غربت

بوڑھا سمیوں، عرف لال بجھکڑ اور ایک نوجوان تاتاری جس کا کوئی نام تک نہیں جانتاتھا، دریا کے کنارے الاﺅ کے گرد بیٹھے تھے ، باقی تین ملاح جھونپڑی کے اندر تھے۔ سمیوں کوئی ساٹھ سال کا کسے ہوئے بدن کا، پوپلا آدمی تھا، اس کے شانے چوڑے چکلے تھے۔ اور چہرے سے ابھی صحت کے آثار ٹپکتے تھے۔ اس وقت وہ نشے کی ترنگ میں تھا۔ اس کی جیب میں شراب کی بوتل تھی اور دل میں یہ دھڑکا لگا ہوا تھا کہ کہیں میرے ساتھی اس میں سے حصہ نہ مانگ بیٹھیں۔ یہ نہ ہوتا تو وہ کبھی کا سو جاتا۔ تاتاری بیمار اور تھکا ماندہ، پھٹے پرانے چیتھڑے بدن سے لپیٹے، صوبہ سمبر سک کی مزے دار زندگی اور اپنی بیوی کے حسن و ذکاوت کی داستان بیان کر رہا تھا۔ اسکی زیادہ سے زیادہ عمر پچیس سال ہوگی۔ مگر الاﺅ کی روشنی میں اس کے زرد و بیمار، اور مغموم چہرے کو دیکھ کر یہ خیال ہوتا تھا کہ ابھی لڑکا سا ہے۔
لال بجھکڑ بولا ”بھئی، یہ جگہ کچھ جنت تو ہے نہیں۔ تم خود ہی دیکھتے ہو کہ سوائے پانی اور دریا کے چٹیل کناروں اور لیسدار مٹی کے کچھ بھی نہیں۔ جاڑا ہو چکنے کو آیا پھر بھی دریا میں برف بہہ کر آ رہی ہے۔ آج سویرے بھی تھی۔“
تاتاری نے کہا ”مصیبت ہے مصیبت“ اور گھبرا کر چاروں طرف نظر ڈالی۔
دس قدم کے فاصلے پر ٹھنڈا برف کا سیاہ دریا بہہ رہا تھا۔ جھلاتا تھا، کھوکھلے ریتلے ساحل سے ٹکراتا تھا اور کہیں دور سمندر کی طرف تیزی سے بہتا چلا جا رہا تھا، کنارے سے ملی ہوئی ایک بڑی ناﺅ کی سیاہ پرچھائیں نظر آتی تھیں۔ بہت دور دریا کے اس پار، روشنیاں کبھی دھندلی ہو جاتی تھیں، کبھی جھلملانے لگتی تھیں۔ اور چھوٹے چھوٹے سانپوں کی طرح بل کھاتی تھیں، یہ پچھلے سال کی گھاس تھی جو جلائی جارہی تھی، ان سنپوٹیوں کے پیچھے پھر اندھیرا تھا۔ ہوا مرطوب اور سرد تھی۔
تاتاری نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا۔ اس کے وطن میں بھی اتنے ہی تارے تھے، چاروں طرف اسی قدر اندھیرا تھا۔ لیکن یہاں کسی بات کی کمی محسوس ہوتی تھی، صوبہ سمبرسک میں تارے یہاں سے بالکل مختلف تھے اور آسمان بھی دوسرا تھا۔
تاتاری نے پھر کہا ”مصیبت ہے، مصیبت۔“
سمیوں ہنسا ”رفتہ رفتہ طبیعت مانوس ہو جائے گی، ابھی کچے ہو.... منہ سے ابھی دودھ کی بو آتی ہے۔ اپنی نادانی سے سمجھتے ہو کہ مجھ سے زیادہ بُرا حال کسی کا نہیں۔ کوئی دن جاتا ہے۔ اپنے دل میںکہو گے، خدا سب کوایسی زندگی نصیب کرے۔ مجھے دیکھو ہفتہ بھر میں پانی اتر جائے گا۔ ڈونگے چلنے لگیں گے۔ تم سب سائے بیریا کا راستہ لو گے، میں یہاں پڑا اِس کنارے سے اُس کنارے، اُس کنارے سے اِس کنارے کشتی کھینچتا رہ جاﺅں گا۔ بائیس سال سے میرا دن رات یہی کام ہے۔ پانی کے تلے مچھلیاں، پانی کے اوپر میں، پھر بھی شکر ہے کہ مجھے کسی بات کی شکایت نہیں۔ خدا سب کو ایسی زندگی نصیب کرے!“
تاتاری نے آگ میں کچھ خشک ٹہنیاں جھونکیں اور شعلوں کے قریب سکڑ کر بیٹھ گیااور بولا ”میرے والد ہمیشہ بیمار رہتے ہیں۔ میری ماں اور بیوی وعدہ کرچکی ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد یہاں آ جائیں گی۔“
لال بجھکڑ نے پوچھا ” ماں اور بیوی کولا کر کیا کرو گے؟ ارے میاں اس حماقت میں نہ پڑو۔ شیطان ملعون تم کو بہکا رہا ہے۔ اس مردود کی ایک نہ سنو! اس کے دام میں ہرگز نہ آﺅ۔ اگر وہ عورتوں کا ذکر چھیڑ کے ورغلائے، تو اسے جلانے کے لیے کہہ دو، مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ آزادی کے بہانے اکسائے تو اس کا مردوں کی طرح مقابلہ کرو۔ اور کہہ دو مجھے نہیں چاہئے۔ مجھے کچھ نہیں چاہئے۔ نہ ماں، نہ باپ، نہ بیوی، نہ آزادی، نہ ڈاک، نہ کھیت کھلیان، خدا ان سب کا ستیاناس کرے! مجھے ان میں سے کچھ نہیں چاہئے۔“
لال بجھکڑ نے اپنی بوتل میں سے ایک گھونٹ لیا۔ اور پھر بولنا شروع کیا ”میں معمولی کان مزدوری پیشہ لوگوں میں سے نہیں۔ ایک پادری کا لڑکا ہوں۔ جب آزاد تھا تو کرسک میں رہتا تھا۔ ایک زمانے مِیں مَیں بھی فراک کوٹ ڈانٹا کرتا تھا۔ مگر میں نے اپنا یہ حال بنا لیا ہے کہ زمین پر ننگا سو سکتا ہوں اور ضرورت پڑے تو جڑی بوٹی پر گزارا کرنے کو تیار ہوں۔خدا سب کو ایسی زندگی نصیب کرے! نہ منہ سے کچھ مانگتا ہوں۔ نہ دل میں کسی سے دبتا ہوں۔ اپنے سے زیادہ شاد اور آزاد کسی کو نہیں سمجھتا۔ جس دن سے روس سے یہاں بھیجا گیا، میں نے دل کڑا کر کے ٹھان لی: ”مجھے کچھ نہیں چاہئے۔ شیطان نے مجھے بھی، بیوی، گھر آزادی کا دم دے دے کر پھسلانا چاہا۔ میں نے اس سے صاف کہہ دیا، مجھے کچھ نہیں چاہئے اور اپنے خیال پر جما رہا۔ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو کتنے مزے میں ہوں۔ کسی بات کی مطلق شکایت نہیں۔ بس یہ سمجھ لو کہ جو ذرا سا شیطان کے پھیر میں آیا اور اس کا فیصلہ ہوا۔ پھر بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ چندیا تک دلدل میں دھنس جائے گا اور نکالے نہیں نکلے گا۔
تم دہقان لوگ ہی شیطان کی چالوںمیں نہیں آتے۔ خاندانی پڑھے لکھے لوگ بھی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ کوئی پندرہ سال کا ذکر ہے کہ ایک شخص روس سے جلا وطن ہو کر یہاں پہنچا۔ بھائیوں میں جائیداد کی تقسیم اور جعلی وصیت کا کچھ جھگڑا تھا۔ لوگ سمجھے کہ ہو نہ ہو یہ ضرور کوئی شہزادہ یا جاگیر دار ہے، یہ بھی ممکن ہے، صرف معمولی سرکاری ملازم ہو۔ کسی کو کیا معلوم؟ خیر، تو وہ صاحب یہاں تشریف لائے اور آتے ہی انہوں نے ایک مکان اور کچھ زمین خرید لی۔ فرمانے لگے ”میں خود روزی کما کر کھاﺅں گا۔ اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی پر گزار کروں گا۔ میں اب رئیس نہیں رہا۔ معمولی جلاوطن ہوں“ میں نے سن کر کہا ”ارادہ تو بہت نیک ہے!“
وہ اس وقت نوجوان تھا۔ مزاج میں دوڑ دھوپ کے ساتھ احتیاط کا مادہ بھی تھا۔ خود گھاس کاٹتا اور مچھلیاں پکڑتا، گھوڑے پر ساٹھ میل کی سواری اس کے لئے معمولی بات تھی۔ مگر آگے چل کر یہ نقشہ بدل گیا۔ پہلے ہی سال گھوڑے پر چڑھ کر ڈاک لینے گائی رینو آنے جانے لگا۔ میری کشتی میں کھڑا ہو جاتا۔ اور ٹھنڈا سانس کھینچ کر کہتا۔ ”کیوں، سمیوں، گھر والوں نے کتنے عرصہ سے خرچ نہیں بھیجا!“ میں کہتا : ”ویسیلائی سرگے یوچ، روپے کی تمہیں ضرورت نہیں، روپیہ لے کر کیا کرو گے؟ اگلے زمانہ کو بھلا دو۔ جیسے کبھی تھا ہی نہیں یا اگر تھا بھی، تو محض ایک خواب تھا۔ نئے سرے سے زندگی شروع کرو۔ شیطان کی گھاتوں میں نہ آﺅ! اس کا انجام بُرا ہوگا، اس کے جال میں پھنس جاﺅ گے۔ ابھی تو صرف روپیہ چاہتے ہو، تھوڑے دنوں میں کچھ اور چاہو گے۔ پھر کچھ اور، پھر کچھ اور.... خوش رہنے کی ترکیب یہ ہے کہ کسی چیز کی خواہش نہ کرو.... اگر تقدیر نے ہم پر تم پر زیادتی کی، تو اس کے آگ ہاتھ پھیلانے اور سر جھکانے سے فائدہ؟ چاہئے یہ کہ اسے ٹھکراﺅ، اس کا مذاق اڑاﺅ، نہیں تو وہ تمہارا مذاق اڑائے گا، میں اسے یہ مشورہ دیتا رہا....“
اس کے دو سال بعد مجھے اسے دریا کے اس پار اتارنے کا اتفاق ہوا۔ خوشی کے مارے پھولا نہیں سماتا تھا۔ کہنے لگا، اپنی بیوی کو لینے گائی رینو جا رہا ہوں، آخر اس کا دل پسیج گیا۔ اور وہ یہاں آنے پر رضامند ہوگئی۔ کتنی نیک اور مہربان ہے! اس کی باچھیں کھلی جاتی تھیں، دوسرے دن وہ بیوی سمیت واپس ہوا۔ وہ سر پر ٹوپی لگائے ایک نوجوان بانکی عورت تھی، گود میں ایک دودھ پیتی بچی تھی، اور منوں میں مختلف قسم کا مال اسباب، سرگے یوچ صاحب بیوی کا طواف کر رہے تھے۔ کیا مجال ہے جو آنکھیں دم بھر کو بیوی کے چہرے سے اٹھ جائیں۔ اس کی تعریف میں ان کا منہ سوکھتا تھا۔ مجھ سے فرمانے لگے، ہاں، بھائی سمیوں، لوگ سائے بیریا میں بھی لطف سے زندگی بسر کر سکتے ہیں!، میں نے دل میں کہا، یہ چند دن کی بہار ہے، رت بدلتے دیر نہیں لگتی، اس دن سے ہر ہفتہ اس کا معمول بندھ گیا کہ ڈاک خانہ جا کر پوچھے کہ گھر سے روپیہ تونہیں آیا۔
ایک دن مجھ سے کہا، میری خاطر وہ اپنا حسن، اپنی جوانی سائے بیریا میں گنوا رہی ہے اور میرے ساتھ کڑیاں جھیل رہی ہے، لہٰذا مجھ پر واجب ہے کہ اس کے آرام و آسائش کا پورا پورا خیال رکھوں، بیگم صاحبہ کا جی بہلانے کے لئے اس نے مقامی افسروں اور ایرا غیرا سب سے راہ و رسم پیدا کی، پھر لازم ہوا اس لشکر کی خاطر تواضع کا بندوبست ہو، ضروری سمجھا گیا کہ ایک پیانو خریدا جائے اور صوفہ پر ایک بالوں والا گدو کا کتا ہو۔ غارت ہو کم بخت! الغرض، ہر طرح کے ٹھاٹ ، بلکہ عیاشی ہونے لگی، اس پر بھی وہ نک چڑھی بیگم زیادہ عرصہ تک اس کے پاس نہ ٹکیں اور ٹکتیں بھی کیوں؟ کیچڑ اور پانی، کڑاکے کی سردی، نہ پھل نہ پھلواری، لوگوں کو دیکھو توجاہل، شرابی، جنہیں نہ اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ، نہ بات کرنے کا ڈھنگ۔ اور وہ ٹھہریں ماشاءاللہ پیترک برگ یا ماسکو کی مزاج دار خاتون....یہاں ان کے لئے مکھیاں مارنے کے علاوہ کیا دھرا تھا، اس پر طرہ یہ کہ خاوند کی حیثیت بھی پہلے سے گر گئی تھی۔ ایک بیچارے جلا وطن کی اوقات ہی کیا ہوتی ہے۔
اس کے تین سال بعد کا ذکر ہے، مجھے خوب یاد ہے کہ لیلتہ القدر کی شام کو پرلے کنارے سے کسی نے زور سے پکارا، میں ناﺅ اِدھر لے کر پہنچا۔ دیکھتا کیا ہوںکہ وہی بیگم صاحبہ کانوں تک اوڑھنی لپیٹے کھڑی ہیں، اور پہلو میں ایک نوجوان افسر ہے۔ ایک تکڑی ساتھ جتی کھڑی ہے.... میں نے انہیں پار اتار دیا، وہ گاڑی میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا، ہوا ہو گئے، اگلے دن علی الصباح گھوڑا اڑائے ویسیلائی سرگے یوچ صاحب گھاٹ پر نمودار ہوئے۔ پوچھنے لگے، سمیوں، میری بیوی تو کسی عینک والے آدمی کے ساتھ پار نہیں گئی؟ میں نے جواب دیا، جی ہاں، اب میدانوں میں جا کر ہوا پر چنگل مارئیے!، اس نے ان کے پیچھے بگٹٹ گھوڑا ڈال دیا، دن رات پانچ روز تک ان کا تعاقب جاری رکھا۔ واپسی پر جب میں اسے پار اتار رہا تھا۔ تو وہ بے دم ہو کر میری کشتی میں ڈھیر ہوگیا۔ اور اپنا سر تختوں پر پٹختا اور چیخیں مار مار کے روتا رہا۔ میں نے کہا تو یہ معاملہ ہے۔ ہنس کر اسے یاد دلایا کہ لوگ سائے بیریا میں بھی لطف سے زندگی بسر کرسکتے ہیں! وہ اپنا سر اور زور سے پیٹنے لگا۔
اس کے بعد آزادی کی ہوس اس کے دل میں چٹکیاں لینے لگی۔ اس کی بیوی فرار ہو کر روس پہنچ چکی تھی، اس کے دل میں ہوک اٹھی کہ جا کر اسے عاشق کے پنجے سے چھڑاﺅں، میاں! اس دن سے وہ مارا مارا صبح شام گھوڑے دوڑائے پھرنے لگا۔ کبھی ڈاک خانہ ہے، تو کبھی کمیدان کا دفتر، عرضیوں کا تانتا باندھ دیا کہ میرے حال پر رحم کیا جائے اور روس واپس جانے کی اجازت دے دی جائے۔ زمین بیچ ڈالی۔ مکان یہودیوں کے ہاتھوں رہن کر دیا۔
بال سفید ہوگئے۔ کمر جھک گئی۔ چہرہ دق کے ماروں کی طرح زور پڑ گیا۔ بھلا چنگا ایکا ایکی کھی کھی کرنے لگتا اور آنکھوں میں آنسو بھر لاتا۔ اس طرح آٹھ سال تک عرضیوں کا تار باندھے رکھا۔ مگر اب پھر اس کی جان میں جان آگئی۔ کیوں نہ ہو؟ خیر سے بیٹی کے سیانے ہونے سے ایک نیا بہلاوا ہاتھ لگ گیا ہے۔ وہ اسے میٹھی میٹھی نظروں سے دیکھتا ہے اور آنکھ کی پتلی کی طرح رکھتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ لڑکی میں کسی قسم کا عیب نہیں، اچھی شکل، کالی کالی بھنویں، مزاج میں شوخی، ہر اتوار کو اسے ساتھ لے کر گرجا جاتا تھا۔ دونوں کشتی میں پاس پاس کھڑے ہو جاتے، لڑکی مسکراتی، اور باپ کی نظریں بیٹی کے مکھڑے سے پل بھر کو اٹھنے کا نام نہ لیتیں۔ کہتا، ہاں سمیوں، سائے بیریا میں بھی زندگی لطف سے بسر ہوسکتی ہے۔ سائے بیریا میں بھی انسان خوش رہ سکتا ہے۔ میری بیٹی کو دیکھو ماشاءاللہ کتنی پیاری ہے! میں شرط لگاتا ہوں کہ اتنی پیاری لڑکی تم چرا غ لے کر ڈھونڈو تب بھی نہیں پاسکتے، میں جواب دیتا، بے شک، تم ٹھیک کہتے ہو، تمہاری لڑکی میں کوئی خرابی نہیں، اور اپنے دل میں کہتا، ذرا صبر کرو.... اس کی اٹھتی جوانی ہے۔ خون میں ابال ہے، جی میں مرادیں ہیں۔ یہاں بھلا راگ رنگ کہاں؟ اور میاں، لڑکی سچ مچ گھلنے لگی سوکھتی گئی، سوکھتی گئی، اور ایڑیاں رگڑ رگڑ رینگ رہی ہے، دق....“
دیکھ لی آپ نے سائے بیریا کی خوشی، لعنت ہو کم بخت پر! یہاں زندگی اس طور سے بسر ہوتی ہے.... خیر، تو اب ڈاکٹروں کی ڈھونڈ مچی، ایک کو چھوڑا، دوسرے کو پکڑا۔ آج اسے دکھا، کل اسے، جہاں کسی ڈاکٹر یا جادو گر کا پتہ چلا اور اسے لینے پہنچا، ڈاکٹروں کے پیچھے ہزاروں روپیہ برباد کر دیا۔ میرے نزدیک تو بہتر ہوتا کہ یہ روپیہ شراب میں اڑا دیتا، لڑکی تو مر کر رہے گی، اب کسی کے بچائے نہیں بچتی، پھر اس کی کمر ٹوٹ جائے گی، اور اس کا یقین رکھو کہ یا تو صدمے سے خودکشی کرے گا۔ یا روس بھاگ جائے گا، فرار ہوگا، پکڑا جائے گا، مقدمہ چلے گا، سزا ہوگی؟“
تاتاری نے جو سردی میں سکڑ رہا تھا، بڑبڑا کر کہا، اچھا ہے، اچھا ہے، اچھا ہے! کیا اچھا ہے؟
اس کی بیوی، اس کی بیٹی.... اس کے مقابلہ میں قید کی، صدمے کی کیا حقیقت ہے! اپنی بیوی، اپنی بیٹی کی شکل تو دیکھنے کو مل گئی.... تم کہتے ہو، کچھ نہ مانگو، یہ نہوت بری، اس کی بیوی تین سال تک اس کے ساتھ رہی، یہ پروردگار کی دین تھی، نہوت بری، تین سال اچھے، کچھ سمجھے بھی؟
سردی سے اٹک اٹک کے اپنا مطلب ادا کرنے کے لئے روسی لفظ سوچ سوچ کر (اسے صرف گنتی کے روسی لفظ آتے تھے) تاتاری نے کہنا شروع کیا، کہ خواہ گھڑی نہ لائے، کہ کوئی بیمار پڑے اور پردیس میں جان دے، اور ٹھنڈی، کالی زمین میں گاڑا جائے، میری بیوی میرے پاس دن بھر نہ سہی گھنٹہ بھر کو آ جائے، تو اس نعمت کے بدلے میں ہر طرح کا دُکھ درد سہہ لوں گا، اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کروں گا، خوشی کا ایک دن نہوت سے اچھا۔
وہ پھر اپنی حسین و ذہین بیوی کی حکایت لے بیٹھا، پھر اس نے اپنا سر ہاتھوں میں پکڑ لیا، اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، سمیوں کو اس نے یقین دلایا کہ میں بے گناہ ہوں اور مفت میں مصیبت بھگت رہا ہوں، میرے دو بھائیوں اور چچا نے مل کر اس کسان کے گھوڑے پر ہاتھ صاف کیا تھا، اور انہی نے گھوڑے والے کو مار مار کے ادھ موا کیا تھا، پنچائت نے انصاف سے کام نہیں لیا، بلکہ کچھ ایسی کاری گری کی، کہ ہم بھائیوں کو کالا پانی ہوگیا، اور ہمارا پیسے والا چچا صاف چھٹ گیا۔
سمیوں نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا، کچھ دنوں میں خود بخود جی لگ جائے گا۔
تاتاری دم بخود بیٹھا اپنی اشک آلود آنکھوں سے آگ کی طرف دیکھتا رہا۔ چہرے سے ویرانی اور تردد پڑا ٹپکتا تھا، اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کیوں گھر سے اتنی دور اس تاریکی اور نمی میں انجان لوگوں کی صحبت میں پڑا سڑ رہا ہوں۔
لال بجھکڑ آگ کے قریب لیٹے لیٹے کسی بات کا دھیان کرکے آپ ہی آپ ہنسا اور دھیمی لے سے دھن گنگنانے لگا۔
تھوڑی دیر میں بولا، لڑکی کے لئے باپ کی صحبت میں کیا لطف؟ یہ ضرور ہے کہ وہ اسے دل و جان سے چاہتا ہے۔ مگر، بھائی اس کے سامنے انسان کو اپنے شوق کا خیال رکھنا پڑتا ہے، بڈھا مزاج کا سخت اور چڑچڑا ہے، جوان لڑکیوں کو بھلا سختی سے کیا سروکار؟ انہیں تو چاﺅ چونچلے چاہئیں اور ہا ہا ہا! ہو ہو ہو عطر چاہئے اور غازہ چاہئے۔ جی ہاں.... آہ زندگی، زندگی!، سمیوں نے دقت کے ساتھ اٹھتے ہوئے ایک آہ کھینچی۔ شراب ختم۔ معلوم ہوتا ہے۔ سونے کا وقت آ پہنچا۔ میاں، میں تو چلا....“
تاتاری اکیلا رہ گیا، تو اس نے الاﺅ میں کچھ اور ٹہنیاں ڈالیں۔ لیٹ رہا۔ اور شعلوں پر ٹکٹکی باندھ کر اپنی بیوی کے تصورمیں ڈوب گیا۔ مہینہ بھر، دن بھر کو وہ میرے پاس آ جائے۔ خواہ جی چاہے، تو پھر چلی جائے۔ ایک مہینہ یا ایک دن سدا کی محرومی سے بہتر ہے۔ اچھا، فرض کرو، اس نے اپنے وعدہ کو پورا کیا۔ اور وہ آ بھی گئی۔ آخر کھائے گی تو کیا کھائے گی؟ رہے گی تو کہاں رہے گی؟
سوچتے سوچتے اس کی زبان سے نکلا، کھانے کو کچھ نہ ہوا، تو رہے گی کیونکر؟
دن رات چپو چلانے پر بھی صرف، دس کوپک اس کے پلے پڑتے تھے، یہ سچ ہے کہ سواریاں شراب یا چائے کے لئے کچھ بخشش دے دیتی تھیں۔ وہ دوسرے ملاح آپس میں بانٹ لیتے تھے۔ اور نہ صرف بیچارے تاتاری کو سوکھا ٹرخاتے تھے، بلکہ اس کا الٹا مذاق اڑاتے تھے، خرچ کی تنگی کی وجہ سے وہ بھوک، سردی اور دہشت کا شکار تھا....
اب کہ وہ سردی کے مارے تھرتھر کانپ رہا تھا، اور اس کا جوڑ جوڑ ٹوٹا جا تا تھا۔ چاہئے تھا کہ وہ جھونپڑی میں جا کر پڑ رہتا، اور سو جاتا، مگر وہاں اس کے پاس اوڑھنے کو کوئی چیز نہ تھی، اور اندر سردی باہر سے بھی زیادہ تھی، ساحل پر بھی اگرچہ اوڑھنے کو کچھ نہ تھا مگر کم از کم آگ تو دہکا سکتا تھا۔
ہفتہ بھر میں پانی اتر جائے گا اور چھوٹے ڈونگے چلنے لگیں گے اور سوائے سمیوں کے کسی ملاح کی ضرورت نہیں رہے گی، تب تاتاری گاﺅں گاﺅں روزگار ڈھونڈتا اور بھیک مانگتا پھرے گا۔ اس کی بیوی صرف سترا سال کی تھی، خوب صورت، نازم مزاج، شرمیلی، کیا وہ بھی شرم و حیا چھوڑ، نقاب الٹ در بدر جھولی لئے پھرے گی؟ نہیں اس کے خیال ہی سے اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے....
پو پھٹ رہی تھی، کشتی، پانی میں بید مجنوں کی جھاڑیاں، دریا کی لہریں صاف چمکنے لگی تھیں پلٹ کر دیکھنے سے ترچھی ریتلی ڈھال نظر آتی تھی، اس کے دامن میں چھپر کی جھونپڑی تھی، ذرا اوپر گاﺅں کی جھونپڑیاں پاس پاس پڑی تھیں، گاﺅں میں مرغ بانگ دینے لگے تھے۔
تاتاری سوچنے لگا کہ یہ سرخ ریتلی ڈھال، کشتی، دریا، اجنبی کھرے لوگ، بھوک، پیاس، بیماری، شاید یہ سب مایا ہو، بعید نہیں کہ یہ سب کچھ صرف خواب نکلے، اسے ایسا معلوم ہوا کہ میں سو رہا ہوں، اور اپنے خراٹوں کی آواز میرے کان میں آ رہی ہے.... وہ اپنے وطن سمبرسک میں ہے، اس نے اپنی بیوی کو نام لے کر پکارا، اور وہ بولی۔ دوسرے کمرے میں اس کی ماں ہے۔ لوگ کیسے کیسے درد ناک خواب دیکھتے ہیں، خواب آخر آتے کیوں ہیں؟ تاتاری نے مسکرا کر آنکھیں کھولیں۔ یہ کون سا دریا ہے؟ والگا؟
برف پڑ رہی تھی۔
”کشتی!“ دریا کے دوسرے کنارے پر کوئی شخص چیخ رہا تھا، ”کشتی!“
تاتاری چونک کر اٹھ بیٹھا اور دوسری طرف جانے کے لئے اپنے ساتھیوں کو جگانے لگا، روا روی میں پھٹی پرانی بھیڑ کی کھالیں پہن، اپنی بھاری، نیند بھری آواز میں گالیاں دیتے سردی سے ٹھٹھرتے ملاح گھات کی طرف روانہ ہوئے۔ کچی نیند سے اٹھ کر دریا کی تیز ہوا ان کے بدن کے پار ہوئی جاتی تھی۔ آہستہ آہستہ سب اچھل کر کشتی میں سوار ہوئے.... تاتاری اور تین اور ملاحوں نے بڑے بڑے، چوڑے پھل کے پتوار سنبھالے جو اندھیرے میں کیکڑوں کے پنجے معلوم ہوتے تھے، سمیوں پیٹ کے بل پتوار کے بیرم کے سہارے لیٹ گیا۔ دوسرے کنارے سے چیخنے کی آواز بدستور آ رہی تھی، دو مرتبہ تمنچہ شاید اس خیال سے چلایا گیا کہ ممکن ہے ملاح سو رہے ہوں، یا گاﺅں کے شراب خانے میں گئے ہوئے ہوں۔
”سُن لیا“ آخر ایسی کیا گھبراہٹ ہے، لال بجھکڑ کے لہجے سے ٹپکتا تھا کہ اس میں جلدی کرنا فضول ہے، یا کم از کم جلدی کا کوئی نتیجہ نہیں۔
لمبی چوڑی، بھدی ناﺅ کنارے سے روانہ ہوئی، اور بید مجنوں کی جھاڑیوں میں سے ہو کر چلنے لگی، درخت چلتے نظر آتے تھے۔ اور صرف اسی بات سے اندازہ ہوتا تھا، کہ کشتی ساکن نہیں، بلکہ حرکت میں ہے، ملاح جچے تلے ہاتھوں سے چپو چلا رہے تھے، لا ل بجھکڑ پیٹ کے بل کمان کی شکل لیٹا تھا، کبھی اس طرف کو لڑھک جاتا کبھی اس طرف کو۔ اندھیرے میں یہ معلوم ہوتا تھا کہ ملاح کسی باوا آدم کے وقت کے لمبے لمبے پنجوں والے دقیانوسی جانور کی پشت پر بیٹھے ایک برفانی لق و دق ملک میں سے چلے جا رہے ہیں، ایک ایسے ملک میں جو کبھی کبھی ڈراﺅنے خواب میں دکھائی دیتا ہے۔ ناﺅ بید مجنوں کی جھاڑیوں سے نکل کر کھلے دریا پر بہنے لگی، چپوﺅں کے برابر برابر چلنے کی آواز دریا کے دوسرے کنارے پر سنائی دیتی تھی، کوئی شخص چلائے جا رہا تھا۔
”جلدی کرو! جلدی کرو!“
دس منٹ کے بعد ناﺅ زور سے گھاٹ سے جا کر ٹکرائی۔
سمیوں اپنے منہ سے برف پونچھتے ہوئے بڑبڑایا۔ برف کی بوچھاڑ ہے یہ ختم ہونے کو نہیں آتی، خدا جانے اتنی برف کہاں سے نازل ہوتی ہے۔
کنارے پر ایک میانہ قدو قامت کا مختصر سا آدمی لومڑی کی کھال کا چھوٹا کوٹ پہنے سفید بھیڑ کی کھال کی ٹوپی اوڑھے بے حس و حرکت اپنے گھوڑے سے الگ ہٹ کر کھڑا تھا۔ غم و اندوہ اور از خود رفتی اس کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔ گویا کوئی بھولی بسری بات یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اپنے ناقص حافظہ پر دانت پیس رہا ہے، سمیوں اس کے قریب پہنچا اور مسکرا کر ٹوپی اتاری، اس نے کہا ”مجھے انستا سائیفسکا جانے کی جلدی ہے۔ میری لڑکی کی حالت پھر خراب ہوگئی، سنا ہے کہ وہاں کوئی نیا ڈاکٹر آیا ہے۔“
گاڑی ناﺅ میں دھکیلی گئی اور ملاحوں نے اسے بہاﺅ کے خلاف کھینچنا شروع کیا۔ وہ شخص جسے سمیوں نے ویسیلائی سرگے یوچ کے نام سے پکارا تھا بالکل ساکت کھڑا اپنے موٹے موٹے ہونٹ دبائے ناک کی سیدھ میں دیکھتا رہا۔ کوچوان نے اس سے سگریٹ پینے کی اجازت مانگی تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جیسے کچھ سنا ہی نہیں۔ سمیوں نے اس کی طرف طنز کی نظر سے دیکھا۔ اور کہا ”جی ہاں“ سائے بیریا میں بھی لوگ لطف سے زندگی بسر کرسکتے ہیں، لطف سے! لال بجھکڑ کے چہرے پر فاتحانہ رنگ جھلک رہا تھا، جیسے اس نے کوئی بات ثابت کر سکتے ہیں، اور اسے خوشی ہے کہ میری پیشین گوئی پوری ہو کے رہی، صاف ظاہر تھا کہ وہ ویسیلائی سرگے یوچ کی غمزدہ بے بسی سے بہت لطف اٹھا رہا ہے۔
جب گھوڑے ساحل پر پہنچ کر جوتے جانے لگے، تو اس نے کہا ”ویسیلائی سرگے یوچ اس موسم میں آپ کو بہت کیچڑ ملے گی، آپ کو چاہئے تھا، کہ ابھی زمین کے سوکھنے تک توقف کرتے یا سرے سے سفر کا خیال ہی دل سے نکال دیتے، سفر سے کچھ حاصل ہو، تب بھی ایک بات ہے۔ مگر آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ سالہا سال سے دن رات اِدھر سے اُدھرحیران و پریشان مارے مارے پھرتے ہیں، ایمان کی بات تو یہ ہے کہ اس دوڑ دھوپ کا نتیجہ خاک نہیں نکلتا۔“
ویسیلائی سرگے یوچ چپ چاپ اسے انعام دے کر گاڑی میں بیٹھا اور روانہ ہوگیا۔
سمیوں نے سردی سے جکڑ کر کہا ”پھر وہی ڈاکٹر کی تلاش! گویا معقول ڈاکٹر کاملنا اتنا ہی آسان ہے، جتنا میدان کی ہوا کا، یا شیطان ملعون کی دم کا ہاتھ آنا! عجب آدمی ہے! خدایا، مجھ گناہ گار کو معاف کر!“
تاتاری ، لال بجھکڑ کے قریب پہنچا، اور تھوڑی دیر تک اسے نفرت اور بیزاری کی نظروں سے دیکھتا رہا۔ پھر سردی سے تھرتھراتے ہوئے اپنی ٹوٹی پھوٹی روسی میں تاتاری الفاظ گڈمڈ کرکے اس نے بولنا شروع کیا ”وہ نیک ہیں، نیک، اور تم برے ہو! تم برے ہو! ان کی روح پاک ہے اور تم حیوان ہو، پلید! وہ زندہ ہیں اور تم ایک مردہ لاش ہو۔ خدا نے انسان کو اس لئے بنایا ہے کہ دکھ سکھ سہے،تمہارا دل میں کوئی خواہش نہیں ، تم بے جان ہو.... تم پتھر ہو، مٹی کا ڈھیر ہو!
”اللہ میاں تمہیں نہیں چاہتا، انہیں چاہتا ہے!“
ملاح ہنسنے لگے، تاتاری کی پیشانی پر حقارت سے بل آگیا۔ ایک جھٹکے سے اس نے اپنے پھٹے پرانے چیتھڑے بدن سے لپیٹ لئے، اور الاﺅ کے قریب چلا گیا، سمیوں اور دوسرے ملاح ٹہلتے ہوئے جھونپڑی کی طرف چلے گئے۔
ایک ملاح خشک گھاس پر لیٹے ہوئے بھاری آواز میں بولا ”سردی ہے!“
”دوسرے نے اتفاق کیا ”ہاں، گرمی نہیں ہے، زندگی کیا ہے جنجال ہے....“
سب لیٹ گئے دروازہ ہوا کے جھونکے سے کھل گیا، اور برف کی بوچھاڑ اندر آنے لگی، کسی میں مارے سردی اور کاہلی کے اتنی ہمت نہ ہوئی کہ اٹھ کر دروازہ بند کر دیتا۔
سمیوں غنودگی کا جھونکا آتے وقت بولا ”میں تو مزے میں ہوں، خدا سب کو ایسی زندگی نصیب کرے!“
”تمہاری دلآوری کا لوہا ہم سب مانتے ہیں، شیاطین بھی تمہیں ہاتھ نہیں لگائیں گے!“
باہر سے ایسی چیخیں آئیں جیسے کوئی کتا بھوں بھوں کر رہا ہے۔
”کیا ہے؟ کون ہے؟“
”تاتاری باہر بیٹھا سو رہا ہے۔“
”عجب دیوانہ ہے!“
سمیوں نے کہا ”رفتہ رفتہ عادی ہو جائے گا۔“ اور فوراً اس کی آنکھ لگ گئی۔ باقی لوگ بھی تھوڑی دیر میں سو گئے۔ دروازہ کھلا پڑا رہا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6