باپ

حارث چند ماہ سے دیکھ رہا تھا کہ اس کا جواں سال بیٹا کچھ زیادہ ہی فضول خرچ ہوتا جا رہا ہے حالانکہ اس کے ایسے کوئی مشاغل بھی نہ تھے اور نہ ہی اس کے ایسے یار دوست تھے جن کے ساتھ وقت گزار کر وہ فضولیات کرتا۔ وہ تو بچپن سے ہی ایسا رہا ہے جیسے اس پر یہ محاورہ بالکل فٹ بیٹھتا ہو ”ملا کی دوڑ مسجد تک“ یعنی وہ صبح سکول کے لیے نکلتا اور پھر سکول سے چھٹی ہونے پر سیدھا گھر لوٹ آتا اور کھانا کھا کر اکیڈمی پڑھنے کے لیے چلا جاتا بس دن بھر میں اس کی یہی مصروفیات تھیں۔ اکیڈمی سے واپسی کے بعد اس کی اور کوئی مصروفیات بھی تو نہ ہوتی تھیں پھر یکایک اسے کیا ہوگیا۔ بس جب سے اس نے کالج میں داخلہ لیا ہے اسی دن سے ہی اس کے تیور بدلتے جا رہے ہیں اور وہ یکسر اپنے بچپن کے معمولات کو بھول کر کسی انجانی بھول بھلیوں میں پھنستا چلا جا رہا ہے کہیں یہ کوئی نشہ وغیرہ تو کرنے نہیں لگ گیا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا جس کی وجہ سے وہ سخت پریشان تھا حالانکہ حارث کے پاس روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ وہ تو دل و جان سے اپنی تمام جائداد اپنی اولاد پر خرچ کرنا چاہتا تھا لیکن اس طرح نہیں جس طرح اس کا پیسہ اس کا اپنا خونِ جگر برباد کر رہا تھا۔ آخرکار وہ حقیقت اس پر عیاں ہوگئی جس نے اس کی راتوں کی نیند خراب کی ہوئی تھی وہ اس طرح کہ وہ ایک دن محلے کی مسجد سے نماز سے فارغ ہو کر اپنے گھر کی طرف چلا آ رہا تھا کہ اس کا سامنا محلے ہی کے ایک بزرگ کے ساتھ ہوگیا اور وہ باتوں ہی باتوں میں کہنے لگا:
”حارث صاحب ہم دونوں تقریباً بیس سال سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں لیکن آپ نے ہم کو بتایا تک نہیں اور چپکے سے بیٹے کی منگنی کر دی۔“
”نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں یقیناً آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔“
ہرگز نہیں پورا محلہ جانتا ہے کہ اس کی منگنی ملکوں کے ہاں ہوچکی ہے۔ میں نے اکثر اسے ان کے گھر آتے جاتے اور اپنی منگیتر کو کالج چھوڑنے، جاتے ہوئے دیکھا ہے۔“
اس نے بڑی ہوشیاری سے وہ سب کچھ اشاروں ہی اشاروں میں بتا دیا جو ایک محلے دار ہونے کے ناطے اس کا فرض بنتا تھا۔ ان باتوں نے حارث کے ذہن میں طوفان برپا کر دیا تھا کیونکہ وہ خود ان لوگوں کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ گویا اس وقت وہ ایسے ذہنی خلفشار میں مبتلا تھا جیسے اپنے آپ کو کسی بڑے امتحان کے لیے تیار کرنے کے لیے آزما رہا ہو۔ اس کے ذہن میں جو فوری خیال ابھرا وہ یہ تھا کہ ان غلط قسم کے لوگوں کو پیسے کا لالچ دے کر محلے سے بھگا دوں، اس طرح یہ میرے بیٹے کا پیچھا چھوڑ دے گی، لیکن وہ اپنی ہی تجویز کو دوسرے ہی لمحے رد کر دیتا کہ اس طرح اس کا اپنا بیٹا بجائے راہ راست پر آنے کے الٹ بگڑ ہی نہ جائے۔ ڈور کا دوسرا سرا اس کے ہاتھ نہیں آ رہا تھا جس کی وجہ سے پریشان تھا لیکن مایوس نہیں تھا اور اس پریشانی کے عالم میں وہ بوجھل ذہن اور تھکے قدموں سے گھر کی طرف چل پڑا تھا۔ ذہنی تھکاوٹ درد بن کر اس کے انگ انگ میں دھڑک رہی تھی۔ گھر کے اندر داخل ہوا ہی تھا کہ عین اسی وقت لوڈشیڈنگ ہوگئی جس کی وجہ سے آناً فاناً اندھیرا چھا گیا۔ ڈیوڑھی عبور کرتے ہوئے جب وہ اپنے کمرے میں داخل ہونے لگا تو اس کی پشت کے ساتھ کوئی شخص ٹکڑایا وہ تیزی سے پیچھے مڑا تاکہ معلوم کرسکے کہ وہ کس کے ساتھ اندھیرا میں ٹکڑا گیا ہے۔ اس نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کا بیٹا کھڑا تھا اس نے ہاتھ میں مضبوطی سے بھرا ہوا لفافہ تھام رکھا تھا۔ یوں بیٹے کے ہاتھ میں بھرا ہوا لفافہ دیکھ کر تجسس نے اس کے پاﺅں جکڑ لیے اور وہ حیرانی سے اس کی طرف بٹربٹر دیکھنے لگا، اسی لمحے دوبارہ لائٹ آن ہوگئی اور وہ بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنے کمرے میں لے آیا۔ کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی اس کی نظر سامنے الماری پر پڑی جس کا دروازہ نیم وا تھا، جس نے اس کے تجسس میں مزید اضافہ کیا اور اس نے لپک کر اپنے بیٹے کے ہاتھ میں پکڑا لفافہ چھینا اور اسے کھول کر دیکھنے لگا۔ اس میں زیورات تھے جو وہ چوری کر کے لے جا رہا تھا۔ زیورات پر نظر پڑتے ہی اس کو طیش آگیا اور اس کا سارا جسم پسینے سے شرابور ہوگیا اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے سورج سوا نیزے پر آ کر اپنی تمام حرارت اسی پر ہی برسا رہا ہو اور اس کی شدید گرم روشنی کی وجہ سے اس کی آنکھیں چھبنے لگیں ہو۔ لیکن اس کے باوجود اس نے اپنی ظاہری حالت پر کسی نہ کسی طرح کنٹرول کیا اور بیٹے کو سامنے بٹھا کر اس سے گویا ہوا۔
”بیٹا یہ گھر اور اس میں پڑی ہوئی ہر چیز کے مالک تم ہی ہو اور پھر اس طرح اپنے ہی گھر میں چوروں کی طرح کچھ لے کر جانا اور وہ بھی اس لیے کہ—“
”ابو میں تو اپنی کتابیں ڈھونڈنے کے لیے آیا تھا اور اس لفافے کو اندھیرے میں اپنی کتاب سمجھ کر اٹھا لایا۔ میں چوری کی نیت سے تو نہیں آیا تھا اور پھر میں نے یہ کس کو دینے ہیں۔“ وہ اپنی شرمندگی پر قابو پانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
”بیٹا چھوڑو جو ہوا سو ہوا میں سب کچھ جانتا ہوں، باپ ہونے کے ناطے میں تم کو سمجھاتا ہوں کہ تم جس راستے پر چل نکلے ہو وہ راستہ کامیابی کی طرف نہیں بلکہ بربادی کی طرف جاتا ہے اور انسان کو کسی گہری گھائی میں گرا دیتا ہے۔ اس لیے تمہارے پاس اب بھی وقت ہے کہ تم سنبھل جاﺅ۔“
”ابو وہ میں— میں تو—“
”بیٹا چھوڑو صفائیاں پیش نہ کرو۔“
”میں سب جانتا ہوں کہ تمہارا ملکوں کے گھر کیوں اتنا آنا جانا لگا رہتا ہے اور آج کل تم کس چکر میں ہو۔ بیٹا تمہارے حق میں یہی بہتر ہے کہ تم ناممکنات سے گریز کرو اور مزید ایسے کاموں میں ہاتھ نہ ڈالوں کیونکہ ایسے کاموں کی انتہا خطرناک ہوتی ہے اور آخر میں جو زخم کاری آتی ہے اس کا گھاﺅ بھرنے اور مندمل ہونے کے لیے نہ جانے کب تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ انسان جوں جوں اس کام میں آگے بڑھتا جاتا ہے پریشانیاں توں توں اس کے نزدیک تر ہوتی جاتی ہے اس کا اندازہ اسے تب ہوتا ہے جب پانی سر سے بھی اوپر گزر چکا ہوتا ہے اور انسان کو سنبھلنے کا موقع بھی میسر نہیں آتا۔ اس لیے وقت سے پہلے میری باتوں پر دھیان دو ورنہ گیا وقت دوبارہ ہاتھ نہیں آتا، بعد میں صرف افسوس ہی رہ جاتا ہے۔“
حارث یہ سب کچھ سمجھانے کے بعد جواب طلب نظروں سے بیٹے کی طرف دیکھنے لگا اور وہ سر جھکائے پریشانی اور بوکھلاہٹ کے باوجود بڑی ہوشیاری سے اپنے باپ کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ یہ سب کچھ اتفاق تھا۔ لیکن اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اپنے باپ کو اپنی دلیلوں سے مطمئن نہ کرسکا تھا آخر حارث کو نہ جانے کیا محسوس ہونے لگا اور اس کے ذہن میں خیال ابھرنے لگا کہ اگر میں آج اس کو راہ راست پر نہ لایا تو پھر کبھی بھی نہ لاسکوں گا۔ حارث جو ایک لحظے کے لیے خاموش ہوگیا تھا اب پھر بولنے لگا:
”بیٹا چھوڑو وہ زیورات والی بات اور اپنی صفائیاں بیان کرنا اور میری کہانی غور سے سنو۔ پھر اس کے بعد اپنے مستقبل کے لیے سوچنا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ کہانی تم کو کوئی بہتر فیصلہ کرنے میں معاون ثابت ہوگی اور تم یہ کہانی اپنے شفیق باپ اور اچھے دوست کی زبانی سننا، ہوسکتا ہے کہ اس میں تمہارے لیے کوئی فلاح کا پہلو نکل آئے جو تمہیں بہتر راستہ تلاش کرنے میں معاون ثابت ہو۔“ اور پھر وہ اپنی کہانی اپنی زبانی سنانے لگ پڑا۔
بیٹا یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے پاس اتنے اثاثے اور اتنا بنک بیلنس نہ تھا اس وقت میں صرف ایک معمولی کسان کا بیٹا تھا جب میں نے بی اے فرسٹ ڈویژن پاس کیا تھا تو اس وقت گاﺅں بھر میں اور کوئی اتنا زیادہ پڑھا لکھا نہ تھا۔ میں اکیلا ہی بی اے پاس تھا جس کی وجہ سے گاﺅں بھر میں ”باﺅ“ کے نام سے پکارا جانے لگا تھا۔ گاﺅں کا ہر فرد مجھ سے عزت و تعزیم سے ملتا اور گاﺅں والوں کے ساتھ جب کبھی میں کسی محفل میں بیٹھتا تو وہ مجھے بڑی عزت کے ساتھ علیحدہ چارپائی پر بٹھا دیتے اور خود مجھ سے علیحدہ ذرہ نیچے بیٹھ جاتے۔ گاﺅں والوں کی بے جا عزت و تعزیم نے مجھے خود سر بنا دیا تھا جس کی وجہ سے مجھے اپنے گاﺅں والے جاہل، گنوار نظر آنے لگے جن کے ساتھ میں کھیل کود کر جوان ہوا تھا اب ان کے ساتھ ملنے سے بھی کترانے لگا تھا اور میرے ذہن میں یہ خیالات ابھرتے کہ مجھے شہر جا کر کوئی بہتر روزگار تلاش کرنا چاہیے یہاں پر کیا رکھا ہے صرف باپ دادا کی پندرہ ایکڑ اراضی بس۔ میں نے تعلیم کھیتی باڑی کے لیے حاصل نہیں کی تھی کہ بی اے فرسٹ ڈویژن کرنے کے باوجود بھی وہی کھیتی باڑی کروں یہ کام تو اَن پڑھ لوگوں کا ہے اور مجھ جیسے پڑھے لکھے لوگ تو شہر جا کر آفیسری کرتے ہیں۔ سو مجھے شہر جا کر آفیسری کرنی چاہیے اور یہ فضول اور عام سا کام یہاں کے ان پڑھ لوگوں کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔ آخر انہوں نے بھی تو روزی کمانی ہے۔
یہی وہ خیالات تھے جس کی بنا پر میں نے اپنے باپ کو اس بات پر راضی کر لیا کہ میں شہر جا کر بہت جلد اچھی سی ملازمت ڈھونڈ لوں گا۔ اس طرح میرا مستقبل بھی روشن ہو جائے گا اور خاندانی پیشہ زراعت پر بھی کوئی حرج نہیں آئے گا کیونکہ میں دور بیٹھ کر بھی زمینوں کے مطلق بے خبر نہیں رہوں گا۔
اپنے خیالات سے اپنے والدین کو قائل کرنا کتنا آسان ہوتا ہے اور دنیا کو قائل کرنا کتنا مشکل۔ اس بات کا اندازہ مجھے شہر آ کر ہی ہوا۔ جب میں شہر آیا تھا تو اس وقت میری جیب نوٹوں سے اور ذہن سہانے مستقبل کے مناظر سے لبریز تھا اور یہ مستقبل کے سہانے خواب یوں دنوں میں چکنا چور ہوتے رہے اور جیب دن بدن ہلکی سے بھی ہلکی ہوتی چلی گئی۔ اس کے باوجود میرے اندر امید کی ہلکی سی کرن روشن تھی اور مجھے یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن مجھے ضرور نوکری مل جائے گی، یہی یقین مجھے مزید یہاں قیام پر مجبور کر رہا تھا لیکن جیب اس کی اجازت نہ دیتی تھی بالآخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ مزید شہر میں ٹھہرنے کے لیے اپنے اخراجات کم سے کم کر لیے جائیں اس کے لیے میں نے سب سے پہلے اپنی رہائش ہوٹل سے ختم کرکے کسی سستی جگہ پر منتقل کرنی تھی۔
مجھے شدت سے سستی رہائش کی ضرورت تھی اور وہ مجھے اندرون شہر میں واقع کسی حویلی میں مل بھی گئی۔ وہاں پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ یہ حویلی پچھلی صدی کے اوائل کا حسین طرز تعمیر کا نمونہ ہے۔ ایک سادہ سی عمارت جس کی بیرونی دیواریں چھوٹی اینٹ اور چونے کے ملاپ کا اپنے وقتوں کا حسین شاہکار تھا جو اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی اب تو اس کے پاس کھڑا ہونے سے بھی ڈر لگتا تھا کہ کہیں ہاتھ لگانے سے گِر ہی نہ جائے لیکن میرے اِن خدشات سے قطع نظر بچے بڑی شان کے ساتھ اسی دیوار پر بیٹھے کھیل کود میں نظر آ رہے تھے۔ حویلی کی اندرونی دیواروں کی بھی حالت زار قابل رحم تھی وہ مسلسل بارشوں کی وجہ سے کائی زدہ ہوچکی تھیں اور چونے کا پلستر جابجا ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ گویا حویلی کے مالک نے اس کی مرمت کروانے کی زحمت مدتوں سے نہیں کی تھی شاید اس لیے کہ اس کے مالک نے سوچا ہو کہ اپنے وقتوں کی جدید اور منفرد عمارت کو یونہی چھوڑ دیا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے نمونہ اور سربلندی کا سبب بنے، بہرحال بات جو بھی تھی مجھے تو سستی رہائش چاہیے تھی جو مجھے مل گئی تھی اب اس پر تبصرہ کرنا فضول اور بے معنی تھا اسی لیے میں حویلی کی ظاہری حالت کو نظرانداز کرتے ہوئے حویلی کے اندر داخل ہوگیا۔
حویلی کا کھلا دالان جو اپنے وقتوں میں حویلی کی شان بڑھاتا تھا اب یہاں جابجا عورتوں نے چولہے سجا رکھے تھے گویا حویلی کے مکینوں کے لیے یہ دالان اجتماعی باورچی خانے کا کام سرانجام دیتا تھا۔ میں دالان سے ہوتا ہوا تنگ سی ڈیوڑھی میں داخل ہوگیا، دائیں ہاتھ کشادہ سیڑھیاں تھیں جو اندھیرے میں ڈھکی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے سیڑھیوں کا آخری سرا نظروں سے اوجھل تھا۔ ڈیوڑھی کے دونوں جانب کمروں کے دروازے تھے ہر کمرے میں ایک فیملی مقیم تھی لیکن میرا کمرہ اوپر والی منزل پر واقع تھا اسی لیے میں بادل نخواستہ اندھیری سیڑھیوں سے ہو کر اوپر چلا گیا۔ سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے مجھ پر یہ حقیقت آشکار ہوچکی تھی کہ یہ حویلی باہر سے ہی قابلِ رحم نہیں بلکہ اس کی اندرونی حالت بھی کافی خطرناک حد تک قابلِ رحم ہے۔
جب میں اپنے کمرے میں پہنچا تو مغرب کا وقت ہوچکا تھا اور تاریکی تیزی سے پھیل رہی تھی۔ میں نے بجلی کے بلب کا بٹن دبا کر کمرے میں روشنی کی تو مجھے اطمینان سا ہوا کہ کمرے کی چھت اور دیواریں اتنی جلدی زمین بوس ہونے والی نہیں لہٰذا یہاں کچھ عرصہ رہا جاسکتا ہے۔ شہر بھر میں اس سے اچھی اور سستی رہائش کہیں اور مل بھی تو نہیں سکتی تھی۔ اس لیے اسی پر اکتفا کرنا وقت کی ضرورت تھی۔ کمرے میں صرف ایک کھڑکی تھی جو گلی کی جانب کھلنے کے بجائے ساتھ والے کمرے کی طرف کھلتی تھی اور اس کے ساتھ ایک دروازہ بھی تھا جو اٹیج باتھ روم کا دروازہ تھا جس کو ساتھ کے کمرے والے بھی استعمال کرتے تھے۔ اس کمرے کے دو اور دروازے تھے، ایک دروازہ چھجے کی جانب کھلتا تھا جہاں سے گلی کا نظارہ کیا جاسکتا تھا اور دوسرا دروازہ کمرے میں آنے جانے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یہ کمرہ کچھ اس طرح کا تھا کہ یہاں دوسرے کمرے کے مکینوں کی آوازیں صاف سنائی دیتی تھیں۔ کمرہ صاف ستھرا ہونے کے باوجود مجھے غلاظت کی گھن کا احساس ہو رہا تھا۔ لیکن میں نے اس طرف کوئی خاص توجہ نہ دی کہ شاید یہ میرا وہم ہو جو رفتہ رفتہ خود ہی دور ہو جائے گا۔
میں بہت تھک چکا تھا سو وہیں میں نے زمین پر ہی چادر بچھائی اور سو گیا۔ ابھی میں نیم بیدار ہی تھا کہ ساتھ والے کمرے سے لڑائی جھگڑے کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں جس کی وجہ سے مجھے شدید بے چینی سی ہونے لگی اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں جلدی سے دروازہ کھول کر ان دونوں کا گلا دبا دوں۔ لیکن میں ایسا کر نہیں سکتا تھا بس اپنے حال پر افسوس ہی کرسکتا تھا سو میں کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ سونے کی بھی کوشش جاری رکھتا تھا اور ساتھ والے کمرے سے آوازیں کبھی آہستہ اور کبھی بلند ہوتی رہتیں، کچھ دیر یونہی ان کی لڑائی جھگڑا سنتا رہا تھا پھر کھڑکی کی درز سے جا کر آنکھ لگا کر سارا منظر خود دیکھنے لگا۔
مرد نے عورت کو دبوچ رکھا تھا اور وہ خود کو بچانے کی کشمکش میں تڑپتی، چلاتی تھی— نہیں— نہیں— میں تم کو یہ رقم نہیں دوں گی— ہرگز ہرگز نہیں دوں گی— مرد اس کے نزدیک آ کر اس کو زور سے تھپڑ رسید کرتا اور اس کے ہاتھوں میں پکڑے پیسے چھیننے کی کوشش کرتا لیکن عورت نے اپنی مٹھی مضبوطی سے بند کی ہوئی تھی۔ مرد لاکھ کوشش کے باوجود اس کی مٹھی سے پیسے چھیننے میں ناکام رہا تھا یہ سلسلہ کچھ دیر جاری رہا اور مرد جو شکل سے نشئی معلوم ہو رہا تھا۔ وہ تھک ہار کر کھانستا کھانستا کمرے سے باہر نکل گیا اور عورت روتے روتے چارپائی پر جا کر لیٹ گئی اور چند لمحے بعد اس کی سسکیوں کی آواز آنا بھی بند ہوگئی جس کی وجہ سے کمرے میں بالکل سناٹا چھا گیا اور میں بھی اپنے بستر پر سونے کے لیے چلا آیا۔ میں بستر پر لیٹ تو گیا لیکن نیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔ میں سوچنے لگا کہ میں یہاں کیسے رہ پاﺅں گا لیکن یہاں رہنا میری مجبوری تھی، سو میں سوچتے سوچتے سو گیا۔ میں صبح سویرے نیند سے بیدار ہوا تو میرے جسم کا انگ انگ درد سے ٹوٹ رہا تھا۔ سر میں شدید درد تھا سوچا کہ تازہ دم ہونے کے لیے حویلی کے سامنے والے کھوکھے سے ایک کپ چائے پی لی جائے لیکن میرے اعصاب اس بات کی اجازت نہ دیتے تھے کیونکہ میرا جسم مزید آرام کی خواہش میں ڈھیلا پڑا جا رہا تھا۔ ایسی کیفیت مجھ پر طاری تھی کہ میں نے یکدم اپنے سرہانے کے پاس سے چائے کی بینی بینی خوشبو محسوس کی، جس نے میرے وجود میں سراسیمگی سی پیدا کر دی۔ گرم گرم چائے کو یوں اپنے پاس موجود پا کر میں حیرانگی کے عالم میں اُٹھ کھڑا ہوا اور گومگو کے عالم میں کمرے کے چاروں طرف دیکھنے لگا کہ یہ چائے کا کپ کون دے گیا ہے؟ حالانکہ کمرے کا بیرونی دروازہ بھی بند تھا۔ میں کھڑکی کی درز سے آنکھیں لگا کر دوسرے کمرے میں دیکھنے لگا جہاں گزشتہ رات لڑائی جھگڑے کی آوازیں آ رہی تھیں لیکن وہاں بھی کوئی نہیں تھا پھر میں غسل خانے کی طرف لپکا تو وہاں بھی کوئی موجود نہ تھا۔ طبیعت کی تھکاوٹ مجھے کسی بھی قسم کی باتیں سوچنے پر مجبور نہیں کرتی تھیں بلکہ وہ تو یہ چاہتی تھیں کہ اس پیالی کو دیکھو دینے والے کو نہیں لہٰذا میں نے چائے حلق میں انڈیل لی۔ چائے نے میرے تھکے ماندے وجود میں گویا نئی روح پھونک دی تھی اور میں تازہ دم ہوکر چھجے پر آکر گلی میں تکنے لگا۔ گلی میں تو کوئی خاص بات نہ تھی جو مجھ کو وہاں پر ٹھہرنے پر مجبور کرتی ہاں البتہ سامنے والے مکان کی کھڑکیوں کے شیڈ پر جنگلی کبوتر غول در غول بیٹھے غٹرگو غٹرگو کر رہے تھے اس وقت ان کی غٹرگو غٹرگو مجھ کو بہت بھلی لگ رہی تھی میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں ان کبوتروں کو دانہ ڈالوں لیکن دانہ لانے کے لیے مجھے بازار جانا پڑتا تھا اور بازار جانے کے لیے میرے پاس وقت نہیں تھا۔ اگر مجھے آج انٹرویو کے لیے نہ جانا ہوتا تو میں ضرور ان کے لیے دانہ لے آتا۔ بہرکیف اضطراب کی حالت میں کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی اور کہنے لگا:
”اُف نو بج گئے ہے اور میں ابھی تک تیار نہیں ہوا ہوں۔ ٹھیک دس بجے تو میں نے انٹرویو کے لیے پہنچنا ہے۔“ اور میں فوراً غسل خانے کی طرف لپک گیا۔
غسل خانے کا دروازہ کھولتے ہی میں ٹھٹک کر کھڑے کا کھڑا رہ گیا دراصل غسل خانے میں درمیانے قد کی خوبصورت عورت پانی کے حمام کے پاس بیٹھی برتن دھو رہی تھی۔ وہ اپنے کام میں اس قدر انہماک سے مگن تھی کہ اسے اندر آنے والے شخص کی موجودگی کا احساس تک نہ ہوا تھا حالانکہ میں غسل خانے کے پائیدان پر آ کر کھڑا ہوگیا تھا اور بے جھجک بول پڑا:
”کیا چائے تم نے بھیجی تھی۔“
عورت نے غیر متوقع آواز سنی تو وہ کھڑی ہو کر اپنے وجود کے ساتھ الجھے کپڑے درست کرتے ہوئے مجھے دیکھ کر مسکرائی اور یہ کہتی ہوئی دوسرے دروازے سے باہر نکل گئی کہ ”چائے میں خود ہی لے کر گئی تھی۔“ دراصل اس وقت میرا دل بھی یہی چاہ رہا تھا کہ میں اس خاتون کو دیکھو جس کے شوہر نے اس کو نظرانداز کر رکھا ہے۔ لیکن مجھے یہاں آئے ابھی ایک رات ہی تو ہوئی تھی اس لیے میں کسی قسم کی پریشانی میں پڑنا نہیں چاہتا تھا اور دوسرا میں نے انٹرویو کے لیے بھی تو جانا تھا اس لیے میں جلدی جلدی نہا کر تیار ہوا اور اپنے مستقبل کی تلاش میں نکل پڑا۔
ہر روز مجھ کو چائے کی بینی بینی خوشبو نیند سے بیدار کرتی، ہر روز ہی مجھے اتنی جلدی اور ضروری باہر جانا ہوتا تھا کہ میرے پاس اتنا وقت ہی نہ رہتا کہ میں اس عورت سے یہ پوچھ سکوں کہ وہ کیوں کر مجھ پر اتنی مہربان ہے اور رات کو میں اتنی لیٹ آتا کہ اس وقت حویلی کے تمام مقیم اور وہ عورت بھی سو چکی ہوتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ مجھے ساتھ والے کمرے میں ہونے والی روزمرہ کی گفتگو سننے کا موقع بھی نہ مل سکتا تھا۔ لیکن کافی دنوں کی خاموشی کے بعد مجھے ایک بار پھر ویسی ہی لڑائی مار کٹائی سننے اور دیکھنے کا موقع میسر آ ہی گیا کیونکہ میں اس دن کافی جلدی گھر واپس لوٹ آیا تھا۔ مجھے یہاں آئے پندرہ دن ہوچکے تھے ان پندرہ دنوں میں بھی میری علیک سلیک نشئی اور اس کی بیوی سے نہیں ہوئی تھی۔ نشئی سے ملنے کا اشتیاق میرے اندر نہ تھا ہاں البتہ میں اس کی بیوی سے گفتگو کرنا چاہتا تھا اور اسی مقصد کے لیے میں نے دوسرے دن اپنی تمام مصروفیات کو ترک کیا اور گھر پر رہنے کو ترجیح دی۔ اس دن میری دلی مراد بھی بھر آئی۔
میں صبح سویرے نیند سے بیدار تو ہوچکا تھا لیکن یوں ہی اپنے بستر پر لیٹا رہا تھا کہ وہ کب چائے لے کر اندر آتی ہے۔ آخر وہ روز کی طرح ٹھیک آٹھ بجے چائے کا کپ اٹھائے غسل خانے کے راستے میرے کمرے میں داخل ہوئی اور چائے میرے سرہانے رکھ کر مڑنے لگی تو میں نے لپک کر اس کا بازو پکڑ لیا اور اس زور سے اسے اپنی طرف کھینچا کہ وہ میری چھاتی کے ساتھ آلگی پھر میں نے اس کو اپنے بازوﺅں میں بھینج لیا اور وہ جلدی سے رسمی انداز میں شرماتی ہوئی مجھ سے علیحدہ ہوتی ہوئی مسکرا کر کہنے لگی:
”کوئی دیکھ نہ لے“ اور بھاگ کر واپس اسی راستے سے چلی گئی۔
وہ درمیانے قد، چھریے بدن والی حسین و جمیل لڑکی تھی، اس کی جھیل جیسی آنکھیں، کھڑی ناک، کشادہ پیشانی اور گھنے، کالے، لمبے بال اس کے کولہوں کو چھوتے بڑے حسین مناظر پیش کرتے تھے۔ اگرچہ وہ عام سے کپڑے پہنتی تھی لیکن ان کپڑوں میں بھی اس کی سج دھج اور شکل و صورت میں بلا کی کشش محسوس ہوتی تھی جبھی تو اس نے مجھے اپنا دیوانہ بنا لیا تھا اور جب اس حسین کا یوں غیرمتوقع طور پر لمس محسوس کیا تو میرے اندر خوشی اور مسرت کے لمحات برقی رو کی طرح دوڑ گئے تھے۔ آج مجھے پھر ضروری انٹرویو کے لیے جانا تھا لیکن میں اپنی تمام تر مصروفیات ترک چکا تھا کیونکہ آج میں نے ایک بھرپور ملاقات کرنی تھی۔ مجھے اپنے انٹرویو پر نہ جانے کا قطع افسوس تک نہ تھا بلکہ میں ملاقات کا منتظر تھا۔ صبح کے واقع سے میرے اندر غیرفطری جھجک تو دور ہوچکی تھی اب صرف ایک دوسرے کے درمیان فاصلہ دور کرنا باقی تھا۔
میرا نفس مجھ کو بار بار اکساتا اور میں گاہے بگاہے غسل خانے میں جاتا جہاں وہ بھی بہانے بہانے سے غسل خانے میں آتی کبھی وہ ایک آدھ برتن پکڑے آتی اور اسے فٹافٹ دھو کر میری طرف محبت بھری نظروں سے دیکھتی اور مسکرا کر وہاں سے چلی جاتی کیونکہ آج اس کا شوہر گھر پر ہی موجود تھا اس لیے ملاقات کا موقع میسر نہیں آ رہا تھا اور میں ملاقات کے لیے بے قرار ہوئے جا رہا تھا میں بار بار کھڑکی کی درز سے اس نشئی کو دیکھتا جو بڑی شان اور بے فکری سے اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا اور میں اس کو مسلسل بددعائیں دیے جا رہا تھا کہ یہ کب دفع ہوتا ہے لیکن آج اس نے بھی قسم کھائی ہوئی تھی کہ جانا کہیں نہیں یہاں پر ہی بسیرہ کرنا ہے۔ بالآخر میں اس پر لعنت ملامت کرتا ہوا گھر سے باہر چلا گیا کیونکہ مجھے سخت بھوک لگ رہی تھی۔ جب میں واپس گھر لوٹا تو سہ پہر ڈھل رہی تھی اور شام کے سائے بتدریج بڑھ رہے تھے۔ میں نے کھڑکی کی درز سے آنکھ لگا کر دوسرے کمرے میں جھانکا تو کمرے میں عورت کو اکیلے موجود پایا وہ اس وقت کپڑے پہن رہی تھی۔ اللہ جانے شیطان نے اس وقت کیا منتر میرے کان میں پھونک دیا کہ میں جلدی سے غسل خانے کے راستے اس کے کمرے میں داخل ہوگیا اور مخمور سی مردانہ آواز میں کہا۔
”کہیں باہر جا رہی ہو۔“
اس نے قمیض پہنتے پہنتے پیچھے نگاہ دوڑائی اور نظریں چار ہوتے ہی وہ کمرے کے بیرونی دروازے کو قفل لگانے کے لیے لپکی اس کی برہنہ پشت دیکھ کر میرے ذہن میں کوندا سا لپکا اور مجھے ایسا لگا جیسے وہ میرے ڈوبتے دل کا عکس ہو اور وہ یونہی نیم برہنہ میرے پاس کھڑی ہوگئی اور پریشانی کے عالم میں کہنے لگی۔
”حارث تم کو یہاں اس طرح ہرگز نہیں آنا چاہیے تھا۔ صبح سے ہی میرا شوہر گھر پر ہے، ابھی تھوڑی دیر پہلے یہاں سے نکلا ہے وہ یہیں کہیں ہوگا تم جلدی سے چلے جاﺅ کہیں وہ آ نہ جائے ورنہ میری خیر نہیں وہ تو پہلے ہی مجھ پر شک کرتا ہے خدا کے لیے تم یہاں سے چلے جاﺅ۔“
”ٹھیک ہے چلا جاتا ہوں پہلے تم مجھے یہ بتاﺅ میرے نام کا تمہیں کیسے پتہ چل گیا۔“
”دیکھو حارث دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ تم مجھے پہلی نظر میں ہی شریف انسان نظر آئے تھے اور تمہارا نام مجھے کالو سے معلوم ہوا تھا وہ کالو جو حویلی کے تمام کرائے داروں سے ماہانہ کرایہ وصول کرتا ہے۔ وہ میرا بھائی بنا ہوا ہے۔ اسی نے ہی تمہارا نام بتایا تھا اور کہا تھا کہ یہ میرا بہت اچھا دوست ہے۔“ یہ باتیں اس نے شرماتے شرماتے بتائیں اور باقی ماندہ کپڑے پہننے لگی تو میں نے بڑھ کر اس کو کلائی سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ اس کے نرم و نازک و نفیس ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر مسلنے لگا اسی لمحے اس کی آواز میں جوش و خروش جو پہلے تھا اس میں عجیب سی تبدیلی آنے لگی جیسے وہ اپنے محبوب سے اقرار محبت کر رہی ہو اور اسے چاہ رہی ہو دفعتاً اس کے لہجے میں پھر وہی بے روکھی سی چھانے لگی اور وہ اپنا دامن چھوڑا کر مجھ سے ذرہ دور ہٹ کر بیٹھ گئی اور دوپٹے کے پلو سے اپنا چہرہ چھپا کر مجھ سے کہنے لگی:
”حارث میری بات غور سے سنو میں ایسی ویسی عورت نہیں ہوں۔ میں آپ کی عزت دل و جان سے کرتی ہوں، میں ہی کیا ساری حویلی والے آپ کی شرافت کے گن گاتے ہیں۔ اس طرح اور اس حالت میں میرے کمرے میں آنا آپ کو زیب نہیں دیتا۔ میں آپ کی بے عزتی نہیں کرنا چاہتی اور خود اخلاق سے گری ہوئی حرکت نہیں کرنا چاہتی اس لیے بہتر ہے کہ بات یہیں پر ہی ختم ہو جائے ورنہ آگے چل کر بدنامی اور رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں رکھا۔ میں اپنے بچوں کو بے آسرا کرنا نہیں چاہتی، میں پہلے ہی بڑی دکھی ہوں۔“ وہ یہ کہتے ہوئے زارو قطار رونے لگی۔
میں نے اس کو اپنے سینے سے لگا لیا اور اس کی پشت پر ہلکے ہلکے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگا:
”میں جانتا ہوں کہ تم ایسی ویسی عورت نہیں ہو اور میں بھی کوئی تم سے کھیل نہیں کر رہا بلکہ میں تم کو دل و جاں سے چاہنے لگا ہوں اور میں تمہارے لیے جان کی بازی لگا دوں گا لیکن تمہاری عزت پر کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا اور میں تم کو اس ظالم کے چنگل سے رہائی دلواﺅں گا چاہے اس کے لیے مجھے اپنا سب کچھ قربان کیوں نہ کرنا پڑے۔ میری بات کا اعتبار کروں اور اپنے پر حاوی تمام خدشات کو پاﺅں تلے روند ڈالو۔“
وہ میرے شد تِ جذبات سے کچھ سنبھل سی گئی اور پھر محبت خواہانہ انداز میں کہنے لگی: 
”اب تم جاﺅ میں نے ابھی روٹی ہانڈی بھی پکانی ہے ورنہ وہ آ کر مجھے خوامخواہ مارنے لگ پڑے گا۔“
”ہاں ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں مگر تم مجھے یہ بتاﺅں وہ تم سے اتنی نفرت کیوں کرتا ہے اور اتنی بے دردی سے مارتا کیوں ہے اور تم اس کا ظلم کیوں سہے جا رہی ہو۔“
”وہ مجھ سے نہیں بلکہ میں اُس سے نفرت بلکہ بھرپور نفرت کرتی ہوں۔“
”وہ کیوں؟“
”میرا شوہر میرے شدتِ جذبات کو ٹھیس پہنچا کر بازاری عورتوں میں جا کر سکون محسوس کرتا ہے۔ اس کی جو اب مالی حالت ہے پہلے ایسی نہ تھی بلکہ یہ کبھی امیر آدمی ہوا کرتا تھا بس اپنی ساری جمع پونجی وہ ان بازاری عورتوں کی نظر کر بیٹھا اور انہوں نے جب یہ دیکھا کہ اب یہ کنگال ہوچکا ہے تو انہوں نے اس کو دھکے دے کر اپنے کوٹھے سے نکال باہر کیا۔ شدتِ غم سے یہ نشہ کرنے لگا یوں رفتہ رفتہ یہ نشے میں دھت ہوتا چلا گیا۔ اب اس کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ گھر کا خرچ چلانے کے لیے اس کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہوتا سو اس گھر کا بوجھ بھی میرے والدین نے اپنے سر اٹھا رکھا ہے وہ مجھے جو تھوڑی بہت رقم گھر کے خرچ کے لیے دیتے ہیں تو یہ مجھے مار پیٹ کر وہ رقم لے جاتا ہے۔ صرف اپنے نشے کے لیے اور میں مشرقی بیوی ہونے کے ناطے اس کے پلّو سے بندھی ہوئی ہوں۔ میں نے بھی بہت سے خواب دیکھے تھے اپنے گھر کے، ایک گھر جو حقیقت میں گھر جیسا ہی ہو جس میں ہم دونوں اپنے بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہ سکتے۔ یہ میری تمنا کوئی نرالی تو نہ تھی کہ پوری ہی نہ ہوتی بس میری قسمت خراب تھی کہ مجھے شوہر ایسا ملا جو دوسری عورتوں کا رسیا تھا۔ اس نے کبھی بھی میرے جذبات کی قدر نہیں کی۔ کاش ایسا ہوسکتا کہ وہ مجھ میں کشش محسوس کرتا اور میرے اندر کی بے چینی سے مجھے نجات دلا سکتا لیکن میرے شوہر کو تو اپنے معاشقے کے سوا کچھ سوچنے کی مہلت ہی نہ ملتی تھی۔ پھر وہ رفتہ رفتہ نشے کی آماجگاہ میں چلا گیا۔ میں نے اپنے دل کا حال کبھی بھی کسی پر ظاہر نہیں کیا کیونکہ میں جانتی تھی کہ ان حالات سے فرار حاصل کرنا ممکن نہیں۔ میں نے اپنے اندر کی خلش سے نجات حاصل کرنے کے لیے اللہ سے کیسی کیسی دُعائیں نہیں مانگیں۔ نجانے کیوں یہ سب کچھ میں تم کو بتا رہی ہوں؟ تم کیا میرے متعلق رائے قائم کر رہے ہوں گے؟“
اس وقت میرے دل ودماغ میں طوفان برپا تھا کیونکہ میری زندگی میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ ایک غیر معمولی حسین، جوان عورت یوں میری بانہوں میں لپٹی محبت کی بھیک مانگ رہی تھی اور میں اس کی اپنائیت کے جذبے میں اندھا ہوا جا رہا تھا میں کبھی اس کے بالوں کے ساتھ کھیلتا اور کبھی جسم کے دوسرے حصوں کے ساتھ پھر اچانک اس کا مسکراتا ہوا چہرہ میرے سینے سے ابھر کر نمودار ہوا اس وقت یہ کتنا سوہنا اور پیارا محسوس ہو رہا تھا اور اس کے چہرے پر ایسی نرمی اور معصومیت ٹپک رہی تھی جسے میں اپنے ہونٹوں سے جذب کیے بغیر نہ رہ سکا۔ ابھی ہونٹ پوری طرح سیر بھی نہ ہو پائے تھے کہ دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی اور میں بھاگ کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔
اس واقعہ کے بعد میرے اندر بے سکونی کی سی کیفیت طاری ہوگئی میں ہر وقت اس کے انتظار میں بے قرار رہتا اور اس کا خیال ہر وقت میرے ذہن اور قلب کو پراگندہ رکھتا تھا، ہر وقت میرا یہی من چاہتا کہ میں اس کے پاس چلا جاﺅں۔ اپنی اس کیفیت سے میں آشنا تھا لیکن اس کو دور کرنا یا اس سے راہ نجات حاصل کرنا میرے لیے ممکن نہ تھا۔ میں یونہی بیٹھے بیٹھے اسی کے تصور میں کھو جاتا تھا جیسے وہ میرے آس پاس ہی ہو۔
بس بیٹا یہاں سے ہی میری بربادی کا دور شروع ہوگیا— میں اپنی مہینہ بھر کی تنخواہ اس کے ناز نخرے کی نذر کر دیتا تھا اور اس کی فرمائشیں تھیں کہ دن بدن بڑھتی ہی جاتی تھیں کیونکہ میں اس کے بچھائے ہوئے عشق کے جال میں بُری طرح پھنس چکا تھا جس کی وجہ سے مجھے احساس ہی نہ ہوتا تھا کہ میں اس کی مکاری اور چال بازی کو سمجھ سکوں۔ میرا دماغ اس قدر کند ہوچکا تھا کہ یہ تک نہ سوچا اور نہ محسوس کرسکا کہ پہلے تو اس کا شوہر سارا سارا دن گھر پر ہی رہتا تھا لیکن اب یہ گھر میں موجود ہی نہیں ہوتا جب بھی دیکھو وہ گھر پر اکیلی ہوتی ہے۔ جب بھی اس کے پاس جاﺅ اس کے پاس پیسے بٹورنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ ضرور ہوتا۔ بچوں کی فیسوں اور مکان کے کرائے کی ذمہ داری تو میں نے پہلے ہی اٹھا رکھی تھی اور اوپر سے اس کے گھر کا تمام خرچ بھی میں ہی برداشت کر رہا تھا اور وہ بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے مجھے دو سال تک مسلسل لوٹتی رہی اور میں بڑی معصومیت سے لٹتا رہا۔ دو سال کے بعد میری نوکری میری عدم توجہ اور لاپرواہی کی بنا پر جاتی رہی۔ اس نوکری کو چھوٹے دو ماہ گزر گئے لیکن مجھے کہیں بھی دوسری نوکری نہ مل سکی ان دو ماہ کے قلیل عرصے مِیںمَیں بہت زیادہ مقروض ہوگیا۔ اِن دنوں میری مالی حالت اس قدر پتلی ہوگئی تھی کہ مجھے مالک مکان نے عدم ادائیگی کرائے کی بنا پر کمرہ خالی کرنے کا کہہ دیا تھا۔ اس وقت نہ ہی تو کوئی مزید قرض دیتا تھا اور نہ ہی والدین کے اتنے مالی اسباب تھے کہ وہ میرے اخراجات پورا کرنے کے لیے پیسے بھیج دیتے بہرکیف میں اپنی بے بسی کی وجہ سے اکثر یونہی سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہتا تھا کہ شاید تقدیر پھر سے مجھ پر مہربان ہو جائے اور مجھے کہیں نوکری مل جائے۔
بیٹا اس حویلی مِیں مَیں اپنا آخری دن شاید کبھی نہ بھولوں گا۔ وہ بہار کا خوشگوار دن تھا۔ آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے یوں لگتا تھا کہ بادل ابھی بَرسے سو بَرسے فی الحال ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی جس کی وجہ سے موسم کی رنگینی میں اور زیادہ اضافہ ہوچکا تھا۔ موسم کی اس رنگینی نے میرے اندر نہ جانے کیا گدگدی کی تو میں پُھڑ سے اس کے کمرے کے اندر جانے کے لیے غسل خانے کا دروازہ کھولا تو وہ وہیں نہانے کی خاطر برہنہ بیٹھی ہوئی تھی۔ میں اس کے پاس بیٹھ کر اپنا دایاں بازو اس کے پہلو سے گزار کر اسے اپنے پہلو سے لگا لیا۔ اس کے بدن میں ہونے والی ہلکی ہلکی کپکپی کو محسوس کیا تو مجھے ایسا لگا جیسے میرے وجود میں کوئی بہت بڑا الاﺅ آناً فاناً بھڑک اٹھا ہو وہ میری اس جسمانی کیفیت سے ذرہ سا کسمسائی اور پھر پُرسکون سی اپنے بستر میں جا دبکی۔ میں بھی اس کے ساتھ بستر میں گھس گیا۔ کمرے میں اندھیرا تھا اور ہم دونوں ایک دوسرے سے متصل ہو کر اس طرح لپٹے ہوئے تھے جیسے سردیوں میں بلی کے بچے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے ہوتے ہیں پھر ہلکا سا اس کے منہ سے نکلا ”بچاﺅ“ تو اس کے بعد پوری حویلی میں اس صدا کا کورس گونجے لگا۔
لمحہ بھر میں بہت سارے لوگ میرے اردگرد آ کر کھڑے ہوگئے اور وہ اپنے شوہر کے کندھے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی اور روتی روتی بین کر رہی تھی ”میں لٹی گئی“ اور عورتوں کے استفسار پر وہ بتا رہی تھی کہ میں کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی اور یہ اچانک غسل خانے کے راستے کمرے میں داخل ہوا اور آتے ہی اس نے بھوکی نظروں سے میری طرف دیکھا تو اس کے منہ سے نکلا ”آہا“ اور تھوڑا سا مسکرا دیا۔ مجھے اس کی نیت میں فتور نظر آیا تو میں کمرے سے باہر نکلنے لگی تو اس نے مجھ کو مضبوطی سے دبوچ لیا اور میری عزت تار تار کر ڈالی۔ اس کا شوہر اور کالو مل کر لوگوں میں مزید اشتعال پیدا کرنے کے لیے طرح طرح کے قصے کہانیاں گھڑ رہے تھے اور وہ عورت ان کی حمایت میں سرہلائی جاتی تھی۔
بیٹا میں یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ایسا ناگہانی حادثہ میرے ساتھ یوں پیش آئے گا جو مجھ کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گا۔ ہم دونوں ہی تو برابر کے گناہ گار تھے پھر اکیلے ساری بدنامی میرے حصے میں کیونکر اور کس طرح آگئی تھی۔ برہنہ جسم، آلودہ چادر اور کئی گواہوں کی موجودگی مَیں مَیں اپنے پر لگے الزام سے بچ بھی تو نہ سکتا تھا جو میرے گناہگار اور مجرم ہونے کی واضح دلیل تھی۔
لوگ جو بھرپور اشتعال میں تھے مجھ کو مارنا پیٹنا چاہتے تھے لیکن کالو کی چالاکی اور منصوبہ بندی ایسی تھی کہ اس نے مجھے اس کے کُہر سے بچا لیا کیونکہ وہ لوگوں کو کہہ رہا تھا کہ اس کو مارنے پیٹنے سے کہیں ثبوت ہی ضائع نہ ہو جائے۔ چنانچہ مجھے بمعہ ثبوت پولیس حراست میں دے دیا گیا۔
وہ کرب اور قیامت کا دن تھا جو مجھ پر گزر گیا میں کسی کو بتا بھی تو نہ سکتا تھا کہ یہ جرم ہم دونوں کی رضامندی سے سرزد ہوا ہے۔ اس واقعہ میں اپنی تو بدنامی ہوئی سو ہوئی اوپر سے والدین کی بدنامی کا سوچ کر میرے ذہن میں طرح طرح کے وہم جنم لے رہے تھے لیکن بین بین میرا دل یہ گواہی دے رہا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا وہ عدالت میں میرے خلاف کبھی گواہی نہیں دے گی کیونکہ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے یہ سب کچھ تو اس نے لوگوں کے ڈر سے کیا ہے کیونکہ اگر وہ اس وقت ایسا نہ کرتی تو لوگ ہم دونوں کو اسی وقت سنگسار کر دیتے ہم دونوں کو کالو نے پھنسوایا ہے۔ کالو کے سوا پوری حویلی میں کسی کو بھی اس داستانِ عشق کی کانوں کان خبر تک نہ تھی پھر یکایک کیسے خبر لگ گئی۔ ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ عورت کالو کے ہمراہ حوالات میں مجھ سے ملنے کے لیے آگئی۔ میرے اندر جو خوف کی لہر پیدا ہوچکی تھی وہ اس کو دیکھ کر ختم ہوگئی اور اس نے میرے پاس آتے ہی مجھ کو زور دار تھپڑ مارا اور کہنے لگی:
”اگر تو جیل سے بچنا چاہتا ہے تو کالو سے سودے بازی کر لو ورنہ میں پرچہ کٹوا دوں گی اور یاد رکھو عدالت میں تمہیں مجرم ثابت کرنے کے لیے میرے پاس تمام ثبوت اور گواہ موجود ہے تم ان کو عدالت میں جھٹلا نہیں سکتے۔ تمہارے لیے یہی بہتر رہے گا کہ تم کالو کے ساتھ سمجھوتہ کر لو اور کچھ دے دلا کر فارغ ہو جاﺅ ویسے بھی مجھے کنگلے لوگ اچھے نہیں لگتے۔“
اس کے یہ الفاظ مجھ پر نشتر کی طرح چھب رہے تھے اور میں معاملے کی نزاکت کو بھی سمجھ گیا تھا کہ اس عورت نے اپنے شوہر اور کالو کی مدد سے مجھے پہلے اپنے جال میں پھانسا اور پھر مجھے عبرت کا نشان بنا دیا۔ سزا سے بچنے کے لیے ضروری تھا کہ کالو کے ساتھ سودے بازی کی جائے سو میں اس تجویز پر راضی ہوگیا۔ کالو نے معاملہ رفع دفع کرنے کی قیمت تین لاکھ روپے مقرر کی اور ضامن تھانے دار کو مقرر کیا۔ رقم کی ادائیگی کے لیے مجھے صرف ایک ہفتے کی مہلت فراہم کی گئی۔ ان دنوں میں تو پہلے ہی بہت سے لوگوں کا مقروض تھا اور اوپر سے نوکری بھی کوئی نہ تھی۔ بالآخر مشکل کی اس گھڑی میں میرے والد نے اپنے باپ دادا کی چھوڑی ہوئی زرخیز زمین اونے پونے دام بیچ کر رقم کا بندوبست کیا اور اس طرح مجھے اس مصیبت ناگہانی سے نجات مل سکی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ عورت کالو اور اپنے شوہر سے مل کر پہلے بھی کئی وارداتیں کر چکی ہے۔ لیکن ”اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئی کھیت“ جس وقت آنکھیں کھلی تو اس وقت سب کچھ لٹ چکا تھا۔ بہرکیف میں نے اس واقع کو زندگی کا روگ نہیں بنایا بلکہ عبرت حاصل کی اور دن رات محنت مشقت کی جس کا صلہ اللہ نے مجھے دیا جو تمہارے سامنے ہے۔
بیٹا جی اپنی زندگی کے تجربات تم کو بتانے کا یہ مقصد نہیں کہ تم اس سے چسکا حاصل کرو بلکہ میرا مقصد یہ تھا کہ تم بھی اس سے عبرت حاصل کرو اور خود اس جیسی کسی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاﺅ۔ اب میں اس سارے واقعہ کا بار بار اپنے ذہن میں اعادہ کرتا ہوں تو میرے بدن میں ایک ناقابلِ بیان جھرجھری سی پیدا ہونے لگتی ہے۔
دراصل بات یہ ہے کہ ایسی عورتیں مردوں کو پھانسنے کے لیے ان کے گرد ہمدردی کا ایسا جال بُن دیتی ہے کہ مرد خودبخود اس میں پھنستا جاتا ہے اگر تو ایسی عورتیں شادی شدہ ہوں تو وہ اپنے شوہروں کو نشئی ظاہر کرتی اور بتاتی ہے کہ وہ مجھ پر ظلم ستم کرتا ہے، گھر کا خرچ بھی نہیں دیتا، جو کماتا ہے سب اپنے نشے میں اڑا دیتا ہے۔ اس کے باوجود کاروبار زندگی بغیر کسی ذریعہ معاش کے ہوتے ہوئے بھی بڑا بہتر چل رہا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص ان سے پوچھ لیتا ہے کہ یہ کاروبار زندگی کیسے چل رہا ہے تو ان کے پاس یہ جواب ہوتا ہے کہ یہ سب میرے میکے والے کر رہے ہیں وہی گھر کا خرچہ دیتے ہیں۔ وہ شخص جو اِن کے جال میں پھنس رہا ہوتا ہے وہ یہ نہیں سوچتا کہ جو رشتے دار اس کو گھر کا خرچ چلانے کے لیے رقم دے سکتے ہیں وہ اس کو اس نشئی سے نجات کیوں نہیں دلا سکتے، کیوں اس کو پال رہے ہے۔ بس انسان تباہی کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے وہ کچھ سوچتا ہی نہیں کہ وہ عورت جو اپنے شوہر کی وفادار نہیں بھلا کسی غیر مرد کی کیسے وفادار ہوسکتی ہے اور وہ شخص اپنی آنکھوں پر ناسمجھی کی پٹی خود اپنے ہاتھوں باندھ کر پہاڑ کی چوٹی سے گرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور ایسی عورتیں اس کو بڑی ہوشیاری سے لوٹتی رہتی ہیں اور وہ لٹتا ہی جاتا ہے۔ جب کنگال ہو جاتا ہے تو اسے کسی نہ کسی بہانے سے بھگا دیتی ہے اور کسی نئے شکار کی تلاش میں لگ جاتی ہیں۔
بیٹا میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اکثر علاقوں میں ایسی فاحشہ عورتوںنے کرائے کے مکان لے کر اپنی رہائش رکھی ہوئی ہے یہاں رہ کر یہ شکار کو پھانستی ہیں اور اسے لوٹ کر رفوچکر ہو جاتی ہیں کیونکہ یہ لوگ شریفوں کی بستیوں میں قیام پذیر ہوتے ہیں، بظاہر ان کا طرز رہائش بھی شریفانہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے مطلق کچھ شریف لوگ جان بھی جاتے ہیں کہ یہ لوگ ٹھیک نہیں لیکن وہ اپنی شرافت کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں کیونکہ بدقماش لوگ ان کی سرپرستی کر رہے ہوتے ہیں اور ان سے مفت فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے شریف لوگ ان کی دشمنی مول نہیں لینا چاہتے اور خاموش رہتے ہیں۔
 بیٹا میں نے جو یہ سب کچھ تم کو بتایا ہے اِن باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرنا اور ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ میری ان باتوں کو سُنی اَن سُنی کرکے نظرانداز کر دی جائیں بلکہ ان پر غور و فکر کرنا پھر تجزیہ کرنا کہ کیا محلے والوں کا نظریہ مَلکوں کے مطلق ٹھیک ہے یا نہیں۔ میری باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچنا، سمجھنا اور پرکھنا پھر فیصلہ کرنا۔ اگر تم نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ لوگ شریف ہے اور وہ لڑکی بھی تم سے سچی محبت کرتی ہے تو یقین جانو میں تمہاری وہاں پر شادی کرا دوں گا۔ میں کسی بھی قسم کی خرابی اُن میں نہیں نکالوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اور غور و فکر کے ہمراہ کیے ہوئے فیصلے اگر غلط بھی ہو جائیں تو انسان کے لیے اتنے پچھتاوے کا سبب نہیں بنتے جتنے بغیر سوچے سمجھے فیصلے بنتے ہیں اور میں تمہارے فیصلے کا منتظر رہوں گا۔
کچھ دنوں بعد حارث نے اپنے بیٹے میں کچھ تبدیلیاں محسوس ہونے لگیں وہ محسوس کرنے لگا کہ کوئی شے یا شخص اس کے کام میں مانع ہے جس کی وجہ سے وہ کچھ اَدھورا اَدھورا اور تھکا تھکا سا نظر آتا ہے۔ اپنے باپ کا سامنا کرنے سے بھی کتراتا ہے لیکن بتاتا کچھ نہیں کہ اسے اچانک کیا ہوگیا ہے۔ ایک لحظے کے لیے حارث نے کچھ سوچا پھر خود ہی اس کے کمرے میں چلا گیا۔
”بیٹا جی تو میں کب تمہارا رشتہ لینے مَلکوں کے گھر جاﺅں۔ دیکھو اب میں بوڑھا ہوتا جا رہا ہوں اس لیے میں تمہاری شادی زیادہ لیٹ نہیں کرسکتا میں اپنے پوتے پوتیوں کو اپنی گود میں کھیلا ناچاہتا ہوں۔ میری یہ خواہش تم پوری کروں گے۔“ حارث نے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی فوراً یہ مطالبہ پیش کر دیا تھا۔ وہ جو گم سم بیٹھا تھا یوں اپنے باپ کو اچانک کمرے کے اندر پا کر اور اوپر سے شادی کا مطالبہ سُن کر ذرا چوک سا گیا پھر وہ اپنے باپ کے پاس بیٹھتے ہوئے کہنے لگا:
”ابو مَلکوں وغیرہ کو چھوڑو جہاں آپ چاہتے ہے وہاں پر میری شادی کر دیں۔“ اَس نے افسردہ سی شکل بنا کر باپ کو جواب دیا۔
”لیکن بیٹا تمہاری پسند۔“
”چھوڑیے ابو ”پسند“ کو بس یوں سمجھئے کہ بیٹا بچ گیا باپ کی کہانی دوہرانے سے۔“
”بیٹا میں تفصیل سے سننا چاہوں گا اور مجھے یقین ہے کہ تم مجھ سے کچھ نہیں چھپاﺅں گے۔“
ابو دراصل بات یہ ہے کہ جب آپ نے مجھے لمبی چوڑی نصیحت کی تو میرے ذہن میں کچھ کچھ ان لوگوں کے مطلق شک پیدا ہونے لگا تھا۔ اس لیے میں رحیلہ پر کڑی نگاہ رکھنے لگا۔ میں اس کے آفس اس کے کردار کے مطلق انکوائری کرنے کے لیے گیا تو مجھے وہاں سے معلوم ہوا کہ وہ اپنے باس کے ساتھ شادی کرنے والی ہے۔ اس دن وہ آفس سے چھٹی پر تھی اس لیے وہ گھر پر ہی موجود تھی اور میں اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے اس کے گھر چلا گیا۔ میں رحیلہ کے گھر پہلی بار بلااطلاع گیا تھا لیکن جب میں اچانک اس کے کمرے میں داخل ہونے کے لیے دروازہ کھولنے ہی والا تھا کہ اندر سے رحیلہ اور اس کی بہن کو چند اوباش لوگوں کے ساتھ ناقابل اعتراض حالت میں پایا۔ پھر میں کسی سے کچھ کہے سنے بغیر ویسے ہی دبے پاﺅں واپس لوٹ آیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس وقت اشتعال میں آنا خود کو کسی مصیبت میں گرفتار کرنے سے کم نہ تھا۔ مالی نقصان جو ہوا سو ہوا عزت کے معاملے مِیں مَیں اِن جیسی عورتوں کے لیے خود کو اشتعال میں آکر نقصان نہیں پہنچاناچاہتا تھا۔
”تو پھر تم کھوئے کھوئے کیوں رہتے ہو؟“
”ابو میں تو اس سے سچی محبت کرتا تھا لیکن وہ مجھے بدھو بنا رہی تھی اور میں اس کی محبت میں دیوانہ ہوئے جا رہا تھا۔ اس کی مکاری کو پہچان ہی نہ سکا۔ ان سب باتوں کا وقتی طور پر دکھ تو ہوتا ہے لیکن میں نے روگ نہیں بنایا اس کو، آہستہ آہستہ یہ واقعہ بھول جاﺅں گا۔“
حارث نے بیٹے کا سر اپنے کندھے سے لگا لیا اور اس کے سر پر شفقانہ محبت سے بھرا ہاتھ پھیرنے لگا۔ چند لمحوں کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کی گرفت میں اپنے بیٹے کا چہرہ لیا اور ماتھے کو چومتے ہوئے کہنے لگا :
”میرے بیٹے دنیا میں زندہ رہنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اپنی غلطیوں پر پشیمان ضرور ہو اور اس سے آئندہ کے لیے سبق سیکھے ان غلطیوں کو یونہی دل پر نہ لگا لے۔ ایسا کرنے سے خود اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔ کسی کا کچھ نہیں بگڑتا۔“
”لیکن ابو میں اس سے سچے دل سے محبت کرتا تھا لیکن وہ—“
”او چھوڑو بیٹا ان فضول لوگوں کے ذکر کو اور خود کو سنبھالوں، رہی بات محبت کی تو وہ تم میری بہو کے ساتھ کرنا۔ سچی محبت۔“
ایک حادثہ ہوکر گزر گیا اور حالات زندگی ایک بار پھر اپنے معمول پر آگئے۔ گھر بھر میں خاموشی اور بے سکونی کا دور دورہ ختم ہوگیا ہر طرف وہی پہلے والی رونقیں لوٹ آئی تھیں۔
—————

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6