ایک معمولی آدمی

(1)

اولگا ایوانوونا کے سارے کے سارے دوست اور قریبی واقف کار اس کی شادی میں شریک ہوئے۔
”بھئی ذرا انہیں دیکھئے تو، عجب کشش پائی جاتی ہے ان میں، ہے نا؟“ اس نے شوہر کی طرف سر سے اشارہ کرتے ہوئے اپنے دوستوں سے کہا۔ صاف ظاہر ہورہا تھا کہ اسے یہ سمجھانے کی بڑی فکر ہے کہ وہ ایسے معمولی آدمی سے جو کسی بھی لحاظ سے ممتاز حیثیت نہیں رکھتا، شادی کرنے پر راضی کیسے ہوگئی۔
اس کا شوہر اوسیپ اسیبانچ دیموف ڈاکٹر تھا اور ملازمت میں اپنے مرتبے کے اعتبار سے ٹٹولر مشیر کے برابر۔ وہ دو اسپتالوںمیں کام کرتا تھا۔ ایک جگہ غیرمقیم معالج کی حیثیت سے اور دوسری جگہ تشریحی لیکچروں کے لئے لاشوںکی چیر پھاڑ کرنے والے کے طور پر روزانہ نو بجے صبح سے دوپہر تک وہ باہری مریضوں کو دیکھتا ، اپنے وارڈ کا معائنہ کرتا اور سہ پہر کو گھوڑا ٹرام کے ذریعے دوسرے اسپتال جا کر وہاں مر جانے والے مریضوں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرتا۔ نجی پریکٹس سے اس کی آمدنی نہ ہونے کے برابر یعنی کوئی پانچ سو روبل سالانہ تھی اور بس۔ اس بیچارے کے متعلق بیان کرنے کے لئے ا سکے سواور تھا ہی کیا؟ دوسری طرف اولگا ایوانوونا اور اس کے احباب اور واقف کار کسی بھی لحاظ سے معمولی افراد نہ تھے۔ ان میں جو بھی تھا کسی نہ کسی میدان میںممتاز اور اچھی خاصی شہرت کا مالک تھا اور اگر ابھی تک یہ لوگ مشہور و معرف شخصیت نہیں بن سکے تھے۔ تب بھی ان کی اٹھان کہہ رہی تھی کہ شاندار مستقبل یقینی ہے۔ ایک اداکار تھا جس کی حقیقی ڈرامائی صلاحیتیں اپنا لوہا منوا چکی تھیں، خوش وضع، ذہین، شائستہ اور خوش خوانی میںماہر، وہ اولگا ایوانوونا کو فن خطابت کے درس دیا کرتا تھا۔ ایک اوپیرا مغنی تھا، فربہ اندام اور خوش طبع جو ٹھنڈی سانسیں بھر بھر کے اولگا ایوانوونا کو یقین دلاتا رہتا تھا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا گلا گھونٹے دے رہی ہے، اگر وہ اتنی کاہلی نہ برتے اور خود کو قابومیں رکھے تو بہت اچھی مغنیہ بن سکتی ہے۔ حلقہ احباب میںکئی مصور بھی شامل تھے جن میں ریابوفسکی خاص طور سے قابلِ ذکر تھا۔ کوئی پچیس سال کا یہ نہایت وجیہہ وشکیل نوجوان اپنی تصاویر میںمختلف مسائل، جانوروں اور مناظر فطرت کی عکاسی کرتا تھا جو نمائشوں میں دھوم مچا دیتی تھیں۔ اس کی تازہ ترین تخلیق پانچ سو روبل میں فروخت ہوئی تھی۔ وہ اولگا ایوانوونا کے بنائے ہوئے ادھورے خاکوںکو مکمل کتاب اور ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ اولگا کی مصوری کبھی بھی گل کھلا سکتی ہے۔ اور ایک وائیلن چیلو نواز تھا جو اپنے وائیلن چیلو کو ”رلا“ سکتا تھا اور کھلم کھلا کہا کرتا تھا کہ جتنی بھی خواتین سے وہ واقف ہے ان میں اس کے ساتھ ساز بجا سکنے کی صلاحیت رکھنے والی صرف ایک ہی ہے.... اولگا ایوانوونا ! اور ایک ادیب تھا، نوجوان لیکن خاصا مشہور جو ناولٹ، ڈرامے اور افسانے لکھ چکا تھا۔ اور کون تھا؟ ارے ہاں، وسیلی وسیلئچ تھا، خوش لباس زمیندار، کتابوں کے لئے شوقیہ طور پر تشریحی تصاویر بنانے والا، گل بوٹوں اور خاکوں کا خالق جو قدیم روسی طرز اور داستانی رزمیوں کا صحیح معنوں میں دلدادہ تھا۔ وہ کاغذ، چینی کے برتنوں اور مٹی کی رکابیوں پر معجزے دکھا سکتا تھا۔ فنکاروں اور روشن خیالوں کے اس حلقے میں، قسمت کے ان منظورِ نظر افرادکے درمیان جو بے حد خوش اخلاق اور مہذب ہونے کے باوجود ڈاکٹروں کے وجود کو صرف اپنی علالت کے وقت ہی یاد کرتے تھے اور جن کے کانوں کے لئے دیموف کا نام سیدو روف یا تاراسوف جیسے عام ناموں کے مترادف تھا، دیموف بالکل اجنبی، بے ضرورت اور پستہ قد معلوم ہو رہاتھا حالانکہ وہ نہ ہی طویل قامت اور چوڑے چکلے شانوں والا تھا۔ اس کا فراک کوٹ لگتا تھا کہ کسی اور کے لئے سلا گیا ہے اور داڑھی کسی دوکان دار کی سی معلوم ہوتی تھی۔ یہ الگ بات کہ وہ کوئی ادیب یا مصورہوتا تو ہر شخص نے کہا ہوتا کہ وہ اپنی داڑھی کی بنا پر بالکل زولا معلوم ہوتا ہے۔
اداکار نے اولگا ایوانوونا سے کہا کہ وہ اپنے بھورے بھورے بالوں اور شادی کے لباس کی بنا پر ہوبہو آلوچے کے کسی درخت جیسی معلوم ہو رہی ہے جبکہ وہ موسم بہار میں نازک اور سفیدپھولوں سے ڈھک جاتا ہے۔
”نہیں، ذرا سنیئے تو!“ اولگا ایوانوونا نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔ ”آخر یہ سب ہواکیسے؟ میری بات سنیئے، سنیئے نا.... دراصل میرے والد اور دیموف ایک ہی اسپتال میں کام کرتے تھے۔ بچارے والد بیمار پڑ گئے تو دیموف نے ان کی ایسی دیکھ بھال شروع کی کہ دن رات ہر وقت ان کے پلنگ سے لگے بیٹھے رہتے تھے۔ کیسا زبردست ایثار تھا یہ! سنیئے ریابوفسکی!.... اور ادیب، آپ بھی سنیئے، آپ کو یہ واقعہ بڑا دلچسپ لگے گا۔ ذرا قریب آ جائیے نا۔ ایسا زبردست ایثار، ایسی پُرخلوص ہمدردی! میں بھی رات کے وقت پلک تک نہیں جھپکاتی تھی، والد کے پاس بیٹھی رہتی تھی اور پھر اچانک میںنے طاقتور نوجوان کے دل پر جادو سا کر دیا۔ ہاں، یوں ہی ہوا! میرے دیموف محبت میںہوش و حواس کھو بیٹھے۔ کتنے عجیب و غریب ہوتے ہیں قسمت کے کھیل بھی! خیر تو والد کے انتقال کے بعد دیموف کبھی کبھی مجھ سے ملنے آتے تھے اور بعض اوقات ہم لوگ گھرکے باہر بھی ملاقات کرتے تھے۔ پھر ایک دن.... ذرا دیکھئے تو.... کسی غیر متوقع واقعے کی طرح انہوںنے شادی کی تجویز پیش کر دی! ساری رات میں نے روتے روتے کاٹی اور میں بھی محبت میں دیوانی ہوگئی۔ اور اب میں شادی شدہ عورت ہوں۔ دیموف میںکوئی بڑی مضبوط، بڑی طاقتور چیز پائی جاتی ہے، ریچھ کی سی کوئی بات، بتائیے، ہے نا؟ اب تو ان کا صرف تین چوتھائی چہرہ ہی ہمیں دکھائی دے رہا ہے، روشنی ٹھیک نہیں لیکن جب وہ مڑیں اور پورا چہرہ سامنے ہو تو ذرا انکی پیشانی پر نظر ڈالئے گا۔ اس پیشانی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے، ریابوفسکی؟ ارے دیموف، ہم لوگ آپ کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں!“ اس نے شوہر کو پکارا۔ ”ذرا یہاں آئیے نا! ریابوفسکی کی طرف اپنا پُرخلوص ہاتھ بڑھائیے.... یہ درست ہے۔ آپ دونوںمیں دوستی ہونی چاہئے۔“
دیموف نے خوش مزاجی سے بے تصنع مسکراہٹ کے ساتھ ریابوفسکی کی طرف ہاتھ بڑھایا اورکہا۔
”آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔ ایک ریابوفسکی نے میرے ساتھ بھی تعلیم مکمل کی تھی۔ وہ آپ کے رشتے دار تو نہیں؟“

(2) 

اولگا ایوانوونا بائیس سال کی تھی ور دیموف اکتیس سال کا۔ شادی کے بعد ان کی زندگی میں بہار آگئی۔ اولگا ایوانوونا نے اپنے ڈرائنگ روم کی دیواریں اپنے اور اپنے احباب کے بنائے ہوئے فریم دار اور بغیر فریم کے خاکوں اور تصویروں سے ڈھک دیں اور پیانو اور فرنیچر کے اردگرد چینی چھتریاں، ایزل، رنگ برنگے پردے،خنجر، چھوٹی چھوٹی مورتیاں اور فوٹو فنکارانہ بے ترتیبی کے ساتھ ڈھیر کر دیئے.... کھانے کے کمرے میں اس نے دیوار پر لوک کتھاﺅں اور گیتوں پر مبنی تصاویر، درختوں کی چھال کے جوتے اور درانتیاں لٹکائیں، ایک کونے میں ایک درانتی اور جیلی ساتھ ساتھ رکھی اور اس طرح اسے روسی طرز کاکھانے کا کمرہ بنا دیا۔ خواب گاہ میں کسی غار کا ماحول پیدا کرنے کے لئے اس نے اس کی چھت اور دیواریں سیاہ باغات سے ڈھک دیں، پلنگوں کے اوپر ویسی طرز کا فانوس لٹکایا اور دروازے پر ایک مورتی رکھ دی جو قدیم ہتھیار لئے ہوئے تھی جس کا ایک سرا نیزہ تھا، دوسرا تیر۔ اور ہر ایک نے کہا کہ نوجوان جوڑے نے اپنی رہائش گاہ کو بہت آرام دہ بنا لیا ہے۔
اولگا ایوانوونا ہر روز گیارہ بجے سو کر اٹھتی تھی جس کے بعد پیانو بجاتی یا اگر دھوپ نکلی ہوتی توکسی روغنی تصویر پر کام کرتی۔گھنٹہ سوا گھنٹہ یوں گزارکے وہ اپنی درزن کے ہاں جاتی۔ اس کے اور دیموف کے پاس پیسے بہت کم ہوا کرتے تھے، کھینچ تان کے عام ضروریات پوری ہوجاتی تھیں اور بس۔ ان حالات میںاس کے آئے دن نئے نئے لباسوںمیں نمودار ہونے اور اندار نظر آنے کے لئے درزن کو اور خود اسے بھی جانے کیا کیا جتن کرنے پڑتے تھے۔ بار بار معجزے رونماہوتے رہتے تھے اور کسی رنگی ہوئی پرانی فراک اور باریک ریشمی جالی اور لیس کے چند ٹکڑوں سے انتہائی دیدہ زیب، رنگین خواب جیسا حسین لباس وجودمیں آ جاتا تھا۔ درزن کے ہاں سے اولگا ایوانوونا عموماً اپنی ایک اداکارہ سہیلی سے ملنے جایا کرتی تھی جہاں وہ چکنی چپڑی باتوں سے کسی پیش کش کی پہلی رات یا کسی کی مالی امداد کے لئے ہونے والے پروگرام کے ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ اداکارہ کے ہاں سے اسے کسی مصور کے اسٹوڈیو یا تصویروں کے کسی نمائش میں جانا ہوتا تھا اور اس کے بعد کسی مشہور و معروف شخصیت کے ہاں، اسے اپنے گھر مدعو کرنے، اس کی گزشتہ آمد کا جواب دینے یا بس یوں ہی اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے لئے۔ وہ جہاںبھی جاتی اسکا گرمجوشی کے ساتھ استقبال کیا جاتا اور اسے یقین دلایاجاتا کہ وہ نیک، دلکش اور غیرمعمولی ہے.... جن کو وہ مشہور اور بڑے لوگ کہاکرتی تھی وہ اس کا اپنوں میں سے ایک، اپنا ہم سر سمجھ کر خیر مقدم کرتے اور متفقہ طور پر اعلان کرتے کہ وہ اپنی صلاحیتوں، خوش ذوقی اور ذہانت کی بدولت ایک نہ ایک دن ممتاز حیثیت کی مالک ہوگی بشرطیکہ اپنی صلاحیتوں کو اتنی مختلف النوع سرگرمیوں پر ضائع نہ کرے۔ وہ گاتی تھی، پیانو بجاتی تھی، روغنی تصاویر اور چکنی مٹی کی مورتیاں بناتی تھی، شوقیہ ناٹکوںمیں اداکاری کرتی تھی اور یہ سب کچھ محض لشتم پشتم نہیں بلکہ حقیقی صلاحیت کا ثبوت دیتے ہوئے۔ وہ چراغاں کے لئے فانوس بناتی، کپڑے پہنتی یا یوں ہی کسی کی ٹائی باندھ دیتی۔ جو کچھ بھی کرتی سب پر ایک خاص حسن، سلیقے اور دلربائی کی چھاپ ہوتی تھی۔ لیکن اس کی صلاحیتوں کا سب سے زیادہ مظاہرہ ¿ممتاز و مشہور افراد سے تڑپڑ دوستی کرنے اور بے تکلف ہو جانے میں ہوتا تھا۔ جیسے ہی کوئی خود کو ذرا بھی ممتاز کرتا یا کسی کے چرچے ہونے لگتے ویسے ہی وہ اس شخص سے متعارف ہوتی، فوراً ہی دوستی کرلیتی اور اسے اپنے ہاں مدعو کرتی۔ اس قسم کا ہر نیا تعارف اس کی زندگی میں جشن کا دن ہوتا تھا۔ نام وروں کی وہ پرستش کرتی، ان پر نازاںرہتی اور راتوںکو انہی کے خواب بھی دیکھتی تھی۔ مشہور افراد سے راہ و رسم کی اس کی خواہش ایک ایسی پیاس تھی جو بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ پرانے احباب غائب ہو جاتے تھے لیکن جلد ہی ان سے بھی اس کا جی اوب جاتا تھا یا ان سے اسے مایوسی ہوتی تھی اور وہ بڑے انہماک کے ساتھ نئے احباب، نئے مشہور و معروف افراد کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتی تھی۔ اور جب ایسے نئے احباب مل جاتے تھے تو دوسروںکی متلاشی نظر آتی تھی۔آخر کیوں؟
چار اور پانچ بجے کے درمیان وہ گھر میں شوہر کے ساتھ ڈنر کھاتی تھی۔ دیموف کی سادگی، عقل سلیم اور خوش طبعی اسے اپنا گرویدہ بناکر شدید مسرت کے ہیجان میں مبتلا کر دیتی تھیں۔ وہ بار بار اچھل پڑتی اور شوہر کی گردن میں بانہیں حمائل کرکے اس پر بوسوں کی بوچھاڑ کر دیتی تھی۔
”دیموف، آپ بڑے عقل مند اور بلند خیال آدمی ہیں۔“ اس نے شوہر سے کہا۔ 
”پر معاف کیجئے گا، آپ میں ایک بڑا بھیانک عیب بھی ہے۔ آرٹ میں آپ سرے سے دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ موسیقی اور مصوری کو بالکل نظرانداز ہی کرتے ہیں۔“
”میں انہیں سمجھ نہیں پاتا“ اس نے انکساری سے جواب دیا۔ ”زندگی بھر طبیعیات اور علم طب کے میدان میں کام کیا ہے، دراصل آرٹ سے دلچسپی لینے کا مجھے کبھی وقت ہی نہیںمل سکا۔“
”مگر یہ بڑی بُری بات ہے، دیموف!“
”کیوں؟ تمہارے احباب طبیعیات اور علمِ طب سے بالکل نابلد ہیں اور تم اسے ان کا نقص نہیں تصور کرتیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا میدان ہوتا ہے۔ میں قدرتی مناظر کی تصاویر یا اوپیروں کو نہیںسمجھ پاتا لیکن میں اس معاملے کو یوں دیکھتا ہوں، اگر کچھ ذہین افراد ان پر کثیر رقوم صرف کرتے ہیں تو یہ چیزیں یقینا ضروری ہی ہوںگی۔ میں نہیں سمجھتا لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ انہیں نظرانداز کرتا ہوں۔“
”لائیے، میں آپ کا پُرخلوص ہاتھ دبا دوں!“
ڈنر کے بعد اولگا ایوانوونا واقف کاروں سے ملنے جلنے کے لئے نکل کھڑی ہوتی تھی، اس کے بعد تھیٹر یا کسی کنسرٹ میں چلی جاتی تھی اور نصف شب کے بعد کہیں جا کے گھر لوٹتی تھی۔ اور یہ اس کا روز کامعمول تھا۔
ہر بدھ کی شام کو وہ اپنے گھر میں مہمانوں کا خیرمقدم کرتی تھی۔ ان شاموں کو نہ تاش کھیلا جاتا تھا نہ رقص ہوتا تھا۔ لوگ صرف آرٹس سے محظوظ ہوتے تھے۔ ڈرامہ تھیٹر کا اداکار خوش خوانی کرتا تھا،مغنی گاتا تھا، مصور البموں میں جن کی اولگا ایوانوونا کے پاس افراط تھی، خاکے بناتے تھے، وائیلن چیلو نواز اپنا ساز بجاتا تھا خود میزبان خاکے اور مورتیاں بناتی، گاتی اور پیانو پر سنگت کرتی تھی۔ خوش خوانی، بجانے اور گانے کے وقفوں میں یہ لوگ ادب، تھیٹر اور آرٹ کے بارے میں باتیں اور بحثیں کرتے تھے۔ مہمانوں میں خواتین نہیں شامل ہوتی تھیں کیونکہ اولگا ایوانوونا ایکٹرسوں اور اپنی درزن کے سوا تمام عورتوںکو گھٹیا اور وبال جان تصور کرتی تھی۔ بدھ کی ایک بھی شام ایسی نہیں ہوتی تھی جب میزبان دروازے کی گھنٹی کی ہر آواز پر چہرے کے فاتحانہ تاثر کے ساتھ یہ کہتی ہوئی اپنی جگہ سے اچھل نہ پڑتی ہو: ”آگئے وہ!“ اس ضمیر سے اس کا اشارہ پہلی بار مدعو کئے جانے والے کسی نامور شخص کی طرف ہوتا تھا۔ دیموف کبھی بھی ڈرائنگ روم میںموجود نہیں ہوتا تھا اور کسی کو اس کے وجود کا خیال تک نہیں آتا تھا۔ لیکن ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے کھانے کے کمرے میںجانے کا دروازہ کھلتا، دیموف خوش اخلاقی اور نرمی سے مسکراتا، ہتھیلیوں کو ایک دوسرے سے رگڑتا ہوا دروازے میں نمودار ہوتا اور کہتا تھا:
”آپ لوگ کھانے پر تشریف لائیے!“
سب لوگ ایک قطار کی شکل میں کھانے کے کمرے میں داخل ہوتے اور ان کی آنکھوں کا ہر بار وہی چیزیں خیر مقدم کرتیں ”کستورے کی ایک ڈش، ران کے گوشت کا ایک بڑا ٹکڑا، سارڈین مچھلیاں، پنیر، اسٹرجن مچھلیوں کے نمک پڑے ہوئے انڈے، سرکے میں پڑی ہوئی سانپ چھتریاں، ہلکی شراب سے بھری شیشے کی دو صراحیاں اور واڈکا۔“
”میرے پیارے Maitre D`Hotel “ اولگا ایوانوونا انتہائی مسرت کے جوش میں اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے سے جکڑ کر کہتی تھی۔ ”آپ واقعی بے حد دلکش ہیں! ذرا آپ لوگ ان کی پیشانی کو تو دیکھئے! دیموف، ہم لوگوں کی طرف رخ تو کیجئے! دیکھئے آپ لوگ، بنگال کے شیر جیسا چہرہ اور اس پر نرمی اور دلکشی ایسی جیسے کسی ہرنی کا ہو! کتنے پیارے لگتے ہیں!“
مہمان کھانے کی طرف متوجہ ہوتے اور دیموف پر نظریں ڈال ڈال کر سوچتے : ”واقعی اچھے آدمی ہیں۔“ لیکن جلد ہی اسے بھول بیٹھتے اور تھیٹر، موسیقی اور آرٹ سے متعلق اپنی باتیں جاری رکھتے۔
نوجوان جوڑا خوش تھا، زندگی اطمینان سے گزر رہی تھی۔ ہنی مون کا تیسرا ہفتہ البتہ کوئی خاص ہنسی خوشی سے نہ گزرا بلکہ پریشان کن ثابت ہوا۔ دیموف کو اسپتال میں حمرہ مرض لگ گیا،اسے چھ دنوں تک صاحبِ فراش رہنا اور اپنے خوبصورت کالے کالے بالوں کو بالکل جڑوں کے پاس تک ترشوا دینا پڑا۔ اولگا ایوانوونا پلنگ کے پاس بیٹھی زار و قطار آنسو بہاتی رہی لیکن دیموف کی حالت ذرا بہتر ہوئی تو اس نے شوہر کے صفاچٹ سر پر سفید رومال باندھا اور کسی عرب بدو کے روپ میں اس کی تصویر بنانے بیٹھ گئی۔ صحت یاب ہو کر وہ کام کرنے کے لئے پھر اسپتال جانے لگا لیکن تین دنوں کے بعد ہی نئی مصیبت نازل ہوگئی۔
”میری قسمت ہی کھوٹی ہے، اولگا“ اس نے ایک روز ڈنر کے دوران کہا۔ ”آج میں نے چار پوسٹ مارٹم کئے اور اپنی دو انگلیاں کاٹ لیں۔ مجھے اس کا پتا گھر واپس لوٹنے کے بعد ہی چل سکا۔“
اولگا ایوانوونا تشویش میں مبتلا ہوگئی۔ وہ مسکرا دیا، کہنے لگا کہ یہ تو معمولی بات ہے اور پوسٹ مارٹم کے دوران اکثر اس کے ہاتھ کہیں نہ کہیں کٹ جاتے ہیں۔
”میں خیالوں کی رو میں بہہ جاتا ہوں، اولگا اور ویسے مزاجاً بھی کھویا کھویا رہتا ہوں۔“
اولگا ایوانوونا بڑی پریشانی کے ساتھ خون میں زہر پھیل جانے کا انتظار کرنے لگی، ہر رات کو دعا مانگتی کہ مصیبت سر سے ٹل جائے اور یہی ہوا بھی۔ اور پہلے جیسی پُرمسرت، پُرسکون زندگی، آلام و افکار سے یکسر خالی زندگی دوبارہ شروع ہوگئی حال شاندار تھا اور جلد ہی بہار آنے کو تھی،ان دونوں پر دور سے مسکراتی اور اپنے دامن میں بے شمار مسرتیںلاتی ہوئی بہار۔ مسرتوں کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری رہنے کو تھا۔ اپریل، مئی اور جون تینوں مہینے ماسکو سے کافی فاصلے پر ”داچا“ میں چہل قدمیوں، مصوری، مچھلی کے شکار اور بلبلوں کے گیتوںکے درمیان گزرنے والے تھے اور جولائی سے خزاں تک کا زمانہ دریائے والگا کے کنارے مصوروں کی سیروگشت کے لئے وقف تھا جس میں اولگا ایوانوونا کو مصوروں کے حلقے کی مستقل رکن کی حیثیت سے شرکت کرنی تھی۔ اس نے اپنے لئے موٹے کپڑے کے دو سفری لباس سلوائے تھے اور مختلف رنگ، ڈھیروں برش، کینوس اور رنگ ملانے کی ایک نئی تختی بھی خرید چکی تھی۔ اس کی مصوری کی رفتار ترقی کا جائزہ لینے کے لئے ریابوفسکی تقریباً ہر روز اس کے ہاں آتا تھا۔ وہ ریابوفسکی کو اپنی تخلیقات دکھاتی تو وہ اپنے ہاتھوں کو جیبوں میںٹھونس لیتا، ہونٹوںکو سختی سے بھینچتا، ناک بھوں چڑھاتا اورکہتا تھا:
”ارے، رے.... یہ بادل تو چیخ رہا ہے۔ شام کی روشنی تھوڑی ہے۔ پیش منظر ذرا گڑبڑ سا ہے اور کسی چیز کی۔ آپ سمجھ رہی ہیں نا کہ میرا مطلب کیا ہے۔ کمی محسوس ہوتی ہے.... آپ کی یہ جھونپڑی ایسی لگتی ہے جیسے اسے دونوں طرف سے کس کے دبا دیا گیا ہے اور بیچاری درد ناک طور پر رو رہی ہے.... گوشے کو ذرا زیادہ تاریک کر دیجئے۔ لیکن بحیثیت مجموعی یہ تصویر زیادہ بے جان نہیں ہے.... میںمطمئن ہوں۔“
اور اس کا انداز گفتگو جتنا مبہم ہوتا تھا اتنی ہی آسانی سے اولگا ایوانوونا سمجھ جاتی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔

(3)

ایسٹر کے بعد کے ساتویں اتوار کے اگلے روز دیموف نے سہ پہر کو بیوی کے لئے داچے لے جانے کی خاطر مٹھائیاں اورکھانے کی کچھ دوسری چیزیں خریدیں۔ اولگا کو اس نے کوئی پندرہ دنوں سے نہیں دیکھا تھا اور اس کی یاد میں بُری طرح تڑپ رہا تھا۔ ٹرین کے سفر کے دوران اور اس کے بعد جھاڑیوں کے بن میں اپنے داچے کو تلاش کرتے وقت بھوک کی شدت سے اس کا بُرا حال تھا اور وہ بیوی کے ساتھ بیٹھ کر اطمینان سے رات کا کھانا کھانے اور پھر بستر میں گھس جانے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ اسے اپنے بنڈل کو جو اسٹرجن مچھلی کے انڈوں،پنیر اور سکھائی ہوئی مچھلیوں پر مشتمل تھا، دیکھ دیکھ کر خوشی ہو رہی تھی۔
آخر کار جب اسے داچے کو تلاش کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی تو آفتاب غروب ہوچکا تھا۔ بوڑھی نوکرانی نے اسے بتایا کہ مالکن گھر میں نہیں ہیں لیکن شایدجلد ہی واپس آ جائیں گی۔ نیچی چھتوں، لکھنے کے کاغذ سے ڈھکی ہوئی دیواروں اور گڑھوں سے بھرے ہوئے ناہموار فرشوں والا یہ انتہائی غیر دلکش داچا صرف تین کمروں پر مشتمل تھا۔ ایک کمرے میں پلنگ بچھا ہوا تھا، دوسرے میں کینوس، مصوری کے برش، گندے کاغذ کا ایک ٹکڑا اور کرسیوں اور کھڑکیوںکی سلوںپر مردوں کے کوٹ اور ہیٹ رکھے ہوئے تھے اور تیسرے میں دیموف کو تین اجنبی نظر آئے۔ دو مرد سانولے اور دڑھیل تھے اور تیسرا صاف منڈی ہوئی ڈاڑھی مونچھوں والا بظاہر کوئی اداکار معلوم ہو رہا تھا۔ میز پر رکھے ہوئے سماوار سے بھاپ نکل رہی تھی۔
”کہیئے، آپ کو کیا چاہئے؟“ اداکار نے دیموف کو غیر دوستانہ انداز سے دیکھتے ہوئے گہری آوازمیں پوچھا۔ ”اولگا ایوانوونا سے ملنا ہے؟ ذرا انتظار کیجئے۔ وہ آتی ہی ہوںگی۔“
دیموف بیٹھ کے انتظار کرنے لگا۔ سانولے آدمیوں میں سے ایک نے اسے نیم خوابیدہ سی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے چائے انڈیلی اور پوچھا:
”چائے پیئں گے؟“
دیموف بھوکا بھی تھا، پیاسا بھی لیکن اس نے اس خیال سے کہ بھوک مر نہ جائے، چائے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ کچھ ہی دیر بعدقدموںکی آہٹیں سنائی دیں اور ایک جانی پہچانی ہنسی کی آواز۔ دروازہ بھڑ سے کھلا اولگا ایوانوونا جس کے سر پر چوڑے چھجے کا ہیٹ تھا اور ہاتھ میں ڈبا، تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی۔ ریابوفسکی جس کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا اور بڑے جوش و خروش میں معلوم ہوتا تھا، بڑی سی چھتری اور تہہ ہو جانے والا اسٹول اٹھائے اس کے پیچھے پیچھے اندر آیا۔
”دیموف!“ اولگا ایوانوونا جس کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا تھا، زور سے چلائی۔ ”دیموف!“ اس نے شوہر کے سینے پر سر اور دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے دہرایا۔ ”تو یہ آپ ہیں! اتنے زیادہ دنوں سے آپ آئے کیوں نہیں تھے؟ کیوں؟ آخر کیوں؟“
”میرے پاس وقت ہی کہاں تھا؟ ہمیشہ تو مصروف رہتا ہوں اور کبھی فرصت بھی ملتی ہے تو کچھ ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ مناسب ٹرین نہیں ملتی۔“
”اوہ، کتنی خوشی ہوئی آپ کو دیکھ کے! رات بھر، جی ہاں رات بھر آپ ہی کے خواب دیکھتی رہی، ڈر رہی تھی کہ کہیں آپ بیمار نہ ہوں، کوئی ایسی ویسی بات نہ ہو گئی ہو۔ اوہ، کاش آپ کومعلوم ہوتا کہ آپ کتنے پیارے ہیں، کتنا اچھا ہوا جو آپ آگئے! آپ میرے نجات دھندہ ہیں! صرف آپ ہی مجھے بچا سکتے ہیں! کل یہاں نہایت ہی انوکھی شادی ہونے جا رہی ہے“ اس نے ہنس ہنس کے شوہر کی ٹائی دوبارہ باندھتے ہوئے بات جاری رکھی۔ ”اسٹیشن کے ٹیلی گراف آپریٹر کی شادی ہو رہی ہے، نام اس کا چیکل دیف ہے۔ صورت اچھی پائی ہے، بے وقوف نہیں اور آپ جانتے ہیں، اس کے چہرے میں کوئی بڑی طاقتور ، ریچھ کی سی کوئی بات پائی جاتی ہے....وہ تو کسی نوجوان وارنگی کی تصویر کے لئے ماڈل کا بھی کام دے سکتا ہے۔ گرمیوںمیں یہاں آنے والے ہم سب لوگ اس سے دلچسپی رکھتے ہیں اور عزت کی قسم کھا کے وعدہ کیا ہے کہ اس کی شادی میں شریک ہوں گے.... بچارا مفلسی اور تنہائی کا مارا ہوا ہے، شرمیلا ہے اور قابلِ ہمدردی۔ ہمارا انکار گناہ ہوگا، گناہ۔ ذرا تصور توکیجئے، شادی کی رسم عبادت کے فوراً ہی بعد انجام دی جائے گی اور گرجے سے سارے کے سارے لوگ سیدھے دلہن کے گھر جائیں گے.... درختوں کا جھنڈ، طائروں کے نغمات، گھاس پر دھوپ اور گہرے سبز رنگ کے پس منظر میںہم سب رنگین گل۔ کیسا انوکھا سماں ہوگا۔ باطنی دنیاکی عکاسی کرنے والے فرانسیسی مصوروں کی کسی تخلیق جیسا۔لیکن دیموف، ذرا سوچئے تو، میں گرجا جاﺅں گی توکیا پہن کے؟“ اولگا ایوانوونا نے چہرے پر اداسی طاری کرتے ہوئے کہا۔ ”یہاں تومیرے پاس کچھ بھی نہیں، واقعی کچھ بھی نہیں۔ نہ کوئی خاص لباس ہے، نہ پھول ہیں، نہ دستانے.... آپ کو مجھے اس افسوس ناک صورتِ حال سے بہرحال نجات دلانی ہوگی! اس وقت آپ کی آمد کا مطلب یہی ہے کہ تقدیر چاہتی تھی کہ آپ مجھے نجات دلائیں۔ میری کنجیاںلے لیجئے، ڈارلنگ اور گھر جاکے کپڑوںکی الماری سے میرا گلابی لباس لے آئیے.... آپ تو اسے جانتے ہیں، بالکل سامنے ہی لٹکا ہے.... اور صندوقوں کے کمرے میں آپ کو فرش پر دفتی کے دو صندوق نظر آئیں گے۔ جب آپ اوپر والے صندوق کو کھولیں گے تو بس باریک ریشمی جالیاں، جالیاں، جالیاںہی نظر آئیں گی یا پھر طرح طرح کے کپڑوںکے بچے کھچے ٹکڑے اور ان کے نیچے پھول۔ سارے پھولوںکو بہت احتیاط کے ساتھ نکال لیجئے گا اور کوشش کیجئے گا میرے محبوب کہ ان پر سلوٹیں نہ پڑنے پائیں۔ بعد میں انہی میں سے کچھ کا انتخاب کر لوں گی.... اور ہاں، میرے لئے ایک جوڑا دستانے خرید لیجئے گا۔“
”بہت اچھا“ دیموف نے کہا۔ ”میں کل واپس جاﺅں گا اور یہ چیزیں بھجوا دوں گا۔“
”کل؟“ اولگا ایوانوونا نے اس کی طرف شدید اضطراب سے تکتے ہوئے دھرایا۔ ”کل تو آپ کا وقت پر پہنچ جانا ممکن ہی نہ ہوگا! کل پہلی ٹرین نو بجے روانہ ہوتی ہے اور شادی گیارہ بجے ہوگی۔ نہیں، میری جان، آپ کو آج ہی جانا چاہئے، جانا ہی ہوگا! کل آپ خود نہ آ سکیں توکسی کے ہاتھ ساری چیزیں بھجوا دیجئے گا.... اچھا تو اب جائیے.... ٹرین یہاں بس پہنچنے ہی والی ہے۔ دیر نہ کیجئے، پیارے۔“
”بہت اچھا۔“
”کیا کہوں کہ مجھے آپ کے جانے سے کیسی کوفت ہو رہی ہے!“ اولگا ایوانوونا نے کہا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ”میں بھی کیسی احمق تھی کہ ٹیلی گراف آپریٹر سے وعدہ کرلیا!“
دیموف نے ایک گلاس چائے جلدی جلدی حلق میں انڈیلی، ایک کرارا بسکٹ اٹھا کے انکساری کے ساتھ مسکرایا اور اسٹیشن کے لئے روانہ ہوگیا۔ اسٹرجن مچھلی کے انڈے، پنیر اور سکھائی ہوئی مچھلیاں دونوں سانولے آدمیوں اور فربہ اندام اداکار کے پیٹ میں پہنچ گئیں۔

(4) 

جولائی کی ایک خاموش چاندنی رات میں اولگا ایوانوونا والگا کے ایک اسٹیمر کے عرشے پر بیٹھی باری باری سے پانی اور دریا کے خوبصورت کنارے کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے پہلو میں کھڑا ہوا ریابوفسکی اسے بتا رہا تھا کہ پانی کی سطح پر جو کالی کالی پرچھائیاں نظر آ رہی ہیں یہ پرچھائیاں نہیں بلکہ ایک خواب ہیں نیز یہ کہ اس طلسمی اور تابناک پانی، اس لامتناہی آسمان اور دریاکے ان مغموم کناروں کے درمیان، اس ماحول میں جہاں یہ ساری چیزیں ہم سے ہماری زندگیوں کے ہیچ ہونے کی اور کسی ارفع تر، کسی جاوداں اور مسعود شے کے وجود کی باتیں کر رہی ہیں، سب کچھ بھول بیٹھنا، مر جانا اور ایک یاد بن کر رہ جانا کہیں بہتر ہوگا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ماضی حقیر اور غیر دلچسپ تھا، مستقبل کورا ہوگا اور یہ دوبارہ کبھی نہ آنے والی مقدس رات بھی جلد ہی ختم ہو جائے گی، دوام کا جزو بن جائے گی تو پھر آخر زندہ کیوں رہا جائے؟
اور اولگا ایوانوونا نے باری باری سے ریابوفسکی کی آواز اور رات کے سناٹے کو سنا اور اپنے آپ سے کہا کہ وہ جاوداں ہے، کہ وہ کبھی نہ مرے گی۔ طرح طرح کے رنگ بدلتا ہوا پانی جیساکہ اس نے زندگی میں کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔ آسمان، دریا کے کنارے، سیاہ پرچھائیاں اور اس کی روح کو معمور کرتی ہوئی بے پایاں مسرت۔ ساری چیزوں نے اس سے کہا کہ وہ ایک دن عظیم مصور ہوگی اور یہ کہ دوریوں سے آگے، چاندنی رات سے آگے کہیں لامحدود خلا میں اس کی کامیابی، شہرت اور عوام کی محبت اس کی منتظر ہیں.... پھر جب وہ ذرا دیر تک پلکیں جھپکائے بغیر دور خلامیں تکتی رہی تو اسے ایسا لگا کہ وہ ہجوموں اور روشنیوں کو دیکھ رہی ہے، تقریبی موسیقی اور پُرجوش افراد کے داد و تحسین کے نعروں کو سُن رہی ہے، وہ خود سفیدلباس زیب تن کئے ہوئے ہے اور اس پر چاروں طرف سے پھولوں کی بارش ہو رہی ہے۔ اس نے اپنے آپ سے یہ بھی کہاکہ اس کے پہلو میں عرشے کی ریلنگ پر جھکا ہوا ایک حقیقی عظیم شخص، ایک جیئنیس، خود خدا کے منتخب کردہ افراد میںسے ایک فرد کھڑا ہے.... اس کی اب تک کی تمام تخلیقات شاندار، جدید اور غیرمعمولی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب اس کی غیر معمولی صلاحیتوں میں پختگی آ جائے گی تب وہ جو کچھ تخلیق کرے گا وہ اور بھی زیادہ موثر اور لامحدود طور پر عظیم ہوگا اور یہ سب کچھ اس کے چہرے میں، اس کے اپنے اظہار کے انداز اور فطرت سے متعلق اس کے رویے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ پرچھائیوں، شام کے رنگوں اور چاندنی رات کے حسن کو بیان کرنے کی اس کی اپنی ایک مخصوص زبان ہے اور فطرت پر اس کے اختیار کی دلکشی تقریباً ناقابلِ مزاحمت ہے اور وہ خوبصورت بھی ہے، اس میں نیا پن بھی پایا جاتا ہے اور اس کی آزاد، بے فکری اور دنیاوی بندھنوں سے پاک زندگی کسی طائر کی زندگی جیسی ہے۔
”سردی بڑھ چلی ہے“ اولگا ایوانوونا نے کہا اور کانپ اٹھی۔ ریابوفسکی نے اسے اپنی برساتی اوڑھاتے ہوئے اداس لہجے میں کہا:
”مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں پوری طرح آپ کے بس میں ہوں۔ غلام جیسی حالت ہو رہی ہے میری تو۔ آپ کی دلکشی اور دلربائی میں آج اتنا زیادہ اضافہ کیسے ہوگیا؟“
وہ اولگا ایوانوونا کو مسلسل تکے جا رہا تھا، چہرے سے نظریں ہی نہیں ہٹا رہا تھا اور اس کی آنکھوں سے کچھ ایسی وحشت برس رہی تھی کہ اولگا ایوانوونا کو اس کی طرف دیکھنے کی ہمت ہی نہیں پڑ رہی تھی۔
”میں آپ کی محبت میں پاگل ہوا جا رہا ہوں....“ اس نے سرگوشی کی اور اس کی سانس کے لمس کو اولگا ایوانوونا نے اپنے رخسار پر محسوس کیا۔ ”صرف آپ کے کہنے کی دیر ہے اور میں جان دے دوں گا، مصوری کو ٹھکرا دوں گا....“ اس نے جذبات کی شدت سے دھیرے سے کہا۔ ”مجھ سے محبت کیجئے، محبت کیجئے....“
”ایسی باتیں نہ کیجئے“ اولگا ایوانوونا نے اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔ ”ڈر لگتا ہے۔ اور دیموف؟“
”دیموف سے کیا مطلب؟ آخر دیموف کیوں؟ دیموف سے مجھے کیا سروکار؟ والگا ماہتاب، حسن، میری محبت، میری مسرت۔اس سب میں دیموف کون ہوتے ہیں؟.... اوہ، مجھے کچھ بھی نہیں معلوم.... مجھے ماضی کی حاجت نہیں، مجھے صرف ایک لمحہ عنایت کر دیجئے.... بس ایک لمحہ مختصر!“
اولگا ایوانوونا کے دل کی دھڑکنیںاچانک تیز ہوگئیں۔ اس نے اپنے شوہر کے متعلق سوچنے کی کوشش کی لیکن اسے اپنا سارا ماضی، اپنی شادی، دیموف، اپنی بدھ کی شامیں۔ سب کچھ حقیر، غیر اہم، بے کیف، بے مصرف اور دور، بہت دور معلوم ہوا.... اس نے سوچا ٹھیک ہی تو ہے، دیموف سے کیا مطلب؟ آخر دیموف کیوں؟ دیموف سے اسے کیا سروکار؟ اس قسم کے آدمی کاکیا واقعی کہیں وجود بھی ہے؟ کیا وہ محض ایک خواب ہی نہیں؟
”دیموف کو جو مسرت مل چکی ہے وہ ان کے جیسے کسی معمولی آدمی کے لئے بہت کافی ہے“ اس نے ہاتھوں سے چہرے کو ڈھکتے ہوئے اپنے آپ سے کہا۔ ”لوگ وہاں مجھے بُرا بھلا کہنا چاہیں تو کہیں، مجھ پر لعنت بھیجیں، میں خود کو تباہ کر لوں گی، ہاں محض لوگوں کو نیچا دکھانے کے لئے خود کو تباہ کر لوں گی.... انسان کوایک بار ہر چیز کا تجربہ کرنا چاہئے۔ اوہ خدا، کتنی مہیب بات ہے اور کتنی خوبصورت!“
”اچھا پھر؟ اچھا پھر؟“ مصور نے اسے اپنی بانہوں میں لینے اور اس کے ہاتھوںکو جن سے وہ اسے الگ دھکیلنے کی ہلکی سی کوشش کر رہی تھی، بے تابی سے چومتے ہوئے دھیرے دھیرے کہا۔ ”تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟ کرتی ہو نا؟ اور، کیا شاندار رات ہے! کتنی خوبصورت رات ہے!“
”ہاں، کیا شاندار رات ہے!“ اولگا ایوانوونا نے اس کی آنکھوں میں جو آنسوﺅں سے چمک رہی تھیں، جھانکتے ہوئے سرگوشی کی اور پھر تیزی سے نظریں پھیر کر اسے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا اور اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ پیوست کر دیئے۔
”ذرا سنیئے“ اولگا ایوانوونا نے فرطِ انبساط سے ہنستے اور روتے ہوئے اسے پکارا۔ ”ہمیں کچھ شراب دے جائیے۔“
مصور نے جس کا چہرہ اضطراب کے باعث زرد پڑ گیا تھا، ایک بنچ پر بیٹھ کر اولگا ایوانوونا کو محبت بھری شکرگزار نگاہوں سے دیکھا پھر آنکھیں بند کر لیں اور افسردہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
”میں تھک گیا۔“اور اس نے اپنا سر ریلنگ پر رکھ دیا۔

(5) 

دو ستمبر کو ہوائیں نہیں چل رہی تھیں، دن گرم لیکن کہر آلود تھا۔ صبح کو دریائے والگا پر ہلکا کہرا منڈلا رہا تھا اور نو بجے کے بعد بوندا باندی شروع ہوگئی۔ مطلع صاف ہو جانے کا ذرا بھی امکان نہیں آ رہا تھا۔ ناشتے پر ریابوفسکی نے اولگا ایوانوونا اولگا ایوانوونا سے کہاکہ مصوری سب سے زیادہ صبر آزما اور تھکا مارنے والا فن ہے کہ وہ مصور نہیں ہے کہ صرف عقل کے اندھے ہی اسکی صلاحیتوں پر یقین رکھتے ہیں اور اس نے خفیف سا اشارہ دیئے بغیر ہی اچانک چاقو اٹھا کر اپنے بنائے ہوئے نہایت کامیاب خاکے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے تھے۔ ناشتے کے بعد وہ کھویاکھویا کھڑکی کے پاس بیٹھ کر باہر دریاکو دیکھنے لگا۔ والگا اپنی چمک دمک سے محرومی کے بعد اب دھندلا بے حس اور سرد سا لگ رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے دونوں کناروں کے ہریالی کے قالینوں، آفتاب کی شعاعوں کے ہیرے جیسے عکسوں صاف و شفاف نیلگوں وسعتوں اور فطرت کے تمام شاندار مناظر کو والگا سے لے کر اگلے موسم بہار تک کے لئے کسی صندوق میںبند کر دیا ہو اور اس کے اوپر اڑتے ہوئے کوے چھیڑ خانی کر رہے ہوں۔ ”برہنہ! برہنہ! ریابوفسکی نے ان کی کائیں کائیں سُنی اور اپنے آپ سے کہاکہ مصور کی حیثیت سے وہ مر چکا ہے، اپنی صلاحیتیں کھو چکا ہے اور یہ کہ دنیا کی ہر شے رسمی۔ اضافی اور احمقانہ ہے نیز یہ کہ اسے اس عورت کے چکر میں پڑنا ہی نہیں چاہئے تھا.... مختصر یہ کہ وہ بُری طرح مایوس اور بددل ہو رہا تھا.... اولگا ایوانوونا اوٹ کے دوسری طرف پلنگ پر بیٹھی سن جیسے رنگ کے اپنے خوبصورت بالوںمیں انگلیوں سے کنگھی کر رہی تھی، تصور ہی تصور میں خود کو اپنے ڈرائنگ روم، خواب گاہ اور شوہر کے مطالعے کے کمرے میں دیکھ رہی تھی۔ اسکے تصور نے اسے تھیٹر پہنچایا، درزن کی دوکان اور اسکے مشہور و معروف دوستوں کے ہاں لے گیا۔ اس لمحے وہ لوگ کیا کر رہے ہوں گے؟ کبھی ان لوگوںکو اس کا خیال بھی آتا ہوگا؟ سیزن شروع ہوچکا تھا اور یہ اس کے ہاں ہر بدھ کی شام کو ہونے والی پارٹیوں کے متعلق سوچنے کا وقت تھا اور دیموف؟پیارا دیموف! بیچارا کتنی خاکساری، کیسی بچگانہ اداسی کے ساتھ اپنے خطوں میں اس سے گھر لوٹ آنے کی التجا کرتا تھا۔ وہ ہر ماہ چھ سو روبل بھیجتا تھا اور جب وہ لکھتی تھی کہ اس نے مصوروں سے سو روبل قرض لے لئے ہیں تو مزید سو روبل بھیج دیتا تھا۔ کیسا نیک اور دریا دل آدمی تھا! سفر اولگا ایوانوونا کو ہلکان کر چکا تھا، اس کا جی اوب رہا تھا، وہ ان کسانوں اور دریا سے اٹھتی ہوئی نمی کی بُو سے دور بھاگ کھڑے ہونے اور جسمانی گندگی کے اس احساس سے دامن چھڑانے کے لئے بُری طرح تڑپ رہی تھی جو آج ایک توکل دوسرے گاﺅں میں، کسانوں کے کچے گھروں میں قیام کے دوران مسلسل اس پر مسلط رہتا تھا۔ ریابوفسکی نے مصوروں سے بیس ستمبر تک ٹھہرے رہنے کا پکا وعدہ نہ کرلیا ہوتا تو وہ دونوں آج ہی یہاں سے چل کھڑے ہوتے اور کتنا اچھا ہوتا یہ! “”اوہ خدا“ ریابوفسکی نے کراہتے ہوئے کہا۔ ”آخر آفتاب کب نمودار ہوگا؟ ذرا بھی دھوپ نہیں، ایسے میں دھوپ میں نہائے ہوئے منظر کی عکاسی تو نہیں کرسکتا۔“
”ایک ادھوری تصویر ابر آلود آسمان کی بھی تو ہے“ اولگا ایوانوونا نے اوٹ کے پیچھے سے باہر آتے ہوئے کہا۔ ”یاد نہیں کیا؟ ارے وہی جس کے پیش منظر میں دائیں جانب جنگل ہے اور بائیں جانب گائیں اور راج ہنس۔ اسے اب مکمل کرسکتے ہو۔“
”ہونہہ!“ مصور نے بُرا مان کے منہ بنایا۔ ”مکمل کر لوں! کیا واقعی آپ مجھے ایسا گدھا تصور کرتی ہیں جسے بتایا جائے کہ کیا کرنا چاہئے؟“
”میرے متعلق تمہارا رویہ کتنا بدل گیا!“ اولگا ایوانوونا نے ٹھنڈی سانس بھری۔
”اور بہت اچھا بھی ہوا!“
اولگا ایوانوونا کا چہرہ پھڑک اٹھا۔ وہ جا کے آتش دان کے سامنے کھڑی ہوگئی اور سسکیاں بھرنے لگی۔
”اور اب آنسو! جیسے انہی کی تو کسر رہ گئی تھی! بند بھی کیجئے یہ سلسلہ! میرے رونے کے لئے تو ہزار اسباب ہیں پھر بھی میں نہیں روتا۔“
”ہزار اسباب!“ اولگا ایوانوونا نے سسکی بھری۔ ”خاص سبب صرف یہ ہے کہ مجھ سے آپ کا جی بھر گیا۔ جی ہاں، جی بھر گیا!“ اور وہ رونے لگی۔ ”سچ پوچھئے تو ہماری محبت سے آپ کو شرم محسوس ہوتی ہے۔ آپ ڈرتے ہیں کہ کہیںمصوروں کو بھنک نہ لگ جائے حالانکہ اس معاملے کو چھپایا نہیں جاسکتا اور ان لوگوں کو تو جانے کب ہی سے اس کا علم ہے۔“
”سنیئے اولگا، آپ سے میری صرف ایک گزارش ہے“ مصور نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر منت سماجت کے لہجے میں کہا۔ ”صرف ایک گزارش.... مجھے تنہا چھوڑ دیجئے! اس کے سوا میں آپ سے اور کچھ بھی نہیں چاہتا!“
”لیکن قسم کھائیے کہ آپ اب بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں!“
”کیسی شدید اذیت ہے یہ!“مصور نے بھنچے ہوئے دانتوں سے پھنکار ماری اور اچھل کے کھڑا ہوگیا۔ ”اس کا انجام یہ ہوگا کہ میں والگا میں ڈوب مروں گا یا پاگل ہوجاﺅں گا!مجھے تنہا چھوڑ دیجئے!“
”تو مجھے مار ڈالیئے، مار ڈالیئے!“ اولگا ایوانوونا چیخ اٹھی۔ ”مار ڈالئے نا!“
”وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور دوبارہ اوٹ کے پیچھے چلی گئی۔ بارش پیال کے چھپرپر سرسرا رہی تھی۔ ریابوفسکی کچھ دیر تک سر کو دونوں ہاتھوں سے بھینچے کمرے میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا رہا پھر چہرے کے کچھ ایسے تاثر کے ساتھ جیسے بحث میںکسی کو قائل کر دیا ہو، ٹوپی پہن کر بندوق شانے سے لٹکائی اور باہرنکل گیا۔“
اس کے چلے جانے کے بعد اولگا ایوانوونا دیر تک اپنے پلنگ پرلیٹی آنسو بہاتی رہی۔ پہلے اس نے سوچا کیسی شاندار بات ہوگی اگر وہ زہر کھا لے اور ریابوفسکی اپنی واپسی پر اسے مردہ پائے لیکن جلد ہی اس کے خیالات اپنے ڈرائنگ روم اور شوہر کے مطالعے کے کمرے کی طرف منتقل ہوگئے اور اس نے دیکھا کہ وہ دیموف کے پہلو میں چپ چاپ بیٹھی سکون اور صفائی کے پُرجوش احساس سے لطف اندوز ہو رہی ہے اور پھر تھیٹر میں بیٹھی مازینی کا گانا سن رہی ہے۔ اس تصور کے ساتھ ہی مہذب دنیا سے، شہر کے شورو غل سے، مشہور و ممتاز لوگوں سے قربت کی شدید آرزو نے اس کے دل کو ماہی بے آب کر دیا۔ اتنے میں ایک دیہاتی عورت گھر میں آئی اور دوپہر کا کھانا پکانے کے لئے اطمینان کے ساتھ آتش دان کو دہکانے لگی۔ سلگتی ہوئی لکڑیوںکی بُو چاروں طرف پھیلی اور دھوئیں سے فضا نیلگوں ہوگئی۔ مصور جن کے لانگ بوٹ کیچڑ سے لت پت تھے اور چہرے بارش سے بھیگے ہوئے، اندر داخل ہوئے۔ انہوں نے ایک دوسرے کی تصاویر پر نظریں دوڑائیں اور اس خیال سے خود کو تسلی دینے لگے کہ والگا خراب موسم میں بھی ایک مخصوص حسن رکھتا ہے۔ دیوار پر آویزاں سستی گھڑی کا پنڈولم ٹک ٹک، ٹک ٹک کئے جا رہا تھا.... سردی سے ٹھٹھری ہوئی مکھیاں مقدس تصویروں کے پاس والے گوشے میں اکٹھا ہوکے دھیرے دھیرے بھنبھنا رہی تھیں اور بنچوں کے نیچے تل چٹے ابھری ہوئی قطاروں میں رینگتے پھر رہے تھے....
ریابوفسکی غروب آفتاب کے وقت واپس لوٹا۔ اس نے ٹوپی میز پر اچھال دی، کیچڑ میں سنے ہوئے لانگ بوٹ اتارے بغیر تھکن سے چور چور جسم کو بنچ پر ڈھیر کر دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔
”میں تھک گیا....“ اس نے کہا اور پپوٹوں کو اٹھانے کی کوشش میں اس کی بھنویں پھڑک اٹھیں۔
اولگا ایوانوونا نے اس کی نظر عنایت حاصل کرنے اور یہ دکھانے کی فکر میں کہ وہ ناراض نہیں ہے، اس کے پاس جا کے خاموشی سے اس کا بوسہ لیا اور اس کے بھورے بھورے بالوںمیں کنگھی پھیری۔ بالوں میںکنگھی کرنے کی یہ خواہش اس کے دل میں بالکل اچانک ہی پیدا ہوئی تھی۔
”یہ کیا ہے“ ریابوفسکی نے یوں چونک کر جیسے کسی چپچپی چیز نے اسے چھو لیا ہو، آنکھیں کھولتے ہوئے کہا۔ ”یہ کیا ہے؟ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے، بڑی عنایت ہوگی!“
وہ اولگا ایوانوونا کو الگ دھکیل کے اس سے کچھ دور ہٹ گیا اور اولگا ایوانوونا کو اس کے چہرے پر نفرت اور جھلاہٹ کی جھلک نظر آئی۔ ٹھیک اسی وقت عورت کرم کلے کے سوپ کی پلیٹ کو احتیاط کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوئے ریابوفسکی کے پاس آئی اور اولگا ایوانوونا نے دیکھا کہ عورت کے دونوں موٹے موٹے انگوٹھے سوپ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ تب اسے وہ گندی عورت جس کا سایا پیٹ کے اوپر کسا ہوا تھا، کرم کلے کا وہ سوپ جس پر ریابوفسکی ندیدے پن سے ٹوٹ پڑا تھا، وہ کچا گھر اور وہ زندگی بڑی گھناﺅنی اور ڈراﺅنی معلوم ہوئی جو اپنی سادگی اور فنکارانہ بے نظمی کی بناءپر پہلے بڑی خوشگوار معلوم ہوتی تھی۔ اسے اچانک اپنی توہین کئے جانے کا احساس ہوا اور سرد مہری سے بولی:
”ہمیں کچھ دنوں کے لئے جدا ہونا پڑے گا ورنہ یہ کمبخت اکتاہٹ تو تو میں میں کی نوبت لے آئے گی۔ میں اس سب سے بیزار ہوچکی ہوں۔ مجھے یہاں سے آج ہی چل دینا چاہئے۔“
”کیسے؟ ہوا کے دوش پر؟“
”واقعی؟ ارے ہاں.... بہت خوب، تو پھر چلی جائیے....“ ریابوفسکی نے نیپکن نہ ہونے کی بنا پر تولیے سے ہونٹ پونچھتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔ ”آپ کے لئے یہ جگہ بے رونق ہے اور میں اتنا خود غرض نہیں ہوں کہ آپ کو روکنے کی کوشش کروں۔ چلی جائیے، بیس ستمبر کے بعد پھر ملاقات ہوگی۔“
”اولگا ایوانوونا نے سامان باندھنا شروع کیا۔ اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوچکا تھا اور اطمینان کی وجہ سے رخسار تمتمانے لگے تھے۔ “ ”کیا واقعی ایسا ہوگا“ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا، ”کہ میں جلد ہی اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھی ہوں گی، تصویریں بناﺅں گی، خواب گاہ میں سوﺅں اور میز پوش والی میز پر کھانا کھاﺅں گی؟“ اسے لگا جیسے کچلتا ہوا بھاری بوجھ کافور ہوگیا اور اب اسے مصور پر ذرا بھی غصہ نہیں آ رہا تھا۔
”ارے ریابوشکا، میں اپنے رنگ اور برش تمہارے لئے چھوڑے جا رہی ہوں۔“ اس نے پکار کے کہا۔ ”کوئی چیز تمہارے استعمال سے بچ رہے تو ساتھ لیتے آنا.... اور ہاں، کان کھول کے سن لو، میری عدم موجودگی میں کاہلی اور قنوطیت کے دوروں میں نہ مبتلا ہونا بلکہ کام کرنا! تم بڑے بھولے بھالے ہو، ریابوشکا!“
نو بجے ریابوفسکی نے اس کا الوداعی بوسہ لیا تاکہ جیساکہ اولگا ایوانوونا کو یقین تھا، عرشے پر مصوروں کی موجودگی میں بوسہ نہ لینا پڑے اور رخصت کرنے کے لئے اسٹیمروں پر چڑھنے اترنے کے چبوترے تک گیا۔ اسٹیمر ذرا دیر بعد ہی نمودار ہوا اور اسے لے کے روانہ ہوگیا۔
ڈھائی دنوں کے بعد وہ اپنے گھر میں تھی۔ ہیٹ اور برساتی اتارے بغیر ہی اضطرابی کیفیت سے تقریباً ہانپتی ہوئی وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی اور وہاں سے کھانے کے کمرے میں۔ دیموف کوٹ اتارے، واسکٹ کے بٹن کھولے میز کے پاس بیٹھا کانٹے کے دندانوں پر رگڑ رگڑ کر چاقو کو تیز کر رہا تھا اور اس کے سامنے پلیٹ میں بھنا ہوا ایک بھٹ تیتر رکھا تھا۔ اولگا ایوانوونا اس یقین کے ساتھ اپنے فلیٹ میں داخل ہوئی تھی کہ وہ شوہر کو اس سارے قصے کی ہوا بھی نہ لگنے دے گی اور یہ کہ ایسا کرنے کی صلاحیت اور قوت بھی رکھتی ہے لیکن جب اس نے دیکھا کہ دیموف کا چہرہ مسکراہٹ سے کھل اٹھا اور اس کی آنکھیں مسرت سے چمکنے لگیں تو اس نے سوچا کہ ایسے آدمی کو فریب دینا اس کے لئے اتنی ہی ذلیل، قابلِ نفرت اور ناممکن بات ہوگی جتنی کہ بہتان تراشی، چوری یا قتل کرنا۔ اور اس نے اسی لمحے فیصلہ کر لیا کہ جو کچھ ہوا ہے اسے من و عن بیان کر دے گی۔ چنانچہ دیموف اسے گلے لگا کے بوسہ لے چکا تو وہ اس کے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھ گئی اور چہرے کو ہاتھوںسے ڈھک لیا۔
”ارے یہ کیا کر رہی ہو؟ کیا ہوا، اولگا؟“ اس نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا۔
”میری یاد بہت ستا رہی تھی کیا؟“
اس نے احساسِ ندامت سے سرخ پڑ جانے والے چہرے کو اٹھا کے دیموف کو خطا کار، ملتجی نگاہوں سے دیکھا مگر خوف و حیا نے حقیقت کو ہونٹوں تک آنے نہ دیا۔
”کوئی بات نہیں....“ اس نے کہا۔ ”میں بس یوں ہی....“
”آﺅ بیٹھیںنا“ دیموف نے بیوی کو اٹھاتے اور میز کے پاس بٹھاتے ہوئے کہا۔
”ہاں اب ٹھیک ہے.... لو تیتر کھاﺅ۔ بھوکی ہوگی، میری جان۔“
اس نے مانوس ماحول سے لطف اندوز ہوتے ہوئے تھوڑا سا گوشت کھایا جبکہ دیموف خوشی سے ہنستا اور اس پر محبت بھری نگاہیں نثار کرتا رہا۔

(6) 

سردیاں کوئی آدھی بیت چکی تھیں تب کہیں جاکر دیموف کی نگاہوں میں بیوی کے رنگ ڈھنگ کھٹکنے لگے اب وہ بیوی سے آنکھیں چا رہی نہیں کر پاتا تھا گویا ضمیر خود اسی کا داغدار ہو۔ بیوی سے ملاقات کے وقت اب وہ پرمسرت انداز سے مسکراتا بھی نہیں تھا اور اس خیال سے کہ اس کے ساتھ حتیٰ الامکان کم سے کم وقت تنہائی میں گزارنا پڑے، اپنے دوست کو روسیلیف کو ڈنر کے لئے گھر لے آتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے بالوں والا یہ ناٹا آدمی جس کے چہرے پر شکنیں پڑی ہوئی تھیں، اولگا ایوانوونا کے مخاطب ہوتے ہی انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں کوٹ کے بٹنوں کو بند کرنے اور کھولنے اور پھر اپنی مونچھوں کے بائیں حصے کو دائیں ہاتھ سے نوچنے لگتا تھا۔ ڈنر کے دوران دونوں ڈاکٹر خیال ظاہر کرتے کہ دایا فرام بہت اونچا ہو جاتا ہے تو بعض اوقات اختلاج قلب کی شکایت ہو جاتی ہے یا یہ کہ اِدھر کچھ دنوں سے عصبی امراض میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے یا یہ کہ دیموف کو ایک ایسے مریض کی لاش کا جس کی موت کا سبب مہلک کم خونی بتائی گئی تھی، گزشتہ شام کو پوسٹ مارٹم کے دوران پتہ چلا کہ وہ تو دراصل معدے کے سرطان کا مریض تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ دونوں یہ طبی تبادلہ خیال محض اس لئے جاری رکھے ہوئے ہیںکہ اولگا ایوانوونا کو بات نہ کرنے یعنی جھوٹ نہ بولنے کا بہانہ ہاتھ آ جائے۔ ڈنر کے بعدکوروسیلیف پیانو کے سامنے بیٹھ جاتا اور دیموف ٹھنڈی سانس بھر کے کہتا:
”بھئی کچھ سناﺅ نا! آخر انتظار کاہے کا ہے؟ذرا ہمیں کوئی اچھا سا پر درد گیت سناﺅ نا۔“
کورو سیلیف پیانوں کو ابھار کے انگلیاں آگے پھیلاتا، پیانوں سے سر بلند ہوتے اور وہ اونچی مردانی آواز میں گانے لگتا: ”دکھاﺅ وطن میں کوئی ایسی جگہ جہاں روسی کسان درد سے کراہ نہ رہا ہو!“ اور دیموف ایک بار پھر ٹھنڈی سانس بھر کے اپنے مکے پر سر ٹکاتا اور خیالوںمیں غرق ہو جاتا تھا۔
 اولگا ایوانوونا نے تو اب ساری احتیاط کو جیسے بالائے طاق ہی رکھ دیا تھا۔ وہ ہر صبح کو انتہائی افسردہ دلی کے ساتھ بیدار ہوتی اور سوچتی کہ اب وہ ریابوفسکی سے ذرا بھی محبت نہیں کرتی اور خدا کا شکر ہے کہ ان دونوں کے تعلقات قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ لیکن ایک پیالی کافی پینے کے بعد وہ خود کو یاد دلاتی کہ ریابوفسکی نے اس کے شوہر کو چھین لیا اور اب اس کی زندگی میں نہ شوہر رہا نہ ریابوفسکی۔ تب اسے خیال آتا کہ اس کے احباب کہہ رہے تھے کہ ریابوفسکی کسی نمائش کے لئے کوئی شاندار تصویر مکمل کر رہا ہے جو قدرتی مناظر کی اورمعاشرتی مسائل کے مصوری کے امتزاج کا نمونہ اور فنی اعتبار سے پولینوف کے طرز کی ہے اور جو بھی اس کے اسٹوڈیو جاتا ہے، اس تصویر سے مسحور سا ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ سے کہتی کہ ریابوفسکی نے یہ تصویر توخود میرے زیرِ اثر تخلیق کی ہے، مجھ سے متاثر ہونے کی بدولت ہی اس کا فن بام عروج پر پہنچا ہے۔ اس کے فن پر میری شخصیت کی چھاپ اتنی سودمند اور گہری ہے کہ اگر آج میں اس سے قطع تعلق کر لوں تو کل وہ کہیں کا نہ رہے۔ وہ یہ بھی یاد کرتی کہ گزشتہ بار ریابوفسکی جب اس کے ہاں آیا تھا تو نقرئی دھاگوں والا بھورا کوٹ پہنے اور نئی ٹائی باندھے ہوئے تھا اور اس نے بڑی دلربائی کے ساتھ پوچھا تھا:
”میں جچ رہا ہوں نا؟“ لمبے لمبے گھنگھریالے بال، نیلی نیلی آنکھیں اور پھر وہ شاندار کوٹ، واقعی وہ بہت جچ رہا تھا (یا کم از کم لگا ایسا ہی تھا) اور اس کی بات بات سے محبت ٹپکتی تھی۔
یہ سب اور کچھ اور بھی یاد کرنے اور خود اپنے نتائج اخذ کرنے کے بعد اولگا ایوانوونا بن سنور کر اپنے جذبات میں طوفان اٹھائے ہوئے ریابوفسکی کے اسٹوڈیو چلی جاتی تھی۔ اسے وہ عموماً بہت ہی ہشاش بشاش اور اپنی تصویر کے عشق میںمبتلا پاتی تھی جو واقعی بہت اچھی تھی۔ جب اس کی طبیعت دل لگی بازی کی طرف مائل ہوتی تھی تو وہ احمقانہ حرکتیں کرتا اور سنجیدہ سوالوںکو ہنس کے ٹال دیا کرتا تھا۔ اولگا ایوانوونا اس تصویر سے جلتی اور نفرت کرتی تھی لیکن ہر بار اس کے سامنے مہذب خاموشی کے ساتھ دو چار منٹ کھڑی رہتی اور پھر جس طرح لوگ کسی درگاہ میں ٹھنڈی سانس بھرتے ہیں ویسے ہی سانس بھر کے کہتی:
”ہاں، ایسی تصویر تم نے اور کبھی بھی نہیں بنائی تھی۔ مجھ پر تو یہ لرزہ سا طاری کر دیتی ہے۔“
پھر وہ ریابوفسکی سے منت سماجت کرنے لگتی تھی : ”مجھ سے محبت کرو نا، مجھے ٹھکراﺅ نہیں، مجھ نصیبوں جلی دکھیا پر ترس کھاﺅ نا۔ وہ رو رو کے اس کے ہاتھوں کو چومتی، کہتی کہ تمہارے سر سے میرے اثر کا سایہ اٹھ جائے گا تو تم راستے سے بھٹک کے کھوجاﺅ گے اور اس طرح اس کے منہ سے یہ اگلوانے کی کوشش کرتی تھی کہ وہ محبت کرتا رہے گا۔ پھر وہ ریابوفسکی کو بُری طرح پریشان اور خود کو بُری طرح ذلیل کرکے اپنی درزن کے ہاں یا تھیٹر کا ٹکٹ حاصل کرنے کے چکر میںاپنی کسی ایکٹرس سہیلی کے ہاں چلی جاتی تھی۔“
ریابوفسکی کبھی اپنے اسٹوڈیو میں نہیں ہوتا تھا تو وہ اس کے لئے پرچہ چھوڑ آتی تھی جس میں دھمکی دیتی تھی کہ آج ہی مجھ سے نہ ملنے آئے تو زہر کھالوں گی۔ ریابوفسکی ھول کھا کے اس کے ہاں پہنچتا اور ڈنرکے لئے ٹھہر جاتا۔ شوہر کی موجودگی کا پاس لحاظ کئے بغیر وہ اولگا ایوانوونا پر نہایت ہی توہین آمیز فقرے چست کرتا اور وہ ترکی بہ ترکی جوابات دیتی۔ ان دونوں کو لگتا کہ ایک دوسرے کی راہ میں حائل ہیں، ظالم اور دشمن ہیں اور اس احساس سے وہ آپے سے باہر ہو جاتے، اس جھلاہٹ میں انہیں ذرا بھی خیال نہ آتا کہ ان کا طرزِ عمل کتنا غیر مہذب ہوگیا ہے اور یہ کہ چھوٹے چھوٹے بالوں والے کو روسیلیف تک پر سب کچھ واضح ہوتا جا رہا ہے۔ ڈنر کے بعد ریابوفسکی ان لوگوں سے جلدی جلدی رخصت ہوتا۔
”اب آپ کہاں جا رہے ہیں؟“ اولگا ایوانوونا ڈرائنگ روم میں اس کی طرف نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھتی۔
وہ تیوری پر بل ڈالتے اور آنکھوں کو ذرا بھینچتے ہوئے کسی ایسی خاتون کا نام لے لیتا جس سے دونوں واقف ہوتے تھے اور صاف ظاہر ہوتا کہ اولگا ایوانوونا کے رشک کا مذاق اڑا رہا ہے اور اسے دق کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی خواب گاہ میںجا کے لیٹ جاتی اور رشک، غصے، توہین اور شرم کے مارے تکیے کو دانتوں سے کاٹنے اور زور زور سے رونے لگتی تھی۔ تب دیموف ڈرائنگ روم میں کو روسیلیف کو چھوڑ کر شرمایا گھبرایا ہوا خواب گاہ میں آتا اور دھیرے سے کہتا:
”روﺅ نہیں، اولگا!.... اس سے حاصل ہی کیا ہوگا؟ تمہیں تو اس معاملے میں خاموش ہی رہنا چاہئے.... خیال رکھو کہ بات پھیلنے نہ پائے.... جو کچھ ہوچکا ہے اسے ہونے سے روکا تو جا نہیں سکتا۔“
وہ رشک کے جذبے پر جس کی شدت سے کنپٹیاں پھڑکنے لگتی تھیں، قابو پانے میں ناکام رہتی، خود سے کہتی کہ ابھی اتنی دیر نہیں ہوئی کہ معاملے کو سلجھایا ہی نہ جاسکے، آنسوﺅں سے بھیگے ہوئے چہرے کو دھوتی، پاﺅڈر لگاتی اور جلدی جلدی اس خاتون کے یہاں پہنچتی جس کا ریابوفسکی نے نام لیا تھا۔ وہاں وہ نہ ملتا تو بگھی میں دوسری خاتون کے ہاں جاتی پھر کسی تیسری کے ہاں.... پہلے اسے دوسروں کے گھروں کا یوں چکر لگانے میں خفت محسوس ہوتی تھی لیکن جلد ہی اس کی عادی ہوگئی اور کبھی کبھی تو ایک ہی شام کو ریابوفسکی کی تلاش میں جان پہچان والی ساری کی ساری عورتوں کے ہاں ہو آتی.... اور وہ سمجھ جاتیں کہ قصہ کیا ہے۔
ایک بار اس نے ریابوفسکی سے اپنے شوہر کے متعلق کہا:
”اس شخص کی عالی ظرفی میرے لئے وبال جان ہے۔“
ان کی زندگی گزشتہ سال ہی کے ڈھرے پر چلتی رہی۔ ہر بدھ کی شام کو اسی طرح پارٹیاں ہوتی تھیں۔ اسی طرح اداکار خوش خوانی کرتا، مصور خاکے بناتے، وائلن چیلو نواز اپنا ساز چھیڑتا، مغنی گاتا اور اسی طرح ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے کھانے کے کمرے میں جانے کا دروازہ کھلتا اور دیموف مسکراتا ہوا کہتا تھا:
”آپ لوگ کھانے پر تشریف لائیے۔“
اور اولگا ایوانوونا پہلے ہی کی طرح اب بھی بڑے آدمیوں کی متلاشی رہتی، انہیں پا جاتی، ان سے مطمئن نہ ہوتی اور دوسرے بڑے آدمیوں کی تلاش میں مصروف ہو جاتی تھی۔ پہلے ہی کی طرح وہ اب بھی ہر روز رات گئے گھر لوٹتی تھی اور گزشتہ سال ہی کی طرح دیموف اب بھی اس کی واپسی کے وقت محوِ خواب نہیں ہوتا تھا بلکہ اپنے مطالعے کے کمرے میں بیٹھا کام کرتا ملتا تھا۔ وہ تین بجے سونے لیٹتا اور صبح کو آٹھ بجے بیدار ہو جاتا تھا۔
ایک شام کو وہ تھیٹر جانے سے قبل آئینے کے سامنے اپنے بناﺅ سنگار کا آخری جائزہ لے رہی تھی تو فراک کوٹ اور سفید ٹائی میں ملبوس دیموف خواب گاہ میں داخل ہوا۔ اس نے نرمی سے مسکراتے ہوئے بیوی کی آنکھوں سے اگلے وقتوں کی طرح آنکھیں چار کیں۔ اس کے چہرے پرمسرت رقصاں تھی۔
”میں اپنا تحقیقی مقالہ پیش کرکے آ رہا ہوں۔“ اس نے بیٹھ کر پتلون کو گھٹنوں پر برابر کرتے ہوئے کہا۔
”کامیاب رہا؟“
”بس نہ پوچھو!“اس نے ہنستے ہوئے بیوی کے چہرے کے عکس کو آئینے میں دیکھنے کےلئے گردن آگے نکالی کیونکہ وہ اب بھی اس کی طرف پیٹھ کئے ہوئے کھڑی اپنے بالوں کے سنگار کو آخری روپ دے رہی تھی۔ ”بس نہ پوچھو!“ اس نے ایک بار پھر کہا۔ ”اور جانتی ہو، قوی امکان ہے کہ مجھے مرضیات کا ڈوزنٹ مقررکر دیا جائے۔ لگتا تو بالکل ایسا ہی ہے۔“
دیموف کا پرمسرت، دمکتا ہوا چہرہ کہہ رہا تھا کہ اولگا ایوانوونا اگرا س کی اس خوشی اور شاندار کامیابی پر خاطر خواہ ردعمل ظاہر کرے تو وہ اس کی حال ہی کی نہیں بلکہ مستقبل کی کوتاہیوں کو بھی معاف کرنے کو، سب کچھ بھول جانے کو تیار ہے لیکن اس کی بیوی نہ مرضیات کو سمجھ سکی نہ ڈوزنٹ کو اور ویسے بھی اسے ڈر تھا کہ تھیٹر جانے میں تاخیر نہ ہو جائے اس لئے وہ خاموش ہی رہی۔
دیموف چند لمحوں تک بیٹھا رہا اور پھر معذرتی انداز میں مسکراتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔

(7) 

کتنا پریشان کن دن تھا یہ!
دیموف کے سر میں شدید درد تھا۔ اس نے نہ ناشتہ کیا نہ اسپتال گیا، دن بھر اپنے مطالعے کے کمرے میں صوفے پر لیٹا رہا.... اولگا ایوانوونا اپنے معمول کے مطابق دوپہر کے فوراً ہی بعد ریابوفسکی کے اسٹوڈیو گئی جسے اس کو ایک Nature Morte کے سلسلے میں اپنا بنایا ہوا خاکہ دکھانا اور پوچھنا تھا کہ وہ گزشتہ روز اس کے ہاں کیوں نہیں آیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ خاکہ بس یوں ہی سا ہے جسے اس نے مصور کے یہاں جانے کے محض بہانے کے طور پر بنایا تھا۔
وہ گھنٹی بجائے بغیر ہی اندر داخل ہوگئی اور اگلے حصے میں جب جوتوں کے اوپر پہننے کے ربڑ کے جوتے اتار رہی تھی تو اسے اسٹوڈیو میں قدموں کی دبی دبی آہٹیں اور کسی عورت کے لباس کی سرسراہٹ سنائی دی۔ اس نے جلدی سے اندر جھانکا تو اسے ایک بھورا سایا اپنی ہلکی سی جھلک دکھا کر دوسرے ہی لمحے ایک بڑے سے کینوس کے پیچھے غائب ہوگیا جس پر پڑی سیاہ سوتی چادر ایزل کو ڈھکتی ہوئی فرش تک لٹک رہی تھی یقینا کوئی عورت وہاں جا کے چھپ گئی تھی۔ یہی تو وہ جگہ تھی جس نے جانے کتنی ہی بار خود اولگا ایوانوونا کو اوروں کی نگاہوں سے چھپا لیا تھا! ریابوفسکی نے جس کی بوکھلاہٹ اس کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی، اپنے دونوں ہاتھ اس کی طرف یوں پھیلا دیئے جیسے اسے دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی ہو اور بہ دقت مسکراتے ہوئے کہا:
”آ.... اخاہ! آپ کی آمد سے بڑی خوشی ہوئی! کہیے کیاخبریں ہیں؟“
 اولگا ایوانوونا کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ اس پر گھڑوں پانی پڑ گیا اور وہ اس دوسری عورت کی، اس اپنی ”سوت“ اور جھوٹی عورت کی موجودگی میں جو اس وقت کینوس کے پیچھے کھڑی ہوئی یقینا چپکے چپکے ہنس رہی تھی، باتیںکرنے کو راضی نہیں ہوسکتی تھی چاہے اسے دنیا کی دولت ہی کیوںنہ دے دی جاتی۔
”میں آپ کو محض اپنا یہ خاکہ دکھانے کے لئے آئی ہوں....“ اس نے کانپتے ہوئے ہونٹوں سے اونچی شرمیلی آوازمیں کہا۔ ”یہ ایک نیچرمورٹ ہے۔“
”آ.... اخاہ.... خاکہ؟“
مصور نے خاکے کو ہاتھ میںلیا، اس پر نظریں جما دیں اور جیسے بالکل غیر شعوری طور پر ٹہلتا ہوا دوسرے کمرے میں چلا گیا۔
اولگا ایوانوونا بڑی فرماں برداری کے ساتھ اس کے پیچھے ہولی۔
”نیچر مورٹ، بے مثال....“ وہ بڑبڑایا اور قافیے تلاش کرتے ہوئے میکانکی انداز میں اضافہ کیا: ”محال، خیال، سوال، وبال....“
اسٹوڈیو سے تیز تیز قدموں کی آہٹیں اور نسوانی سایوں کی جیسی سرسراہٹیں سنائی دیں۔ اس کا مطلب یہ تھاکہ دوسری عورت چلی گئی۔ اولگا ایوانوونا کا جی چاہاکہ وہ چیخ اٹھے، کوئی بھاری چیز اٹھا کے ریابوفسکی کے سر پر وار کرے اور بھاگ کھڑی ہو لیکن آنسوﺅں نے اسے نابینا اور شرم نے بالکل نڈھال کر دیا اور اسے ایسا لگا جیسے وہ مصور اولگا ایوانوونا نہیں بلکہ کوئی حقیر بونی ہو۔
”میں تھک گیا ہوں....“ مصور نے خاکے کو دیکھتے اور اپنی تھکن کو سر کے جھٹکے سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مضمحل سے لہجے میں کہا۔ ”بےشک یہ اچھا خاصا ہے لیکن ایک یہ خاکہ آج ہے، ایک گزشتہ سال تھا اور مہینے بھر بعد پھر تیار ہو جائے گا.... ان سے آپ کو بیزاری نہیں محسوس ہوتی؟ آپ کی جگہ میں ہوتا تو مصوری کو لات مار کے موسیقی یا اور کسی چیز کو سنجیدگی سے اپنا لیتا۔ دراصل آپ مصور نہیں ہیں، آپ تو موسیقار ہیں۔ خیر، کاش آپ کو معلوم ہوتا کہ میں کتنا تھک چکا ہوں! میں چائے لانے کے لئے کہتا ہوں.... ٹھیک ہے نا؟“
وہ کمرے سے باہر نکل گیا اور اولگا ایوانوونا نے سنا کہ وہ اپنے نوکر سے کچھ کہہ رہا ہے۔ وہ رخصت ہونے، تو تو میں میں کی نوبت آنے اور خاص طور سے خود اپنے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑنے سے بچنے کے لئے کمرے سے دوڑتی ہوئی گھر کے اگلے حصے میں پہنچی اور قبل اس کے کہ ریابوفسکی واپس لوٹے، جوتوں پر ربڑ کے جوتے چڑھا کر باہر نکل آئی۔
سڑک پرپہنچتے ہی اس نے یہ محسوس کرتے ہوئے زیادہ آزادی کے ساتھ سانس لی کہ وہ ریابوفسکی سے، مصوری سے اور اس ناقابلِ برداشت تذلیل سے جو اس کو اسٹوڈیو میں جھیلنی پڑی تھی، نجات پا چکی ہے، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ سارا قصہ ختم ہوچکا تھا!
وہ اپنی درزن کے ہاں گئی پھر برنائی کے ہاں جو گزشتہ روز ہی واپس لوٹا تھا اور برنائی کے ہاں سے سازوںکی ایک دوکان میں۔ اس دوران وہ مسلسل ریابوفسکی کے نام اپنے خط کے بار ے میں سوچتی رہی جس میں اس نے مہذب لیکن انتہائی سخت اور بے رحمانہ انداز میں کھری کھری سنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ دیموف کے ساتھ کریمیا جانے کا خیال بھی اس کے ذہن میں منڈلاتا رہا جہاں وہ ماضی سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا پانے اور نئی زندگی شروع کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔
رات کو وہ کافی دیر سے گھر لوٹی لیکن لباس تبدیل کرنے کے لئے اپنے کمرے میں جانے کے بجائے خط لکھنے کے لئے سیدھے ڈرائنگ روم میں چلی گئی۔ اس نے سوچا کہ ریابوفسکی نے کہا ہے کہ وہ مصور نہیں ہے تو اب وہ اسے منہ توڑ جواب دیتے ہوئے لکھے گی کہ وہ خود ایک ہی تصویر کو ہر سال بناتا ہے، چند گھسی پٹی باتیں ہیں جن کی ہر روز رٹ لگائے رہتا ہے، وہ جمود کا شکار ہو چکا ہے اور اب اس کی کسی مزید کامیابی کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ وہ یہ اضافہ کرنے کابھی ارادہ کر رہی تھی کہ یہ خود اس کی خاصیت کا شاندار اثر تھا جس نے ریابوفسکی کو ریابوفسکی بنایا اور اس شاندار اثر کوطرح طرح کی بازاری عورتوں نے جیسی کہ ایک آج کینوس کے پیچھے چھپ گئی تھی، زائل کر دیا ہے۔
”اولگا!“ دیموف نے اپنے مطالعے کے کمرے سے دروازہ کھولے بغیر پکارا۔ 
”اولگا!“
”کیا ہے!“
”میرے قریب نہ آنا، اولگا، بس دروازے کے پاس آ جاﺅ۔ یہ ٹھیک ہے.... تیسرا دن ہے کہ مجھے اسپتال میں ڈفتھیریا لگ گیا اور.... میری طبیعت بہت خراب ہو رہی ہے۔ کوروسیلیف کو بلوا لو۔“
اولگا ایوانوونا اپنے تمام مرد دوستوں کی طرح شوہر کو بھی اس کے خاندانی نام سے مخاطب کیا کرتی تھی۔ اس کے شوہر کا نام اوسیپ تھا جسے وہ پسند نہیں کرتی تھی کیونکہ یہ نام اسے گوگول کے کردار اوسیب اور دو ناموں اوسیپ اور آرخیپ سے متعلق ایک احمقانہ ضلع جگت کی یاد دلاتا تھا۔ لیکن اس وقت وہ پکار اٹھی:
”نہیں اوسیپ، یہ سچ نہیں ہوسکتا!“
”تم انہیں بلوا لو! میری حالت ٹھیک نہیں....“ دیموف نے کمرے کے اندر سے کہا اور اولگا ایوانوونا کو اس کے صوفے تک جانے اور اس پر لیٹنے کی آوازیں سنائی دیں۔ ”انہیں بلوا لو!“ دیموف کی آواز کھوکھلی سی لگی۔
”کیا واقعی یہ ممکن ہے؟“ اولگا ایوانوونا نے جس پر ہول طاری ہوگیا تھا، سوچا۔ ”ارے یہ تو خطرناک ہے!“
وہ بغیر یہ جانے ہوئے کہ ایسا کیوں کر رہی ہے،موم بتی جلا کے اپنی خواب گاہ میںلے گئی اور سوچنے لگی کہ اسے کیا کرنا چاہئے۔ اتنے میں اس کی نظر آئینے میں اپنے عکس پر پڑی۔ پیلا پیلا سہما سہما سا چہرہ، اونچی پھولی پھولی سی آستینوں اور اگلے حصے پر چنٹ دارکپڑے کی جھالر والی صدری اور آڑی ترچھی دھاریوں والا سایا۔ اس نے خود کو ایسے بھیانک اور خوفناک چہرے والے فرد کے روپ میں دیکھا جس سے گھن آتی ہو۔ اس نے اپنے سینے میں دیموف کے لئے، اس شدید محبت کے لئے جو دیموف اس سے کرتا تھا، دیموف کی جوان زندگی اور حتیٰ کہ اس کے خالی پلنگ تک کے لئے جس پر وہ جانے کب سے نہیں سویا تھا، بے پناہ ہمدردی اور افسوس کے جذبات اُمنڈتے محسوس کئے۔ اسے عجز و انکسارکی آئینہ دار وہ مسکراہٹ نظر آئی جو ہمیشہ دیموف کے ہونٹوں پر چھائی رہتی تھی اوروہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ پھر اس نے کوروسیلیف کو بلانے کے لئے منت سماجت بھرا پرچہ لکھا۔ اب رات کے دو بج چکے تھے۔
صبح کو سات بجے کے فوراً ہی بعد وہ بے خوابی کے باعث بوجھل بوجھل سے سر، الجھے الجھے بالوں اور چہرے پر احساسِ خطا کی چھاپ کے ساتھ خاصی بدصورت نظر آتی ہوئی اپنی خواب گاہ سے نکلی تو فلیٹ کے اگلے حصے میں سیاہ داڑھی والا شخص جو یقینا کوئی ڈاکٹر تھا، اس کے قریب سے گزرا۔ چاروں طرف دواﺅں کی بُوپھیلی ہوئی تھی۔ کوروسیلیف مطالعے کے کمرے کے دروازے کے قریب کھڑا مونچھوں کے بائیں کنارے کو دائیں ہاتھ سے نوچ رہا تھا۔
”معاف کیجئے گا، میں آپ کو ان کے پاس نہ جانے دوں گا“اس نے اولگا ایوانوونا سے رکھائی کے ساتھ کہا۔ ”مرض لگ جانے کا اندیشہ ہے۔ ویسے بھی آپ کا ان کے پاس جانا بے سود ہوگا۔ وہ اپنے ہوش میں نہیںہیں۔“
”تو کیا یہ واقعی ڈفتھیریا ہی ہے؟“ اولگا ایوانوونا نے چپکے سے پوچھا۔
”میرا بس چلے تو ان سبھوں کو قید خانے میں پہنچا دوں جو بلاضرورت خطرہ مول لیتے ہیں۔“ کوروسیلیف اس کے سوال کا جواب نہ دیتے ہوئے بڑبڑایا۔ ”آپ کو معلوم بھی ہے کہ انہیں یہ روگ کیسے لگا؟ انہوں نے منگل کو ڈفتھیریا میں مبتلا ایک چھوٹے لڑکے کے حلق سے مواد چوس لیا تھا اور بھلا کا ہے کے لئے؟ سراسر حماقت، محض بے عقلی!“
”کیا یہ بہت خطرناک ہے؟“ اولگا ایوانوونا نے پوچھا۔
”ہاں، یہ لوگ کہتے ہیںکہ حالت بہت خراب ہے۔ اب ہمیں شرک کو بلوانا چاہئے۔“
سرخ بالوں، لمبی سی ناک اور یہودی لہجے کا ایک پستہ قد آدمی اندر آیا، اس کے بعد الجھے ہوئے بالوں والا ایک طویل اور خمیدہ قامت شخص جو کوئی آرچ ڈیکن معلوم ہوتا تھا اور پھر سرخ چہرے اور گٹھے ہوئے جسم کا ایک نسبتاً جوان آدمی جو عینک لگائے ہوئے تھا۔ یہ تینوں ڈاکٹر تھے جو اپنے رفیق کے پلنگ کے پاس باری باری بیٹھنے کے لئے آئے تھے۔ کوروسیلیف جو اپنی باری ختم ہونے کے بعد گھر نہیں گیا تھا، کمروں میں بھوت کی طرح منڈلا رہا تھا۔ خادمہ ڈاکٹروں کے لئے چائے بناتی تھی اور جلدی جلدی دوا فروش کے ہاں جاتی رہتی تھی اس لئے کمروں کی صفائی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ فضامیں بے کیف سناٹا چھایا ہوا تھا۔
اولگا ایوانوونا اپنی خواب گاہ میںبیٹھ کر سوچنے لگی کہ خدا اسے شوہر سے بے وفائی کرنے کی سزا دے رہا ہے۔ وہ کم سخن، کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لانے والا، ہر بات کو آسانی سے مان لینے والا، معمے جیسا ناقابلِ فہم وہ شخص جس کی انفرادیت کی بنیادیں اس کی خوش طبعی نے کھوکھلی کر دی تھیں، جسے اس کی حد سے بڑھی ہوئی نیکی نے کمزور کر دیا تھا، اس وقت صوفے پر لیٹا ہوا ساری اذیت کو خاموشی سے جھیل رہا تھا۔ اگر اس نے شکوہ کیا ہوتا، ہذیان کی حالت میں بڑبڑایا ہی ہوتا تو اس کی حالت پر نظر رکھنے والے یہ ڈاکٹر فوراً ہی تاڑ لیتے کہ قصور صرف ڈفھتیریا ہی کا نہیںہے۔ ان لوگوںنے کوروسیلیف سے پوچھا ہوتا جس سے کچھ ڈھکا چھپا نہیں تھا اور جو اپنے دوست کی بیوی کو بلاسبب ہی ایسی نظروں سے نہیں دیکھ رہا تھا جو پکار پکار کے کہہ رہی تھیں کہ سب کچھ بیوی ہی کا کیا دھرا ہے۔ ڈفتھیریا کی حیثیت تو محض شریک جرم کی سی ہے۔ وہ والگا کے کنارے کی چاندنی رات کو، محبت کرنے کی یقین دہانیوں کو اور کانوںکے کچے گھر میں گزاری ہوئی رومانی زندگی کو بھول گئی۔ اب تو اسے صرف یہ یاد تھا کہ اس نے کسی گندی اور چپ چپی چیز میں غوطہ لگا دیا تھا اور لاکھ دھونے پربھی کبھی خود کو پاک صاف نہ کرسکے گی.... اور یہ سب کچھ محض من موجی پن میں،محض حقیر تفریح کے لئے!
”میں بھی کیسی دروغ گو نکلی!“ اس نے اپنی اور ریابوفسکی کی بے سکون محبت کو یاد کرتے ہوئے خود سے کہا۔ ”لعنت ہو اس سب پر!....“
چار بجے وہ کوروسیلیف کے ساتھ ڈنر کے لئے بیٹھی۔ ڈاکٹر نے کھانے کو ہاتھ تک نہ لگایا، صرف ہلکی سرخ شراب پیتا اور ناک بھوں چڑھاتا رہا۔وہ بھی کچھ کھا نہ سکی۔ بیٹھی ہوئی خاموشی سے دُعامانگتی اور خدا سے وعدہ کرتی رہی کہ دیموف اگر اچھا ہوگیا تو دوبارہ اس سے محبت کرے گی اور وفادار بیوی ثابت ہوگی۔ بیچ بیچ میں وہ اپنے سر پر منڈلاتی ہوئی مصیبت کو پل بھرکے لئے فراموش کرکے کروسیلیف کو دیکھتی اور حیرت میں پڑ جاتی: ”ایسا معمولی، ایسا غیر معروف شخص، شکوں دار چہرے والا ایسا کندہ ناتراش یقینا وبال جان ہوتا ہوگا!“ دوسرے ہی لمحے اسے پھر ایسا لگتا جیسے خدا اس پر ابھی ابھی اپنے قہر کی بجلی گرا دے گا کیونکہ وہ چھوت لگ جانے کے اندیشے سے ایک بار بھی اپنے شوہر کے مطالعے کے کمرے میں نہیں گئی ہے۔ اس پر جو ذہنی کیفیت حاوی تھی وہ پریشانی اور بدیختی کے احساس اور اس یقین کی آئینہ دار تھی کہ وہ تباہ ہوچکی ہے، اس طرح بگڑ چکی ہے کہ دوبارہ بننے کا سوال ہی نہیں اٹھتا....
ڈنر کے کچھ ہی دیر بعد شام کا اندھیرا پھیلنے لگا، اولگا ایوانوونا ڈرائنگ روم میں گئی تو اس نے کوروسیلیف کو صوفے پر سوتے پایا۔ اس کا سر سنہرے دھاگوں سے کڑھے ہوئے ریشمی کشن پر رکھا ہوا تھا اور وہ خراٹے لے رہا تھا: ”خر۔ر۔ر، خر۔ر۔ر۔“
مریض کے پلنگ کے پاس آتے جاتے ہوئے ڈاکٹروں کو اس ساری بدنظمی کا ذرا بھی احساس نہ تھا۔ ڈرائنگ روم میں خراٹے لیتا ہوا عجیب و غریب آدمی، دیواروں پر آویزاں تصاویر، بے ترتیب فرنیچر، بغیرکنگھی کئے ہوئے بالوں اور ملگجے سے لباس میں اِدھر اُدھر پھرتی ہوئی گھر کی مالکن.... یہ ساری چیزیں اب خفیف سی دلچسپی بھی نہیں بیدار کر پا رہی تھیں۔ ایک ڈاکٹر کسی بات پر ہنس پڑا تو یہ ہنسی عجب سہمی سہمی سی معلوم ہوئی اور ہر شخص بے چین ہو اٹھا۔
اگلی بار اولگا ایوانوونا ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو کوروسیلیف بیدار ہوچکا تھا اور صوفے پر بیٹھا ہوا سگریٹ پی رہا تھا۔
”ڈفتھیریا ناک کے سوراخوں میں بس گیا ہے۔“ اس نے دبی زبان سے کہا۔ ”ان کے دل پر اثر ہو چلا ہے۔ حالت خراب نظر آ رہی ہے، بہت خراب۔“
”آپ شرک کو کیوں نہیں بلوا لیتے؟“ اولگا ایوانوونا نے پوچھا۔
”وہ آئے تو تھے۔ انہوں نے ہی تو دیکھا کہ ڈفتھیریا سے ناک بھی متاثر ہوچکی ہے۔اور ویسے شرک ہیںبھی کیا؟ ان میں سرخاب کے پَر تھوڑی لگے ہیں۔ وہ شرک ہیں، میںکوروسیلیف ہوں اور بس۔“
وقت انتہائی اذیت زدہ سست رفتاری سے گزر رہا تھا۔ اولگا ایوانوونا سارے کپڑے پہنے پہنے ہی اپنے پلنگ پر جس کا بستر صبح ہی سے درست نہیں کیا گیا تھا، لیٹی ہوئی اونگھ رہی تھی۔ لگتاتھا کہ سارے فلیٹ میں فرش سے چھت تک لوہے کا کوئی بہت بڑا ٹکڑا ٹھنسا ہوا ہے اور اس نے سوچا کہ اگر کسی نہ کسی طرح اس زبردست ٹکڑے کو ہٹا دیا جائے تو سب کے دل شاد ہو جائیں۔ وہ چونک کے بیدار ہوئی اور اس کی سمجھ میں آگیا کہ یہ لوہے کا زبردست ٹکڑا نہیں بلکہ دیموف کی علالت ہے۔
”نیچر مورٹ بے مثال“ اس نے دوبارہ اونگھتے ہوئے سوچا، ”خیال، سوال، محال.... اور شرک بھی ہیں کیا؟ شرک، کسک.... پھڑک.... بھڑک۔ اور میرے سارے احباب کہاں ہیں؟ ہماری پریشانیوں کی انہیں خبر بھی ہے؟ اوہ پروردگار، ہمیں محفوظ رکھ، ہم پر رحم کر.... شرک.... کسک....“
اور ایک بار پھر لوہے کا وہی زبردست ٹکڑا.... وقت کسی طرح کاٹے ہی نہیں کٹ رہا تھا حالانکہ نچلی منزل کی دیواری گھڑی ہر گھنٹے کی آمد کا پابندی سے اعلان کرتی معلوم ہو رہی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد دروازے کی گھنٹی بجتی رہی تھی: دیموف کے پاس ڈاکٹر آتے رہتے تھے.... خادمہ ٹرے کو جس پر ایک خالی گلاس رکھا ہوا تھا، اٹھائے ہوئے خواب گاہ میں آئی۔
”میں آپ کا بستر درست کر دوں، مادام؟“ اس نے پوچھا۔
جواب نہ ملا تو وہ چپ چاپ لوٹ گئی۔ نچلی منزل کی دیواری گھڑی نے وقت کا اعلان کیا، اولگا ایوانوونا نے خواب میں دیکھا کہ والگا کے کنارے بارش ہو رہی ہے اور ایک بار پھر کوئی شخص، کوئی اجنبی اس کی خواب گاہ میں داخل ہوا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے کو روسیلیف کو پہچان لیا اور اٹھ کے پلنگ پر بیٹھ گئی۔
”کیا بجا ہے؟“ اس نے پوچھا۔
”تین بجنے کو ہیں۔“
”ان کا کیا حال ہے؟ میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ وہ نزع کے عالم میں ہیں۔“
اس نے بہ دقت سسکی روکی اور آنسوﺅں کے کف سے پونچھتا ہوا پلنگ پر اولگا ایوانوونا کے پاس بیٹھ گیا۔ فوری طور پر جیسے وہ کچھ سمجھ ہی نہ سکی پھر اچانک مفلوج سی ہوگئی اور دھیرے دھیرے سینے پر صلیب کا نشان بنایا۔
”نزع کے عالم میں....“ کوروسیلیف نے بلند آواز سے دھرایا اور دوبارہ سسکی بھری۔ ”نزع کے عالم میں ہیں کیونکہ انہوں نے خود کو قربان کر دیا.... سائنس کا کتنا نقصان ہوا!“ اس نے تلخی سے زور دیتے ہوئے کہا۔ ”ہم سب کے مقابلے میں وہ ایک عظیم، ایک قابلِ ذکر انسان تھے! کیسی صلاحیتوں کے مالک تھے! اس نے ہاتھ ملتے ہوئے بات جاری رکھی۔ “
”اوہ میرے خدا، وہ کتنے شاندار سائنس داں بن سکتے تھے، کیسے بے مثال سائنس داں! اوسیپ دیموف، دیموف، آخر تم نے یہ کیا کیا؟ اوہ میرے خدا!“
کوروسیلیف نے مایوسی سے اپنا چہرہ ہاتھوں سے ڈھک لیا اور سر کو جنبش دی۔
”اور کیسی زبردست اخلاقی قوت کے حامل تھے وہ!“ اس نے اپنی بات کسی شخص پر زیادہ سے زیادہ برہم ہوتے ہوئے جاری رکھی۔ ”نیک، خالص، محبت سے معمور روح.... بلور کی طرح شفاف! انہوں نے سائنس کی خدمت کی اور سائنس کے فروغ کے لئے اپنی جان تک قربان کر دی۔ وہ دن رات جان توڑ محنت کرتے تھے، کوئی ان کا خیال نہیں کرتا اور ان کو، قابل و فاضل جوان اور مستقبل کے پروفیسر کو نجی پریکٹس پر وقت ضائع کرنا پڑتا تھا، راتوں کو جاگ جاگ کے ترجمہ کرنا پڑتا تھا تاکہ ان.... واہیات چیتھڑوں کی قیمت ادا کرسکیں!“
کوروسیلیف نے اولگا ایوانوونا کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور بستر کی چادر دونوں ہاتھوںسے پکڑ کے غصے سے پھاڑ ڈالی گویا سارا قصور چادر ہی کا ہو۔
”انہوں نے نہ خود اپنا خیال رکھا نہ کسی دوسرے نے۔ لیکن اب ان باتوںمیں رکھا ہی کیا ہے!“
”جی ہاں، وہ بڑے شاندار انسان تھے!“ ڈرائنگ روم سے آتی ہوئی گہری آواز سنائی دی۔
اولگا ایوانوونا نے دیموف کے ساتھ گزاری ہوئی اپنی زندگی کو آغاز سے انجام تک بڑی تفصیل کے ساتھ یاد کیا اور دفعتاً وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ وہ واقعی بہت شاندار، نہایت ہی غیر معمولی اور ان تمام افراد کے مقابلے میں جن سے وہ واقف تھی، بہت ہی عظیم انسان تھا۔ پھر اسے یاد آیا کہ اس کا باپ اپنی زندگی میں دیموف کی کتنی عزت کرتا تھا۔ خود دیموف کے ساتھی اس سے کیسی محبت سے پیش آتے تھے اور وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ ان سب لوگوںنے دیموف کی شخصیت میں مستقبل کے مشہور ومعروف شخص کی جھلک دیکھ لی تھی۔ دیواریں، لیمپ اور فرش پر بجھا ہوا قالین ساری چیزیں مذاق اڑانے والے انداز میں اسے آنکھ مارنے لگیں جیسے کہہ رہی ہوں: ”تم نے موقع کھو دیا!“ وہ روتی ہوئی بڑی تیزی سے اپنی خواب گاہ سے نکلی، ڈرائنگ روم میں کسی اجنبی سے ٹکراتے ٹکراتے بچی اور اپنے شوہر کے مطالعے کے کمرے میں پہنچ گئی۔ وہ صوفے پر بے حس و حرکت لیٹا ہوا تھا اور اس کا جسم کمر تک کمبل سے ڈھکا ہوا تھا۔ چہرہ بُری طرح سکڑ اور سوکھ سا گیا تھا اور اس پر ایسی خاکستری مائل پیلاہٹ چھا گئی تھی جو زندوں کے چہروں پر کبھی نظر نہیں آتی۔ صرف پیشانی، سیاہ بھوﺅں اور جانی پہچانی مسکراہٹ سے ہی اندازہ ہوتا تھا کہ یہ دیموف ہے۔ اولگا ایوانوونا نے جلدی جلدی اس کے سینے، پیشانی اور ہاتھوں کو چھوا۔ سینہ تو اب بھی گرم تھا لیکن پیشانی اور ہاتھ برف ہوچکے تھے۔ اور اس کی نیم وا آنکھیں اولگا ایوانوونا کو نہیں بلکہ کمبل کو تک رہی تھیں۔
”دیموف!“ اس نے زور سے پکارا.... ”دیموف!“
وہ اس سے یہ کہنے کو بے تاب تھی کہ جو کچھ ہوا وہ سب غلط تھا، پانی ابھی سر سے اونچا نہیں ہوا، زندگی میں اب بھی بہار آسکتی ہے اور یہ کہ دیموف ایک غیر معمولی، ممتاز اور عظیم انسان ہے، وہ عمر بھر اس کی پرستش کرے گی، اس کے سامنے سر جھکائے گئی، اس سے ایک طرح کا مقصد اس خوف محسوس کرنے گی....
”دیموف!“ اولگا ایوانوونا نے اس کا شانہ ہلاتے ہوئے پکارا۔ اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ دیموف اب کبھی بھی بیدار نہ ہوگا۔ ”دیموف، دیموف، میں پکار رہی ہوں!“
اور ڈرائنگ روم میں کوروسیلیف خادمہ سے کہہ رہا تھا:
”اس میں مشورہ کرنے والی کون سی بات ہے؟ گرجے میں جا کر پوچھ لیجئے کہ خیرات لینے والی عورتیںکہاں رہتی ہیں۔ وہ آکے میت کو غسل دیں گی اور سب کچھ ٹھیک کر دیں گی، جو کچھ ضروری ہے سب کر دیں گی۔“
—————

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6