فلالین

بھولا آج کل اپنے بناﺅ سنگھار پر کافی توجہ دے رہا تھا۔ وہ ہر روز نیا دُھلا ہوا سوٹ زیب تن کرتا اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بال سنوارنے لگتا۔ بالوں میں کنگھی کرکے پھر آئینے کے سامنے ٹکا رہتا اور کافی دیر اپنے آپ کا جائزہ لیتا رہتا اور سوچتا ”میں اب کیسا لگ رہا ہوں۔“ اسے ہر روز اپنی شیو بڑھی ہوئی محسوس ہوتی حالانکہ پہلے وہ ہفتہ بھر میں صرف ایک بار شیو بنواتا تھا اور اب روزانہ شیو بنوا کر پھیری لگانے جانے لگا تھا۔ ویسے بھی آج کل وہ ایسے خوش دکھائی دیتا تھا جیسے اسے کوئی بہت بڑا دفینہ مل گیا ہو۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑا خود کو تنگ پاجامے اور ململ کے کرتے میں بہت حسین دکھائی دے رہا تھا، اس کے باوجود آج اسے اپنی آنکھیں کچھ بے رونق سی لگ رہی تھیں۔ اسی لیے تو اس نے آج پہلی بار سرمہ کو اپنی آنکھوں میں جگہ بخشی تھی۔ پھر وہ اپنا بریف کیس سنبھال کر پھیری لگانے کے لیے چل پڑا۔
”نگینہ، او نگینہ دیکھ تمہارا رنگیلا— رنگ رنگیلا چلا آ رہا ہے۔“
”ارے ہٹ میرا کیوں ہونے لگا —“
 او نگینہ دیکھ تو سہی آج کل تو یہ ویسے بھی کپڑے بڑے اُجلے پہن کر آتا تھا اور آج تو اس نے اپنے حسن کو چار چاند لگانے کے لیے سرمہ بھی لگایا ہوا ہے۔ نگینہ وہ دیکھو گول چشمے کے پیچھے موٹی موٹی آنکھیں سرمے میں بھیگی ہوئی کیا حسین و جمیل لگ رہی ہیں۔ یہ تمام بناﺅ سنگھار صرف تمہیں دکھانے کے لیے کرتا ہے۔“
نگینہ نے غصہ سے اس کے ہاتھ کو جھٹکتے ہوئے کہا : ”چھوڑ دفع کرو، کارٹون کہیں کا۔“ تمام سہیلیاں ہنستے ہنستے اپنے اپنے گھروں میں چھپ گئیں۔
بھولے نے گلی کا موڑ مڑتے ہی فلالین فلالین کی آوازیں کسنا شروع کر دیں اور نگینہ کے دروازے کے سامنے کھڑا ہو کر یوں فلالین فلالین پکارنے لگا جیسے کسی کو بلا رہا ہو۔ لمحہ بہ لمحہ اس کی بے قراری میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور وہ زور زور سے فلالین، فلالین کی آوازیں لگائے جا رہا تھا۔ بالآخر اس کے صبر کا امتحان ختم ہوا۔ سامنے مکان کے دروازے پر پڑی چق ذرا سا سرکی اور ایک پَری چہرہ، دبلی پتلی خوبصورت لڑکی نمودار ہوئی۔ لڑکی کو دیکھتے ہی اس کی جان میں جان آگئی اور وہ فوراً وہیں زمین پر ایسے بیٹھ گیا جیسے اسے کسی نے آواز دے کر کہا ہو کہ پھیری والے ذرا رُک جاﺅ اور وہ رُک گیا ہو۔
نگینہ شرم سے سکڑتی ہوئی اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی اور اس کے بریف کیس میں موجود اشیاءکو بڑے اشتیاق سے دیکھنے لگی۔
بھولے کی سانس پھولی ہوئی تھی اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ نگینہ سے کیا بات کرے۔ ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ خود بول پڑی : ”بھولے یہ چوڑیاں کتنے کی ہیں؟“اور ساتھ ہی اس نے اپنی کلائی آگے کر دی۔ بھولے نے اس کی کلائی اپنے ہاتھ میں تھام لی۔ اسے نگینہ کی کلائی بہت گرم محسوس ہوئی۔ اس نے اِس خوبصورت کلائی کو ہولے سے مسلا اور چوڑیاں چڑھاتے ہوئے بولا:
”نگینہ تمہارے ہاتھ بہت گرم ہیں۔“ 
”نہیں تو، یہ تو محبت کی گرمی ہے!“ اور وہ مسکرانے لگی۔
بھولے کے لیے یہ لمحات خوش کن تھے اور اس کی آواز میں اچانک لرزش پیدا ہوگئی تھی، ٹانگیں کپکپانے لگیں۔ آج اس نے وہ بات اس کے منہ سے خود ہی سُن لی تھی جو وہ خود کہہ نہ پا رہا تھا اور حیلے بہانوں سے اپنی محبت کا اظہار کرتا چلا آ رہا تھا۔
”نگینہ کہیں تم مجھ سے محبت کرنا چھوڑ تو نہیں دو گی۔“
”کبھی نہیں!“
”سچ؟“اس نے بھی اقرار میں سر ہلا دیا۔
”میں تمہارے بغیر مر جاﺅں گا۔“
ابھی وہ کچھ اور کہنا چاہتا تھا کہ محلے بھر کی لڑکیاں آناً فاناً اس کے گرد اکٹھی ہوگئیں اور اس سے اشیاءکے بھاﺅ تاﺅ کرنا شروع ہوگئیں۔ آج وہ اتنا خوش تھا کہ وہ جو قیمت بتاتی تھیں وہ اسی قیمت پر اشیاءان کے حوالے کر دیتا تھا۔ اس نے منٹوں میں اپنا سارا سودا سلف اسی محلے میں فروخت کر دیا تھا۔ لیکن آمدنی کوئی بھی نہ ہوئی تھی اس لیے گھر جاکر باپ کا سامنا کرنے سے کترا رہا تھا۔
روز کی طرح آج بھی بھولا دوسرے دروازے سے گھر کے اندر داخل ہو جانا چاہتا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا باپ اس سے حساب کتاب مانگے۔ حساب دینے کے لیے اس کے پاس کچھ بھی تو نہ تھا، یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا تھا بلکہ اس نے تو یہ روز کا دستور بنا لیا تھا اور وہ روز باپ کی نظروں سے صرف اپنی بہنوں کی وجہ سے بچتا رہتا تھا کیونکہ اس کی بہنیں نہیں چاہتی تھیں کہ اس کو اپنے باپ کے سامنے کسی قسم کی شرمندگی ہو۔ لیکن آج اس کی قسمت ہی خراب تھی، جب وہ دروازے کے اندر داخل ہوا تو اس کے باپ نے اس کو بازوﺅں سے پکڑا اور گھسیٹتا ہوا اندر لے گیا اور اپنے سامنے بٹھا کر کہنے لگا :
 ”ہاں بھئی بتا، پچھلے پندرہ دنوں میں، تونے کیا کمائی کی ہے؟“
بھولے نے مصنوعی مسکراہٹ ہونٹوں پر لا کر باپ کی طرف دیکھا۔ انہوں نے ماں کی گالی دے کر تھپڑ مارنے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ بھولے نے بڑی تیزی سے اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں کی گرفت میں لے لیا۔ باپ کو بیٹے کی اس معصومیت پر بہت ترس آیا اور اس نے اپنا ہاتھ نیچے کر لیا۔
بھولا چند ثانیہ یوں ہی گم سم بیٹھا رہا جب اسے تشدد کا خطرہ ٹلتا ہوا محسوس ہوا تو اس نے اطمینان کا سانس لیا اور اپنے چہرے کو ہاتھوں کی گرفت سے آزاد کرکے سر اٹھایا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرح باپ کے غصے کو رفو کرے، کیا بہانہ بنائے۔ وہ تمام بہانے جو وہ بنا سکتا تھا ان کو پچھلے چھ ماہ سے آزماتا چلا آ رہا تھا، اب تو اس کے پاس کوئی نیا بہانہ بھی نہ بچا تھا۔ اس لیے وہ پُرانا اور کارآمد نسخہ آزمانا چاہتا تھا۔ ”ابا! صرف آج معافی دے دو۔ اب کے میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کسی کو سودا ادھار کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں نہیں دوں گا اور جن کو پہلے ادھار دے چکا ہوں، ان سے زبردستی اپنی رقم واپس لوں گا۔ ابا میری بات پر اعتبار کرو، میں اب ٹھیک سے کام کیا کروں گا اور کما کر لایا کروں گا بس آج معافی دے دیں۔“ اس نے ہاتھ جوڑ کر یہ الفاظ کہے اور باپ کے قدموں میں گر گیا۔ بھولا یونہی معافیاں مانگتا آ رہا تھا اور اس کا باپ یونہی معافیاں دیتا چلا جا رہا تھا کیونکہ اس کے پاس اور کوئی چارہ کار بھی تو نہ تھا۔
بھولا شروع سے ہی تو بھولا نہ تھا۔ جب وہ پیدا ہوا تھا تو اس کے باپ نے اس کے پیدا ہونے کی خوشی میں منوں مٹھائی محلے بھر میں بانٹی تھی اور وہ اپنے بیٹے کے متعلق سوچا کرتا تھا کہ یہ بڑا ہو کر بہت بڑا وکیل بنے گا اور پھر ترقی کرکے جج کی کرسی پر بیٹھے گا وہ خود تو وکیل بن نہ سکا تھا لیکن اپنے بیٹے کو ضرور وکیل بنانا چاہتا تھا۔ وکالت سے اس کو اتنا لگاﺅ تھا کہ اس نے اپنے بیٹے کا نام بھی عبدالوکیل رکھ دیا تھا اور وہ اسے عبدالوکیل کہنے کی بجائے وکیل صاحب کہہ کر پکارا کرتا تھا۔
وکیل ابھی پانچ سال کا تھا کہ اس کے گھر ڈاکہ پڑ گیا اور ڈاکو سب کچھ لوٹ کر لے جانا چاہتے تھے۔ وکیل کی ماں یوں اپنے گھر کو لٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی اور وہ اپنی پوری طاقت سے چلّا چلّا کر لوگوں کو مدد کے لیے پکار رہی تھی۔ اس کی چیخ و پکار نے پورے محلے کو بیدار کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے ڈاکوﺅں کو اپنا کام ادھورا چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا وہ یونہی ذلیل و خوار ہو کر بھاگنا نہیں چاہتے تھے چنانچہ غصے کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے انہوں نے بیک وقت فائر کھول دیا اور فائرنگ کرتے ہوئے بھاگ نکلے۔ وکیل کی ماں موقع پر ہی دم توڑ گئی۔ عبدالوکیل کا ننھا منّا ذہن یوں اپنی ماں کے قتل کا صدمہ برداشت نہ کرسکا اور اس پر سکتہ طاری ہوگیا۔ چند دنوں کے بعد وہ سکتے کی حالت سے تو باہر آگیا لیکن ذہنی طور پر مفلوج ہوگیا، اس پر پاگل پن کے دورے پڑنے شروع ہوگئے۔ اس کے باپ نے اس کا علاج کروانے کی بہت کوشش کی لیکن کوئی بھی ڈاکٹر اس کا علاج نہ کرسکا۔
وہ یونہی گلیوں میں آوارہ گردی کرتا رہتا تھا، بچے اس کو تنگ کرنے کی غرض سے بھولے کی آوازیں کستے تو وہ آگ بگولہ ہو جاتا اور اینٹ پکڑ کر ان کے پیچھے دوڑ پڑتا۔ لڑکے اس کو چکمہ دے کر کہیں چھپ جاتے تو وہ گالیاں دیتا ہوا واپس گھر لوٹ آتا تھا۔ لیکن زیادہ شرارتی بچے اس کو بھولا بھولا کہہ کر وہاں سے بھاگتے نہیں بلکہ اس کو مزید اشتعال دلانے کے لیے اس کے سامنے کھڑے رہتے تو وہ اینٹ پکڑ کر ان کو دے مارتا۔ اکثر اوقات تو نشانہ چوک جاتا تھا لیکن بعض اوقات کسی بچے کو اینٹ لگ جاتی تو گلی میں کہرام مچ جاتا۔ لوگ شکوے شکایت لے کر بھولے کے گھر پہنچ جاتے اور اس کے باپ سے مطالبہ کرتے : ”اِس پاگل کو پاگل خانے پہنچا دو، ورنہ ایک نہ ایک دن یہ ضرور کسی کو مار ڈالے گا۔“ اس کا باپ آئے روز کی شکایتوں سے تنگ آچکا تھا۔ ایک روز اس نے بھولے کو غصے میں مارنا پیٹنا شروع کر دیا اور بھولا ایسے ہی غصے میں گھر سے باہر نکل گیا۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا تھا بلکہ اکثر اس کا باپ جب اس کو مارتا پیٹتا تو وہ گھر سے نکل کر یوں ہی گلیوں میں چکر لگاتا رہتا اور رات کو واپس گھر لوٹ آتا تھا۔ لیکن وہ آج گھر سے باہر نکلا تو واپس نہ لوٹا۔ دراصل محلے ہی کے چند لڑکے اس کو شہر کی سیر کروانے کے بہانے ورغلا کر اپنے ساتھ لے گئے اور انہوں نے اس کو گھر سے دور کسی آبادی میں جا کر چھوڑ دیا تاکہ وہ اپنے گھر واپس نہ پہنچ سکے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کو تو اپنی آبادی اور والد کا نام تک نہیں آتا۔ جس کی وجہ سے اس کا واپس آنا ناممکن تھا لہٰذا اِس کی غیر موجودگی میں محلہ اس کے شر سے محفوظ رہے گا، لیکن اس کا باپ اپنے علاقے کی گلیوں اور بازاروں میں اس کو ڈھونڈتا رہا تھا۔
بھولے کو گم ہوئے چھ ماہ گزر گئے تھے اور اس کے باپ نے اس کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی لیکن اس کا سراغ کہیں بھی نہ ملا تھا اب وہ دیوانوں کی طرح شہر بھر میں ہر مزار پر جاتا اور اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے دعائیں مانگتا تھا۔ اسی طرح وہ ایک روز حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر جا پہنچا تو اچانک لنگر خانے میں اس کی نظر بھولے پر پڑ گئی جو میلے کچیلے، بوسیدہ کپڑے پہنے لنگر سے کھانا حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اِس کے باپ کے مطابق یہ اولیاءاللہ ہی کی دُعاﺅں کا اثر تھا کہ جب بھولا گم ہوا تھا تو وہ ذہنی طور پر بالکل پسماندہ تھا لیکن جب واپس آیا تو اس کی ذہنی حالت دن بدن بہتر ہوتی چلی گئی۔ چند ہی ماہ میں خلاف توقع اس کی صحت بحال ہوچکی تھی اور وہ اچھائی اور برائی کو خوب سمجھنے لگا تھا۔
ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ اگر اس کو خوش اور مصروف رکھا جائے تو اس کی ذہنی حالت مزید بہتر ہوسکتی ہے۔ اس کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش اس کی بہنیں کرتی تھیں لیکن مصروف رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ اس کو کسی کام دھندے پر لگا دیا جاتا۔ اس لیے اس کے باپ نے چند ہزار روپے خرچ کرکے اس کو خواتین کے استعمال کی اشیاءخرید کر دیں اور اسے پھیری لگا دی تاکہ وہ مصروف رہ سکے۔
بھولا اپنے باپ کی اُمیدوں پر پورا اترتے ہوئے بڑی سنجیدگی کے ساتھ پھیری لگانے جاتا تھا۔ وہ گلی گلی جا کر اشیاءبیچنے کی غرض سے آواز لگاتا، فلالین— فلالین— نہ جانے وہ کس چیز کا نام لیتا تھا لیکن اس کی ادائیگی ٹھیک سے نہیں کر پاتا تھا اور وہ بگڑ کر فلالین بن جاتا۔ لیکن جب وہ فلالین کی ادائیگی کرتا تو بڑا معصوم اور بھولا بھالا محسوس ہوتا اور اسی فلالین ہی کی وجہ سے وہ بہت کم عرصے میں علاقے بھر میں فلالین کے نام سے مشہور ہوگیا۔ وہ اپنی توتلی زبان اور بھولی بھالی صورت اور اس پر مستزاد پرانے اسٹائل کے کپڑوں میں بہت بھلا لگتا تھا۔ وہ ہر روز اپنے پسندیدہ لباس سفید رنگ کا تنگ پاجامہ اور ململ کا کرتہ اور چہرے پر گول گول چشموں والی عینک لگا کر اپنا بریف کیس پکڑے فلالین فلالین کی صدائیں لگاتا ہوا گلیوں میں گھوم پھر کر سودا بیچتا تھا۔ خواتین اس کو روک کر اس کی لائی ہوئی اشیاءبڑے اشتیاق سے دیکھتی تھیں۔ یوں بھولے سے فلالین اس کی پہچان بن گیا۔
اسے پھیری پر جاتے ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت گیا تھا لیکن گزشتہ چار ماہ سے وہ مسلسل گھاٹے میں جا رہا تھا۔ اس کے باپ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیوں مسلسل گھاٹے میں جا رہا ہے۔ اس مسلسل گھاٹے نے اس کے باپ کو پریشان کرکے رکھ دیا تھا وہ پریشان اس لیے نہیں تھا کہ بھولا کچھ کما کر نہیں لا رہا بلکہ اس کی پریشانی یہ تھی کہ وہ کہیں پھر سے پہلے والی ذہنی کیفیت کی طرف واپس تو نہیں لوٹ رہا جس کی وجہ سے وہ اشیاءاونے پونے دام بیچ آتا ہے۔ وہ یہ سوچ کر پریشان ہو جاتا پھر خود کو تسلی دینے کے لیے کہتا، ہوسکتا ہے کہ وہ ٹھیک ہی کہہ رہا ہو کہ لوگ اس سے اشیاءادھار لے لیتے ہیں۔
بھولے کی ناکامی کی اصل وجہ نگینہ تھی جس نے اسے بدھو بنایا ہوا تھا اور اس نے بھی اس کی تصویر اپنے ذہن میں نقش کر رکھی تھی۔ وہ ہر پَل اسی کے متعلق سوچتا رہتا تھا اور رات بھر اُس کے ہاتھوں کا لمس تصور میں لیے اُسی کے خیال میں گزار دیتا۔
فجر کی اذان سنتے ہی اس کی نظریں سورج طلوع ہونے پر لگی رہتیں کہ کب سورج طلوع ہو اور میں اس محلے میں پہنچ جاﺅں جہاں میرا انتظار ہو رہا ہے اور وہ بھی تو فلالین کی آواز سنتے ہی فوراً اپنی سہیلیوں کے ہمراہ دوڑی آتی اور شرماتی ہوئی اس کے پاس بیٹھ جاتی تھی۔ جب تمام سہیلیاں اکٹھی ہو کر بھولے سے بھاﺅ تاﺅ کرتیں تو اکثر بھولے کا گول چشمہ لڑھک کر ناک کی پھننک پر آٹپکتا اور نگینہ اپنی انگلی سے اِس کی عینک اوپر کر دیتی۔ یوں تو اسے نگینہ کی ہر آدھ اچھی لگتی تھی لیکن اس طرح عینک اوپر کرنے سے اس کے اندر ایک سرسراہٹ سی دوڑ جاتی۔ یہ سرسراہٹ اس کو جسمانی سکھ عطا کرتی تھی اسی لیے تو وہ بعض اوقات خود ہی جھٹکے کے ساتھ عینک کو نیچے کر دیا کرتا تھا تاکہ نگینہ پھر اِس کی عینک کو ایسے ہی اوپر کرے۔
بھولا سمجھتا تھا کہ میں اس طرح ان لڑکیوں کو سستی اشیاءدے کر خود گھاٹے میں رہتا ہوں جس کی وجہ سے میرے باپ کو سخت مایوسی ہوتی ہے۔ وہ اپنے باپ کو مایوس نہیں کرنا چاہتا اور ٹھیک طریقے سے کام کرنا چاہتا تھا، اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ نگینہ کے متعلق اپنے باپ کو سچ سچ بتا دے تاکہ اس کا باپ نگینہ کے گھر جا کر اس کا ہاتھ مانگے۔ لیکن وہ اپنے باپ سے بات کرنے سے پہلے نگینہ سے بات کرنا چاہتا تھا چنانچہ وہ آج یہ تہیہ کرکے گھر سے نکلا تھا کہ وہ نگینہ سے ضرور پوچھے گا کہ میں کب اپنے باپ کو تمہارے گھر تمہارا رشتہ مانگنے کے لیے بھیجوں۔
 بھولا روز کی طرح فلالین فلالین کی آوازیں لگاتا لگاتا اس گلی میں پہنچ گیا اور لڑکیاں اس کی آواز سن کر دوڑی چلی آئی تھیں۔ آج وہ تمام لڑکیاں اس کو زہر لگ رہی تھیں اور اس کا دل چاہ رہا تھا کہ یہ تمام جلد از جلد یہاں سے چلی جائیں اور میں نگینہ سے بات کرسکوں۔ لیکن اس کو بات کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا کیونکہ نگینہ کی ماں نے اسے آواز دے کر واپس بلا لیا تھا اور وہ ایسے ہی منہ سکیڑ کر بیٹھ گیا۔ لڑکیاں اس کے ساتھ ہنسی مذاق کر رہی تھیں اور اسے ان کی باتیں کاٹنے کی طرح چبھ رہی تھیں۔ وہ ان لڑکیوں کی کسی بھی بات کا جواب دینے کے موڈ میں نہ تھا، اسی لیے اِس نے فوراً اپنا بریف کیس اٹھایا اپنے کپڑے جھاڑتا ہوا وہاں سے چلاآیا۔
بھولے کو گھر جاتے ہی معلوم ہوا کہ اس کے باپ کا بلڈ پریشر بہت زیادہ لو ہوگیا تھا جس کی وجہ سے اس کو ہسپتال لے جانا پڑ گیا تھا۔ باپ کی بیماری کی وجہ سے وہ تین دن پھیری نہ لگا سکا۔ چوتھے دن جب وہ تیمار داری سے فارغ ہوا تو فوراً اپنا بریف کیس سنبھال کر پھیری کے لیے چل نکلا تھا۔ روز کی طرح آج بھی وہ فلالین فلالین کہتا ہوا اسی گلی میں داخل ہوگیا۔
آج نگینہ کا گھر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ پہلے تو وہ یوں ہی دیکھتا رہا اور ساتھ ساتھ سوچتا رہا کہ کس کی شادی ہے۔ بالاخر محلے کی لڑکیوں نے اس کو بتایا آج تمہاری نگینہ کی شادی ہے۔ اسے ان کی باتوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ واقعی آج نگینہ کی شادی ہے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ لڑکیاں روز کی طرح آج بھی اس سے مذاق کر رہی ہیں۔ ابھی وہ سکتہ کی حالت میں سوچ ہی رہا تھا کہ نگینہ کے گھر کا دروازہ کھلا اور وہ نمودار ہوئی۔ اس نے خوبصورت کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے اور وہ اس کی طرف دیکھے بغیر سہیلیوں کے ہمراہ چل دی اور وہ آنکھیں ملتا، جھپکتا حیران و پریشان یونہی خاموش نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
وہ بوجھل قدموں سے آہستہ آہستہ گلی سے باہر نکل آیا۔ اس سے چلا نہ جا رہا تھا اور وہ گلی کے موڑ پر گنڈیریوں والے کے پاس بیٹھ گیا۔ وہاں پر بیٹھے ہوئے اسے زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ نگینہ کے بھائی کے ساتھ اس کا آمنا سامنا ہوگیا اور وہ اپنی بہن کی شادی کی باتیں بتاتا ہوا اس کو گلی میں لے آیا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ چلا آیا تھا لیکن وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اگر اس نے شادی کسی اور کے ساتھ ہی کرنی تھی تو میرے ساتھ مذاق کرنے کا کیا مطلب تھا؟ ابھی وہ یہ کڑیاں ملا ہی رہا تھا کہ اس کی نظر نگینہ پر پڑی جو میک اپ کروا کر واپس اپنے گھر کی طرف چلی آ رہی تھی۔ اس کی پیشانی پر سجے سونے کے چھوٹے سے جھومر پر جب روشنی پڑتی تو وہ جھلمل جھلمل کرتا بڑا حسین دِکھتا تھا اور اس کا چہرہ کھل جاتا اور سوچتا اسے میری دلہن ہونا چاہئے تھا۔ اس سے یہ سب کچھ دیکھا نہیں جا رہا تھا اور وہ چپکے سے اٹھا اور گلی سے نکل کر سیدھا کالے خان کے ہوٹل میں چلا گیا لیکن اس سے وہاں بھی نہیں بیٹھا گیا۔ چائے کا کپ ادھورا چھوڑ کر وہاں سے اٹھا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ گلی اور بازار میں کافی رونق تھی لیکن اسے ہر شے اجنبی، روکھی روکھی اور بے مقصد لگ رہی تھی۔ گھر پہنچ کر اس نے کسی سے بھی بات تک نہ کی اور بغیر کچھ کھائے پئے ایسے ہی سو گیا۔ بہنوں نے بھی اس کا کوئی نوٹس نہ لیا انہوں نے سوچا کہ شاید باپ کے ڈر سے آج جلدی سو گیا۔ رات بھر وہ سو نہ سکا تھا اسی وجہ سے وہ صبح گھر سے نکل آیا تھا اور یونہی گلیوں میں مارا مارا پھرتا رہا۔
چند دنوں بعد جب اس کی ذہنی حالت سنبھل گئی تو وہ پھر پھیری پر چلا گیا۔ وہ اس گلی میں جانا تو نہیں چاہتا تھا لیکن اس کے اندر ایک خلش تھی کہ وہ یہ جانے کہ کیا نگینہ کی شادی اس کی مرضی سے ہوئی ہے یا پھر والدین نے زبردستی اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کر دی ہے۔ یہی خلش اس کو گلی میں لے گئی تھی اور وہ گلی میں داخل ہوتے ہی حسبِ معمول فلالین فلالین کی آوازیں لگاتا اسی جگہ پر آ کر کھڑا ہوگیا جہاں وہ روز کھڑا ہوا کرتا تھا۔ حسبِ معمول آج پھر اس کی آواز سن کر دروازے پر پڑی چق اٹھی اور نگینہ مسکراتی ہوئی اس کے پاس چلی آئی۔
اگرچہ اس کی شادی کو ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا لیکن وہ اب بھی بنی سنوری نئی نویلی دلہن ہی لگ رہی تھی۔ اس پر نظر پڑتے ہی اس کی جان میں جان آگئی اور وہ خوشی سے کھل اٹھا۔ اسے یقین ہو رہا تھا کہ اس کو صرف میرے ساتھ ہی محبت تھی، شادی تو اس کی مرضی کے خلاف ہوئی ہے اور وہ والدین کی عزت رکھنے کے لیے اپنے دولھے کے ہمراہ چلی گئی۔ نگینہ جب دروازے سے باہر نکلی تھی تو اس کے پیچھے پیچھے ایک لمبا تڑنگا خوبصورت سا نوجوان بھی چلا آیا تھا اس نے اس کی طرف بالکل توجہ نہ دی تھی کیونکہ اس کی توجہ کا محور نگینہ تھی جو مسکراتی مسکراتی چلی آ رہی تھی اور آتے ہی پٹاخ سے اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی اور وہ اسے ابھی تک دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھے جا رہا تھا اسے خود پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا بلکہ اسے تو یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہو۔ لڑکیوں کے زور سے کھلکھلانے سے وہ اپنے خواب سے بیدار ہوا تو اس نے اپنے چاروں طرف محلے بھر کی لڑکیوں کو موجود پایا جو روز کی طرح اس کے محلے میں آنے پر اکٹھی ہو جایا کرتی تھی وہ اپنے خیالوں میں اس قدر مگن تھا کہ اسے ذرہ بھر ان کی موجودگی کا احساس نہ ہوا تھا۔ یکدم نگینہ کی آواز نے اس کو جھنجوڑ کر رکھ دیا :
 ”فلالین اِن سے ملو یہ میرے شوہر ہیں۔“ 
بھولا یہ الفاظ سنتے ہی ہکا بکا رہ گیا اور ٹکر ٹکر اِس کی طرف دیکھنے لگا۔
”یہ وہی بھولا ہے— بھولا بھالا، جس کی میں تم کو باتیں بتایا کرتی تھی۔ اس کی وجہ سے ایک تو ہمیں اشیاءبازار کی نسبت بہت سستی مل جایا کرتی تھیں اور ساتھ ساتھ یہ ہماری تفریح کا بھی ایک ذریعہ تھا۔ یہ بھولا سمجھتا تھا کہ یہ لڑکیاں اس سے محبت کرتی ہیں اور ہم لڑکیاں اس کو بیوقوف بناتیں۔ خیر ہم نے کیا بنانا تھا یہ تو بنا بنایا بیوقوف تھا۔ دس روپے والی چیز ایک روپے میں دے جاتا تھا صرف لڑکیوں کے ناز نخرے دیکھ کر۔“ اس کی باتیں سن کر لڑکیاں زور سے کھلکھلانے لگیں اور نگینہ کا شوہر کچھ کہے سنے بغیر وہاں سے چلا گیا۔
بھولا خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا تھا۔
نگینہ نے منہ بسور کر کہا : ”فلالین اب یہ چوڑیاں تم مجھے کتنے کی دو گے، اب جبکہ میری شادی ہوچکی ہے۔“ اور وہ مارے شرم کے پانی پانی ہوگیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس قدر بے عزتی کے بعد وہ خود کے ساتھ کیا سلوک کرے۔
نگینہ کی مسلسل ناگوار توہین آمیز باتیں اس کی سہیلیوں کو بھی ناگوار گزری تھیں اور وہ اسے لعنت ملامت کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ شغل اپنی جگہ لیکن انسان کی تذلیل نہیں کرنی چاہیے۔ تم اب تذلیل پر اترتی جا رہی ہو حالانکہ تم جانتی ہو کہ یہ سب کچھ تمہاری محبت میں کرتا تھا ورنہ اسے کیا ضرورت تھی اونے پونے دام اشیاءفروخت کرنے کی۔ ہم مانتی ہیں کہ ہم اور تم اس کے ساتھ شغل کرتی تھیں لیکن اب اس کے سامنے ایسی باتیں کرنا گویا اسے ذلیل کرنے کے مترادف ہے۔لیکن نگینہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا اور وہ نفرت اور حقارت سے اپنا پاﺅں زور سے زمین پر پٹخ کر اپنے گھر کی طرف چل دی اس کے بعد تمام لڑکیاں بھی ایک ایک کرکے کچھ خریدے بغیر وہاں سے منتشر ہوگئیں۔
لڑکیوں کے وہاں سے چلے جانے کے بعد وہ بھی خاموشی کے ساتھ گلی سے باہر نکل گیا حالانکہ جب وہ اپنا سودا سلف بیچ کر اٹھتا تھا تو فلالین فلالین کی صدائیں لگا کر گلی سے باہر نکلتا تھا لیکن آج وہ خاموش تھا۔ اس دن کے بعد پھر کبھی بھی فلالین کو گلی میں کسی نے بھی نہ دیکھا تھا کچھ لڑکیوں کا خیال تھا کہ فلالین صدمے سے مر گیا تھا۔
—————

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6