سپیڈو میٹر..... ایوب جاوید
شاکر شریف تھا یا بدمعاش، یہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ اس میں شرافت بھی تھی، جس کی میں قدر کیا کرتا تھا۔ مگر میں اس کی ان حرکتوں کا بھی راز دان تھا جو صرف ایک بدمعاش ہی سے سرزد ہو سکتی تھیں۔ ایسا بدمعاش جو اپنی الٹی سیدھی عادات کے تسلسل سے کٹھور اور اکھڑ بن چکا ہو۔ غلط باتیں اس کی شخصیت کا لازمی حصہ بن چکی تھیں۔ بلکہ میں انہی باتوں سے اسے پہچان لیا کرتا تھا کہ یہ میرا بگڑا ہوا یار شاکر ہے۔
اس کے ذرائع وسیع اور موثر تھے۔ پھر جن جن طریقوں سے وہ اپنی شرافت کی منادی کیا کرتا تھا۔ وہ معاشرے کے مزاج اور پسند کے مطابق تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اپنے لئے دو قبائیں رکھتا تھا۔ جیسا موقعہ ویسی قبا....!
شاکر نے اپنی مصروف زندگی کے اندر ایک پختہ دیوار چن کر اسے دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا۔ دیوار کے اس طرف وہ نماز، روزے میں کوتاہی نہیں کرتا تھا۔ نماز قائم کرنے میں استقلال، خیرات میں باقاعدگی، اس کی زندگی کے معمول تھے۔ ریزگاری دن بھر اس کے ہاں بٹتی رہتی۔ گو خیرات کی مقدار قلیل ہوتی۔ مگر جو آتا خالی ہاتھ لوٹ کر نہ جاتا۔ وہ اپنے جان پہچان والوں کو اس قدر منہمک اور مصروف رکھتا کہ کسی کو یہ خیال تک نہ آتا کہ سیڑھی لگا کر دیوار کے اس طرف دیکھ لے۔ سچ تو یہ ہے کہ دیوار جتنی اونچی ہوتی ہے نگاہیں اسی قدر جھکی رہتی ہےں۔ وہ دیواریں اونچی کرتا گیا اور نگاہیں جھکتی گئیں۔ لوگ اسے شریف سمجھتے۔ بظاہر وہ خدا ترس ضرور تھا مگر میں جانتا ہوں کہ یہ صرف ریاکاری تھی۔ دینی اور دنیاوی طور طریقوں میں اسے کمال حاصل تھا۔ اس کے باوجود میرے نزدیک وہ شریف کم اور بدمعاش زیادہ تھا۔ اگر وہ بدمعاش نہیں تھا۔ تو میں اسے شریف کہنے کےلئے بھی تیار نہیں ہوں۔
ظاہر ہے کہ میرے اس یار غار میں دو متضاد قسم کے رجحانات سختی اور جبر کی حد تک تھے اور انہیں یکجا دیکھ کر میرا ذہن کبھی کبھی ٹھٹک سا جاتا اور میں کسی نہ معلوم سے دھماکے کا انتظار کرنے لگتا۔ چلئے میں نئے سرے سے پھر سوچتا ہوںکہ آخر یہ شاکر ہے کیا بلا؟
لمبا تڑنگا، عمودی ساخت، پختہ عمر، مانا ہوا پارسا، تندرست جسم اور صحت مند چہرے پر مخروطی خوشخط داڑھی، اس سیاہ کلک کی طرح تھی جسے ابھی ابھی بنا کر قط دیا گیا ہو۔ اس قط کے اندر شگاف قدرے لمبا تھا مگر بے داغ اور نامعلوم سا، سیاہ چمکتے ہوئے بالوںکی ہموار تراش....یوں دکھتا، جیسے داڑھی چہرے پر اگی نہیں بلکہ دھو دھا کر اور کانٹ چھانٹ کے بعد قرینے سے جما دی گئی ہو۔ باریک لمبی اور ستواں ناک میں خاصی اٹھان تھی۔ جیسے کوئی معمار گنیا اُلٹا رکھ کر چل دیا ہو۔ ناک اپنے بنیادوں پر شترپشت کی طرح نمایاں تھی۔
شاکر کے ٹھاٹھ دار چہرے میں انفرادیت ہی انفرادیت تھی۔ بیضوی چہرے کی دیوار پر لمبی ناک اس طرح ٹنگی ہوئی تھی جیسا کہ اُٹھ کر سونگھنے کی کوشش میں مصروف ہو چہرے پر کھسیانے قسم کا تقدس رہتا۔ جہاںکسی نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ ناک پر پسینے کے قطرے اُبھر آتے۔ تانبے کی طرح چمکتا ہوا چہرہ، گنجان اور موٹی بھوئیں اور ان کے نیچے بھنچی، چھپی، دبی اور چمکتی ہوئی آنکھیں جن میں کھلا تجسّس چھپی شرارت اور متوازن مسکراہٹ ہر وقت موجود رہتی۔ یوں معلوم ہوتاجیسے شاکر کسی جانے پہچانے چہرے کو ڈھونڈ رہا ہو۔ یا فرصت پاتے ہی کوئی شرارت کر بیٹھے گا۔ وہ صف میں کھڑا دو نمازیوں کی جگہ لیتا۔ مسجد سے باہر ایک ہی وقت میں دو عورتوں کو سینے سے لگا لیتا۔ پھر بھی تیسری کی گنجائش رہ جاتی۔ چہرے پر تطہیر اور تقدس برساتے اس کے رطوبت ریز ہچکی زدہ قہقہوں سے جان پڑتا۔ جیسے درون مسجد کوزے ٹکرا رہے ہوں۔ وہ جانے پہچانے مجمع میں خاصا خاموش اور تنہائی میں پرزور قہقہے لگانے کا عادی تھا۔ اس کے قہقہے میں مجھے تشنج اور جھٹکے محسوس ہوتے اور جب ان کی تعداد اور جھٹک میری برداشت سے بڑھ جاتی تو میں کہتا۔ ”شاکر! تم بڑے بدمعاش ہو۔“
”بدمعاش؟ اور میں۔“
”ہاں ہاں تم“ میں اسے نگاہوں میں تولتے ہوئے کہتا۔ تم بدمعاش ہی نہیں بلکہ بدمعاشی تمہارا ذریعہ معاش بھی ہے اور فطرت بھی۔
وہ بھوئیں سکیڑ لیتا اور اس کی آنکھیں اور اندر دھنس جاتیں۔ ”میں بدمعاش ہوں.... بتاﺅ تو ذرا، مجھ میں اور تم میں کیا فرق ہے مولانا“
”فرق؟....بہت فرق ہے۔ میں جو کچھ ہوں عیاں ہوں، تمہاری طرح کھلا خط اورسربمہر لفافہ نہیں ہوں۔“
”ہو سکتا ہے تم ٹھیک کہتے ہو“ شاکر ایک موٹی سی گالی بک کر کہتا ہے۔ ”ہمارے سوچنے کا انداز مختلف اور رسائی کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے.... مگر بیٹا غرض اور مدعا ایک ہے۔“
یہ سن کر میں چپکا ہو جاتا۔ شرافت اور ذلالت کی ڈگریوں، درجوں اور حد بندیوں پر سوچنے لگتا۔ اس لائن کو تلاش کرتا۔ جو انہیں دو مختلف منطقوں میں جدا کرتی ہے۔ دونوں منطقے ذہن میں دست و گریباں نظر آتے۔ دو مختلف رنگدار لٹوﺅں کی طرح گھومتے، ٹکراتے اُلجھتے اور اتنی تندہی سے گھومتے کہ ان کی رنگت اور جسامت مدھم ہوتے ہوتے نظروں سے اوجھل ہو جاتی اور یہ تمیز ذہن میں گڈ مڈ سی ہو جاتی کہ شرافت کسے کہتے ہےں اور ذلالت کسے، کس کا آغاز، کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کس نقطے پر ختم ہوتا ہے۔
کوئی بھی نہیںجانتا تھا کہ شاکر کا دھندا کیا ہے۔ وہ کیا کام کرتا ہے اور وہ کون سا کاروبار ہے، جس کےلئے وہ منہ اندھیرے اٹھ کر جاتا ہے اور دن ڈھلے لوٹتا ہے۔ اس کے عالی شان شش منزلہ مکان، جس پر نمایاں حروف میں ”ہذا من فضل ربی“ لکھا تھا۔ اس کے سامنے یہ بڑی بڑی کاریں کہاں سے آکر رکتی ہےں اور کیوں رکتی ہےں۔ شاکر یہ دھلے دھلائے، بے داغ اُجلے کپڑے پہن کر ہر روز کدھر جاتا ہے۔ یہ آتے جاتے سپاہی اسے جھک کر کیوں مودبانہ سلام کرتے ہےں۔ یہ آئے دن اس کے ہاں کونسی تقریبیں منائی جاتی ہےں۔ یہ دعوتیں اور پارٹیاں کس رچاﺅ کو منانے، کون سے تہوار کو ”جشنانے“ اور کس رسم کو ”رسمانے“ کےلئے ترتیب دی جاتی ہےں۔ محلہ والوں کےلئے اس کے کاروباری اور نجی معاملات کا جاننا اس لئے بھی دشوار تھا کہ اس کے مکان کی دیواریں اونچی اس کی کاریں لمبی تھیں اور وہ مخیر تھا۔ خدا ترس اور خد پرست تھا۔ گو وہ خود حج کو نہیں گیا تھا مگر ہر سال اس کے نوکر حج کو باقاعدگی سے آتے جاتے تھے۔ خاک شفا کی ڈلیاں، آب زمزم کی ڈبیوں کے علاوہ بہت کچھ لاتے تھے۔ اس کی تقسیم کی ہوئی تسبیحیں قریباً ہر گھر میں پھیری اور گھمائی جاتی تھیں۔ اس کی دی ہوئی ڈلیاں اور ڈبیاں ہر میت پر صرف ہوتیں اور شاکر کی یاد دلاتیں اور پہروں اس کے چرچے رہتے۔
شاکر نے اپنے لئے رولکس کی گھڑی اور مسجد کےلئے کلاک منگوایا۔ اپنے لئے نئے ماڈل کی کار اور مسجد کےلئے ملتان سے چٹائیاں منگوائیں۔ اگر وہ اپنے لئے کراری اور کٹ گلاس لایا تو مسجد کےلئے جھاڑاور کوزے منگوانے بھی نہ بھولا۔ اگر وہ ڈنر اور پارٹیاں آئے دن دیتا تو امام مسجد کا کھانا بھی ہر روز شاکر کے گھر سے جاتا۔ غرض کسٹم، پولیس اور امام مسجد سے شاکر کا برابر کا یارانہ تھا۔ تینوں سے تعلقات نبھاتا اور تینوں کی پوری توجہ اور انہماک سے خدمت کرتا۔
یقین جانئے شاکر کو اپنی بیوی سے بھی بے اندازہ محبت تھی۔ صرف محبت کہہ دینا کافی نہیں۔ وہ اپنی بیوی پر مرتا تھا۔ اس کی بیوی کوئی شعلہ جوالا تو نہ تھی مگر شاکر نے اسے بنے ٹھنے رہنے کےلئے کیا کچھ لاکر نہیں دیا تھا۔ چہرے کےلئے گلیسرین اور لیمو کے ولایتی مرکب، سمگل شدہ فونڈیشن کریم، کولڈ اور ویشنگ کریم، کیوٹیکس اور لونڈر، مختلف تدریجی رنگوں کی لپ سٹک، پف پوڈر، عطرپاش بولتیں، چہرے کےلئے موچنے اور بھوﺅں کےلئے نوچنے لالاکر دیئے۔ پہننے کےلئے جیولری اور چور بازاری کے نائیلون، جارجٹ اور کریب کے تھانوں کے تھان لا دیئے۔ ان لوازمات کے سہارے شاکر کی بیوی اس بازاری عورت کی طرح سجی سجائی بنی سنوری رہتی جسے پورا یقین ہو کہ موت اور گاہک کا کوئی اعتبار نہیں۔اس کا رس بھرا تناپا، کپڑوں کی بہترین کاٹ میں پھنسا اور بولتا ہوا دکھائی دیتا کوئی اسے دیکھتا تو نظروں میں لپکا سا ملتا۔ دل میں ہوکا اور نگاہوں میں ہوس جاگ اُٹھتی۔ یہی بات تھی کہ شاکر اپنی بیوی پر مرتاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ، اسے ایک اونچے چبوترے پر بٹھا رکھا تھا۔ ڈریسنگ ٹیبل کے دراز قد آئینے اس کی جانچ پڑتال پر مقرر تھے۔ وہ جس طرف بھی پلٹ کر دیکھتی آئینے میں جسم کا سہ طرفہ تاثر اور اُبھار جی اُٹھتا۔
بیوی سے دوری یا تنہائی، شاکر کے بس کی بات نہیں تھی۔ اپنے کاروباری سلسلے میں گھر سے باہر اسے کتنی ہی آسائش کیوں نہ ہو مگر وہ رات رکنے کےلئے تیار نہ ہوتا۔ اس نے زیادہ فاصلے پر کئی سود مندکاموں میں شمولیت سے صرف اس وجہ سے انکار کر دیا تھا کہ وہ گھر سے باہر ایک رات بھی بسر نہیں کرسکتا۔ دُنیا کی کوئی دلچسپی اور منافع اسے گھر سے باہر شب باشی کےلئے روک نہیں سکتا تھا۔ رات کو اپنے گھر پہنچنا، اس کا ایک طے شدہ اور یقینی عمل تھا۔
بیوی، شاکر کی زندگی کا وہ مرکز تھی جس کے گرد شاکر کی ہر چیز گھومتی تھی۔ اس کی ہر وقت کوشش رہتی کہ جس قدر ممکن ہو وہ بلاﺅز کی طرح اپنی بیوی سے چپکا رہے۔ شاکر کی مسجد سے وابستگی بیوی پر فریفتگی اور کاروبار سے وابستگی یہی چیزیں تھیں جس کے باعث محلے والے شاکر کو مولانا کہتے۔ اس کی شرافت اور گھر کےلئے محبت کے چرچے ہوتے۔ اڑوس پڑوس میں یہی تذکر رہتا کہ شاکر کس قدر شریف اور شیدائی شوہر ہے۔اس زمانے میں اس جیسا انسان ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ بڑے بوڑھے اپنے بگڑے ہوئے بچوں سے کہتے کہ شاکر کو دیکھو۔ صحت ہے، تعلقات ہےں، پیسہ ہے، دوست یار ہےں، اچھے برُے سے ملنا ملانا ہے مگر شراب، جوا، سگریٹ کوئی بُری عادت نہیں۔ باقاعدگی سے مسجد جاتا ہے۔ صبح اس کے کمرے سے تلاوت کی خوش الحان آواز آتی ہے۔ حدیث اور مسئلے مسائل شوق سے کہتا اور دلچسپی سے سنتا ہے۔ دین کا پابند اور دُنیا کے الجھیڑوں میں بھی طاق، پتلون پہنتا ہے مگر ننگے سر بھی نہیں گھومتا، ٹائی باندھتا ہے مگر شلوار پہننے میں عار نہیں سمجھتا۔ صوم و صلوة کا پابند ہے اور اپنے کاروبار میں محنت کرتا ہے۔
یہی چرچے تھے۔ یہی شہرت تھی جس نے شاکر کو اپنے طور طریقوں اور نشست و برخاست میں بے لوچ اور سخت گیر بنا دیا تھا۔ گھر سے لے کر مسجد تک اور مسجد سے لے کر اپنے دفتر تک وہ اپنی تمام سماجی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو پوری طرح نباہتا تھا۔
شاکر سب کچھ تھا جو محلے کے بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے وہ عبادت میں غفلت نہیں کرتا تھا۔ وہ دیندار متقی اور دنیادار پرہیزگار تھا۔ مگر میں جانتا ہوں کہ جہاں دونوں وقت ملے، شاکر دھلے دھلائے کپڑے پہن، سو دو سو جیب میں ڈال موٹر لئے میرے پاس آجاتا۔
”چلو بیٹا، شکار پر چلیں۔“
ایک سڑک اس کی سب سے بڑی شکارگاہ تھی، جس جگہ اسے شکار کم وقت اور بغیر تردد کے مل جاتا تھا۔ شاکر موقع ملتے ہی اپنی طہارت کی قبا اتار سر پر رکھی ہوئی ٹوپی کی افقی سیدھائی کو45ڈگری کے زاویہ پر رکھ دیتا۔ اس کے نزدیک شرافت اور ذلالت میں صرف اتنا ہی فرق تھا۔
”چلو شکار پر چلیں“ وہ تقاضا کرتا اور مجھے انکار کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ شکار شکاری کا ہوتا ہے اور میں پٹے ہوئے پست ہمت ہانکے کی طرح اس گشت میں شریک ہو جاتا۔ جسمانی تھکاوٹ اور ذہنی کوفت میری دوست پروری کا معاوضہ بنتی۔
کراچی وہ شہر ہے جو شاکر کو بے حد محبوب تھا۔ تیس لاکھ کی آبادی اور ہزاروں گلی کوچوں میں گھوم پھر کر درون مسجد اور بیرون مسجد، وہ زندگی کو اپنی مرضی سے بسر کرتا تھا۔ اتنے بڑے شہر میں صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا کون کہے گا۔ ایسے وسیع رقبہ کی کثیر آبادی میں اگر کوئی اپنی زندگی کا ڈھب ایک گلی سے نکل کر دوسری سڑک پر بدل لے تو پہلی گلی والوں کو برسوں اس تبدیلی کا پتہ نہیں چلتا۔ چنانچہ شاکر آج پھر آیا اور کہنے لگا ”پٹھے چلو“
اور یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ اس شہر کا ہر نیا بھڑوا اور پرانا دلال، بقول اس کے شاکر کا اپنا آدمی تھا۔ اور دلال اسے سیٹھ جی کہا کرتے تھے۔ کراچی میں جو کاروبار اور موٹر رکھتا ہو یقینا سیٹھ جی کہلاتا ہے۔ دلال اس کی وہی عزت کرتے جو کمیشن ایجنٹ اپنے اچھے اور باقاعدہ گاہک کی کرتے ہےں۔
شاکر خاص خاص ٹھکانوں کے علاوہ گلی کوچوں کے اندھیرے کونوں سے بھی بخوبی واقف تھا، جہاں دلال سگرٹ پیتے، پیک تھوکتے، چہل قدمی کرتے ملا کرتے تھے۔ پان سگرٹ کی وہ دکانیں اور ہوٹلوں کے مخصوص ساےے بھی وہ اچھی طرح جانتا تھا، جن کے اندھیرے تھڑوں اور شہ نشینوں پر دلال انتظار میں اکڑوں بیٹھے، شکرے ایسی تیزنگاہوں میں کھنگال ڈالتے اور جہاں کسی نے کار روکی یا رک کر دائیں بائیں دوچار باز دیکھا تو وہ باز کی طرح جھپت کر آتے اور بے جھجھک بات چھیڑ دیتے اور بغیر رسمی تعارف یا شناختی کارڈ دکھائے وہ آپس میں یوں ملا کرتے جیسے خاصا پرانا تعلق ہو۔
ہم شکار پر نکلے۔ روڈ پر پہنچے۔ بجلی کے کھمبے سے آگے شاکر نے کار بڑھائی۔ کھڑکی کا دروازہ کھولا، ٹوپی کو سرکا کر اس کا زاویہ بقدر ضرورت بڑا کیا۔ ایک دلال جو تاک میں بیٹھا تھا۔ اس نے بیڑی کا آخری دم لگا کر اسے اچھال دیا۔ بیڑی کیرم کی ٹکیوں کی طرح ٹھوکر کھا کر نالی کی پاکٹ میں جاگری اور وہ بڑی بڑے ڈگ بھرتا شاکر کے قریب آیا۔
”سیٹھ سلام۔“
”کون ہو؟“
”فجو....“
”ارے فجو! تو ....سناﺅ کیا حال ہے۔ بہت مدت کے بعد نظر آئے۔“
”بس سیٹھ، مجے سے ہوں۔“
”مال ہے؟“
”سیٹھ مال؟ مال بہت حجور کی نجر چاہےے۔“
”وہ حمیدہ حرام زادی آج کل کہاں ہے۔ دس سال ہو گئے اسے یہ دھندا کرتے مگر عورت ہے کہ فولاد، وہی رنگ وہی ڈھنگ، اگر ہسپتال کی آہنی چارپائی بھی ہوتی تو اس عرصہ میں مریضوں کا بوجھ سہارتے سہارتے اس کے بھی سارے سپرنگ ڈھیلے ہو جاتے....“
”سیٹھ صاحب“ دلال نے پیک تھوکی اور کہنے لگا۔ ”سالا ایک لمبر عورت ہے۔ سیٹھ! حرام جادی سیٹھ لوگ کو کھوش رکھنا جانتا ہے۔ ہنسی مذاق میں فس کلاس ہے۔ ٹیم خوب پاس کرتا ہے۔“
شاکر نے دلال کے کندھے کو تھپتھپایا۔ اسے پکڑا اور ذرا جھنجھوڑ کر کہنے لگا۔ ”کیوں فجو اور کوئی نیا مال؟ رامی، آج کوئی نیا ماڈل دکھاﺅ۔ اختری، گلزار، حمیدہ، تاجی سب بکواس ہےں۔ نیا دانہ ہے تو دیکھوں گا۔“
دلال نے بنڈل سے چن کر نئی بیڑی نکالی اور سلگائی۔ دو تین لمبے لمبے کش لگا کر چٹکی بجائی اور شاکر کے قریب آکر راز دارانہ انداز میں کہنے لگا۔
”سیٹھ، مال بالکل تاجا، ابھی ابھی لاہور سے آیا ہے۔ مگر سلگ نہیں جائےے گا پندرہ سال کا چھوکری ہے۔ پندرہ سال کا....“
”کیسا ہے؟“
”فس کلاس“
”کون ہے؟“
”سیٹھ یہ تو ہم نہیں جانیں مگر ایک لمبر ہے ....ایک لمبر“
”اس کا جگہ ہے۔“
”سیٹھ جگہ؟.... اس کے مالک نے اپنا کوٹھی لیا ہے۔ اپنا نوکر ہے۔ اپنا چاکر ہے۔ موٹر ہے۔ ایسا ویسا تھوڑا ہی ہے۔ سیٹھ لوگ کے واسط بڑا لوگ ہے۔“
شاکر نے مزید پوچھا۔ دلال نے اور تفصیلات بتائیں اور قدرے لے دے کے بعد شاکر کی کار بُرا لوگ کی کوٹھی پر رُکی۔ دلال نے کوٹھی کا گیٹ کھولا اور دبے پاﺅں اندر چلا گیا۔ برآمدے کی مدھم روشنیوں میں لمے لمبے تاریک سائے ادھر ادھر جانے جانے لگے۔ کچھ کھسر پھسر ہوتی رہی اور دلال نے مخصوص انداز میں سیٹی بجائی اور کہنے لگا۔
”سیٹھ صاحب آئےے۔“
اور شاکر پرانی کوٹھی میں اس طرح داخل ہوا جیسے کہ پرانی جان پہچان ہو یا کسی نے دعوت نامہ بھیج کر ڈنر پر بلایا ہو۔ ڈرائنگ روم کا دروازہ کھلا اور بھاری پھڑپھڑاتے پردوں میں سے تیز روشنیاں نکل نکل کر خیر مقدم کرنے لگیں۔
سامنے صوفے پر دلال کی چھوکری بیٹھی تھی۔ سہمی ہوتی۔ اس کبوتر کی طرح جو اونچی اور پہلی اڑان ہوا اور باز کی جھپٹ کا خوف کھا کر اور پر پھڑپھڑا نیچے آگرا ہو۔ اس کی آنکھوں میں دبا ہوا ڈر اور پسیجی ہوئی دہشت تھی۔ وہ کسی آنے والے خطرے کے احساس سے اپنی ساڑھی کے پلو کو مروڑے جارہی تھی۔ شاکر نے دیکھا تو ایک لمبا سانس لے کر اپنی باون انچ چھاتی کو پھلایا۔ آنکھیں اپنی غاروں سے چمک کر ابھر آئیں، پھڑکتی پلکیں تھرک کر ایک جگہ رُک گئیں اور وہ ناگ کی طرح ٹھٹھک کر اپنے شکار کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کے نتھنے پھولنے لگے۔ ناک پر پسینے کے قطرے اُبھر آئے۔ بھوئیں کھنچ گئیں۔ پیاسی زبان ہونٹوں کو ترکرنے لگی۔ شاکر نے بٹوہ نکال، دو چار نوٹ دلال کے ہاتھ میں دیئے اور ایک گہرا تسلی بخش کھڑکھڑاتا قہقہہ لگایا۔ چھوکری کو بھی آداب محفل کا خیال آیا۔ وہ ساڑھی کا پلو چھوڑ کر کھڑی ہو گئی اور انگلیوں کو مروڑنے اور چٹخانے لگی۔ نائیلون کی باریک ساڑھی کے اندر اس کی مختصر چولی پھولنے، سکڑنے اور ہانپنے لگی۔ امیدوبیم کی کپکپاہٹ سے اس کی طفلانہ آنکھوں میںمعصومیت اور دہشت گڈ مڈ ہو گئی۔ اس نے آنکھیں اٹھائیں اور بچھا دیں۔ پھر اٹھائیں اور سمیٹ لیں۔
”کیا نام ہے تمہارا؟“
”ستارہ“
”بھئی خوب نام ہے اور بڑا پیارا۔ ست تارہ۔“
اتنا چمکتا ہوا ستارہ تو مدت کے بعد دیکھا ہے تمہارے چاند ستارے کس خوبصورتی سے اپنی اپنی جگہ پر ٹکے ہوئے ہےں۔ ان میں ارتعاش اور حدت ہے۔ جلد کتنی ملائم اور تنی ہوئی ہے۔ جیسے کسی نے مخمل خوبصورتی سے کھینچ کر پٹھوں پر منڈھ دی ہو۔ اتنا کھچاﺅ طبلے میں ہوتا تو اس کا بھی چمڑہ پہلی تھاپ پر پھٹ جاتا.... اور یہ بھی خوب ہےں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹینس کے یہ وہ دوبال ہےں جنہوں نے ابھی تک ریکٹ کی ضرب نہیں کھائی اور تازہ دھلی ہوئی شفاف آنکھیں، چمکتے گنگھریالے بال، پیاری سی تنی ہوئی بھوئیں، لرزتے مگر پکے ہوئے رس بھرے ہونٹ....“
شاکر کے بازوﺅں کی مضبوط گرفت میں وہ اس فاختہ کی طرح پھڑپھڑا رہی تھی، جس کے شہپر کسی نے سختی سے باندھ کر مضبوط گرہ لگا دی اور جیسے وہ شکرے کی جھپٹ میں آئے ہوئے پرندے کی طرح، خوف اور اعصابی درد کے باعث پلٹ پلٹ کر رحم اور درگزر کی بھیک مانگ رہی ہو۔ پہلو سے بڑی سے آنکھ کھلی ہوئی پرکار کی طرح دکھائی دینے لگی۔ اندر کا متحوش دبیز ڈھیلا ابھر آیا۔ اوپر کی اٹھی ہوئی اور نیچے کی گری ہوئی خمیدہ پلکوں نے زیادہ اٹھ کر اور مزید گر کر آنکھ کا زاویہ بڑا اور فراخ سا کر دیا۔ ابروئیں کھینچ کر اور تھرا کر رہ گئیں۔ پلکیں اٹھ اٹھ کر اکڑے ہوئے ابروﺅں کو چھونے لگیں۔ شاکر جب اس کا چہرہ الٹتا پلٹتا تو کانوں کی لوئیں سرخ اور لٹکتے ہوئے آویزے دھڑکنے لگتے۔ آنکھ کی پتلیاں سہم کر دائیں بائیں دیکھتیں۔ آنکھیں بے نم اور ہونٹ بے آب اور بے بس ہو کر رہ گئے۔ میں بت بنا بیٹھا تھا اور شاکر کی مصروفیت بڑھتی چلی جارہی تھی۔ وہ گھنٹہ بھر محققانہ انداز میں کل پرزے ٹٹولتا رہا۔ اس کے تقدس کے پہئے مائل بہ نشیب تھے۔ طہارت کی سخت بریکوں کی گرفت ذرا ڈھیلی ہوئی تو ذہنیت کا دباﺅ بڑھااور لپکتے شعلے اور بھڑکتی چنگاریاں رگڑ کھا کر نکلیں۔ ستارہ کی چوڑیاں ٹوٹتی رہیں۔ مانگ بار بار الجھتی رہی۔ لپٹ سک کی رنگ مدھم اور کپڑوں کی شکنیں بڑھتی گئیں۔ شاکر گوریلے کی طرح بپھرتا اور باز کی طرح جھپٹتا رہا۔ وحشت اور درنگی جب اس حد کو پہنچی جہاں مخصوص جگہ کی تلاش ہوتی ہے تو شاکر نے پینترہ بدلا اور ستارہ کو جھٹکا دے کر علیحدہ ہو گیا۔ جیب سے سو روپے کا نوٹ نکال کر ستارہ کے بلاﺅز میں اٹکا دیا اور مجھ سے کہنے لگا۔
وہ الجھی ہوئی پتنگ کی طرح پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ وحشت سے اس کے چہرے کا ایک بال تنا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں چوبی کوئلوں کی طرح دہک رہی تھیں۔ ناک کا پسینہ خشک ہو گیا اور اس کی چھوڑی ہوئی چکناہٹ چمکنے لگی۔ اور وہ بھوکے بھیڑئےے کی طرح کوٹھی سے لڑکھڑاتا ہوا باہر نکلا۔
”شاکر“ وہ لڑکھڑاتا جارہا تھا۔
”شاکر.... میں کہتا ہوں کہ روز کی اس حرام زدگی کا آخر مطلب کیا ہے۔“
”تم نہیں جانتے، اس نے کار کا دروازہ کھولا، سیٹ پر بیٹھا، اور پورے دھماکے سے دروازہ بند کر دیا۔ اس نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے پاکٹ سے چابی نکالی۔ ٹوپی کا زاویہ درست کیا۔ پورا ایکسیلیٹر دے کر کار سٹارٹ کی۔
”میں نہیں جانتا.... مگر میں جاننا چاہتا ہوں۔ تمہاری اس حماقت سے تمہیں کون سا اطمینان اور کیسا سکون ملتا ہے؟“
”یہی تو کہتا ہوں۔“ اس نے نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے چباتے ہوئے کہا۔ ”تم نہیں جانتے تم نہیں جان سکتے۔“
”آج میں مصر ہوں، اور جاننا چاہتا ہوں.... آخر تم ایسا کیوں کرتے ہوں؟“
”خدا جانتا ہے کہ میں بدکار نہیں۔“
”تم ....تم بدکار نہیں تو پھر کیا ہو۔“
”بالکل شریف، تمہاری طرح، بلکہ تم سے بہتر۔“
”بکتے ہو۔“
”یہی تو کہتا ہوں ۔ پاجی کہ تم نہیںجانتے۔“
”تم بدمعاش ہو۔ شاکر تم یقینا بدمعاش ہو۔“ میں نے نفرت کی شدت سے چیخ کر کہا۔
شاکر نے ششدر ہو کر پلٹ کر دیکھا۔ ”میں بہت کچھ ضرور ہوں مگر بدمعاش نہیں .... شاکر بدمعاش نہیں، عورتیں کرائے پر لے کر ٹٹولتا ہوں اور مزید کچھ بھی نہیں کر پاتا.... اور تمہیں حیریت ہوتی ہےں۔
اس نے رومال نکالا، ناک سے چکناہٹ اور آنکھوں سے نمی پونچھی ، پلکیں جھپکائیں اور اس کی طنزیہ ہنسی ایک زور دار قہقہہ بن گئی۔ اس نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور میری ران پر زور دار ہاتھ مارا۔ ”بھیا! کرائے کی عورتیں ڈھونڈتا ہوں، ان سے مل کر ازدواجی وحشت خریدتا ہوں۔ انہیں ٹٹولتا ہوں۔ اس سے میرا دبا ہوا جنسی رجحان بڑھتا ہے۔ ان سے لپٹ کر میری اشتہا زور پکڑتی ہے۔ یہ میرا فراز اور ذہنی اضطراب ہے۔ اس سے اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہوں۔“ اس نے ٹوپی کو پیچھے سے دھکیل کر پیشانی پر بڑھا دیا اور اس کا زاویہ ٹیڑھا کرتے ہوئے کہنے لگا۔ ”اور تم تو جانتے ہی ہو کھانا صرف اس وقت مزہ دیتا ہے جب بھوک اور گرسنگی انتہا پر ہوتی ہے، دیکھو! اب میں گھر جاﺅں گا۔ اور بند دروازوں پر چیخوں گا۔ ان پر مکے ماروں گا۔ دروازہ کہتے ہی سیدھا بیڈ روم کی طرف جاﺅں گا اور اس کی چوکھٹ پر دیوار بن کر کھڑا ہو جاﺅں گا۔ میرے بازوﺅں میں دست پتہ ایسی گرفت ہو کی اور پھر وہ پرکار کی طرح گھومیں گے اور .... اس نے ہونٹ دانتوں تلے دبا لئے اور ایک بڑا ہی گہرا سانس لے کر چپ ہو گیا۔
”اور پھر“
شاکر خاموش تھا۔
”بولو پھر کیا ہوتا ہے۔“
”بھوک جب شدت پر ہوئی ہے۔“ شاکر تھوک نگلتے ہوئے کہنے لگا۔ ”تو کھانا اپنے گھر پی ہی کھاتا ہوں۔“
میں نے سپیڈو میٹرکی طرف دیکھا تو ساٹھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں