عہد
بوٹا آج غصہ کی حالت میں ایسے ہی گھر سے روزی کی تلاش میں نکل پڑا تھا نہ تو اس نے شیو بنائی تھی اور نہ ہی اس نے کلف لگے کپڑے پہنے تھے بس جن کپڑوں میں وہ سو کر اٹھا تھا انہی کپڑوں میں ویسی ہی حالت میں وہ دھندے کے لیے چل پڑا تھا۔ وہ حسبِ معمول جب دھندے کے لیے گھر سے نکلتا تو گلی کی نکڑ سے پان والے کے کھوکھے سے پان ضرور خریدتا تھا لیکن آج اس نے وہ راستہ ہی اختیار نہ کیا تھا بلکہ وہ دوسرے راستے سے ہوتا ہوا مین بازار میں داخل ہوگیا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ پان والے کے کھوکھے پر بیٹھے اس کے یار دوست اس کا مذاق اڑائیں لہٰذا ان سے بچنے کے لیے یہی بہتر تھا کہ راستہ ہی تبدیل کر لیا جائے۔ آج پھر شیداں نے اسے بغیر کچھ کھائے پیئے گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا یہ کوئی پہلی مرتبہ تو ہوا نہ تھا بلکہ اسے اکثر بھوکے پیاسے ہی گھر سے نکلنا پڑتا تھا۔
”یا الٰہی میں کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں جب سے اس شیداں سے شادی رچائی ہے اس دن سے ہی قسمت کے فیصلے میرے حق میں الٹ جا رہے ہیں جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں وہی الٹ پڑ جاتا ہے حالانکہ پوری محنت اور جانفشانی سے کرتا ہوں۔ اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ اگر سونے کو بھی ہاتھ لگاﺅ تو وہ بھی مٹی بن جائے۔ کوئی کام بھی تو اس دن سے ٹھیک طرح سے انجام نہیں پا رہا، اوپر سے گھر کا ماحول تناﺅ زدہ اس کمبخت شیداں نے بنا دیا ہے۔“
مسائل میں پھنسا ہوا بوٹا انہی سوچوں میں گم شیداں کو کوستا ہوا تیز تیز قدم اٹھاتا سینما ہال کی طرف رواں دواں تھا، اسے یکایک خیال آیا کہ میں تو آج حسبِ معمول تیار ہو کر گھر سے نہیں نکلا اور اس حالت میں تو شکل سے ہی جیب کترا لگ رہا ہوں۔ انسان کی عزت لباس سے ہوتی ہے اگر قیمتی کپڑے کسی بُرے اخلاق والے شخص نے پہن رکھے ہوں تو لوگ اسے مہذب ہی جانتے ہیں۔ اسی طرح اگر اچھے چال چلن والا معمولی سے لباس میں کسی پبلک مقام پر چلا جائے تو لوگ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر میں اسی حالت میں سینما ہال میں داخل ہوگیا تو وہاں پر کسی کی جیب کٹ گئی تو اس کا شک مجھ پر ضرور جائے گا جس کی وجہ سے لینے کے دینے پڑ جائیں گے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ سینما کا رخ نہ کیا جائے۔ ویسے بھی آج اس کا موڈ دھندے کے لیے نہیں تھا اس نے سوچا کیوں نہ آج ہسپتال جا کر شیدے کی تیمار داری کر لی جائے جو ہفتہ پہلے جیب کاٹتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا اور لوگوں نے اس کی وہ دھلائی کی کہ اس کو مہینہ بھر کے لیے بے روزگار کرکے رکھ دیا۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ہسپتال کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اسے خیال آیا کہ میں اپنے جگری یار کی تیمار داری کے لیے جا رہا ہوں اگر خالی ہاتھ گیا تو کچھ اچھا نہ لگے گا کیوں نہ کچھ پھل خرید لیا جائے۔ جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہ خالی تھی۔ کل شام ہی تو اس نے جیب میں دو ہزار روپے رکھے تھے وہ بھی اس کی بیوی نے نکال لیے تھے۔ اپنی خالی جیب پا کر اسے شیداں پر بے حد غصہ آیا اور وہ منہ ہی منہ میں بربڑا کر رہ گیا اور خالی ہاتھ ہی دوست کی تیمار داری کے لیے چل پڑا۔
آج اس کا موڈ صبح سے ہی خراب ہوگیا تھا جس کا سبب شیداں تھی۔ جس کی روزبروز بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس کو جیب کتری کے علاوہ چھوٹی موٹی چوریاں بھی کرنی پڑتی تھیں جس سے اچھی خاصی رقم جمع ہو جاتی تھیں لیکن شیداں کے لیے یہ رقم پھر بھی ناکافی ہوتی تھی وہ کثیر رقم کو بھی چند ہی دنوں میں ختم کر دیتی اور مزید رقم کا مطالبہ کرتی، جس کی وجہ سے گھر کا ماحول سکون سے عاری تھا۔ زندگی میں نحوست اور بے سکونی کا زہر تو اس وقت ہی گھل گیا تھا جب سے اس نے شیداں سے شادی کی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن، کوئی ایک دن بھی تو ایسا نہیں گزرا تھا جو اس کے لیے سکون کا باعث ہوتا۔ مسلسل بے سکونی کی وجہ سے اب تو اس کا ہر کام الٹ پڑ جاتا تھا اور وہ کئی مرتبہ گرفتار بھی ہوا جس کی وجہ سے اس کا نام تمام پولیس اسٹیشنوں میں درج ہوگیا تھا۔ شہر بھر میں جہاں کہیں بھی کوئی واردات ہوتی اسے تفتیش کے لیے بلا لیا جاتا۔ یہ سب کمبخت شیداں کی فضول خرچیوں کا کیا دھڑا تھا۔ اس کلموہی کے لیے اپنوں کو چھوڑنا پڑا تھا لیکن وہ پھر بھی اپنی نہ بنی وہ خود تو فٹ پاتھ پر پل کر جوان ہوئی تھی۔ اب تو اسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ عورت اسے بھی بھیک مانگنے پر مجبور کر دے گی۔ شیداں کی جب سے بوٹے کے ساتھ شادی ہوئی تھی وہ تو اپنی اوقات ہی بھول گئی تھی وہ شیداں جس کا سارا دن سڑکوں پر بھیک مانگ کر گزر جاتا تھا اور وہ دن بھر میں جو رقم بھیک مانگ کر اکٹھی کرتی تھی وہ رقم اس کا نشئی باپ اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے اس سے چھین کرلے جاتا تھا۔ وہی لڑکی شادی کے بعد ایسے بدل گئی جیسے کسی امیر باپ کی بیٹی ہو۔ اس نے تو اپنی محرومیوں کا خوب ازالہ کیا اِس کے بڑھتے ہوئے اخراجات پورے کرنے کے لیے بوٹا ایک معمولی سے جیب کترے سے بڑی بڑی چوریاں کرنے پر مجبور ہوگیا۔ اس نے سوچا تھا کہ شیداں سے شادی کے بعد کوئی باعزت کام کروں گا لیکن معاملہ اس سے برعکس نکلا۔ اس عورت نے اس کو اس قدر مجبور کر دیا کہ وہ اپنا نیک ارادہ بھول کر مزید اسی دلدل میں پھنستا چلا گیا جس سے وہ نکلنا چاہتا تھا اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار بھی تو نہ تھا۔ آخر بیوی بچوں کے حقوق پورے کرنے کے لیے تک و دو تو کرنا ہی پڑتی ہے سو عزت کی روٹی سے گھر کا خرچ تو چل نہیں سکتا تھا۔
سورج دن بھر اپنی چمک دمق دیکھا کر اب چھپ چکا تھا۔ شام کے سائے آہستہ آہستہ بڑھ رہے تھے۔ فضا میں ہلکی ہلکی خنکی تھی جس سے دل کو سکون ملتا تھا۔ اسے کہیں سے مغرب کی اذان سنائی دے رہی تھی۔ اس کا دل چاہا کیوں نہ آج رحمان و کریم کی بارگاہ میں حاضری دی جائے جو دلوں کے بھید بہتر جانتا ہے لیکن پھر اس پر شیطان حملہ آور ہوگیا اور اس نے اپنا ارادہ تبدیل کر دیا۔ اس کی نیت پختہ نہ تھی اس لیے تو شیطان اس پر اتنی جلدی غالب آگیا تھا۔
مایوسی اور پریشانی کے ملے جلے اثرات لیے وہ ہسپتال کے مین گیٹ میں داخل ہوگیا دفعتاً وہ ایک بزرگ کے ساتھ ٹکڑایا۔ دبلے پتلے جسم کا مالک بوڑھا جس نے معمولی سے کپڑے پہن رکھے تھے بوٹے کے ساتھ ٹکڑاتے ہی گر پڑا وہ بزرگ کو سہارا دینے کے لیے جھکا تو بلا ارادہ اس کا ہاتھ بزرگ کی جیب میں چلا گیا—
وہ اپنی تیز چھٹی حس سے اندازہ لگانے میں کامیاب ہوگیا کہ رومال میں بندھے ہوئے کرنسی نوٹ ہی ہیں۔ جس تیز رفتاری کے ساتھ وہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوا تھا اس سے بھی زیادہ برق رفتاری کے ساتھ وہ یہ رقم بزرگ کی جیب سے نکال کر اپنی جیب میں ڈالنے میں کامیاب ہوگیا تھا پھر وہ بزرگ کو سہارا دے کر اُسے اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے میں مدد دیتا ہے اور بڑے مو ¿دبانہ انداز میں اُس سے معذرت کرتا ہے اور حال احوال پوچھ کر فوراً وہاں سے نو دو گیارہ ہوگیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہاں زیادہ دیر ٹھہرنا خطرے سے خالی نہیں۔
بوٹے نے ہسپتال کی حدود سے نکل کر نیشنل پارک میں پہنچ کر اطمینان کا سانس لیا۔ راستہ بھر اس کا نہ تو کسی نے تعاقب کیا تھا اور نہ ہی کسی کو اس پر کسی قسم کا شک گزرا تھا۔ وہ ہر واردات کے بعد اس پارک میں آ کر بٹوے کی جامہ تلاشی لیا کرتا تھا جو اس نے کسی کی جیب سے اپنا مال سمجھ کر نکالے ہوتے تھے۔ سو وہ آج بھی اس مقصد کی تکمیل کے لیے یہاں آیا تھا۔ آج تو اس کا دل بار بار گواہی دیتا تھا کہ اس رومال میں کافی بڑی رقم موجود ہے اور وہ اس کو کھولنے کے لیے بے قرار تھا۔
رومال کی گانٹھیں کھولیں تو اس میں کرنسی نوٹ، شناختی کارڈ اور ایک عدد خط تھا جو پوسٹ کرنے کے لیے جیب میں رکھا گیا تھا۔ اس نے شناختی کارڈ اور خط پر سرسری سی نگاہ ڈالی اور پھر ان چیزوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اس نے نوٹ گننا شروع کر دیں جو ایک لاکھ پچاس ہزار تھے۔ یہ رقم اس کی سوچوں سے بھی زیادہ تھی۔ اس نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ قسمت اس پر اتنی مہربان ہو جائے گی کہ بنا کسی منصوبہ بندی اور جدوجہد سے اسے اتنی بڑی رقم اتنی آسانی کے ساتھ ایسے اس کے ہاتھ آ لگے گی جیسے کوئی پکا ہوا پھل خود ہی جھولی میں گر پڑتا ہے۔
کرنسی نوٹ کے علاوہ باقی تمام اشیاءوہ فوراً پھینک دیا کرتا تھا لیکن بند لفافہ دیکھ کر اس کے دل میں اشتیاق ابھرا کہ اس خط کو پڑھنا چاہیے جس سے تھوڑا وقت بہتر طریقے سے گزر جائے گا۔ اس مقصد کے لیے اس نے خط کھول کر پڑھنا شروع کر دیا—
پیارے بیٹے سکندر خوش رہو آباد رہو!
بیٹا امید کرتا ہوں کہ تم خوش و خرم ہوں گے، میں تمہاری خوشیوں کے لیے دعاگو ہوں۔ بیٹا خط لکھنے میں دیر اس لیے ہوگئی کہ میں پہلے رقم کا انتظام نہ کرسکا سو اب ہوگیا تو میں نے سوچا تم کو خط لکھ کر اطلاع کر دوں۔
بیٹا یہ صحت مند روایت نہیں کہ اپنے جائز، ناجائز مطالبات منوانے کے لیے بیوی کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جائے۔ تم نے میری بیٹی کو اس بناءپر میرے گھر بھیج دیا کہ میں تم کو کاروبار کے لیے ایک لاکھ روپیہ مہیا کرسکوں۔
تم تو جانتے ہو کہ میں ایک ریٹائرڈ شخص ہوں سارا سارا دن گلی گلی گھوم پھر کر بچوں کے کھلونے بیچتا ہوں اس سے جتنی آمدنی ہوتی ہے اس کا تم کو خوب اندازہ ہے کہ گھر کا خرچ کیسے چلتا ہے۔
مجھ جیسے غریب شخص کے لیے ایک لاکھ کی رقم کوئی چھوٹی رقم نہیں ہے لیکن پھر بھی میں نے تمہارا مطالبہ پورا کر دیا ہے یہ رقم میں نے اپنا ایک گردہ بیچ کر حاصل کی ہے اس کے علاوہ میرے پاس اور کوئی چارہ کار نہ تھا لہٰذا میں نے اپنا گردہ بیچ دیا کیونکہ بیٹی کا گھر بسانا میرے لیے زیادہ اہم اور ضروری امر تھا نہ کہ گردہ۔
بیٹا خط لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میرے پاس دینے کے لیے پہلے بھی کچھ نہ تھا اور اب بھی کچھ نہیں ہے۔ اب تو میرے جسم میں بھی کوئی ایسی شے نہیں کہ جسے بیچ سکوں۔ لہٰذا اس کے بعد مطالبہ کرنا بے سود ہوگا کیونکہ میرے لیے مزید مطالبات پورے کرنا ممکن نہیں ہے۔
بیٹا تم اپنی رقم اور میری بیٹی کو باعزت طور پر لے جاﺅ تاکہ میں سکون سے زندگی کے باقی ماندہ دن بسر کرسکوں۔ اللہ تم دونوں کو ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تم دونوں کی جوڑی ہمیشہ آباد رکھے۔ آمین۔
بیٹا جلدی آنا میرے پاس اتنی بڑی رقم سنبھالی نہ جائے گی کیونکہ چوری چکاری کا ڈر رہتا ہے لہٰذا جلدی سے اپنی رقم لے جاﺅ۔
فقط تمہارا باپ
کچی آبادی خیر آباد لاہور
خط پڑھتے ہی اس پر غشی کی کیفیت طاری ہوگئی اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے جسم سے روح نکل چکی ہو اور اس کا جسم بے جان پڑا ہو۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے کیونکہ ضمیر کی خلش اسے بار بار ملامت کرتی تھی کہ تم سے بہت بڑی خطا سرزد ہوگئی ہے۔ ”یہ شخص جس کی تم نے جیب کاٹی ہے اس نے اپنی بیٹی کا گھر بسانے کی خاطر اپنا گردہ بیچ کر رقم حاصل کی، جب یہ شخص اپنی خالی جیب دیکھے گا تو اس پر کیا گزرے گی وہ اپنی خالی جیب پا کر مر جائے گا اس کی موت کا ذمہ دار تم ہوں گے۔“
ضمیر کی خلش اسے ماضی میں لے گئی اور اس کے ذہن میں اپنی اس بہن کی تصویر ابھر آئی جس کا انتقال ہارٹ اٹیک سے ہوگیا تھا۔ اس کی موت کا سبب اس کا شوہر تھا جس نے اسے اس بناءپر باپ کے گھر بٹھا دیا تھا کہ وہ اپنے باپ سے موٹر سائیکل کے لیے رقم لے کر آئے۔ رضیہ کا باپ تو گاﺅں کے چوہدری کا ایک معمولی سا مزارعہ تھا اس کے پاس سائیکل خریدنے کے لیے بھی پیسے نہ تھے موٹر سائیکل کہاں سے خرید کر دیتا۔ رضیہ کے شوہر نے بدچلنی کی تہمت لگا کر اس کو طلاق دے دی وہ یہ تہمت برداشت نہ کرسکی اور مر گئی۔ اس واقعہ نے بوٹے کے اندر گاﺅں چھوڑنے کی تحریک پیدا کی کہ ”میں شہر جا کر محنت مزدوری کروں گا اور بہت ساری دولت کما کر گاﺅں واپس آﺅں گا اور اپنے بہن بھائیوں کی محرومیوں کا ازالہ کروں گا۔“ وہ اب گاﺅں میں رہنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ یہاں رہ کر وہ صرف چوہدری کا مزارعہ ہی بن سکتا تھا اور وہ مزارعہ بننا نہیں چاہتا تھا کیونکہ مزارعہ بننے سے تو باعزت روزی بھی میسر نہیں آتی تھی۔
بوٹا شروع سے ہی تو جیب کترا نہ تھا جب وہ گاﺅں سے شہر روزی کمانے کے لیے آیا تو اسے کہیں بھی ملازمت نہ ملی۔ شہر رہ کر اس نے بہت دھکے کھائے، چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کیں اسے دن بھر کی سخت محنت کا معاوضہ اتنا کم ملتا کہ پیٹ بھر کر کھانا کھانا بھی ممکن نہ تھا، وہ تو گاﺅں سے حسین مستقبل کے خواب لے کر نکلا تھا لیکن یہاں اسے تاریکی ہی تاریکی نظر آئی وہ ناکام گاﺅں واپس جانا نہیں چاہتا تھا لیکن یہاں کامیابی اسے نظر نہیں آ رہی تھی۔ مایوسی میں اسے کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے اسی کشاکشی میں اس کی ملاقات سکندر نامی شخص سے ہوگئی جو علاقے کا دس نمبریہ تھا اس کی صحبت میں بیٹھ کر وہ بھی اسی کے نقشے قدم پر چل نکلا اور اس نے بھی لوگوں کی جیبیں کاٹنا شروع کر دیں، کچھ ہی عرصہ میں وہ اپنے فن میں اتنا مشاق ہوگیا کہ وہ اپنے علاقے کے اپنے جیسے لوگوں کا گروہ بن گیا۔ وہ بری سوچ لے کر گاﺅں سے شہر نہیں آیا تھا بلکہ حالات نے اسے بُرا بنا دیا تھا لیکن پھر بھی اس کے اندر کا اچھا انسان ابھی زندہ تھا جو گاﺅں سے شہر حق حلال کی روزی کمانے کے لیے آیا تھا لیکن راستے میں ہی بھٹک گیا تھا۔
اس کا ضمیر اسے بار بار ملامت کرتا کہ ”تونے بہت سے لوگوں کو ان کی حق حلال کی کمائی سے محروم کیا اور تمہارا یہ نظریہ رہا کہ رقم اُس کی جس کی جیب میں ہو۔ تم نے کبھی کسی پر ترس نہیں کھایا۔ بے شک تم پر بھی کبھی کسی نے ترس نہیں کھایا، اگر کوئی ایک شخص بھی تم پر شفقت کا ہاتھ رکھ دیتا تو تم اس معاشرے کے کارآمد شہری بن سکتے تھے اگر نہیں بن سکے تو اس میں تمہارا اپنا بھی بہت ہاتھ ہے تم حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے درمیانی راستے پر پڑ گئے اور اسی کو اپنی منزل تصور کرنے لگے اور تمہیں کبھی بھی رضیہ یاد نہ آئی جس کی موت کا سبب پیسہ تھا تم نے کبھی نہ سوچا جن لوگوں کی تو جیبیں کاٹتا ہے ان کی جیبوں میں کہیں کسی رضیہ کا مستقبل ہی نہ وابستہ ہو، سو آج تم نے ایک اور رضیہ کا مستقبل تاریک کر دیا۔ تم نے آج اس شخص کی صرف جیب ہی نہیں کاٹی بلکہ ایک خاندان کو تباہ کر دیا، مجبور، بے کس، لاچار کی بددعا تمہاری دنیا و آخرت خراب کر دے گی۔“
آج کی رات اس کے لیے بہت کٹھن تھی وہ خوف خدا سے کانپ جاتا تھا اس نے کبھی اللہ کو اتنا یاد نہ کیا تھا جتنا وہ آج کر رہا تھا اور اسی وجہ سے اسے شدید سردی کے باوجود پسینے کا احساس ہو رہا تھا اور جسم میں کپکپی سی پیدا ہو گئی تھی، یہ اس کی زندگی میں پہلی بار ہوا تھا کہ اس نے چھینی ہوئی رقم واپس کرنے کا ارادہ کر لیا ہو وہ کسی بھی صورت میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس رقم کے بارے میں اس کی بیوی کو علم ہو کہ اس کے پاس کثیر رقم موجود ہے اور وہ اس کو واپس کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ اسی لیے تو وہ جلدی سونے کے لیے چلا گیا تھا۔
وہ اس کی بیوی ہی تھی جس کی وجہ سے وہ روزبروز گناہ کی دلدل میں پھنستا چلا جا رہا تھا۔ کیسے ارمان تھے اس کے کہ اس مظلوم لڑکی جس کا نشئی باپ ظلم و ستم ڈھا کر اس سے بھیک منگواتا پھر وہ تمام رقم اپنے نشے کے لیے لے جاتا تھا۔ اس مظلوم لڑکی کے ساتھ شادی کرکے اور اپنے تمام بُرے کام چھوڑ کر کوئی باعزت کام کروں گا۔ ارادے تو ان دونوں کے نیک تھے لیکن پھر نہ جانے کیوں آناً فاناً اس عورت کو کیا ہوگیا اور اس پر روپے کا خمار طاری ہوگیا جس کی وجہ سے ضروریات زندگی میں روزبروز اضافہ ہوتا چلا گیا اور کچھ اس کی اپنی عقل پر بھی پردہ پڑ گیا تھا اور وہ اسی دلدل میں پھنستا چلا گیا جس سے وہ باہر نکلنا چاہتا تھا۔
خط نے اس کے ضمیر کو جھنجورا تو اس کے اندر کا انسان بیدار ہوا جو یہ عہد کر رہا تھا کہ ”میں آج سے جیب کتری، چوری چکاری سے سچی توبہ کرتا ہوں۔“ اگر انسان اپنے نفس پر قابو پالے تو کوئی دوسرا شخص اسے بگاڑ نہیں سکتا۔
وہ پوری رات لمحہ بھر کے لیے بھی نہ سو سکا تھا۔ صبح کا انتظار جتنا اسے اب ہو رہا تھا اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ پوری رات اس کی کروٹیں بدلتے بدلتے گزر گئی اس وقت اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب اس کو محلے کی مسجد سے فجر کی اذان سنائی دی۔ اذان سنتے ہی اُس نے رقم کے ساتھ ملنے والے شناختی کارڈ پر درج ایڈریس نوٹ کیا اورگھر سے چل پڑا رقم اس کے اصلی مالک تک پہنچانے کے لیے۔
سورج مکمل طور پر نکل آیا تھا۔ دھوپ میں شدت آگئی تھی۔ محلے میں سناٹا تھا ہر چہرہ غمزدہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے استفسار پر پتہ چلا کہ محلے کی معزز شخصیت حاجی خیر دین اچانک حرکت قلب بند ہونے سے انتقال فرما گئے ہیں۔
بوٹے کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا رہا تھا اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کا جسم بے جان ہوچکا ہو۔ اسے خود پر غصہ آ رہا تھا اور وہ ندامت کے بوجھ تلے دبا جا رہا تھا۔ اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا تھا کہ ”بابا کے قاتل تم ہو کیونکہ اس کے ہارٹ اٹیک کا سبب تم تھے۔“
پچھتاوے اور ندامت کے بوجھ تلے وہ اس قدر دبا ہوا تھا کہ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اب اس رقم کا کیا کرے، کس کو واپس کرے، جس کو دینے کے لیے آیا تھا وہ تو اس دنیا میں نہیں رہا۔
اس کے ضمیر کی خلش اسی صورت دور ہوسکتی تھی جب وہ بابا کے داماد سکندر کو خط دکھاتا اور رقم واپس کر دیتا تاکہ وہ شخص اپنا مستقبل بہتر طریقے سے اپنی بیوی کے ساتھ گزار سکے۔ اسی لیے تو اس کی نظریں سکندر کو تلاش کرنے لگیں۔
فربہ جسم تھوڑی سی تند نکلی ہوئی جو جسم پر سجی ہوئی تھی، سفید کلف لگا سوٹ پہنے گلے کے تمام بٹن کھلے اور کندھے پر پرنا رکھے ہوئے سکندر اس کے سامنے کھڑا تھا۔ سکندر کو دیکھتے ہی اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری یہ مسکراہٹ بابا کے داماد کے لیے نہیں بلکہ اپنے استاد سکندر کے لیے تھی جو یہاں سے نقل مکانی کرکے کراچی آباد ہوگیا تھا کیونکہ یہاں کا ماحول اس کے لیے پُرخطر ہوچکا تھا۔
اچانک اپنے استاد جیب تراش سکندر کو یوں اپنے سامنے دیکھا تو اس کے جذبات بھڑک اٹھے اور وہ اسے گلے لگانے کے لیے اس کی طرف لپکا، بجائے اس کے کہ دونوں میں سے کوئی پہل کرتا سکندر نے آگے بڑھ کر بوٹے کو گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا کیونکہ حالات کی نزاکت ہی ایسی تھی اور بوٹا بھی سب کچھ سمجھ گیا تھا جب وہ اپنے ڈرامے سے فارغ ہوا تو بوٹا اس سے یہ اگلوانے میں کامیاب رہا کہ اس نے اپنے سسر سے رقم کا مطالبہ کس مقصد کے لیے کیا۔
سکندر جس کے چہرے پر ذرہ برابر بھی اپنے سسر کے انتقال کا ملال نہ تھا وہ بڑے فخر کے ساتھ اپنے دوست کو بتا رہا تھا :
”میں نے چھوٹی موٹی چوریوں کے ساتھ ساتھ ایک جوا خانہ بھی چلانا شروع کر دیا ہے اور اس کو مزید بہتر بنانے کے لیے رقم کی ضرورت تھی جس کا مطالبہ میں نے اپنے سسر سے کر دیا اور بیوی کو ڈھال بنا کر لاہور بھیج دیا لیکن سسر صاحب رقم کا انتظام کیے بغیر اس دنیا سے رخصت ہوگئے، اب میں واپس کراچی جا رہا ہوں بیوی بچوں کو ساتھ لے کر یہاں رہ کر ”رسم قل“ کا خرچہ کرنا پڑے گا۔
اس کا ضمیر اس بات پر مطمئن ہوگیا تھا کہ وہ یہ رقم بُرائی کے کام کے لیے ہرگز واپس نہیں کرے گا بلکہ اس کو اچھائی اور نیک مقصد کے لیے استعمال کرے گا۔
بوٹا جنرل سٹورز سے کمائی معقول تھی لیکن اس میں برکت تھی جو اسے زندگی میں پہلی بار میسر آئی تھی۔
—————
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں