میرے لئے ...... تحریر : سلطان جمیل نسیم

آتش فشاں پھٹا اور لاوا بہنے لگا۔
گویا ایک دھماکے نے عمارت کی بنیادیں ہلا دی تھیں تو دوسرے نے دیواریں ڈھا دیں۔ اور عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی۔
وہ اپنے بکھرے ہوئے وجود کے اس ملبے میں دفن ہو کر رہ گئیں اور قبر میں ہوتا بھی کیا ہے۔ اندھیرا حبس، تنہائی.... ایسا اندھیرا تو ان کی زندگی میں کبھی پھیلا بھی نہ تھا کہ راستہ نہ سجھائی دے ایسا حبس کہ دم گھٹ جائے مگر تارِ نفس نہ ٹوٹے اور تنہائی کی شدت کا یہ عالم کہ وہ اپنے آپ کو آواز نہ دے سکیں۔
آج صبح جب ان کی آنکھ کھلی تو دھوپ سائبان سے نیچے اتر آئی تھی اور افروز کا پلنگ خالی تھا.... دھوپ کو دیکھ کر اندازہ لگایا کہ آٹھ بج چکے ہےں۔ افروز اسکول چلی گئی ہو گی.... اِس خیال سے انہیں دکھ ہوا کہ آج وہ اتنی دیر سے کیوں اُٹھیں۔ اُس باﺅلی لڑکی نے تو چائے بھی نہیں پی ہو گی۔ چائے کے خیال سے ان کی نظری باورچی خانے کی طرف گئیں چولہے میں آگ جل رہی تھی اور اُس پر رکھی ہوئی کیتلی میں پانی اُبل رہا تھا، جس کی بھاپ کیتلی کی ٹونٹی سے دھوئیں کی لکیر بن کر نکل رہی تھی....وہ زیر لب مسکرائیں۔ بے چاری.... چائے پی کر جانا چاہتی مگر ہمیشہ کی دیر طرح سے سو کر اُٹھنے والی اتنے سویرے کیسے جاگ سکتی تھی کہ چائے بنا کر اطمینان سے پی جائے۔ انہوں نے سوچا۔
اٹھیں چولہے پر سے کیتلی اتار کر اس کا پانی پھینکا اور دوسرا پانی لینے کےلئے غسل خانے کی طرف گئیں کہ گھر میں ایک ہی نل تھا اور وہ بھی غسل خانے میں۔ دروازہ بھڑا ہوا تھا۔ ان کے ہاتھ لگاتے ہی بجلیاں سی کوند گئیں۔
افروز نہانے کے بعد کھڑی اپنا پنڈا پونچھ رہی تھی۔
دروازہ کھلتے ہی افروز نے پہلے تو گھبرا کے ان کی طرف دیکھا پھر ایک دم اکڑوں بیٹھ کر ذرا سے تولیہ سے اپنا جسم چھپانے لگی۔
اور جب۔ پھر بھی وہ یوں ہی بت بنی کھڑی رہیں تو افروز نے منمناتے ہوئے کہا۔
”امی ہٹئے بھی سامنے سے....“
تو وہ جیسے بیدار سی ہو گئیں۔ وہاں سے ہٹ آئیںاور آکر اپنی چارپائی پر بیٹھ گئیں۔ افروز جب کپڑے پہن کر باہر نکلی تو لجائی لجائی سی نظروں سے ان کی طرف دیکھا اور غیرمتوجہ پاکر تولیہ سے جھٹکے دے کر گیلے بال خشک کرنے لگی۔
دن کے اجالے کی مانند فروز کا روشن بدن دیکھ کر ان کے سامنے کئی مسئلے رات کی سیاہی کی طرح اُبھر آئے تھے۔ بہت سے سوال افروز کے جسم سے شعاعوں کی طرح ان کے ذہن میں لکیریں سی کھینچ رہے تھے۔ ایسے سوال جن کا جواب دینے کےلئے ان کو بہت پہلے سے تیاری کرلینا چاہےے تھی مگر وہ تو سب کچھ بھول کر مشین پر ایسی جھکی تھیں کہ علاوہ سوئی ڈورے کے ان کو کچھ نظرنہیں آیا تھا۔ مگر آج....! وہ اپنی زندگی کے بخئے اُدھڑتے ہوئے محسوس کررہی تھیں۔ دوسروں کے جسم کی پیمائش کے حساب سے کپڑے سیتی رہیں مگر افروز کے بدن کے بڑھتے ہوئے خطوط نہ دیکھ سکیں۔ افروز کی جوانی اتنے دبے قدموں آئی کہ وہ مشین کی گھڑگھڑاہٹ میں اس کی آمد سے بالکل بے خبر رہیں۔ ان کو آج یہ محسوس ہو رہا تھا جیسے انہوں نے افروز کو پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔ جیسے وہ اُسے جنم کے بعد بھول گئیں تھیں اور آج وہ یاد آئی ہے۔
اس دن اور اُس وقت افروز نے ان سے کیا کیا باتیں کیں اور انہوں نے کیا جواب دیئے یہ بالکل بھی یاد نہ رہا۔ ان کا دل اور ان کا دماغ دونوں ان کی آنکھیں بن گئے تھے، جن میں افروز کا جوان بدن اپنے تمام تر سماجی مطالبوں کے ساتھ ایک سوالیہ علامت بنا موجود تھا۔ انہوں نے لاکھ کوشش کی کہ کوئی اور بات سوچیں۔ دھیان کسی اور طرف لے جائیں۔ خیالوں کا مرکز تبدیل کریں مگر ہر فکر کا محور افروز تھی۔ چلویوں ہی سہی۔ اگر آج میرے ذہن پر افروز کی جوانی بارش بن کر برس پڑی ہے تو میں بھی اتنا سوچوں گی اتنا سوچوں گی کہ بالکل شرابور ہو جاﺅں۔ بلکہ اس خیال میں ڈوب جاﺅں مگر فرار کی یہ راہ بھی مسدود نکلی۔ انہوں نے افروز کی عمر کا حساب لگایا تو وہ چودہ برس پورے کر چکی تھی۔ اس عمر میں تو ان کےلئے نیاز صاحب سے شادی کا پیغام منظور ہو چکا تھا۔
زہر کا علاج زہر ہے۔ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ بات سے بات نکلتی ہے۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ افروز کی عمر اور جوانی کے بارے میں سوچتے سوچتے انہیں اپنی باتیں یاد آنے لگیں۔ اپنی شادی کی بات۔ نیاز کا والہانہ چاﺅ۔ افروز کی پیدائش اور پھر شوہر کی حادثاتی موت ذہن نے ماضی کا دریچہ کھولا تو ہوا کے جھونکوں کی طرح ایک تواتر اور تسلسل کے ساتھ تمام واقعات آنکھوں میں اتر آئے۔ نیاز کو مرے ہوئے چار سال ہی تو ہوئے ہےں۔ اس عرصے میں کیا کیا انقلاب نہیں آگئے۔ اپنے بیگانے بنے، مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ اپنے ہی وطن میں لوگ اجنبی ٹھہرے۔ جب تمام سہارے ٹوٹ گئے۔ کیمپ میں فاقہ کشی سے بچنے کےلئے عزتوں کے سودے ہونے لگے تو اس عالم بیکسی میں مجید ان کے کام آیا۔ ان کی خالہ کا وہ آوارہ سا لڑکا جو محض اس وجہ سے ڈھاکہ چھوڑ کرمغربی پاکستان چلا گیا تھا کہ ان کی شادی نیاز سے کیوں ہو رہی ہے مگر اس پرآشوب دور میں جب اچانک ان کو ملا تو ڈھارس بندھی۔ مجید کی آوارہ گردی اور اوباش مزاجی سے واقف تھیں مگر اُس برہم زمانے میں تو وہ ان کےلئے اللہ کی طرف سے رحمت بن کر آیا تھا۔ ڈھاکہ میں مجید کے کردار کا یہ رخ بھی ان کے سامنے آیا کہ وہ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر بے سہارا اور مظلوم لڑکیوں کو یکجا کرتا رہا۔
مجید کی تمام گستاخیوں اور بدتمیزیاں ان کو بالکل یاد نہ آئیں بلکہ اس کی آوارہ مزاجی تو اب ان کے کام آئی۔ کس طرح وہ ان پندرہ بیس ستم گزیدہ لڑکیوں کے ساتھ ان کو لے کرڈھاکہ سے کھٹمنڈو پہنچا اور کھٹمنڈو سے کراچی لایا۔ اس طرح تو شاید نیاز بھی ان کو نہ لاسکتے تھے۔ اورنگی ٹاﺅن کے ایک نیم پختہ اور چھوٹے سے مکان میں ان کے رہنے کا بندوبست بھی مجید نے کر دیا۔ ان بے سہارا لڑکیوں کو تو ایک دن بعد ہی وہ کسی فلاحی ادارے کے سپرد کر آیا تھا۔
کراچی پہنچ کر مجید کی لا اُبالی طبیعت نے پھر انگڑائی لی اور وہ اچانک ایک ایک دو، دو مہینے کےلئے غائب رہنے لگا۔
حالات انقلاب کا شکار تو ہو ہی چکے تھے۔ مجید کی غیرحاضری کے دنوں میں جب کھانے پینے کی بھی محتاجی ہونے لگی تو انہوں نے سلائی کا کام شروع کر دیا۔ اس طرح دن میں ایک وقت کی روکھی سوکھی روٹی کا سہارا ہو گیا۔ اپنے ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک کے واقعات کو وہ حالات کا ردعمل سمجھتی رہی تھیں۔ مگر سب سے بڑا انقلاب جس میں واقعات اور حالات کا کوئی دخل نہ تھا یہ ہوا کہ دس برس کی بچی جوان ہو گئی۔
یا اللہ کوئی بات ایسی بھی ہے جو افروز کے خیال کی دھوپ کے سامنے دیوار بن سکے؟
مجید بھی تو افروز کا بہت خیال رکھتا ہے۔ اسکول بھی اُس کے اصرار سے بھیجنا شروع کیا۔ کتابیں بھی اس نے خرید کر دیں اور اس کے باوجود وہ کبھی کبھی لمبے عرصے کےلئے غائب ہو جاتا ہے پھر بھی اتنا کر دیتا ہے کہ کہیں دستِ سوال دراز نہیں کرنا پڑتا۔ ورنہ سلائی تو بے وقت کی بارش کی مانند ہے ہوئی ہوئی نہ ہوئی۔
مجید کی مہربانیوں کےلئے پیش نظر بہ دن تک وہ اپنے آپ کو اس بات کےلئے تیار کرتی رہیں کہ وہ اس کی ہر اوٹ پٹانگ بات سن کر پی جائیں گی اور ....اور زیادہ کرے تو مان بھی لیں گی مگر اس نے کوئی بات کی ہی نہیں تو پھر انہوںنے اس کو مجید بھائی کہنا شروع کر دیا۔
وہ اپنے ذہن کی راکھ میں حالات و واقعات کی چنگاریاں کریدتی رہیں مگر افروز کے اُجلے بدن کا سایہ ان کے خیال سے نہ گیا۔ جب احساس کی آنچ مدھم ہوئی تو ان کو معلوم ہوا کہ افروز اسکول جا چکی ہے، وہ اٹھیں باورچی خانے کا کام سمیٹا اور کمرے میں آئیں تو پلنگ پر افروز کا میلا سا لباس پڑا تھا جسے وہ اتار کر اسکول کا یونیفارم پہن کر گئی تھی۔ انہوں نے اس کی قمیض کو کندھوں سے پکڑ کر اُٹھایا تو ایسا معلوم ہوا جیسے یہ ان ہی کی ہے۔ ایک مرتبہ پھر افروز کے خیال نے اسیر کرکے ان کو الجھنوں کے زنداں میں ڈال دیا۔ افروز جوان ہو گئی ہے۔ اب اس کی شادی کی فکر کرنا چاہےے۔ حالات ایسے ہےں کہ دوچار تو کیا دس پانچ برس میں بھی وہ اس کی شادی کی تیاری نہ کر پائیں گی۔ پھر آج مجید بھائی سے بات کرنا چاہےے۔ اب اسے شادی کی فکر کروں تو شاید مجید بھائی کی مدد کے سہارے دوچار سال میں اس فرض سے سبکدوش ہو سکوں۔ رشتے کی تلاش اور دیکھ بھال تنہا میرے بس کی تو بات نہیں۔
افروز کے کپڑے سمیٹ کر انہوں نے انگنی پر ڈالے۔ کنگھا اٹھا کر طاق میں رکھا۔ آئینہ جب سیدھا کرکے رکھنے لگیں تو نہ جانے کس خیال کے تحت وہ اُسے لے کر صحن میں چلی آئیں اور بڑی دیر تک اس میں اپنے چہرے کو دیکھتی رہیں۔ بڑھاپے کی ایک شکن بھی تو نہیں پڑی تھی۔ وقت کا غبار چہرے پر چھایا ہوا تھا۔ غیراداری طور پر وہ اپنے سر میں بہت دیر تک سفید بال تلاش کرتی رہیں آخر انہو ںنے اپنے پاگل پن سے اکتا کر یہ سوچا کہ اب سے چار سال پہلے تک تو شوہر ان کی تعریف کرتے دیوانے ہو جاتے تھے۔ لاکھ مصیبتیں سہی ہوں۔ ہزار کشٹ جھیلے ہوں مگر اس عرصہ میں بوڑھی تو ہرگز نہیں ہوئی ہوں۔ تو پھر افروز جوان کیسے ہو گئی؟
اسی وقت مجید آگیا۔ انہوں نے اپنے الجھنوں میں شریک کرنے کےلئے تمحید اُٹھائی۔
”مجید بھائی۔ افروز کئی دن سے برقعے کےلئے کہہ رہی ہے۔“
مجید نے لاپرواہی سے کہا۔
”بنوا دیں گے۔“
”اس کی قمیض بھی مسک گئی ہےں۔“
”وہ بھی بن جائیں گی۔“ مجید نے اسی لہجے میں کہا۔
”مگر مجید بھائی۔ میں کہتی ہوں کیا یہ لڑکی کچھ دن اور بغیر برقعے کے گزارہ نہیں کرسکتی۔ ہم کو اب جو کچھ ہو اس کی شادی کےلئے کریں۔“
”شادی....! کس کی شادی؟ افروز کی....!! ارے اس کےلئے تو میں نہ جانے کیا کیا سوچے بیٹھا ہوں۔“
وہ خاموش رہیں کہ مجید شاید کچھ اور کہے۔
مگر تھوڑی دیر کے بعد مجید نے بالکل ہی موضوع سے الگ ہٹا ہوا سوال کر دیا۔
”آپا ! تم مہینہ بھر میں کتنی سلائی کر لیتی ہو۔“
انہوں نے حیرت اور تذبذب بھرے انداز میں مجید کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”یہی سو....سوا سو کی۔“
اس آمدنی میں ....کیا تم دونوں پیٹ بھر کے کھا سکتی ہو؟“
”کہاں مجید بھائی....“ اس کے لہجے میں احسان مندی کے ساتھ دُکھ بھی سمٹ آیا۔ ”اس زمانے میں جب مہنگائی سر سے گزر چکی ہے، سلائی آمدنی سے پیٹ کہاں بھر سکتا ہے۔ وہ تو اللہ نے تمہیں فرشتہ بنا کے بھیج دیا ہے جو یہ چار دیواری بھی میسر ہو گئی۔ گھر میں دو برتن بھی تمہاری بدولت نظر آرہے ہےں۔“
”اور....اگر میں ہاتھ کھینچ لوں تب“
تب رحم طلب نظروں سے انہوں نے مجید کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
”تو فاقوں پر نوبت آجائے۔ افروز کو اسکول سے اٹھانا پڑے۔ مگر مجید بھائی آج تم یہ سب باتیں کیوں........“
بات....یہ ہے آپا....میں تھک چکا ہوں۔ پندرہ سال پہلے میں نے ڈھاکہ چھوڑا۔ اپنا گھر چھوڑا۔ جب سے دن رات محنت کر رہا ہوں۔ پہلے تو اکیلا تھا۔ روکھی سوکھی کھا کر گزارا کر لیتا تھا۔ لیکن تم لوگوں کے آنے کے بعد.... مجھے مسلسل فکر رہتی ہے۔ میں چاہتا ہوں میری فکروں میں کوئی شامل ہو۔ کوئی میرا ہم خیال ہو۔ اس لئے آج یہ باتیں تم سے کررہا ہوں۔ اگر تم میرا ساتھ دو۔ میرے کہنے پر عمل کرو۔ تو گھر میں چار پیسے بھی ہوں اور افروز....جس کے کھانے پینے کے یہی دن ہےں اُس کی بھی خواہشیں پوری ہوں۔ پھر اس کا جہیز بھی جمع ہو جائے۔ کسی بڑی جگہ شادی کرانے کا بھی ذمہ لیتا ہوں۔ بڑے بڑے دولتمند ہےں کراچی میں۔“
وہ بہت توجہ اور دھیان سے مجید کی باتیں سن رہی تھیں۔ تو کیا اتنے دن بعد مجید وہ کہنے والا ہے جس کو سننے کا حوصلہ انہوں نے پاکستان آتے ہی اپنے اندر پیدا کر لیا تھا۔ لیکن مجید کے روےے نے اس حوصلے کو واہمے کی شکل دے کر اپنے لئے مجید بھائی کا خطاب قبول کر لیا تھا۔
تو کیا اتنے دن بعد........!
اپنے چھوٹے قد کی چار دیواری والے مکان میں ان کو مجید کا سایا پھیلتا نظر آیا۔ 
اپنا ماضی اور حال.... افروز کا مستقبل، لمحوں کی بارش، ساعتوں کا فیصلہ۔ انہوں نے بڑے تھکے سے لہجے میںکہا۔
”جو تم کہو مجید.... بھائی۔ آج سے تو افروز مجھے اپنے سینے پر رکھا ہوا بوجھ معلوم ہونے لگی ہے۔ اس کی خاطرءجو کہو تم....“
”ارے یہ بوجھ ایک دن میں ہلکا ہو جائے گا۔“
”ٹھیک ہے۔“
”بات یہ ہے۔ آج میری ملاقات ایک آدمی سے ہوئی۔ بہت بڑا رئیس ہے شہر کا۔ اس نے شاید اسکول جاتے ہوئے افروز کو دیکھا ہے۔ آج ہی اس نے مجھے بلا کر اپنی رام کہانی سنائی.... تو بھئی میں تو زبان دے آیا ہوں۔“
”زبان“
”ہاں....میں نے حامی بھر لی ہے۔“
”بھلا میں نے اُسے دیکھا نہ بھالا اور تم....“
”اس میں دیکھنے بھالنے کی کیا بات ہے۔ دس ہزار دینے کو تیار ہے۔“
”دس ہزار.... وہ کیوں“
مجید ان کی بات اچک کر تیزی سے بولا۔
”صرف ایک رات کےلئے۔ اب افروز کو راضی کرنا تمہارا کام ہے۔“
پہلے تو ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ انہوں نے سنا کیا ہے۔ یہ الفاظ ہےں یا انگارے ہےں۔ یہ مجید کے ہونٹوں نے کوئی بات اگلی ہے یا آتش فشاں کے دہانے سے لاوا اُبلا ہے۔ مگر جب سمجھیں تو دل بیٹھ گیا۔ عمارت ڈھے گئی۔ آج ہی تو ان کی افروز کی جوانی کا احساس ہوا تھا اور آج ہی اس پر بولی لگا دی گئی۔ پہلے افروز کو دیکھ کر آنکھیں روشنی سے چکا چوند ہوئی تھیں۔ تو اب مجید نے اتنے اندھیرے اچھال دیئے کہ دنیا آنکھوں میں تاریک ہو گئی۔ ایک دھماکے نے ان کے خیالوں کو تہہ و بالا کر ڈالا تھا تو دوسرے نے زمین شق کردی۔
”کیا سوچ رہی ہو۔ دولت بار بار دروازے پر دستک نہیں دیتی ہے۔“
مجید کے اتنے سلوک اگر اڑے نہ آگئے ہوتے تو انہوں نے اس کا منہ نوچ لیا ہوتا۔
مگر....جب لفظ زبان پر آئے تو حقارت و نفرت کے راستے سے گزر کر آئے۔
”مجھے.... تم....تجھ سے یہ امید نہ تھی۔ تو تو آستین کا سانپ نکلا کمینے۔ نہیں چاہےے ہمیں تیرا سہارا۔ نہیں چاہےے تیری دولت۔ اپنے یہ شیطانی خیالات لے کر نکل جا....میرے گھر سے۔“
انہیں خبر نہیں کہ مجید پھر کب گیا اور کیا کہتا ہوا گیا۔ وہ تو آگ کے حصار میں تھیں۔ سارے وجود میں آگ پھیلی ہوئی تھی۔ یہ بات تو انہوں نے کبھی سوچی بھی نہ تھی۔
اس راستے کی طرف تو اُن کا خیال بھٹک کر بھی نہیں گیا تھا۔ اِدھر کی دُنیا اُدھر ہو جائے ایسا ممکن ہی نہیں۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ ڈھاکہ کے کیمپ میں گزری ہوئی ایک رات رقص کرتی ہوئی نہ جانے کہاں سے وجود میں پھیلے ہوئے اس آگ کے زنداں میں چلی آئی۔ وہ رات....بھوک .... پیٹ کے اندر دہکتے ہوئے شعلے....افروز کے ہونٹوں پر جمی ہوئی پٹریاں۔ آنکھوں میں اٹکا ہوا دم.... ہوا....تنفس.... شلعے.... راکھ.... پھیلا ہوا ہاتھ، ....مڑے ہوئے ۔
اوہ میرے خدا....کیا اس رات کی صبح یہ ہے۔ سزا جرم کی ہوتی ہے مجبوری کی تو نہیں۔ پھر میرے ساتھ یہ سب کچھ کیوں، کس لئے....!
اُس رات وہ پچھلے پہر تک روتی رہیں۔ عزت و ایمان کی سلامتی کےلئے دُعائیں کرتی رہیں مگر....افروز کا مستقبل ....دُعا کےلئے پھیلے ہاتھوں پر رکھا نظر آتا۔
ایک مہینہ گزرا، کئی مہینے گزرے۔ افروز نے بار بار پوچھا۔ ”مجید ماموں کیوں نہیں آتے ہےں۔ آپ مجھے اسکول کیوں نہیں بھیجتی ہےں۔ سلائی بھی کم آرہی ہے۔ آپ مجید ماموں کو خبر تو کیجئے.... مجھے برقعہ نہیں چاہےے۔ مجھے فیس نہیں چاہےے مگر مجھے کھانا تو چاہےے۔“
اُس دن وہ برقعہ سر پہ ڈال کے مجید کی تلاش میں نکلیں۔
جب وہ آیا تو انہوں نے نظریں جھکا کے کہا۔
”میں تنہا ہوتی تو.... خود کشی کرلیتی.... لیکن بیٹی کا ساتھ ہے۔ میں اس جہنم میں جانے کو تیار ہوں، جس کا دروازے تم نے کھولا ہے۔ جاﺅ تم سو پچاس میں کسی سے بات کرلو۔“
مجید نے ایسی نظروں سے دیکھا، جیسے ان کے حواس پر شک کر رہا ہو پھر چہکتے ہوئے کہا۔
”سو پچاس! ارے آپا، سوپچاس تم ہم ہرروز افروز کے صدقے میں اُتارا کریں گے۔“
انہوں نے پہلی بار مجید کی نظروں میں نظریں گاڑ کے تنے ہوئے لہجے میں کہا۔
”گاہک افروز کےلئے نہیں آئے گا۔“
”تو پھر....!“
”میرے لئے....!!“

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6