خون کے آنسو ..... تحریر: جام ساقی (سندھی) / ترجمہ: فاروق سولنگی

روشنی میں جھلملاتا شہر، چاروں طرف آوازیں۔ ہنگامہ، سرکس تھیٹر، ریکارڈنگ، نمائشیں، ثقافتی شو، لوگوں کے دھکے، ناک منہ مٹی کے درّے۔ جھونپڑیوں میں گھنگھروﺅں اور طبلوں کی آوازیں، عورتیں، بچوں اور مردوں کے سر۔ کنڈوں کی چقوں میں جھانکتے ہوئے تماش بینوں کے ہجوم، ہوٹلوں میں ہیجڑوں کے ڈانس۔ پگڑیوں کے ہجوم اور کہیں پر سندھی کڑھائی کی ٹوپیاں۔ آج آخری دھمال تھی۔ ہر کوئی آج تھکا تھکاسا، چار دن سے کام ہی کام۔ اپنے آپ کو زندہ رکھنے کےلئے، جیون گزارنے کےلئے اور رشتوں کی طرح جینے کےلئے کام ہی کام۔ صدیوں سے یہ عمل جاری ہے۔
آنکھوں میں درد، کمر میں درد، گلا خراب، جسموں میں دردرت جگے، جمائیاں، دیمک کھائے ہوئے وجود، بچا بند سے نیچے مزار کے پیچھے قبرستان میں گانے اور ناچنے والوں کے ٹولے۔ آس پاس میں ناچنے والے لڑکوں کی چیخ و پکار۔ وہاں پر ........ ہی مریم بھی اپنی محفل جمائے کھڑی تھی۔ پاﺅں مٹی میں خشک، ناخن پالش دھندلی، ٹخنوں سے اوپر شلوار ، پاﺅں میں گھنگھرو۔ کمر میں دوپٹا بندھا ہوا۔ گلابی رنگ کا سوٹ، ننگا، بالوں میں تیل لگا ہوا۔ دو چوٹیوں میں سے بال بکھرے ہوئے۔ کانوں میں سندھی بندے۔ رنگ سانولا، باجے پر اس کا شوہر غلاموں، طبلے پر واحدو۔ ایک پرانی قبر کے اوپر جلتا ہوا گولا۔ باجے کے پاس تہ کی ہوئی چادر پر ایک بچہ سو رہا تھا۔
مریم جیسے روپے رکھنے کے بہانے باجے کے پاس آئی تو آہستہ سے غلاموںسے کہا ”اب بس کر مردود!“
”نہیں، نہیں، کچھ دیر تو چلنے دو“غلاموں نے کہا۔
”اب تو گرنے پر ہوں“ مریم نے کہا۔
”اب ایک دفعہ ہی آرام کرنا۔“
”میری تو خیر ہے، مگر ارشو....“ ہاتھ اوپر کرکے انترا شروع کیا، گلے کی ساری رگیں ہری ہو کر تن گئیں۔ مگر پھر بھی بوجھل بوجھل، مایوسی میں ڈوبا ہوا سارا جسم۔ اس کا سارا دھیان بچے میں تھا۔ گانے کے دوران میں باربار اس کا منہ اس طرف چلا جاتا۔ کبھی کبھی کافی کا مصرع بھول جاتی تو غلاموں سہارا دیتا۔ تماش بین ایکد وسرے کے گال پر نوٹ رکھ کر دے رہے تھے۔ پتا نہیں کیوں آج مریم کو بہت غصہ آرہا تھا۔ حالانکہ مریم کےلئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ آج اسے ہر آدمی ایک گدھ لگ رہا تھا اور اپنا وجود اَدھ کھائی لاش۔ دل چاہ رہا تھا کہ جو لوگ اسے پیسے دے رہے ہےں، وہ ان کے منہ پر تھوک دے اور خود بھاگ جائے۔ مگر اندر ہی اندر وہ سوچتی رہی اور خون کے گھونٹ پیتی رہی۔ آخر کافی مکمل کرکے وہ بیٹھ گئی۔ غلاموں پیسوں کی گنتی میں لگ گیا۔ لوگ آہستہ آہستہ دوسرے ٹولوں کی طرف چل دےے۔ مریم اپنے بیٹے کو گود میں لے کر دیوار کی طرف منہ کرکے دودھ دینے لگی ” غلاموں، ارشو کا منہ بہت گرم لگ رہا ہے۔ بہت بخار ہو گیا ہے۔“
”ہاں۔ بس دُعا کرو۔ آج کی راتیں کمالیں، پھر صبح ہی دوائی لے لیں گے۔
”تو، تو ہے صرف کمائی اور دلالی کے پیچھے۔ دیکھ تو سہی میرے ارشو کی حالت کیا ہو گئی ہے؟ میں تو میلے میں آ ہی نہیں رہی تھی۔ مگر تم کہاں چھوڑنے والے ہو۔ مار پڑے خدا کی، بہت لالچی ہو۔“
”اور بھلا کیا کریں؟ تم خود دیکھ رہی ہو کہ آج کل کتنی مہنگائی ہے۔ شادی مرادی بھی نہیں ہو رہی۔ شہر کے گلوکاروں نے تو مار ڈالا ہے۔ دیکھ رہی ہونا، آہستہ آہستہ کرکے سب زیورات بھی بیچ ڈالے ہےں۔“
”میں بھی اب لے دے کر کھڑی ہوں، ایک گلا کام نہیں کر رہا۔ دوسرا جسم میں ہمیشہ کا درد۔ اب زیادہ کام نہیں ہو رہا۔“
”ہاں، تم سارا دن لکڑیاں کاٹتی رہو۔“
مریم اچانک بے خودی کے عالم میں ارشو کو چومنے لگی۔ پتا نہیں کس جذبے کا بند ٹوٹ پڑا۔ مگر ارشو غش میں پڑا تھا۔ چند ہی گھڑیوں میں آنسو گالوں پرسے ہوتے ہوئے نیچے گرنے لگے۔ ٹھنڈی سانس لے کے آنکھیں زور سے بھینچ ڈالیں۔ ”مار پڑے تم پر، کہہ رہی ہوں کہ دو تین ایکڑ زمین آباد کرکے اپنا گھر بسالیں ورنہ ساری عمر حرام کی کمائی کھاکے ختم ہو جائے گی۔ اب گاﺅں کس منہ سے جائیں۔ کالا منہ جو کیا ہے وہی کالا منہ لے کر جائیں گے۔ رشتے داروں نے بھی چھوٹے ہوتے ہی ایک ....لوسی ناچو کے حوالے کر دیا“ مریم آہستہ سے ہونٹوں میں بڑبڑائی۔ گلاسوں میں ابھی چائے پی ہی رہی تھی کہ تماشبین کا ایک ٹولا آدھمکا۔
”بھئی شروع کرو، کوئی محفل و محفل سائیں بابا!“
”ابھی تمہارے سامنے ہی تو بند کیا ہے۔ مولا خیر کرے۔“ غلاموں نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا۔
”ارے کنجر کی اولاد.... پھر نخرا؟“ سائیں بھورل شاہ نے کہا۔ 
”تمہاری اتنی ہمت کہ سائیں کو جواب دیتے ہو“ ان میں سے ایک نے کہا۔ مریم پہلو بدل کر بے بسی کی دلدل میں پھنسی شیرنی کی طرح سب کو کراہیت سے دیکھنے لگی۔ ایک چھوٹے سے قد کا کالا جسم میں بھرا۔ سارے جسم پر کالے موٹے سخت بال، کالی موٹی کلائیاں جس میں کالا دھاگا بندھا ہوا۔ کلائی میں سنہرے پٹے والی گھڑی، ہونٹ موٹے اور نیچے لٹکتے ہوئے۔ فمیض کا گلا کھلا ہوا۔ آنکھیں لال۔ نشے میں چور۔ یہ تھا بھورل شاہ، دوسرا تھا لمبی گردن میں سونے کی زنجیر، بوسکی کی قیمض۔ آستین آدھی موڑی ہوئی، تین انگلیوں میں تولے تولے کی انگوٹھیاں۔ پاﺅں میں زرّی کے سینڈل۔ ہاتھ پاﺅں پر مہندی۔ باریک مونچھیں، بال پیچھے کی طرف لٹکتے ہوئے۔ قلمیں بڑھی ہوئی۔ یہ تھا سائیں جبل شاہ۔ تیسرا دبلا پتلا سا ہاتھوں کی رگیں نکلی ہوئی۔ سیدھے ہاتھ پر لال بڑا سا داغ۔ ٹیڑان کا سوٹ، مونچھیں بڑی بڑی، گالوں پر گڑھے۔ یہ تھا وڈیرا ہینڈل، چوتھا قرانکی ٹوپی، بوسکی کی قیمیض ہاتھ میں گولڈ لیف۔ ناخنوں پر مہندی۔ سفید رنگ کے جوتے۔ یہ تھا پیٹیوالا۔ اور دوسرے دو تین ان کے خاص آدمی بھی تھے۔ کاندھوں پر انگھوچھے اور سرپر پرانی شکار پوری ٹوپیاں اور ان میں ایک دوسرا بھی تھا.... جمعدار، جمعدار جس نے بہت زیادہ بھنگ پی ہوئی تھی۔ لڑکھڑاتا ہوا کہنے لگا ”ارے سائیں کا آج پتا نہیں کیسے موڈ ہو گیا راگ سننے کا۔ اور تو سائیں کو جواب دے رہا ہے۔ پتا ہے کس سے بات کر رہے ہو؟ سارے میلے کا مالک ہے۔ بہت کھائے پئے ہوئے ہےں۔“
”سائیں کے تو ہم غلام ہےں۔ مگر بہت دیر ہو گئی ہے۔ اور وہ بھی بہت تھک گئی ہے۔“ غلاموں نے بڑی بیزاری سے منتیں کرکے مریم کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
”ارے اٹھ بندریا، گھور کیا رہی ہے۔ دو تین بول سنا۔ مرشد کو نخرے دکھا رہی ہو“ سائیں جبل شاہ نے مریم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”چل اُٹھ، دو تین بول سنا سائیں والوں کو۔“ غلاموں نے مریم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ مریم کی گود ارشو کے گرم جسم کی وجہ سے اور بھی گرم ہو گئی تھی۔ ارشو غشی کی وجہ سے کبھی کبھی دودکھ کی چسکی لے لیتا ورنہ دبکا پڑا رہتا۔ ارشو کا ہاتھ ماں کے کرتے کے گلے کو زور پکڑے ہوا تھا۔ مریم نے خون کا گھونٹ بھرا اور آنسو اندرہی اندر پیتی ہوئی آہستہ آہستہ کرکے چھوٹے ارشو کو چھاتی سے نوچنے کی کوشش کی۔ ارشو اچانک چیخ کر اٹھا اور دونوں ہاتھوں سے مجبور ماں کی قمیض کو پکڑ لیا، انسانی دل ہوتا تو ضرور کانپتا مگر یہاں تو کسی کے دل میں کوئی جنبش نہیں ہوئی۔ یہ حالت دیکھ کر غلاموں نے ارشو کو مریم سے کھینچ کر الگ کیا اور نیچے بچھے ہوئے کپڑے پر سلادیا۔ ارشو ایڑیاں رگڑنے لگا۔ غلاموں آہستہ آہستہ بچے کو سہلانے لگا۔ کچھ دیر کے بعد لڑکے پر دوبارہ غشی طاری ہو گئی۔ مریم نے پاﺅں کے پنجے زمین پر زور سے مارے مگر کوئی بھی چشمہ نہیں پھوٹا۔ البتہ گھنگھروﺅں کی چھم چھم فضا میں بھی بکھر گئی۔ جبل شاہ نے کہا ”دلبر! کچھ اماموں کی تعریف سناﺅ۔“
غلاموں نے شعر پڑھا۔ ”اماموں نے سرقربان کیا۔ خون دیا۔ ہم بے سمجھ لوگوں کےلئے۔ دامن سیدوں کا پکڑکر جنت کےلئے چلنا چاہےے۔“ چو طرف واہ واہ پھیل گئی۔ مریم نے گانا شروع کیا۔ جب تیر چلے معصوموں پر، بلند ہوئیں چیخیں اوپر آسمانوں پر۔ نیر بہائے ان آنکھوں نے، زمینوں پر چیخ و پکار پھیکار گئی۔ ”واہ واہ، واہ۔ کیا سنایا ہے پگلی۔ دل جبر دیا ہے۔“ پیٹیوالے نے کہا۔
مریم کے گھنگھرو بے سرے،ڈانس بے سرا۔ نہ جھومنا نہ ہاتھ ہلانا۔ سب بے دلی کے انداز، پھیکا پھیکا، زوری زبردستی۔ منہ اترا ہوا۔ آنکھوں میں آنسو چھپے ہوئے۔ نیچے اوپر الفاظ۔ جسم میں ہلکی تپش، جمائیاں۔ جبل شاہ نے مریم کو روپیا دیتے ہوئے خوامخواہ اس کی کلائی کو زور سے پکڑا۔ مریم نے جھٹکے سے کلائی چھڑوائی۔ باجے پر پیسے رکھتے ہوئے وہ آہستہ سے بھنبھنائی ”کمینے اب جا بھی نہیں رہے۔ ایک روپیا، دو، تین، چار، پانچ روپے۔ آخر محفل کی رونق بڑھتی چلی گئی۔ کچھ تماش بین اور کچھ راگ کے شوقین بھی آگئے۔ شاہ صاحب کے مذاق اور گفتگو پر ہر کوئی گول دائرے میں ہنس رہا تھا۔ شاہ صابح اپنی طرف سب کو متوجہ پاکر اور آپے سے باہر ہو گئے اور گالی گند میں پڑ گئے۔ چاروں طرف ہنسی، مذاق، ذومعنی گالیاں، قہقہے مگر پھر بھی مریم کا دل ارشو میں اٹکا ہوا تھا۔ کبھی کبھی زبردستی ہونٹوں پر پھیکی مسکراہٹ۔ دھندے کے تقاضے کے مطابق صرف وقت پاس کرنے کی خاطر آنکھوں کی حرکتیں۔ اور یہ نفرت انگیز حرکتیں بڑھتی گئیں۔ بڑھتی گئیں۔ جبل شاہ نے روپے دینے کے بہانے مریم کو چھاتی سے پکڑ لیا۔ وہیں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک لمحے کےلئے مریم کی آنکھوں کے آگے ستارے ناچنے لگے۔ سارے میلے میں اندھیرا چھا گیا۔
کسی کو پتا ہی نہ چلا کہ اس نے کیا کیا ہے۔ اس نے تھوڑے ہی وقت میں بہت کچھ کر لیا تھا۔ اس نے واقعی کچھ نہیں کیا تھا، یہ سب اس کے اندر چھپے ہوئے کسی اور نے کیا تھا۔ مریم نے ہتھیلی سے جبل شاہ کے منہ کو اتنی زور سے دھکا دیا کہ وہ نشے میں دھت لڑکھڑاتا ہوا پیچھے کچی قبر پر جاکر گرا اور ناک میں سے رینٹھ بہنے لگی۔ اور اس کا بوسکی کا پٹکا پیچھے جاگرا۔ مگر پیٹوالے نے وہ جھپٹ لیا۔ پھر تو ظلم ہو گیا۔ آسمان ٹوٹ پڑا۔ ہنگامہ ہو گیا۔ جبل شاہ سے ایسی حرکت، وہ بھی ایک دو ٹکے کی کنجری کے ہاتھوں۔ اتنے لوگوں کے بیچ میں۔ مریم کو ایک چانٹا، دوسرا چاٹنا، لاتیں، گھونسے، منہ پر تھوکنا، بید کی لکڑی سے مارنا۔ سر پر، جسم پر، بال نوچنا، پیٹ میں لاتیں۔ کمر پر لاتیں۔ ”ڈالو بلیاں اس کی شلوار میں۔ کروننگا“شاہ صاحب کے منہ سے رال بہنے لگی۔ سارے بال مٹی میںجسم مٹی میں۔ منہ سفید مٹی میں۔ کسی نے جوچٹیا سے پکڑ کر کھینچا تو لڑکھڑاتی جا کر گری۔ چودہ طبق روشن ہو گئے۔
غلاموں اور واحد و بے بس ولا چار، مریم کو پٹتے دیکھتے رہے۔ اور صرف لاشعوری طور پر اتنا کہتے رہے ”سائیں بس، رحم کرو۔ چھوڑو اس گندی عورت، معاف کو کردو۔ اب بہت ہو چکی۔ اللہ رے اب بس کرو۔ مر نہ جائے۔ ارے دیکھ رہے ہو، بیٹھے بیٹھے! کس بے دردی سے بے زبان کو مار رہے ہےں“ یہ کہتے کہتے غلاموں کی التجا کے ساتھ ہی چیخ نکل گئی۔ اور زار و قطار رونے لگا ”ارے چھاتیاں بھی ہماری عورتوں کی پکڑو اور مارو بھی ہماری عورتوں کو۔ ارے کوئی ہے فریاد سننے والا۔ اللہ رے، یہ تو ظلم ہو گیا ہے۔ دیکھنا ابھی یہ مرجاتی ہے۔ ارے ذلیل! کیوں ہاتھ اٹھاتی ہے وڈیروں پر۔“
”مارو جوتے کنجری کو ”جبل شاہ ہانپتا بھی رہا اور مریم کو مارتا بھی رہا۔ زور زور سے جوتوں سے۔ مریم زمین پر بیٹھی بازو سر کے گرد گول گھما کر سمٹی یہ سب ظلم برداشت کرتی رہی اور کانپتی رہی۔ اس وقت اسے کوئی ہوش نہیں تھا، منہ میں مٹی چلی گئی تھی۔ ہونٹ اور دانتوں میں سے خون بہہ رہا تھا۔ بال مٹی میں اٹے ہوئے، پر وہ ہر بات سے بے نیاز صرف اپنے منہ سے یہ الفاظ کہنے لگی ”سائیں چھوڑدو .... سائیں اللہ رے.... ارے چھوڑدو....اب تو....دل ڈوب رہا ہے.... سائیں چھوڑ دو.... ارے مر جاﺅں گی....ارے نہ مارو مجھے.... اماموں کے صدقے چھوڑ دو.... ارے خدا رسول کا واسطہ چھوڑ دو.... پنجتن کا واسطہ....ارے، میراکوئی والی وارث نہیں ہے تبھی مار رہے ہو۔ میں نے توبہ کی....“ اور جبل شاہ کے بازو میں کتنے لوگوں کے ہاتھ تھے۔ کچھ لوگ پیچھے سے لپٹے ہوئے تھے۔ کتنے ہی لوگوں کی آوازیں ایک ساتھ آ رہی تھیں۔ سائیں بس کریں۔ بس سائیں اب چھوڑ دو۔ ارے، یہ سب لوگ دیکھ رہے ہو، چھڑوا دو سائیں سے ورنہ پرائی عورت کا خون ہو جائے گا۔ سائیں جلالی ہے جلالی۔ غلاموں اور واحدو کے ہاتھ شاہ سائیں کی ٹانگوں اور پاﺅں پر تھے۔ غلاموں تو شاہ سائیں کے جوتوں کو چوم رہا تھا اور منتیں بھی کر رہا تھا۔ اتنی چیخ وپکار سے چھوٹا ارشو بھی جاگ اٹھا تھا۔ شاید مریم کے جسم پر پڑنے والے گھاﺅ نے ارشو کو جگا دیا ہو۔ ارشو کا رونا چیخوں اور جوتوں کی مار کھاتی ماں کی چیخ و کار کے ساتھ مل کر ایک ہو گیا تھا۔ ٹھیک اسی وقت عشاءکی اذان کی گونج فضا میں بلند ہوئی۔ لوگوں نے جیسے تیسے کرکے جبل شاہ کی گرفت سے مریم کو چھڑایا۔
جبل شاہ نے اپنی کمر سے پستول ٹٹول کر نکالنے کی کوشش کی مگر بازو لوگوں نے قابو میں کر رکھے تھے۔ جاتے جاتے وہ زور زور سے کہنے لگا“ ذلیل ....دو ٹکے کی رنڈی.... تجھے ایسے نہیں چھوڑوں گا.... تیار رہنا۔“
مریم ایسے ہی گھٹنوں میں منہ چھپائے روتی رہی۔ لوگ آہستہ آہستہ جانے لگے۔ مریم نے اُٹھنے کی کوشش کی مگر پھر کمر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی۔ آنکھیں بند تھیں۔ ارشو روتے روتے چپ ہو گیا تھا۔ آخر مریم نے مجبوری اور بے بسی سے غلاموں کو دیکھا۔
”لو، یہ چائے پی لو“ غلاموں نے چھوٹا سا گلاس مریم کی طرف بڑھایا۔ مریم نے صرف اس کو دیکھا اور ارشو کو دودھ پلانے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی چیخ بلند ہوئی۔
”اللہ رے، مولا رے، غلاموں! ارشو دودھ نہیں لے رہا۔ منہ نہیں کھول رہا۔ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ لے لے بیٹا.... لے بیٹا“ مگر ارشو کی آنکھیں ایک طرف لگی رہیں۔ مریم اب سمجھ گئی تھی اور اس کی آنکھیں قبر کی کھدائی محسوس کر رہی تھیں۔ اس نے زور سے اپنی چھاتی سے لگا کر ارشو کو بھینچا جیسے کوئی اس سے ارشو کو چھین نہ لے۔ وہ زاروقطار رونے لگی اور بلند آواز میں بین کرنے لگی۔
غلاموں اور واحدو کی آنکھوں میں آنسو تھے جو ان کی مونچھوں میں بہہ کر اٹک گئے تھے۔ ”تسلی کرو، چھوٹو! ہم سے آخرجدا ہو گیا۔“غلاموں کرتے کے دامن سے اپنے آنسو پونچھتا رہا۔ مریم ایک دم چپ ہو گئی۔ اس پر سکتے کی کیفیت طاری تھی۔ دل زور زور سے دھک دھک کرنے لگا۔ دل میں گھبراہٹ ہونے لگی۔ پھر بھی اس نے ہمت کرکے جھک کر ارشو کی سردپیشانی پر آخری بار بوسہ دیا۔ پھر وہ اپنی جھکی ہوئی گردن اوپر نہ کرسکی۔ آخری بار بوسہ دیا۔ پھر وہ اپنی جھکی ہوئی گردن اوپر نہ کرسکی۔ آخری ہچکی آئی اور بس۔ غلاموں نے جیسے ہی مریم کو جھنجھوڑا، مریم ویسے ہی ایک طرف لڑھک گئی۔
ایک مردہ جسم، دوسرے مردہ جسم کی پیشانی پر ہونٹ پیوست کئے تھا۔ غلاموں اپنے سر میں مٹی ڈال رہا تھا اور بال نوچ رہا تھا۔ اس کے قریب ایک صوبے دار اور دو سپاہی کھڑے تھے۔ ”ارے، وہ کون سی عورت ہے جس نے شاہ سائیں پر قاتلانہ حملہ کیا اور لوٹ مار کی کوشش کی ہے؟“
غلاموں نے مریم اور ارشو کی لاشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”سائیں، یہ ہےں....گرفتار کر لو۔“

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6