شکست خوردہ
خیر دین گرمیوں کی چلملاتی دھوپ میں پاﺅں سے ننگا اور جسم پر میل سے اَٹے پڑے اور چھیتڑے بنے کپڑے پہنے دنیا و مافیا سے بے نیاز ہوکر صرف اپنے نشے کی خاطر رقم حاصل کرنے کے لیے شہر کے معروف چوک میں ٹریفک سگنل کی سرخ بتی کے روشن ہونے کی وجہ سے ہر رکنے والی گاڑی کے پاس جا کر صدا لگاتا۔
”اللہ واسطے میری مدد کروں، میں دو دن سے بھوکا ہوں، مجھے صرف ایک روٹی کے لیے پیسے دے دو۔“
اکثر لوگ تو اس کی صدا کو نظرانداز کرکے آگے نکل جاتے لیکن چند ایک ایسے لوگ بھی تھے جو اس کو کچھ نہ کچھ رقم دے دیتے تھے۔
خیر دین صبح سے ہی یہ پختہ عزم و ارادہ کرکے چوک میں پہنچا تھا کہ میں اس وقت تک یہاں سے نہ ہٹوں گا جب تک میرے پاس اتنی رقم اکٹھی نہیں ہو جاتی جس سے میں اپنا سابقہ ادھار چکا کر نئی ”خوراک“ حاصل کرنے کے قابل نہ ہو جاﺅں۔ وہ بھیک مانگ کر روٹی تو حاصل کرسکتا تھا لیکن ”خوراک“ اسے رقم کی ادائیگی کے بغیر ملنی ناممکن تھی۔ کیونکہ بیوپاری نے اسے ”خوراک“ دینے کے لیے یہ شرط لگا رکھی تھی کہ پہلے پرانا ادھار چکاﺅ پھر نقد رقم ادا کر کے نئی ”خوراک“ لے جاﺅ اسی لیے وہ صبح سے بھیک مانگ مانگ کر رقم اکٹھی کر رہا تھا۔ آج اسے احساس ہو رہا تھا کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا دنیا کا حقیر ترین کام ہے۔ کیونکہ اس نے زندگی میں پہلی بار بھیک کے لیے کسی کے آگے ہاتھ بڑھایا تھا اس لیے اسے اپنی حالت پر غصہ آ رہا تھا لیکن اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ نشہ اس کی رگ رگ میں سرایت کر چکا تھا اور اب نشہ ہی اس کی زندگی بن چکا تھا، وہ چاہتے ہوئے بھی اس سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرسکتا تھا کیونکہ نشہ چھوڑنے کے لیے علاج کی ضرورت تھی اور علاج کے لیے اس کے پاس رقم نہیں تھی۔ اس لیے وہ مزید نشے میں دھت رہنے پر مجبور تھا تاکہ زندگی کا ساتھ برقرار رہے۔ وہ اپنے کام میں اس قدر مگن تھا کہ اسے گرمی کی شدت کا احساس تک نہ ہو رہا تھا کہ آناً فاناً ایک قیمتی گاڑی ٹریفک سگنل پر آ کر رکی تو چوک سے گزرنے والے لوگ اس گاڑی کی طرف لپکے۔ جس کی وجہ سے چوک میں غیر متوقع طور ہجوم ہوگیا۔ ہجوم کی وجہ سے خیر دین کی ساری توجہ اس گاڑی کی طرف مبذول ہوگئی وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ اس گاڑی کی ڈرائیونگ فلک شیر کر رہا ہے وہ فلک شیر سے بے انتہا نفرت کرتا تھا کیونکہ یہی وہ شخص تھا جس نے دھوکے سے اس کو نشے کی لت میں زبردستی گرفتار کیا تھا اور جب وہ مکمل طور پر نشئی بن گیا تو اسے دھکے دے کر اپنے گھر سے باہر نکال دیا۔ وہ اسے قہر آلود نظروں سے دیکھ رہا تھا جبکہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر موجود خوبرو عورت گاڑی کا شیشہ ہٹائے بغیر اندر سے ہی اپنی گاڑی کے گرد جمع ہونے والے لوگوں کو ہاتھ کے اشارے سے بائے بائے کر رہی تھی کہ اتنے میں سگنل آن ہوگیا اور وہ گاڑی فرلاٹے بھرتی ہوئی آگے بڑھ گئی جس کی وجہ سے خیر دین اس کو پہچان نہ سکا لہٰذا اُس نے ایک نوجوان سے پوچھا:
”بیٹا یہ عورت کون تھی؟“
نوجوان نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھ کر کہا : ”بابا یہ ملک کی مشہور و معروف فلمی اداکارہ لالی ہے، حال ہی میں اپنے چہرے کی پلاسٹک سرجری کروا کر واپس لوٹی ہے۔ کسی کمبخت نے اس کے چہرے پر تیزاب انڈیل دیا تھا۔“
یہ جواب سن کر وہ اس قدر افسردہ اور پریشان ہوا کہ اس کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو بہنے لگے۔ اس وقت وہ اپنے جسم میں اتنی زیادہ کمزوری محسوس کر رہا تھا کہ اس سے اپنا ہاتھ آنسو پونجھنے کے لیے بھی نہیں اٹھایا جا رہا تھا۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور اپنی میل سے بھری گندی آستین سے اپنے چہرے پر بہنے والے آنسو پونجھے تو اس کی آنکھوں تلے اندھیرا چھانے لگا اور وہ مجبوراً وہیں گرین بیلٹ میں ایستادہ درخت کے سائے تلے بیٹھ کر کچھ دیر کے لیے سستانے لگا پھر اچانک اس کے ذہن میں اپنے مرحوم باپ کی آخری وصیت در آئی جو اس نے مرتے وقت اس سے کہی تھی:
”بیٹا میں تمہارے واسطے بہت سا بنک بیلنس اور جائیدادچھوڑے جا رہا ہوں، تم اس سرمائے کو کامیابی کی پہلی سیڑھی سمجھ کر خوب محنت سے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام حاصل کرنا۔ میرے مرنے کے بعد تم غلط سوسائٹی اختیار نہ کر لینا کیونکہ پیسہ اور طوائف کبھی کسی کا نہیں بنتا۔ پیسہ اس وقت تک اپنا ہوتا ہے جب تک یہ اپنی جیب میں ہوتا ہے اسی طرح طوائف اس وقت تک اپنی ہوتی ہے جب تک انسان کی جیب میں پیسہ ہوتا ہے جب جیب رقم کے بوجھ سے ہلکی ہو جاتی ہے تو طوائف ذلیل و خوار کرکے اپنے کوٹھے سے نکال باہر کرتی ہے۔ سو بیٹا تم کبھی بھی طوائف کے چکر میں نہ پڑنا اور میرے چھوڑے ہوئے سرمائے کو خوب سوچ سمجھ کر استعمال کرنا اگر سمجھو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہوگا۔“
خیر دین کے والد کا مذہب سے بہت زیادہ لگاﺅ تھا حالانکہ اس نے کوئی باقاعدہ مذہبی اور دنیاوی تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن پھر بھی مذہب سے لگاﺅ اور عقیدت کی وجہ سے وہ علماءحضرات کی تقاریر بڑے ذوق و شوق سے سنتا تھا جس کی بدولت اسے بہت سے اسلامی واقعات اور احادیث ازبر ہوچکی تھیں۔ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو قرآن مجید حفظ کروانا چاہتا تھا کیونکہ اس نے مولوی صاحب سے یہ سن رکھا تھا کہ روز قیامت حافظ قرآن کے باپ کے گناہ اس کے حافظ بیٹے کی بدولت بخش دیئے جائیں گے۔ وہ خود تو اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے عبادت کرتا نہیں تھا بس اپنے بیٹے کو حافظ قرآن بنا کر اپنی عاقبت سنوارنا چاہتا تھا، اس لیے جب اس کا بیٹا بولنے کے قابل ہوا تو وہ اس کو مدرسے پڑھنے کے لیے چھوڑ آیا۔ حالانکہ یہ عمر بچے کے کھیلنے کودنے کی تھی لیکن وہ اپنے باپ کی خواہش کی بھینٹ چڑھ چکا تھا جس کی وجہ سے اس کا دل پڑھائی میں نہ لگتا تھا اور ہر روز سبق یاد نہ ہونے کے سبب اسے مولوی صاحب سے سخت سزا ملتی تھی۔ مولوی صاحب کی مار پیٹ کی وجہ سے وہ کئی کئی دن مدرسے پڑھنے کے لیے نہیں جاتا تھا حالانکہ وہ گھر سے تو پڑھنے کے لیے ہی نکلتا تھا لیکن مدرسے جانے کی بجائے آوارہ گردی کرتا رہتا تھا اور جب اس کے باپ کو اس کی حرکات کا علم ہوا تو اس نے اس پر تھپڑوں اور گھونسوں کی بارش کر دی جس کے سبب وہ گھر سے بھاگ گیا۔
خیر دین باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس کا باپ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا مولوی کی مار کے خوف سے ہمیشہ کے لیے گھر چھوڑ کر چلا جائے چنانچہ اس نے اپنے بیٹے کو مدرسے سے اٹھا کر اسے ایسے ہی اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا اور وہ آوارہ دوستوں کی صحبت میں رہ کر جوان ہوگیا تھا۔
جب وہ والدین کے مرنے کے بعد تمام جائداد کا اکیلا وارث بن گیا تو اس کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوگیا کیونکہ اب وہ اس جائداد کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرسکتا تھا۔ صاحبِ اختیار اور شاہ خرچ ہونے کی بنا پر اس کے میل ملاپ اور اثرو رسوخ میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور آہستہ آہستہ اعلیٰ حکام سے بھی اس کے تعلقات پروان چڑھنے لگیں تو اس نے اپنے قدم سمگلنگ میں بھی جمانے شروع کر دیں تھے۔ سمگلنگ سے اس نے خوب کمایا اور دوسرے الفاظ میں اس نے غریبوں کے خون پسینے کی کمائی کو دونوں ہاتھوں سے دل کھول کر لوٹا۔ وہ اس لوٹ مار میں اپنے اُن سرکاری دوستوں کو برابر حصہ دیتا تھا جو اس کے جرائم پر پردہ پوشی کرتے تھے لیکن خود پس پردہ رہتے تھے۔
خیر دین چِٹا اَن پڑھ تھا لیکن مقدر اس کے اتنے تھے کہ دولت اس کے گھر کی لونڈی بن چکی تھی۔ شاہ خرچ ہونے کی وجہ سے اس کے گرد خوشامدی دوستوں کا ہجوم ہر وقت رہتا تھا اُن کی خوشامدیں سُن سُن کر وہ خودسر سا ہوگیا تھا۔ انہی دوستوں کو خوش کرنے کی خاطر پہلے پہل تو اس نے ”بوتل“ کی طرف صرف ہاتھ بڑھایا تھا پھر تھوڑے ہی عرصے میں پکا شرابی بن گیا اور شراب کا نشہ دوبالا کرنے کی خاطر وہ ہر روز ہیرا منڈی کے مختلف کوٹھوں پر جایا کرتا تھا لیکن کوئی طوائف اس کے دل میں اثر نہ کر سکی آخرکار وہ ایک طوائف پر فدا ہوگیا وہ لچکیلی سی نازنین تھی، جب مسکراتی تو اس کے گالوں میں گڑھے پڑتے تھے جس کی وجہ سے اس کے گال گلاب کی پنکھڑیوں کی مانند گہرے سرخ ہوجاتیں، اس کا چہرہ بھی تو تاب ناک و گل نار تھا اور اوپر سے اس کی حسین آنکھوں میں ایسی دل نوازی تھی کہ وہ خودبخود اس کی طرف کھینچا چلا آیا اور اس پر مرمٹا تھا۔ طوائف کے حسن سے متاثر ہو کر وہ ہر شام اس کے کوٹھے پر اپنے ڈیرے جمانے لگا اور طوائف کے عشق میں دیوانہ ہو کر اس پر اپنی دولت بے دریغ نچھاور کرنے لگا جب طوائف سَج دھج کر مجرے کے لیے آتی تو وہ اس پر سراپا نظر ڈالتا تو اس کے پتلے پتلے یاقوتی ہونٹ، دلکش تیکھے نقش، چھریا بدن اور رخساروں پر گلاب کی پنکھڑیوں کا سا حسین سفید اور سرخ رنگت کا ہلکا سا امتزاج اس کو بہت حسین لگتا تھا اسی لیے تو وہ اس پر فریفتہ ہوچکا تھا۔ وہ حسن کی دیوی اپنے جسم کے مختلف زاویے بناتے ہوئے تماشبینوں کو بہلانے کے لیے گنگناتی، اٹھلاتی تو اس وقت خیردین پر گہری مسرت، سچی سرخوشی اور انبساط کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور وہ عجیب شوق بھری نظروں سے اس حسین و جمیل حسینہ کو دیکھتا رہتا تھا اور اس پر نوٹ نچھاور کرتا رہتا تھا۔
رفتہ رفتہ طوائف اِس کے دل و دماغ پر اس قدر حاوی ہوگئی کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر مستقل طور پر طوائف کے کوٹھے پر آ بیٹھا اور اس کی ماں کی آﺅ بھگت کرنے لگا کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دے لیکن طوائف کی ماں اس کی شادی اتنی جلدی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اس نے طوائف اس کو پیسہ کمانے کے لیے بنایا تھا اور وہ اتنی جلدی اس سے ہاتھ دھونا نہیں چاہتی تھی لیکن خیر دین ہر قیمت اسے اپنی بیوی بنانے کے در پر تھا اور طوائف کی ماں اس کے دلی جذبات سے آشنا تھی۔ اب وہ سمجھ چکی تھی کہ میں نے جس مقصد کے لیے اپنی بیٹی کو اس کے پیچھے لگایا ہوا تھا وہ مقصد اب پورا ہونے کا وقت آپہنچا ہے لہٰذا اس نے خیردین کے دلی جذبات کو اور زیادہ بھڑکانے کے واسطے اپنی بیٹی کو سکھا دیا کہ وہ اس کی طرف دار بن کر ایسا رویہ اپنائے کہ میں بھی اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اور اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہوں اور ساتھ ساتھ اس کے اندر اٹھنے والے طوفان کو اپنی مسرت آمیز قربتوں میں تبدیل کرکے اس کے درد دل پر اور زیادہ دستک دے کر اس کے جذبات کو مزید بھڑکائے لیکن اس کے جذبے کو تشنہ رکھے تاکہ وہ بربادی کے جال میں کھنچا چلا جائے۔ لہٰذا جب دونوں ماں بیٹی کو یہ یقین ہوگیا کہ یہ اب مکمل طور پر ہمارے جال میں پھنس چکا ہے تو طوائف کی ماں نے یہ شرط رکھ دی کہ پہلے میری بیٹی فلموں میں کام کرے گی اور جب وہ مشہور اداکارہ بن جائے گی تو میں اس کی شادی تمہارے ساتھ کر دوں گی۔ لہٰذا اسے مشہور اداکارہ بنانے کی خاطر اس نے اپنا بہت سا سرمایہ فلم انڈسٹری میں لگا دیا اور وہ اس کے لگائے ہوئے سرمائے اور پبلسٹی کی بدولت مشہور اداکارہ بن گئی۔
طوائف کا حُسن اس پر شبِ خون مار چکا تھا جس کی وجہ سے وہ اس کی محبت میں اس قدر دیوانہ ہوگیا تھا کہ اسے اپنی تباہی کا احساس تک نہ ہو رہا تھا کہ میرے وسائل تیزی سے خشک ہو رہے ہیں اور میں طوائف کو سمجھنے میں غلطی کر رہا ہوں اور نہ ہی وہ یہ حقیقت جان سکا کہ طوائف اپنے حسن کی بدولت اپنی مظلومی کو اجاگر کرکے ایک حکمت عملی کے تحت مردوں کے لیے اپنی شخصیت کو پُرکشش اور جاذب توجہ بنا لیتی ہے اور مالی فائدہ اٹھاتی رہتی ہے۔ حالانکہ طوائف کی فطرت میں مکاری اور دغا بازی پوشیدہ ہوتی ہے لیکن پھر بھی مرد اس کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے اور وہ خود بھی اس کی طرف نہ صرف کھینچا چلا جاتا تھا بلکہ وہ تو اس پر اس قدر فدا ہوچکا تھا کہ اسے اپنی تباہی کا احساس تک نہ ہو رہا تھا اور طوائف اس کی اسی کمزوری سے بھرپور فائدہ اٹھا کر اس کی مالی حالت پتلی کرتی جا رہی تھی اور جب اس کی مالی حالت خاصی پتلی ہوگئی تو اس نے چال بازی سے اس کی باقی ماندہ تمام جائداد اپنے نام لکھوا لی اور اس کے اسمگلنگ کے ٹھکانوں کا راز پولیس تک پہنچا کر اسے گرفتار کروا دیا۔
خیر دین طوائف کی بے وفائی پر دھکی اور ناراض تھا اور وہ اس سے بدلہ لینا چاہتا تھا لیکن لے نہ سکا کیونکہ اسے نہ صرف طوائف نے ڈسا تھا بلکہ اس کے ساتھ خوشامدی دوستوں نے بھی دغا کیا تھا وہ مشکل کی اس گھڑی میں تتربتر ہوگئے تھے حالانکہ جب اس کے پاس پیسہ اور اثرو رسوخ تھا تو وہ اس کے گرد منڈلاتے رہتے تھے جس کی وجہ سے اس کے گرد ہر وقت ان خوشامدی دوستوں کا تانتا بندھا رہتا تھا جب وہ کنگال ہوکر مشکل میں پھنسا تو سب انجان بن کر اِدھر اُدھر ہوگئے جس کی وجہ سے سب کچھ بدل چکا تھا اور وہ تن تنہا مقدموں میں بُری طرح پھنس چکا تھا اور اس کی وہ باقی ماندہ جائداد اور بنک ڈیپازٹ جو طوائف کی نظروں سے بچ چکے تھے وہ حکومت نے ضبط کر لیں تو وہ بالکل مفلس ہوگیا۔ اب تو وہ اپنے مقدموں کی پیروی بھی نہیں کرسکتا تھا اور نہ ہی وہ طوائف کا کچھ بگاڑ سکتا تھا جس نے اسے لوٹ کر کنگال کرکے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔
خیر دین دس سال قید بامشقت کاٹ کر جب باہر آیا تو دنیا ہی بدل چکی تھی کل کی دو ٹکے کی طوائف ملک کی ممتاز اداکارہ و ہدایت کارہ بن کر اس کی جائداد کے بل بوتے پر درہ در فلمیں بنا رہی تھی وہ جس کی جائداد کے بل بوتے پر اس مقام پر پہنچی تھی وہ دس سال قید بامشقت کاٹ کر بھی اسے ابھی غربت کی قید کاٹنی تھی۔ اس لیے وہ نہیں چاہتا تھا کہ میں اسے ایسے ہی زندہ چھوڑ دوں وہ اس سے انتقام بھی لینا چاہتا تھا اور اسے زندہ بھی دیکھنا چاہتا تھا تاکہ وہ زندگی بھر روز جئے اور روز مرے، وہ جانتا تھا کہ قتل میں انتقام کا وہ مزہ کہاں جو دشمن کو سسک سسک کر مارنے میں ہے۔ اسی لیے اس نے انتقام کی خلش کو ختم کرنے کے لیے ارادہ کیا کہ میں اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دوں گا نہ اس کا حسن ہوگا اور نہ یہ پھر کبھی کسی دوسرے شخص کی زندگی میں زہر گھول سکے گی۔ میں اس بے وفا کی وجہ سے غربت کی دلدل میں پھنس چکا ہوں لہٰذا یہ میرے انتقام کی وجہ سے خود دنیا سے اپنا چہرہ چھپاتی پھرے گی۔
خیر دین نے اپنا کام اتنی مہارت سے سرانجام دیا کہ کسی کو کانوں کان خبر تک ہونے نہ دی۔ وہ اپنی کامیابی پر سرشار تھا۔ اُس کی کامیابی کا اعتراف خود ملک کے تمام اخبارات شہ سرخیاں لگا کر کر رہے تھے:
”ملک کی ممتاز اداکارہ لالی پر آﺅٹ ڈور شوٹنگ کے دوران کسی نامعلوم شخص نے تیزاب پھینک دیا اور خود موقع سے فرار ہوگیا۔“ اخبارات میں چھپی ایسی خبریں جب وہ لوگوں سے سنتا تو خوشی سے سرشار ہو جاتا تھا۔ ایک دن اچانک اس کا سامنا اپنے پُرانے دوست فلک شیر کے ساتھ ہوگیا وہ فلک شیر کی فطرت سے آگاہ تھا کہ یہ صرف دولت کا پجاری ہے اور دولت کی خاطر سگے رشتوں کے تقدس کو بھی پامال کرسکتا ہے۔ دولت کے لیے ہی تو اس نے اپنے جگری یار کو مشکل میں اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن اب خیر دین کے لیے اس سے بھی زیادہ مشکل گھڑی آ پہنچی تھی نہ رہنے کو ٹھکانہ اور نہ روزگار اور اوپر سے پولیس کا ڈر، اِن سنگین حالات میں اسے صرف فلک شیر ہی ایسا شخص نظر آ رہا تھا جو اس وقت اس کی مدد کرسکتا تھا لہٰذا وہ اس سے مل کر اس سے مدد کی اپیل کرنا چاہتا تھا کہ فلک شیر خود بول پڑا:
”خیر دین میں شرمندہ ہوں کہ میں نے مشکل کے وقت تمہارا ساتھ نہ دیا جس کا دُکھ اور افسوس ہے حالانکہ تمہارے احسانات مجھ پر بہت زیادہ تھے لیکن پھر بھی میں تمہارے کسی کام نہ آسکا جس کا مجھے افسوس ساری زندگی رہے گا۔ اس وقت حالات ہی ایسے ہوگئے تھے کہ میں چاہتے ہوئے بھی تمہارا ساتھ نہیں نبھا سکتا تھا۔ اگر میں اس وقت تمہاری ذرہ سی بھی مدد کرتا تو پولیس نے مجھے بھی گرفتار کر لینا تھا سو میں پولیس کے ڈر سے پیچھے ہٹ گیا تھا لیکن اب مجھے کسی بھی قسم کا کوئی ڈر خوف نہیں ہے لہٰذا اگر تم چاہو تو میرا گھر تمہارے لیے اسی طرح حاضر ہے جس طرح تمہارا گھر میرا اپنا گھر ہوا کرتا تھا۔ خیر دین میرے مطلق کسی قسم کا کوئی شکوہ شکایت اگر تمہارے ذہن میں ہے تو اسے بھول کر مجھے سچے دل کے ساتھ معاف کر دو، اور اپنا ذہن میرے مطلق بالکل صاف کرلو کیونکہ میں اس وقت مجبور تھا میری مجبوری کو سمجھتے ہوئے مجھے معاف کر دو۔“ وہ ہاتھ باندھ کر نظریں جھکائے خیر دین کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ خیر دین اس کے دونوں معافی کے لیے جڑے ہوئے ہاتھوں کو اپنے گالوں کے ساتھ لگا کر کہنے لگا:
”فلک شیر معافی کس بات کی مانگ رہے ہو، میں سمجھتا ہوں کہ اس طوائف نے میرے خلاف حالات کا تانہ بانہ کچھ اس طرح بن دیا تھا کہ کوئی میری مدد بھی نہ کرسکتا تھا ورنہ تم جیسے وفادار دوست میرا ساتھ کبھی نہ چھوڑتے اس لیے اب مجھے تم سے کسی بھی قسم کا کوئی شکوہ شکایت نہیں جو تھا وہ اب ختم ہوچکا ہے۔“ وہ دونوں گلے ملے تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
فلک شیر کے مل جانے کی وجہ سے خیر دین بہت خوش تھا کیونکہ وہ محفوظ ٹھکانے پر پہنچ چکا تھا یہاں ایک تو پولیس سے محفوظ ہوگیا تھا اور دوسرا وہ فکرمعاش سے بھی آزاد تھا۔ کیونکہ فلک شیر نے فی الحال کسی بھی ذریعہ معاش میں پڑنے کے لیے سختی سے منع کیا ہوا تھا۔ وہ فلک شیر کی پناہ کو محفوظ تصور کر رہا تھا لیکن اصل میں فلک شیر کی پناہ اس کے لیے موت کی کوٹھڑی تھی کیونکہ فلک شیر کسی خفیہ مشن کے تحت طاقت کے انجکشن لگانے کے بہانے اسے ہیروئن سے بھرے ہوئے انجکشن لگاتا رہتا تھا جس کی وجہ سے وہ بُری طرح ہیروئن کا عادی مریض بن گیا تو اسے گھر سے باہر نکال دیا اور وہ نشے کی بیماری ساتھ لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگیا۔
آج اسی کم ذات کے لگائے ہوئے نشے کو پورا کرنے کی خاطر وہ بھیک مانگنے پر مجبور تھا اور جب اس نے فلک شیر کو لالی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے دیکھا تو وہ سب سمجھ گیا تھا کہ سارا کھیل میری زندگی تباہ کرنے کی خاطر لالی نے کھیلا ہے حالانکہ میں اس کو تباہ کرنا چاہتا تھا لیکن وہ اس بار بھی مجھے تباہ کر گئی وہ اپنی ہی سوچوں میں غرق تھا کہ اچانک کوئی راہ گیر اس کے ساتھ ٹکرایا جس کی وجہ سے اس کا ذہن ماضی سے ہٹ گیا تو اس نے اپنے اطراف نظر دوڑائی تو اسے احساس ہوا کہ مجھے یہاں بیٹھے بیٹھے کافی وقت گزر چکا ہے کیونکہ اب دن ڈھل چکا تھا جس کی وجہ سے گرمی کی شدت میں بھی خاصی کمی واقع ہوچکی تھی۔ سڑکوں پر آمدورفت بھی دوپہر کی نسبت کافی بڑھ چکی تھیں۔ چوک کے اطراف پر فٹ پاتھوں پر ہاکروں اور ریڑھی بانوں نے قبضہ جما لیا تھا۔ کہیں کہیں تو پھلوں کے خوانچے سج چکے تھے تو کہیں کہیں پک اپ گاڑیوں میں جانوروں کے مجسمیں سجائے قوت شباب کی ادویات بیچنے والے مجمع لگائے بیٹھے تھے، ابھی گنڈیریوں اور کٹے ہوئے پھل بیچنے والے اپنی ریڑھیاں لگانے کی خاطر فٹ پاتھ کے نزدیک پانی کا چھڑکاﺅ کر رہے تھے تاکہ تیز رفتار ٹریفک کی وجہ سے گرد نہ اڑے اور گرمی کی حدت میں بھی کمی واقع ہو۔ لہٰذا اس نے بھی سوچا ماضی میں جو ہوا سو ہوا اب مجھے زندگی کی ڈور پکڑے رکھنے کے لیے نشے کے لیے کچھ اور رقم اکٹھی کر لینی چاہیے۔ وہ بھیک مانگنے کی خاطر ابھی اٹھ ہی رہا تھا کہ اچانک اس کے پاس ایک تیز رفتار گاڑی نے بریک لگائی اور ٹائروں کی چراہٹ کی آواز سے وہ چونک سا گیا تھا کہ اگلے ہی لمحے گاڑی میں موجود فلک شیر پر اس کی نظر پڑی تو اسے حیرت کا ایک شدید جھٹکا سا لگا وہ فلک شیر کو نظرانداز کرکے آگے بڑھنا چاہتا تھا کہ فلک شیر نے اپنا بازو بڑھا کر اس کا گریبان پکڑ کر غصے اور نفرت سے کھینچ کر اسے اپنے سامنے کر لیا جس کی وجہ سے خیر دین کی آنکھوں میں تشویش کی جھلک نمایاں ہوگئی اور اس کا ذہن اس الجھی ہوئی ڈور کا سرا تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ فلک شیر اتنا قہر آلود کیوں ہے۔
فلک شیر گاڑی کی پشت سے ٹیک لگائے سگریٹ کے ہلکے ہلکے کش لگاتے ہوئے خیر دین کا گریبان پکڑے ہوئے اس سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
”اوئے حرام زادے تونے لالی بی بی سے بھیک کیوں نہیں مانگی حالانکہ وہ صرف تم کو بھیک دینے اور تمہارا انجام دیکھنے کے لیے اِدھر آئی تھی لیکن ہجوم ہونے کے سبب وہ تمہیں کچھ دے نہ سکی اور نہ ہی تم کو ٹھیک طرح سے دیکھ سکی جس کا انہیں افسوس ہے اور مجھے غصہ اس لیے ہے کہ تو فقیر ہوتے ہوئے بھی اس عظیم ہستی سے بھیک مانگنے کے لیے اس کی گاڑی تک نہیں آیا حالانکہ تم کو آنا چاہیے تھا کیونکہ تو فقیر ہے اور تیرا کام مانگنا ہے لیکن تو دور کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ اگر تو اس وقت لالی بی بی سے بھیک مانگ لیتا تو انہوں نے تمہاری حالت دیکھ کر خوشی سے تمہیں کچھ نہ کچھ تو دے ہی دینا تھا اور ساتھ ساتھ مجھے بھی بہت سا انعام دینا تھا، پر تونے بھیک نہ مانگ کر اپنے ساتھ میرا بھی نقصان کیا فقیر کہیں کے۔“ یہ کہہ کر اس نے جھٹکے کے ساتھ خیر دین کا گریبان چھوڑا تو وہ زمین پر گر گیا تو فلک شیر اس کی طرف ہیروئن سے بھرا ہوا سگریٹ بڑھا کر دوبارہ کہنے لگا:
”اوئے فقیر یہ لالی بی بی نے تمہارے لیے تحفہ بھیجا ہے کیونکہ وہ تم کو زندہ دیکھنا چاہتی ہے تاکہ تم اسی طرح اپنی زندگی کے باقی ماندہ دن گزارتے رہو۔“
خیر دین نے کل سے نشہ نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے اس کا جسم نشہ نہ ملنے کے سبب درد سے دکھ رہا تھا اس حالت میں وہ اس بھرے ہوئے سگریٹ سے منہ پھیرنا گھاٹے کا سودا تصور کر رہا تھا لہٰذا اس نے دونوں ہاتھوں کی اوک بنا کر سگریٹ لینے کے لیے فلک شیر کے آگے بڑھا دی اور سر جھکا کر کہنے لگا:
”صاحب جی اب غلطی نہیں ہوا کرے گی۔“
—————
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں