کالی شلوار ۔۔۔۔۔۔ تحریر : سعادت حسن منٹو

دہلی آنے سے پہلے وہ انبالہ چھاﺅنی میں تھی۔ جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی۔ ان کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی۔ لیکن جب وہ دہلی میں آئی اور اس کا کاروبار نہ چلا تو ایک روز اس نے اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے کہا۔ ”دس لیف....ویری بیڈ“ یعنی یہ زندگی بہت بُری ہے جب کہ کھانے ہی کو نہیں ملتا۔
انبالہ چھاﺅنی میں اس کا دھندا بہت اچھی طرح چلتا تھا۔ چھاﺅنی کے گورے شراب پی کر اس کے پاس آجاتے تھے۔ وہ تین چار گھنٹوں ہی میں آٹھ دس گوروں کو نمٹا کر بیس تیس روپیہ پیدا کر لیا کرتی تھی۔ یہ گورے اس کے ہم وطنوں کے مقابلے میں بہت اچھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی زبان بولتے تھے جس کا مطلب سلطانہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر اس کی زبان سے یہ لاعلمی اس کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوتی تھی۔ اگر وہ اس سے کچھ رعایت چاہتے تو وہ سر ہلا کر کہہ دیا کرتی تھی ”صاحب ہماری سمجھ میں تمہاری بات نہیں آتا۔“ اور اگر وہ اس سے ضرورت سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرتے تو وہ ان کو اپنی زبان میں گالیاں دینا شروع کر دیتی تھی۔ وہ حیرت میں اس کے منہ کی طرف دیکھتے۔ تو وہ ان سے کہتی ”صاحب تم ایک دم الو کا پٹھا ہے۔ حرام زادہ ہے.... سمجھا۔“ یہ کہتے وقت وہ اپنے لہجے میں سختی پیدا نہ کرتی۔ بلکہ بڑے پیار کے ساتھ ان سے باتیں کرتی۔ یہ گورے ہنس دیتے اور ہنستے وقت وہ سلطانہ کو بالکل الّو کے پٹھے دکھائی دیتے۔
مگر یہاں دہلی میں وہ جب سے آئی تھی ایک گورا بھی اس کے یہاں نہیں آیا تھا۔ تین مہینے اس کو ہندوستان کے اس شہر میں رہتے ہوگئے تھے۔ جہاں اس نے سنا تھا کہ بڑے لاٹ صاحب رہتے ہےں جو گرمیوں میں شملے چلے جاتے ہےں مگر صرف چھ آدمی اس کے پاس آئے تھے، صرف چھ، یعنی مہینے میں دو اور ان چھ گاہکوں سے اس نے خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کئے تھے۔ تین روپے سے زیادہ پر کوئی مانتا ہی نہیں تھا۔ سلطانہ نے ان میں سے پانچ آدمیوں کو اپنا ریٹ دس روپے بتایا تھا مگر تعجب کی بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا۔ ”بھئی ہم تین روپے سے ایک کوڑی زیادہ نہ دیں گے۔“ نہ جانے کیا بات تھی کہ ان میں سے ہر ایک نے اسے صرف تین روپے کے قابل سمجھا۔ چنانچہ جب چھٹا آیا تو اس نے خود اس سے کہا ”دیکھو میں تین روپے ایک ٹیم کے لوں گی۔ اس سے ایک دھیلا تم کم کہو تو میں نہ لوں گی۔ اب تمہاری مرضی ہو تو رہو ورنہ جاﺅ۔“ چھٹے آدمی نے یہ بات سن کر تکرار نہ کی اور اس کے ہاتھ ٹھہر گیا۔ جب دوسرے کمرے میں دروازے بند کرکے وہ اپنا کوٹ اتارنے لگا تو سلطانہ نے کہا۔ ”لائےے ایک روپیہ دودھ کا۔“ اس نے ایک روپیہ تو نہ دیا لیکن نئے بادشاہ کی چمکتی ہوئی اٹھنی جیب میں سے نکال کر اس کو دے دی اور سلطانہ نے بھی چپکے سے لے لی کہ چلو جو آیا غنیمت ہے۔
ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینوں میں.... بیس روپے ماہوار تو اس کوٹھے کا کرایہ تھا جس کو مالک مکان انگریزی زبان میں فلیٹ کہتا تھا۔ اس فلیٹ میں ایسا پاخانہ تھا، جس میں زنجیر کھینچنے سے ساری گندگی پانی کے زور سے ایک دم نیچے نل میں غائب ہو جاتی تھی اور بڑا شور ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس شور نے اسے بہت ڈرایا تھا۔ پہلے دن جب وہ رفع حاجت کےلئے اس پاخانے میں گئی تو اس کی کمر میں شدت کا درد ہو رہا تھا۔ فارغ ہو کر جب اٹھنے لگی تو اس نے لٹکی ہوئی زنجیر کا سہارا لے لیا۔ اس زنجیر کو دیکھ کر اس نے خیال کیا چونکہ یہ مکان خاص ہم لوگوں کی رہائش کےلئے تیار کئے گئے ہےں۔ یہ زنجیر اس لئے لگائی گئی ہے کہ اٹھتے وقت تکلیف نہ ہو اور سہارا مل جایا کرے۔ مگر جوں ہی اس نے زنجیر کو پکڑ کر اٹھنا چاہا اوپر کھٹ کھٹ سی ہوئی اور پھر ایک دم پانی اس شور کے ساتھ باہر نکلا کہ ڈر کے مارے اس منہ سے چیخ نکل گئی۔
خدا بخش دوسرے کمرے میں اپنا فوٹو گرافی کا سامان درست کررہا تھا اور صاف بوتل میں ہائی ڈروکونین ڈال رہا تھا کہ اس نے سلطانہ کی چیخ سنی۔ دوڑ کر وہ باہر نکلا اور سلطانہ سے پوچھا ”کیا ہوا؟.... یہ چیخ تمہاری تھی؟“
سلطانہ کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس نے کہا۔ ”یہ موا پیخانہ ہے یا کیا ہے۔ بیچ میں یہ ریل گاڑیوں کی طرح زنجیر کیا لٹکا رکھی ہے۔ میری کمر میں درد تھا۔ میں نے کہا چلو اس کا سہارا لے لوں گی۔ پر اس موئی زنجیر کو چھیڑنا تھا کہ وہ دھماکہ ہوا کہ میں تم سے کیا کہوں۔“
اس پر خدا بخش بہت ہنسا تھا اور اس نے سلطانہ کو اسی پاخانے کی بابت سب کچھ بتا دیا تھا کہ یہ نئے فیشن کا ہے جس میں زنجیر ہلانے سے سب گندگی نیچے زمین میں دھنس جاتی ہے۔
خدابخش اور سلطانہ کا آپس میں کیسے سمبندھ ہوا۔ ایک لمبی کہانی ہے۔ خدابخش راولپنڈی کا تھا۔ انٹرنس پاس کرنے کے بعد اسی نے لاری چلانا سیکھا۔ چنانچہ چار برس تک وہ راولپنڈی اور کشمیر کے درمیان لاری چلانے کا کام کرتا رہا۔ اس کے بعد کشمیر میں اس کی دوستی ایک عورت سے ہوگئی۔ اس کو بھگا کر وہ لاہور لے آیا۔ لاہور میں چونکہ اس کو کوئی کام نہ ملا اس لئے اس نے عورت کو پیشے پر بٹھا دیا۔ دو تین برس تک یہ سلسلہ جاری رہا اور وہ عورت کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی۔ خدا بخش کو معلوم ہوا کہ وہ انبالے میں ہے۔ وہ اس کی تلاش میں انبالے آیا۔ جہاں اس کو سلطانہ مل گئی۔ سلطانہ نے اس کو پسند کیا۔ چنانچہ دونوں کا سمبندھ ہو گیا۔
خدا بخش کے آنے سے ایک دم سلطانہ کا کاروبار چمک اُٹھا۔ عورت چونکہ ضعیف الاعتقاد تھی اس لئے اس نے سمجھا کہ خدا بخش بڑا بھاگوان ہے جس کے آنے سے اتنی ترقی ہو گئی ہے۔ چنانچہ اس خوش اعتقادی نے خدابخش کی وقعت اس کی نظروں میں اور بھی بڑھا دی۔
خدا بخش آدمی محنتی تھا۔ سارا دن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا چنانچہ اس نے ایک فوٹو گرافر سے دوستی پیدا کی جو ریلوے اسٹیشن کے باہر منٹ کیمرے سے فوٹو کھینچا کرتا تھا۔ اس سے اس نے فوٹو کھینچنا سیکھ لیا۔ پھر سلطانہ سے ساٹھ روپے لے کر کیمرہ بھی خرید لیا۔ آہستہ آہستہ ایک پردہ بنوایا۔ دو کرسیاں خریدیں اور فوٹو دھونے کا سب سامان لے کر اس نے علیحدہ اپنا کام شروع کر دیا۔
کام چل نکلا، چنانچہ اس نے تھوڑی ہی دیر کے بعد اپنا اڈا انبالے چھاﺅنی میں قائم کر دیا۔ یہاں وہ گوروں کے فوٹو کھینچتا رہتا۔ ایک مہینے کے اندر اندر اس کی چھاﺅنی کے متعدد گوروں سے واقفیت ہو گئی۔ چنانچہ وہ سلطانہ کو وہیں لے گیا۔ یہاں چھاﺅنی میں خدابخش کے ذریعے سے کئی گورے سلطانہ کے مستقل گاہک بن گئے اور اس کی آمدنی پہلے سے دوگنی ہو گئی۔
سلطانہ نے کانوں کےلئے بندے خریدے، ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں بھی بنوا لیں۔ دس پندرہ اچھی اچھی ساڑھیاں بھی جمع کر لیں۔ گھر میں فرنیچر وغیرہ بھی آگیا۔ قصہ مختصر یہ کہ انبالہ چھاﺅنی میں وہ بڑی خوشحال تھی۔ مگر ایکایکی نہ جانے خدابخش کے دل میں کیا سمائی کہ اس نے دہلی جانے کی ٹھان لی۔ سلطانہ انکار کیسے کرتی جب کہ خدابخش کو اپنے لئے بہت مبارک خیال کرتی تھی۔ اس نے خوشی خوشی دہلی جانا قبول کرلیا بلکہ اس نے یہ بھی سوچا کہ اتنے بڑے شہر میں جہاں لاٹ صاحب رہتے ہےں، اس کا دھندا اور بھی اچھا چلے گا۔ اپنی سہیلیوں سے وہ دہلی کی تعریف سن چکی تھی۔ پھر وہاں حضرت نظام الدین اولیاءکی خانقاہ تھی جس سے اسے بے حد عقیدت تھی۔ چنانچہ جلدی جلدی گھر کا بھاری سامان بیچ باچ کر وہ خدابخش کے ساتھ دہلی آگئی۔ یہاں پہنچ کر خدا بخش نے بیس روپے ماہوار پر ایک چھوٹا سا فلیٹ لے، جس میں وہ دونوں رہنے لگے۔
ایک ہی قسم کے نئے مکانوں کی لمبی سی قطار سڑک کے ساتھ ساتھ چلی گئی تھی۔ میونسپل کمیٹی نے شہر کا یہ حصہ خاص کسبیوں کےلئے مقرر کر دیا تھا تاکہ وہ شہر میں جگہ جگہ اپنے اڈے نہ بنائیں۔ نیچے دکانیں تھیں اور اوپر دو منزلہ رہائشی فلیٹ چونکہ سب عمارتیں ایک ہی ڈیزائن کی تھیں اس لئے شروع شروع میں سلطانہ کو اپنا فلیٹ تلاش کرنے میں بہت دقت ہوتی تھی۔ پر جب نیچے لانڈری والے نے اپنا بورڈ گھر کی پیشانی پر لگا دیا تو اس کو ایک پکی نشانی مل گئی۔ ”یہاں میلے کپڑوں کی دھلائی کی جاتی ہے۔“ یہ بورڈ پڑھتے ہی وہ اپنا فلیٹ تلاش کرلیا کرتی تھی۔ اسی طرح اس نے اور بہت سی نشانیاں قائم کرلی تھیں۔ مثلاً بڑے بڑے حروف میں جہاں ”کوئلوں کی دکان“ لکھا تھا وہاں اس کی سہیلی ہیرا بائی رہتی تھی جو کبھی ریڈیو گھر میں گانے جایا کرتے تھی۔ جہاں ”شرفا کے کھانے کا اعلیٰ انتظام ہے۔“ لکھا تھا وہاں اس کی دوسری سہیلی مختار رہتی تھی۔ نواڑ کے کارخانے کے اوپر انوری رہتی تھی جو اسی کارخانے کے سیٹھ کے پاس ملازم تھی۔ چونکہ سیٹھ صاحب کو رات کے وقت اپنے کارخانے کی دیکھ بھال کرنا ہوتی تھی اس لئے وہ انوری کے پاس ہی رہتے تھے۔
دکان کھولتے ہی گاہک تھوڑے ہی آتے ہےں۔ چنانچہ جب ایک مہینے تک سلطانہ بیکار رہی تو اس نے یہی سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی۔ پر جب دو مہینے گزر گئے اور کوئی آدمی اس کے کوٹھے پر نہ آیا تو اسے بہت تشویش ہوئی۔ اس نے خدا بخش سے کہا۔ ”کیا بات ہے خدا بخش دو مہینے آج پورے ہو گئے ہےں، ہمیں یہاں آئے ہوئے، کسی نے ادھر کا رُخ ہی نہیں کیا۔ مانتی ہوں آج کل بازار بہت مندا ہے۔ پر اتنا مندا بھی تو نہیں کہ مہینے بھر میں کوئی شکل دیکھنے ہی میں نہ آئے۔“ خدا بخش کو بھی یہ بات بہت عرصے سے کھٹک رہی تھی مگر وہ خاموش تھا۔ پر جب سلطانہ نے خود بات چھیڑی تو اس نے کہا۔ ”میں کئی دنوں سے اس کی بابت سوچ رہا ہوں۔ ایک بات سمجھ میں آتی ہے۔ وہ یہ کہ جنگ کی وجہ سے لوگ باگ دوسرے دھندوں میں پڑ کر ادھر کا رستہ بھول گئے ہےں.... یا پھر یہ ہوسکتا ہے کہ....“ وہ اس کے آگے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز آئی۔ خدا بخش اور سلطانہ دونوں اس آواز کی طرف متوجہ ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دستک ہوئی۔ خدا بخش نے لپک کر دروازہ کھولا۔ ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ یہ پہلا گاہک تھا جس سے تین روپے میں سودا طے ہوا۔ اس کے بعد پانچ اور آئے یعنی تین مہینے میں چھے۔ جن سے سلطانہ نے صرف ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کئے۔
بیس روپے ماہوار تو فلیٹ کے کرائے میں چلے جاتے تھے۔ پانی کا ٹیکس اور بجلی کا بل جدا تھا۔ اس کے علاوہ گھر کے دوسرے خرچے تھے۔ کھانا پینا، کپڑے لتے، دوا دارو اور آمدن کچھ بھی نہیں تھی۔ ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینوں میں آئیں تو اسے آمدن تو نہیں کہہ سکتے۔ سلطانہ پریشان ہو گئی۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں جو اس نے انبالے میں بنوائی تھیں آہستہ آہستہ بک گئیں۔ آخری کنگنی کی جب باری آئی تو اس نے خدا بخش سے کہا ”تم میری سنو اور چلو انبالے میں۔ یہاں کیا دھرا ہے....؟ بھئی ہو گا۔ پر ہمیں تو یہ شہر راس نہیں آیا۔ تمہارا کام بھی وہاں خوب چلتا تھا۔ چلو، وہیں چلتے ہےں جو نقصان ہوا اس کو اپنا سر صدقہ سمجھو۔ اس کنگنی کو بیچ کر آﺅ۔ میں اسباب وغیرہ باندھ کر تیار رکھتی ہوں۔ آج رات کی گاڑی سے یہاں سے چل دیں گے۔“
خدا بخش نے کنگنی سلطانہ کے ہاتھ سے لے لی اور کہا۔ ”نہیں جان من، انبالہ اب نہیں جائیں گے۔ یہیں دہلی میں رہ کر کمائیں گے۔ یہ تمہاری چوڑیاں سب کی سب یہیں واپس آئیں گی۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ وہ بڑا کارساز ہے۔ یہاں بھی وہ کوئی نہ کوئی اسباب بنا ہی دے گا۔“
سلطانہ چپ ہو رہی۔ چنانچہ آخری کنگنی بھی ہاتھ سے اتر گئی۔ بچے ہاتھ دیکھ کر اس کو بہت دکھ ہوتا تھا۔ پر کیا کرتی۔ پیٹ بھی تو آخر کسی حیلے سے بھرنا تھا۔
جب پانچ مہینے گزر گئے اور آمدن خرچ کے مقابلے میں چوتھائی سے بھی کچھ کم رہی تو سلطانہ کی پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی۔ خدا بخش بھی اب سارا دن گھر سے غائب رہنے لگا تھا۔ سلطانہ کو اس کا بھی دکھ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوس میں اس کی دو تین ملنے والیاں موجود تھیں جن کے ساتھ وہ اپنا وقت کاٹ سکتی تھی۔ ہر روز ان کے یہاں جانا اور گھنٹوں بیٹھے رہنا اس کو بہت برُا لگتا تھا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ اس نے ان سہیلیوں سے ملنا جلنا بالکل ترک کر دیا۔ سارا دن وہ اپنے سنسان مکان میں بیٹھی رہتی۔ کبھی چھالیا کاٹتی رہتی، کبھی اپنے پرانے اور پھٹے ہوئے کپڑوں کو سیتی رہتی اور کبھی باہر بالکونی میں آکر جنگلے کے ساتھ کھڑی ہو جاتی اور سامنے ریلوے شیڈ میں ساکت اور متحرک انجنوں کی طرف گھنٹوں بے مطلب دیکھتی رہتی۔
سڑک کی دوسری طرف مال گودام تھا جو اس کونے سے اس کونے تک پھیلا ہوا تھا۔ داہنے ہاتھ کو لوہے کی چھت کے نیچے بڑی بڑی گانٹھیں پڑی رہتی تھیں اور ہر قسم کے مال اسباب کے ڈھیر سے لگے رہتے تھے۔ بائیں ہاتھ کو کھلا میدان تھا، جس میں بے شمار ریل کی پٹریاں بچھی ہوئی تھیں۔ دھوپ میں لوہے کی یہ پٹریاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی، جن پر نیلی نیلی رنگیں بالکل ان پٹریوں کی طرح ابھری رہتی تھیں۔ اس لمبے اور کھلے میدان میں ہر وقت انجن اور گاڑیاں چلتی رہتی تھیں۔ کبھی ادھر کبھی اُدھر ۔ ان انجنوں اور گاڑیوں کی چھک چھک اور پھک پھک سدا گونجتی رہتی تھی۔ صبح سویرے جب وہ اٹھ کر بالکونی میں آتی تو ایک عجیب سماں اسے نظر آتا۔ دھندلکے میں انجنوں کے منہ سے گاڑھا گاڑھا سا دھواں نکلتا تھا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ بھاپ کے بڑے بڑے بادل بھی ایک شور کے ساتھ پٹریوں سے اُٹھتے تھے اور آنکھ جھپکنے کی دیر میں ہوا کے اندر گھل مل جاتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہو ااکیلے پٹریوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آتا۔ وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے زندگی کی پٹری پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور وہ خود بخود جا رہی ہے۔ دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہےں اور وہ چلی جارہی ہے.... نہ جانے کہاں.... پھر ایک روز ایسا آئے گا جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا اور وہ کہیں رک جائے گی۔ کسی ایسے مقام پر جو اس کا دیکھا بھالا نہ ہوگا۔
یوں تو وہ بے مطلب گھنٹوں ریل کی ان ٹیڑھی بانکی پٹریوں اور ٹھہرے اور چلتے ہوئے انجنوں کی طرف دیکھتی رہتی تھی پر طرح طرح کے خیال اس کے دماغ میں آتے رہتے تھے۔ انبالہ چھاﺅنی میں جب وہ رہتی تھی تو اسٹیشن کے پاس ہی اس کا مکان تھا۔ مگر وہاں اس نے کبھی ان چیزوں کو ایسی نظروں سے نہیں دیکھا تھا۔ اب تو کبھی کبھی اس کے دماغ میں یہ بھی خیال آتا کہ یہ جو سامنے ریل کی پٹڑیوں کا جال سا بچھا ہے اور جگہ جگہ سے بھاپ اور دھواں اٹھ رہا ہے۔ ایک بہت بڑا چکلہ ہے۔ بہت سی گاڑیاں ہےں جن کو چند موٹے موٹے انجن ادھر ادھر دھکیلتے رہتے ہےں۔ سلطانہ کو تو بعض اوقات یہ انجن سیٹھ معلوم ہوتے جو کبھی کبھی انبالہ میں اس کے یہاں آیا کرتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ کسی انجن کو آہستہ آہستہ گاڑیوں کی قطار کے پاس سے گزرتا دیکھتی تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی آدمی چکلے کے کسی بازار میں سے اوپر کوٹھوں کی طرف دیکھتا جارہا ہے۔
سلطانہ سمجھتی تھی کہ ایسی باتیں سوچنا دماغ کی خرابی کا باعث ہے۔ چنانچہ جب اس قسم کے خیال اس کو آنے لگے تو اس نے بالکونی میں جانا چھوڑ دیا۔ خدا بخش سے اس نے بار ہا کہا۔ ”دیکھو، میرے حال پر رحم کرو۔ یہاں گھر میں رہا کرو۔ میں سارا دن یہاں بیماروں کی طرح پڑی رہتی ہوں۔“ مگر اس نے ہر بار سلطانہ سے یہ کہہ کر اس کی تشفی کر دی۔ ”جان من، میں باہر کچھ کمانے کی فکر کر رہا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو چند دنوں ہی میں بیڑا پار ہو جائے گا۔“
پورے پانچ مہینے ہو گئے تھے مگر ابھی تک نہ سلطانہ کا بیڑا پار ہوا تھا نہ خدا بخش کا۔ محرم کا مہینہ سر پر آ رہا تھا مگر سلطانہ کے پاس کالے کپڑے بنوانے کےلئے کچھ بھی نہ تھا۔ مختار نے لیڈی ہملٹن کی ایک نئی وضع کی قمیص بنوائی تھی، جس کی آستینیں کالی جارجٹ کی تھیں۔ اس کے ساتھ میچ کرنے کےلئے اس کے پاس کالی ساٹن کی شلوار تھی جو کاجل کی طرح چمکتی تھی۔ انوری نے ریشمی جارجٹ کی ایک بڑی نفیس ساڑھی خریدی تھی۔ اس نے سلطانہ سے کہا تھا کہ وہ اس ساڑھی کے نیچے بوسکی کا پیٹی کوٹ پہنے گی کیونکہ یہ نیا فیشن ہے۔ اس ساڑھی کے ساتھ پہننے کو انوری کالی مخمل کا ایک جوتا لائی تھی جو بڑا نازک تھا۔ سلطانہ نے جب یہ تمام چیزیں دیکھیں تو اس کو اس احساس نے بہت دکھ دیا کہ وہ محرم منانے کےلئے ایسا لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔
انوری اور مختار کے پاس یہ لباس دیکھ کر جب وہ گھر آئی تو اس کا دل بہت مغموم تھا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پھوڑا سا اس کے اندر پیدا ہو گیا ہے۔ گھر بالکل خالی تھا۔ خدا بخش حسب معمول باہر تھا۔ دیر تک وہ دری پر گاﺅتکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹی رہی۔ پر جب اس کی گردن اونچائی کے باعث اکڑ سی گئی تو اٹھ کر باہر بالکونی میں چلی گئی تاکہ غم افزا خیالات کو اپنے دماغ میں نکال دے۔
سامنے پٹڑیوںپر گاڑیوں کے ڈبے کھڑے تھے پر انجن کوئی بھی نہ تھا۔ شام کا وقت تھا۔ چھڑکاﺅ ہو چکا تھا۔ اس لئے گردوغبار دب گیا تھا۔ بازار میں ایسے آدمی چلنے شروع ہو گئے تھے جو تاک جھانک کرنے کے بعد چپ چاپ گھروں کا رُخ کرتے ہےں۔ ایسے ہی ایک آدمی نے گردن اونچی کرکے سلطانہ کی طرف دیکھا۔ سلطانہ نے غور سے اِس کی طرح دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال اس کے دماغ میں آیا کہ انجن نے بھی کالا لباس پہن رکھا ہے۔ یہ عجیب و غریب خیال دماغ میں سے نکالنے کی خاطر جب اس نے سڑک کی جانب دیکھا تو اسے وہی آدمی بیل گاڑی کے پاس کھڑا نظر آیا جس نے اس کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا تھا۔ سلطانہ نے اسے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ اس آدمی نے ادھر ادھر دیکھ کر ایک لطیف اشارے سے پوچھا۔ کدھر سے آﺅں۔ سلطانہ نے اسے راستہ بتا دیا۔ وہ آدمی تھوڑی دیر کھڑا رہا مگر پھر بڑی پھرتی سے اوپر چلا آیا۔ 
سلطانہ نے اسے دری پر بٹھایا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو اس نے سلسلہ گفتگو شروع کرنے کےلئے کہا۔ ”آپ اوپر آتے ڈر رہے تھے۔“ وہ آدمی یہ سن کر مسکرایا۔ ”تمہیں کیسے معلوم ہوا.... ڈرنے کی بات ہی کیا تھی؟“ اس پر سلطانہ نے کہا۔ ”یہ میں نے اس لئے کہا کہ آپ دیر تک وہیں کھڑے رہے اور پھر کچھ سوچ کر اِدھر آئے۔“ وہ یہ سن کر پھر مسکرایا۔ ”تمہیں غلط فہمی ہوئی۔ میں تمہارے اوپر والے فلیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہاں کوئی عورت کھڑی ایک مرد کو ٹھینگا دکھا رہی تھی۔ مجھے یہ منظر پسند آیا۔ پھر بالکونی میں سبز بلب روشن ہوا۔ تو میں کچھ دیر کےلئے ٹھہر گیا۔ سبز روشنی مجھے پسند ہے۔ آنکھوں کو بہت اچھی لگتی ہے۔ یہ کہہ کر اس نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ سلطانہ پوچھا۔ ”آپ جا رہے ہےں؟“ اس آدمی نے جواب دیا۔ ”نہیں، میں تمہارے اس مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ چلو مجھے تمام کمرے دکھاﺅ۔“
سلطانہ نے اس کو تینوں کمرے ایک ایک کرکے دکھا دیئے۔ اس آدمی نے بالکل خاموشی سے ان کمروں کا معائنہ کیا۔ جب وہ دونوں پھر اسی کمرے میں آگئے جہاں پہلے بیٹھے تھے تو اس آدمی نے کہا۔ ”میرا نام شنکر ہے۔“
سلطانہ نے پہلی بارغور سے شنکر کی طرف دیکھا۔ وہ متوسط قد کا معمولی شکل و صورت کا آدمی تھا مگر اس کی آنکھیں غیرمعمولی طور پر صاف و شفاف تھیں۔ کبھی کبھی ان میں ایک عجیب قسم کی چمک بھی پیدا ہوتی تھی۔ گٹھیلا اور کسرتی بدن تھا۔ کنپٹیوں پر اس کے بال سفید ہو رہے تھے۔ خاکستری رنگ کی گرم پتلون پہنے تھا۔ سفید قمیض تھی، جس کا کالر گردن پر سے اوپر کو اٹھا ہوا تھا۔
شنکر کچھ اس طرح دردی پر بیٹھا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ شنکر کے بجائے سلطانہ گاہک ہے۔ اس احساس نے سلطانہ کو قدرے پریشان کر دیا۔ چنانچہ اس نے شنکر سے کہا....”فرمائےے“
شنکر بیٹھا تھا۔ یہ سن کر لیٹ گیا۔ ”میں کیا فرماﺅں، کچھ تم ہی فرماﺅ۔ بلایا تمہیں نے ہے مجھے۔“ جب سلطانہ کچھ نہ بولی تو وہ اٹھ بیٹھا۔ ”میں سمجھا۔ لو اب مجھ سے سنو۔ جو کچھ تم نے سمجھا، غلط ہے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کچھ دے کر جاتے ہےں۔ ڈاکٹروں کی طرح میری بھی فیس ہے،مجھے جب بلایا جائے تو فیس دینا ہی پڑتی ہے۔“
سلطانہ یہ سن کر چکرا گئی۔ مگر اس کے باوجود اسے بے اختیار ہنسی آگئی۔ ”آپ کام کیا کرتے ہےں؟“
شنکر نے جواب دیا۔ ”یہی جو تم لوگ کرتے ہو۔“
”کیا؟“
”تم کیا کرتی ہو؟“
”میں....میں....کچھ بھی نہیں کرتی۔“
”میں بھی کچھ نہیں کرتا۔“
سلطانہ نے بھننا کر کہا۔ ”یہ تو کوئی بات نہ ہوئی........آپ کچھ نہ کچھ تو ضروری کرتے ہوں گے۔“ شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ ”تم بھی کچھ نہ کچھ ضرور کرتی ہو گی۔“
”جھک مارتی ہوں۔“
”میں بھی جھک مارتا ہوں۔“
”تو آﺅ دونوں جھک ماریں۔“
”میں حاضر ہوںمگر جھک مارنے کے دام میں کبھی نہیں دیا کرتا۔“
”ہوش کی دوا کرو....یہ لنگر خانہ نہیں۔“
”اور میں بھی والنٹیرنہیں
سلطانہ یہاں رک گئی۔ اس نے پوچھا۔ ”یہ والنٹیئر کون ہوتے ہےں؟“
شنکر نے جواب ۔ ”الّوکے پٹھے“
”میں بھی الّو کی پٹھی نہیں۔“
”مگر وہ آدمی خدا بخش جو تمہارے ساتھ رہتا ہے ضرور الّو کا پٹھا ہے۔“
”کیوں؟“
”اس لئے کہ وہ کئی دنوں سے ایک ایسے خدا رسیدہ فقیر کے پاس اپنی قسمت کھلوانے کی خاطر جا رہا ہے، جس کی اپنی قسمت زنگ لگے تالے کی طرح بند ہے۔“ یہ کہہ کر شنکر ہنسا۔
اس پر سلطانہ نے کہا۔ ”تم ہندو ہو۔ اسی لئے ہمارے ان بزرگوں کا مذاق اُڑاتے ہو۔“
شنکرمسکرایا۔ ”ایسی جگہوں پر ہندومسلم سوال پیدا نہیں ہوا کرتے۔ پنڈت مالویہ اور مسٹر جناح اگر یہاں آئیں تو وہ بھی شریف آدمی بن جائیں۔“
”جانے تم کیا اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہو.... بولو رہو گے؟“
”اسی شرط پر جو میں پہلے بتا چکا ہوں۔“
سلطانہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ”تو جاﺅرستہ پکڑو۔“
شنکر آرام سے اُٹھا۔ پتلون کی جیبوں میں اس نے اپنے دونوں ہاتھ ٹھونسے اور جاتے ہوئے کہا۔ ”میں کبھی کبھی اس بازار سے گزرا کرتا ہوں۔ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو، بلالینا۔ میں بہت کام کام آدمی ہوں۔“
شنکر چلا گیا اور سلطانہ کالے لباس کو بھول کر دیر تک اس کے متعلق سوچتی رہی۔ اس آدمی کی باتوں نے اس کے دُکھ کو بہت ہلکا کر دیا تھا۔ اگر وہ انبالے میں آیا ہوتا، جہاں کہ وہ خوشحال تھی۔ تو اس نے کسی اور رنگ میں اس آدمی کو دیکھا ہوتا اور بہت ممکن ہے کہ اسے دھکے دے کر باہر نکال دیا ہوتا مگر یہاں چونکہ وہ بہت اداس رہتی تھی۔ اس لئے شنکر کی باتیں اسے پسند آئیں۔
شام کو جب خدا بخش آیا تو سلطانہ اس سے پوچھا۔ ”تم آج سارا دن کدھر غائب رہے ہو؟“
خدا بخش تھک کر چور چور ہو رہا تھا۔ کہنے لگا۔ ”پرانے قلعہ کے پاس سے آرہا ہوں۔ وہاں ایک بزرگ کچھ دنوں سے ٹھہرے ہوئے ہےں۔ انہیں کے پاس ہر روز جاتا ہوں کہ ہمارے دن پھر جائیں۔“
”کچھ انہوں نے تم سے کہا؟“
”نہیں، ابھی وہ مہربان نہیں ہوئے.... پر سلطانہ میں جوان کی خدمت کر رہا ہوں وہ اکارت کبھی نہیں جائے گی۔ اللہ کا فضل اگر شامل حال رہا تو ضرور وارے نیارے ہو جائیں گے۔“
سلطانہ کے دماغ میں محرم منانے کا خیال سمایا ہوا تھا۔ خدا بخش سے رونی آواز میں کہنے لگی۔” سارا سارا دن باہر غائب رہتے ہو۔ میں یہاں پنجرے میں قید رہتی ہوں۔ یہ نہ کہیں جاسکتی ہوں، نہ آسکتی ہوں۔ محرم سر پر آگیا ہے۔ کچھ تم نے اس کی بھی فکر کی کہ مجھے کالے کپڑے چاہئیں۔ گھر میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔ کنگیاں تھیں، سو وہ ایک ایک کرکے بک گئیں۔ اب تم ہی بتاﺅ کیا ہوگا؟ یوں فقیروں کے پیچھے کب تک مارے مارے پھرا کروگے مجھے توایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں دہلی میں خدا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔ میری سنو اپنا کام شروع کر دو۔ کچھ تو سہارا ہو ہی جائے گا۔“
خدا بخش دری پر لیٹ گیا اور کہنے لگا۔ ”پر یہ کام شروع کرنے کےلئے بھی تو تھوڑا بہت سرمایہ چاہےے.... خدا کے لئے اب ایسی دُکھ بھری باتیں نہ کرو۔ مجھ سے اب برداشت نہیں ہوسکتیں۔ میں نے سچ مچ انبالہ چھوڑنے میں سخت غلطی کی۔ پر جو کرتا ہے اللہ ہی کرتا ہے اور ہماری بہتری ہی کےلئے کرتا ہے۔ کیا پتہ ہے کہ کچھ دیر اور تکلیف برداشت کرنے کے بعد ہم....“
سلطانہ نے بات کاٹ کر کہا۔ ”تم خدا کےلئے کچھ کرو۔ چوری کرو یا ڈاکہ مارو۔ پر مجھے ایک شلوار کا کپڑا ضرور لادو۔ میرے پاس سفید بوسکی کی ایک قمیض پڑی ہے۔ اس کومیں کالا رنگوالوں گی۔سفید نینو ںکا ایک نیا دوپٹہ بھی میرے پاس موجود ہے۔ وہی جو تم نے مجھے دیوالی پر لاکر دیا تھا۔ یہ بھی قمیض کے ساتھ ہی کالا رنگوالیا جائے گا۔ صرف شلوار کی کسر ہے۔ سو وہ تم کسی نہ کسی طرح پیدا کردو.... دیکھو تمہیں میری جان کی قسم کسی نہ کسی طرح ضرور لا دو.... میری بھتی کھاﺅ اگر نہ لاﺅ۔“
خدا بخش اُٹھ بیٹھا۔ ”اب تم خواہ مخواہ زور دیئے چلی جا رہی ہو....میں کہاں سے لاﺅں گا۔ افیم کھانے کےلئے تو میرے پاس پیسہ نہیں۔“
”کچھ بھی کرو۔ مگر مجھے ساڑھے چارگز کالی ساٹن لادو۔“
”دُعا کرو کہ آج رات ہی اللہ دو تین آدمی بھیج دے۔“
”لیکن تم کچھ نہیں کرو گے.... تم اگر چاہو تو ضرور اتنے پیسے پیدا کرسکتے ہو۔ جنگ سے پہلے یہ ساٹن بارہ چودہ آنے گز مل جاتی تھی۔ اب سوا روپے گز کے حساب سے ملتی ہے۔ ساڑھے چار گزوں پر کتنے روپے خرچ ہو جائیں گے؟“
”اب تم کہتی ہو تو میں حیلہ کروں گا۔“ یہ کہہ کر خدا بخشا اُٹھا۔ ”لو اب باتوں کو بھول جاﺅ۔ میں ہوٹل سے کھانا لے آﺅں۔“
ہوٹل سے کھانا آیا۔ دونوں نے مل کر زہر مار کیا اور سو گئے۔ صبح ہوئی۔ خدا بخش پرانے قلعے والے فقیرکے پاس چلا گیا اور سلطانہ اکیلی رہ گئی۔ کچھ دیر لیٹی رہی۔ کچھ دیر سوتی رہی۔ ادھر ادھر کمروں میں ٹہلتی رہی۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنا سفید نینوں کا ڈوپٹہ اور سفید بوسکی کی قمیض نکالی اورنیچے لانڈری والے کو رنگنے کےلئے وے آئی کپڑے دھونے کے علاوہ وہاں رنگنے کا بھی کام ہوتا تھا۔
یہ کام کرنے کے بعد اس نے واپس آکر فلموں کی کتابیں پڑھیں، جن میں اس کے دیکھئے ہوئے فلموں کی کہانی اور گیت چھپے ہوئے تھے۔ یہ کتابیں پڑھتے پڑھتے وہ سو گئی۔ جب اُٹھی تو چار بج چکے تھے کیونکہ دھوپ آنگن میں موری کے پاس پہنچ چکی تھی۔ نہا دھو کر فارغ ہوئی تو گرم چادر اوڑھ کر بالکونی میں آکھڑی ہوئی۔ تقریباً ایک گھنٹہ سلطانہ بالکونی میں کھڑی رہی۔ اب شام ہو گئی تھی۔ بتیاں روشن ہو رہی تھیں۔ نیچے سڑک میں رونق کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ سردی میں تھوڑی سی شدت ہو گئی تھی۔ مگر سلطانہ کو یہ ناگوار معلوم نہ ہوئی۔ وہ سڑک پر آتے جاتے ٹانگوں اور موٹروں کی طرف ایک عرصے سے دیکھ رہی تھی۔ دفعتہ اسے شنکر نظر آیا۔ مکان کے نیچے پہنچ کر اس نے گردن اونچی کی اور سلطانہ کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔ سلطانہ نے غیرارادی طور پر ہاتھ کا اشارہ کیا اور اسے اوپر بلالیا۔
جب شنکر اوپر آگیا تو سلطانہ بہت پریشان ہوئی کہ اس سے کیا کہے۔ دراصل اس نے ایسے ہی بلا سوچے سمجھے اسے اشارہ کر دیا تھا۔ شنکر بے حد مطمئن تھا۔ جیسے اس کا اپنا گھر ہے۔ چنانچہ بڑی بے تکلفی سے پہلے روز کی طرح وہ گاﺅ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا۔ جب سلطانہ نے دیر تک اس سے کوئی بات نہ کی تو اس نے کہا۔ ”تم مجھے سو دفعہ بلا سکتی ہو اور سودفعہ ہی کہہ سکتی ہو کہ چلے جاﺅ.... میں ایسی باتو ںپر کبھی ناراض نہیں ہوا کرتا۔“
سلطانہ شش و پنج میں گرفتار ہو گئی۔ کہنے لگی۔ ”نہیں بیٹھو، تمہیں جانے کو کون کہتا ہے۔“
شنکر اس پر مسکرا دیا۔ ”تو میری شرطیں تمہیں منظور ہےں۔“
”کیسی شرطیں؟“ سلطانہ نے ہنس کر کہا۔ ”کیا نکاح کر رہے ہو مجھ سے؟“
”نکاح اور شادی کیسی؟....نہ تم عمر بھر میں کسی سے نکاح کرو گی نہ میں۔ یہ رسمیں ہم لوگوں کےلئے نہیں.... چھوڑو ان فضولیات کو، کوئی کام کی بات کرو۔“
”بولو کیا بات کروں؟“
”تم عورت ہو.... کوئی ایسی بات شروع کرو جس سے دوگھڑی دل بہل جائے۔ اس دنیا میں صرف دکانداری ہی دکانداری نہیں کچھ اور بھی ہے۔“
سلطانہ ذہنی طور پر اب شنکر کو قبول کرچکی تھی۔ کہنے لگی۔ ”صاف صاف کہو تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟“
”جو دوسرے چاہتے ہےں۔“ شنکر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
”تم میں اور دوسروں میں پھر فرق ہی کیا رہا؟“
”تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ اُن میں اور مجھ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہےں جو پوچھنا نہیں چاہئیں۔“
سلطانہ نے تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ پھر کہا۔ ”میں سمجھ گئی ہوں۔“
”تم کہو کیا ارادہ ہے؟“
”تم جیتے میں ہاری۔ پر میں کہتی ہوں آج تک کسی نے ایسی بات قبول نہ کی ہو گی۔“
”تم غلط کہتی ہو.... اسی محلے میں تمہیں ایسی سادہ لوح عورتیں بھی مل جائیں گی جو کبھی یقین نہ کریں گی کہ عورت ایسی ذلت قبول کرسکتی ہے جو تم بغیرکسی احساس کے قبول کرتی رہی ہو۔ لیکن ان کے نہ یقین کرنے کے باوجود تم ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو.... تمہارا نام سلطانہ ہے نا؟“
”سلطانہ ہی ہے۔“
شنکر اُٹھ کھڑا ہوا اور ہنسنے لگا۔ ”میرا نام شنکر ہے....یہ نام بھی عجب اوٹ پٹانگ ہوتے ہےں۔ چلو آﺅ اندر چلیں۔“
شنکر اور سلطانہ دری والے کمرے میں واپس آئے تو دونوں ہنس رہے تھے۔ نہ جانے کس بات پر....! جب شنکر جانے لگا تو سلطانہ نے کہا۔ ”شنکر میری ایک بات مانو گے؟“
شنکر نے جواباً کہا۔ ”پہلے بات بتاﺅ۔“
سلطانہ کچھ جھینپ سی گئی۔ ”تم کہو گے کہ میں دام وصول کرنا چاہتی ہوں مگر....“
”کہو کہو....رُک کیوں گئی ہو۔“
سلطانہ نے جرا ¿ت سے کام لے کر کہا۔ ”بات یہ ہے کہ محرم آ رہا ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں کالی شلوار بنوا سکوں.... یہاں کے سارے دکھڑے تو تم مجھ سے سن ہی چکے ہو۔ قمیض اور دوپٹہ میرے پاس موجود تھا جو میں نے آج رنگوانے کےلئے دے دیا ہے۔“
شنکر نے یہ سن کر کہا۔ ”تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں کچھ روپے دے دوں۔ جو تم یہ کالی شلوار بنوا سکو۔“
سلطانہ نے فوراً ہی کہا۔ ”نہیں میرامطلب یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو تم مجھے ایک کالی شلوار بنوا دو۔“
شنکر مسکرایا۔ ”میری جیب میں تو اتفاق ہی سے کبھی کچھ ہوتا ہے۔ بہرحال میں کوشش کروں گا۔ محرم کی پہلی تاریخ کو تمہیں یہ شلوار مل جائے گی۔ لے بس اب خوش ہو گئیں۔“ سلطانہ کے بندوں کی طرف دیکھ کر شنکر نے پوچھا۔ ”کیا یہ بندے تم مجھے دے سکتی ہو؟“
سلطانہ نے ہنس کر کہا۔ ”تم انہیں کیا کرو گے؟ چاندی کے معمولی بندے ہےں۔ زیادہ سے زیادہ پانچ روپے کے ہوں گے۔“
اس پر شنکر نے کہا۔ ”میں نے تم سے بندے مانگے ہےں ، ان کی قیمت نہیں پوچھی۔ بولو دیتی ہو۔“
”لے لو۔“ یہ کہہ کر سلطانہ نے بندے اُتار کر شنکر کو دے دیئے۔ اس کو بعد میں افسوس ہوا مگر شنکر جاچکا تھا۔
سلطانہ کو قطعاً یقین نہیں تھا کہ شنکر اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ مگر آٹھ روز کے بعد محرم کی پہلی تاریخ کو صبح نو بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو شنکر کھڑا تھا۔ اخبار میں لپٹی ہوئی چیز اس نے سلطانہ کو دی اور کہا۔
ساٹن کی کالی شلوار ہے.... دیکھ لینا، شاید لمبی ہو .... اب میں چلتا ہوں۔“
شنکر شلوار دے کر چلا گیا۔ اور کوئی بات اس نے سلطانہ سے نہ کی۔ اس کی پتلون میں شکنیں پڑی ہوئی تھیں۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی سوکر اُٹھا ہے اور سیدھا ادھر ہی چلا آیا ہے۔
سلطانہ نے کاغذ کھولا۔ ساٹن کی کالی شلوار تھی۔ ایسی ہی جیسی وہ انوری کے پاس دیکھ کر آئی تھی۔ سلطانہ بہت خوش ہوئی۔ بندوں اور اس سودے کا جو افسوس اسے ہوا تھا اس شلوار نے اور شنکر کی وعدہ ایفائی نے دور کر دیا۔
دوپہر کو وہ نیچے لانڈری والے سے اپنی رنگی ہوئی قمیض اور دوپٹہ لے کر آئی۔ تینوں کالے کپڑے اس نے جب پہن لئے تو دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو انوری اندر داخل ہوئی۔ اس نے سلطانہ کے تینوں کپڑوں کی طرف دیکھا اور کہا۔ ”قمیض اور دوپٹہ تو رنگا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ پر یہ شلوار نئی ہے....کب بنوائی ؟“
سلطانہ نے جواب دیا۔ ”آج ہی درزی لایا ہے۔”یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں انوری کے کانوں پر پڑیں ۔”یہ بندے تم نے کہاں سے لئے؟“
انوری نے جواب دیا۔ ”آج ہی منگوائے ہےں۔“
اس کے بعد دونوں کو تھوڑی دیر تک خاموش رہنا پڑا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6