کم ذات
جس زمانے میں وہ جوان اور قبول صورت اور اس کی آواز پاٹ دار تھی، ایک دن اس کا شیدائی نکولے پیٹرووچ کولپا کوف اس کی بارہ دری کے بیرونی برآمدے میں بیٹھا تھا۔ شدت کی گرمی اور حبس تھا۔ کولپاکوف کھانا کھا کر اور گھٹیا شراب کی ایک پوری بوتل پی کر فارغ ہوا تھا۔ اس کا مزاج بگڑا ہوا تھا اور طبیعت کچھ پست تھی۔ دونوں کسل مند تھے اور انتظار کر رہے تھے، کہ گرمی فرو ہو تو ہوا خوری کے لئے نکلیں۔
یکایک دروازے میں گھنٹی بجی، کولپا کوف، جو کوٹ اتارے، سلیپرپہنے بیٹھا تھا، اچھل پڑا اور سوال کے طور پر پاشا کی طرف دیکھا۔
”ڈاکیہ ہوگا یا لڑکیوں میں سے کوئی ہوگی“ گانے والی نے کہا۔
کولپا کوف کو اس کی پرواہ نہ تھی، کہ ڈاکیا یا پاشا کی سہیلیاں اسے وہاں دیکھیں۔ تاہم احتیاطاً اس نے اپنے کپڑے اٹھائے اور پاس کے کمرے میں چلا گیا، پاشا دروازہ کھولنے دوڑی۔ وہ بڑی حیران ہوئی کہ دروازہ میں نہ ڈاکیہ ہے نہ کوئی سہیلی، بلکہ ایک نامعلوم جوان اور حسین عورت کھڑی تھی جو اپنے لباس اور وضع قطع سے کوئی شریف خاتون معلوم ہوتی تھی۔
نو وارد کی رنگت اڑی ہوئی اور سانس پھولا ہوا تھا جیسے کسی ٹیڑھے زینے پر تیزی سے چڑھی ہو۔
”کیا ہے؟“ پاشا نے پوچھا۔
خاتون نے جواب دینے کی بجائے ایک قدم آگے بڑھایا۔ اطمینان سے کمرے کا جائزہ لیا اور اس انداز سے بیٹھ گئی، گویا تکان یا شاید بیماری کی وجہ سے کھڑی نہیں رہ سکتی۔ پھر دیر تک بولنے کی ناکام کوشش میں اس کے زرد ہونٹ کپکپاتے رہے۔
آخر اس نے پاشا کی طرف اپنی بڑی بڑی سرخ اشک آلود آنکھیں اٹھا کرپوچھا:
”میرا شوہر یہاں ہے؟“
”شوہر؟“ پاشا نے آہستہ سے کہا اور یکایک ایسی خوف زدہ ہوئی کہ ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ گئے اور کانپتے ہوئے دہرایا ”کیسا شوہر؟“
”میرا شوہر،.... نکولے پیڑ ووچ کولپاکوف۔“
”ن.... نہیں بیگم.... میں.... میں کسی شوہر کو نہیں جانتی۔“
ایک لمحہ خاموشی میں گزرا۔ اجنبی خاتون نے کئی دفعہ اپنے زرد ہونٹوں پر رومال پھیرا اور اختلاج قلب دبانے کے لئے سانس روکے رکھا۔ پاشا اس کے سامنے بت کی طرح ساکت کھڑی حیرت اور دہشت سے اس کا منہ تک رہی تھی۔
”تو تم کہتی ہو وہ یہاں نہیں ہے؟“ خاتون نے سخت آواز سے ایک خاص طرح مسکرا کر دریافت کیا۔
”میں.... میں نہیں جانتی آپ کسے پوچھ رہی ہیں۔“
”تم مکروہ، حقیر، ذلیل ہو....“ اجنبی پاشا پر نفرت اور حقارت سے نظر ڈال کر بڑبڑائی، ”ہاں، ہاں.... تم مکروہ ہو۔ شکر ہے کہ آخر تم سے یہ کہنے کا موقعہ ملا۔“
یہ محسوس کرکے کہ اس آتش بار، گوری گوری نازک انگلیوں والی سیہ پوش خاتون کو میں مکروہ اور ناشائستہ نظر آتی ہوں، پاشا کو اپنے بھرے بھرے سرخ گالوں، ناک کے داغ، اور پیشانی پر بکھری ہوئی لٹوں پر جو کنگھی سے بھی قابو میں نہیں آتی تھیں، شرم آنے لگی۔ اسے خیال ہوا کہ اگر میں نازک اندام ہوتی اور میرے چہرے پر غازہ اور پیشانی پر بالوں کی جھالر نہ ہوتی، تو یہ بات چھپ جاتی، کہ میں ”شریف“ نہیں ہوں، اور اس گمنام ، پراسرار خاتون کے سامنے میں اتنی خائف اور محجوب نہ ہوتی۔
خاتون کہے گئی، ”میرا شوہر کہاں ہے؟ وہ یہاں ہو نہ ہو، میری بلا سے، مگر میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ غبن کا حال کھل گیا اور اس کی تلاش ہو رہی ہے۔ پولیس اسے گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ یہ سب تمہاری کارستانی ہے!“
خاتون اٹھی اور گھبراہٹ کے مارے کمرے میں ٹہلنے لگی۔پاشا اسے تک رہی تھی اور اس قدر ہراساں تھی کہ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔
”اس کا سراغ لگ جائے گا اور وہ آج گرفتار ہو جائے گا“ خاتون نے ہچکی لے کر کہا جس سے غم و غصہ ٹپکتا تھا۔ ”میں خوب جانتی ہوں یہ سب کس کے لچھن ہیں! کمینی، مکروہ، کم ذات، بیسوا!“ خاتون کے ہونٹوں میں تشنج تھا اور اس کی ناک حقارت سے چڑھی ہوئی تھی۔ ”میں بے بس ہوںِ بے حیا عورت، سنتی ہے؟.... میں بے بس ہوں تم مجھ سے زیادہ قوی ہو، مگر میری اور بچوں کی حفاظت کرنے والا وہ ہے! خدا سب کچھ دیکھتا ہے! وہ منصف ہے! جو آنسو میں نے بہائے ہیں، جو راتیں میں نے جاگ جاگ کر کاٹی ہیں وہ ان سب کا بدلا تم سے لے گا؟ وقت آئے گا کہ تم مجھے یاد کرو گی!“
پھر سکوت ہوگیا۔ خاتون کمرے میں ٹہل ٹہل کے ہاتھ مل رہی تھی۔ پاشا حیران پریشان اس کا منہ تک رہی تھی۔ اسے دھڑکا تھا کہ ضرور کوئی بلا نازل ہونے والی ہے۔
”بیگم، مجھے کچھ نہیں معلوم“ یہ کہتے وقت اس کی آنکھ سے آنسو جاری ہوگئے۔
خاتون نے چیخ کر جواب دیا ”تم جھوٹ بولتی ہو!“ اس کی آنکھیں پاشا پر شرارے برسا رہی تھیں۔ ”مجھے سب معلوم ہے! میں تمہیں بہت دنوں سے جانتی ہوں۔ مجھے معلوم ہے، وہ مہینہ بھر سے روزانہ تمہارے ہاں آتا جاتا ہے۔“
”اچھا یوں ہی سہی۔ پھر فرمائیے؟ میرے ہاں بہت سے ملاقاتی آتے ہیں۔ مگر میں کسی کو مجبور نہیں کرتی وہ بھی اپنی مرضی کا مختار ہے۔“
”میں کہتی ہوں غبن کا پتہ چل گیا! اس نے دفتر میں غبن کیا۔ تم جیسی گئی گزری ہوئی چیز کی خاطر، تمہارے کارن اس نے یہ جرم کیا! خاتون یک لخت رک گئی پھر کڑک کر بولی! جانتی ہوں کہ تمہیں اخلاق و مروت سے کیا سروکار، تمہارا کام تو مجھ پر آفت ڈھانا ہے، مگر پھر سوچتی ہوں کہ ایسی بھی کیا ذلیل اور خوار ہوگی کہ تم میں مطلق انسانیت نہ رہی ہو! سنو! وہ بیوی بچوں والا ہے.... اگر وہ سزایاب ہوگیا اور جلا وطن کر دیا گیا تو ہم بھوکے مریں گے، بچے اور میں.... یہ سمجھ لو! ابھی موقع ہے کہ تم اسے اور ہمیں بے سروسامانی اور ذلت سے بچاﺅ۔ اگر انہیں نوسو روبل دے دیئے گئے، تو وہ اس کا پیچھا چھوڑ دیں گے۔ صرف نو سو روبل کی بات ہے!“
پاشا نے نرمی سے پوچھا ”کیسے نو سو روبل؟ میں نہیں جانتی.... میں نے نہیں لئے۔“
”میں تم سے نو سو روبل کب مانگتی ہوں؟.... نہ تمہارے پاس اتنی رقم ہے، نہ مجھے تمہارے روپیہ کی ضرورت ہے۔ میں تم سے کچھ اور مانگتی ہوں.... مرد عموماً تم جیسی عورتوں کو بیش قیمت تحفے تحائف دیتے ہیں۔ مجھے صرف وہ چیزیں دے دو جو میرے شوہر نے تمہیں دی ہیں۔“
”بیگم، اس نے مجھے کبھی کچھ نہیں دیا!“ رفتہ رفتہ خاتون کا مطلب پا کر پاشا نے واویلا کرنا شروع کیا۔
”آخر روپیہ گیا کہاں؟ اس نے جو اپنی اور میری اور دوسروں کی دولت لٹائی.... وہ سب کیا ہوئی؟ سنو، میں درخواست کرتی ہوں! میں نے غصے سے بے قابو ہو کر تمہیں بہت سخت سست کہا، اس کی معافی مانگتی ہوں۔ میں جانتی ہوں، تمہیں مجھ سے نفرت ہوگی، لیکن اگر تم میں شمہ برابر ہمدردی ہے تو میری حالت کا اندازہ کرو! میں التجا کرتی ہوں، وہ سب چیزیں مجھے واپس دے دو۔“
کچھ سوچ کر پاشا نے شانے ہلائے ”میں خوشی سے دے دیتی، مگر خدا گواہ ہے، اس نے مجھے کبھی کچھ نہیں دیا۔ قسم کھا کے کہتی ہوں۔ میرا یقین مانئے۔ بے شک، آپ سچ فرماتی ہیں، مجھے ابھی خیال آیا“ گانے والی نے گھبرا کر کہا ”اس نے مجھے دو معمولی چیزیں دی تھیں کہیے تو وہ دے دوں؟“
پاشا نے سنگار میز کا ایک خانہ کھولا اور اس میں سے ایک کھوکھلی سونے کی چوڑی اور ایک ہلکی یاقوتی انگوٹھی نکالی۔
”یہ لیجئے، بیگم!“
خاتون کا چہرہ تمتما اٹھا اور غصے سے کانپنے لگا۔ اسے یہ حرکت ناگوار گزری۔
”کیا دے رہی ہو؟ میں خیرات نہیں مانگتی، وہ چیزیں مانگتی ہوں، جو تمہاری نہیں ہیں.... جو تم نے میرے کمزور ، ناشاد شوہر کو بے وقوف بنا کر ہتھیائی ہیں.... جمعرات کو میں نے تمہیں ساحل پر اس کے ساتھ دیکھا تھا، تو تم قیمتی بروچ اور چوڑیاں پہنے ہوئے تھیں۔ معصوم بننے سے کوئی فائدہ نہیں! آخری بار پوچھتی ہوں: ”چیزیں دو گی کہ نہیں؟“
پاشا نے آشفتہ ہو کر کہا ”آپ بھی کمال کرتی ہو، میں یقین دلاتی ہوں اس چوڑی اور انگوٹھی کے علاوہ میں نے آپ کے نکولے پیٹرووچ کی کسی چیز کی شکل نہیںدیکھی، میرے لئے وہ صرف میٹھے کیک لایا کرتا ہے۔“
اجنبی ہنسی ”میٹھے کیک! گھر پر بچے معمولی کھانے کو ترستے ہیں اور یہاں آپ کے لئے میٹھے کیک لائے جاتے ہیں تو چیزیں واپس کرنے سے انکار کرتی ہو؟“
جواب نہ پا کر خاتون بیٹھ گئی اور ہوا میں نظر گاڑ کر سوچنے لگی۔
”اب کیا کیا جائے؟ اگر نو سو روبل نہ ملے، تو وہ برباد ہو جائے گا اور بچے اور میں بھی برباد ہو جاﺅں گی۔ اس ذلیل عورت کو مار ڈالوں یا اس کے آگے گھٹنوں کے بل جھک جاﺅں؟“
خاتون نے رومال منہ پر رکھا اور ہچکیاں لینے لگی۔
”میں التجا کرتی ہوں!“ وہ ہچکیاں لے لے کر کہہ رہی تھی ”تم نے میرے شوہر کو لوٹا، برباد کیا، اب اسے بچاﺅ.... اس کا خیال نہیں کرتی۔ تو بچے.... بچے.... بچوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟“
پاشا کی نظروں میں بھوک سے بیتاب، سڑک پر کھڑے ہوئے بچوں کی تصویر پھر گئی، اور اس کے بھی ہچکیاں بندھ گئیں۔
”بیگم بتلائیے میں کیا کروں؟ آپ کہتی ہیں،تو ذلیل ہے، تونے پیٹرووچ کو برباد کیا، مگر میں یقین دلاتی ہوں کہ....خدا کی قسم، مجھے اس سے کبھی کچھ نہیں ملا.... ہمارے طائفے میں صرف ایک لڑکی ہے جس کا چاہنے والا مالدار ہے، باقی سب روٹی اور آش جوپربہ مشکل بسر اوقات کرتی ہیں، نکولائے پیٹرووچ نہایت تعلیم یافتہ اور شائستہ آدمی ہیں، اس لئے میں نے ان کی آﺅ بھگت کی۔ شریف آدمیوں کی خاطر مدارات کرنا ہمارا فرض ہے۔“
”میں وہ چیزیں مانگتی ہوں! چیزیں میرے حوالے کرو! میں رو رہی ہوں.... اپنے تئیں حقیر کر رہی ہوں.... کہو تو گھٹنوں کے بل جھکی جاﺅں! اگر تمہارا یہی جی چاہتا ہے!“
پاشا نے ہول کھا کے چیخ ماری اور ہاتھ ہلائے۔ اسے خیال ہوا کہ یہ پیلی رنگت والی حسین خاتون جو ایسے محتشم انداز سے باتیں کر رہی ہے، گویا اسٹیج پر ہے، واقعی محض از راہ تمکنت، شان دکھانے، اپنے تئیں سر بلند کرنے، طائفے کی لڑکی کو ذلیل کرنے کی نیت سے اس کے آگے گھٹنوں کے بل جھکی جائے گی۔
پاشا نے آنکھیں پونچھ کر کہا ”بہت اچھا، چیزیں دے دیتی ہوں! شوق سے لیجئے۔ مگر یہ نکولائے پیٹرووچ کی دی ہوئی نہیں ہیں.... اور صاحبوں نے دی تھیں جیسا آپ فرمائیں....“
پھر دروازہ کا بالائی خانہ کھولا، ایک ہیرے کا بروچ، ایک مرجان کا ہار، کچھ انگوٹھیاں اور چوڑیاں نکالیں اور سب خاتون کے حوالے کر دیں۔
”جی چاہے تو انہیں لے لیجئے، مگر آپ کے شوہر نے مجھے کبھی کچھ نہیں دیا، انہیں لے کر امیر بن جائیے۔“ گھٹنوں کے بل جھکنے کی دھمکی سے کبیدہ خاطر ہو کر پاشا کہتی رہی۔ ”اگر آپ واقعی کوئی شریف خاتون.... اس کی بیاہتا ہیں، تو اسے اپنے پاس رکھئے، جی ہاں! میں اسے بلانے نہیں گئی۔ وہ اپنے آپ آیا۔“
آنسوﺅں میں سے خاتون سب چیزوں کا جائزہ لے کر بولی:
”یہ کافی نہیں ہیں.... ان کے تو پانچ سو روبل بھی نہیں ملیں گے۔“
پاشا نے جوش میں آکر دروازہ میں سے ایک سونے کی گھڑی، ایک سگار کیس اور ہاتھ کے بٹن نکال کے پھینک دیئے اور پھر ہاتھ اٹھا کر کہا:
”اب میرے پاس کچھ نہیں رہا.... چاہے تلاشی لے لیجئے!“
خاتون نے ٹھنڈا سانس بھرا۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے سب چیزیں ایک رومال میں باندھیں اور چپ چاپ اٹھ کر چلی گئی، رخصت تک نہ ہوئی۔
پاس کے کمرے کا دروازہ کھلا اور کولپا کوف داخل ہوا۔ اس کا چہرہ اترا ہوا تھا اور سر اضطراری طور سے ہل رہا تھا، جیسے اس نے کوئی کڑوی چیز زہر مار کی ہو، آنکھوں میں آنسو جھلک رہے تھے۔
پاشا نے اس پر جھپٹ کر پوچھا ”تم نے مجھے کون سے تحفے دیئے؟ کب دیئے، ذرا بتاﺅ تو سہی؟“
کولپا کوف نے سر ہلا کر جواب دیا ”تحفے.... ان کا کیا ذکر ہے! اللہ اللہ وہ تمہارے آگے روئی، اپنے تئیں ذلیل کیا....“
پاشا نے پھر چیخ کر پوچھا ”میں پوچھتی ہوں تم نے مجھے کیا تحفے دیئے؟“
”غضب خدا کا، وہ، ایک شریف خاتون، اتنی خود دار، ایسی نیک.... وہ اس چڑیل کے آگے گھٹنوں کے بل جھکنے پر آمادہ تھی! اور یہ سب میرے کرتوت ہیں! اس کا یہ درجہ میں نے کیا!“
اپنا سر ہاتھ میں لے کر وہ کراہنے لگا۔
”اپنا یہ قصور کبھی نہیں بھولوں گا! اپنی یہ خطا کبھی معاف نہیں کروں گا! میرے پاس سے دور ہو.... ذلیل مخلوق!“ اس نے نفرت آمیز طریقے سے، پاشا کے پاس سے ہٹ کر، اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اسے دھکا دے کر کہا ”غضب خدا کا، وہ گھٹنوں کے بل جھکنے کو تھی، اور.... اور اس کے آگے!“
اس نے جلدی سے کپڑے پہنے اور حقارت سے پاشا کو دھکیل کر دروازہ کی طرف بڑھا اور باہر نکل گیا۔
پاشا لیٹ گئی اور زور زور سے گریہ و زاری کرنے لگی۔ اسے افسوس ہو رہا تھا کہ میں نے جوش میں آکر اپنی چیزیں کیوں دے دیں اور اس کے احساسات مجروح تھے، اسے خیال آیا کہ کس طرح تین سال ہوئے ایک تاجر نے مجھے بلاوجہ مارا تھا، اور وہ اور بھی پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔
—————
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں