کسان کی ہوشیاری

گاوں میں رحمت کا ایک چھوٹا سا‘ پیارا سا گھر تھا۔ وہ کسان تھا۔ اس کا ایک باغ تھا۔ باغ کے آخری کونے میں ایک بہت گہرا کنواں تھا۔ بے چارہ کسان پانی کھینچتا اور پھر اس سے باغ کے پودوں کو سیراب کرتا تھا۔
ایک سال بالکل بارش نہیں ہوئی۔ سورج بہت گرم تھا۔ کسان نے اپنے باغ کی طرف دیکھا اور کہا: ’’اگر پانی نہ ملا تو میرے پودے مرجائیں گے۔
مجھے ان کو پانی ضرور دینا چاہیے‘ لیکن پانی تو اب بہت گہرائی میں اتر گیا ہے۔ میں بہت بوڑھا ہوگیا ہوں اور موٹا بھی۔ بہت محنت کا کام ہے‘ مجھے کیا کرنا چاہیے۔‘‘
یہ سوچتا ہوا وہ سڑک کے کنارے بنی ہوئی چار دیواری تک آگیا۔ وہ تھک کر ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہی تھا کہ اس کے کان میں کھسر پھسر کی آواز آئی۔کوئی اس کا نام لے رہا تھا۔
کسان کے کان کھڑے ہوگئے اور وہ غور سے ان کی باتیں سننے لگا۔ وہ دونوں باغ کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ انہوں نے کسان کو نہیں دیکھا تھا۔
ایک آدمی نے کہا :’’رحمت اور اس کی بیوی ٹھیک نو بجے سونے کیلئے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں کم از کم دو گھنٹے اور انتظار کرنا چاہیے‘ پھر گیارہ بجے ہم دیوار میں ایک بڑا سا سوراخ بنالینگے۔ اس سوراخ سے گزر کر میرا چھوٹا بیٹا اندر جائیگا اور دروازہ کھول دیگا۔‘‘
اس کے ساتھی نے پوچھا:’’کیا رحمت کے پاس بہت ساری دولت ہے؟‘‘دوسرے آدمی نے جواب دیا اس کے پاس بہت سارا سونا اور ہیرے جواہرات ہیں۔ پہلے نے خوش ہوکر کہا یہ تو بہت اچھی بات ہے۔
رحمت گھر چلا گیا۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا : ’’آج رات ہم ٹھیک نو بجے کھانا کھائیںگے۔‘‘ اس نے اپنا سارا روپیہ‘ سونا اور ہیرے جواہرات اکٹھے کیے اور انہیں اپنے پلنگ کے نیچے چھپا دیا۔ پھر وہ کچھ پتھر گھر میں لایا اور بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ رحمت نے چوروں کی آہٹ سن لی تو وہ زور زور سے اپنی بیوی سے باتیں کرنے لگا ’’میں نے سنا ہے آج کل بہت چوریاں ہورہی ہیں۔ اس علاقے میں بھی کچھ چور آگئے ہیں۔ اس نے میرے دوست علی کا سارا سونا اور جواہرات چرالیے ہیں۔‘‘ ہمیں اپنا سونا اور ہیرے جواہرات کسی ایسی جگہ چھپادینے چاہئیں جہاں سے کوئی انہیں نکال نہ سکے۔ ذرا میرا صندوق تو لانا‘‘اس نے اتنی صفائی سے صندوق میں پتھر رکھے کہ چور دیکھ ہی نہیں سکے۔ اس نے اپنی بیوی کی مدد سے صندوق کو اٹھایا اور گھر سے باہرکنویں میں پھینک دیا۔ پھر وہ گھر کے اندر چلے گئے اور انتظار کرنے لگے۔
پہلا چور بولا: انہوں نے اپنا سونا اور ہیرے کنویں میں چھپا دئیے ہیں۔ وہ بہت جلد سوجائیں گے۔ رحمت نے چپکے سے کھڑکی سے باہر جھانکا تو دیکھا کہ چور کنویں کے پاس کھڑے تھے۔پہلا چوربولا: ہمیں کنویں کا پانی نکالنا چاہیے ویسے بھی قحط کا موسم ہے زیادہ پانی نہیں ہوگا‘ جب پانی کم ہوگا میں کنویں کے اندر اترونگا اور صندو ق نکال لونگا۔انہوں نے کنویں سے پانی نکالنا شروع کردیا۔ ایک چور پانی کھینچتا اور دوسرا اسے باغ میں جانے والی نالی میں ڈال دیتا۔ وہ پوری رات پانی نکالتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ مگر وہ ابھی تک مصروف تھے۔
کسان نے کھڑکی کھولی اور چلایا: بہت بہت شکریہ! میرے دوستو! تم نے میرے باغ کو سیراب کردیا۔ صندوق پتھروں سے بھرا ہوا ہے۔ پولیس کے سپاہی آرہے ہیں‘ اللہ حافظ میرے دوستو! تمہارا ایک بار پھر شکریہ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6