ایک بکری کا انوکھا بدلہ

اس نے کہا میں تو نہیں پہچانتی انہوں نے فرمایا کہ میں تیرا وہی مہمان ہوں ‘دودھ اور بکری والا۔ بڑھیا نے پھر بھی نہ پہچانا‘اور کہا کہ کیا اللہ کی قسم تم وہی ہو؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں وہی ہوں۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ اس کیلئے ایک ہزار بکریاں خریدی جائیں۔
ابوالحسن مدائنی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ حج کیلئے تشریف لے جارہے تھے راستے میں سامان کے اونٹ جدا ہوگئے اور یہ بھوکے پیاسے چلنے لگے۔ ایک خیمہ پر گزر ہوا اس میں ایک بوڑھی عورت بیٹھی تھی۔ انہوں نے بڑھیا سے پوچھا کہ ہمارے کھانے پینے کو کوئی چیز تمہارے پاس ہے؟ اس نے کہا ہاںہے ‘یہ لوگ اپنی سواریوں سے اترے۔ اس بڑھیاکے پاس معمولی سی بکری تھی اس کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگی کہ اس کا دودھ نکال لو اور تھوڑا تھوڑا پی لو۔ انہوں نے اس کا دودھ نکالا اور پی لیا۔ پھر ان حضرات نے پوچھا کہ کچھ کھانے کو ہے؟ اس بڑھیا نے کہا یہی بکری ہے تم میں سے کوئی ذبح کردے تو میں پکادوں۔ انہوں نے اس بکری کو ذبح کیا اور بڑھیا نے پکایا۔ یہ حضرات کھاپی کر جب شام کو چلنے لگے تو انہوں نے بڑھیا سے کہا کہ ہم ہاشمی لوگ ہیں۔ ابھی حج کے ارادے سے جارہے ہیں اگر ہم زندہ سلامت واپس مدینہ پہنچ گئے تو تو ہمارے پاس آنا تیرے اس احسان کا بدلہ دینگے۔ یہ حضرات تو فرما کر چلے گئے۔ شام کو جب اس کا خاوند (جنگل وغیرہ) سے واپس آیاتو بڑھیا نے ان ہاشمی لوگوں کا واقعہ سنایا اس کا خاوند بہت خفا ہوا کہ تو نے اجنبی لوگوں کے واسطے بکری کر ڈالی۔ معلوم نہیں کون تھے کون نہیں تھے پھر کہتی ہے کہ ہاشمی تھے‘‘ غرض خاوند خفا ہوکر چپ ہوگیا۔
کچھ زمانہ کے بعد ان میاں بیوی کو غربت نے جب تنگ کیا تو دونوں میاں بیوی محنت مزدوری کی نیت سے مدینہ منورہ گئے۔ دن بھر مینگنیاں چگا کرتے اور ان کو بیچ کر گزارہ کرتے۔ ایک دن وہ بڑھیا مینگنیاں چگ رہی تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے دروازے کے آگے تشریف رکھتے تھے جب یہ وہاں سے گزری تو اس کو دیکھ کر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے پہچان لیا اور اپنے غلام کو بھیج کر اس کو اپنے پاس بلوایا اور فرمایا کہ ’’اری اللہ کی بندی تو مجھے پہچانتی ہے؟ اس نے کہا میں تو نہیں پہچانتی۔
انہوں نے فرمایا کہ میں تیرا وہی مہمان ہوں ‘دودھ اور بکری والا۔ بڑھیا نے پھر بھی نہ پہچانا۔ اور کہا کہ کیا اللہ کی قسم تم وہی ہو؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں وہی ہوں۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ اس کیلئے ایک ہزار بکریاں خریدی جائیں۔ چنانچہ فوراً خریدی گئیں اس کے علاوہ ایک ہزاردینار نقد بھی عطا فرمائے اور اپنے غلام کے ساتھ اس بڑھیا کو اپنے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا کہ بھائی نے کیا دیا؟ اس نے کہا ایک ہزار بکریاں اور ایک ہزار دینا یہ سن کر اتنی ہی مقدار حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بڑھیا کو مرحمت فرمائی۔ اس کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بڑھیا کو عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ انہوں نے تحقیق کی کہ ان دونوں حضرات نے کیا مرحمت فرمایا؟ معلوم ہونے پر انہوں نے 2 ہزار بکریاں اور 2 ہزار دینار اس کو عطا فرمائے اور فرمایا اگر تو تھوڑی دیر پہلے آتی تو اس سے بہت زیادہ دیتا۔
یہ بڑھیا 4 ہزار بکریاں اور 4 ہزار دینار لے کر خاوند کے پاس پہنچی کہ یہ اس ضعیف اور کمزور بکری کا بدلہ ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6