مہربانی ----------جمال ابڑو
ایک دن شام کو ہم چار دوست خوب بن سنور کر نکلے۔ کالج کے قریب سے گزرتے ہوئے ہم صدر کی جانب چل پڑے۔ کالے شیشوں کی عینکیں اور کالی پتلونیں، سفید جوتے، شیر اور گھوڑے والی قمیضیں پہنے، بالوںکی لٹیں پیشانی پر لہرائے جھومتے گاتے، ڈینگیں مارتے، ہر آئے گئے پر فقرے کستے ٹھٹھے لگاتے۔ ہم بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ زمین پر پیر ٹک نہیں رہے تھے۔ زمین کو لتاڑنے، آسمان کو چھونے کی کوشش کرتے ہوئے آخرکار ہم ایلفی جا پہنچے۔
ہم جیسے ان گنت امیر زادے وہاں محو خرام تھے۔ ایک دوسرے کے بالوں اور کپڑوں پر رشک کرتے ہوئے ایک دوکان سے دوسری دکان میں جھانکتے آخر ایک کونے کی جگہ پکڑ کر کھڑے ہو گئے۔ پھر کیا تھا۔ گفتگو کا اٹوٹ سلسلہ چل نکلا۔ ٹائیوں، کوٹوں، جیکٹوں اور کٹنگ کے ذکر سے ہوتے ہوئے موٹروں پر آگئے۔ شیورلیٹ، فریز، کیڈلک، بیوک، غرض کہ کوئی بھی نہ چھوٹی بچپن چھپن کے ماڈل کی بات چھڑ گئی۔ انتہائی دلچسپی لے کر ہم سب نے اپنی معلومات کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ بحث میں ایک دوسرے اُلجھ پڑے۔
ایک کہنے لگا۔ ”چلو جی بدھو تمہیں کیا علم، میںابھی ذرا دیر پہلے ایک امریکی رسالے میں چھپن کی ماڈل کا اشتہار دیکھا ہوا آرہا ہوں۔“
اس بات پر ہم بہت ہی جزبز ہوئے۔ کچھ دیر پھولے رہے اور ناراض بھی ہوئے۔
آخرناچ گھروں اور کلبوں کا ذکر چھڑ گیا۔
”ہائے رہے امریکہ! لائف تو وہاں ہے مگر یار یہ پال را سن کون ہے؟ کیا ہے؟ کسی فلم کا نام تو نہیں!“
”مگر یہ تو بتاﺅ اس پر امریکہ میں پابندی کیوں عائد کی گئی ہے؟“ پھر اپنی کم علمی پر مزید سوچنے کا موقع نہ پاکر ہم خاموش ہو رہے۔
سینماﺅں میں رکھا ہی کیا ہے؟ ہم سب نے نفرت سے اپنی ناک سکیڑ لی۔ تھرڈ کلاس لوگ آکر اکٹھے ہوتے ہےں۔ محضوص سوسائٹی ہونی چاہےے۔ میں نے ان باتوں پر زور دیا۔ ڈانس، کیبرے، لہ گورے اور میٹروپول کا ذکر چھڑا۔ ان کی بابت زیادہ سے زیادہ معلومات کا اظہار کرنے میں ہم سب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی فکر میں تھے۔ رمبا سمبھا، اور فاکس ٹراﺅٹ کے ناموں کا ذکر خیرآیا۔ حقیقت میں تو ہمیں ابھی تک پورا قدم بھی اٹھانا نہیں آتا تھا پھر بھی اپنی لاعلمی کا اظہار کیوں کر ہو۔
اس کے بعد لیڈی پارٹنر کی بات چل نکلی۔ آہا! ہم نے عورتوں کا کیا کیا ذکر نہ کیا.... ہم نے تو ان کے انگ انگ کو یاد کیا۔ ماﺅں بہنوں کی عزت بسروچشم! مگر ہر عورت ماں بہن تھوڑی ہی ہے۔ تب ہمیں بوہری بازار جانے کا خیال آیا اور پھر عورتوں کی کمی نہ رہی۔ کم عمراور بوڑھی، کنواری، شادی شدہ، بچوں کے بغیر اور بچوں سمیت گھر کی ضرورت اور بچوںکی چیزیں خریدنے میں مصروف تھےں۔ کم بخت کس قدر دلفریب ہےں یہ عورتیں! کسی موہنی صورت والی سے آنکھیں ملاتے ہی میرے دل میں ایک افسانہ سا بن جاتا ہے، جس کا ہیرو میں اور ہیروئن وہ پد منی ہوتی۔ مگر یہ بیوقوف عورتیں حد درجہ ناقدر شناس ہوتی ہےں ذرا لفٹ جو دے جائیں۔ یورپ اور امریکہ کی عورتیں کس قدر مہذب اور شائستہ ہےں۔ وہ تو ضرور ہی قدر شناسی کریں گی۔
ہمارا ایک ساتھی بہت فارورڈ ہے۔ پلک جھپکتے میں شانہ ٹکرا، پرس کھول، دوکاندار سے کہ دیتا ہے کہ
”ہم منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہےں“ مگر عورتیں بھی کچھ کم چالاک نہیں ہےں۔ ان سے تو خدا بچائے! گویا بڑی شریف زادیاں ہوں۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو سنگھار کرکے گھر سے باہر نکلتی ہی کیوں ہےں۔ مگر ہم بھی تو سنگھار کرکے نکلے تھے۔ میں سرکھجانے لگا۔ خیر چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو مرد آخر مرد ہے۔ پاکستان نے کوئی ترقی نہیں کی۔ ہائے رے یورپ اور امریکہ! یار بڑی فاسٹ لائف ہے وہاں پر۔ ہر ایک اسمارٹ ہے۔ یہاں تو بس ایک سے ایک بدھو بستے ہےں اور یہ مسلمان قوم تو ہے ہی دقیانوسی!
میں اپنے ساتھیوں کو لئے کرسٹانوں کے محلے میں گیا۔ مگر یار وہاں کی لڑکیاں بھی تو گھاس نہیں ڈالتیں۔ کچھ اشارہ وشارہ کرو تو کہتی ہےں ”مائنڈ یور اون بزنس“ ہونہہ بیوقوف کہیں کی۔
آخر ہم میں کس چیز کی کمی تھی۔ پڑھے لکھے شریف خاندان کے اپ ٹو ڈیٹ نوجوان! اب اور کیا پھانسی کا پھندہ چاہےے انہیں۔ ہونہہ! میرا معیار ان سے کہیں اعلیٰ ہے ہم تعلیم یافتہ ہےں۔ دُنیا کا علم رکھتے ہےں۔ ہر ایک کو پہچانتے ہےں۔ میرے رشتہ دار سب جاگیردار ہےں، وزیرہےں، سی ایس پی آفیسر ہےں، سیکرٹری ہےں، سفیر ہےں۔ میں بھی بہت جلد ان جنگلی لوگوں کے بیچ سے نکل کر کسی بیرونی ملک میں سرکاری آفیسر بن جاﺅں گا۔ ہم گردن اکڑائے، سیٹیاں بجاتے ہوئے اپنی شخصیت کے سحر میں گم دوسروں سے اظہار نفرت کرتے ہوئے د وبارہ ایلفی آگئے۔
ہم دوسروں سے کس قدر بلند اور اونچے تھے۔ جاہل، بدتمیر، گندے اور غلیظ، انہوں نے تو ہماری صحت ہی تباہ کرکے رکھ دی ہے سدا کے روگی محنت کرنے کو کہو تو انہیں تپ چڑھ جاتا ہے۔ بکواسی، جھگڑالو، جنگلی کہیں کے، شکر ہے کہ وہ ہمیشہ آپس میں ہی دست و گریبان رہتے ہےں ورنہ اس آرام دہ اعلیٰ زندگی کو ڈانواڈول کرکے رکھ دیں۔ حکومت جو ہمیں ولایت بھیجتی ہے اور تجارت کےلئے پرمٹ جاری کرتی ہے اس کے تو یہ تختے ہی نکال کر رکھ دیں۔ غنڈے، لوفر، گوبر میں پیدا ہوئے، گوبر میں پلے بڑھے، گدھے، سب ہی کو اٹھا کر بند کر دینا چاہےے۔ بلڈی سوائینس! دیکھئے تو سہی ہماری ان پر کس قدر عنائتیں ہےں۔ اگر کارخانے کھول کر انہیں کام سے نہ لگائیں تو جینے کے لالے پڑ جائیں اگر انہیں ہاری بنا کر نہ رکھیں تو یہ تباہ ہو جائیں۔ بھلا ہمارے لئے ہاری اور مزدوروں کی کیا کمی ہے؟ جب تک یہ کم بخت بھوکے ہےں تب تک ہاری اور مزدور کی کیا کمی ہو سکتی ہے! ہڑتال کرکے ہمیں ڈراتے ہےں۔ ہمیں کیا پڑی ہے جو ان کے جینے کے سامان پیدا کریں۔ ہم تو آخر میں کارخانے بند کرکے اپنا سرمایہ باہر لے جاکر ولایت میں آباد ہو جائیں گے۔ اس ملک کے ساتھ ہمارا نکاح تو نہیں پڑھایا گیا ہے۔ یہ ہماری ان لوگوں پر کتنی بڑی مہربانی ہے جو ایسے ملک میں اپنے اعلیٰ ذہن اور قیمتی سرمائے کے ساتھ انہیں زندہ رکھنے کا سامان فراہم کر رہے ہےں۔ ہمارا جی چاہے تو انہیں جیلوں میں بند کرکے گولیاں برسا کران کے او ران کے بال بچوں کے وجود کو تہس نہس کر دیں۔ دنیا میں سائنس داں زہریلی گیس اور ایٹم بم تو بنا ہی چکے ہےں۔ کیا ہماری ان پر یہ مہربانی نہیں ہے جو ایسے آلات اور ہتھیار استعمال نہیں کرتے۔ وہ تو صرف گولیاں برسیں اور دم دبا کر بھاگ نکلتے ہےں۔ بڑے آئے رستم کی اولاد! چلے ہےں حقوق مانگنے۔ بزدل کہیں کے!
سب دوست میری اس رائے سے متفق تھے۔ ہم نے ان کی بیوقوفی پر زور زور سے قہقہے لگائے۔جی چاہا کاش کوئی ایسا جانور سامنے آ جائے تو اس کی گردن مروڑ کر رکھ دو۔ لیکن فوراً ہی اپنے کپڑوں اور اپنی پوزیشن کا خیال آگیا۔ ان گندے جسموں کو ہاتھ لگانا بھی تو اپنے آپ کو ذلیل ہی کرنا ہے۔ کون ان کے قریب جائے! انسان بننے کی تو ان میں صلاحیت ہی نہیں ہے۔ یہی سوچ رہے تھے کہ ہماری نظریں ایک بھکارن پر پڑیں۔ جست کا بڑا لوٹا ہاتھ میں لئے، ننگا بچہ بغل میں دبائے دوڑ دوڑ کر ہر آئے گئے سے بھیک مانگ رہی تھی۔ سوکھے بال، میلا جسم کپڑے پیمائش سے کم اور وہ بھی پھٹے ہوئے۔ تھی تو نو عمر! میرے دوست لبوں پر زبان پھیرنے لگے۔ میلا انگیا دودھ لگنے کے سبب بھیگ کر بھاری ہو گیا تھا ایسا لگتا تھا کہ دودھ دینے والی چھاتی کی قوت کے آگے بے بس ہو گیا ہے۔ یہ لاچار چھاتیاں کہاں سے اتنا دودھ لاتی ہےں؟ اور وہ بھی بھوکے پیٹ پر....!
ہماری اعلیٰ سوسائٹی کی عورتوں کو تو ہمیشہ دودھ کی کمی کی شکایت رہتی ہے جو دودھ دے وہ غنیمت۔ بھینس بھی پیار کرنے پر کتنا زیادہ دودھ دیتی ہے۔ یہ خیال آتے ہی میں الجھ کر رہ گیا۔ دودھ کتنی اچھی چیز ہے۔ یہ گندی غریب عورتیں کس آسانی سے خون کو دودھ میں تبدیل کر دیتی ہےں۔ زندگی بخش دودھ! مرد تو بیکار ہے اسے تو بس کھانے پینے سے سروکار ہے۔ لیکن میں جلدی ہوش میں آگیا۔ یہ بھکاری اور مفلس تو جانوروں سے بھی بدتر ہےں۔ انسان کی تو اولاد ہی نہیں ہےں۔ شیطان کی اولاد!
وہ میلی گندی بھکارن چکر لگا کر ہمارے سامنے آکھڑی ہوئی۔
”بابو جی پیسہ!“ .... خدا کی مار! اچھی بھلی تھی۔ بلا کی سریلی آواز۔ تھی تو سانولی مگر بڑی بڑی آنکھوں میں غضب کا سحر تھا۔ بھنوئیں بھی تو کیا حسین تھیں۔ اور انہیں کس تیکھے انداز سے اوپر نیچے کر رہی تھی۔
جوانی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔ اس کے میلے اعضاءکتنے بھلے اور اچھے لگ رہی تھے۔ ہمارے منہ میں پانی بھر آیا مگر اس کا بچہ مجھے بالکل گوارا نہ تھا۔ گندہ، ڈبے جیسی شکل، ہونٹ لٹکے ہوئے، آنکھیں بھنچی ہوئی اور ناک بہہ رہی تھی۔ کیچڑ کی پیدائش.... کیڑا، مجھے بہت کراہیت محسوس ہوئی۔ گدھے کی اولاد ضرور یہ اپنے باپ پر گیا ہو گا۔ بلڈی سوائنس! میں نے نظریں اس کی ماں پر گاڑ دیں۔
ہمارے فارورڈ دوست نے آگے بڑھ کر سوال کیا۔
”تم بھیک کیوں مانگتی ہو؟“
”پھر کیا کروں صاحب؟“ اس نے الٹا سوال کر ڈالا۔
”تمہارا شوہر کہاں ہے؟“
”میری شادی نہیں ہوئی.... بابو جی پیسہ !“
ہماری آنکھوں میں شرارت جھلکنے لگی۔ سب مسکرانے لگے۔
”پھریہ لڑکا کہاں سے آیا؟“ .... اس نے گردن ایک طرف کو جھٹک کر ایک عجیب تیکھے انداز سے ہماری طرف دیکھا اور کہا۔
”یہ آپ ہی لوگوںکی مہربانی ہے بابوجی۔“
”کیا؟“
گویا کسی نے ہمارے تھپڑ رسید کر دیا ہو۔ کپڑے اتار دیئے ہوں۔ ننگا کر دیا ہو، ہمارا سر چکرانے لگا۔ تو گویا ہم اس بدبودار گندگی میں رینگنے والے کیڑے تھے۔ حسن اور خوشبو سے بے خبر! اندھے، بہرے! ان جاہلوں کے باپ........!!!
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں