بھالو ....تحریر حاجرہ مسرور
آج جمعرات تھی۔ ابھی چراغ بھی نہ جلے تھے۔ اللہ رکھی گلابی چھسیٹ کا لہنگا، مہین ململ کا کرتا پہنے اور سر پر ہرا دوپٹہ حجنوں کی طرح لپیٹے، آج بھی سیلیپریں گھسیٹی درگاہ میں حاضری دینے نکلی لیکن ایسی بے تابی سے کہ انوری اس کی تیزی کا ساتھ نہ دے سکی۔ مٹکی برابر پیٹ، اس پر دل کی پیاس کا سوٹ، شلوار پیٹ پر ٹکتی ہی نہ تھی۔ پیروں پر وہ سوجن کہ کبھی کبھار پاﺅں میں پڑنے والی گرگابی سے پیر تو جیسے گوشت کا بوٹا ہو کر ابلے پڑتے۔ گھر سے دوقدم پر تو درگاہ تھی مگر معلوم ہوتا کالے کوسوںکی بات ہے۔ مٹھی میں چراغی کے چار پیسے اوردوسری ہتھیلی سے ملیدے کی طشتری، یوں منوں کا بوجھ نہ معلوم ہوتی۔ اگر اللہ رکھی کی چال پر ایسی منہ زور جوانی نہ آئی ہوتی۔
انوری نے ہانپتے ہوئے سوچا، سب اپنے کام سے کام رکھتے ہےں، ذرا خیال نہیں کرتے۔ اب جیسے اماں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ میں بھی ساتھ ہوں۔ یہ سوچتے ہی اس کے رویں رویں سے کوئی شے کھول کھول کر سر تک آئی پھر دو ننھے ننھے قطروں کی صورت میں آنکھوں میں پھیل گئی۔
لیکن یہ قطرے اس وقت بھاپ بن کراُڑ گئے جب اس نے دیکھا کہ اللہ رکھی مزار شریف کے پائنتی پر کھڑی تمباکو سے پیلی ہتھیلیاں پھیلا پھیلا کر روتے ہوئے کہہ رہی ہے۔ ”میاں! اے میرے میاں! پھر یاد سن لو میری۔ حرام جادی پھر بھاگ گئی۔ میں تو تمہی سے لوں گی اس حراپھا کو، میاں اے میاں! ”فرط احترام سے، وہ چھانٹ چھانٹ کر کم سے کم روزمرہ“ میں اپنا دکھڑا میاں کی درگاہ میں پیش کر رہی تھی۔
انوری کا دل بھی غوطہ سا کھا گیا مگر کھل کر روتی کیسے۔ درگاہ تو درگاہ ہے۔ لوگ ادھر ادھر کھڑے تھے۔ یہی لوگ بعد میں آکر چھیڑتے۔ نظریں نیچے کئے کئے ملیدے کی طشتری اور چراغی کے پیسے مزار کے مجاور احسان اللہ میاں کے حوالے کئے جو انہوں نے پھرتی سے مزار کے طاق میں چڑھادیئے۔ چڑھاوے کے ساتھ ہی اللہ رکھی اور بھی بکھر گئی۔ ایسا بلک کر روئی کہ انوری کے آنسو بھی بہہ نکلے۔ سویرے سے بھوکی بھی تو تھی۔ صبح محمد و قصائی بچے کھچے چھیچھڑے اور ہڈیاں کاغذ میں لپیٹ لایا تھا جو پک کر بھی نظر میں نہ سمائے۔ پھر پہلوان سے جو بچے، وہ اللہ رکھی اور بچوں کے نیگ لگے اسے بالشت بھراونچے شوربے میں ایک ہڈی ڈوبی ملی۔ وہ بھی چھوڑنے کو جی نہ چاہا۔ ان دونوں گوشت تو اسے یوں بھی اچھا نہ لگتا۔ سویرے سے کیسا کیسا جی ہو رہا تھا کہ ایک کھٹی نارنگی چوس لے مگر ان دنوں اس کی فرمائش آج کل ہی پر ٹلتی رہتی۔ حد تو یہ ہے کہ صبح چولہے کی مٹی کھانے کو جی مچلا ایک ذرا سی کھرچی تھی کہ اللہ رکھی ڈکاری۔ ”اری ناس پٹی! چولہا ٹھونسے لیتی ہے، تیرے یار آکر چولہا بنائیں گے؟“
انوری نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھ ڈالے اور اللہ رکھی کی بانہہ پکڑ کر باہر لائی۔ میاں احسان اللہ ایک طویل ٹھنڈی سانس لے کر بولے۔ ”نہ رو بھئی زمانہ ہی بُرا ہے۔ اولاد ماں سے سرتابی کرکے کبھی سرخرو نہیں ہو سکتی۔ انوری! اللہ رکھی کو سمجھاﺅ نا! رپٹ لکھا دو تھانے میں، جہاں ہو گی، پکڑ آئے گی سالی۔“
خوب، تو گویا اللہ رکھی اب میاں احسان اللہ سے عقل سیکھے گی۔ وہ تو اسی دن رپورٹ لکھا چکی تھی، جس دن بھالو غائب ہوئی۔ داروغہ جی نے پہلے تو اللہ رکھی کو فراشی سنائیں مگر جب اللہ رکھی نے ہاتھوں سے چاندی کے کڑے اتار کر ان کے قدموں پر رکھے تو کہیں جاکر کچھ دھیمے پڑے۔
داروغہ جی کا غصہ کم ہونے کی ایک اور وجہ بھی تھی جو اللہ رکھی کے علاوہ اور سبھو کو بھی معلوم تھی لیکن کس کے سر پر اتنے بال تھے جو یہ بات زور سے کہہ سکتا؟
اس وقت جب وہ چھوٹے سے اجڑے مارے قصبے کے واحد کھلے بندوں طوائف گھرانے کی طرف سے رپورٹ سن رہے تھے اور گالیاں بک رہے تھے، گھر سے ملازم چھوکرا نکلا اور کہا۔ ”اندر بلاتی ہےں۔“
اندر پہنچے تو نازک بدن سنگھار پٹار سے لدی ہوئی بیگم تھانے کی طرف کھلنے والے دروازے سے لگی غصے سے تھر تھرکانپ رہی تھیں سرمگیں آنکھوں میں آنسو۔ داروغہ جی کو دیکھے ہی تڑپ کر بولیں۔ ”اللہ سے کچھ تو خوف کھاﺅ کیوں بے قصور نگوڑی بڑھیا کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے۔ یہ نہیں سوچتے کہ اپنے ہی دام کھوٹے تو پر کھنے والوں کا کیا دوش، کئی دن سے قدیر میاں جو رات رات بھر غائب رہتے ہےں۔ ایسے ننھے بن گئے کہ سمجھ ہی میں نہیں آتا۔“ یہ کہتے کہتے آواز بھرا گئی۔ رکی رکی آواز میں کہا۔ ”بھئی واہ، خوب خاندان کا نام روشن ہو رہا ہے۔ بڑے بھائی ہو کر اتنا بھی نہیں کرسکتے کہ .... آج تک ہمارے گھرانے کے لڑکے رنڈیوں منڈیوں کے پیچھے بھاگے ہےں بھلا؟“
اس پر داروغہ جی گھبرا گئے، ہکلا گئے۔ کانپتے ہوئے کہنے لگے۔ ”ارے بھئی کیسے کہہ سکتی ہو کہ بھالو کے معاملے میں قدیر میاں.... وہ مجھے تو یقین نہیں آتا۔“
”اچھا ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔ آج ہی قدیر میاں کا پیچھا کرکے دیکھ لو۔ ارے میں تو قدیر میاں کی آنکھیں پہچان لیتی ہوں۔ ہاں نہیں تو۔“ اتنا کہہ کر بیگم جھاگ جیسی سفید چاندنیوں سے ڈھکے ہوئے تختیوں والے کمرے میں کھسک لیں اور گاﺅ تکئے سے ٹک کر بیٹھ رہیں۔ اس ادا سے داروغہ جی نے سمجھ لیا کہ بیگم اپنی بات سے ایک انچ بھی ادھر ادھر، ہونے والی نہیں اور وہ دل وجان سے ان کی بات تسلیم کرتے ہوئے تھانے میں پہنچ گئے۔ رپورٹ رجسٹر میں درج نہ ہوئی۔ اپنی عزت کا معاملہ تھا۔ داروغہ جی نے چپ چپاتے بھالو کو برآمد کرنے کا تہہ کر لیا تھا۔
لیکن بے چاری اللہ رکھی کو اس کا کیا علم ہوتا۔ اس کے کلیجے میں تو آگ بھڑک رہی تھی، بچھڑی ہوئی سارسنی کی طرح ڈول رہی تھی، ہر طرف منہ اُٹھا کر پکار رہی تھی۔ ”اری بھالو! تجھے موت کیوں نہ آگئی۔ کیسے دکھوں سے پالا، خود اچھا نہ کھایا، تجھے کھلایا۔ پال پال کر سانڈ کر دیا۔ ارے ان بالشت بالشت بھرکی چھیچھڑوں کے سامنے کمائی کو کمائی نہیں سمجھا۔ آنے جانے والوں کی بغل سے اُٹھ اُٹھ کر دودھ پلایا اور باتیں سنیں۔ یہی تو زندگی کا آسرا تھیں اور اب جب بڑھاپا آیا تو دُنیا یوں اندھیرا ہو گئی۔ انوری فرماں بردار سہی پر کتیا کا جنم لے کر آئی تھی۔ بچوں پر بچے، لاکھ لاکھ علاج کرو۔ پچاسوں روپے جینا دائی کھا گئی مگر بات نہ بنی اور بچی بھالو، جو برُے وقت میں ماں کا سہارا بنتی۔ اس کا یہ حال کہ آئے دن کم بخت ماری لونڈوں لاڑیوں کی طرح گھر سے بھاگ رہی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ رکھی کسی کے گھر برتن مانجھ کر پیٹ پالے؟ “ اپنا ہی پیٹ ہوتا تو خیر مگر یہاں تو کھانے والے کتنے تھے۔ اللہ رکھی، پہلوان، انوری کے تین لڑکے اور پھر انوری بھی تو۔ اب ایسے دنوں میں جب اُٹھتے بیٹھتے میں بے چاری کی سانس پھولی تو اسے کوئی کہاں دھکیل دیتا۔ پورے دنوں سے بیٹھی تھی۔ چہرہ ایک دم سفید کھریا مٹی، ہونٹ نیلے، آنکھیں مارے نقاہت کے خالی خالی۔ اس پر سے اس کا چھوٹا بچہ ابھی تک خالی چھاتی چچوڑنے سے باز نہ آتا تھا۔ ساری جان کھینچنے لگتی۔ ابھی دو ایک مہینے پہلے تک وہ ہنس بول کر کسی کسی سے اٹھنی چونی تو جھٹک ہی لیتی مگر اب تو اسے مارے بوجھ کے ہنسی تک نہ آتی تھی اوراس زمانے میں بھالو پھر چلتی بنی۔
”ہائے، سچ مچ برُا زمانہ لگا ہے۔ نفسی نفسی ہے، یہ قرب قیامت نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ بھالو حرام زادی میری کمائی پر پل پل کر جوان ہوئی اور جب احسان چکانے کے لائق ہوئی تو حرافہ ہماری کٹی انگلی پر موتتی بھی نہیں۔ تگڑے تگڑے یاروں کے پیچھے بھاگتی ہے۔ ارے کیا ہم کبھی اس کی عمر کے نہیں تھے، کبھی پیسے کے سوا کسی سے کوئی لالچ نہیں کی اور ....یہ بھالو ہے۔ ارے کیا یہ بھالو جانتی نہیں کہ انوری کسی کی کمائی کھانے والی نہیں۔ بس یہ مجبوری کے دن سدا تھوڑی رہیں گے۔ یہ وقت نکل جاتا تو اپنی جوانی کا صدقہ، اسے سال بھر بٹھا کر روٹی کھلا دیتی۔ پر اسے میرا خیال کہاں؟ انوری درسگاہ سے واپسی پر رینگ رینگ کے چلتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ اجڑے قصبے کا جڑا بازار اس وقت چراغوں اور لائٹوں کی روشنی میں کچھ چمک گیا تھا۔ کئی لوگوں نے انوری کو یوں چلتے دیکھ کر آواز بھی کسی اور انوری شرم سے پانی پانی ہو گئی۔ اس نے چپکے سے آنکھ اٹھا کر دیکھا۔ اللہ رکھی سیلیپریں گھسیٹتی، گلابی چھینٹ کا لہنگا گھماتی گھر کے دروازے میں غائب ہو گئی اور انوری پھر کھول اُٹھی۔ سچ ہے، کسی کو کسی کا خیال نہیں۔ اب اماں کو نہیں معلوم کہ میں بھی ساتھ ہوں اور یہ دل کی پیاس کی شلوار بھی تو مصیبت ہے۔ انوری کا جی چاہا کہ بیچ بازار میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اس بات پر خوب روئے پر وہ رو نہ سکی۔ بس چکرا کر ایک دکان کے پٹے سے لگ کر آنکھیں بند کر لیں۔
”اے ہے! نوری! یہاں کیوں رک گئیں، گھر چلو۔“ کسی نے دھیرے سے کہا۔ انوری نے پسینے میں ڈوبے ڈوبے ایک ذرا آنکھیں کھولیں۔ یہ غالباً حفیظ تھا۔ نہیں، یہ یقینا حفیظ تھا۔ یہ نرمی حفیظ کے سوا کس کے ہاتھ میں ہو سکتی ہے؟ اس نے کمر میں درد کی لہر محسوس کرتے ہوئے آنکھیں تھوڑی سی کھول کر سوچا اور پھر اپنا بازو حفیظ کے نرم ہاتھ میں پکڑائے اپنے گھر میں داخل ہوئی اور انگنائی میں پڑی ہوئی کھاٹ پر دھم سے گر پڑی۔ گھر میں بھی ذرا دیر کو سکون نہ ملا۔ اللہ رکھی اور پہلوان گھریلو اور بازاری سیاست پر زور شور سے تبادلہ خیال کر رہے تھے۔
”اے خالہ! ذرا انوری کو دیکھو۔ اس کا جی بگڑ رہا ہے۔“ حفیظ غالباً زندگی میں پہلی مرتبہ کڑی آواز میں بولا۔
”اللہ کھیر کریو، میاں حجور کا صدکہ۔“ اللہ رکھی جھپٹ کر انوری کے قریب آئی اور جھلنگی کھاٹ میں انوری کا ڈوبا ہوا جسم ٹٹولنے لگی۔ ”جینا وائی کو بلاﺅں بیٹا؟“
”ایں نہیں، بس اب ٹھیک ہے جی۔“ انوری نقاہت سے بولی اور اللہ رکھی لمحے بھر رک کر پھر اپنے مورچے پر جا ڈٹی۔ چھپریا تلے بنے ہوئے چولہے کے پاس لہنگا پھیلا کر بدستور بیٹھ گئی۔ چلم ہتھیلیوں میں ایک خاص زاوےے سے دبا کر ایک دو زور کے کش لئے۔
حفیظ بیڑی سلگاتا چلا۔”خالہ! میں دکان پر چلا، پھر آﺅں گا۔“
اللہ رکھی نے جواباً ایک دو کش اور لئے ”اس بار لونڈیا آتی دکھائی پڑے ہے۔ پورے دن پھر رہے ہےں۔“ اللہ رکھی نے روٹھے ہوئے پہلوان کو خوش خبری سنائی۔
”ہاں، لے ٹھینگا۔ ہوئی نہ لونڈیا۔ دیکھ لیجو۔ پیساب سی مونچھ منڈا دوں جو پھر لونڈا نہ جنے۔ چھاتی پر چڑھ کر کمائی کھائیں گے کتے کے بچے۔ تین کیا کم ہےں جو چوتھا بھی گھر دیکھ رہا ہے۔ پتریا جات شرم نہیں آتی، شریف جادیوں کی طرف لونڈے جنتے۔“ پہلوان اپنی پنڈلیوں پر تیل کی مالش کرتے ہوئے ڈکارا۔
”چل رہنے دے نکھٹو! لونڈے ہوں یا لونڈیاں تیری کمائی تھوڑے کھائیں گے۔“ اللہ رکھی کا پارہ ایک دم چڑھ گیا۔ ”ارے ہاں، کم بخت کی ناک بھوں ہر وقت چڑھی رہتی ہے۔ جیسے سچ مچ کا خاوند ہو۔ کھا کھا کے ساری کمائی اڑا دی کم بخت نے۔ ہے دو کوڑے کا نہیں، نخرے لاکھ روپے کے۔“
”ہوں، بڑی کمائی ہے تیرے گھر، خود تو دو کوڑی کی نہیں۔ ایک لونڈیا کتیوں کی طرح سال پیچھے جننے، بیٹھ جاتی ہے، دوسری مستانی ہاتھی ہو رہی ہے۔ کمائی کے نام دھیلا نہیں۔ بھاگ بھاگ کر تبرک کی طرح بٹتی ہے۔ تو بھی جوانی میں ایسی ہی ہو گی۔ بیٹی ماں پر جاتی ہے۔“ پہلوان نے چیخ چیخ کر کہا۔
”کہے، دیتی ہوں، زبان روک لے۔ لو بھلا، میں کیوں ایسی ہوتی۔ جو ماں نے کہا، وہ کیا۔ مجال ہے جو کبھی کسی سے مان کی مرضی کے بغیر ہاتھ بھی چھوایا ہو۔ اب تو زمانہ ہی برا ہے، اس میں کسی کا کیا دوس۔“
”دوس (دوش) کیوں نہیں۔ اری تو نے کسی میرے جیسے کے پاس ایک بار رکھا ہوتا تو ساری منہ جوری (زوری).... اونٹ پہاڑ تلے آئے تو بلبلانا چھوڑ دے۔ میں نے کتنی بار کہا کہ“ پہلوان کے منہ پر دل کی بات آگئی۔
”بس بس، سرم گھول کر پی گیا۔ لے بھلا، کوئی دیکھو تو سہی، ہائے مری ماں!“ اللہ رکھی چلم چولہے میں اوندھا کر بے بسی سے رو پڑی۔
سچ مچ رونے کی تو بات تھی۔ جب لوگ سارے قاعدے قرینے پاﺅں تلے روندنے کو تیار ہو جائیں تو پھر بےچاری اللہ رکھی اور کرے بھی کیا۔ دو دن سے پیسے کوڑی کی صورت نظر نہ آئی تھی۔ آج تو پنساری نے آٹا دال بھیادھار نہ دیا تھا، بھالو جو بھاگی ہوئی تھی۔ اب اس میں بے چارے پنساری کا بھی کیا قصور۔ جب گروی رکھنے کو چیز ہی نہ ہو تو پھر ادھار کوئی کس برتے پر دے؟ ادھر تو پیٹ کی ہائی دیا پڑی، ادھر پہلوان پر پہلوانی سوار۔ اللہ رکھی چھیریا تلے بیٹھی بڑے درد سے آنسو بہار رہی تھی۔ اچھا خاصا اندھیرا ہو گیا تھا۔ ابھی تک گھر میں چراغ بھی نہ جلا تھا۔
پہلوان محاذ پر خاموشی دیکھ کر لال لنگوٹ پر تہبند باندھتا ہوا باہر نکل گیا۔ آج یہاں روٹی کا آسرا نہ تھا۔ پھر بیٹھ کر کیا کرے؟ اس بے رخی پر اللہ رکھی اور بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ایک زمانہ وہ تھا، ایک زمانہ یہ ہے، اللہ رکھی نے روتے ہوئے سوچا۔ اما بوڑھی ہو چکی تھیں، دانت ٹوٹ رہے تھے۔ پرخیرو کافی ٹاٹھا تھا۔ اس کی بیاہتا کے گھر دو سال پہلے ہی بچہ ہوا تھا مگر اللہ اللہ کیا وضہ داری تھی۔ اس زمانے میں اللہ رکھی کی جوانی پکے پھوٹ کی طرح کھل رہی تھی مگر مجال ہے جو خیروقصائی نے کبھی اللہ رکھی کی طرف ایسی ویسی نظر ڈالی ہو۔ بیٹی کہہ کر پکارا اور بیٹی ہی سمجھا اور ایک یہ پہلوان ہے، کھانے چاٹنے کو آگے آگے۔ نام کرے اللہ رکھی سے یاری کا اور نظر رکھے اس کی بیٹی بھالو پر۔ آگ لگے ایسے زمانے کو، نیتیں سلامت نہیں رہیں۔ جبھی تو ہر چیز سونے کے بھاﺅ ہو گئی۔ جوان جوان لڑکے کے قصبے سے بھاگ لیتے ہےں۔ کبھی برس دو برس میں فوجی سپاہی بن کر آتے ہےں یا پھر کسی مل کے مزدور تو ناک بھوں چڑھاتے ہےں۔ جو اس اجڑے دیار میں رہ گئے تو سمجھو، دور اندیش ہےں۔ اللہ رکھی کے گھر قدم رکھتے ہےں تو پیسے پیسے پر تکرار کرتے ہےں۔ نہ کوئی انعام، نہ کوئی تحفہ قصبے میں سچ پوچھو تو اب ایک اللہ رکھی ہی کا گھر مشکل کشائی اور حاجت روائی کا منبع نہ تھا۔ اب تو چوری چھپواں کیوں کے گھر فیض جاری تھا۔ ہائے، دوسروں کے پیشے میں گھستے، دوسری کے پیٹ پر لات مارتے شرم نہیں آتی لوگوں کو۔ اماں نانی کے زمانے کا بنا ہوا مکان جگہ جگہ سے نمک لگ لگ کر گر رہا ہے۔ اتنا نہیں کہ دو نئی اینٹیں لگ جائیں۔ ارے جس کی دو بیٹیاں پہلے زمانے میں ہوتیں تو سمجھو کہیں کی مہارانی اور اب دو بیٹیوں کے ہوتے بھکارن سے بدتر! آٹا روپے کا دوسیر نہیں جڑتا۔ اس پر ایک جنم جلی سرے جلوﺅں والی شریف زادی کی طرح سال پیچھے بچہ جنتی ہے اور دوسری آگ لگی دوسروں کے پیچھے چھچھوندر کی طرح ....پھرتی ہے اور یہ پہلوان بس کم بخت روٹیاں ٹھونسنے بیٹھ جاتا ہے۔ اس سے کیا کوئی عیش اٹھائے۔“ اللہ رکھی امنڈ گھمنڈ کر آنسو برسانے لگی۔
”اری بھالو،! تو مر جائے۔ کسی کوے کتے کی آئی تجھے آجائے تو میری کلیجے میں ٹھنڈک پڑ جائے۔ اری بھالو! چمچاتی کھٹیا نکلے۔ اری میا میری، یہ اولاد تو میرے لئے سانپ بچھو ہو گئی ری میا۔“
اور اسی لمحے تین عدد اولاد گھر کے اندھیرے میں چیں پیں کرتی گھسی، اللہ رکھی کا رونا پیٹنا سن کر ٹھٹکی۔ کسی نے کیچڑ سے لت پت کرتے سے ناک پونچھی، کسی نے آنکھ اور کسی نے منہ۔ اولاد بڑی آسانی سے سمجھ گئی کہ اس وقت کھانا ملنے کی اُمید نہیں اور پھر سب نے اکٹھا رونا شروع کر دیا۔ چھوٹی چھوٹی پرانی اینٹوں کی گرتی ہوئی دیواریں ایک دم بھیانک سی لگنے لگیں۔ آسمان پر ایک تارہ چمک کر ٹوٹا۔ انوری ہول کر چیختی اے ہے اماں بچیوں والے گھر میں شام کو نہ رو۔ اور اس نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کر سب سے چھوٹے بچے کو گھسیٹ لیا جیسے وہ اسے کہیں بھاگنے سے روک رہی ہو۔
اللہ رکھی اس مداخلت بے جا پر سانپ کی طرح پھن پھنا کر اُٹھی۔ ”کیا کہا تو نے؟ لو یہ اور آئی حرام زادی بچوں والی۔ اری یہ چونچلے تجھے نہیں سجتے۔ سرم ہوتی تو ڈوب مرتی کسی تلیا میں۔ ایک تو حرامی پلوں کی پھوج کھڑی کر دی۔ اس پر سے صدر کے کروں اس پھوج کو۔“
انوری غریب سدا کی نازک، کم سخن اور فرماں بردار مگر اس وقت تو وہ بھی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ”بس بس! کھبردار تو میرے بچوں کو کوسا، واہ جرا کھیال نہیں میرے بچے کسی کی روٹی نہیں توڑیں گے، اپنی جوانی کا صدکہ تمہیں بہت کھلایا۔ اپنی جان کو جان نہیں سمجھا۔ بیماری دکھی میں بھی کمائی سے منہ نہیں موڑا اور تمہاری مٹھی گرم کی۔ کوسنا ہے تو اس حراپھا کو کوسو، میرا نام لو گی تو میں اپنے بچوں کو لے کر کہیں منہ کالا کر جاﺅں گی۔ اللہ کی جمین بہت بڑی ہے۔ جہاں بیٹھوں گی، روکھی سوکھی کما کھاﺅں گی۔ پھر دیکھیں گے تم بھالو کو کیسے میری طرح دبالو گی۔“
انوری کی اس خوف ناک دھمکی کے بعد خدا جانے اللہ رکھی کیا طوفان اٹھاتی مگر خیر ہوئی کہ اس وقت بازار کے بہت سے لوگ ایک لال پگڑی کے پیچھے پیچھے اندر گھس آئے اور پھر کسی نے بڑھ کر چراغ روشن کر دیا۔ یہ حفیظ تھا۔ وہی شلوار اور سرمئی ریمشی قمیص اور وہی تیل میں چپڑے ہوئے پٹے۔ سرمے سے لبریز آنکھیں اور پان سے سرخ ہونٹ۔ انوری کو بے تکا سا خیال بجلی کی طرح کوند کر آیا، ارے یہ تو موا حفیظ دوستی دوستی میں ہمارے گھر گھس کر ہمارے گاہک اپنے واسطے پھنسانے آتا ہے۔ توبہ، حفیظ کو انوری کے اس خیال کا پتہ لگتا تو اس کے خلوص کو کیسی ٹھیس لگتی۔ اسے یہی کرنا ہوتا تو کم بخت پنواڑی کی دکان سے سرکیوں مارتا۔ ”اے خالہ! بھالو آگئی۔ مبارک“ حفیظ خوشی سے چہک کر بولا۔
اور اسی وقت مجمع میں گپ شپ شروع ہو گئی۔ بھالو کو مجمع کے بیچ سے دھکیل کر تھانے کا سپاہی سامنے لایا۔ ہاتھ رسی سے کس کر بندھے ہوئے، ململ کی وہی نئی ساڑھی وہ بھاگنے کے دن پہنے ہوئے تھی۔ پیٹی کوٹ کے بجائے سرخ رنگ کا جانگیا اور وہی چھوٹی سی کرتی مگر ہر چیز کیچڑ میں لت پت اور نچی کچی۔ حبشیوں جیسے سخت گھنگھریالے بال، جھونجھ کی طرح کھوپڑی پر چھائے ہوئے۔ جیسے اس نے سبھوں سے خوب ڈت کر ہاتھا پائی کی ہو مگر اب اماں کے سامنے نظر نیچی کئے کھڑی رہی تھی۔ مارے تن درستی کے جھومتے رہنا اس کی عادت تھی۔ جبھی تو سب اسے بھالو کہتے تھے۔
”آگئی۔“ اللہ رکھی نے اپنے اور بھالو کے درمیان ایک ایسی قطار سی سڑی سڑی گالیوں کی کھڑی کر دی اور پھر ”چل اندر“ یہ کہہ کر اس نے بھالو کا ہاتھ پکڑا اور کوٹھری میں دھکیل کر کنڈی چڑھا دی۔ چلو قصہ ختم مجمع بڑا مایوس ہوا، ذرا بھی تو گرما گرمی نہ پیدا ہوئی۔ لیکن اللہ رکھی کی تجربہ کار نگاہیں سمجھ گئی تھیں کہ اس وقت لوگ باتیں کرنے سننے کے موڈ میں ہےں۔ ہاں بھئی، کسی کا گھر جلے اور کوئی تاپے۔ اچھا تاپنے نہ دیا ہو بھلا۔ اللہ رکھی تیوری چڑھائے چولہے کے پاس گئی اور چلم بھرنے لگی۔
”جنگل میں مانک پور کی طرف جاتی ملی۔ میں نے پکڑ لیا۔“ سپاہی مونچھوں پر تاﺅ دے کر بولا۔ اللہ رکھی چلم بھرتی رہی۔ ”اب باندھ کر رکھو مادر............ کو۔ اب کبھی چیں پیں کرے تو مجھی بتانا۔ ساری مستی مار مار کرنکال دوں گا۔“
پنساری ٹانگ کھجا کر بولا۔ ”بھائی! اللہ رکھی کم مار دیتی ہے؟ پچھلی دفعہ بھاگی تھی تو تین دن کھانا نہیں دیا۔ زنجیر میں باندھ کر رکھا۔ پہلوان نے جوتے مارے ....سو الگ، بالکل سیدھی ہو گئی تھی مگر پھر تھوڑے دن میں بھاگ لی۔ کیوں اللہ رکھی؟“
اللہ رکھی اطمینان سے ٹھمکتی آئی اور چلم سپاہی کو پکڑ دی اور خود انوری کے بچوں کو لے کر مٹکتی ہوئی چھپریا تلے بیٹھ کر چولہا سلگانے لگی۔ مطلب یہ کہ دربار خاست کھانے پکانے کا وقت ہے۔
لوگوں کو کیا پڑی تھی کہ اپنا ہرج کرتے۔ایک ایک کرکے کھسک لئے۔ سپاہی نے بیٹھ کر تمباکو کے دو کش لگائے۔ انوری یا تو اب تک مٹی کے مادھو کی طرح بیٹھی تھی۔ سپاہی کو اپنی طرح دیکھتے پاکر دوبارہ جھلنگا کھاٹ میں ڈوب گئی۔ اس کا چھوٹا بچہ دودھ چچوڑے جارہا تھا۔ سپاہی نے اکتا کر گوبر جیسی بے مزہ تمباکو کے دو ایک کش اور لئے۔ قطعی گھریلو فضا تھی وہاں۔ وہ زیادہ دیر نہ ٹکا۔ چلتے چلتے سوچا، آہا بھالو ہے بڑی مزےدار۔کل ، پرسوں اللہ رکھی سے بات کروں گا۔
سپاہی کے جانے کے بعد اللہ رکھی لہنگا جھاڑ کر اٹھی اور باہر نکل گئی اور جب چند منٹ بعد واپس آئی تو دوپٹے کے پلو میں ارہر کی کھچڑی بندھی ہوئی تھی۔ چولہے کے پاس بیٹھے ہوئے بچوں کی آنکھیں آگ کی روشنی میں چمک اٹھیں۔ انوری اور اللہ رکھی میں کوئی بات نہ ہوئی۔ انوری کو انگنائی میں ٹھنڈ لگ رہی تھی اور نیند بھی آرہی تھی مگر وہ جائے کہاں۔ چپریا تلے اللہ رکھی اور کوٹھری میں بھالو۔ اس وقت تو اسے سبھی سے نفرت ہو رہی تھی۔ وہ چپ چاپ پڑی اونگھتی رہی۔ رات کافی گزر چکی تھی۔ ”او انوری! اٹھ یہ کھالے۔“ اللہ رکھی تام چینی کی پلیٹ میں بڑے سلیقے سے کھچڑی لئے حاضری ہوئی۔
”نہیں کھانا۔“ انوری کی ناک میں گھی کی خوشبو آئی۔ اس نے جبر کرکے کروٹ بدل لی۔
”کھالو انوری!“ حفیظ عطر میں مہکتا پٹی پر بیٹھ گیا۔ ”اے ہے، بےچاری خالہ نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا، تم کھالو تو۔“
مگر حفیظ کا صلح کا جھنڈا انوری نے پیروں تلے روند دیا۔ ”نہیں، مجھے دوسرے کی کمائی سور حرام ہے۔ اب تو میں اس گھر میں نہیں رہوں گی۔“ انوری نے زور سے کہا۔ پلیٹ میں کھچڑی پر رکھی ہوئی آم کی اچار کی پھانک بھی کتنی ظالم ہوتی ہے۔ انوری نے منہ کا پانی نگل کر دوسری طرف کروٹ بدل لی۔
”اری تو کہیں نہیں جائے گی، اب چھوڑ، تجھے کھانا ہے، سوکہنے سے کھا لے“ حفیظ اسے اٹھانے لگا اور اس وقت اسے حفیظ زہر لگا۔ آخر یہ کیوں ہمارے پھٹے میں پاﺅں اڑاتا ہے۔ موا پنواڑی اپنی دکان سنبھالے جاکر۔ انوری نے بگڑ کر سوچا۔ وہ حفیظ کے اور اپنے گھرانے کے گہرے ہمدرانہ تعلقات یکسر بھلا بیٹھی تھی۔
مگر حفیظ نے جو کہا، وہ سچ ہی تھا۔ اسے کہیں نہیں جانا تھا اور کھانا تو بہرحال کھانا ہی ہے انسان، پھر جب کہ آم کا اچار ہو۔ آخر وہ نیند کے جھونکوں میں پلیٹ صاف کرکے چھپریا تلے بچھے ہوئے اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ پہلوان چولہے کے پاس اکڑوں بیٹھا کھچڑی کے بڑے بڑے نوالے نگل رہا تھا۔ انوری کو دیکھ کر اس نے بھالو کی جنس کے بارے میں کچھ گفتگو چھیڑی مگر انوری تو سو بھی چکی تھی۔ پہلوان سچ کہتا تھا، انوری تو تھی ہی سدا کی مٹی۔ پتہ نہیں، ایسی مٹی پر کون اپنے دام پھینک جاتا ہے۔
آدھی رات کے قریب جب آسمان پر ستارے جگمگا رہے تھے اور انگنائی شبنم سے بھیگ رہی تھی تو بے چارہ حفیظ اللہ رکھی کے مشورے کے مطابق کھچڑی کی پلیٹ اور چراغ لے کر بھالو کی کوٹھری میں پہنچا۔
بھالو زمین پر پڑی مزے سے سو رہی تھی۔ اس کے ہاتھ اب تک رسی میں جکڑے ہوئے تھے۔ ململ کی ساڑی گھنٹوں سے اوپر تھی اور سرح جھانگیا رانوں پر بالکل فٹ تھا۔ حفیظ کو ہنسی آگئی۔ کیسی جنگلی ہے یہ بھی۔ رنڈیوں کو مردوں کی کیا کمی پھر بھی مردوں کے پیچھے بھاگتی ہے۔ سچ کہتا ہے پہلوان، اس کےلئے تو سچ مچ بھالو ہی ہو مگر بے چاری اس کی خاطر کتنی بدنام ہے، کتنے جوتی کھاتی ہے۔ کئی بار تھانے میں بھی پٹی۔ ہزار بار توبہ کی مگر کیا پھر وہی۔اللہ، یہ کیسی آگ کی بنی ہوئی ہے؟ حفیظ کے دل میں ہمدردی اور حیرانی کی ایک ملی جلی سی لہر اٹھی اور اس نے چراغ طاق پر رکھ کر بھالو کو جگایا۔ بھالو نے لال لال آنکھیں کھول دیں۔ ”بھالو! یہ کھالے، خالہ سے چرا کر لایا ہوں۔“
بھالو مٹی کیچڑ میں سنے ہوئے ہاتھوں سے کھچڑی کھانے لگی۔ حفیظ اپنی سفید شلوار سمیٹ کر اکڑوں بیٹھ گیا اور بیڑی پیتی ہوئے گفتگو شروع کرنے کےلئے کوئی عمدہ فقرہ تلاش کرنے لگا۔ ”بھالو! تو جانتی ہے، میرا تجھ سے کوئی میٹھا لالچ نہیں۔ نہ خالہ مجھے کچھ دے دیتی ہے، نہ تو پر کہوں گا سچی بات بھلا بتا تو سہی اس طرح روز روز بھاگنے سے کیا فائدہ۔ دو کوڑی کی نہیں رہے گی۔ اب تو ہی دیکھ لے، یہ تو چھٹی دفعہ بھاگی ہے۔ اب کے کس کے پاس رہی تھی؟ لا مجھے دکھا، اس نے تجھے کیا دیا؟“
بھالو نے ایک لمحے کو کھچڑی سے ہاتھ اٹھا لیا۔ اپنی موٹر سیاہ رویں سے ڈھکی ہوئی پنڈلی کھجا کر دھیری سے نفی میں سر ہلا دیا۔ ”سچ بتا، قدیر بابو کے پاس رہی تھی نا؟ تو ملا کچھ نہیں ارے یہ بابو لوگ تو مفت کام چلاتے ہےں۔ ٹھیک کہتا ہوں نا؟“
بھالو نے اثبات میںسر ہلا دیا اور کھچڑی کھاتی رہی۔ ”اری، سر تو ڈھائی سیر کا یوں ہلاتی ہے جیسے تجھے پہلے ہی سب پتہ تھا۔ پھر تو گئی کیوں تھی؟ بس سمجھ لے، تھانےدار دشمن ہو گیا کہ تو اس کے بھائی کو پھانستی ہے۔ اب یوں بھی اس نے تیرے منہ میں کون سا سونے کا نوالہ دیا؟“
”روٹی کا نوالہ بھی پیٹ بھر نہ دیا۔ ابرابر کے گھر کوٹھری میں بند کر کے دن بھر کر چلا جاتا تھا اور شام کو ایک دو روٹی لے کر آتا تھا۔ رات بھر سونے نہ دیتا تھا پھر بھی صبر کیا۔“بھالو روہانسی ہو کر آنکھیں ملنے لگی۔
”اری دیوانی! اس طرح بھلا رنڈیاں کرتی ہےں۔ صبر کرے تیری جوتی۔ اس سے پہلی تو جن کے ساتھ بھاگی تھی، انہوں نے بھی دو چار دن بعد گھر سے نکال باہر کیا۔ اچھا، قدیر بابو کے پاس سے تو خود بھاگی یا؟....“ حفیظ کریدتا ہی گیا۔
”انہوں نے کہا، اب جاﺅ بھالو! بھابی ناگن کی طرح پھن پھنا رہی ہے۔ میں وہاں سے چل پڑی۔
”اچھا یہ تو بتاﺅ اس کے ساتھ گئی کس لئے تھی؟“ حفیظ اسے داﺅ پر لاکر چاروں شانے چت قائل کرنے پر تلا ہوا تھا۔
”قدیر بابو کہتے تھے، بھابی کے نخرے نہیں اٹھتے، سوکھی چھوارا تو ہے پر نخرے گاڑی بھر دکھاتی ہے۔“
”یہ بات تھی تو بابو صاحب کو اپنے گھر بلاتی۔ ذرا بابو صاحب کی گرہ سے کچھ نکلتا۔ ارے بابا! دو پیسے آنے سے کم میں تو پان بھی نہیں ملتا ہے۔ مجھے تو تیری عقل پر غصہ آتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں، اگر خالہ سے تیرا دل خوش نہیں تو الگ ہو جا۔ مکان دلانے کا میرا ذمہ بس خالہ کا روزینہ باندھ دینا۔ اب بے چاری خالہ کا بھی تیرے سوا کون بیٹھا ہے؟“ حفیظ نے اللہ رکھی کی پوری پوری وکالت کی۔ بھالو خاموشی سے کھاتی رہی۔
حفیظ کو اپنا جادو اثر کرتا معلوم ہو رہا تھا اس لئے اس کی زبان بھی قینچی کی طرح چل رہی تھی۔ قصبے بھر میں اس کا کوئی سنجیدگی سے نوٹس تک نہ لیتا تھا۔ اس گھر میں اس کی بات تو سنی جاتی تھی پھر وہ کیوں نہ اس گھر کو بنانے کی کوشش کرتا۔ ”سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہےں، کوئی سونے یا ہیرے کا بنا تھوڑی ہوتا ہے۔“ حفیظ نے ہزار باتیں ایک بات میں سمودیں۔
بھالو نے کھچڑی سے ہاتھ اٹھا کر اثبات میں سر ہلایا اور بڑی دیر تک ہلاتی رہی اور سیاہ طاق میں رکھا ہوا چراغ گھورتی رہی۔ حفیظ سمجھا، بھٹکا ہوا راہ پر لگ گیا۔ ”چل اُٹھ بھالو! خالہ کے پاﺅں پکڑ کر معافی مانگ اور وعدہ کر، پھر کبھی کسی مرد کے پیچھے نہیں بھاگے گی۔“ حفیظ نے بھالو کا موٹا سا بازو پکڑ کر کھینچا۔ بھالو چپ رہی مگر وہ اٹھی بھی نہیں۔ بس چپ چاپ چراغ گھورتی رہی۔ ”اب کس سوچ میں پڑ گئی ہو؟“ بھالو پھر بھی چپ رہی حفیظ تنگ آکر اپنے پٹے کھجانے لگا۔ یہ بھالو بھی بس سالی۔
”حیض“ (حفیظ) بھالو نے دھیرے سے پکارا۔
”ہاں بھالو؟“ حفیظ نے بھالو کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔
بھالو کی آنکھوں میں جانے کہاں سے ایک دم آنسو اُبل پڑے۔ تھانے میں ایک بار چوروں سے بدتر مار پڑی جب تو ایک آنسو نہ گرایا اور آج پتہ نہیں، کیسی چوٹ لگی۔ حفیظ بولا کر رہ گیا۔ ”میں جس کے ساتھ بھاگی، اچھا کیا یا بُرا کیا، اس بات کو جانے دے۔“ بھالو نے جلدی جلدی آنسو خشک کئے۔
”پھر توکیا چاہتی ہے؟“ حفیظ کچیا گیا۔
”میں تو سوچتی تھی میرے بچے ہوں، میں بھی ٹاٹ کے پردے والے گھر میں رہوں جیسے تیری اماں رہتی ہے۔“ بھالو دھیرے سے بولی۔
”اچھا؟“ حفیظ کو کچھ غصہ آیا اور پر وہ کھسیا کر ہنس پڑا۔ وہ بھالو کے منہ سے اپنی بیوہ دکھیاری ماں کا ذکر نہیں سننا چاہتا تھا۔
”حفیج“
”ہاں؟“
”تو سچ مچ مرد نہیں؟“ بھالو نے بھولے پن سے منہ اُٹھا کر پوچھا۔
حفیظ اس اچانک حملے سے لچک گیا۔ ایک لمحے کو اس نے سر اُٹھایا اور پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ مرد نہیں تو اس میں اس کا کیا قصور۔ بقول اس کی ماں، اللہ دینے والا ہے، جو چاہے دے دے۔
”میں تیری دکان کےلئے چھالیا کترا کروں گی تیری ماں کی کھدمت کروں گی حفیج! میں بہو بن کر رہوں گی حفیج! حفیج!“
اسی رات بھالو پھر بھاگ گئی۔ دوسرے دن حفیظ اکڑا اکڑا چلتا جو دکان پر آیا تو لوگ وہ سارے گھسے پٹے فقرے بھول گئے جنہیں سن سن کر حفیظ کے کان پک گئے تھے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں