نشہ
”یہ مشکل ترین کیس ہے لیکن میں اس کیس کو حل کرکے ہی دم لوں گی“ یہ بات لیڈی پولیس انسپکٹر نے بڑے پختہ عزم کے ساتھ اپنے سامنے بیٹھی ہوئیں طوائفوں پر نگاہ دوڑاتے ہوئے کہی تھی کیونکہ طوائفوں نے اپنی ایک ساتھی طوائف کی گمشدگی کی رپٹ میں لکھوایا تھا کہ ہمارے گروہ کی پندرہ سالہ رکن آخری رات جب ڈاکٹر آصف کے ہاں گئی تو پھر واپس لوٹ کر نہیں آئی حالانکہ پہلے تو انہوں نے کبھی رپٹ درج نہیں کروائی تھی کیونکہ طوائفوں کی گمشدگی کے چند ایک واقعے پہلے بھی وقفے وقفے سے رونما ہوچکے تھے لیکن اب وہ اَن دیکھی قوت سے مغلوب ہو کر رپٹ درج کروا کر پولیس کی جرح سے کنی کترا رہی تھیں کیونکہ پولیس اس نکتہ پر زیادہ توجہ دے رہی تھی کہ طوائفیں ڈاکٹر آصف کو قاتل سمجھتے ہوئے بھی کیوں اس کے گھر شب بستری کے لیے چلی جاتی ہیں لیکن کوئی بھی طوائف پولیس کے لیے تسلی بخش جواز پیش نہ کرسکی تھی جس کی وجہ سے کیس پیچیدہ ہوچکا تھا کیونکہ پولیس کے پاس ڈاکٹر کو گرفتار کرکے شامل تفتیش کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آ رہا تھا لیکن پھر بھی پولیس انسپکٹر کو یقین تھا کہ میں اس معمے کا حل تلاش کر لوں گی۔
تقریباً شام سات بجے پولیس انسپکٹر تلاشی کے وارنٹ ساتھ لیے ڈاکٹر آصف کے گھر پہنچ گئی۔ جب ڈاکٹر آصف نے تلاشی کا جواز پوچھا تو وہ اس کی تسلی کرنے کی خاطر کہنے لگی:
”ڈاکٹر صاحب چند طوائفوں نے رپٹ درج کروائی ہے کہ ہماری ایک ساتھی کل شام تمہارے گھر شب بستری کے لیے آئی لیکن واپس لوٹ کر نہیں آئی، اسی طرح کے واقعات سال بھر میں ایک دو بار اور بھی ہوچکے ہیں اور اس کا بھی شک تمہی پر آیا ہے۔“
”انسپکٹر! میں بغیر جواز کے ان کو کیسے قتل کرسکتا ہوں حالانکہ میرے اور ان کے درمیان کسی قسم کی عداوت بھی نہیں ہے۔“
”ڈاکٹر! ہوسکتا ہے کہ وہ قتل وقتی اشتعال کی بنا پر ہوگئے ہوں۔“
”نہیں نہیں انسپکٹر! سب کچھ جھوٹ ہے اور تم خواہ مخواہ مجھ پر شک کر رہی ہو حالانکہ وہ سب خود چل کر میرے پاس آتی ہیں میں کبھی بھی ان کو لینے کے لیے نہیں گیا انسپکٹر! وہ خود مجھے خطیر رقم دے کر میرے ساتھ رات بسر کرنے کا اصرار کرتی ہیں اور میں بھی رقم وصول کیے بغیر ان کے ساتھ ہم بستری کے لیے تیار نہیں ہوتا ہوں جو مجھے زیادہ رقم ادا کر دیتی ہے میں اس کے ساتھ رات بسر کرتا ہوں اور رات بارہ بجے فارغ کر دیتا ہوں تاکہ وہ کسی دوسری جگہ جا کر اپنی رقم پوری کرسکے ایسا ہر روز ہوتا ہے۔ حسبِ روایت میں نے اس لڑکی کو بھی رات بارہ بجے فارغ کر دیا تھا۔ طوائفیں مجھ سے فارغ ہو کر کہاں جاتی ہیں مجھے کچھ علم نہیں حالانکہ وہ ان کے کاروبار ہی کا وقت ہوتا ہے اس لیے وہ کسی اور گاہک کے پاس بھی جاتی ہوں گی اور جاتی بھی ہیں، میں نے کبھی بھی ان کو بارہ بجے کے بعد ٹھہرنے پر مجبور نہیں کیا، اگر تم کو میری بات پر یقین نہ آئے تو تم ان طوائفوں سے پوچھ لو کہ میں نے ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے کہ نہیں۔“
”ڈاکٹر آصف وہ کیا وجوہات ہے جس کی بنا پر طوائف رقم ادا کرکے تمہارے ساتھ ہم بستری پر اصرار کرتی ہے۔“
”کیونکہ وہ مجھے مکمل مرد، تسلیم کرتی ہیں۔“ ڈاکٹر نے بڑے فخر کے ساتھ کہا تھا۔
لیڈی پولیس انسپکٹر کو گھر کی تلاشی باریک بینی کے ساتھ لینے کے باوجود کچھ برآمد نہ ہوسکا تھا لیکن پھر بھی اسے ڈاکٹر کی پُراَسرار جنسی کشش کی وجہ سے شک ضرور تھا کہ اس کیس میں ڈاکٹر کا کہیں نہ کہیں ہاتھ ضرور ہے لہٰذا وہ ثبوت کی تلاش میں دوسری رات عین اس وقت ڈاکٹر کے گھر پہنچ گئی جب طوائف اس کے پاس موجود ہوتی تھی۔
اچانک چھاپے کے سبب انسپکٹر کو وہ شراب مل گئی جس کی رسیا طوائفیں تھیں حالانکہ پہلی تلاشی کے دوران شراب کہیں سے بھی برآمد نہیں ہوئی تھی اور اب جبکہ اسے یہ مخصوص شراب مل گئی تو اس کا شک پختہ ہوگیا کہ واقعی اس کیس میں ڈاکٹر کا ہاتھ ضرور ہے چنانچہ اس نے بڑے فخر کے ساتھ بوتل کا ڈھکن اٹھایا تو اس میں سے ایسی مہک نکلی جو دل میں اتر گئی وہ اس مسحورکن خوشبو سے متاثر ہوکر کہنے لگی:
”ڈاکٹر میں نے کبھی شراب نہیں پی لیکن شراب کے رنگ و بو سے آشنا ہوں کیونکہ میں نے کئی شراب کے کیس پکڑے ہیں لیکن ایسی مسحور کن خوشبو والی شراب میں نے اپنی پوری سروس میں نہیں پکڑی۔ ویسے ڈاکٹر تم یہ شراب کہاں سے خریدتے ہو۔“
ڈاکٹر آصف انسپکٹر کا غیر متوقع سوال سن کر مسکرا کر کہنے لگا :
”انسپکٹر میں شراب نہیں پیتا اور نہ ہی یہ شراب ہے۔“
”ڈاکٹر یہ شراب ہی ہے، کیا میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔“ انسپکٹر طوائف کی طرف جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگی۔
”میڈم میں تو اسے شراب ہی تصور کرتی ہوں کیونکہ اس سے پینے سے جو سرور اور مزہ حاصل ہوتا ہے وہ کسی دوسری شراب میں مل ہی نہیں سکتا۔ ہم نے اس قسم کی شراب بازار سے خریدنے کی کوشش کی تھی لیکن کہیں سے بھی اس کا حصول ممکن نہ ہوسکا جس کی وجہ سے ہم مایوس ہوگئیں اور اس کا مزہ ڈاکٹر سے آکر لینے لگیں۔“
”تم صرف شراب کی خاطر رقم خرچ کرکے ڈاکٹر کے پاس آتی ہو۔“
”کسی حد تک یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہم شراب کے لیے ہی آتی ہے۔“
”انسپکٹر! تم بھی ان کی طرح اس کو شراب ہی سمجھ رہی ہو حالانکہ یہ شراب نہیں ہے، میں نے ان کو بھی کئی بار سمجھایا ہے کہ یہ شراب نہیں ہے بلکہ میں نے تو ان کو یہ آفر بھی کی تھی کہ اگر تم صرف اس شربت کی خاطر میرے پاس آتی ہو تو یہ مجھ سے قیمتاً خرید لیا کرو اور میرے ساتھ رات بسر کرنے کی خاطر لڑا جھکڑا نہ کرو اور ان لوگوں نے یہ شربت مجھ سے خریدی بھی تھی لیکن پھر خود ہی پیچھے ہٹ گئیں۔“
انسپکٹر ڈاکٹر کی بات سن کر طوائف کی طرف حقیقت جاننے کے لیے جواب طلب نگاہوں سے دیکھنے لگی تو طوائف بول پڑی :
”انسپکٹر صاحبہ ڈاکٹر ٹھیک کہتا ہے، ہم نے اس سے یہ شراب خریدی ضرور تھی۔“
”تو پھر تم لوگوں نے دوبارہ اسے کیوں نہ خریدا۔“
”انسپکٹر صاحبہ اس شراب کے پینے سے ہی عورت کے اندر مرد کی خواہش شدت اختیار کر جاتی ہے اور وہ خواہش ڈاکٹر کے سوا کوئی دوسرا مرد پوری نہیں کرسکتا تھا۔ ”دھندہ“ کرنے کے باوجود ہماری خواہش تشنہ رہتی تھی جسے پورا کرنے کے لیے ہمیں مجبوراً ڈاکٹر کے پاس ہی آنا پڑتا تھا اور ڈاکٹر ہماری مجبوری سے فائدہ اٹھا کر ہم سے دوگنی رقم وصول کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے ہم نے یہ شراب خریدنی ہی چھوڑ دی۔“
”ڈاکٹر یہ شراب کہاں سے خریدتے ہو بتاﺅ ورنہ میں تم کو اسی وقت شراب رکھنے کے جرم میں گرفتار کرسکتی ہوں۔“
”بے شک مجھے گرفتار کر لو لیکن تم اس کو شراب ثابت نہیں کرسکتی اور نہ ہی دنیا کی کوئی لیبارٹری اسے شراب ثابت کرسکتی ہے۔ لہٰذا انسپکٹر تم میری بات کا یقین جانو کہ یہ شراب نہیں ہے بلکہ یہ تو عام سا میٹھا شربت ہے۔“
”تو یہ غلط کہہ رہی ہے کہ اس کے پینے سے جنسی کشش بیدار ہوتی ہے۔“
”ہاں یہ غلط کہہ رہی ہے کیونکہ یہ شربت پینے سے کسی کے اندر جنسی کشش پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے پینے سے نشہ طاری ہوتا ہے تم پی کر دیکھ سکتی ہے۔“
”اس میں کچھ ہے ضرور ورنہ کوئی طوائف اس طرح تمہارے پیچھے دوڑی نہ آتی۔ بہرکیف میں لیبارٹری ٹیسٹ سے تمام حقیقت جان جاﺅں گی۔“
”شوق سے لیبارٹری ٹیسٹ کراﺅ مجھے کوئی ڈر خوف نہیں کیونکہ یہ شراب ہے ہی نہیں، رہا ان طوائفوں کا سوال تو میں پھر یہی کہوں گا کہ یہ میری مردانگی کی وجہ سے میرے پاس دوڑی آتی ہے۔“
”ڈاکٹر! تم یہ بھول رہے ہو کہ یہ طوائفیں ہیں ان کا کام ہی مردوں کو رجھانا ہوتا ہے اس لیے ان کا واسطہ دن میں کئی بار نامردوں سے نہیں بلکہ مردوں سے پڑتا ہے لیکن یہ پھر بھی تمہارے پاس اس طرح کیوں آتی ہے کوئی بات ہے ضرور جو تم مجھ سے چھپا رہے ہو۔“
”مجھے تو خود سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیوں میرے پاس دوڑی چلی آتی ہیں اور ساتھ ساتھ مجھ پر الزام تراشی بھی کرتی ہیں حالانکہ ان کی ساتھی عورتیں نہ جانے کیسے لاپتہ ہو جاتی ہیں اور یہ الزام مجھ پر لگا دیتی ہیں۔“
”یہ سب کچھ تو لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد معلوم ہو جائے گا فی الحال میں یہ شراب ساتھ لے کر جا رہی ہو۔“
”یہ شراب نہیں ہے۔“
”یہی ثابت کرنے کے لیے تو لے کر جا رہی ہوں۔“
”انسپکٹر! تم اپنا اور میرا وقت برباد کر رہی ہو۔ یہ شراب نہیں ہے بلکہ یہ میٹھا شربت ہے اور اسے میں عادتاً پیتا ہوں اگر میں اس کو نہ پیوں تو مجھے رات بھر نیند نہیں آتی اگر تم اس کو ساتھ لے کر چلی گئی تو میری نیند خراب ہو جائے گی لہٰذا تم آدھی بوتل لے جاﺅ اور آدھی میرے لیے رہنے دوں۔“
”تو ڈاکٹر تم تسلیم کرتے ہو کہ اس میں نشہ ہے۔“
”ہرگز نہیں۔“
”تو تم اس کو عادتاً یا مجبوراً کیوں پیتے ہو، اگر اس میں نشہ نہ ہوتا تو تم ہر روز اس کا استعمال کرتے ہی کیوں؟“
”انسپکٹر! ایسے ہی شک میں نہ پڑتی جاﺅ ٹھیک ہے اگر تمہارا شک لیبارٹری ہی ختم کرسکتی ہے تو لے جاﺅ میں رات جاگ کر گزارہ کر لوں گا۔“
لیبارٹری تجزیہ نے پولیس انسپکٹر کے خدشات کو غلط قرار دیا تھا کیونکہ یہ شراب نہیں تھی بلکہ مختلف پھلوں کے مجموعے کا رس تھا جو مضر صحت بھی نہ تھا۔ لیبارٹری تجزیے نے یہ تو ثابت کر دیا تھا کہ یہ شراب نہیں بلکہ شربت ہے لیکن انسپکٹر کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ یہ شربت بازار میں دستیاب نہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر کے پاس کہاں سے آتا ہے اسی لیے وہ ڈاکٹر کے پاس پہنچ کر اس سے پوچھنے لگی:
”ڈاکٹر صاحب! لیبارٹری تجزیے کے مطابق تمہاری بات بالکل درست ثابت ہوچکی ہے کہ یہ شربت ہے لیکن میں تم سے صرف یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ تم اس کو کہاں سے خریدتے ہو، یہ بات بتا کر میری تسلی کر دو تو پھر تمہاری اس کیس میں شرکت ختم ہو جائے گی۔“
”میں یہ شربت خود تیار کرتا ہوں اسی لیے یہ بازار میں دستیاب نہیں، اس شربت کو بنانے کا فن میرا ایجاد کردہ ہے اور میں یہ شربت صرف اپنے لیے ہی بناتا ہوں۔“
”لیکن کیسے میں تفصیل جاننا چاہتی ہوں۔“
ڈاکٹر انسپکٹر سے جان چھڑوانا چاہتا تھا اس لیے اسے شربت بنانے کا نسخہ بتانے پر راضی ہوگیا تھا حالانکہ اس سے پہلے اس نے یہ نسخہ کبھی کسی کو بھی نہیں بتایا تھا۔ لیکن اب حالات ہی ایسے ہوگئے تھے کہ جس کی بنا پر اسے مجبوراً اپنا ایجاد کردہ نسخہ افشا کرنا پڑ رہا تھا حالانکہ عام حالات میں وہ کبھی بھی اس کو افشا نہ کرتا لیکن اب وہ مجبوراً بتا رہا تھا:
”انسپکٹر! میں مختلف پھلوں کو پہلے اچھی طرح صاف کرکے ان کا جوس نکالتا ہوں اور پھر اس جوس کو مٹی کے بڑے سے مرتبان میں ڈال کر اسے موٹے کپڑے سے اچھی طرح ڈھانپ دیتا ہوں اور پھر اسے انگور کے سیزن کے شروع میں انگور کی بیل کے نیچے جڑوں میں سے صرف ایک نوخیز جڑ اس مرتبان میں ڈال کر اسے مٹی میں دبا دیتا ہوں۔ جب اس کو ایسے ہی پڑے پڑے انگور کا سیزن گزر جاتا ہے تو میں اس کو نکال لیتا ہوں کیونکہ اب یہ عظیم شاہکار میں تحلیل ہوچکا ہوتا ہے۔“
”اس طرح تو جوس خراب ہو جائے گا۔“
”ہرگز نہیں! اگر مہارت سے نوخیز جڑ کو اس مرتبان میں ڈالا گیا ہو تو پھر یہ کبھی بھی خراب نہیں ہوگا اور اگر جڑ درست طریقے سے مرتبان میں نہ پڑی ہو تو پھر اس میں کیڑے پڑ جائیں گے لہٰذا مزے دار شربت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جڑ ٹھیک طریقے سے مرتبان میں ڈالی جائے۔ مہارت ہونے کے باوجود مجھ سے ایک دو بار غلطی سے شربت خراب بھی ہوا تھا اس لیے کہہ سکتا ہوں کہ نئے بنانے والے کو کافی محنت درکار ہوگی۔“
”بات ذہن تسلیم نہیں کرتا کہ اس طرح بھی کوئی شربت تیار ہوسکتا ہے۔ سنا ہے ایسے تو دیسی شراب تیار ہوتی ہے۔“
”اس شربت کو بنانے کے لیے جس نوخیز جڑ کی ضرورت ہوتی ہے وہ صرف انگور کے سیزن میں ہی مل سکتی ہے لہٰذا جب انگور کا سیزن شروع ہوگا تو میں تمہارے سامنے شربت تیار کروں گا تاکہ تم اس شربت کی حقیقت کو جان سکوں لہٰذا اب اگر تم چاہو تو اسے نوش فرما سکتی ہو اس میں کوئی نشہ آور چیز نہیں ہے۔“
”لیکن وہ طوائف تو کہتی تھی۔“
”انسپکٹر! اسے پی کر تمہیں خود اندازہ ہو جائے گا ویسے تم نے لیبارٹری ٹیسٹ بھی تو کروایا ہوا ہے۔“
انسپکٹر نے زندگی میں پہلی بار اتنا شیری شربت پیا تھا۔ اس شربت کی مٹھاس شیری تو تھی لیکن نشہ آور نہ تھی اور نہ ہی اس کے پینے سے اس کے اندر مرد کی خواہش پیدا ہوئی تھی جوکہ طوائفیں کہتی تھیں حالانکہ اس نے یہ شربت کئی دن متواتر پیا تھا اس لیے تو اسے یہ یقین ہوچکا تھا کہ طوائفیں ڈاکٹر کو پھنسوانے کے لیے ڈرامہ رچا رہی ہے۔
طوائف کی گمشدگی والے واقعے کو بمشکل چھ ماہ کا عرصہ ہی گزرا ہوگا کہ اس جیسا ایک اور واقعہ رونما ہوگیا لیکن اس بار طوائف کی گمشدگی کی خبر اخبارات کے ہاتھ لگ گئی اور اخبارات نے اس خبر کو خوب اچھالا جس کی وجہ سے پولیس ڈیپارٹمنٹ کی بدنامی ہو رہی تھی۔ لہٰذا اس کیس کو درست طور پر نبٹانے کی خاطر انسپکٹر نے اپنی تفتیش کا دائرہ صرف طوائفوں تک ہی پھیلایا ہوا تھا کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ یہ آپس کی رقابت کی بنا پر ایک دوسری کو قتل کرکے لاش کہیں پھینک دیتی ہیں اور خود مظلوم بننے کے لیے واویلا مچا دیتی ہیں۔
ایک شام پولیس انسپکٹر علاقے میں متنازعہ موقع دیکھنے کے لیے گئی تو وہاں سے واپسی پر اس کی سرکاری جیپ خراب ہوگئی چنانچہ اس نے ڈرائیور کو گاڑی ٹھیک کروانے کے لیے بھیج دیا اور خود ڈاکٹر سے ملاقات کی غرض سے اس کے گھر چلی آئی کیونکہ ڈاکٹر کا گھر چند قدموں کے فاصلے پر واقع تھا۔ اب تو اس کے ڈاکٹر کے ساتھ گہرے روابط بھی استوار ہوچکے تھے جس کی وجہ سے وہ اکثر بن بتائے ڈاکٹر کے گھر چلی آتی تھی لیکن آج خلافِ توقع جب اس کی نظر تہہ خانے کے دروازے پر پڑی تو اس کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا کیونکہ اس نے ڈاکٹر کا گھر بڑی اچھی طرح سے دیکھا ہوا تھا لیکن تہہ خانے کے مطلق اسے پہلی بار معلوم ہوا تھا لہٰذا وہ اسے دیکھنے کی خاطر ڈاکٹر سے کہنے لگی:
”ڈاکٹر صاحب تہہ خانے کا راستہ بڑا خفیہ رکھا ہوا ہے، میں اسے دیکھنا چاہتی ہوں۔“
ڈاکٹر آصف نے تہہ خانہ خفیہ مقاصد کی تکمیل کی خاطر بنوایا ہوا تھا اس لیے اس نے اس کا دروازہ بھی خفیہ رکھا ہوا تھا لیکن جب انسپکٹر کو تہہ خانے کے متعلق معلوم ہوگیا تو ڈاکٹر کے اوسان خطا ہوگئے اور وہ اسے نیچے نہ لے جانے کی خاطر حیل و حجت کرنے لگا لیکن پولیس انسپکٹر کی دلیلوں کے آگے اس کی ایک نہ چل رہی تھی چنانچہ وہ شربت پلانے کے بہانے چند لمحوں کے لیے انسپکٹر کے ارادوں کے آگے بند باندھنے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ دونوں رسمی بات چیت کے دوران شربت سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اچانک ڈاکٹر نے ایک ایسا سگریٹ سلگایا جس کی عام سگریٹوں والی مہک نہیں تھی بلکہ اس کی مہک تو شربت سے بھی زیادہ مسحور کن تھی چنانچہ یہ مہک بھی انسپکٹر کے لیے حیران کن تھی اس لیے وہ ڈاکٹر سے کہنے لگی:
”ڈاکٹر تمہارا سگریٹوں کا ٹیسٹ بھی منفرد ہے۔ اس کی خوشبو بھی لاجواب ہے۔“ ابھی وہ اپنی تعریف مکمل بھی نہ کر پائی تھی کہ اس کے اندر جنسی بیداری شدت اختیار کر گئی اور وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے جنسی جذبات کو نہ روک سکی اور ڈاکٹر آصف کے ساتھ پرتکلف ہونے اور اسے اپنی طرف مائل کرنے کی خاطر بے حجاب ہو رہی تھی لیکن ڈاکٹر آصف جو یہ جان چکا تھا کہ اس کے اندر اب مرد کی خواہش شدت اختیار کرچکی ہے لہٰذا وہ اس کو اور زیادہ تڑپانے کی خاطر کہنے لگا:
”انسپکٹر مجھے ضروری میٹنگ پر جانا ہے اس لیے معذرت چاہتا ہوں کہ میں زیادہ دیر تمہارے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا۔“
انسپکٹر کے اندر جنسی خواہش شدت اختیار کرچکی تھی اور وہ ہر حالت میں جنسی تسکین چاہتی تھی لیکن ڈاکٹر جان بوجھ کر کنی کترا رہا تھا لہٰذا اس نے مجبوراً ڈاکٹر کو دھمکی دے دی کہ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں تم پر زیادتی کا الزام لگا دوں گی اور تمہیں پکڑوا دوں گی لہٰذا اسے مجبوراً انسپکٹر کی بات ماننی پڑی تھی۔
اس واقعے کے بعد انسپکٹر جان چکی تھی کہ واقعی شراب اور سگریٹ کا کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور ہے اب اسے طوائفوں کی بات حقیقت معلوم ہو رہی تھی لیکن وہ سب کچھ جانتے سمجھتے ہوئے بھی ڈاکٹر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتی تھی کیونکہ وہ نشہ کی وجہ سے ہر روز ڈاکٹر کے پاس آنے کے لیے مجبور تھی جس کی وجہ سے وہ ڈاکٹر کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئی تھی ڈاکٹر جب چاہتا اسے بدنام کرسکتا تھا۔ وہ بدنامی کے خوف اور لذت دہن کی بنا پر بخوشی ڈاکٹر کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے پر رضامند تھی۔
آغاز سرما کی ابر آلود شام کے سائے گہرے ہوچکے تھے۔ باہر ہلکی ہلکی بوندا باندی کی وجہ سے موسم رومانٹک ماحول اختیار کرچکا تھا اور انسپکٹر تھکے تھکے سے انداز اور مایوسی کے عالم میں اپنے بپھرے ہوئے جذبات پر بند باندھنے کی کوشش کر رہی تھی وہ جوں جوں اپنے اندر پلنے والے جذبات کو دباتی توں توں جذبات اور زیادہ بھڑک اٹھتے تھے۔ لذت گناہ کے احساس نے بالاخر اس کے اندر ذہنی مدہوشی طاری کر دی تھی۔ اس ذہنی مدہوشی کے عالم میں اسے احساس نہ تھا کہ وہ اس وقت سب گھر والوں کی موجودگی میں کہاں جا رہی ہے؟ تیز تر گاڑی چلاتے ہوئے وہ ڈاکٹر کے گھر پہنچ گئی۔ گھر کا دروازہ خلاف توقع کھلا تھا اس لیے وہ کال بیل دبائے بغیر اندر داخل ہوگئی کہ اچانک اس کی نظر تہہ خانے کے دروازے پر پڑ گئی جو کھلا تھا اور وہاں سے روشنی کی کرنیں بھی باہر آ رہی تھیں جس سے اسے گمان گزراہ کہ ڈاکٹر تہہ خانے میں ہی موجود ہے لہٰذا وہ نیچے اتر گئی۔ اسے تہہ خانے سے کراہت سی محسوس ہو رہی تھی حالانکہ وہاں پر صرف دو ڈرم ہی پڑے ہوئے تھے پھر بھی اسے یہاں کھڑے کھڑے تنفر کا احساس ہو رہا تھا لیکن ڈاکٹر بڑے انہماک کے ساتھ اس کی طرف پشت کئے اپنے کام میں مصروف تھا۔ ڈاکٹر کو اس تنفر زدہ ماحول میں کام کرتے ہوئے دیکھ کر اس کے ذہن میں خدشات منڈلانے لگیں۔ قبل اس کے کہ وہ خدشات کوئی حقیقت پسند فیصلہ کرتے وہ ڈاکٹر کے پاس بیٹھ کر اسے رجھانے لگی لیکن ڈاکٹر خاموشی سے بیٹھا اپنا محلول بنانے میں مصروف رہا۔ اسے توقع تھی کہ ڈاکٹر شربت کے لیے محلول بنا رہا ہے، پھر اپنے ہی خیال کی تصحیح کی خاطر وہ کہنے لگی:
”ڈاکٹر شربت بنایا جا رہا ہے یا سگریٹ کے لیے تمباکو تیار ہو رہا ہے۔“
لیکن ڈاکٹر نے کوئی جواب نہ دیا۔
”ڈاکٹر ناراض ہو۔“
”ہاں۔“
”کیوں؟“
”تمہیں آج یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔“
”کیوں بھئی آج کسی اور کو ٹائم دیا ہوا تھا جناب نے۔“
”تم بھول جاتی ہو کہ تم پولیس انسپکٹر ہو، اگر ہمارے تعلقات کی ذرہ سی پھنک بھی محکمہ پولیس یا پھر تمہارے شوہر کو ہوگئی تو میں مفت میں مارا جاﺅں گا۔“
”میں سب جانتی ہوں اس لیے پکے کام کرکے یہاں آتی ہوں، میرا شوہر ہی کیا مجھے تو پولیس بھی ٹریس نہیں کرسکتی کہ میں اس وقت کہاں ہوں لہٰذا تم میری نہیں بلکہ اپنی فکر کیا کرو اور یوں دروازے کھول کر اپنا یہ شاہکار تخلیق نہ کیا کرو، اگر کسی کو شک ہوگیا تو خواہ مخواہ کے لیے اندر ہو جاﺅ گے۔“
”کیا مطلب! میں کوئی جرم کر رہا ہوں۔“
”او چھوڑو ڈاکٹر فضول باتوں کو، آﺅ بیڈ روم میں جا کر کام کی باتیں کرتے ہیں۔“
”ہاں ہاں چلتے ہے پہلے تم میری نئی تخلیق کا مزہ چکھو یہ گولی میں نے آج ہی بنائی ہے، مجھے یقین ہے کہ یہ گولی سگریٹ اور شربت سے بھی زیادہ پرلطف ہے۔“
”اچھا یہ بات ہے تو میں اسے شوق سے کھاﺅ گی۔“
چند ہی لمحوں میں اس پر لطف کی ایسی کہکشاں چھائی کہ اس کی آنکھوں میں غنودگی چھانے لگی اور وہ غنودگی کے عالم میں کہنے لگی:
ڈاکٹر تم کمال کی چیزیں بناتے ہو آخر اس میں کیا ڈالتے ہو کہ انسان جنت کی وادیوں میں گھومنے لگتا ہے اور ساتھ ہی اس پر غنودگی کی کیفیت اور زیادہ ہوگئی اس کی آنکھیں نشے کی وجہ سے بند ہو رہی تھیں اور ٹانگیں ایسی محسوس ہو رہی تھیں کہ گویا اس میں جان ختم ہوگئی ہے۔ اس کی آواز دھیمی پڑ چکی تھی۔
”جانے من! میں آج تم کو راز کی بات بتاتا ہوں، میں جو شربت بناتا ہوں اسے پینے سے کوئی نشہ نہیں ہوتا لیکن جب میں کیمیکل ملا سگریٹ پیتا ہوں تو اس سگریٹ کا دھواں شربت پینے والی عورت کے اندر جب پہنچتا ہے تو اس کے تن بدن میں جنسی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور وہ بیقرار ہو جاتی ہے۔“
”تم جو شراب اور سگریٹ میں کیمیکل ڈالتے ہو وہ کھلی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔“
”نہیں۔“
”تو پھر تم کہاں سے حاصل کرتے ہو۔“
انسپکٹر کی حالت بگڑتی جا رہی تھی اور اس کی آنکھوں کے تلے اندھیرا چھا رہا تھا لیکن وہ پھر پوچھتی ہے ”جان تم کیسے بناتے ہو کیمیکل مجھے بتاﺅ گے نہیں۔“
”میں ان ڈرموں کے اندر مختلف تیزاب ڈالتا ہوں پھر اس کے اندر ایک عدد انسان ڈالتا ہوں وہ انسان اس کے اندر ایسے مکس ہو جاتا ہے جیسے دودھ کے اندر چینی مکس ہو جاتی ہے، اس کے بعد ایک ایسا شاہکار بن جاتا ہے جس کو میں پھلوں کے جوس اور تمباکو میں ڈال کر پیتا ہوں اور زندگی کے مزے لوٹتا ہوں۔“
ڈاکٹر سے کلیہ سُن کر اس کی زبان میں لگنت پیدا ہوچکی تھی اور وہ گھبرا کر کہتی ہے:
”تم طوائفوں کو اس طرح مارتے ہو۔“ یہ کہہ کر وہ تہہ خانے سے بھاگنے لگتی ہے لیکن نشہ آور گولی جو اس نے اگلی ہوئی تھی اپنا اثر دیکھا چکی تھی جس کی بنا پر وہ وہیں گر پڑی تھی۔
ڈاکٹر اس کے پاس جا کر اسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیتا ہے اور اسے کہتا ہے:
”جانے من تم بہت کچھ جان چکی ہو اس لیے اب تم خود نشہ بننے کے لیے تیار ہو جاﺅ ورنہ میں دنیا کے لیے تماشہ بن جاﺅں گا۔“
وہ اس کا گلہ دبا کر اسے ڈرم میں گرا دیتا ہے۔
—————
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں