکر سے ہوتے ہوئے موٹروں پر آگئے۔ شیورلیٹ، فریز، کیڈلک، بیوک، غرض کہ کوئی بھی نہ چھوٹی بچپن چھپن کے ماڈل کی بات چھڑ گئی۔ انتہائی دلچسپی لے کر ہم سب نے اپنی معلومات کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ بحث میں ایک دوسرے اُلجھ پڑے۔ ایک کہنے لگا۔ ”چلو جی بدھو تمہیں کیا علم، میںابھی ذرا دیر پہلے ایک امریکی رسالے میں چھپن کی ماڈل کا اشتہار دیکھا ہوا آرہا ہوں۔“ اس ...

خون کے آنسو ..... تحریر: جام ساقی (سندھی) / ترجمہ: فاروق سولنگی

روشنی میں جھلملاتا شہر، چاروں طرف آوازیں۔ ہنگامہ، سرکس تھیٹر، ریکارڈنگ، نمائشیں، ثقافتی شو، لوگوں کے دھکے، ناک منہ مٹی کے درّے۔ جھونپڑیوں میں گھنگھروﺅں اور طبلوں کی آوازیں، عورتیں، بچوں اور مردوں کے سر۔ کنڈوں کی چقوں میں جھانکتے ہوئے تماش بینوں کے ہجوم، ہوٹلوں میں ہیجڑوں کے ڈانس۔ پگڑیوں کے ہجوم اور کہیں پر سندھی کڑھائی کی ٹوپیاں۔ آج آخری دھمال تھی۔ ہر کوئی آج تھکا تھکاسا، چار دن سے کام ہی کام۔ اپنے آپ کو زندہ رکھنے کےلئے، جیون گزارنے کےلئے اور رشتوں کی طرح جینے کےلئے کام ہی کام۔ صدیوں سے یہ عمل جاری ہے۔ آنکھوں میں درد، کمر میں درد، گلا خراب، جسموں میں دردرت جگے، جمائیاں، دیمک کھائے ہوئے وجود، بچا بند سے نیچے مزار کے پیچھے قبرستان میں گانے اور ناچنے والوں کے ٹولے۔ آس پاس میں ناچنے والے لڑکوں کی چیخ و پکار۔ وہاں پر ........ ہی مریم بھی اپنی محفل جمائے کھڑی تھی۔ پاﺅں مٹی میں خشک، ناخن پالش دھندلی، ٹخنوں سے اوپر شلوار ، پاﺅں میں گھنگھرو۔ کمر میں دوپٹا بندھا ہوا۔ گلابی رنگ کا سوٹ، ننگا، بالوں میں تیل لگا ہوا۔ دو چوٹیوں میں سے بال بکھرے ہوئے۔ کانوں میں سندھی بندے۔ رنگ سانولا، باجے پر اس ...

سپیڈو میٹر..... ایوب جاوید

شاکر شریف تھا یا بدمعاش، یہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ اس میں شرافت بھی تھی، جس کی میں قدر کیا کرتا تھا۔ مگر میں اس کی ان حرکتوں کا بھی راز دان تھا جو صرف ایک بدمعاش ہی سے سرزد ہو سکتی تھیں۔ ایسا بدمعاش جو اپنی الٹی سیدھی عادات کے تسلسل سے کٹھور اور اکھڑ بن چکا ہو۔ غلط باتیں اس کی شخصیت کا لازمی حصہ بن چکی تھیں۔ بلکہ میں انہی باتوں سے اسے پہچان لیا کرتا تھا کہ یہ میرا بگڑا ہوا یار شاکر ہے۔ اس کے ذرائع وسیع اور موثر تھے۔ پھر جن جن طریقوں سے وہ اپنی شرافت کی منادی کیا کرتا تھا۔ وہ معاشرے کے مزاج اور پسند کے مطابق تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اپنے لئے دو قبائیں رکھتا تھا۔ جیسا موقعہ ویسی قبا....! شاکر نے اپنی مصروف زندگی کے اندر ایک پختہ دیوار چن کر اسے دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا۔ دیوار کے اس طرف وہ نماز، روزے میں کوتاہی نہیں کرتا تھا۔ نماز قائم کرنے میں استقلال، خیرات میں باقاعدگی، اس کی زندگی کے معمول تھے۔ ریزگاری دن بھر اس کے ہاں بٹتی رہتی۔ گو خیرات کی مقدار قلیل ہوتی۔ مگر جو آتا خالی ہاتھ لوٹ کر نہ جاتا۔ وہ اپنے جان پہچان والوں کو اس قدر منہمک اور مصروف رکھتا کہ کسی کو یہ خیال تک نہ...