بند گلی
بند گلی
بیس سال کے لمبے عرصے کے بعد فاروق نے دوبارہ اس سَرزمین پر قدم رکھا تھا۔ ان بیس سالوں میں شہر بہت وسعت اختیار کر گیا تھا اور اس میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوچکی تھیں۔ وہ ان تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے سیدھا ریلوے اسٹیشن کی عمارت کے سامنے والے پارک میں چلا گیا۔ یہ پارک اس کی بہت سی پُرانی یادوں کا گہوارہ تھا یہی وجہ تھی کہ وہ سفر کی تھکاوٹ اور گرمی کی شدت کی پرواہ کیے بغیر یہاں آ گیا تھا۔ جب وہ پہلی بار لاہور آیا تھا تو اسی پارک میں اس نے اپنی پہلی رات بسر کی تھی لیکن جب اس کے لیے لاہور کے درو دیوار تنگ ہوگئے تو یہی پارک اس کا سہارا بنا۔ وہ اس شہر کی ہر یاد بھول سکتا تھا لیکن اس پارک کو نہیں بھول سکتا تھا۔ اسی لیے تو وہ اپنے دوسرے سفر کا آغاز بھی یہیں سے کر رہا تھا۔
پارک میں پہنچ کر وہ وہیں چونکڑی مار کر بیٹھ گیا۔ اپنے ہاتھ میں پکڑے رومال سے اس نے اپنے چہرے اور گردن سے پسینہ پونجھ کر اپنے بیگ سے منرل واٹر کی بوتل نکال کر پانی پینا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ وہ شہر کی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے اپنے چاروں طرف یوں نگاہ دوڑا رہا تھا جیسے وہ لاہور میں پہلی بار آیا ہو۔ دفعتاً پچیس تیس سالہ نوجوان جو کلف لگے سفید شلوار سوٹ میں ملبوس تھا اس نے پاﺅں میں پشاوری چپل پہن رکھی تھی، گویا شکل و صورت سے کھاتے پیتے گھرانے کا فرد معلوم ہوتا تھا، سامنے آ کھڑا ہوا اور اس نے بڑے عاجزانہ انداز میں کہا ”السلام و علیکم “!
”واعلیکم السلام ! محترم میں نے آپ کو پہچانا نہیں آپ کون ہے؟“ فاروق نے حیرانگی سے اس شخص سے پوچھا۔
وہ شخص بڑی معصوم سی شکل بنا کر اپنی بپتا سنانے لگ پڑا۔
”بھائی جان میں بہاولپور سے یہاں نوکری کے لیے انٹرویو دینے آیا تھا یہاں پر میری جیب کٹ گئی، اب میرے پاس واپسی کا کرایہ نہیں، آپ مجھے بہاولپور کا کرایہ دے دیں۔ بھائی جان میں کوئی بھکاری نہیں ہوں، مجھے سوال کرتے ہوئے خود شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔ بھائی جان میں تین گھنٹے سے یہاں پریشان گھوم رہا ہوں، لیکن کسی سے سوال کرنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی بس آپ کو مخلص اور مہربان جان کر آپ کے پاس چلا آیا کہ شاید آپ میری مدد کر دیں۔ بھائی جان آپ کو میری باتوں کا اعتبار نہیں تو آپ سیکیورٹی کے طور پر میری اسناد اور قومی شناختی کارڈ اپنے پاس رکھ لیں۔ میں آپ کے پیسے واپس جا کے منی آرڈر کے ذریعے لوٹا دوں گا اور اپنی اسناد اور شناختی کارڈ واپس منگوا لوں گا۔ ہم زمیندار لوگ ہے، کوئی بھکاری نہیں۔ بھائی جان مجھے خود بہت شرم آ رہی ہے، اس طرح سوال کرتے ہوئے لیکن کیا کروں واپس بھی تو جانا ہے، صبح کا بھوکا ہوں۔“ وہ روتے ہوئے اپنی تعلیمی اسناد اور قومی شناختی کارڈ فاروق کے سامنے رکھ کر بڑی مسکین سی شکل بنا کر بیٹھ گیا۔
اس شخص نے اپنی فریاد کچھ اس طرح سے سنائی کہ فاروق کا دل پسیج گیا اور وہ اس کی باتوں کو سچ مان گیا اسی لیے اس نے اس شخص کا شناختی کارڈ اور اسناد اپنے پاس رکھنا مناسب نہ جانا اور اُس کا شناختی کارڈ اور اسناد واپس لوٹاتے ہوئے اپنا دوسرا ہاتھ اپنی پتلون کی پچھلی جیب میں ڈال کر بٹواہ باہر نکال لیا، ابھی وہ بٹوے سے پیسے نکال ہی رہا تھا کہ وہ شخص بجلی کی سی تیزی سے اس پر جھپٹ پڑا اور بٹواہ چھین کر رفوچکر ہوگیا۔
فاروق اس کے پیچھے بھاگا لیکن چند قدم اٹھانے کے بعد اس کے پاﺅں میں اچانک موچ آ گئی اور وہ وہیں بیٹھ گیا۔ اگر اس کے پاﺅں میں اس وقت موچ نہ آتی تو وہ ضرور اس شخص کو پکڑ لیتا اور اس کو اتنا مارتا کہ اس کا حلیہ بگڑ جاتا لیکن اب کیا کیا جاسکتا تھا وہ شخص تو لوگوں کے ہجوم میں گم ہوچکا تھا۔
فاروق نے سوچا کہ میں ٹیکسی میں بیٹھ کر ماڈل ٹاﺅن اپنے کزن کے ہاں چلا جاﺅں، ٹیکسی کا کرایہ خود ہی اس کا کزن واجد ادا کر دے گا۔ اس سوچ کے آتے ہی اس کی نظریں ٹیکسی کی تلاش میں اِدھر اُدھر گھومنے لگیں۔ دفعتاً اس کی نظر مسجد کے بڑے دروازے سے کچھ ہی آگے لگی گنے کی مشین پر جا کر رک گئی۔ وہاں ایک چھوٹے سے قد والا شخص میلی بنیان، گھٹنوں سے اونچی شلوار پہنے بڑی مستعدی سے گنے کی مشین سے گنوں کا رس نکالتا اور ٹھنڈے ٹھنڈے رس کے گلاس گاہکوں کو دے رہا تھا۔
اِس شخص پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ جلدی سے جا کر اس شخص کو مشین میں اس طرح بیل دے جیسے یہ گنے کو بیلتا ہے۔ اس طرح اس کا سارا خون نچڑ جائے گا اور میرے تن بدن میں ٹھنڈ پڑ جائے گی۔ یہ وہی شخص تھا جس کی مکاری اور چال بازی کی وجہ سے وہ شہر چھوڑ کر بھاگا تھا۔
یہ فاروق کا کالج فیلو حسیب تھا۔ ان دونوں میں کبھی اس قدر گہری دوستی ہوا کرتی تھی کہ کالج کے دوسرے طالب علم ان کی دوستی کی تعریف ایسے کرتے کہ یہ دونوں دو جسم اور ایک جان ہے۔ پھر یکایک ان دونوں میں پھوٹ پڑ گئی۔ ان دونوں میں پھوٹ پڑنے کی اصل وجہ کالج یونین کی صدارت تھی۔ صدارت حاصل کرنے کے لیے وہ دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے تھے۔
فاروق زمیندار گھرانے کا چشم و چراغ تھا، آرام و آرائش اس کے گھر کی لونڈی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ دنیا کی جو چیز اُسے پسند آتی دولت کے بل بوتے پر خریدنا چاہتا تھا۔ جب اسے یونین کی لیڈری کا شوق چڑھا تو اس نے روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہا دیا لیکن کامیاب پھر بھی نہ ہوسکا۔ اس کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ حسیب تھا جو گزشتہ دو سال سے یونین کا بلامقابلہ صدر چلا آ رہا تھا۔ لیکن اب فاروق ہر قیمت پر صدارت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اس نے حسیب کے مقابلے میں اپنا ایک گروہ بھی بنا لیا تھا۔
حسیب بھی تو اتنی آسانی سے اپنی چوہدراہٹ جاتے دیکھ نہیں سکتا تھا اور اس نے اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنے کے لیے ہر وہ ہربہ استعمال کیا جو وہ بڑی آسانی سے استعمال کرسکتا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں وہ فاروق کے گروہ کو دھمکیوں اور بدمعاشی سے توڑنے میں کامیاب ہوگیا اور فاروق کا کام تمام کرنے کے لیے اس نے شہر کے تمام غنڈے اس کے پیچھے لگا دیں جو بھوکے کتے کی طرح اس کی تلاش میں تھے۔ فاروق کا تو خیال تھا کہ وہ اپنی دولت کے بَل بوتے پر حسیب کو منظر سے ہٹا کر خود صدر بن جائے گا لیکن یہ تو اس کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ حسیب اس طرح غنڈے اس کے پیچھے لگا دے گا۔ وہ غنڈوں کو بھی خرید سکتا تھا لیکن وقت نے اسے اتنی مہلت ہی نہ دی تھی کہ وہ اپنے بچاﺅ کے لیے جدوجہد کرتا کیونکہ اس نے خود اپنی نادانی کی وجہ سے اپنی سگی خالہ کو بھی اپنا دشمن بنا لیا تھا۔ چنانچہ اس کے حق میں یہی بہتر تھا کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے کیونکہ وہ اکیلا دو محاذوں پر لڑ نہیں سکتا تھا۔ حالات کی نزاکت کو سمجھ کر وہ اپنا ملک چھوڑ کر امریکہ چلا گیا۔
بیس سال کے بعد وہ یہاں گھرے مردے اکھاڑنے نہیں آیا تھا بلکہ وہ تو یہاں اپنا کاروبار شروع کرنے کے سلسلے میں آیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے دماغ نے یہ سوچنا بھی گوارا نہ کیا کہ یہ شخص اتنا غریب کیسے ہوگیا وہ تو اس کی طرف دیکھنا بھی گناہ سمجھتا تھا اسی لیے تو وہ اس پر دو حرف بھیج کر دوسری طرف ہوگیا جہاں اسے ٹیکسی مل گئی اور وہ ماڈل ٹاﺅن کی طرف روانہ ہوگیا۔
ٹیکسی اپنی راہوں پر رواں دواں تھی اور وہ خاموش بیٹھا کسی گہری سوچ میں گھرا ہوا تھا۔ لیکن اس کی پرشوق آنکھیں گردوپیش کو پہچاننے کی جستجو میں تھیں۔ اردگرد کا ماحول اس نے ان گنت بار دیکھا ہوا تھا لیکن اب بیس سال کے بعد اس میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوچکی تھیں۔ سڑک کے دونوں جانب خوبصورت اور خوشنما عمارتیں وجود میں آ چکی تھیں۔ وہ اس بدلے ہوئے ماحول کو پُرتجسس نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
بیس سال دیارِ غیر میں رہنے کے باوجود بھی وہ وہاں پر اجنبیوں کی سی زندگی بسر کر رہا تھا، اجنبیت کا احساس اس کے وجود کو ریزہ ریزہ کر دیتا تھا اور اس کا وجود اپنی مٹی کی خوشبو کے لیے تڑپ اٹھتا۔ آخر مٹی کی کشش اس کو وطن واپس لے آئی۔ اپنے وطن میں وہ اسی شہر سے اپنے نئے دور کا آغاز کرنا چاہتا تھا جہاں کے درو دیوار خود اسی کی کم عقلی کی وجہ سے تنگ ہوگئے تھے۔ یہ شہر اس کا آبائی شہر نہ ہونے کے باوجود بھی اپنا سا تھا، یہاں اس نے بہت کچھ کھویا اور پایا تھا۔ اس شہر کی یاد اسے ہر دم تڑپاتی تھی۔ یہ اس شہر کی محبت ہی تو تھی کہ جب وہ امریکہ سے واپس اپنے گاﺅں پہنچا تو اس کا وہاں پر دل نہ لگا تو اس نے یہ پختہ ارادہ کر لیا کہ اسی شہر کو اپنا مستقل آشیانہ بناﺅں گا جس کو میں کبھی نہ بھول پایا ہوں۔ چنانچہ اس شہر میں اپنا مستقل آشیانہ بنانے کا ارادہ لے کر اپنے کزن کے پاس آیا تھا۔
”لیجئے بابو جی ماڈل ٹاﺅن اے بلاک آگیا۔ اب بتائیں آگے کہاں جانا ہے۔“ ٹیکسی ڈرائیور کی آواز نے اس کی سوچوں کو متزلزل کر دیا اور وہ چونک سا گیا۔
اپنے حواس پر قابو پا کر وہ دوبارہ ٹیکسی ڈرائیور سے مخاطب ہوا :
”بھائی اسلامیہ ہائی سکول کے ساتھ والی گلی میں 45نمبر گھر پہنچا دو۔“
”لیجیے بابو جی 45 نمبر کوٹھی آگئی۔“
وہ ٹیکسی سے نیچے اتر کر ٹیکسی ڈرائیور کی طرف متوجہ ہوا :
”بھائی جان آپ ذرا رکیے میں اندر سے کرایہ بھجواتا ہوں۔“
فاروق دروازے پر پہنچ کر رک گیا اس نے کال بیل دبانے کے لیے دو بار ہاتھ بڑھایا اور دونوں بار جھجک کر ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور دماغ میں ہلچل مچی ہوئی تھی کہ بیس سال کے طویل عرصے کے بعد آیا ہوں اور ہاتھ خالی۔ کیسے ان سے ٹیکسی کے کرائے کا کہوں گا۔ میرا چچا زاد بھائی اور اس کی بیوی کیا سوچے گی، میں کیسے ان کا سامنا کروں گا، وہ یہی سوچتے سوچتے چند لمحے بے حس و حرکت کھڑا رہا اور ٹھہری ہوئی نظروں سے یوں ہی دروازے کو گھورتا رہا پھر اس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا اور زور سے سانس لے کر اپنے اندر ہمت پیدا کرتے ہوئے اس نے کال بیل دبا ہی دی۔
”کون“ اندر سے نسوانی آواز ابھری۔
”میں فاروق ہوں واجد کا تایا زاد امریکہ سے آیا ہوں۔“
”فاروق بھائی“ نسوانی آواز نے حیرت سے کہا۔
چند ثانیے بعد دروازہ کھلا اور ایک خاتون نمودار ہوئی اور تجسس سے فاروق کو گورتے ہوئے بولی :
”بھائی جان میں آپ کی بھابھی ہوں، آپ اندر آئیں، باہر کیوں کھڑے ہے۔“
”ہاں— میں ٹیکسی سے سامان اور کرایہ ادا کرکے آتا ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ ابھی مڑنا ہی چاہتا تھا کہ اس کی بھابھی نے روک لیا اور کہنے لگی :
”بھائی جان آپ اندر آئیں، ملازم خود ہی کرایہ ادا کرکے سامان اٹھا لائے گا“ یہ الفاظ سنتے ہی فاروق کے دل کی دھڑکن قدرے تھمی اور اس نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے اس کو شرمندگی سے بچا لیا ہے۔
فاروق چائے کا گھونٹ لے کر بھابھی سے مخاطب ہوا:
”بھابھی یہ واجد کب لوٹتا ہے۔“
”بس آتے ہی ہوں گے وہ تو آپ کے آنے کی خوشی میں آج آفس بھی نہیں گئے۔ بس آپ کے آنے سے تھوڑی دیر پہلے باہر کو گئے تھے۔“ یہ الفاظ کہے ہی تھے کہ اوپر سے واجد نمودار ہوگیا۔
دونوں کے چہرے کی رنگت جذباتی کشاکشی کے باعث آہستہ آہستہ بدل رہی تھی اور دونوں کے ہونٹ خوشی سے کانپ رہے تھے اور آنکھوں میں خوشی کے آنسو امنڈ پڑے تھے وہ چند لمحے یونہی ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر یکایک وہ دونوں تیزی سے ایک دوسرے کی طرف بڑھتے ہوئے بغل گیر ہوگئے۔
اس رات ان دونوں کے درمیان دیر تک باتوں کا دور چلتا رہا، وہ ڈھیر ساری باتیں وہ جو بیس سال تک ایک دوسرے سے نہ کرسکے تھے وہ کر ڈالی بہت سی پرانی یادوں کو روشن کیا، عزیز ،رشتے داروں اور یار دوستوں کی باتیں کی گئیں، باتوں میں ہی کافی رات بیت گئی۔
دوسرے دن واجد اپنی ضروری میٹنگ میں شرکت کرنے کے لیے آفس چلا گیا تو فاروق گھر سے گھومنے پھرنے کے لیے نکل پڑا وہ اس شہر کو گھوم پھر کر دیکھنا چاہتا تھا جس کو وہ کبھی نہ بھولا تھا ابھی وہ گلی کی نکڑ پر ہی پہنچا تھا تو اسے تذبذب نے گھیر لیا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ سامنے خوبصورت اور قیمتی بنگلے سے جو عورت گاڑی میں بیٹھ کر باہر گئی ہے وہ اس کی پرانی محلے دار بلو تھی۔ اس عورت پر نظر پڑتے ہی اس کے ذہن میں وہ تلخ یادیں اُبھر پڑیں جس کو وہ اپنے ماضی کے مزار میں کب کا دفنا چکا تھا، وہ ان کو یاد کرنا بھی نہ چاہتا تھا لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی وہ یادیں ابھر کر اس کے سامنے آ کھڑی ہوئیں۔
مسجد کے باہر لوگوں کا جم غفیر تھا تاحدنگاہ لوگوں کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ اس مجمعے میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جن کو اصل واقعے کا علم تک نہ تھا مگر وہ چہ میگوئیاں سن کر اکٹھے ہوگئے تھے اور واقعے کی اصل روح کو جاننے کے لیے ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے۔ جن لوگوں کو اصل واقعے کی تھوڑی بہت سُدھ بُدھ تھی وہ اس واقعے کو یوں بیان کر رہے تھے جیسے واقعہ خود ان کے سامنے رونما ہوا ہے۔ محلے کی عورتوں نے تو اس واقع کو پوری بستی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلایا ہوا تھا جس کسی کے کان میں اس واقع کی ذرہ سی آہٹ پہنچتی وہ فٹافٹ وقوعہ کی طرف بھاگتا خصوصاً عورتیں جھوک در جھوک ٹولیوں کی شکل میں مسجد کے پاس اکٹھی ہو رہی تھیں۔ مائیں بچوں کو چھاتیوں سے لگائے بھاگم بھاگ اتنی جلدی سے گھر سے نکلی تھیں کہ ان کو اتنی ہوش نہ رہی تھی کہ وہ پاﺅں میں جو سلیپر پہن رہی ہے وہ دونوں ایک ہی سیٹ کے ہے کہ نہیں۔ غرض آج کتنے لوگ آس بھری نگاہوں سے مولوی صاحب کے چہرے کو دیکھ رہے تھے اور مولوی صاحب لوگوں کو صبح کے واقعے کی مکمل تفصیلات سنا رہے تھے۔
”آج صبح جب میں فجر کی اذان پڑھنے کے لیے مسجد میں آیا تو میری نگاہ مسجد کے مین دروازے کی سیڑھیوں پر پڑی وہاں پر دو کتے کپڑے میں لپٹی کسی چیز کو نوچنے کی جستجو میں تھے وہ اس کو نوچنے کے لیے آگے بڑھتے پھر یکدر پیچھے ہٹ جاتے۔ میں یہ منظر دیکھ کر ٹھٹک سا گیا پھر ہمت باندھ کر آگے بڑھا تو دیکھا کپڑے میں چند گھنٹوں کا بچہ لپٹا ہوا ہے، اس کا جسم خون آلود تھا۔ اس کی خون آلود گردن پر ہاتھوں کے نشانات واضح تھے جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ کسی نے پہلے اس کا گلا گھونٹ کر مارنے کی کوشش کی لیکن پھر شاید اس کا دل نہ مانا ہو اور وہ اپنا گناہ چھپانے کے لیے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو یہاں پھینک گیا۔
بچہ جب اپنے ہاتھ پاﺅں ہلاتا تھا تو کتے ڈر کر پیچھے ہٹ جاتے تھے، نہ جانے کتنی دیر تقدیر اس طرح بچے کو ان کتوں سے بچاتی رہی۔ میں نے آگے بڑھ کر بچے کو کتوں سے بچایا اور اسے اپنے گھر لے گیا۔ میری بیوی نے اس کو نہلا دھلا کر کپڑے پہنا دیے ہے۔ اب آپ لوگ بتائیں ہمیں اس نازک موقع پر کیا کرنا چاہیے؟ کیا یہ معاملہ پولیس کے سپرد کر دینا چاہیے یا پھر اس کا کوئی اور حل نکالنا چاہیے۔ مولوی صاحب نے ساری صورت حال سنا کر معاملہ محلے والوں کے سپرد کر دیا تھا۔
محلے والوں کے جمگٹھے میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا تھا کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ فوراً پولیس کو اطلاع کر دینی چاہیے تاکہ وہ لوگ بے نقاب ہو جائیں جنہوں نے محلے کی عزت خاک میں ملائی ہے ایسے سنگدل اور بے غیرت لوگوں کو کیفر کردار تک ضرور پہنچنا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی اور ایسا واقع رونما نہ ہوسکے۔ لیکن اسی مجمعے میں موجود کچھ سمجھ دار بزرگوں کا خیال تھا کہ اس طرح اصل مجرم تو شاید پکڑے نہ جائیں البتہ بہت سے شرفا کو پولیس تنگ ضرور کرے گی کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کسی اور محلے میں یہ واقع رونما ہوا ہو اور وہ لوگ اس کو یہاں پھینک گئے ہوں تاکہ پولیس ان کو ڈھونڈ نہ سکے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ کوئی شخص جو اس بچی کو اپنانا چاہے وہ اس بچی کو اپنے ساتھ لے جائے یہی اس بچی کے مستقبل کے لیے بہتر ہوگا اور محلے کی عزت کے لیے بھی مناسب رہے گا۔ سب لوگ اس تجویز کے حق میں ہوگئے تو بہت سے لوگوں نے فوراً اس بچی کو گود لینے کی خامی بھر لی تھی۔
آخرکار مولوی صاحب نے محلے کے معزز لوگوں کے مشورے سے یہ بچی اسی محلے کی ایک بیوہ عورت کے سپرد کر دی تھی، اس عورت کی اپنی تو کوئی اولاد نہ تھی اور وہ اس دنیا میں اکیلی تھی۔ شاید اسی لیے محلے داروں نے اس کی اپیل منظور کرتے ہوئے یہ بچی اس کے سپرد کر دی تھی تاکہ اس کا اکلاپا دور ہوسکے۔ بچی کی تحویل کے بعد لوگ وہاں سے منتشر ہونا شروع ہوگئے تھے۔
اسی مجمعے میں وہ شخص بھی شامل تھا جس کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا تھا یعنی بچی کا حقیقی باپ بھی شامل تھا۔ جب مجمع منتشر ہونا شروع ہوا تو وہ اکیلا گلی کی آخری نکڑ کے نزدیک غلاظت کے ڈھیر کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا اور بکھرتے ہوئے لوگوں کو عجیب نظروں سے دیکھنے لگا۔ اس نے غلاظت کے اس ڈھیر پر کھڑے کھڑے سوچا :
”کہ کیا میں ایسے خوابوں کی تعبیر کے لیے شہر آیا تھا ہرگز نہیں مجھے تو شہلا کی سچی محبت شہر لے آئی تھی اور میں شہلا کی محبت کی چنگاریاں دل میں دبائے شہر تعلیم حاصل کرنے کا بہانہ بنا کر چلا آیا تھا۔ماں جیسی محبت کرنے والی خالہ کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچائی، میں خالہ کے اس احسان کو بھول نہیں سکتا تھا جب مجھے ہاسٹل میں داخلہ نہیں مل رہا تھا اور یہاں رہنے کا کوئی خاطر خواہ انتظام بھی نہیں ہو رہا تھا جس کی وجہ سے مجھے سخت پریشانی لاحق تھی۔ اِن مشکل حالات میں خالہ ہی تھی جس نے مجھے اپنے گھر رہنے کا گویا حکم صادر کر دیا تھا میں بھی تو یہی چاہتا تھا۔ “
خالہ کے گھر قیام پذیر ہو کر اس کی دلی تمنا بھر آئی تھی اور وہ عشق میں اس قدر اندھا ہوگیا کہ نہ جانے اس سے کتنی بار نادانی ہوگی اور وہ اپنے نفس پر کبھی بھی کنٹرول نہ کرسکا تھا۔ اس کا احساس اسے تب ہوا جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ شہلا نے بھی تو اسے بروقت نہ بتایا تھا وہ بتاتی بھی کیسے وہ خود تو مہینہ مہینہ بھر گھر نہ لوٹتا ہر وقت یونین کی لیڈر شپ حاصل کرنے کے چکر میں لگا رہتا۔
وہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو یوں بے یارو مددگار نہ چھوڑتا اگر حسیب نے اس کے پیچھے غنڈے نہ لگائے ہوتے وہ ضرور شہلا سے شادی کر لیتا لیکن اب کچھ بھی تو نہیں کیا جاسکتا تھا۔ حالانکہ اس نے خالہ سے مہلت بھی مانگی تھی لیکن انہوں رات کی تاریکی میں ایک گھنٹے کا بچہ اس کی گود میں تھما دیا اور حکم دیا :
”اگر تو فوراً شہلا سے شادی نہیں کرسکتا تو اس بچی کو یہاں سے لے کر چلے جاﺅ اگر شہلا کے بھائیوں کو معلوم ہوگیا تو وہ تمہارا خون کر دیں گے۔“ ان مشکل حالات میں وہ کہاں جاتا اس کے تو چاروں طرف موت منڈلا رہی تھی، ایک طرف حسیب کے بھیجے ہوئے غنڈے اور دوسری طرف شہلا کے بھائیوں کا ڈر۔
اس کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا کہ وہ اس معصوم بچی کو یہیں کہیں خدا کے سہارے چھوڑ دے تاکہ کوئی نہ کوئی اس کو اپنا لے، جب حالات اس کے حق میں بہتر ہو جائیں گے تو وہ کسی نہ کسی بہانے سے اپنی بچی کو واپس لے لیں گا۔ یہ سوچ کر اُس نے بچی کو مسجد کی سیڑھیوں پر رکھ دیا تھا لیکن جب بچی محفوظ ہاتھوں میں چلی گئی تو اس کی جان کو سکون ملا اور اس کے دل میں خیال پیدا ہوا :
”جب حالات میرے حق میں بہتر ہو جائیں گے تو میں شہلا سے شادی رچا کر اپنی بچی اس عورت سے واپس لے لوں گا۔ میں ہرگز ہرگز اپنی بچی کو اس جیسی عورت کے پاس نہیں رہنے دوں گا کیونکہ یہ عورت جو دھندہ کرتی ہے وہ قابل عزت نہیں، میں اپنی بیٹی پر اس کا سایہ زیادہ عرصے نہیں پڑنے دوں گا اور جلد از جلد اپنی بیٹی کو اس سے واپس لوں گا۔“
لیکن حالات اس کی سوچوں سے برعکس نکلے یا اس نے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ ہی نہ کیا، بہرکیف اسے اپنی جان بچانے کے لیے ملک چھوڑ کر امریکہ جانا پڑا تھا۔ امریکہ پہنچ کر وہ وہاں کے ماحول میں اس طرح رچ بس گیا کہ اسے شہلا اور اپنی بچی کا ذرہ برابر احساس نہ رہا کہ وہ کس حالت میں ہوں گے وہ ان کو ایسے بھول گیا جیسے وہ کبھی ان کو جانتا تک نہ ہو۔ لیکن اب جب بیس سال کے لمبے عرصے کے بعد اس عورت پر نظر پڑی جس نے اس کی بے سہارا بچی کو گود لیا تھا تو اس کے اوسان خطا ہوگئے، اس کو ایک عجیب سی افسردگی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کا دل ڈوب رہا ہو۔ ایسی حالت میں اس نے آگے جانے کا ارادہ ترک کیا اور سست قدموں سے واپس گھر کی طرف لوٹ پڑا۔
اس کے بدن پر لرزہ طاری تھا جس کی وجہ سے قدم آگے اٹھانے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی، کیونکہ خوف نے اس کے اعصاب پر بُرا اثر ڈالا تھا اس کے باوجود وہ کسی نہ کسی طرح چلتا رہا اور اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا گھر تک پہنچ ہی گیا۔
دن کی روشنی آہستہ آہستہ ماند پڑ رہی تھی اور اس کی جگہ رات کی تاریکی قبضہ جما رہی تھی۔ غرض دن بھر کی سخت گرمی کے بعد موسم خاصا خوشگوار ہوچکا تھا لیکن اس کے باوجود اس کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی تھی اور اس کے ذہن میں ایک ہی سوال منڈلا رہا تھا کہ یہ عورت اتنی امیر کیسے ہوگئی کیا اس نے میری بیٹی کو بھی— یہ سوچتے ہی اس کے جسم میں کپکپاہٹ ہونے لگتی اور وہ شرمندگی سے پانی پانی ہو جاتا۔ اتنے میں واجد آفس سے لوٹ آیا۔
فاروق نے بہت کوشش کی کہ وہ اپنی ذہنی کشاکشی کو واجد سے چھپائے رکھے وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔ اس کی پریشانی بھی بجا تھی کیونکہ وہ اس عورت کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ اس عورت کا نام بلو تھا، اس کی شہرت خصوصاً محلے کے نوجوانوں میں اچھی نہ تھی۔ اس نے محلے میں جسم فروشی کا کاروبار محدود پیمانے پر شروع کیا ہوا تھا جس کا علم محلے کے چند نوجوانوں کے سوا کسی اور کو نہ تھا۔ وہ کبھی بھی اس جیسی عورت کے پاس اپنی بیٹی کو جانے نہ دیتا لیکن حالات اس کے کنٹرول میں نہیں رہے تھے اور وہ حالات کے سامنے بے بس ہوچکا تھا۔
آج رات بھی گزشتہ رات کی طرح خوب رت جگا ہوا اور وہ باتوں ہی باتوں میں جس مہارت کے ساتھ گفتگو کا رخ اس عورت کی طرف موڑنے میں کامیاب ہوا تھا اتنی ہی مہارت سے وہ واجد سے اس عورت کے متعلق وہ سب کچھ پوچھنے میں کامیاب ہوگیا جس نے اس کو پریشان کر رکھا تھا۔
واجد بتا رہا تھا کہ مجھے اس علاقے میں آئے آٹھ برس بیت چکے ہیں میں اس عورت کو انہی آٹھ برسوں سے جانتا ہوں۔ ویسے ان عورتوں کے متعلق مجھے بہت سے لوگ قصے کہانیاں سناتے تھے لیکن مجھے ان کی باتوں پر یقین نہیں آتا تھا لیکن پھر مجھے رفتہ رفتہ ان سب باتوں پر یقین آنے لگا جن پر پہلے نہیں آتا تھا۔ بس تمہیں بتانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ عورت اور اس کی بیٹی اتنی خبیث ہے کہ ان دونوں کے متعلق ذکر کرنا بھی فضول ہے۔ اس لیے کچھ اور بات کی جائے۔
اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں، ہونٹوں پر لرزہ طاری ہوگیا جس کی وجہ سے اس کے اعصاب خستہ اور کشیدہ ہو رہے تھے پھر بھی وہ خود کو سنبھال کر بات کرنے لگا۔
”واجد مجھے وہ سب کچھ بتا دو جو تم اس کے متعلق جانتے ہو، میں سننا چاہتا ہوں۔“
واجد اٹھ کھڑا ہوا الجھن اور تذبذب میں گھرا ہوا۔ لیکن تم کیوں اس کے متعلق جاننا چاہتے ہو، کیا تم اس کو پہلے سے جانتے ہو— وہ مزید کچھ کہنا چاہتا تھا معاً رک گیا کیونکہ وہ ایک الجھن سی محسوس کر رہا تھا لیکن پھر نہ جانے کیوں وہ اس کے سامنے بیٹھ کر بڑے پیار سے وہ سب کچھ سنانے لگ پڑا جو وہ جانتا تھا۔
فاروق مجھے نہیں معلوم ان عورتوں کا ماضی کیسا رہا ہے ہاں البتہ مجھے ان کے حال کے متعلق بہت کچھ معلوم ہے وہ بھی اس طرح کہ میں خود بھی ان عورتوں کی مکاری کا شکار رہ چکا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ تم ان سے محفوظ رہو گے۔
فاروق بھائی میری پہلی ملاقات اس عورت کے ساتھ اس وقت ہوئی جب میں اپنا آبائی گھر چھوڑ کر ماڈل ٹاﺅن میں آباد ہوا تھا۔ محلے داری ہونے کی بناءپر میرے ان کے ساتھ تعلقات بہت گہرے ہوگئے یا یوں کہہ لیجیے ان عورتوں نے مجھے مالدار اسامی سمجھتے ہوئے میرے ساتھ زبردستی تعلقات استوار کر لیے بہرحال بات جو بھی تھی۔ میرا ان کے گھر بہت زیادہ آنا جانا ہوگیا اسی اثناءمیں اس کی بیٹی روبی نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ میں اس سے عمر میں کافی بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ دو بچوں کا باپ بھی ہوں۔ اس نے میرے گرد ایسا محبت کا جال پھلایا کہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس میں پھنستا ہی چلا گیا۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ اس وقت میری عقل ماند پڑ گئی تھی اور میں بہت جلد اس کی محبت کو حقیقت جان کر اس کے جال میں بری طرح پھنستا چلا گیا۔ رفتہ رفتہ میں اس کی محبت میں اس قدر اندھا ہوگیا تھا کہ بلا کچھ سوچے سمجھے اپنی حق حلال کی کمائی ان پر اندھا دھند لٹانے لگا اور ان کی خواہشات تھی کہ بڑھتی ہی چلی جاتی تھیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ آخرکار میری موجودہ نوکری طویل غیر حاضری اور عدم دلچسپی کی بناءپر خطرے میں پڑ گئی اور میں بہت سے لوگوں کا بھی مقروض ہوگیا۔ میں نے کئی بار اس عورت سے کہا بھی کہ اب وہ اپنی بیٹی کی شادی میرے ساتھ کر دے لیکن وہ حیلے بہانے بناتی رہتی تھی کبھی بھی اس نے شادی کی حامی نہ بھری کیونکہ وہ عورت مکار تھی اور میں کم عقل، وہ تو صرف مجھے لوٹنا چاہتی تھی اور میں بڑا بھولا بنا لٹتا جا رہا تھا اور مجھ پر قرض کا بوجھ رفتہ رفتہ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا، آخرکار میرے پاس ان کو دینے کے لیے کچھ بھی نہ رہا تو ان عورتوں نے مجھ سے پیچھا چھڑوانے کے لیے مجھ پر آبرو ریزی کا جھوٹا مقدمہ ڈلوانے کی کوشش کی، میں تو پائی پائی کا محتاج ہوچکا تھا اور مزید کسی مصیبت میں پھنسنا نہیں چاہتا تھا اس لیے میں نے ان عورتوں سے معافی مانگ کر اور ان کو یہ یقین دہانی کروا کر پیچھے ہٹ گیا کہ میں اب ان سے کسی قسم کا کوئی تعلق واسطہ نہ رکھوں گا۔ جب میں ان سے مکمل طور پر کنارہ کش ہوگیا اور مجھ پر عشق کا بھوت اتر گیا تو پھر مجھے ان کی حقیقت کا پتہ چلا کہ ان عورتوں کا کاروبار ہی یہی ہے کہ وہ مجھ جیسے لوگوں کو پھنسا کر ان کو ٹکا ٹوکری کر دیتی ہیں۔ انہوں نے تو مجھے بھی کہیں کا نہیں چھوڑا تھا، وہ تو میرے اللہ کی کرم نوازی کہ میں دوبارہ سنبھل گیا اور اپنا وہ مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا جو میں اپنی حماقت کی وجہ سے کھو بیٹھا تھا۔
فاروق میں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا کہ ان عورتوں نے بڑی تیز رفتاری کے ساتھ اپنے تعلقات بہت سے سیاست دانوں اور راﺅسا کے ساتھ استوار کر لیے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی بیٹی روبی ملک کی مشہور ماڈلز بن گئی اور اس کے اسکینڈل اور ان کے قتل اور اغواءکی دھمکیاں جیسی خبریں اخبارات میں چھپتی رہیں لیکن میں نے کبھی بھی ان خبروں اور ان عورتوں پر توجہ نہیں دی کیونکہ میں جانتا تھا ان مکار عورتوں کو، کیونکہ میں خود ان کے ہاتھوں لٹ چکا تھا۔
واجد کی باتیں سن کر وہ سٹ پٹا گیا تھا اور یوں ہی ساکت و صامت بیٹھا کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ دفعتاً واجد کو ایسے محسوس ہوا جیسے یہ میری باتوں پر توجہ نہیں دے رہا اور وہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔
”فاروق ٹھیک تو ہو“۔
”ہاں.... میں بالکل ٹھیک ہوں، اور سُن رہا ہوں تمہاری باتیں“ اس سے پہلے کہ واجد اپنی بات کو مزید آگے بڑھتا دفعتاً گلی شدید ترین فائرنگ کی آواز سے گونج اٹھی اور وہ اپنا موضوع وہیں پر ہی ختم کر کے اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لیے چلے گئیں کیونکہ ان کے خیال میں باہر جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔
بے یقینی اور بے سروسامانی اس کے دل و دماغ پر طاری تھی کہ میں اب کیا کروں، ”کیا مجھے اپنی بیٹی سے ملاقات کرنی چاہیے یا نہیں“ ابھی وہ کوئی فیصلہ کر ہی نہ پایا تھا کہ نیند نے اس کو اپنی آغوش میں لے لیا۔
صبح کے اخبار نے ان دونوں کو ششدر کرکے رکھ دیا کیونکہ اخبار کی مین سرخی ہی یہی تھی مشہور ماڈلز روبی اور اس کی والدہ کو رات کسی نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔“
یہ خبر پڑھتے ہی اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے پورے وجود پر چیونٹیاں سی رینگ رہی ہو اور اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بے حد اکیلا ہوگیا ہو۔ پورا شہر اسے ویران نظر آ رہا تھا۔ زندگی بالکل بے معنی اور بے مقصد محسوس ہو رہی تھی۔ کبھی تو اسے یوں محسوس ہوتا جیسے زندہ رہ کر وہ کوئی جرم کر رہا ہے۔ پہلی بار اس پر یہ حقیقت عیاں ہوئی تھی کہ اس نے اپنے وطن سے بھاگ کر اپنی جان تو بچا لی تھی لیکن دو زندگیوں کو زندہ درگور کر دیا تھا اور اس کے ساتھ اپنی اس خالہ کو بھی دُکھ پہنچایا تھا جس کی محبت کا سایہ اس کے لیے مضبوط سہارا اور پناہ گاہ تھی جس میں وہ دنیا کے ہر دُکھ سے محفوظ ہو جاتا تھا۔
دُکھ اور مایوسی کا المناک اندھیرا کچھ دن اس پر مسلط رہا پھر رفتہ رفتہ وہ سنبھل گیا۔
—————
بیس سال کے لمبے عرصے کے بعد فاروق نے دوبارہ اس سَرزمین پر قدم رکھا تھا۔ ان بیس سالوں میں شہر بہت وسعت اختیار کر گیا تھا اور اس میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوچکی تھیں۔ وہ ان تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے سیدھا ریلوے اسٹیشن کی عمارت کے سامنے والے پارک میں چلا گیا۔ یہ پارک اس کی بہت سی پُرانی یادوں کا گہوارہ تھا یہی وجہ تھی کہ وہ سفر کی تھکاوٹ اور گرمی کی شدت کی پرواہ کیے بغیر یہاں آ گیا تھا۔ جب وہ پہلی بار لاہور آیا تھا تو اسی پارک میں اس نے اپنی پہلی رات بسر کی تھی لیکن جب اس کے لیے لاہور کے درو دیوار تنگ ہوگئے تو یہی پارک اس کا سہارا بنا۔ وہ اس شہر کی ہر یاد بھول سکتا تھا لیکن اس پارک کو نہیں بھول سکتا تھا۔ اسی لیے تو وہ اپنے دوسرے سفر کا آغاز بھی یہیں سے کر رہا تھا۔
پارک میں پہنچ کر وہ وہیں چونکڑی مار کر بیٹھ گیا۔ اپنے ہاتھ میں پکڑے رومال سے اس نے اپنے چہرے اور گردن سے پسینہ پونجھ کر اپنے بیگ سے منرل واٹر کی بوتل نکال کر پانی پینا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ وہ شہر کی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے اپنے چاروں طرف یوں نگاہ دوڑا رہا تھا جیسے وہ لاہور میں پہلی بار آیا ہو۔ دفعتاً پچیس تیس سالہ نوجوان جو کلف لگے سفید شلوار سوٹ میں ملبوس تھا اس نے پاﺅں میں پشاوری چپل پہن رکھی تھی، گویا شکل و صورت سے کھاتے پیتے گھرانے کا فرد معلوم ہوتا تھا، سامنے آ کھڑا ہوا اور اس نے بڑے عاجزانہ انداز میں کہا ”السلام و علیکم “!
”واعلیکم السلام ! محترم میں نے آپ کو پہچانا نہیں آپ کون ہے؟“ فاروق نے حیرانگی سے اس شخص سے پوچھا۔
وہ شخص بڑی معصوم سی شکل بنا کر اپنی بپتا سنانے لگ پڑا۔
”بھائی جان میں بہاولپور سے یہاں نوکری کے لیے انٹرویو دینے آیا تھا یہاں پر میری جیب کٹ گئی، اب میرے پاس واپسی کا کرایہ نہیں، آپ مجھے بہاولپور کا کرایہ دے دیں۔ بھائی جان میں کوئی بھکاری نہیں ہوں، مجھے سوال کرتے ہوئے خود شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔ بھائی جان میں تین گھنٹے سے یہاں پریشان گھوم رہا ہوں، لیکن کسی سے سوال کرنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی بس آپ کو مخلص اور مہربان جان کر آپ کے پاس چلا آیا کہ شاید آپ میری مدد کر دیں۔ بھائی جان آپ کو میری باتوں کا اعتبار نہیں تو آپ سیکیورٹی کے طور پر میری اسناد اور قومی شناختی کارڈ اپنے پاس رکھ لیں۔ میں آپ کے پیسے واپس جا کے منی آرڈر کے ذریعے لوٹا دوں گا اور اپنی اسناد اور شناختی کارڈ واپس منگوا لوں گا۔ ہم زمیندار لوگ ہے، کوئی بھکاری نہیں۔ بھائی جان مجھے خود بہت شرم آ رہی ہے، اس طرح سوال کرتے ہوئے لیکن کیا کروں واپس بھی تو جانا ہے، صبح کا بھوکا ہوں۔“ وہ روتے ہوئے اپنی تعلیمی اسناد اور قومی شناختی کارڈ فاروق کے سامنے رکھ کر بڑی مسکین سی شکل بنا کر بیٹھ گیا۔
اس شخص نے اپنی فریاد کچھ اس طرح سے سنائی کہ فاروق کا دل پسیج گیا اور وہ اس کی باتوں کو سچ مان گیا اسی لیے اس نے اس شخص کا شناختی کارڈ اور اسناد اپنے پاس رکھنا مناسب نہ جانا اور اُس کا شناختی کارڈ اور اسناد واپس لوٹاتے ہوئے اپنا دوسرا ہاتھ اپنی پتلون کی پچھلی جیب میں ڈال کر بٹواہ باہر نکال لیا، ابھی وہ بٹوے سے پیسے نکال ہی رہا تھا کہ وہ شخص بجلی کی سی تیزی سے اس پر جھپٹ پڑا اور بٹواہ چھین کر رفوچکر ہوگیا۔
فاروق اس کے پیچھے بھاگا لیکن چند قدم اٹھانے کے بعد اس کے پاﺅں میں اچانک موچ آ گئی اور وہ وہیں بیٹھ گیا۔ اگر اس کے پاﺅں میں اس وقت موچ نہ آتی تو وہ ضرور اس شخص کو پکڑ لیتا اور اس کو اتنا مارتا کہ اس کا حلیہ بگڑ جاتا لیکن اب کیا کیا جاسکتا تھا وہ شخص تو لوگوں کے ہجوم میں گم ہوچکا تھا۔
فاروق نے سوچا کہ میں ٹیکسی میں بیٹھ کر ماڈل ٹاﺅن اپنے کزن کے ہاں چلا جاﺅں، ٹیکسی کا کرایہ خود ہی اس کا کزن واجد ادا کر دے گا۔ اس سوچ کے آتے ہی اس کی نظریں ٹیکسی کی تلاش میں اِدھر اُدھر گھومنے لگیں۔ دفعتاً اس کی نظر مسجد کے بڑے دروازے سے کچھ ہی آگے لگی گنے کی مشین پر جا کر رک گئی۔ وہاں ایک چھوٹے سے قد والا شخص میلی بنیان، گھٹنوں سے اونچی شلوار پہنے بڑی مستعدی سے گنے کی مشین سے گنوں کا رس نکالتا اور ٹھنڈے ٹھنڈے رس کے گلاس گاہکوں کو دے رہا تھا۔
اِس شخص پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ جلدی سے جا کر اس شخص کو مشین میں اس طرح بیل دے جیسے یہ گنے کو بیلتا ہے۔ اس طرح اس کا سارا خون نچڑ جائے گا اور میرے تن بدن میں ٹھنڈ پڑ جائے گی۔ یہ وہی شخص تھا جس کی مکاری اور چال بازی کی وجہ سے وہ شہر چھوڑ کر بھاگا تھا۔
یہ فاروق کا کالج فیلو حسیب تھا۔ ان دونوں میں کبھی اس قدر گہری دوستی ہوا کرتی تھی کہ کالج کے دوسرے طالب علم ان کی دوستی کی تعریف ایسے کرتے کہ یہ دونوں دو جسم اور ایک جان ہے۔ پھر یکایک ان دونوں میں پھوٹ پڑ گئی۔ ان دونوں میں پھوٹ پڑنے کی اصل وجہ کالج یونین کی صدارت تھی۔ صدارت حاصل کرنے کے لیے وہ دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے تھے۔
فاروق زمیندار گھرانے کا چشم و چراغ تھا، آرام و آرائش اس کے گھر کی لونڈی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ دنیا کی جو چیز اُسے پسند آتی دولت کے بل بوتے پر خریدنا چاہتا تھا۔ جب اسے یونین کی لیڈری کا شوق چڑھا تو اس نے روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہا دیا لیکن کامیاب پھر بھی نہ ہوسکا۔ اس کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ حسیب تھا جو گزشتہ دو سال سے یونین کا بلامقابلہ صدر چلا آ رہا تھا۔ لیکن اب فاروق ہر قیمت پر صدارت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اس نے حسیب کے مقابلے میں اپنا ایک گروہ بھی بنا لیا تھا۔
حسیب بھی تو اتنی آسانی سے اپنی چوہدراہٹ جاتے دیکھ نہیں سکتا تھا اور اس نے اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنے کے لیے ہر وہ ہربہ استعمال کیا جو وہ بڑی آسانی سے استعمال کرسکتا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں وہ فاروق کے گروہ کو دھمکیوں اور بدمعاشی سے توڑنے میں کامیاب ہوگیا اور فاروق کا کام تمام کرنے کے لیے اس نے شہر کے تمام غنڈے اس کے پیچھے لگا دیں جو بھوکے کتے کی طرح اس کی تلاش میں تھے۔ فاروق کا تو خیال تھا کہ وہ اپنی دولت کے بَل بوتے پر حسیب کو منظر سے ہٹا کر خود صدر بن جائے گا لیکن یہ تو اس کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ حسیب اس طرح غنڈے اس کے پیچھے لگا دے گا۔ وہ غنڈوں کو بھی خرید سکتا تھا لیکن وقت نے اسے اتنی مہلت ہی نہ دی تھی کہ وہ اپنے بچاﺅ کے لیے جدوجہد کرتا کیونکہ اس نے خود اپنی نادانی کی وجہ سے اپنی سگی خالہ کو بھی اپنا دشمن بنا لیا تھا۔ چنانچہ اس کے حق میں یہی بہتر تھا کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے کیونکہ وہ اکیلا دو محاذوں پر لڑ نہیں سکتا تھا۔ حالات کی نزاکت کو سمجھ کر وہ اپنا ملک چھوڑ کر امریکہ چلا گیا۔
بیس سال کے بعد وہ یہاں گھرے مردے اکھاڑنے نہیں آیا تھا بلکہ وہ تو یہاں اپنا کاروبار شروع کرنے کے سلسلے میں آیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے دماغ نے یہ سوچنا بھی گوارا نہ کیا کہ یہ شخص اتنا غریب کیسے ہوگیا وہ تو اس کی طرف دیکھنا بھی گناہ سمجھتا تھا اسی لیے تو وہ اس پر دو حرف بھیج کر دوسری طرف ہوگیا جہاں اسے ٹیکسی مل گئی اور وہ ماڈل ٹاﺅن کی طرف روانہ ہوگیا۔
ٹیکسی اپنی راہوں پر رواں دواں تھی اور وہ خاموش بیٹھا کسی گہری سوچ میں گھرا ہوا تھا۔ لیکن اس کی پرشوق آنکھیں گردوپیش کو پہچاننے کی جستجو میں تھیں۔ اردگرد کا ماحول اس نے ان گنت بار دیکھا ہوا تھا لیکن اب بیس سال کے بعد اس میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوچکی تھیں۔ سڑک کے دونوں جانب خوبصورت اور خوشنما عمارتیں وجود میں آ چکی تھیں۔ وہ اس بدلے ہوئے ماحول کو پُرتجسس نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
بیس سال دیارِ غیر میں رہنے کے باوجود بھی وہ وہاں پر اجنبیوں کی سی زندگی بسر کر رہا تھا، اجنبیت کا احساس اس کے وجود کو ریزہ ریزہ کر دیتا تھا اور اس کا وجود اپنی مٹی کی خوشبو کے لیے تڑپ اٹھتا۔ آخر مٹی کی کشش اس کو وطن واپس لے آئی۔ اپنے وطن میں وہ اسی شہر سے اپنے نئے دور کا آغاز کرنا چاہتا تھا جہاں کے درو دیوار خود اسی کی کم عقلی کی وجہ سے تنگ ہوگئے تھے۔ یہ شہر اس کا آبائی شہر نہ ہونے کے باوجود بھی اپنا سا تھا، یہاں اس نے بہت کچھ کھویا اور پایا تھا۔ اس شہر کی یاد اسے ہر دم تڑپاتی تھی۔ یہ اس شہر کی محبت ہی تو تھی کہ جب وہ امریکہ سے واپس اپنے گاﺅں پہنچا تو اس کا وہاں پر دل نہ لگا تو اس نے یہ پختہ ارادہ کر لیا کہ اسی شہر کو اپنا مستقل آشیانہ بناﺅں گا جس کو میں کبھی نہ بھول پایا ہوں۔ چنانچہ اس شہر میں اپنا مستقل آشیانہ بنانے کا ارادہ لے کر اپنے کزن کے پاس آیا تھا۔
”لیجئے بابو جی ماڈل ٹاﺅن اے بلاک آگیا۔ اب بتائیں آگے کہاں جانا ہے۔“ ٹیکسی ڈرائیور کی آواز نے اس کی سوچوں کو متزلزل کر دیا اور وہ چونک سا گیا۔
اپنے حواس پر قابو پا کر وہ دوبارہ ٹیکسی ڈرائیور سے مخاطب ہوا :
”بھائی اسلامیہ ہائی سکول کے ساتھ والی گلی میں 45نمبر گھر پہنچا دو۔“
”لیجیے بابو جی 45 نمبر کوٹھی آگئی۔“
وہ ٹیکسی سے نیچے اتر کر ٹیکسی ڈرائیور کی طرف متوجہ ہوا :
”بھائی جان آپ ذرا رکیے میں اندر سے کرایہ بھجواتا ہوں۔“
فاروق دروازے پر پہنچ کر رک گیا اس نے کال بیل دبانے کے لیے دو بار ہاتھ بڑھایا اور دونوں بار جھجک کر ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور دماغ میں ہلچل مچی ہوئی تھی کہ بیس سال کے طویل عرصے کے بعد آیا ہوں اور ہاتھ خالی۔ کیسے ان سے ٹیکسی کے کرائے کا کہوں گا۔ میرا چچا زاد بھائی اور اس کی بیوی کیا سوچے گی، میں کیسے ان کا سامنا کروں گا، وہ یہی سوچتے سوچتے چند لمحے بے حس و حرکت کھڑا رہا اور ٹھہری ہوئی نظروں سے یوں ہی دروازے کو گھورتا رہا پھر اس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا اور زور سے سانس لے کر اپنے اندر ہمت پیدا کرتے ہوئے اس نے کال بیل دبا ہی دی۔
”کون“ اندر سے نسوانی آواز ابھری۔
”میں فاروق ہوں واجد کا تایا زاد امریکہ سے آیا ہوں۔“
”فاروق بھائی“ نسوانی آواز نے حیرت سے کہا۔
چند ثانیے بعد دروازہ کھلا اور ایک خاتون نمودار ہوئی اور تجسس سے فاروق کو گورتے ہوئے بولی :
”بھائی جان میں آپ کی بھابھی ہوں، آپ اندر آئیں، باہر کیوں کھڑے ہے۔“
”ہاں— میں ٹیکسی سے سامان اور کرایہ ادا کرکے آتا ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ ابھی مڑنا ہی چاہتا تھا کہ اس کی بھابھی نے روک لیا اور کہنے لگی :
”بھائی جان آپ اندر آئیں، ملازم خود ہی کرایہ ادا کرکے سامان اٹھا لائے گا“ یہ الفاظ سنتے ہی فاروق کے دل کی دھڑکن قدرے تھمی اور اس نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے اس کو شرمندگی سے بچا لیا ہے۔
فاروق چائے کا گھونٹ لے کر بھابھی سے مخاطب ہوا:
”بھابھی یہ واجد کب لوٹتا ہے۔“
”بس آتے ہی ہوں گے وہ تو آپ کے آنے کی خوشی میں آج آفس بھی نہیں گئے۔ بس آپ کے آنے سے تھوڑی دیر پہلے باہر کو گئے تھے۔“ یہ الفاظ کہے ہی تھے کہ اوپر سے واجد نمودار ہوگیا۔
دونوں کے چہرے کی رنگت جذباتی کشاکشی کے باعث آہستہ آہستہ بدل رہی تھی اور دونوں کے ہونٹ خوشی سے کانپ رہے تھے اور آنکھوں میں خوشی کے آنسو امنڈ پڑے تھے وہ چند لمحے یونہی ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر یکایک وہ دونوں تیزی سے ایک دوسرے کی طرف بڑھتے ہوئے بغل گیر ہوگئے۔
اس رات ان دونوں کے درمیان دیر تک باتوں کا دور چلتا رہا، وہ ڈھیر ساری باتیں وہ جو بیس سال تک ایک دوسرے سے نہ کرسکے تھے وہ کر ڈالی بہت سی پرانی یادوں کو روشن کیا، عزیز ،رشتے داروں اور یار دوستوں کی باتیں کی گئیں، باتوں میں ہی کافی رات بیت گئی۔
دوسرے دن واجد اپنی ضروری میٹنگ میں شرکت کرنے کے لیے آفس چلا گیا تو فاروق گھر سے گھومنے پھرنے کے لیے نکل پڑا وہ اس شہر کو گھوم پھر کر دیکھنا چاہتا تھا جس کو وہ کبھی نہ بھولا تھا ابھی وہ گلی کی نکڑ پر ہی پہنچا تھا تو اسے تذبذب نے گھیر لیا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ سامنے خوبصورت اور قیمتی بنگلے سے جو عورت گاڑی میں بیٹھ کر باہر گئی ہے وہ اس کی پرانی محلے دار بلو تھی۔ اس عورت پر نظر پڑتے ہی اس کے ذہن میں وہ تلخ یادیں اُبھر پڑیں جس کو وہ اپنے ماضی کے مزار میں کب کا دفنا چکا تھا، وہ ان کو یاد کرنا بھی نہ چاہتا تھا لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی وہ یادیں ابھر کر اس کے سامنے آ کھڑی ہوئیں۔
مسجد کے باہر لوگوں کا جم غفیر تھا تاحدنگاہ لوگوں کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ اس مجمعے میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جن کو اصل واقعے کا علم تک نہ تھا مگر وہ چہ میگوئیاں سن کر اکٹھے ہوگئے تھے اور واقعے کی اصل روح کو جاننے کے لیے ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے۔ جن لوگوں کو اصل واقعے کی تھوڑی بہت سُدھ بُدھ تھی وہ اس واقعے کو یوں بیان کر رہے تھے جیسے واقعہ خود ان کے سامنے رونما ہوا ہے۔ محلے کی عورتوں نے تو اس واقع کو پوری بستی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلایا ہوا تھا جس کسی کے کان میں اس واقع کی ذرہ سی آہٹ پہنچتی وہ فٹافٹ وقوعہ کی طرف بھاگتا خصوصاً عورتیں جھوک در جھوک ٹولیوں کی شکل میں مسجد کے پاس اکٹھی ہو رہی تھیں۔ مائیں بچوں کو چھاتیوں سے لگائے بھاگم بھاگ اتنی جلدی سے گھر سے نکلی تھیں کہ ان کو اتنی ہوش نہ رہی تھی کہ وہ پاﺅں میں جو سلیپر پہن رہی ہے وہ دونوں ایک ہی سیٹ کے ہے کہ نہیں۔ غرض آج کتنے لوگ آس بھری نگاہوں سے مولوی صاحب کے چہرے کو دیکھ رہے تھے اور مولوی صاحب لوگوں کو صبح کے واقعے کی مکمل تفصیلات سنا رہے تھے۔
”آج صبح جب میں فجر کی اذان پڑھنے کے لیے مسجد میں آیا تو میری نگاہ مسجد کے مین دروازے کی سیڑھیوں پر پڑی وہاں پر دو کتے کپڑے میں لپٹی کسی چیز کو نوچنے کی جستجو میں تھے وہ اس کو نوچنے کے لیے آگے بڑھتے پھر یکدر پیچھے ہٹ جاتے۔ میں یہ منظر دیکھ کر ٹھٹک سا گیا پھر ہمت باندھ کر آگے بڑھا تو دیکھا کپڑے میں چند گھنٹوں کا بچہ لپٹا ہوا ہے، اس کا جسم خون آلود تھا۔ اس کی خون آلود گردن پر ہاتھوں کے نشانات واضح تھے جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ کسی نے پہلے اس کا گلا گھونٹ کر مارنے کی کوشش کی لیکن پھر شاید اس کا دل نہ مانا ہو اور وہ اپنا گناہ چھپانے کے لیے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو یہاں پھینک گیا۔
بچہ جب اپنے ہاتھ پاﺅں ہلاتا تھا تو کتے ڈر کر پیچھے ہٹ جاتے تھے، نہ جانے کتنی دیر تقدیر اس طرح بچے کو ان کتوں سے بچاتی رہی۔ میں نے آگے بڑھ کر بچے کو کتوں سے بچایا اور اسے اپنے گھر لے گیا۔ میری بیوی نے اس کو نہلا دھلا کر کپڑے پہنا دیے ہے۔ اب آپ لوگ بتائیں ہمیں اس نازک موقع پر کیا کرنا چاہیے؟ کیا یہ معاملہ پولیس کے سپرد کر دینا چاہیے یا پھر اس کا کوئی اور حل نکالنا چاہیے۔ مولوی صاحب نے ساری صورت حال سنا کر معاملہ محلے والوں کے سپرد کر دیا تھا۔
محلے والوں کے جمگٹھے میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا تھا کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ فوراً پولیس کو اطلاع کر دینی چاہیے تاکہ وہ لوگ بے نقاب ہو جائیں جنہوں نے محلے کی عزت خاک میں ملائی ہے ایسے سنگدل اور بے غیرت لوگوں کو کیفر کردار تک ضرور پہنچنا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی اور ایسا واقع رونما نہ ہوسکے۔ لیکن اسی مجمعے میں موجود کچھ سمجھ دار بزرگوں کا خیال تھا کہ اس طرح اصل مجرم تو شاید پکڑے نہ جائیں البتہ بہت سے شرفا کو پولیس تنگ ضرور کرے گی کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کسی اور محلے میں یہ واقع رونما ہوا ہو اور وہ لوگ اس کو یہاں پھینک گئے ہوں تاکہ پولیس ان کو ڈھونڈ نہ سکے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ کوئی شخص جو اس بچی کو اپنانا چاہے وہ اس بچی کو اپنے ساتھ لے جائے یہی اس بچی کے مستقبل کے لیے بہتر ہوگا اور محلے کی عزت کے لیے بھی مناسب رہے گا۔ سب لوگ اس تجویز کے حق میں ہوگئے تو بہت سے لوگوں نے فوراً اس بچی کو گود لینے کی خامی بھر لی تھی۔
آخرکار مولوی صاحب نے محلے کے معزز لوگوں کے مشورے سے یہ بچی اسی محلے کی ایک بیوہ عورت کے سپرد کر دی تھی، اس عورت کی اپنی تو کوئی اولاد نہ تھی اور وہ اس دنیا میں اکیلی تھی۔ شاید اسی لیے محلے داروں نے اس کی اپیل منظور کرتے ہوئے یہ بچی اس کے سپرد کر دی تھی تاکہ اس کا اکلاپا دور ہوسکے۔ بچی کی تحویل کے بعد لوگ وہاں سے منتشر ہونا شروع ہوگئے تھے۔
اسی مجمعے میں وہ شخص بھی شامل تھا جس کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا تھا یعنی بچی کا حقیقی باپ بھی شامل تھا۔ جب مجمع منتشر ہونا شروع ہوا تو وہ اکیلا گلی کی آخری نکڑ کے نزدیک غلاظت کے ڈھیر کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا اور بکھرتے ہوئے لوگوں کو عجیب نظروں سے دیکھنے لگا۔ اس نے غلاظت کے اس ڈھیر پر کھڑے کھڑے سوچا :
”کہ کیا میں ایسے خوابوں کی تعبیر کے لیے شہر آیا تھا ہرگز نہیں مجھے تو شہلا کی سچی محبت شہر لے آئی تھی اور میں شہلا کی محبت کی چنگاریاں دل میں دبائے شہر تعلیم حاصل کرنے کا بہانہ بنا کر چلا آیا تھا۔ماں جیسی محبت کرنے والی خالہ کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچائی، میں خالہ کے اس احسان کو بھول نہیں سکتا تھا جب مجھے ہاسٹل میں داخلہ نہیں مل رہا تھا اور یہاں رہنے کا کوئی خاطر خواہ انتظام بھی نہیں ہو رہا تھا جس کی وجہ سے مجھے سخت پریشانی لاحق تھی۔ اِن مشکل حالات میں خالہ ہی تھی جس نے مجھے اپنے گھر رہنے کا گویا حکم صادر کر دیا تھا میں بھی تو یہی چاہتا تھا۔ “
خالہ کے گھر قیام پذیر ہو کر اس کی دلی تمنا بھر آئی تھی اور وہ عشق میں اس قدر اندھا ہوگیا کہ نہ جانے اس سے کتنی بار نادانی ہوگی اور وہ اپنے نفس پر کبھی بھی کنٹرول نہ کرسکا تھا۔ اس کا احساس اسے تب ہوا جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ شہلا نے بھی تو اسے بروقت نہ بتایا تھا وہ بتاتی بھی کیسے وہ خود تو مہینہ مہینہ بھر گھر نہ لوٹتا ہر وقت یونین کی لیڈر شپ حاصل کرنے کے چکر میں لگا رہتا۔
وہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو یوں بے یارو مددگار نہ چھوڑتا اگر حسیب نے اس کے پیچھے غنڈے نہ لگائے ہوتے وہ ضرور شہلا سے شادی کر لیتا لیکن اب کچھ بھی تو نہیں کیا جاسکتا تھا۔ حالانکہ اس نے خالہ سے مہلت بھی مانگی تھی لیکن انہوں رات کی تاریکی میں ایک گھنٹے کا بچہ اس کی گود میں تھما دیا اور حکم دیا :
”اگر تو فوراً شہلا سے شادی نہیں کرسکتا تو اس بچی کو یہاں سے لے کر چلے جاﺅ اگر شہلا کے بھائیوں کو معلوم ہوگیا تو وہ تمہارا خون کر دیں گے۔“ ان مشکل حالات میں وہ کہاں جاتا اس کے تو چاروں طرف موت منڈلا رہی تھی، ایک طرف حسیب کے بھیجے ہوئے غنڈے اور دوسری طرف شہلا کے بھائیوں کا ڈر۔
اس کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا کہ وہ اس معصوم بچی کو یہیں کہیں خدا کے سہارے چھوڑ دے تاکہ کوئی نہ کوئی اس کو اپنا لے، جب حالات اس کے حق میں بہتر ہو جائیں گے تو وہ کسی نہ کسی بہانے سے اپنی بچی کو واپس لے لیں گا۔ یہ سوچ کر اُس نے بچی کو مسجد کی سیڑھیوں پر رکھ دیا تھا لیکن جب بچی محفوظ ہاتھوں میں چلی گئی تو اس کی جان کو سکون ملا اور اس کے دل میں خیال پیدا ہوا :
”جب حالات میرے حق میں بہتر ہو جائیں گے تو میں شہلا سے شادی رچا کر اپنی بچی اس عورت سے واپس لے لوں گا۔ میں ہرگز ہرگز اپنی بچی کو اس جیسی عورت کے پاس نہیں رہنے دوں گا کیونکہ یہ عورت جو دھندہ کرتی ہے وہ قابل عزت نہیں، میں اپنی بیٹی پر اس کا سایہ زیادہ عرصے نہیں پڑنے دوں گا اور جلد از جلد اپنی بیٹی کو اس سے واپس لوں گا۔“
لیکن حالات اس کی سوچوں سے برعکس نکلے یا اس نے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ ہی نہ کیا، بہرکیف اسے اپنی جان بچانے کے لیے ملک چھوڑ کر امریکہ جانا پڑا تھا۔ امریکہ پہنچ کر وہ وہاں کے ماحول میں اس طرح رچ بس گیا کہ اسے شہلا اور اپنی بچی کا ذرہ برابر احساس نہ رہا کہ وہ کس حالت میں ہوں گے وہ ان کو ایسے بھول گیا جیسے وہ کبھی ان کو جانتا تک نہ ہو۔ لیکن اب جب بیس سال کے لمبے عرصے کے بعد اس عورت پر نظر پڑی جس نے اس کی بے سہارا بچی کو گود لیا تھا تو اس کے اوسان خطا ہوگئے، اس کو ایک عجیب سی افسردگی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کا دل ڈوب رہا ہو۔ ایسی حالت میں اس نے آگے جانے کا ارادہ ترک کیا اور سست قدموں سے واپس گھر کی طرف لوٹ پڑا۔
اس کے بدن پر لرزہ طاری تھا جس کی وجہ سے قدم آگے اٹھانے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی، کیونکہ خوف نے اس کے اعصاب پر بُرا اثر ڈالا تھا اس کے باوجود وہ کسی نہ کسی طرح چلتا رہا اور اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا گھر تک پہنچ ہی گیا۔
دن کی روشنی آہستہ آہستہ ماند پڑ رہی تھی اور اس کی جگہ رات کی تاریکی قبضہ جما رہی تھی۔ غرض دن بھر کی سخت گرمی کے بعد موسم خاصا خوشگوار ہوچکا تھا لیکن اس کے باوجود اس کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی تھی اور اس کے ذہن میں ایک ہی سوال منڈلا رہا تھا کہ یہ عورت اتنی امیر کیسے ہوگئی کیا اس نے میری بیٹی کو بھی— یہ سوچتے ہی اس کے جسم میں کپکپاہٹ ہونے لگتی اور وہ شرمندگی سے پانی پانی ہو جاتا۔ اتنے میں واجد آفس سے لوٹ آیا۔
فاروق نے بہت کوشش کی کہ وہ اپنی ذہنی کشاکشی کو واجد سے چھپائے رکھے وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔ اس کی پریشانی بھی بجا تھی کیونکہ وہ اس عورت کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ اس عورت کا نام بلو تھا، اس کی شہرت خصوصاً محلے کے نوجوانوں میں اچھی نہ تھی۔ اس نے محلے میں جسم فروشی کا کاروبار محدود پیمانے پر شروع کیا ہوا تھا جس کا علم محلے کے چند نوجوانوں کے سوا کسی اور کو نہ تھا۔ وہ کبھی بھی اس جیسی عورت کے پاس اپنی بیٹی کو جانے نہ دیتا لیکن حالات اس کے کنٹرول میں نہیں رہے تھے اور وہ حالات کے سامنے بے بس ہوچکا تھا۔
آج رات بھی گزشتہ رات کی طرح خوب رت جگا ہوا اور وہ باتوں ہی باتوں میں جس مہارت کے ساتھ گفتگو کا رخ اس عورت کی طرف موڑنے میں کامیاب ہوا تھا اتنی ہی مہارت سے وہ واجد سے اس عورت کے متعلق وہ سب کچھ پوچھنے میں کامیاب ہوگیا جس نے اس کو پریشان کر رکھا تھا۔
واجد بتا رہا تھا کہ مجھے اس علاقے میں آئے آٹھ برس بیت چکے ہیں میں اس عورت کو انہی آٹھ برسوں سے جانتا ہوں۔ ویسے ان عورتوں کے متعلق مجھے بہت سے لوگ قصے کہانیاں سناتے تھے لیکن مجھے ان کی باتوں پر یقین نہیں آتا تھا لیکن پھر مجھے رفتہ رفتہ ان سب باتوں پر یقین آنے لگا جن پر پہلے نہیں آتا تھا۔ بس تمہیں بتانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ عورت اور اس کی بیٹی اتنی خبیث ہے کہ ان دونوں کے متعلق ذکر کرنا بھی فضول ہے۔ اس لیے کچھ اور بات کی جائے۔
اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں، ہونٹوں پر لرزہ طاری ہوگیا جس کی وجہ سے اس کے اعصاب خستہ اور کشیدہ ہو رہے تھے پھر بھی وہ خود کو سنبھال کر بات کرنے لگا۔
”واجد مجھے وہ سب کچھ بتا دو جو تم اس کے متعلق جانتے ہو، میں سننا چاہتا ہوں۔“
واجد اٹھ کھڑا ہوا الجھن اور تذبذب میں گھرا ہوا۔ لیکن تم کیوں اس کے متعلق جاننا چاہتے ہو، کیا تم اس کو پہلے سے جانتے ہو— وہ مزید کچھ کہنا چاہتا تھا معاً رک گیا کیونکہ وہ ایک الجھن سی محسوس کر رہا تھا لیکن پھر نہ جانے کیوں وہ اس کے سامنے بیٹھ کر بڑے پیار سے وہ سب کچھ سنانے لگ پڑا جو وہ جانتا تھا۔
فاروق مجھے نہیں معلوم ان عورتوں کا ماضی کیسا رہا ہے ہاں البتہ مجھے ان کے حال کے متعلق بہت کچھ معلوم ہے وہ بھی اس طرح کہ میں خود بھی ان عورتوں کی مکاری کا شکار رہ چکا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ تم ان سے محفوظ رہو گے۔
فاروق بھائی میری پہلی ملاقات اس عورت کے ساتھ اس وقت ہوئی جب میں اپنا آبائی گھر چھوڑ کر ماڈل ٹاﺅن میں آباد ہوا تھا۔ محلے داری ہونے کی بناءپر میرے ان کے ساتھ تعلقات بہت گہرے ہوگئے یا یوں کہہ لیجیے ان عورتوں نے مجھے مالدار اسامی سمجھتے ہوئے میرے ساتھ زبردستی تعلقات استوار کر لیے بہرحال بات جو بھی تھی۔ میرا ان کے گھر بہت زیادہ آنا جانا ہوگیا اسی اثناءمیں اس کی بیٹی روبی نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ میں اس سے عمر میں کافی بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ دو بچوں کا باپ بھی ہوں۔ اس نے میرے گرد ایسا محبت کا جال پھلایا کہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس میں پھنستا ہی چلا گیا۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ اس وقت میری عقل ماند پڑ گئی تھی اور میں بہت جلد اس کی محبت کو حقیقت جان کر اس کے جال میں بری طرح پھنستا چلا گیا۔ رفتہ رفتہ میں اس کی محبت میں اس قدر اندھا ہوگیا تھا کہ بلا کچھ سوچے سمجھے اپنی حق حلال کی کمائی ان پر اندھا دھند لٹانے لگا اور ان کی خواہشات تھی کہ بڑھتی ہی چلی جاتی تھیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ آخرکار میری موجودہ نوکری طویل غیر حاضری اور عدم دلچسپی کی بناءپر خطرے میں پڑ گئی اور میں بہت سے لوگوں کا بھی مقروض ہوگیا۔ میں نے کئی بار اس عورت سے کہا بھی کہ اب وہ اپنی بیٹی کی شادی میرے ساتھ کر دے لیکن وہ حیلے بہانے بناتی رہتی تھی کبھی بھی اس نے شادی کی حامی نہ بھری کیونکہ وہ عورت مکار تھی اور میں کم عقل، وہ تو صرف مجھے لوٹنا چاہتی تھی اور میں بڑا بھولا بنا لٹتا جا رہا تھا اور مجھ پر قرض کا بوجھ رفتہ رفتہ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا، آخرکار میرے پاس ان کو دینے کے لیے کچھ بھی نہ رہا تو ان عورتوں نے مجھ سے پیچھا چھڑوانے کے لیے مجھ پر آبرو ریزی کا جھوٹا مقدمہ ڈلوانے کی کوشش کی، میں تو پائی پائی کا محتاج ہوچکا تھا اور مزید کسی مصیبت میں پھنسنا نہیں چاہتا تھا اس لیے میں نے ان عورتوں سے معافی مانگ کر اور ان کو یہ یقین دہانی کروا کر پیچھے ہٹ گیا کہ میں اب ان سے کسی قسم کا کوئی تعلق واسطہ نہ رکھوں گا۔ جب میں ان سے مکمل طور پر کنارہ کش ہوگیا اور مجھ پر عشق کا بھوت اتر گیا تو پھر مجھے ان کی حقیقت کا پتہ چلا کہ ان عورتوں کا کاروبار ہی یہی ہے کہ وہ مجھ جیسے لوگوں کو پھنسا کر ان کو ٹکا ٹوکری کر دیتی ہیں۔ انہوں نے تو مجھے بھی کہیں کا نہیں چھوڑا تھا، وہ تو میرے اللہ کی کرم نوازی کہ میں دوبارہ سنبھل گیا اور اپنا وہ مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا جو میں اپنی حماقت کی وجہ سے کھو بیٹھا تھا۔
فاروق میں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا کہ ان عورتوں نے بڑی تیز رفتاری کے ساتھ اپنے تعلقات بہت سے سیاست دانوں اور راﺅسا کے ساتھ استوار کر لیے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی بیٹی روبی ملک کی مشہور ماڈلز بن گئی اور اس کے اسکینڈل اور ان کے قتل اور اغواءکی دھمکیاں جیسی خبریں اخبارات میں چھپتی رہیں لیکن میں نے کبھی بھی ان خبروں اور ان عورتوں پر توجہ نہیں دی کیونکہ میں جانتا تھا ان مکار عورتوں کو، کیونکہ میں خود ان کے ہاتھوں لٹ چکا تھا۔
واجد کی باتیں سن کر وہ سٹ پٹا گیا تھا اور یوں ہی ساکت و صامت بیٹھا کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ دفعتاً واجد کو ایسے محسوس ہوا جیسے یہ میری باتوں پر توجہ نہیں دے رہا اور وہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔
”فاروق ٹھیک تو ہو“۔
”ہاں.... میں بالکل ٹھیک ہوں، اور سُن رہا ہوں تمہاری باتیں“ اس سے پہلے کہ واجد اپنی بات کو مزید آگے بڑھتا دفعتاً گلی شدید ترین فائرنگ کی آواز سے گونج اٹھی اور وہ اپنا موضوع وہیں پر ہی ختم کر کے اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لیے چلے گئیں کیونکہ ان کے خیال میں باہر جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔
بے یقینی اور بے سروسامانی اس کے دل و دماغ پر طاری تھی کہ میں اب کیا کروں، ”کیا مجھے اپنی بیٹی سے ملاقات کرنی چاہیے یا نہیں“ ابھی وہ کوئی فیصلہ کر ہی نہ پایا تھا کہ نیند نے اس کو اپنی آغوش میں لے لیا۔
صبح کے اخبار نے ان دونوں کو ششدر کرکے رکھ دیا کیونکہ اخبار کی مین سرخی ہی یہی تھی مشہور ماڈلز روبی اور اس کی والدہ کو رات کسی نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔“
یہ خبر پڑھتے ہی اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے پورے وجود پر چیونٹیاں سی رینگ رہی ہو اور اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بے حد اکیلا ہوگیا ہو۔ پورا شہر اسے ویران نظر آ رہا تھا۔ زندگی بالکل بے معنی اور بے مقصد محسوس ہو رہی تھی۔ کبھی تو اسے یوں محسوس ہوتا جیسے زندہ رہ کر وہ کوئی جرم کر رہا ہے۔ پہلی بار اس پر یہ حقیقت عیاں ہوئی تھی کہ اس نے اپنے وطن سے بھاگ کر اپنی جان تو بچا لی تھی لیکن دو زندگیوں کو زندہ درگور کر دیا تھا اور اس کے ساتھ اپنی اس خالہ کو بھی دُکھ پہنچایا تھا جس کی محبت کا سایہ اس کے لیے مضبوط سہارا اور پناہ گاہ تھی جس میں وہ دنیا کے ہر دُکھ سے محفوظ ہو جاتا تھا۔
دُکھ اور مایوسی کا المناک اندھیرا کچھ دن اس پر مسلط رہا پھر رفتہ رفتہ وہ سنبھل گیا۔
—————
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں