مصنوعی چہرہ

”ایکس“ سوشل کلب میں امدادی کاموں کے لئے فینسی ڈریس رقص یا جیسا کہ اونچے گھرانوں کی نوجوان خواتین اسے کہنا پسند کرتی تھیں، ”بال پاری“ ہو رہا تھا۔
آدھی رات بیت کی تھی۔ رقص سے دلچسپی نہ رکھنے والے دانش ور جنہوں نے مصنوعی چہرے نہیں لگا رکھے تھے۔ ان کی تعداد پانچ تھی۔ مطالعے کے کمرے میں بڑی سی میز کے گرد بیٹھے اپنی ناکوں اور داڑھیوں کو اخبارات کے اوراق میں چھپائے ہوئے پڑھ رہے تھے، اونگھ رہے تھے اور ماسکو اور پیٹرس برگ کے اخباروں کے نہایت ہی آزاد خیال نامہ نگار خصوصی کے الفاظ میں ”محو خیال“ تھے۔
بال روم سے چار جوڑوں کے بیک وقت رقص والی موسیقی کی لہریں اندر آ رہی تھیں۔ دروازے کے سامنے سے ویٹر پلیٹوں کو کھڑکھڑاتے ہوئے بار بار تیزی سے گزر رہے تھے۔ لیکن مطالعے کے کمرے کے اندر گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
ایک دھیمی، دبی دبی سی آواز نے جو چمنی کے اندر سے نکلتی ہوئی معلوم ہوئی اس خاموشی کو توڑ دیا۔
”میرا خیال ہے کہ یہاں ہمیں زیادہ سکون میسر ہوسکے گا! آئیے! یہاں آئیے آپ لوگ!“
دروازہ کھلا اور مور کے پروں سے آراستہ ہیٹ اور کوچوان کی وردی میں ملبوس کشادہ شانوں اور گٹھے ہوئے جسم کا ایک آدمی جس نے مصنوعی چہرہ لگا رکھا تھا، مطالعے کے کمرے میں داخل ہوا۔ مصنوعی چہروں والی دو خواتین اور ٹرے سنبھالے ہوئے ایک ویٹر اس کے پیچھے پیچھے اندر آئے۔ ٹرے پر ایک چھوٹی لیکن کافی کشادہ بوتل تیز شراب کی، تین بوتلیں سرخ ہلکی شراب کی اور کئی گلاس رکھے ہوئے تھے۔
”ہاں یہاں ذرا ٹھنڈک رہے گی“ آدمی نے کہا۔ ”سنو! ٹرے کو میز پر رکھ دو.... ماد موزیل، آپ بیٹھیے نا! je vous pris a la trimontra اور آپ حضرات، جگہ خالی کیجئے.... مخل ہو رہے ہیں!“
وہ کچھ لڑکھڑایا اور ہاتھ مار کے میز پر سے کئی رسالے نیچے گرا دیجئے۔
”یہاں پر رکھ دو۔ اور آپ مطالعے کے شائقین صاحبان، یہاں سے چلتے پھرتے نظر آئیے۔ یہ اخبار بینی اور سیاست لڑانے کا وقت تھوڑی ہے.... پھینکئے بھی انہیں!“
”ذرا پرسکون رویہ اختیار کیجئے نا“ دانش وروں میں سے ایک نے اپنی عینک کے ذریعے مصنوعی چہرے والے آدمی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ ”یہ مطالعے کا کمرہ ہے، بار نہیں.... یہ مے نوشی کی جگہ نہیں ہے۔“
”کیوں نہیں ہے؟ کیا یہ میز مضبوط نہیں ہے یا یہ کہ ہمارے اوپر چھت پھٹ پڑے گی؟ عجیب بات ہے! بہرحال.... میرے پاس بحث کرنے کا وقت نہیں۔ اخبارات رکھ دیجئے.... جی بھر کر پڑھ چکے ہیں اور آپ لوگوں کو اتنی ہی پر قناعت کرنی ہوگی۔ ویسے بھی آپ صاحبان کی قابلیت کی کوئی تھاہ نہیں، زیادہ پڑھ کر آنکھیں بھی چوپٹ کر لیجئے گا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں اسے برداشت نہیں کرسکتا۔ یہ ہے سارا قصہ۔“
ویٹر نے ٹرے میز پر رکھ دی اور بازو پر نیپکن ڈالے ہوئے دروازے کے پاس کھڑا ہوگیا۔ نوجوان خواتین فوراً سرخ شراب پر ٹوٹ پڑیں۔
”سوچنے کی بات ہے، ایسے بھی قابل لوگ پائے جاتے ہیں جو اخبارات کو اس قسم کی شرابوں پر ترجیح دیتے ہیں“ مور کے پروں والے آدمی نے اپنے لئے گلاس میں تیز شراب انڈیلتے ہوئے کہا۔ ”مجھے یقین ہے، معزز حضرات کہ آپ کو اخباروں سے یہ جو عشق ہے نا تو اس کا سبب یہ ہے کہ مے نوشی کے لئے آپ کی جیب میں پیسے ہی نہیں۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟ ہا۔ ہا! ذرا ان لوگوں کو مطالعہ کرتے تو دیکھئے!.... اور آپ کے ان اخباروں میں بھلا لکھا کیا ہے؟ ارے اے عینک والے، میں تمہی سے مخاطب ہوں! ہمیں بھی کچھ بتاﺅ نا! اب ختم بھی کرو یہ سلسلہ! یہ جھوٹ موٹ کی شان کسی اور کو دکھانا! لو، اس سے تو بہتر ہے کہ جام اٹھاﺅ!“
یہ کہہ کر مور کے پر والے نے عینک والے دانش ور کے ہاتھوں سے اخبار چھین لیا۔ آخر الذکر کے چہرے پر سرخی اور پھر زردی چھا گئی اور اس نے سخت حیرت سے دوسرے دانش وروں کی طرف دیکھا جو جواباً اس کی طرف دیکھنے لگے۔
”آپ آپے سے باہر ہوئے جا رہے ہیں، جناب والا“ وہ چیخ اٹھا۔ ”آپ مطالعے کے کمرے کو گھٹیا شراب خانے میں تبدیل کئے دے رہے ہیں۔ آپ ہلڑ ہنگامے کو، لوگوں کے ہاتھوں سے اخبارات چھین لینے کو شائستہ حرکت تصور کر رہے ہیں۔ میں اسے برداشت نہیں کرسکتا! آپ نہیں جانتے کہ آپ کس سے مخاطب ہیں، جناب والا! میں بینک مینجر ژیستیاکوف ہوں!....“
”مجھے خاک بھی پروا نہیں کہ تم ژیستیاکوف ہو اور جہاں تک تمہارے اخبارات کا تعلق ہے ان کی میری نگاہ میں کتنی وقعت ہے اس کا اندازہ تمہیں اس سے ہو جائے گا....“ یہ کہہ کر اس نے اخبار کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔
”آخر اس سب کا مطلب کیا ہے، شریف لوگو؟“ ژیستیاکوف شدید غصے سے تقریباً بدحواس ہوکر بڑبڑایا۔ ”یہ انتہائی عجیب و غریب بات ہے، یہ .... یہ تو سراسیمہ کر دینے والی صورتِ حال ہے!....“
”انہیں غصہ آگیا!“ وہ شخص ہنس پڑا۔ ”ہائے ہائے، خوف سے میری جان ہی تو نکل گئی! دیکھئے نا، میرے گھٹنے کیسے تھرتھر کانپ رہے ہیں! خیر، معزز صاحبان، ذرا میری بات سنئے۔ میرا آپ لوگوں سے باتیں کرنے کو بالکل جی نہیں چاہ رہا ہے.... میں ان نوجوان خواتین کے ساتھ تنہا رہنا چاہتا ہوں، لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں اس لیے مہربانی کرکے کوئی جھگڑا نہ کھڑا کیجئے، شرافت سے چلے جائیے.... وہ رہا دروازہ۔ ارے بیلے بوخین! باہر نکل جاﺅ! آخر یہ ناک بھوں کاہے کےلئے سکوڑ رہے ہو؟ میں کہہ رہا ہوں کہ جاﺅ تو چلے جاﺅ! تیزی سے کھسک لو ورنہ اٹھا کے باہر پھینک دیئے جاﺅ گے!“
”کیا کہا؟“ یتیموں کی عدالت کے خزانچی بیلے بوخین نے جس کا چہرہ تمتما اٹھا تھا، شانے اچکاتے ہوئے پوچھا۔ ”میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔ ایک بدتمیز شخص کمرے میں گھس آتا ہے اور اچانک جو اس کے منہ میں آتا ہے، بکنا شروع کر دیتا ہے۔“
”کیا کہا تم نے، بدتمیز شخص؟“ مور کے پر والا آدمی چراغ پا ہو کے چلایا اور اس نے میز پر اتنے زور سے مکے مارے کہ ٹرے میں رکھے ہوئے گلاس اچھل پڑے۔ ”کچھ خبر بھی ہے کہ تم کس سے مخاطب ہو؟ تم سمجھتے ہو کہ محض اس بنا پر کہ میں نے مصنوعی چہرہ لگا رکھا ہے، تم مجھے جو کچھ بھی چاہو کہہ سکتے ہو؟ کتنے تیز مزاج ہو تم بھی! میں تم سے کہہ رہے ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ باہر نکل جاﺅ! اور یہ جو بینک مینجر ہے نا یہ بھی دفان ہو جائے۔ تم سب کے سب باہر نکل جاﺅ، میں نہیں چاہتا کہ ایک بھی بدمعاش کمرے میں باقی رہ جائے! جاﺅ، دفان ہو جاﺅ!“
”وہ تو ہم ابھی دیکھیں گے!“ ژیستیاکوف نے کہا جس کی عینک تک لگتا تھا کہ گھبراہٹ سے پسینے پسینے ہوئی جا رہی ہے۔ ”میں آپ کو مزہ چکھا دوں گا! ارے سنو، ذرا کسی میر تشریفات کو تو بلانا!“
چند ہی لمحوں میں سرخ بالوں والا ایک پستہ قد میر تشریفات جس کے کوٹ کے گریبان کی گوٹ پر نیلے ربن کا ایک ٹکڑا لگا ہوا تھا، رقص میں تھک جانے سے ہانپتا ہوا مطالعے کے کمرے میں داخل ہوا۔
”مہربانی کرکے اس کمرے سے چلے جائیے“ اس نے کہنا شروع کیا۔ ”یہ پینے کی جگہ نہیں ہے۔ براہ کرم ناشتے کے کمرے میں چلے جائیے۔“
”اور یہ تم کہاں سے آ ٹپکے؟“ مصنوعی چہرے والے نے پوچھا۔ ”میں نے تو تمہیں نہیں بلایا تھا، بلایا تھا کیا؟“
”مہربانی کرکے بدتمیزی نہ کیجئے اور یہاں سے چلے جائیے۔“
تو سنو بھلے آدمی.... میں تمہیں صرف ایک منٹ کا وقت دے رہا ہوں.... تم میرتشریفات ہو، یہاں اچھی خاصی اہمیت رکھتے ہو اس لئے ان مسخروں کو نکال باہر کرو۔ یہ میری ماد موزیل لوگ جو ہیں نا انہیں ایروں غیروں کی موجودگی بہت کھلتی ہے.... بچاریاں بڑی شرمیلی ہیں اور مجھے اتنا حاصل کرنے کی پڑی ہے جتنا ان پر خرچ کیا ہے، انہیں ان کی پیدائشی حالت میں دیکھنا چاہتا ہوں....“
”لگتا ہے یہ اجڈ اتنا بھی نہیں سمجھ پا رہا ہے کہ وہ کسی سٹور خانے میں نہیں ہے! ژیستیاکوف غصے سے چیخا۔ یفسرات اسپریدونچ کو بلاﺅ!“
”یفسرات اسپریدونچ!“ سارے کلب میں آوازیں گونج اٹھیں۔
”یفسرات اسپریدونچ کہاں ہیں؟“ پولیس یونیفارم میں ملبوس بوڑھے یفسرات اسپریدونچ نے وہاں پہنچنے میں تاخیر نہ کی۔
”مہربانی کرکے اس کمرے سے چلے جائیے“ اس نے ترش لہجے میں کہا۔ اس کی بڑی بڑی ڈراﺅنی آنکھیں باہر نکلی آ رہی تھیں اور خضاب لگی مونچھوں کے سرے پھڑک رہے تھے۔
”ارے تم نے تو مجھے ڈرا دیا!“ اس آدمی نے خوشی سے ہنستے ہوئے کہا۔ خدا کی قسم تم نے مجھے بری طرح خوف زدہ کر دیا! کیسی مضحکہ خیز صورت ہے، خدا مجھے موت دے دے! بلی کے جیسے گل مچھے، آنکھیں ہیں کہ باہر نکلی پڑ رہی ہیں.... ہا۔ ہا۔ ہا!“
”بحث کی ضرورت نہیں!“یفسرات اسپریدونچ غصے کی شدت سے کانپتے ہوئے دھاڑا۔ ”چلے جاﺅ ورنہ دھکے دے کے باہر نکال دیئے جاﺅ گے!“
مطالعے کے کمرے میں شور قیامت گونج اٹھا۔ یفسرات اسپریدونچ اپنے لال بھبوکا چہرے کے ساتھ چیخ چیخ کر زمین پر پاﺅں پٹخ رہا تھا۔ ژیستیاکوف چلا رہا تھا۔ بیلے بوخین چلا رہا تھا۔ سارے دانش ور چیخ چلا رہے تھے لیکن ان سب کی آوازیں مصنوعی چہرے والے کی دبی دبی، حلق سے نکلتی ہوئی گہری آواز میں ڈوبی جا رہی تھیں۔ اس عام افراتفری کی فضا میں رقص بند ہوگیا اور مہمان بال روم سے نکل کے مطالعے کے کمرے میں آگئے۔
یفسرات اسپریدونچ نے ذرا رعب جمانے کے لئے کلب میں اس وقت موجود دوسرے پولیس والوں کو بھی وہیں طلب کر لیا اور خود رپورٹ لکھنے کے لئے بیٹھ گیا۔ 
”لکھو، ضرور لکھو!“ مصنوعی چہرے والے نے اپنی انگلی قلم کے نیچے رکھتے ہوئے کہا۔ ”اب مجھ بدقسمت کا انجام کیا ہوگا؟ ہائے ہائے، بیچارا میرا فسر! آخر آپ ایک بے سہارا یتیم کو برباد کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ ہا۔ ہا! اچھی بات ہے، لکھیے! رپورٹ تیار ہوگئی؟ سب نے دستخط کر دیئے؟ اب ملاحظہ ہو ایک، دو، تین!“
وہ اٹھ کے سیدھا کھڑا ہوا اور اپنے مصنوعی چہرے کو اتار ڈالا۔ اس نے اپنے نشے میں دھت چہرے کو بے نقاب کرنے اور اس سے پیدا ہونے والے ردعمل سے محظوظ ہونے کے لئے لوگوں کے چہروں پر نظریں دوڑائیں اور پھر اپنی کرسی پر تقریباً گرتے ہوئے زور دار قہقہہ بلند کیا اور ردعمل واقعی قابل دید تھا۔ دانش وروں نے انتہائی بوکھلاہٹ کے ساتھ ایک دوسرے کی طرف دیکھا، ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور ان میں سے بعض اپنی گدیاں کھجلاتے نظر آئے۔ یفسرات اسپریدونچ نے کھنکھار کر کسی ایسے شخص کی طرح اپنا حلق صاف کیا جس سے انجانے میں کوئی نہایت ہی بھیانک غلطی سرزد ہوگئی ہو۔
یہ سارا ہنگامہ جس نے کھڑا کیا تھا اسے سبھی پہچان گئے۔ وہ تھا خاندانی رئیس اور مقامی لکھ پتی صنعت کار پیاتی گوروف جو اپنے جگھڑالو پن، انسانی ہمدردی اور جیساکہ مقامی اخبارات آئے دن ڈھنڈورا پیٹتے رہتے تھے، تعلیم کے لئے اپنے احترام کی بناءپر شہرت رکھتا تھا۔
”اچھا تو اب آپ لوگ جا رہے ہیں کہ نہیں؟“ پیاتی گوروف نے پل بھر کی خاموشی کے بعد پوچھا۔
دانش ور منہ سے ایک لفظ بھی نکالے بغیر پنجوں کے بل چلتے ہوئے مطالعے کے کمرے سے نکل گئے اور پیاتی گوروف نے دروازہ اندر سے مقفل کر لیا۔
”تجھے معلوم تھا کہ یہ پیاتی گوروف ہیں!“ کچھ دیر کے بعد یفسرات اسپریدونچ نے مطالعے کے کمرے میں شراب لے جانے والے ویٹر کا شانہ پکڑ کر اسے جھنجوڑتے ہوئے دبی دبی ترش آواز میں کہا۔ ”تونے کچھ بتایا کیوں نہیں تھا؟“
”مجھ سے نہ بتانے کو کہا گیا تھا!“
”نہ بتانے کو کہا گیا تھا!.... ٹھہر جا، بدمعاش، تجھے مہینے بھر کے لئے جیل پہنچا دوں گا“اور تب اس ”نہ بتانے کو کہا گیا تھا“ کا مطلب تیری سمجھ میں آ جائے گا۔ باہرنکل جا! اور آپ لوگوں کا بھی کوئی جواب نہیں ہے۔ صاحبان“ اس نے دانش وروںکی طرف مڑتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔ ”خواہ مخواہ ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ گویا کہ آپ لوگ مطالعے کے کمرے سے دس منٹ کے لئے بھی نہیں ہٹ سکتے تھے! یہ واہیات صورتِ حال آپ کی پیدا کی ہوئی ہے اور اس سے خود ہی جان چھڑائیے۔ ارے صاحبان، صاحبان.... آپ لوگوں کے طور طریقے مجھے ایک آنکھ بھی نہیں بھاتے، خدا کی قسم ذرا بھی پسند نہیں!“
دانش ور اُداس، پریشان اور نادم ہو کر کلب میں اِدھر اُدھر ٹہلنے اور ان لوگوں کی طرح آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے جنہیں احساس ہو کہ بلاسر پر منڈلا رہی ہے.... ان کی بیویاں اور بیٹیاں یہ سن کر کہ پیاتی گوروف کی ”توہین“ کی گئی ہے اور وہ برا مان گیا ہے۔ خاموش ہوگئیں اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہونے لگیں۔ رقص رک گیا۔
دو بجے رات کو پیاتی گوروف مطالعے کے کمرے سے نشے میں جھومتا، لڑکھڑاتا باہر نکلا۔ بال روم میں پہنچ کر وہ بینڈ کے پاس بیٹھ گیا، موسیقی کی آواز پر اونگھنے اور کچھ ہی دیر بعد سر لٹکا کے خراٹے لینے لگا۔
”بند کیجئے، بند کیجئے!“ مجلسی آداب کے سب نگراں موسیقاروں کی طرف ہاتھ لہراتے ہوئے بول پڑے۔ ”خاموش....یگور بیلج کی آنکھ لگ گئی ہے....“
”یگور یلج، کیا آپ پسند فرمائیں گے کہ یہ خادم آپ کو آپ کے دولت کدے تک پہنچا آئے؟“ بیلے بوخین نے لکھ پتی کے کان کے قریب جھک کر دریافت کیا۔
پیاتی گوروف نے اپنے ہونٹ آگے نکالے جیسے گال پر سے کسی مکھی کو اڑانے کی کوشش کر رہا ہو۔
”کیا آپ پسند فرمائیں گے کہ یہ خادم آپ کو آپ کے دولت کدے تک پہنچا آئے؟“ بیلے بوخین نے ایک بار پھر پوچھا۔
”یا میں لوگوں سے آپ کی بگھی لانے کے لئے کہہ دوں؟“
”ہائیں“ کیا؟ ”ہا! تو یہ تم ہو.... کیا بات ہے؟“
”آپ کو گھر پہنچانا چاہتا ہوں.... آپ کے آرام کا وقت ہو رہا ہے نا....“
”گھر۔ ہاں، میں گھر جانا چاہتا ہوں.... مجھے گھر لے چلو!“
بیلے بوخین کا چہرہ مسرت و اطمینان سے چمک اٹھا اور وہ سہارا دے کر پیاتی گوروف کو کھڑا کرنے لگا۔ دوسرے دانش ور بھی اپنے چہروں پر مسکراہٹوں کے کنول کھلائے ہوئے دوڑے دوڑے حاضر ہوئے۔ ان سب نے مل کر اس خاندانی رئیس کو اس کے قدموں پر کھڑا کیا اور انتہائی ادب و احتیاط سے سنبھالے ہوئے اس کو بگھی کے پاس لائے۔
”صرف کوئی آرٹسٹ، کوئی بہت ہی باصلاحیت شخص ہی محفل کی محفل کو اس طرح چکمہ دے سکتا تھا“ ژیستیاکوف نے لکھ پتی کو بگھی پر سوار کراتے ہوئے بڑے خوش و خرم لہجے میں کہا۔ ”میری حیرت کا عالم نہ پوچھیے، یگور یلج! مجھ سے تو اب تک ہنسی ضبط نہیں ہو رہی ہے.... ہا.... ہا.... اور ہم سب کے سب کتنا بھڑک اٹھے، بات کا کیسا کیسا بتنگڑ بنایا! یقین مانئیے، میں تو کبھی تھیٹر میں بھی یوں جی کھول کر نہیں ہنسا تھا.... کتنی گہرائی اور وسعت تھی آپ کے مذاق میں! یہ ناقابل فراموش شام مجھے زندگی بھر یاد رہے گی!“
پیاتی گوروف کو رخصت کرنے کے بعد دانش وروں نے اطمینان کی سانس لی اور ہشاش بشاش ہوگئے۔
”ارے جناب، انہوں نے چلتے چلتے مجھ سے مصافحہ تک کیا“ ژیستیاکوف نے بڑے فخر و انبساط سے ڈینگ ماری۔ ”اس کا مطلب ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے، وہ ناراض نہیں ہیں....“
”ہمیں امید تو یہی کرنی چاہئے!“ یفسرات اسپریدونچ نے ٹھنڈی سانس بھری۔ ”وہ تو بدمعاش اور گھٹیا آدمی ہے پر کیا کیا جائے کہ ہمارا محسن ہے!.... اس سے تو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے!....“
—————

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6