غلام

بسنت کے غل غپاڑے میں کانوں پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ پوری گراﺅنڈ لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، ہر شخص خوشی سے سرشار تھا اور اُن کی نظریں آسمان پر بکھری پتنگوں پر جمی ہوئی تھیں۔ جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی پتنگ کاٹتا تو اس وقت پورا میدان شور و غوغا سے گونج اٹھتا تھا۔ شورو غوغا اور غل غپاڑے سے لبریز گراﺅنڈ میں کسی فرد کو ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہ تھا لیکن پھر بھی چراغ دین چھوٹے رئیس صاحب کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کیونکہ اسے اسی گراﺅنڈ میں چھوٹے رئیس صاحب کو ڈھونڈنے کا عندیب اُسے ملا تھا۔ اس کے علم میں یہ بات آئی تھی کہ چھوٹے رئیس صاحب اس گراﺅنڈ میں ضرور موجود ہوں گے کیونکہ رئیس صاحب بسنت کے روز دنیا کا ہر کام چھوڑ چھاڑ کر گڈی گراﺅنڈ ضرور آتے ہے اور یہی پر بسنت بہار مناتے ہے، اسی لیے چراغ دین بڑے رئیس صاحب کے حکم کی تکمیل کی خاطر ان کو ڈھونڈنے کے لیے یہاں پہنچ گیا تھا۔ یہاں لوگ بسنت منانے کے لیے آئے ہوئے تھے اور وہ یہاں چھوٹے رئیس صاحب کی تلاش کے لیے آیا ہوا تھا اور اپنے فرض کی تکمیل کی خاطر اس نے ساری بسنت نائٹ ایسے ہی گراﺅنڈ کے چاروں طرف گھومتے پھرتے گزار دی تھی۔ اس اثناءمیں بہت سے گڈے، گڈیاں اور پتنگیں اس کے نزدیک گریں لیکن اس نے ان کو چھوا تک نہیں اور نہ ہی بسنت کی رونقوں سے اپنے دل کو لبھایا تھا کیونکہ وہ بسنت کے لیے نہیں بلکہ چھوٹے رئیس صاحب کی تلاش میں یہاں آیا تھا، اسی لیے یہاں کی رونقیں اس کے کسی کام کی نہیں تھیں، تبھی تو وہ ان پتنگوں پر کوئی توجہ نہیں دے رہا تھا۔ اس نے صرف اپنی پوری توجہ چھوٹے رئیس صاحب کی طرف لگائی ہوئی تھی۔ پوری رات کی تلاش و جستجو کے باوجود وہ چھوٹے رئیس صاحب کو تلاش نہ کرسکا تھا لیکن حکم اسے یہی ملا تھا کہ وہ ہر حال میں رئیس صاحب کو اسی گراﺅنڈ میں ہی تلاش کرے اسی لیے اسے یقین تھا کہ وہ اسی گراﺅنڈ میں ہی موجود ہے۔ اگر وہ رات کو نہ مل پائے تو صبح ضرور مل جائیں گے۔
چراغ دین نے ساری رات چھوٹے رئیس صاحب کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے صرف کر دی تھی لیکن پھر بھی وہ ابھی تک اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔ اب تو اسے تھکن اور بھوک کا احساس شدت سے ہونے لگا تھا لیکن اس کی جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی جو تھوڑی بہت رقم مالکوں نے دے کر شہر بھیجا تھا وہ سب راستے میں ہی خرچ ہوگئی تھی، اب تو اس کی جیب اور پیٹ دونوں خالی تھے جس کی بنا پر اسے فکر لاحق ہوگئی کہ اگر چھوٹے رئیس صاحب دن کو بھی نہ مل سکے تو میں ان کا گھر اتنے بڑے شہر میں خالی جیب کی بنا پر کیسے ڈھونڈ پاﺅں گا۔
چراغ دین کا تعلق مفلس گھرانے سے تھا۔ اس کے ماں باپ اینٹیں بنانے والے بھٹے پر محنت مزدوری کرتے تھے۔ وہ دن بھر سخت محنت مشقت کرنے کے باوجود بھٹہ مالکان کے مقروض تھے۔ قرض کا سود اتارنے کے لیے انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے چراغ دین کو بچپن سے ہی بھٹہ مالکان کی غلامی میں دیا ہوا تھا یوں چراغ دین نے بچپن سے لے کر جوانی تک غلامی کی زندگی بسر کی تھی لیکن پھر بھی اس کے والدین کا قرض نہیں اترا تھا اور وہ شیطان کی آنت کی طرح دن بدن بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ چراغ دین غلامی کی زندگی کی وجہ سے ذہنی تناﺅ کا شکار رہتا تھا لیکن غلامی کی زنجیریں توڑ کر بھاگنا اس کے لیے ناممکن تھا کیونکہ اس طرح آزادی اس کے والدین کی موت تھی لہٰذا وہ اپنی آزادی کی قیمت میں اپنے والدین کی موت نہیں چاہتا تھا جس کی بنا پر وہ غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھا کہ اچانک اس کی قسمت کے ستارے گردش میں آگئے ہوا یوں کہ بھٹہ مالک کے چھوٹے بھائی کو ملازم کی ضرورت درپیش ہوئی تو اس نے اپنے بڑے بھائی کی طرف رجوع کیا تو اس نے چراغ دین کو شہر بھیج دیا۔
چراغ دین کا مالک یہ بات جانتا تھا کہ یہ شخص پہلی مرتبہ شہر جا رہا ہے اس لیے اس نے سختی سے چراغ دین کو یہ تلقین کی تھی کہ وہ چھوٹے رئیس صاحب کو ہر حالت میں لاری اڈے کے نزدیک گڈی گراﺅنڈ میں جا کر ڈھونڈے کیونکہ وہ اس رات اسی گراﺅنڈ میں بسنت منا رہے ہوں گے اور احتیاطاً اس نے اپنے چھوٹے بھائی کے گھر کا ایڈریس بھی لکھ کر دے دیا تھا۔
چراغ دین خوش و خرم گاﺅں سے شہر پہنچا تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ بھٹہ مالک کا چھوٹا بھائی شہری بابو ہونے کی وجہ سے بڑا شفیق و حلیم ہوگا۔ مجھے اس کے زیر سایہ کام کرکے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئے گی اور میں شہر جا کر مزید سخت محنت اور دلچسپی سے اپنا کام سرانجام دوں گا اور اس کا دل جیت لوں گا اور جب اس کا دل جیت لوں گا تو پھر اس سے کہوں گا کہ وہ بھٹہ مالک سے سفارش کریں کہ وہ میرے والدین کا قرض معاف کر کے مجھے رہا کر دیں۔ یہی وہ ارمان تھے جس کی تکمیل کی خاطر وہ سچی لگن کے ساتھ چھوٹے رئیس کو ڈھونڈنے میں مگن تھا اور اسے بھوک اور تھکن کا احساس تک نہیں ہو رہا تھا دفعتاً اس کی نظر چھوٹے رئیس پر پڑ گئی جو پتنگ اڑانے میں مگن تھا۔ وہ اس کے پاس پہنچ کر کہنے لگا:
”ساب جی سلام“!
لیکن چھوٹا رئیس خاموشی سے پیچ لڑانے میں مگن رہا تو چراغ دین چند ثانیہ خاموش رہنے کے بعد پھر بولا:
”ساب جی آپ رئیس احمد ہے نا؟“ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
”ساب جی مجھے بڑے رئیس ساب نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔“
”کون بڑے رئیس“ رئیس احمد نے بڑی خفگی سے پوچھا تھا۔
”ساب! بھٹے والے۔“
”اچھا اچھا تمہیں بھائی صاحب نے کام کے لیے بھیجا ہے۔“
چراغ دین نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا: ”ہاں ساب جی“۔
”اچھا تم ڈور کی چرخی پکڑ کر کھڑے ہو جاﺅ۔ میں پیچا لڑا کر تم سے کچھ اور پوچھتا ہوں۔“
یوں چراغ دین کا پورا دن ڈور کی چرخیاں پکڑنے میں ہی گزر گیا۔ دن بھر کی سخت مصروفیات کی بنا پر وہ پیٹ بھر کر کھانا بھی نہ کھا سکا تھا۔ لیکن اسے شہر آ کر چھوٹے رئیس صاحب کے زیر سایہ کام کرنے کی خوشی ضرور ہو رہی تھی جس کی بنا پر وہ وقتی بھوک اور تھکن کو برداشت کر رہا تھا لیکن برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے جب انسان اس حد کو چھو لیتا ہے تو اس کا جسم بے جان ہوکر گر جاتا ہے سو چراغ دین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ سارا دن ڈور کی چرخیاں پکڑے رہنے اور نعرے لگانے کی وجہ سے اس کا بُرا حال ہوگیا تو اس کی آنکھوں کے آگے دائرے ناچنے لگے، اندھیرا چھانے لگا، تھکن برداشت سے باہر ہوگئی تو وہ چکرا کر گر گیا۔ جب اس کے ہوش کچھ ٹھکانے آئے تو چھوٹا رئیس کہنے لگا:
”تم بیمار ہو؟“
”نہیں ساب جی۔“
”تو پھر تمہیں اچانک کیا ہوگیا تھا؟“
”ساب سفر کی تکان ہے“ اس نے بے چین آنکھیں جھکا کر جواب دیا۔ لیکن چھوٹا رئیس اس کی تھکن سے نڈھال طبیعت کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کی طرف لسی کا گلاس اور دو قیمے والے نان بڑھا کر کہنے لگا:
”یہ کھا کر کچھ دیر یہیں پر ہی آرام کر لوں بس رات کو میں تم کو کوٹھی لے چلوں گا پھر تم وہاں پر جا کر خوب آرام کرنا۔“
رئیس احمد ریٹائرمنٹ کے بعد مستقل لاہور میں رہائش پذیر ہونے کے لیے شہر کے پوش علاقے میں اپنی کوٹھی بنوا رہا تھا جس کی وجہ سے اسے ایک کل وقتی محنتی اور اعتباری شخص کی ضرورت تھی اور ایسا شخص اسے صرف اس کا بڑا بھائی ہی فراہم کرسکتا تھا جس کی بنا پر اس نے اپنے بڑے بھائی کو ملازم کی دستیابی کے لیے کہا ہوا تھا۔
کہنے کو تو رئیس احمد نے کوٹھی بنوائی تھی لیکن یہ اصل میں وسیع و عریض محل تھا جس میں دنیا جہان کی ہر آرائش مہیا تھی یہاں جانوروں کے لیے نہ صرف کشادہ باڑے بنوائے گئے تھے بلکہ ان کو گرمی سے بچانے کے لیے پنکھے اور نہانے کے لیے فوارے بھی لگوا کر دیے ہوئے تھے۔ لیکن اس کے برعکس وسیع و عریض کوٹھی کی بغل میں سرونٹ کوارٹرز جہاں کوٹھی کے ملازمین رہائش پذیر تھے وہ کوٹھی کے جانوروں جیسی سہولتوں سے محروم تھے اور وہ ان جانوروں سے کئی گناہ ابتر زندگی بسر کر رہے تھے انہی کوارٹروں کی چھوٹی سی کوٹھری میں چراغ دین کو بھی ٹھہرنے کی جگہ ملی ہوئی تھی وہ جگہ تنگ اور ویران ہونے کی بنا پر اس کا جی گھبراتا تھا لیکن وہ پھر بھی اپنا کام مکمل تن دہی اور جاں فشانی سے سرانجام دے رہا تھا۔
 ایک روز چراغ دین کسی پوشیدہ جذبے سے مسحور اور کسی غیر محسوس قوت سے مغلوب ہو کر رئیس احمد کے پاس چلا آیا اور اسے اپنی دو سالہ بے لوث خدمت کا واسطہ دے کر اپنی اور اپنے والدین کی آزادی کا صلہ مانگنے لگا لیکن رئیس احمد اس کی بے لوث خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بجائے اسے کوئی صلہ دیتا بلکہ اسے مزید سہانے خواب دکھانے لگا:
”تم کوئی فکر نہ کرو چراغ دین! میں شہر میں تمہاری نوکری کا بندوبست بھی کروں گا اور تمہارے والدین کو قرض سے نجات بھی دلواﺅں گا بس تم الیکشن تک رک جاﺅ اور اسی محنت کے ساتھ میری الیکشن مہم میں دل لگا کر کام کروں تاکہ میں کامیاب ہو جاﺅں اور الیکشن کے بعد پھر دیکھنا میں تمہارے ساتھ کیسا اچھا سلوک کرتا ہوں۔“
”آپ کی بڑی بڑی مہربانی ساب جی“! وہ رئیس کے زبانی دعوﺅں کے احسان تلے دبا جا رہا تھا۔ اسے بار بار احساس ہو رہا تھا کہ اب میری زندگی کے دن پھرنے والے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ بعض لوگ غریبوں کی غریبی کا مذاق اس طرح بھی اڑاتے ہے کہ وہ پہلے غریب کے ہمدرد بن جاتے ہیں اور ان کو مستقبل کے سہانے خواب دکھا کر ان کی توجہ اور ہمدردیاں اپنی طرف مبذول کروا لیتے ہیں اور غریب سمجھتا ہے کہ اس دنیا میں میرا سب سے زیادہ خیرخواہ یہی شخص ہے لہٰذا غریب خود کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے اور وہ اس سے اپنا ذاتی مفاد حاصل کرتا رہتا ہے جب اس کا مفاد نکل جاتا ہے تو وہ اس غریب کو ایسے اپنے سے جدا کرتا ہے جیسے دودھ سے بال نکالا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ نہ تو غریب کا دوست ہوتا ہے اور نہ ہی ہمدرد بلکہ اپنا ذاتی مفاد حاصل کر رہا ہوتا ہے لیکن غریب سچے دل کے ساتھ اس کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور آخر میں اسے دھکے ہی ملتے ہیں۔
جنوری کا آخری ہفتہ تھا آسمان پر بادل جمع ہو رہے تھے۔ بادلوں کے آگے آگے ننھے منھے دھبوں کی طرح اڑتی ہوئی چیلیں اس امر کا پتہ دیتی تھیں کہ ان بادلوں کا دامن ٹھنڈے پانی کے موتیوں سے اٹا پڑا ہے۔ رفتہ رفتہ سارا آسمان کالے بادلوں سے ڈھک چکا تھا اور بادل مست ہاتھیوں کی طرح مستی میں جھومتے چلے آ رہے تھے۔ صحن میں بارش کی پھوار پڑ رہی تھی لیکن چراغ دین کے دل کے اندر آزادی کی خواہش بھڑک رہی تھی۔ الیکشن جیتنے کے چھ ماہ بعد رئیس احمد پہلی بار گھر لوٹا تھا لہٰذا وہ آج ہر حالت میں اس سے اپنی آزادی کی بھیگ مانگنا چاہتا تھا۔ آزادی کے جذبے سے مغلوب ہو کر وہ رئیس احمد کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو دفعتاً اس نے اپنے شانوں پر کوئی نامعلوم گرفت محسوس کی تو اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ رئیس احمد تھے۔ یوں اپنے شانوں کو رئیس احمد کے ہاتھوں کی گرفت میں پا کر اس کی قوت شل ہوگئی، جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، سر سے پاﺅں تک ایک پھریری سی اترتی چلی گئی کیونکہ وہ سوچ رہا تھا کہ رئیس نے مجھے چور سمجھ کر پکڑ لیا ہے اور اسی لیے وہ وحشت سے کپکپا رہا تھا۔ رئیس نے اس کو شانوں سے پکڑ کر اس کا منہ اپنی طرف پھیر لیا اور اس سے کہنے لگا:
”خیر دین میں ابھی تم کو ہی بلانے والا تھا۔ آج میں اپنی کامیابی کی خوشی میں تم کو بہت بڑا تحفہ دوں گا۔“
چراغ دین کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا کیونکہ اس کے نزدیک سب سے بڑی خوشی اس کی آزادی تھی لہٰذا وہ خوشی کی خبر سننے کے لیے بے قرار تھا۔
”خیر دین میں نے آج سے تمہاری خدمات وزیر صاحب کے سپرد کر دی ہے اور مجھے یقین ہے تم اسی طرح بھرپور محنت سے کام کروں گے جس سے نہ صرف ہمارے خاندانی وقار میں اضافہ ہوگا بلکہ میرے سیاسی اثر و رسوخ میں بھی اضافہ ہوگا اور تمہاری حیثیت بھی مزید بڑھ جائے گی کیونکہ وزیر کے در کا کتا بھی وزیر ہی ہوتا ہے۔“
یہ الفاظ سنتے ہی خیر دین کے جسم میں خون کی ایک تیز و سرد لہر اٹھی جو اس کی رگ و پے میں سرایت کر گئی جس کی وجہ سے اس کی ٹانگیں مَن مَن بھر کی ہوگئیں۔ سردی کے باعث اس کے دانت بجنے لگے تھے۔ اس کا گلا رندھ گیا اور سسکیاں دبانے کے لیے اس نے اپنا چہرہ کہنی کے خم میں چھپا لیا اور چپکے سے کمرے سے باہر نکل آیا۔
-----------

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6