اپنوں کی تڑپ
شدید زلزلے نے پوری عمارت زمین بوس کر دی تھی۔ محافظ ملبے کے نیچے دبا درد اور بے بسی سے کراہتا ہوا اختر کو مدد کے لیے پکار رہا تھا، مگر اختر کے چہرے پر ایسی مسرت عیاں تھی جیسے کسی مظلوم کو انصاف مل گیا ہو، وہ بجائے مدد کرنے کے اُس پر پتھروں کی بارش کرنے لگا وہ کیوں نہ ایسا کرتا، آج خدا اس پر مہربان تھا اور یہ زلزلہ اس کی مہربانی تھی ورنہ اس ظالم انسان کو مارنا اس کے بس کی بات تو نہ تھی۔ یہ شخص انسان نہیں بھیڑیا تھا جس نے انسانوں کی کھال پہن رکھی تھی۔ یہ وہی شخص تھا جو بچپن میں اس کو اغوا کرکے یہاں لایا تھا اسے نہیں معلوم اس کیمپ میں بیگار دیتے ہوئے کتنا عرصہ گزر گیا ہے بس صرف اسے اتنا یاد ہے کہ جب وہ اس بیکار کیمپ میں آیا۔ ایک چھوٹا سا بچہ تھا جس کا نام اختر تھا۔ اسے اختر سے 150 نمبر بننے کا افسوس نہ تھا افسوس صرف اتنا تھا کہ وہ ماسٹر کی مار کے ڈر سے اسکول سے بھاگتا تھا۔ اسکول سے بھاگنے کی عادت اتنی پختہ ہوگئی کہ وہ گھر سے نکلتا تو اسکول کے لیے لیکن باہر آوارہ گردی کرنے کے لیے نکل پڑتا۔ آوارہ گردی کرتے رہنے سے اشرف خان کی نظر اس پر پڑ گئی اِس نے اُس کے بچپنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے بہلا پھسلا کر اس قدر اپنے جال میں پھنسا لیا کہ وہ اب ہر روز اسکول جانے کے بجائے اشرف خان کے گھر پہنچ جاتا، پھر ایک دن خان صاحب نے نہ جانے اسے کیا کھلایا جس کے کھاتے ہی اسے کچھ ہوش نہ رہا تھا جب اسے ہوش آیا تو اس نے اپنے آپ کو ایک ویرانے میں پایا۔
یہ اس کی زندگی کے بدترین دور کا آغاز تھا۔ یہاں اس سے دن رات بیگار لیا جاتا اور کھانے کو معمولی سا کھانا وہ بھی پیٹ بھرنے کے لیے بہت کم ہوتا تھا لیکن جب مزدوری کم کی جاتی تو مار خوب پڑتی تھی۔ اس نے کئی بار اس کیمپ سے بھاگنے کی کوشش بھی کی لیکن کبھی قسمت نے اس کا ساتھ نہ دیا ہر بار پکڑا جاتا۔ پکڑے جانے کے بعد اسے اس قدر مار پڑتی کہ وہ لہولہان ہو کر بیہوش ہو جاتا۔ اس کے باوجود اسے امید تھی کہ وہ ایک نہ ایک دن ضرور یہاں سے بھاگ جائے گا اور اپنے گھر واپس پہنچ جائے گا جہاں ماں اس کا انتظار کر رہی ہوگی اور ماں ہی کی محبت تھی جس نے اسے کئی بار اس کو کیمپ سے بھاگنے پر اکسایا اگر اس کے اندر محبت نام کی چیز نہ ہوتی تو وہ ان لوگوں کی مار سے کب کا مر گیا ہوتا۔ ماں کی یاد نے اس کے اندر زندگی کا چراغ روشن کیے رکھا تھا۔
بلاناغہ اور بغیر کسی وقفے کے مسلسل اٹھارہ گھنٹے سخت کام زبردستی ہر روز لیا جاتا۔ سخت محنت اور ناکافی خوراک کی وجہ سے اس کی صحت دن بدن کمزور ہوتی رہی، اب تو اِس کے جسم کی ہڈیاں آسانی سے گِنی جاسکتی تھیں۔ جسمانی کمزوری کے باوجود اس کے اندر آزادی حاصل کرنے کی شمع روشن تھی ہر لمحہ وہ بھاگنے کے طریقے سوچتا رہتا اور صحت تھی کہ اس کے ارادوں پر پانی پھیر دیتی۔ اپنی گرتی ہوئی صحت کے باوجود وہ یہاں سے بھاگنے کے پختہ ارادے پر قائم تھا۔ اس کے اندر پکڑے جانے کا خوف دم توڑ گیا تھا۔ وہ آزادی چاہتا تھا، چاہے اس کے بدلے اس کی جان ہی چلی جائے۔ ایک بار پھر اس نے آزادی حاصل کرنے کی کوشش تو اپنی طرف سے بھرپور کی تھی لیکن کمزور جسم اس کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن گیا اور وہ پکڑا گیا۔ کیمپ محافظ نے بھاگنے کے جرم میں اسے اتنے بُرے طریقے سے مارا پیٹا کہ وہ بیہوش ہوگیا۔ اس کے جسم سے جگہ جگہ خون رِس رہا تھا۔
زلزلہ اس کے لیے رحمت خداوندی بن کر آیا جس کی وجہ سے اس کے اندر نئی زندگی لوٹ آئی تھی اب تو اسے اُمید کامل ہوگئی تھی کہ وہ ضرور ان لوگوں کی قید سے رہائی حاصل کر کے اپنے والدین تک پہنچ جائے گا، وہ تباہ کن زلزلہ کو رحمت خداوندی جانتے ہوئے زخمی جسم کے باوجود بھاگ نکلا۔ آزادی کی خوشبو نے اس کے اندر نئی روح پھونک دی تھی۔ جذبہ آزادی سے سرشار دشوار گزار پہاڑی راستوں سے اس طرح گزرتا جیسے اس کا جسم مکمل تندرست و توانا ہو۔ تھا تو وہ زخموں سے چور چور لیکن دوبارہ پکڑا جانا نہیں چاہتا تھا، آج تو اس نے یہ پختہ ارادہ کر لیا تھا اگر پکڑا جانے کا ذرہ بھر خطرہ ہوا تو وہ انہی پہاڑوں پر خودکشی کر لے گا، زندہ ان کے ہاتھ نہیں لگوں گا۔ بھاگتے بھاگتے وہ بیگار کیمپ سے بہت دُور نکل چکا تھا اِس کا احساس اُسے تب ہوا جب اُسے سڑک نظر آنے لگی۔ سڑک پر نظر پڑتے ہی اس کے اندر خوشی کی انتہا نہ رہی وہ مارے خوشی چلا اُٹھا۔ خوشی کے مارے اس نے سڑک کے دونوں جانب دیکھا تو اس کی نظر کھڑے ٹرک پر پڑی جو نہ جانے کس وجہ سے روکا کھڑا تھا۔ ٹرک پر نظر پڑتے ہی اس کے اندر بجلی کی سی تیزی پیدا ہوگئی اور وہ تیز تیز زخمی قدموں کو حرکت دیتے ہوئے ٹرک میں سوار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
رات کی تاریکی میں چودہویں کا چاند جلوہ گر تھا۔ چاند کی روشنی نے اپنے چاروں طرف اجالا پھیلایا ہوا تھا جس سے قدرتی مناظر بہت دلکش و حسین لگ رہے تھے۔ ٹرک خوبصورت راستوں سے گزرتا رہا اور وہ ان راستوں کی خوبصورتی سے بے پروا تھا اس کی نظریں ایسی چیز کی تلاش میں تھی جس سے وہ اپنے جسم کو سردی سے بچانے میں کامیاب ہوسکے اسی لیے وہ ٹرک کے کونے کھدروں میں جھانک رہا تھا۔ اس کے جسم پر موجود کپڑے جو پہلے ہی پھٹے پرانے تھے وہ شدید مار پیٹ برداشت نہ کرسکے تھے اور زیادہ پھٹ گئے تھے۔ ان مختصر اور پھٹے پرانے کپڑوں سے سردی کا مقابلہ نہیں ہوسکتا تھا۔ سردی کی وجہ سے تھرتھر کانپ رہا تھا، یکایک اس کی نظر ٹرک میں رکھے ڈرموں کے نیچے بوسیدہ سی چادر پر پڑی اس نے اسے فوراً پکڑ کر اپنے جسم پر لپیٹ لیا جس سے سردی کا احساس قدرے کم ہوگیا۔ اس کا جسم زخموں سے چُور چُور تھا اور جگہ جگہ سے خون رس رہا تھا جہاں پر خون رس نہ سکا وہاں پر خون جم کر داغ کی شکل اختیار کر چکا تھا، لیکن پھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری تھی اور بیگار کیمپ سے بھاگنے میں کامیاب ہو ہی گیا تھا۔ زخموں اور تھکن کی وجہ سے اسے آزاد دنیا کے نظارے کی کوئی پرواہ ہی نہ رہی تھی کہ ٹرک کن خوبصورت راستوں سے گزر رہا ہے اس پر نیند اس قدر حاوی تھی کہ اسے ٹرک کے اندر ہی نیند آگئی۔
جب وہ نیند سے بیدار ہوا تو اس نے اپنے آپ کو ویران جگہ پر اکیلا پایا یقیناً ٹرک کے کلینر اور ڈرائیور نے مردہ تصور کرتے ہوئے اسے اِس ویرانے میں پھینک گئے ہوں کہ کہیں کیس ہی نہ پڑ جائے۔ لیکن اِس کا ذہن اِن باتوں کے سوچنے کے لیے نہ تھا اسے صرف اتنا اطمینان ضرور تھا کہ وہ اُن ظالم لوگوں کی قید سے بہت دور آچکا ہے اور یہاں سے اس کی منزل بہت نزدیک ہے۔
زخموں سے اِس کا تن بدن دُکھ رہا تھا جس کی وجہ سے چلنا دوبھر تھا اوپر سے شدید بھوک بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ حملہ زن تھی۔ کیمپ میں رہتے ہوئے اسے دو وقت کی روٹی تو میسر آ جاتی تھی لیکن آزاد دنیا میں روٹی خود ہی نہیں مل جاتی اس کے لیے محنت مزدوری کرنی پڑتی ہے اور اس کا جسم اس قابل نہیں تھا کہ مزدوری کرسکے ابھی تو اسے فی الحال روٹی چاہیے تھی جس کی جسم کو اشد ضرورت تھی۔ وہ روٹی کی تلاش میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا، راہ چلتے لوگوں سے روٹی کا سوال کرتا، اس کا کیا ہوا سوال بغیر کوئی اثر دکھائے واپس لوٹ آتا اسی اثنا میں اس کی نظر کوڑے کے ڈرم پر پڑی جہاں کتے روٹی کے ٹکڑے کھا رہے تھے۔ روٹی کو دیکھتے ہی اس کی بھوک اور زیادہ چمک اٹھی اور وہ مارے خوشی اِن پر جھپٹ پڑا۔ روٹی کے ان ٹکڑوں کو حاصل کرکے وہ ایسے خوش تھا جیسے راہ چلتے شخص کو کوئی قیمتی شے ہاتھ لگ گئی ہو۔
اپنا گھر! اپنے لوگ! یہ وہ نعمتیں تھیں جس کو اس نے خود ٹھکرایا تھا اور اب ان نعمتوں کے لیے ترس رہا تھا۔ بیگار کیمپ بہت بڑا قید خانہ تھا جس کا ایک کونہ اس کا گھر تھا جہاں پر چند گھنٹے سستانے کے لیے سو جاتا تھا وہ بھی زنجیروں میں جگڑا ہوا۔ وہاں کون تھا اپنا؟ اپنے جیسے ساتھیوں سے بھی بات چیت کرنے کی اجازت نہ تھی کیونکہ پاس ہی محافظ کا کیمپ تھا جہاں پر خون خوار کتے محافظ کے اشارے کے منتظر رہتے تھے کہ آج کس بدقسمت کا جسم ان کی خوراک بنے گا اس کے علاوہ محافظ کے ہاتھ میں پکڑی بندوق اس بات کا واضح اعلان ہوتی کہ اگر کسی نے بھی بات کرنے کی کوشش کی تو بغاوت سمجھتے ہوئے اس کو گولی سے اڑا دیا جائے گا، پھر وہ کتوں کی خوراک بن کر رہ جائے گا۔ اسی ڈراﺅنے منظر کی وجہ سے کسی میں ہمت نہ پڑتی کہ وہ کسی دوسرے سے بات چیت کرسکے بس آتے ہی ڈرے ڈرے سو جاتے تھے، سو کر اٹھتے تو کام پر لگ جاتے یہی روزانہ کا معمول بن کر رہ گیا تھا، اس معمول میں کیمپ سے بھاگنے کی کوشش خودکشی کے مترادف تھی۔ وہ تو اس کی قسمت اچھی تھی کہ محافظ نے اس کے بھاگنے کی ناکام کوشش پر گولی مارنے کی بجائے اسے صرف خوب مارا پیٹا تھا جس کی وجہ سے اس کا جسم زخموں سے چور چور ہوگیا تھا۔ گولی نہ مارنے کا فیصلہ محافظ نے اس لیے کیا تھا کہ ابھی اس کے اندر سخت مشقت کرنے کی استعداد موجود تھی وہ تو خدائی رحمت تھی کہ اوپر سے زلزلہ آگیا اور وہ بھاگنے میں کامیاب ہوگیا ورنہ بھاگ جانا ممکن نہ تھا۔
بستی میں بہت سے مکانات اور ان کے مکینوں کو دیکھ کر ایک دم سے اسے اپنے گھر کی یاد آگئی تھی۔ اسے یقین تھا کہ پچیس سالہ محرومی اور قید کے بعد اس کی تھکی ماندی روح کو اپنے گھر پہنچتے ہی سکھ مل جائے گا۔ اپنا گھر اور اپنوں میں رہتے ہوئے اس کے سب دکھ درد دنوں میں دور ہو جائیں گئے۔کیمپ کی کٹھن اور پُرعذاب زندگی نے اس کے ذہن سے بہت سی بچپن کی حسین یادیں مٹا دی تھیں اور اس کی جگہ ڈر خوف نے لے لی تھی لیکن پھر بھی اس نے اپنے والدین کا نام اور شہر کا نام نہ بھولا تھا کیونکہ وہ ان کو بھولنا بھی نہ چاہتا تھا وہ خدا کی رحمت سے مایوس نہ تھا اسے یقین تھا کہ وہ ضرور دوبارہ اپنے گھر، اپنے والدین کے درمیان پہنچ جائے گا۔
سردھڑ کی بازی لگا کر اس نے ظالموں کی قید سے رہائی حاصل کی تھی اس کوشش میں وہ شدید زخمی اور درد سے چُور چُور ہونے کے باوجود اس کے اندر ابھی اتنی ہمت تھی کہ وہ طویل سفر طے کر کے اپنے شہر پہنچ سکتا وہ لوگوں سے یہ جان کر خوش تھا کہ اس کا شہر یہاں سے ریل کے سفر کے ذریعے صرف تین دن کے فاصلے پر ہے۔ طویل قید کے بعد تین دن اس کے لیے کوئی معنی نہ رکھتے تھے۔ وہ تین دن مسلسل ریل کا سفر کرکے اپنے شہر پہنچنا چاہتا تھا۔اپنا شہر، اپنا گھر اور اپنے لوگوں کا ذہن میں خیال آتے ہی وہ اپنی دردوں کو بھول جاتا کہ صرف تین دن کے فاصلے پر اس کی منزل ہے جس کے لیے اس کو پچیس برس انتظار کرنا پڑا وہ اپنے زخمی قدم اٹھاتا ہوا ریلوے اسٹیشن کی طرف بڑھنے لگا۔
اپنوں سے ملنے کی تڑپ لیے وہ اسٹیشن کی طرف پیدل چل رہا تھا۔ صبح سے دوپہر ہونے کو آئی لیکن اسٹیشن کا راستہ ابھی بہت دور تھا۔ تھکا ماندہ تو پہلے سے ہی تھا اس لیے کچھ دیر سستانے کے لیے رک گیا اسے اسکول دکھائی دیا جہاں پر بچے چھٹی کرکے گھروں کو لوٹ رہے تھے ان بچوں پر نظر پڑنا ہی تھی کہ اسے اپنے بچپن کی بہت سی چھوٹی چھوٹی یادیں جو کب کی بھول چکی تھیں یکدم پھرپھڑا کر اس کے سامنے کھڑی ہوگئیں وہ زمانہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا جب اس کی ماں اسے اسکول چھوڑنے آتی تھی۔ والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے وہ کتنا لاڈلا ہوا کرتا تھا اس کی ہر خواہش کو پورا کیا جاتا اور یہی حد سے زیادہ لاڈ پیار اس کی تباہی کا سامان بن گیا اور وہ حد سے زیادہ خود سر اور ضدّی ہوگیا تھا۔ اس کی دوستی ایسے لڑکوں کے ساتھ ہوگئی جو اسکول سے بھاگ جایا کرتے تھے اور سڑکوں، ریلوے اسٹیشنوں، پارکوں میں آوارہ گردی کرتے وہ اس کی زندگی کا سب سے بھیانک دن تھا جب وہ اسکول سے بھاگا اور راستے میں اس کی ملاقات پردہ فروش سے ہوگئی جس نے اس کے بچپنے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جَال میں پھنسا کر بیگار کیمپ میں لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔
وہ ان یادوں میں اس قدر ڈوبا ہوا تھا کہ آنکھیں دیکھنا اور کان سننا بھول گئے۔ چند لمحے کے لیے وہ یہ بھول گیا تھا کہ اس کی منزل ریلوے اسٹیشن ہے، پھر وہ اسٹیشن کی طرف رواں دواں ہوگیا۔ دھیمی چال چلتے چلا جا رہا تھا کہ ایکا ایکی اسے ٹھوکر لگی اور وہ گر گیا۔ گرنے سے اس کے زخم اپنی پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہوئے اب تو اس کے لیے ایک قدم بھی اٹھانا دوبھر تھا وہ درد سے اس قدر کراہ رہا تھا جیسے پانی کے بغیر مچھلی اپنی جان بچانے کے لیے بے سود جدوجہد کرتی ہے۔ وہ ہر آنے جانے والے سے ایک ہی فقرہ کہتا :
”مجھے درد شدید ہو رہا ہے، خدا کے لیے مجھے ہسپتال پہنچا دو، مر رہا ہوں، مر رہا ہوں“ اس کی آواز میں ایسا درد اُبھر آتا کہ سننے والے کا نہ چاہتے ہوئے بھی ہاتھ جیب میں چلا جاتا اور اس کو بھیک دے کر اپنا راستہ لیتا۔
سورج کی روشنی دھیرے دھیرے کم ہو رہی تھی، شام ہونے کو آئی تھی، سردی بھی لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی تھی اس کے ساتھ ساتھ اس کی درد میں بھی قدرے اضافہ ہو رہا تھا وہ درد سے کراہ رہا تھا اور ہر راہ چلتے شخص سے مدد کی اپیل کرتا۔ درد کی وجہ سے اس کے منہ سے ایک ہی فقرہ مسلسل نکل رہا تھا ”مجھے ہسپتال پہنچا دو میں مر رہا ہوں، مجھے ہسپتال پہنچا دو“ اور وہ یہ فقرہ مسلسل کہے جا رہا تھا۔ اسے کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملا تھا جو اس کے درد کو سمجھتا اور اسے گرم کپڑے دیتا اور ہسپتال لے جاتا۔ وہ اپنا مسئلہ کسی کو بھی نہیں سمجھا سکا تھا۔ لوگ اس کو بھی ایک فقیر ہی سمجھتے کیونکہ اس کا حلیہ فقیروں جیسا تھا، اس کے منہ سے مدد کی اپیل ایسے نکلتی جیسے کوئی بہت ہی تجربے کار فقیر نے عوام کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ماحول اور وقت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیا ہو۔ اس کی صدا میں ایسا درد تھا جو لوگوں کے دل پر اثر کرتا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو بھیک دے کر اپنی راہ لیتے۔ رات گہری ہونے کے ساتھ ساتھ سردی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا، وہ شدید درد، تھکن اور مسلسل مدد کی اپیل کی وجہ سے بیہوشی ہوگیا تھا۔ اس نے ہر آنے جانے والے کے واسطے ڈالے تھے کہ اسے ہسپتال پہنچا دیا جائے جواب میں اسے صرف چند سکے بھیک ملی تھی اس نے اپنی آزادی بھیک کے چند ٹکڑوں کے لیے نہیں اپنی شناخت اور بقا کے لیے حاصل کی تھی۔ لوگوں کی بھیڑ میں اسے کوئی بھی ایسا شخص نہ ملا تھا جو اس سے ہمدردی کرتا، اس سے اس کا مسئلہ پوچھتا اور اسے ہسپتال پہنچا دیتا یا پھر کم از کم شدید سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے کوئی گرم کپڑا ہی دے دیتا ہر کوئی اپنی ہی فکر میں مگن تھا۔
صبح کا سورج طلوع ہوا لیکن اس کی زندگی کا سورج کب کا سردی اور عدم علاج کی وجہ سے غروب ہوچکا تھا اور وہ اپنے حسین سپنے، اپنوں سے ملنے کے، اپنے ہی دامن میں لیے اس دنیا سے رخصت ہوچکا تھا۔
—————
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں